- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
33-بَاب فِتْنَةِ الدَّجَالِ وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ
۳۳- باب: فتنہ دجا ل، عیسیٰ بن مر یم اور یا جو ج وما جو ج کے ظہو ر کا بیان
4071- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الدَّجَّالُ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُسْرَى، جُفَالُ الشَّعَرِ، مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ، فَنَارُهُ جَنَّةٌ، وَجَنَّتُهُ نَارٌ "۔
* تخريج: م/الفتن ۲۰ (۲۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۳، ۳۹۷) (صحیح)
۴۰۷۱- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دجا ل با ئیں آنکھ کا کا نا،اور بہت بالوں والا ہوگا ،اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوگی، لیکن اس کی جہنم جنت اور اس کی جنت جہنم ہوگی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دجال کے بارے میں فرمایا : اس کے ساتھ آگ اور پانی ہوگا، لیکن حقیقت میں اس کی آگ ٹھنڈا پانی ہے، اوراس کا پانی آگ ہے (صحیح بخاری ۷۱۳۰ و صحیح مسلم ۲۹۳۴ و ۲۹۳۵ ) ۔
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ وہ دائیں آنکھ کا کانا ہے ، اوراس کی آنکھ گویا پھولے ہوئے انگورکی طرح ہے ، یا اندھی بغیرروشنی کے ہے ۔(صحیح بخاری ۷۱۳۰، صحیح مسلم ۱۶۹ و کتاب الفتن ۱۰۰)
اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ وہ ممسوح العین یعنی اندھا ہے ، ایک آنکھ کا ، اوراس کی دونوں آنکھ کے درمیان کافرلکھا ہوا ہے، جس کو پڑھا لکھا اورجاہل ہرمومن پڑھ لے گا ۔ (صحیح مسلم ۲۹۳۴)اوریہ صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے (صحیح مسلم ۲۹۳۳)
دجال کے سلسلہ میں وارد احادیث میں بہت اختلافات ہیں بعض علماء نے ان میں تطبیق دی ہے ، اوربعض روایتوں میں یہ احتمال ہے کہ راوی کی غلطی ہو۔
سنن ابوداود میں عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ اس کی آنکھ اندھی ہوگی، نہ اٹھی ہوئی ،نہ اندر گھسی ہوئی ۔
اورانس اورحذیفہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ وہ کافراورکذاب ہے ۔
اور صحیح بخاری (۷۱۲۸)میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا وہ سرخ رنگ کا تھا ، موٹا، گھنگھرالے بال والا، دائیں آنکھ کا کانا
اورنواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ دجال کے دن لمبے ہوںگے ، یہاں تک کہ ایک دن ایک برس کے برابرہوگا۔(صحیح مسلم ۲۹۳۷)
اوراسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ اس کے دن چھوٹے ہوں گے یہاں تک کہ سال ایک مہینے کے برابرہوگا، اوردن جیسے ایک تنکے کا جلنا ۔
اورتمیم داری رضی اللہ عنہ کی حدیث آگے آتی ہے کہ دجال ایک جزیرے میں جکڑا ہوا ہے ۔(صحیح مسلم ۲۹۴۲)
اور سنن ترمذی میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ دجال کے باپ کے یہاں تیس بر س تک لڑکا نہ ہو گا پھرایک کانا لڑکا بڑے دانت والا پیداہوگا۔
اورایک دوسری حدیث میں ہے کہ دجال شام کے سمندر میں ہے یا یمن میں۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ابن صیاد کے بارے میں ہمیشہ ڈراکرتے تھے کہ کہیں وہ دجال نہ ہو۔
اورعمر رضی اللہ عنہ قسم کھا تے کہ وہی دجال ہے، (صحیح البخاری ۷۳۵۵ و صحیح مسلم ۲۹۲۹ )
اورتمیم داری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ہم نے دجال کو اتنا بڑا آدمی دیکھا کہ ویسا کبھی نہ دیکھا تھا ،(صحیح مسلم ۲۹۴۲)
اورعبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ دجال ٹھگنا ہے، اس کے دونوں پاؤں میں فاصلہ بہت ہے ۔
اورایک حدیث میں ہے کہ اس کے گدھے کے دونوں کانوں کی بیچ میں سترہاتھ کا فاصلہ ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا قد بھی بہت بڑا ہوگا ۔
اوریہ اختلافات حقیقت میں اختلافات نہیں ہیں کیونکہ دجال ایک ساحر(جادوگر) شخص ہوگا ، جو جادو کے زور سے طرح طرح کے شعبدے اور طلسم دکھائے گا، جیسے مردے کو زندہ کرنا ، زمین کا خزانہ نکالنا ، پانی برسانا ، غلہ اُگانا ، گویا وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا ، اوراس کو اسی وجہ سے خوارق عادات کام کرنے کی طاقت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بندوں کا امتحان لے گا ، اور اس کے رب نہ ہو نے کی کئی نشانیاں بھی واضح کردی ہیں جن میں وہ مجبور ہوگا ، اوران کو اپنے آپ سے جدانہ کرسکے گا، جیسے کانا ہونا ، آنکھ میں پھلّی ہونا (یعنی سفید داغ کا پڑنا )پیشانی پر کافرلکھاہونا ، ان نشانیوں کو دیکھ کر اہل ایمان یقین کرلیں گے کہ یہ رب نہیں ہے ، بلکہ جھوٹا دجال ہے، پس جب وہ جادو گر ٹھہرا، اوربڑے بڑے خوارق عادات امور دکھلانے پر اس کو قدرت ہوئی تو ممکن ہے کہ کبھی وہ اپنے کو داہنی آنکھ کا کانا دکھلادے ، کبھی بائیں آنکھ کا ، کبھی لمبا، کبھی چھوٹے قد کا ، کبھی موٹا ، کبھی درمیانی قد کا، کبھی آنکھ پھولی ہوئی، کبھی برابر ۔
اب رہا دنوں کے چھوٹے اوربڑے ہو نے کا اختلاف تواحتمال ہے کہ راوی کی اس میں غلطی ہو، یا آدھے دن اس کے بڑے یا آدھے چھوٹے ہوں۔
اورحدیث میں ہے کہ وہ چالیس دن تک رہے گا ، اوراسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ وہ چالیس برس تک رہے گا ۔
دنوں کایہ اختلاف اس طرح دورہو سکتا ہے کہ نواس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دنوں کا لمباہونا مذکورہے اورایک دن ایک سال کا ہوگا (صحیح مسلم) ، توگویا چالیس دن چالیس سال ہی ہوئے ، اوراسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث میں دونوں کا چھوٹاہونامذکورہے ، کہ ایک برس ایک مہینے کے برابرہوگا، اورممکن ہے کہ پہلی حدیث میں وہ دن مراد ہو ں جن میں وہ دنیا کا دورہ کرکے لوگوں کو گمراہ کرے گا ، اوردوسری حدیث سے اس کے پہلے دن مرادہوں ۔
اب رہا ابن صیاد کا حال اورتمیم داری رضی اللہ عنہ کا بیان اوردوسری احادیث تو وہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کو دجال کا نکلنا وحی سے معلوم ہوا تھا ، اب رہی اس کی تعیین تو اس میں آپ کو شک تھا ، پس جس شخص پر علامات کے لحاظ سے گمان ہوا ، تو یہ شبہ ہو ا کہ شاید وہ دجال ہو۔
ایسے ہی آپ ﷺ کو شبہ تھا کہ دجال کب نکلے گا،ایک حدیث میں ہے کہ اگرمیرے سامنے نکلا تو میں اس سے بحث وجدال کروںگا ، اوراگرمیرے بعد نکلا تو اللہ تعالیٰ ہرمسلمان پر میرا خلیفہ ہے ۔
اورایک حدیث میں ہے کہ دجال کو عیسی علیہ السلام قتل کریں گے ، شاید یہ حدیث بعد کی ہو، پہلے آپ ﷺ کو یہ معلوم نہ ہوا ہو، اس کے بعد معلوم ہوگیا کہ دجال عیسی علیہ السلام کے ہاتھو ںما را جائے گا ، عیسی علیہ السلام تو آپ کی وفات کے بعد اتریں گے ۔
اورایک حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ تم میں سے جو کوئی عیسی علیہ السلام کو پائے تو ان کو میری طرف سے سلام کہے ، اورجوکوئی دجال کی خبر سنے تو اس سے دور رہے ۔
عبیدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ دجال کو بعض وہ لوگ پائیں گے جنہوں نے مجھ کو دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہے ، احتمال ہے کہ اس سے جنوں کی مخلوق میں سے مسلمان جن مراد ہوں ، وہ دجال کے وقت تک زندہ رہیں گے ، یا یہ مطلب ہے کہ جس نے میرا کلام سنا چاہے واسطہ ہی سے سنا تو وہ تمام مسلمان مراد ہوسکتے ہیں جو نبی کریم ﷺ کی احادیث کو سنتے ہیں۔
بہرحال قیامت کی نشانیاں جیسے اورجس طرح آپ ﷺ سے صحیح صحیح روایتوں میں منقول ہیں ، ان کو مان لینا چاہئے۔
باقی ان کی تفصیل اورتعیین؟ تویہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی معلوم نہیں ہے ، خود نبی کریم ﷺ کو بہت سی باتو ں پر شک تھا جو اللہ نے آپ کو نہیں بتلائی تھی اوریہ آپ کے سچے نبی ہو نے کی عمدہ دلیل ہے ، ورنہ جھوٹے شخص کے لیے ہر بات کو یقین کے طورپر قطعی طریق سے کہہ دینا کچھ مشکل نہیں ہوتا ، ان تفصیلات کا سبب یہ ہے کہ بعض لوگ نا سمجھی میں ان احادیث کے ظاہری اختلافات کو دیکھ کر متزلزل ہوجاتے ہیں ، اورشیطان ان کو گمراہی میں پھنسادیتا ہے حالانکہ ان سب اختلافات کو اہل حدیث نے اچھی طرح سے رفع کردیا ہے ، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو شیطان کے شر سے بچائے ، آمین یا رب العالمین ۔واضح رہے کہ دجال کے ظہور اور اس کے فتنے کا مسئلہ عقیدے کا مسئلہ ہے ، اور تشہدمیں اس کے شر اورفتنے سے اللہ کی پناہ طلب کر نے کی بات واضح طورپر موجودہے ۔
دجال دجل سے مبالغہ کا صیغہ ہے ، عربی میں ڈھانکنے اورچھپانے کو دجل کہتے ہیں ، کذاب اورجھوٹے کو دجال اس لیے کہا جاتاہے کہ وہ اپنے باطل کے ذریعے حق اورسچ کو چھپادیتاہے ،نبی کریم ﷺ نے پیش گوئی کی ہے کہ امت میں تیس کذاب اوردجال ظاہر ہوں گے ، جن میں سے بعض جھوٹے مدعیانِ نبوت آپ کے عہد میں ظاہر ہوئے ، اور تاریخ کے مختلف ادوار میں جھوٹی نبوت کے دعویدار نظر آتے ہیں ، جن میں برصغیر کاجھوٹا نبی مرزا غلام احمد قادیا نی بھی ہے ، جس نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا ، اورعلمائے حق نے اس کی زندگی ہی میں اس کا رد وابطال کیا ، حتی کہ شیخ الإسلام امام المناظرین مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سے مباہلہ کے بعد آپ کی حیات میں بڑی بری موت مرا ، ان جھوٹوں میں سب سے خطرناک مسیح دجال ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے مختلف خارق عادات چیزوں پر قدرت دے کر لوگوں کے درمیان ابتلاء اورآزمائش کے لیے بھیجے گا،رسول اکرم ﷺ سب سے زیادہ اسی کے فتنے اورشر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے ،حتی کہ ہر صلاۃ کے تشہد میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتے اورمسلمانوں کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔ (الفریوائی)۔
4072- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالُوا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ،عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ،يُقَالُ لَهَا خُرَاسَانُ،يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ "۔
* تخريج: ت/الفتن ۵۷ (۲۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴، ۷) (صحیح)
۴۰۷۲- ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی : '' دجا ل مشرق (پورب) کے ایک ملک سے ظا ہر ہو گا، جس کو ''خرا سا ن '' کہا جا تا ہے، اور اس کے سا تھ ایسے لو گ ہو ں گے جن کے چہرے گویا تہ بہ تہ ڈھال ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مطلب یہ ہے کہ ان کے چہرے گول ،چپٹے اور گو شت سے پر ہوں گے۔
