• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب الْحَيَاءِ
۱۷- باب: شرم و حیا کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : شرم وحیا عمدہ صفت ہے جو آدمی کو برے کام اور گناہ کے کام کرنے سے روکتی ہے اور یہی محمود اور قابل تعریف حیا ہے لیکن نیک کام میں شرم وحیا کرنا ضعف نفس ہوتا ہے ، اور وہ مذموم ہے، اسی طرح دین کے مسائل دریافت کرنے میں حیا کرنا بھی برا ہے ، عورتیں رسول اکرم ﷺ سے حیض اور نفاس کے مسائل بلاتکلف پوچھتیں بہر حال حق اور عمدہ بات میں کوئی شرم نہ کرنی چاہئے، اس زمانہ میں عجب حال ہوگیا ہے کہ نیک کام سے تو لوگ شرم کرتے ہیں، مثلا محنت مزدوری کر کے روٹی کمانے سے شرم کرتے ہیں ،جب کہ چوری، دغابازی اور رشوت خوری میں شرم نہیں کرتے ، اسی طرح بعض عورتیں نکاح ثانی میں شرم کرتی ہیں، جبکہ زنا اور حرام کاری میں بے حجابی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،اور اس وقت تو خلاف شرع کاموں میں جرأت وبے باکی اتنی بڑھ گئی ہے کہ الامان والحفیظ۔


4180- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي عُتْبَةَ، مَوْلًى لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَشَدَّ حَيَائً مِنْ عَذْرَاءَ فِي خِدْرِهَا، وَكَانَ إِذَا كَرِهَ شَيْئًا، رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۶۲، ۳۵۶۳)، م/الفضائل ۱۶ (۲۳۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۷۱، ۷۹، ۸۸، ۹۱، ۹۲) (صحیح)
۴۱۸۰- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ، اور جب آپ کو کوئی چیز ناگوار لگتی تو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہو جاتا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ دل کی صفائی پر دلالت کرتا ہے، جس کادل اورزبان ایک ہو یعنی ظاہر اور باطن، وہی آدمی ہے، اور ظاہر کچھ باطن کچھ یہ اسلام کا شیوہ نہیں، نفاق کی خصلت سے اللہ تعالی بچائے ۔


4181- حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الإِسْلامِ الْحَيَاءُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۸۴