4073- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ ﷺ، عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ ( وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي ) فَقَالَ: " لِي مَا تَسْأَلُ عَنْهُ؟ " قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ،قَالَ: " هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ "۔
* تخريج: خ/الفتن ۲۷ (۷۱۲۲)، م/الفتن ۲۲ (۲۹۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۶، ۲۴۸، ۲۵۲) (صحیح)
۴۰۷۳- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے دجا ل کے با رے میں جتنے سوالا ت میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے ،(ابن نمیر کی روا یت میں یہ الفا ظ ہیں '' أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي '' یعنی مجھ سے زیا دہ سوال اور کسی نے نہیں کئے)، آخر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ''تم اس کے با رے میں کیا پو چھتے ہو؟'' میں نے عرض کیا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پا نی ہو گا ،آپ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یا اللہ تعالی پر یہ با ت دجا ل سے زیادہ آسان ہے، یعنی جب اس نے دجا ل کو پیدا کر دیا تو اس کو کھا نا پا نی دینا کیا مشکل ہے، صحیحین کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہوگا اور پانی کی نہریں ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا : او رممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا جا ئے کہ اللہ تعالی پر یہ بات آسان ہے دجال سے زیادہ یعنی جب ا س نے دجال کو پیدا کردیا تو اس کو کھانا پا نی دینا کیا مشکل ہے ، اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ دجال ذلیل ہے ، اللہ تعالی کے نزدیک اس سے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے اس کی تصدیق کی جائے کیونکہ اس کی پیشانی اور آنکھ پر اس کے جھوٹے ہونے کی نشانی ظاہر ہوگی ، واللہ اعلم۔
4074- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ، وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، وَكَانَ لا يَصْعَدُ عَلَيْهِ قَبْلَ ذَلِكَ، إِلا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ، فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ، أَنِ اقْعُدُوا: " فَإِنِّي، وَاللَّهِ! مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لأَمْرٍ يَنْفَعُكُمْ، لِرَغْبَةٍ وَلا لِرَهْبَةٍ، وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا [ مَنَعَني الْقَيْلُولَةَ، مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ ]، أَلا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي: أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لا يَعْرِفُونَهَا، فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ، فَخَرَجُوا فِيهَا، فَإِذَا هُمْ بِشَيْئٍ أَهْدَبَ، أَسْوَدَ كَثَيْرَ الْشَعَرِ، قَالُوا لَهُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا: أَخْبِرِينَا، قَالَتْ: [ مَا أَنَا بِمُخْبِرَتَكُمْ شَيْئاً، وَلا سَائِلَتِكُمْ ]،وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرُ، قَدْ رَمَقْتُمُوهُ، فَأْتُوهُ، فَإِنَّ فِيهِ رَجُلا بِالأَشْوَاقِ إِلَى أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَكُمْ، فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ، فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ، شَدِيدِ الْوَثَاقِ، [ يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَكِّي]، فَقَالَ لَهُمْ: مِنْ أَيْنَ؟ قَالُوا: مِنَ الشَّامِ، قَالَ: مَافَعَلَتِ الْعَرَبُ؟ قَالُوا: نَحْنُ قَوْمٌ مِنَ الْعَرَبِ، عَمَّ تَسْأَلُ؟ قَالَ: مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيكُمْ؟ قَالُوا: خَيْرًا، نَاوَى قَوْمًا، فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْرُهُمُ الْيَوْمَ جَمِيعٌ: إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ، وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ، قَالَ: مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالُوا: خَيْرًا، يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ، وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ [ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ ] قَالُوا: يُطْعِمُ ثَمَرَهُ كُلَّ عَامٍ، قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ، قَالَ: [ فَزَفَرَ ثَلاثَ زَفَرَراتٍ ] ثُمَّ قَالَ: لَوِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا، لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ، إِلا طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ "، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " إِلَى هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي، هَذِهِ طَيْبَةُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ، وَلا وَاسِعٌ، وَلا سَهْلٌ وَلا جَبَلٌ، إِلا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۵ (۴۳۲۶، ۴۳۲۷)، ت/الفتن ۶۶ (۲۲۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۷۳، ۳۷۴، ۴۱۱، ۴۱۲، ۴۱۵، ۴۱۶، ۴۱۸) (صحیح)
(سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے،صرف وہ جملے ضعیف ہیں،جو اس طرح گھیردئے گئے ہیں[ ]، صحیح مسلم کتاب الفتن ۲۴؍ ۲۹۴۲میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپرگزرا۔
۴۰۷۴- فا طمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن صلاۃ پڑھا ئی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جا تے تھے ،یہ با ت لو گوں پر گراں گزری، کچھ لو گ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ ﷺ نے ہا تھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا:''اللہ کی قسم !میں منبر پر اس لئے نہیں چڑھا ہوں کہ کو ئی ایسی با ت کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ با ت یہ ہے کہ میرے پا س تمیم دا ری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنا ئی( جس سے مجھے اتنی مسرت ہو ئی کہ خو شی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کرسکا ، میں نے چا ہا کہ تمہارے نبی کی خو شی کو تم پر بھی ظا ہر کر دوں)، سنو!تمیم دا ری کے ایک چچا زاد بھا ئی نے مجھ سے یہ وا قعہ بیان کیا کہ(ایک سمندری سفر میں)ہو ا ان کو ایک جز یرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لو گ چھو ٹی چھو ٹی کشتیوں پر سوا ر ہو کر اس جز یر ے میں گئے ،انہیں وہا ں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثر ت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا :تو کون ہے ؟اس نے کہا :میں جساسہ(دجال کی جاسوس) ہوں،ان لوگوں نے کہا: توہمیں کچھ بتا،اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتائوںگی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی )، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جا ئو، وہاں ایک شخص ہے جو اس با ت کا خو اہش مند ہے کہ تم اسے خبر بتا ئو اور وہ تمہیں بتائے، کہا : ٹھیک ہے،یہ سن کر وہ لو گ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہو ئے تو دیکھاکہ وہاں ایک بو ڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہو ا(رنج و غم کا اظہا ر کر رہا ہے، اوراپنا دکھ دردسنانے کے لئے بے چین ہے) تواس نے ان لوگوں سے پو چھا: تم کہاں سے آئے ہو ؟انہوں نے جو اب دیا: شام سے، اس نے پوچھا: عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے با رے میں پو چھ رہے ہو؟ اس نے پو چھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا )جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا ، تو آج ان میں اجتما عیت ہے ، ان کا معبود ایک ہے ، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پو چھا: زغر (شام میں ایک گا ئوں )کے چشمے کا کیاحال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لو گ اس سے اپنے کھیتوں کو پا نی دیتے ہیں، اور پینے کے لئے بھی اس میں سے پا نی لیتے ہیں، پھر اس نے پو چھا: (عما ن اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجورکے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلارہے ہیں، اس نے پو چھا: طبر یہ کے نالے کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا:اس کے دونوں کنا روں پر پا نی خوب زوروشور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں )پھرکہا :اگر میں اس قید سے چھو ٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگا ؤں گا ،کو ئی گو شہ مجھ سے با قی نہ رہے گا سو ائے طیبہ (مدینہ) کے ،وہاںمیرے جا نے کی کو ئی سبیل نہ ہو گی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' یہ سن کر مجھے بے حد خو شی ہو ئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ )ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے ! مدینہ کے ہر تنگ وکشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوا ر لئے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور دجال کو وہاں آنے سے روکے گا، دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے،صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیرمیں جکڑے اس شخص نے کہا: مجھ سے امیوں( یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا :کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ؟ ہم نے کہا : ہاں، لڑے، اس نے کہا : پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اُسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد وپیش عربوں پرغالب آگئے ہیں اورانہوں نے اس رسول ( ﷺ )کی اطاعت اختیارکرلی ہے ، اس نے پوچھا کیا یہ بات ہوچکی ہے؟ہم نے کہا:ہاں، یہ بات ہوچکی ،اس نے کہا : سن لو!یہ بات ان کے حق میں بہترہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدارہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتاہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اوروہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے ) دے دی جائے گی ، البتہ اس میں یہ ہے کہ مکہ اور طیبہ (مدینہ) کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پرچوکیدار فرشتے ہیں ، یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر ماری ،اور فرمایا : طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ﷺ نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا : شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم /کتاب الفتن : باب : قصۃ الجساسۃ)
4075- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلابِيَّ يَقُولُ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الدَّجَّالَ،الْغَدَاةَ، فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكُمْ؟ " فَقُلْنَا: يَارَسُولَ اللَّهِ! ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ، فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، قَالَ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ: إِنْ يَخْرُجْ، وَأَنَا فِيكُمْ، فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ، وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ، عَيْنُهُ قَائِمَةٌ، كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ، فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ، إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ يَمِينًا، وَعَاثَ شِمَالا، يَا عِبَادَ اللَّهِ! اثْبُتُوا " قُلْنَا: يَارَسُولَ اللَّهِ! وَمَا لُبْثُهُ فِي الأَرْضِ؟ قَالَ: " أَرْبَعُونَ يَوْمًا، يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ " قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ، تَكْفِينَا فِيهِ صَلاةُ يَوْمٍ؟ قَالَ: " فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ " قَالَ: قُلْنَا: فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الأَرْضِ؟ قَالَ: " كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ "، قَالَ: " فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَيَأْمُرُ الأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ، وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ، ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ: فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ، مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ، ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَيَنْطَلِقُ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ، ثُمَّ يَدْعُو رَجُلا مُمْتَلِئًا شَبَابًا، فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً، فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ، رَمْيَةَ الْغَرَضِ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ، شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، وَلا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلا مَاتَ، وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ، فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ، فَيَقْتُلُهُ، ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ، عِيسَى عليه السلام قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: يَا عِيسَى! إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي، لايَدَانِ لأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ،وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ، كَمَا قَالَ اللَّهُ: {مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ، فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا، ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَائٌ، مَرَّةً، وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ عيسى وَأَصْحَابُهُ، حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ، فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ، فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلايَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلا قَدْ مَلأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ، فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ، فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ، فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لايُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلا وَبَرٍ، فَيَغْسِلُهُ حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ، ثُمَّ يُقَالُ لِلأَرْضِ: أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ، وَرُدِّي بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرِّمَّانَةِ، فَتُشْبِعُهُمْ، وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا، وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً، فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ، فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ، وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ، كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ، فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ "۔
* تخريج: م/الفتن ۲۰ (۲۱۳۷)، د/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۱)، ت/الفتن ۵۹ (۲۲۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۸۱، ۱۸۲) (صحیح)
۴۰۷۵- نواس بن سمعان کلا بی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن)صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ نے دجا ل کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسو س کر نے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہو ئے تو آپ نے ہما رے چہروں پرخو ف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: ''تم لوگوں کا کیا حال ہے ؟ '' ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول !آپ نے جو صبح کے وقت دجا ل کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ انہی کھجوروں کے درختو ں میں چھپا ہواہے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے تم لو گوں پر دجا ل کے علاوہ اور وں کا زیا دہ ڈر ہے، اگر دجال میری زندگی میں ظاہر ہو ا تو میں تم سب کی جانب سے اس کا مقابلہ کر وں گا، اور اگر میر ے بعد ظاہر ہو اتو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کر ے گا، اللہ تعالی ہر مسلمان پر میراخلیفہ ہے ( یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دا ر ہے ) دیکھو دجال جو ان ہو گا، اس کے بال بہت گھنگریا لے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ اٹھی ہوئی اونچی ہوگی گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذ ا تم میں سے جو کو ئی اسے دیکھے اسے چاہیے کہ اس پر سو رہ کہف کی ابتدائی آیا ت پڑھے ،دیکھو ! دجا ل کا ظہو ر عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہو گا ،وہ روئے زمین پر دا ئیں بائیں فسا د پھیلا تا پھرے گا، اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا'' ۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول !وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' چالیس دن تک ، ایک دن ایک سال کے برابر ،دوسرا دن ایک مہینہ کے اورتیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا، اور باقی دن تمہا رے عام دنوں کی طرح ہوں گے ''۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہو گا ہما رے لئے ایک دن کی صلاۃ کا فی ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ( نہیں بلکہ ) تم اسی ایک دن کا اندا زہ کرکے صلاۃ پڑھ لینا''۔
ہم نے عر ض کیا:زمین میں اس کے چلنے کی رفتا ر آخر کتنی تیز ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' اس با دل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آکر انہیں اپنی الوہیت کی طرف بلا ئے گا، تو وہ قبول کرلیں گے، اور اس پر ایمان لے آئیں گے، پھر وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا، تووہ بر سے گا، پھر زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی، اور جب اس قوم کے جا نور شام کو چرکر واپس آیا کر یں گے تو ان کے کو ہان پہلے سے اونچے ، تھن زیا دہ دودھ والے، اور کو کھیں بھری ہوں گی، پہلو بھرے بھرے ہوں گے ، پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جا ئے گا، اور ان کو اپنی طرف دعوت دے گا ، تو وہ اس کی با ت نہ مانیں گے، آخر یہ دجال وہاں سے واپس ہو گا ، تو صبح کو وہ قوم قحط میں مبتلا ہو گی، اور ان کے ہا تھ میں کچھ نہیں رہے گا، پھر دجا ل ایک ویران جگہ سے گزرے گا، اور اس سے کہے گا :تو اپنے خز انے نکال، وہاں کے خز انے نکل کر اس طرح اس کے ساتھ ہوجائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں یعسوب(مکھیوں کے بادشاہ) کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک ہٹے کٹے نوجوان کو بلا ئے گا، اور تلوار کے ذریعہ اسے ایک ہی وار میں قتل کرکے اس کے دوٹکڑے کردے گا، ان دونوں ٹکڑوں میں اتنی دوری کردے گا جتنی دوری پر تیر جاتا ہے، پھر اس کو بلا ئے گا تو وہ شخص زندہ ہو کر روشن چہرہ لئے ہنستا ہوا چلا آئے گا، الغرض دجا ل اور دنیا والے اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالی عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے سفید مشرقی مینا ر کے پا س دو زرد ہلکے کپڑے پہنے ہوئے اتریں گے ،جو زعفران اور ورس سے رنگے ہو ئے ہوں گے، اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوئوں پر رکھے ہو ئے ہوں گے، جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو سر سے پا نی کے قطرے ٹپکیں گے، اور جب سر اٹھا ئیں گے تو اس سے پانی کے قطرے مو تی کی طرح گریں گے، ان کی سانس میں یہ اثر ہو گا کہ جس کا فر کو لگ جا ئے گی وہ مر جائے گا، اوران کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر کا م کرے گی۔
پھر عیسیٰ علیہ السلام چلیں گے یہاں تک کہ اس(دجال) کو باب لُدّکے پاس پکڑ لیں گے، وہا ں اسے قتل کریں گے، پھر دجال کے قتل کے بعد اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام ان لو گوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ تعالی نے دجال کے شر سے بچا رکھا ہوگا ، ان کے چہرے پر ہا تھ پھیر کر انہیں تسلی دیں گے، اور ان سے جنت میں ان کے درجات بیان کریںگے، یہ لو گ ابھی اسی کیفیت میں ہوں گے کہ اللہ تعالی ان کی طرف وحی نازل کر ے گا: اے عیسی! میں نے اپنے کچھ ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں ،تو میرے بندوں کوطور پہاڑ پرلے جا، اس کے بعد اللہ تعالی یاجوج وما جو ج کو بھیجے گا، اور وہ لوگ ویسے ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالی نے فرمایا: { وَ هَمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} [سورة الأنبياء : 96] ( یہ لوگ ہر ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے) اُن میں کے آگے والے طبر یہ کے چشمے پر گز ر یں گے، تو اس کا سا را پانی پی لیں گے، پھر جب ان کے پچھلے لوگ گز ریں گے تووہ کہیں گے: کسی زما نہ میں اس تالاب کے اندر پانی تھا ،اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے سا تھی طُور پہاڑ پر حاضر رہیں گے ۱؎ ،ان مسلمانوں کے لئے اس وقت بیل کا سر تمہارے آج کے سو دینا ر سے بہتر ہو گا،پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالی سے دعاکریں گے ،چنا نچہ اللہ یا جوج و ما جوج کی گردن میں ایک ایسا پھو ڑا نکا لے گا، جس میں کیڑے ہوں گے، اس کی وجہ سے (دوسرے دن) صبح کو سب ایسے مرے ہو ئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مر تاہے، اور اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے سا تھی طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے اور ایک با لشت کے برابر جگہ نہ پا ئیں گے، جو ان کی بدبو ، خو ن اور پیپ سے خا لی ہو، عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالی سے دعا کریں گے تواللہ تعالی بختی اونٹ کی گردن کی مانند پرندے بھیجے گا جوان کی لاشوں کو اٹھا کر جہا ں اللہ تعالی کا حکم ہوگا وہاں پھینک دیں گے، پھر اللہ تعالی (سخت ) با رش نا زل کر ے گا جس سے کوئی پختہ یا غیر پختہ مکا ن چھوٹنے نہیں پائے گا، یہ بارش ان سب کو دھو ڈالے گی ،اور زمین کو آئینہ کی طرح بالکل صا ف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا کہ تو اپنے پھل اُگا، اور اپنی برکت ظاہر کر، تو اس وقت ایک انا ر کو ایک جماعت کھا کر آسودہ ہوگی ،او ر اس انا ر کے چھلکوں سے سا یہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اللہ تعالی اتنی برکت دے گا کہ ایک او نٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کا فی ہو گا، اور ایک دودھ دینے والی گا ئے ایک قبیلہ کے لوگوں کو کا فی ہو گی، اورایک دودھ دینے والی بکری ایک چھو ٹے قبیلے کو کا فی ہو گی، لو گ اسی حال میں ہو ں گے کہ اللہ تعالی ایک پا کیزہ ہو ا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کر ے گی، اور ایسے لو گ با قی رہ جائیںگے جو جھگڑا لو ہوں گے، اور گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا اعلا نیہ جما ع کرتے رہیں گے، تو انہی (شریر ) لوگوں پر قیا مت قائم ہو گی'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : اردن پہاڑ جہاں سے عیسیٰ علیہ السلام غائب ہوکر آسمان پر چڑھ گئے تھے، اور دوسرا شخص آپ کی صورت بن کر گیا تو یہودیوں نے اس کو سولی پر چڑھا دیا، یہ مضمون اگر چہ انجیل کے چار مشہور نسخوں میں ہے،لیکن نصاریٰ نے ان میں تحریف کی ہے اور برنباس کی انجیل میں مضمون اسی طرح موجود ہے جیسے قرآن شریف میں ہے ،او راس میںرسول اکرم ﷺ کے پیدا ہونے کی بشارت بھی صاف طور سے موجود ہے ، اور آپ کا نام مبارک بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول محمد ﷺ آئیں گے تو میرے اوپر سے یہ اتہام رفع ہو گا کہ میں سولی دیا گیا، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایک سفید منارہ ۷۴۱ ء میں وہاں پایا گیا اور یہ آپ کی نبوت کی ایک بڑی نشانی ہے ، اور رسول اکرم ﷺ نے ایسی بہت ساری باتوں کی پیش گوئی کی ہے جو آپ کے عہد میں نہ تھیں من جملہ ان میں سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کیا کہ میرے ساتھ وہ لوگ بہت محبت کریں گے جو میرے بعد میرے او پر ایمان لائیں گے ،اور جو کچھ ورق (یعنی مصحف) میں ہوگا اس پر عمل کریں گے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ پہلے میں نے ورق کو نہیں سمجھا تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف لکھوائے تو میں نے ورق کا معنی سمجھا ،عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کے بیان کرنے پر دس ہزار درہم دیئے، اور بعض حدیثوں میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں اتریں گے اور بعض میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں لیکن بیت المقدس کی روایت بہت مشہور ہے، اور اردن اس سارے محلہ کا نام ہے جہاں پر بیت المقدس ہے ، اور اگر وہاں اب سفید مینار نہیں ہے تو آ ئندہ بن جائے گا اورجس نے صحیح حدیث کا انکار کیا وہ جاہل اورگمراہ ہے ۔
4076- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " سَيُوقِدُ الْمُسْلِمُونَ،مِنْ قِسِيِّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَنُشَّابِهِمْ وَأَتْرِسَتِهِمْ،سَبْعَ سِنِينَ "۔
* تخريج: أنظر ماقبلہ (صحیح)
۴۰۷۶- نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قریب ہے کہ مسلمان یا جوج و ما جوج کے تیر ، کمان، اور ڈھال کو سا ت سال تک جلا ئیں گے ''۔
4077- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ إِسْماعِيلَ بْنِ رَافِعٍ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَكَانَ أَكْثَرُ خُطْبَتِهِ حَدِيثًا حَدَّثَنَاهُ عَنِ الدَّجَّالِ، وَحَذَّرَنَاهُ، فَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ أَنْ قَالَ: " إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ مُنْذُ ذَرَأَ اللَّهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ، أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ، وَأَنَا آخِرُ الأَنْبِيَاءِ، وَأَنْتُمْ آخِرُ الأُمَمِ، وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ، لا مَحَالَةَ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْكُمْ، فَأَنَا حَجِيجٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، وَإِنْ يَخْرُجْ مِنْ بَعْدِي، فَكُلُّ امْرِئٍ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، وَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَيَعِيثُ يَمِينًا ويَعِيثُ شِمَالا، يَا عِبَادَ اللَّهِ! فَاثْبُتُوا، فَإِنِّي سَأَصِفُهُ لَكُمْ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا إِيَّاهُ نَبِيٌّ قَبْلِي، إِنَّهُ يَبْدَأُ فَيَقُولُ: أَنَا نَبِيٌّ وَلا نَبِيَّ بَعْدِي، ثُمَّ يُثْنِّي فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، وَلاتَرَوْنَ رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا، وَإِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ،وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ، كَاتِبٍ أَوْ غَيْرِ كَاتِبٍ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنَّ مَعَهُ جَنَّةً وَنَارًا، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ، فَمَنِ ابْتُلِيَ بِنَارِهِ، فَلْيَسْتَغِثْ بِاللَّهِ وَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ الْكَهْفِ، فَتَكُونَ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلامًا، كَمَا كَانَتِ النَّارُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَقُولَ لأَعْرَابِيٍّ: أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأُمَّكَ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، فَيَقُولانِ: يَا بُنَيَّ! اتَّبِعْهُ، فَإِنَّهُ رَبُّكَ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يُسَلَّطَ عَلَى نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، فَيَقْتُلَهَا، وَيَنْشُرَهَا بِالْمِنْشَارِ، حَتَّى يُلْقَى شِقَّتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولَ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا، فَإِنِّي أَبْعَثُهُ الآنَ، ثُمَّ يَزْعُمُ أَنَّ لَهُ رَبًّا غَيْرِي، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ، وَيَقُولُ لَهُ الْخَبِيثُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، وَأَنْتَ عَدُوُّ اللَّهِ، أَنْتَ الدَّجَّالُ، وَاللَّهِ! مَا كُنْتُ بَعْدُ أَشَدَّ بَصِيرَةً بِكَ مِنِّي الْيَوْمَ ". قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيُّ: فَحَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " ذَلِكَ الرَّجُلُ أَرْفَعُ أُمَّتِي دَرَجَةً فِي الْجَنَّةِ ". قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَاللَّهِ! مَا كُنَّا نُرَى ذَلِكَ الرَّجُلَ إِلا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ،حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ .
قَالَ الْمُحَارِبِيُّ: ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: " وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَيَأْمُرَ الأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُكَذِّبُونَهُ، فَلاتَبْقَى لَهُمْ سَائِمَةٌ إِلا هَلَكَتْ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُصَدِّقُونَهُ، فَيَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَيَأْمُرَ الأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ، حَتَّى تَرُوحَ مَوَاشِيهِمْ، مِنْ يَوْمِهِمْ ذَلِكَ أَسْمَنَ مَا كَانَتْ وَأَعْظَمَهُ، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ، وَأَدَرَّهُ ضُرُوعًا، وَإِنَّهُ لا يَبْقَى شَيْئٌ مِنَ الأَرْضِ إِلا وَطِئَهُ وَظَهَرَ عَلَيْهِ، إِلا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ، لايَأْتِيهِمَا مِنْ نَقْبٍ مِنْ نِقَابِهِمَا إِلا لَقِيَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِالسُّيُوفِ صَلْتَةً، حَتَّى يَنْزِلَ عِنْدَ الظُّرَيْبِ الأَحْمَرِ، عِنْدَ مُنْقَطَعِ السَّبَخَةِ، فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلاثَ رَجَفَاتٍ، فَلايَبْقَى مُنَافِقٌ وَلا مُنَافِقَةٌ إِلا خَرَجَ إِلَيْهِ، فَتَنْفِي الْخَبَثَ مِنْهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ،وَيُدْعَى ذَلِكَ الْيَوْمُ يَوْمَ الْخَلاصِ ".
فَقَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ بِنْتُ أَبِي الْعَكَرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: " هُمْ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ، وَجُلُّهُمْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَإِمَامُهُمْ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَبَيْنَمَا إِمَامُهُمْ قَدْ تَقَدَّمَ يُصَلِّي بِهِمُ الصُّبْحَ، إِذْ نَزَلَ عَلَيْهِمْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ الصُّبْحَ، فَرَجَعَ ذَلِكَ الإِمَامُ يَنْكُصُ، يَمْشِي الْقَهْقَرَى، لِيَتَقَدَّمَ عِيسَى يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَيَضَعُ عِيسَى يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: تَقَدَّمْ فَصَلِّ، فَإِنَّهَا لَكَ أُقِيمَتْ، فَيُصَلِّي بِهِمْ إِمَامُهُمْ، فَإِذَا انْصَرَفَ، قَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلام: افْتَحُوا الْبَابَ، فَيُفْتَحُ،وَوَرَائَهُ الدَّجَّالُ، مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ يَهُودِيٍّ، كُلُّهُمْ ذُو سَيْفٍ مُحَلًّى وَسَاجٍ،فَإِذَا نَظَرَ إِلَيْهِ الدَّجَّالُ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، وَيَنْطَلِقُ هَارِبًا، وَيَقُولُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلام: إِنَّ لِي فِيكَ ضَرْبَةً لَنْ تَسْبِقَنِي بِهَا، فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ اللُّدِّ الشَّرْقِيِّ فَيَقْتُلُهُ، فَيَهْزِمُ اللَّهُ الْيَهُودَ، فَلايَبْقَى شَيْئٌ مِمَّا خَلَقَ اللَّهُ يَتَوَارَى بِهِ يَهُودِيٌّ إِلا أَنْطَقَ اللَّهُ ذَلِكَ الشَّيْئَ، لا حَجَرَ وَلا شَجَرَ وَلاحَائِطَ وَلا دَابَّةَ (إِلا الْغَرْقَدَةَ، فَإِنَّهَا مِنْ شَجَرِهِمْ، لا تَنْطِقُ ) إِلا قَالَ: يَا عَبْدَاللَّهِ الْمُسْلِمَ! هَذَا يَهُودِيٌّ، فَتَعَالَ اقْتُلْهُ ". قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " وَإِنَّ أَيَّامَهُ أَرْبَعُونَ سَنَةً، السَّنَةُ كَنِصْفِ السَّنَةِ، وَالسَّنَةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَآخِرُ أَيَّامِهِ كَالشَّرَرَةِ، يُصْبِحُ أَحَدُكُمْ عَلَى بَابِ الْمَدِينَةِ،فَلا يَبْلُغُ بَابَهَا الآخَرَ حَتَّى يُمْسِيَ " فَقِيلَ لَهُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ نُصَلِّي فِي تِلْكَ الأَيَّامِ الْقِصَارِ؟ قَالَ: " تَقْدُرُونَ فِيهَا الصَّلاةَ كَمَا تَقْدُرُونَهَا فِي هَذِهِ الأَيَّامِ الطِّوَالِ، ثُمَّ صَلُّوا "، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "فَيَكُونُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلام فِي أُمَّتِي حَكَمًا عَدْلا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا، يَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَذْبَحُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَتْرُكُ الصَّدَقَةَ، فَلا يُسْعَى عَلَى شَاةٍ وَلابَعِيرٍ، وَتُرْفَعُ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ، وَتُنْزَعُ حُمَةُ كُلِّ ذَاتِ حُمَةٍ، حَتَّى يُدْخِلَ الْوَلِيدُ يَدَهُ فِي فِي الْحَيَّةِ، فَلا تَضُرَّهُ، وَتُفِرَّ الْوَلِيدَةُ الأَسَدَ، فَلا يَضُرُّهَا، وَيَكُونَ الذِّئْبُ فِي الْغَنَمِ كَأَنَّهُ كَلْبُهَا، وَتُمْلأُ الأَرْضُ مِنَ السِّلْمِ كَمَا يُمْلأُ الإِنَاءُ مِنَ الْمَاءِ، وَتَكُونُ الْكَلِمَةُ وَاحِدَةً، فَلا يُعْبَدُ إِلا اللَّهُ، وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا، وَتُسْلَبُ قُرَيْشٌ مُلْكَهَا، وَتَكُونُ الأَرْضُ كَفَاثُورِ الْفِضَّةِ، تُنْبِتُ نَبَاتَهَا بِعَهْدِ آدَمَ، حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الْقِطْفِ مِنَ الْعِنَبِ فَيُشْبِعَهُمْ، وَيَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الرُّمَّانَةِ فَتُشْبِعَهُمْ، وَيَكُونَ الثَّوْرُ بِكَذَا وَكَذَا، مِنَ الْمَالِ، وَتَكُونَ الْفَرَسُ بِالدُّرَيْهِمَاتِ "، قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ! وَمَا يُرْخِصُ الْفَرَسَ؟ قَالَ: " لا تُرْكَبُ لِحَرْبٍ أَبَدًا " قِيلَ لَهُ: فَمَا يُغْلِي الثَّوْرَ؟ قَالَ: " تُحْرَثُ الأَرْضُ كُلُّهَا، وَإِنَّ قَبْلَ خُرُوجِ الدَّجَّالِ ثَلاثَ سَنَوَاتٍ شِدَادٍ، يُصِيبُ النَّاسَ فِيهَا جُوعٌ شَدِيدٌ، يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الأُولَى أَنْ تَحْبِسَ ثُلُثَ مَطَرِهَا، وَيَأْمُرُ الأَرْضَ، فَتَحْبِسُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا، ثُمَّ يَأْمُرُ السَّمَاءَ فِي الثَّانِيَةِ، فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ مَطَرِهَا، وَيَأْمُرُ الأَرْضَ، فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا، ثُمَّ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الثَّالِثَةِ، فَتَحْبِسُ مَطَرَهَا كُلَّهُ، فَلا تُقْطِرُ قَطْرَةً، وَيَأْمُرُ الأَرْضَ، فَتَحْبِسُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ، فَلا تُنْبِتُ خَضْرَاءَ، فَلا تَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ إِلا هَلَكَتْ، إِلا مَا شَاءَ اللَّهُ ". قِيلَ: فَمَا يُعِيشُ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ؟ قَالَ: " التَّهْلِيلُ وَالتَّكْبِيرُ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّحْمِيدُ، وَيُجْرَى ذَلِكَ عَلَيْهِمْ مُجْرَى الطَّعَامِ ".
قَالَ أَبو عَبْداللَّهِ: سَمِعْت أَبَا الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيَّ يَقُولُ: يَنْبَغِي أَنْ يُدْفَعَ هَذَا الْحَدِيثُ إِلَى الْمُؤَدِّبِ،حَتَّى يُعَلِّمَهُ الصِّبْيَانَ فِي الْكُتَّابِ ۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۹۶) (ضعیف)
(سند میں اسماعیل بن رافع ضعیف راوی ہیں، اور عبد الرحمن محاربی مدلس ، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)
۴۰۷۷- ابو اما مہ با ہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا ،آپ کے خطبے کا اکثر حصہ دجال والی وہ حدیث تھی جو آپ نے ہم سے بیان کی، اور ہم کو اس سے ڈرا یا، آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس میں یہ بات بھی تھی کہ'' جب سے اللہ تعالی نے اولا د آدم کو پیدا کیا ہے اس وقت سے دجال کے فتنے سے بڑھ کرکو ئی فتنہ نہیں ہے، اور اللہ تعالی نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو ( فتنہ ) دجال سے نہ ڈرایا ہو، میں چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اخیر میں ہوں، اور تم بھی آخری امت ہو اس لئے دجال یقینی طو ر پر تم ہی لو گوں میں ظاہر ہو گا، اگر وہ میری زندگی میں ظاہر ہوگیا تو میں ہر مسلمان کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر وہ میرے بعد ظا ہر ہواتو ہرشخص خود اپنا بچا ئو کر ے گا، اور اللہ تعالی ہر مسلمان پر میر ا خلیفہ ہے ، ( یعنی اللہ میرے بعد ہرمسلمان کامحا فظ ہو گا)، سنو!دجال شام و عراق کے درمیانی راستے سے نکلے گا اور اپنے دائیں با ئیں ہر طرف فساد پھیلا ئے گا، اے اللہ کے بندو !( اس وقت ) ایمان پر ثابت قدم رہنا، میں تمہیں اس کی ایک ایسی صفت بتا تا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی، پہلے تو وہ نبوت کا دعوی کرے گا، اور کہے گا: ''میں نبی ہوں''، حالانکہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں ہے ، پھر دوسری بار کہے گا کہ''میں تمہا را رب ہوں''، حالاں کہ تم اپنے رب کو مر نے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے، وہ کا نا ہوگا، اور تمہا را رب کا نا نہیں ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے، اور دجال کی پیشانی پر لفظ'' کافر'' لکھا ہو گا، جسے ہرمو من خو اہ پڑھا لکھا ہو یا جاہل پڑھ لے گا۔
اور اس کا ایک فتنہ یہ ہو گا کہ اس کے سا تھ جنت اور جہنم ہوگی، لیکن حقیقت میں اس کی جہنم جنت ہو گی، اور جنت جہنم ہوگی، تو جو اس کی جہنم میں ڈالا جا ئے، اسے چا ہیے کہ وہ اللہ سے فریاد کر ے، اور سو رہ کہف کی ابتدائی آیا ت پڑھے تو وہ جہنم اس پر ایسی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا ئے گی جیسے ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اور اس دجا ل کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک گنو ار دیہا تی سے کہے گا: اگر میں تیرے والدین کو زندہ کر دوں تو کیا تو مجھے رب تسلیم کرے گا؟ وہ کہے گا :ہا ں، پھر دو شیطان اس کے با پ اور اس کی ماں کی شکل میں آئیں گے اور اس سے کہیں گے: اے میرے بیٹے!تو اس کی اطاعت کر، یہ تیرا رب ہے ۔
ایک فتنہ اس کا یہ ہو گا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کردیا جائے گا، پھر اسے قتل کردے گا، اور اسے آرے سے چیر دے گا یہاں تک کہ اس کے دو ٹکڑے کرکے ڈال دے گا، پھرکہے گا: تم میرے اس بندے کو دیکھو، میں اس بندے کو اب زندہ کر تا ہوں، پھر وہ کہے گا: میرے علاوہ اس کا کوئی اوررب ہے، تو اللہ تعالی اسے زندہ کرے گا ، اور دجال خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کو ن ہے؟تو وہ کہے گا : میرا رب تو اللہ ہے، اور تواللہ کا دشمن دجال ہے، اللہ کی قسم! اب تو مجھے تیرے دجا ل ہو نے کامزید یقین ہوگیا''۔
ابو الحسن طنا فسی کہتے ہیں کہ ہم سے محاربی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبیداللہ بن ولید وصا فی نے بیان کیا، انہوں نے عطیہ سے روایت کی ،عطیہ نے ابو سعید خدری سے،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت میں سے اس شخص کا درجہ جنت میں بہت اونچا ہو گا ''۔
ابو سعید خدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم ! ہما را خیال تھا کہ یہ شخص سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے کو ئی نہیں ہوسکتا،یہاں تک کہ وہ اپنی راہ گزرگئے۔ محا ربی کہتے ہیں کہ اب ہم پھر ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جوابو را فع نے روا یت کی ہے بیان کر تے ہیں کہ '' دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی بر سا نے اور زمین کو غلہ اگا نے کا حکم دے گا، چنا نچہ با رش نازل ہو گی، اورغلہ اگے گا ، اور اس کا فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گز رے گا، وہ لو گ اس کو جھو ٹا کہیں گے، تو ان کا کو ئی چوپا یہ باقی نہ رہے گا، بلکہ سب ہلا ک ہوجائیں گے۔
اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گز رے گا، وہ لو گ اس کی تصدیق کریں گے، پھروہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ برسے گا، اور زمین کو غلہ و اناج اگا نے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اگا ئے گی، یہاں تک کہ اس دن شام کو چرنے والے ان کے جا نور پہلے سے خو ب مو ٹے بھاری ہوکرلوٹیں گے، کو کھیں بھری ہو ئی، اور تھن دودھ سے لبریز ہوں گے ، مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر زمین کا کوئی خطہ ایسا نہ ہوگا جہاں دجال نہ جائے، اور اس پر غالب نہ آئے، مکہ اور مدینہ کا کوئی دروازہ ایسا نہ ہوگا جہاںفرشتے ننگی تلواروں کے سا تھ اس سے نہ ملیں، یہاں تک کہ دجال ایک چھو ٹی سرخ پہا ڑ ی کے پاس اترے گا، جہاں کھاری زمین ختم ہوئی ہے، اس وقت مدینہ میں تین مر تبہ زلزلہ آئے گا، جس کی وجہ سے مدینہ میں جتنے مرد اور عورتیں منا فق ہوں گے وہ اس کے پاس چلے جائیں گے اور مدینہ میل کو ایسے نکا ل پھینکے گا جیسے بھٹی لوہے کی میل کو دور کر دیتی ہے، اور اس دن کا نام یوم الخلا ص (چھٹکارے کا دن، یوم نجات ) ہو گا ''۔
أم شریک بنت ابی العسکر نے عر ض کیا کہ اللہ کے رسول !اس دن عرب کہاں ہوں گے؟آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس روز عرب بہت کم ہوں گے اور ان میں سے اکثر بیت المقدس میں ایک صالح امام کے ما تحت ہوں گے، ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر لوگوں کو صبح کی صلاۃ پڑھانے کے لیے کھڑاہو گا، کہ اتنے میں عیسی بن مر یم علیہما السلام صبح کے وقت نازل ہوں گے، تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پا ئوں پیچھے ہٹ آنا چاہے گا تا کہ عیسی علیہ السلام آگے بڑھ کر لو گوں کو صلاۃ پڑھا سکیں، لیکن عیسی علیہ السلام اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے کہ تم ہی آگے بڑھ کر صلاۃ پڑھا ئو اس لئے کہ تمہا رے ہی لئے تکبیر کہی گئی ہے، خیر وہ امام لوگوں کو صلاۃ پڑھا ئے گا ،جب وہ صلاۃ سے فارغ ہو گا تو عیسی علیہ السلام( قلعہ والوں سے) فرمائیں گے کہ دروازہ کھو لو،تو دروازہ کھول دیا جائے گا، اس (دروازے) کے پیچھے دجال ہوگا ،اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے، ہر یہودی کے پاس سونا چاندی سے مرصع ومزین تلوار اور سبز چادر ہوگی، جب یہ دجال عیسی علیہ السلام کو دیکھے گا، تو اس طرح گھلے گا جس طرح پا نی میں نمک گھل جا تا ہے، اور وہ انہیں دیکھ کر بھا گ کھڑا ہوگا، عیسی علیہ السلام اس سے کہیں گے :تجھے میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھا نی ہے تو اس سے بچ نہ سکے گا، آخر کاروہ اسے لُد کے مشرقی دروازے کے پاس پکڑ لیں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، پھراللہ تعا لی یہو دیوں کو شکست دے گا، اور یہودی اللہ تعالی کی مخلو قات میں سے جس چیز کی بھی آڑ میں چھپے گا، خو اہ وہ درخت ہو یا پتھر، دیوار ہو یا جانور، اس چیز کو اللہ تعالی بو لنے کی طا قت دے گا، اور ہر چیز کہے گی: اے اللہ کے مسلمان بندے !یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہو اہے، اسے آکر قتل کر دے، سوائے ایک درخت کے جس کو غرقد کہتے ہیں، یہ یہودیوں کے درختو ں میں سے ایک درخت ہے یہ نہیں بولے گا''۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دجال چالیس سال تک رہے گا ،جن میں سے ایک سال چھ مہینہ کے برابر ہو گا، اور ایک سال ایک مہینہ کے برابر ہوگا، اور ایک مہینہ جمعہ ( ایک ہفتہ ) کے برابر اور دجال کے با قی دن ایسے گزرجا ئیں گے جیسے چنگا ری اڑجاتی ہے، اگر تم میںسے کو ئی مدینہ کے ایک دروازے پر صبح کے وقت ہو گا، تو اسے دوسرے دروازے پرپہنچتے پہنچتے شام ہوجائے گی'' ، آپ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول !اتنے چھو ٹے دنوں میں ہم صلاۃ کس طرح پڑھیں گے؟آپ ﷺ نے فرمایا:''جس طرح تم ان بڑے دنوں میں اندا زہ کر کے پڑھتے ہو اسی طرح ان (چھوٹے) دنوں میں بھی اندا زہ کر کے پڑھ لینا'' ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عیسی علیہ السلام میری امت میں ایک عا دل حاکم اور منصف امام ہوں گے، صلیب کو تو ڑ یں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے، اور صدقہ وزکاۃ لینا چھوڑ دیں گے، تو یہ بکریوں اور گھوڑوں پر وصول نہیں کیا جائے گا، لو گوں کے دلوں سے کینہ اور بغض اٹھ جا ئے گا، اور ہر قسم کے زہر یلے جا نور کا زہر جا تا رہے گا ، حتی کہ اگر بچہ سا نپ کے منہ میں ہا تھ ڈالے گا تو وہ اسے نقصان نہ پہنچا ئے گا، اوربچی شیر کو بھگا ئے گی تو وہ اسے کو ئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، بھیڑیا بکریوں میں اس طرح رہے گا جس طرح محا فظ کتا بکریوں میں رہتا ہے، زمین صلح اور انصاف سے ایسے بھر جا ئے گی جیسے برتن پانی سے بھر جا تا ہے، اور (سب لوگوں کا ) کلمہ ایک ہو جا ئے گا، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جا ئے گی، لڑائی اپنے سامان رکھ دے گی ( یعنی دنیا سے لڑائی اٹھ جا ئے گی) قریش کی سلطنت جا تی رہے گی، اور زمین چاندی کی طشتری کی طرح ہوگی ، اپنے پھل اورہر یا لی ایسے اگا ئے گی جس طرح آدم کے عہد میں اگا یا کر تی تھی، یہاں تک کہ انگور کے ایک خو شے پر ایک جماعت جمع ہو جائے گی تو سب آسودہ ہو جا ئیں گے، اور ایک انا ر پر ایک جما عت جمع ہو جا ئے گی تو سب آسودہ ہو جائیں گے، اور بیل اتنے اتنے داموں میں ہوں گے، اور گھو ڑے چند درہموں میں ملیں گے'' ، لوگوںنے عرض کیا: اللہ کے رسول !گھوڑے کیوں سستے ہوں گے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:''لڑائی کے لئے گھوڑوں پر سواری نہیں ہوگی ''، پھرآپ سے عرض کیا گیا : بیل کیوں مہنگا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''سا ری زمین میں کھیتی ہو گی اور دجال کے ظہور سے پہلے تین سال تک سخت قحط ہو گا، ان تینوں سالوں میں لو گ بھو ک سے سخت تکلیف اٹھا ئیں گے، پہلے سال اللہ تعالی آسمان کو تہا ئی با رش روکنے اور زمین کو تہا ئی پیداوا ر روکنے کا حکم دے گا، پھر دوسرے سال آسمان کو دو تہا ئی با رش روکنے اور زمین کو دو تہا ئی پیدا وار روکنے کا حکم دے گا، اور تیسرے سال اللہ تعالی آسمان کو یہ حکم دے گا کہ با رش بالکل روک لے پس ایک قطرہ بھی با رش نہ ہو گی، اور زمین کو یہ حکم دے گا کہ وہ اپنے سارے پودے روک لے تو وہ اپنی تما م پیدا وار روک لے گی، نہ کو ئی گھاس اُگے گی، نہ کو ئی سبزی ،بالآخر کھر والے جانور (گائے بکری وغیرہ چو پا ئے ) سب ہلا ک ہو جائیں گے،کو ئی با قی نہ بچے گا مگر جسے اللہ بچا لے''، عر ض کیا گیا: پھر اس وقت لوگ کس طرح زندہ رہیں گے؟آپ نے فرمایا:تہلیل (لا إله إلاَّ الله) تکبیر (الله أكبر ) تسبیح (سبحان الله) اور تحمید (الحمد لله) کا کہنا، ان کے لئے غذا کاکام دے گا۔
ابو عبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن طنا فسی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبدالرحمن محا ربی سے سنا وہ کہتے تھے : یہ حدیث تو اس لا ئق ہے کہ مکتب کے استادوں کو دے دی جا ئے تا کہ وہ مکتب میں بچوں کو یہ حدیث پڑھا ئیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ اس حدیث کے مخالف نہیں ہے کہ دجال چالیس دن رہے گا کیونکہ وہ لمبے چالیس دنوں کا ذکر ہے اور یہ چالیس برس اس کے سوا ہیں جن میں دن معمولی مقدار سے چھوٹے ہوں گے اور بعضوں نے کہا کہ دجال کے زمانہ میں کبھی دن چھوٹا ہوگا کبھی بڑا ۔
وضاحت ۲ ؎ : کیونکہ اس میں دجال کا پورا حال مذکور ہے ، اور بچوں کو اس کا یادرکھنا ضروری ہے تاکہ دجال کی اچھی طرح پہچان رکھیں اوراس کے فتنے میں گرفتار نہ ہوں، اللہ تعالی ہر مسلمان کو دجال کے فتنے سے بچائے، رسول اکرم ﷺ ہرصلاۃ میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے۔
4078- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، وَإِمَامًا عَدْلا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ "۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۰۲ (۲۲۲۲)، المظالم ۳۱ (۲۴۷۶)، أحادیث الأنبیاء ۴۹ (۳۴۴۸، ۳۴۴۹)، م/الإیمان ۷۱ (۱۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۵)، وقد أخرجہ: د/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۴)، ت/الفتن ۵۴ (۲۲۳۳)، حم (۲/۲۴۰، ۲۷۲) (صحیح)
۴۰۷۸- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسی بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نا زل نہ ہوں، وہ آکر صلیب کو تو ڑ یں گے، سو ر کو قتل کر یں گے، اور جز یہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کو ئی قبول کر نے والا نہ ہو گا'' ۔
4079- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " تُفْتَحُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، فَيَخْرُجُونَ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} فَيَعُمُّونَ الأَرْضَ، وَيَنْحَازُ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ، حَتَّى تَصِيرَ بَقِيَّةُ الْمُسْلِمِينَ فِي مَدَائِنِهِمْ وَحُصُونِهِمْ، وَيَضُمُّونَ إِلَيْهِمْ مَوَاشِيَهُمْ، حَتَّى أَنَّهُمْ لَيَمُرُّونَ بِالنَّهَرِ فَيَشْرَبُونَهُ، حَتَّى مَا يَذَرُونَ فِيهِ شَيْئًا فَيَمُرُّ آخِرُهُمْ عَلَى أَثَرِهِمْ، فَيَقُولُ قَائِلُهُمْ: لَقَدْ كَانَ بِهَذَا الْمَكَانِ، مَرَّةً، مَائٌ، وَيَظْهَرُونَ عَلَى الأَرْضِ، فَيَقُولُ قَائِلُهُمْ: هَؤُلاءِ أَهْلُ الأَرْضِ، قَدْ فَرَغْنَا مِنْهُمْ، وَلَنُنَازِلَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيَهُزُّ حَرْبَتَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدَّمِ، فَيَقُولُونَ: قَدْ قَتَلْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ،فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ بَعَثَ اللَّهُ دَوَابَّ كَنَغَفِ الْجَرَادِ، فَتَأْخُذُ بِأَعْنَاقِهِمْ فَيَمُوتُونَ مَوْتَ الْجَرَادِ، يَرْكَبُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَيُصْبِحُ الْمُسْلِمُونَ لا يَسْمَعُونَ لَهُمْ حِسًّا، فَيَقُولُونَ: مَنْ رَجُلٌ يَشْرِي نَفْسَهُ، وَيَنْظُرُ مَا فَعَلُوا؟ فَيَنْزِلُ مِنْهُمْ رَجُلٌ قَدْ وَطَّنَ نَفْسَهُ عَلَى أَنْ يَقْتُلُوهُ، فَيَجِدُهُمْ مَوْتَى، فَيُنَادِيهِمْ: أَلا أَبْشِرُوا، فَقَدْ هَلَكَ عَدُوُّكُمْ، فَيَخْرُجُ النَّاسُ وَيَخْلُونَ سَبِيلَ مَوَاشِيهِمْ، فَمَا يَكُونُ لَهُمْ رَعْيٌ إِلا لُحُومُهُمْ، فَتَشْكَرُ عَلَيْهَا، كَأَحْسَنِ مَا شَكِرَتْ مِنْ نَبَاتٍ أَصَابَتْهُ قَطُّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۹۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۷۷) (حسن صحیح)
۴۰۷۹- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یا جو ج وما جو ج کھو ل دئیے جائیں گے، پھر وہ باہر آئیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ } [سورة الأنبياء : 96] ( یہ لوگ ہر اونچی زمین سے دوڑتے آئیں گے) پھر ساری زمین میں پھیل جا ئیں گے، اور مسلمان ان سے علا حدہ رہیں گے، یہاں تک کہ جو مسلمان با قی رہیں گے وہ اپنے شہروں اور قلعوں میں اپنے مو یشیوں کو لے کر پنا ہ گز یں ہو جا ئیں گے، یہاں تک کہ یاجوج وماجوج نہر سے گزریں گے، اس کا سا را پانی پی کر ختم کر دیں گے،اس میں کچھ بھی نہ چھو ڑیں گے، جب ان کے پیچھے آنے والوں کا وہا ں پر گزر ہو گا تو ان میں کا کوئی یہ کہے گا کہ کسی زما نہ میں یہاں پانی تھا، اور وہ زمین پر غالب آجا ئیں گے، تو ان میںسے کوئی یہ کہے گا: ان اہل زمین سے توہم فا رغ ہو گئے ، اب ہم آسمان والوں سے لڑیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک اپنا نیزہ آسمان کی طرف پھینکے گا، وہ خو ن میں رنگا ہو الوٹ کر گر ے گا، پس وہ کہیں گے : ہم نے آسمان والوں کو بھی قتل کر دیا، خیر یہ لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالی چند جانور بھیجے گا، جو ٹڈی کے کیڑوں کی طرح ہوں گے، جو ان کی گردنوں میں گھس جا ئیں گے، یہ سب کے سب ٹڈیوں کی طرح مرجائیں گے، ان میں سے ایک پر ایک پڑا ہوگا، اور جب مسلمان اس دن صبح کو اٹھیں گے، اور ان کی آہٹ نہیں سنیں گے تو کہیں گے:کو ئی ایسا ہے جو اپنی جا ن ہتھیلی پر رکھ کر کے انہیں دیکھ کر آئے کہ یاجوج ماجوج کیا ہوئے؟ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص ( قلعہ سے ) ان کا حال جا ننے کے لئے نیچے اترے گا، اور دل میں خیال کرے گا کہ وہ مجھ کو ضرور ما ر ڈالیں گے ،خیر وہ انہیں مردہ پا ئے گا، تو مسلمانوں کو پکا ر کر کہے گا : سنو!خو ش ہو جا ئو !تمہا را دشمن ہلاک ہو گیا، یہ سن کر لوگ نکلیں گے اور اپنے جا نو ر چرنے کے لئے آزاد چھو ڑیں گے، اوران کے گو شت کے سواکو ئی چیز انہیں کھا نے کے لئے نہ ملے گی، اس وجہ سے ان کا گو شت کھا کھا کر خو ب مو ٹے تا زے ہوں گے، جس طرح کبھی گھا س کھا کر موٹے ہوئے تھے'' ۔
4080- حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَحْفِرُونَ كُلَّ يَوْمٍ، حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمُ: ارْجِعُوا فَسَنَحْفِرُهُ غَدًا، فَيُعِيدُهُ اللَّهُ أَشَدَّ مَا كَانَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ مُدَّتُهُمْ، وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ، حَفَرُوا، حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمُ: ارْجِعُوا، فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، وَاسْتَثْنَوْا، فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ، وَهُوَ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ، فَيَحْفِرُونَهُ وَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ فَيُنْشِفُونَ الْمَاءَ، وَيَتَحَصَّنُ النَّاسُ مِنْهُمْ فِي حُصُونِهِمْ، فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَتَرْجِعُ عَلَيْهَا الدَّمُ الَّذِي اجْفَظَّ، فَيَقُولُونَ: قَهَرْنَا أَهْلَ الأَرْضِ، وَعَلَوْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ،فَيَبْعَثُ اللَّهُ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَقْتُلُهُمْ بِهَا " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! إِنَّ دَوَابَّ الأَرْضِ لَتَسْمَنُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ "۔
* تخريج: ت/التفسیر ۱۹ (۳۱۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۱۰، ۵۱۱) (صحیح)
۴۰۸۰- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یاجوج وما جو ج ہر روز ( اپنی دیوار) کھو دتے ہیں یہاں تک کہ جب قریب ہو تا ہے کہ سو رج کی روشنی ان کو دکھا ئی دے تو جو شخص ان کا سر دا ر ہوتا ہے وہ کہتا ہے: اب لوٹ چلو ( باقی ) کل کھودیں گے، پھر اللہ تعالی اسے ویسی ہی مضبو ط کر دیتا ہے جیسی وہ پہلے تھی، یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہوجا ئے گی، اور اللہ تعالی کو ان کا خروج منظو ر ہو گا، تو وہ ( عا دت کے مطا بق) دیوار کھودیں گے جب کھو دتے کھودتے قریب ہو گا کہ سورج کی روشنی دیکھیںتو اس وقت ان کا سر دا ر کہے گا کہ اب لو ٹ چلو، ان شاء اللہ کل کھودیں گے، اور ان شاء اللہ کا لفظ کہیں گے، چنا نچہ (اس دن) وہ لو ٹ جا ئیں گے، اور دیو ار اسی حال پر رہے گی، جیسے وہ چھوڑ گئے تھے، پھر وہ صبح آکر اسے کھو دیں گے اور اسے کھو د کر باہر نکلیں گے، اور سا را پانی پی کرختم کر دیں گے، اور لو گ ( اس وقت) بھا گ کر اپنے قلعوں میں محصور ہو جا ئیں گے، یہ لو گ (زمین پر پھیل کر) ا ٓسمان کی جانب اپنے تیر ماریں گے، تو ان کے تیرخون میں لت پت ان کے پاس لوٹیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو تو مغلو ب کیا، اور آسمان والوں پر بھی غالب ہوئے، پھر اللہ تعالی ان کی گدیوں ( گر دنوں ) میں کیڑے پیدا فرمائے گاجو انہیں ما ر ڈالیں گے''، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اس ذات کی قسم جس کے ہا تھ میں میری جا ن ہے! زمین کے جا نور ان کا گوشت اور چر بی کھاکر خو ب مو ٹے ہوں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حالانکہ گائے بیل بکری اونٹ وغیرہ چو پائے گوشت نہیں کھاتے مگر چارہ نہ ہو نے کی وجہ سے یا جوج کا گوشت کھائیں گے اور کھا کر خوب موٹے ہوجائیں گے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یا جوج قیامت تک اس سد (باندھ) سے رُکے رہیں گے ، جب ان کے چھوٹنے کا وقت آئے گا تو سد(باندھ) ٹوٹ جائے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یا جوج وماجوج محض صحرائی اور وحشی ہوں گے جب تو تیرو کمان ان کا ہتھیار ہوگا، اور جہالت کی وجہ سے آسمان پر تیر ماریں گے وہ یہ نہیں جانیں گے کہ آسمان زمین سے اتنی دور ہے کہ برسوں تک بھی اگر تیرا ن کا چلاجائے تو وہاں تک مشکل سے پہنچے گا۔
4081- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنِي جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ، عَنْ مُؤْثِرِ بْنِ عَفَازَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، لَقِيَ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى، فَتَذَاكَرُوا السَّاعَةَ، فَبَدَئُوا بِإِبْرَاهِيمَ، فَسَأَلُوهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ، ثُمَّ سَأَلُوا مُوسَى، فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ، فَرُدَّ الْحَدِيثُ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَقَالَ: قَدْ عُهِدَ إِلَيَّ فِيمَا دُونَ وَجْبَتِهَا، فَأَمَّا وَجْبَتُهَا فَلا يَعْلَمُهَا إِلا اللَّهُ، فَذَكَرَ خُرُوجَ الدَّجَّالِ، قَالَ: فَأَنْزِلُ فَأَقْتُلُهُ، فَيَرْجِعُ النَّاسُ إِلَى بِلادِهِمْ، فَيَسْتَقْبِلُهُمْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَلا يَمُرُّونَ بِمَائٍ إِلا شَرِبُوهُ، وَلا بِشَيْئٍ إِلا أَفْسَدُوهُ، فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ، فَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُمِيتَهُمْ، فَتَنْتُنُ الأَرْضُ مِنْ رِيحِهِمْ، فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ، فَأَدْعُو اللَّهَ، فَيُرْسِلُ السَّمَاءَ بِالْمَاءِ، فَيَحْمِلُهُمْ فَيُلْقِيهِمْ فِي الْبَحْرِ، ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ وَتُمَدُّ الأَرْضُ مَدَّ الأَدِيمِ، فَعُهِدَ إِلَيَّ: مَتَى كَانَ ذَلِكَ، كَانَتِ السَّاعَةُ مِنَ النَّاسِ كَالْحَامِلِ الَّتِي لايَدْرِي أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلادَتِهَا، قَالَ الْعَوَّامُ: وَوُجِدَ تَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى {حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ}۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۹۰، ومصباح الزجاجۃ:۱۴۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۵) (ضعیف)
(مؤثربن عفا زہ مقبول عند المتابعہ ہیں، متابعت کی نہ ہونے وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)
۴۰۸۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسراء (معراج) کی رات رسول اللہ ﷺ نے ابرا ہیم، مو سیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی، تو سب نے آپس میں قیا مت کا ذکر کیا ، پھر سب نے پہلے ابرا ہیم علیہ السلام سے قیا مت کے متعلق پو چھا، لیکن انہیں قیا مت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے مو سیٰ علیہ السلام سے پو چھا، تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے پو چھا تو انہوں نے فرمایا: قیامت کے آدھمکنے سے کچھ پہلے ( دنیا میں جا نے کا ) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے، لیکن قیامت کے آنے کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے ( کہ وہ کب قائم ہو گی )،پھر عیسیٰ علیہ السلام نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا، اور فرمایا: میں ( زمین پر ) اتر کر اسے قتل کر وں گا ، پھر لو گ اپنے اپنے شہروں ( ملکوں) کو لو ٹ جائیں گے ، اتنے میں یاجوج و ما جو ج ان کے سامنے آئیں گے، اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے، وہ جس پانی سے گزریں گے اسے پی جائیں گے، اور جس چیز کے پاس سے گز ریں گے، اسے تباہ و بر باد کر دیں گے، پھر لو گ اللہ سے دعا کر نے کی در خواست کریں گے، میں اللہ سے دعا کر وں گا کہ انہیں ما ر ڈالے ( چنا نچہ وہ سب مر جا ئیں گے) ان کی لا شوں کی بو سے تمام زمین بدبو دار ہو جائے گی، لوگ پھر مجھ سے دعا کے لئے کہیں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کروں گا، تو اللہ تعالی آسمان سے با رش نا ز ل فرما ئے گا جو ان کی لا شیں اٹھا کر سمندر میں بہا لے جائے گی، اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کردئیے جا ئیں گے، اور زمین چمڑے کی طرح کھینچ کر درا ز کر دی جا ئے گی، پھر مجھے بتا یا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر ہوں تو قیامت لو گوں سے ایسی قریب ہو گی جس طرح حا ملہ عورت کے حمل کا زما نہ پورا ہو گیا ہو، اور وہ اس انتظا ر میں ہو کہ کب ولا دت کا وقت آئے گا، اور اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہ ہو ۔
عوام (بن حوشب) کہتے ہیں کہ اس وا قعہ کی تصدیق اللہ کی کتا ب میں مو جو د ہے : {حتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ } (سورة الأنبياء : 96) ( یہاں تک کہ جب یا جو ج و ما جو ج کھول دئیے جا ئیں گے، تو پھر وہ ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے) ۔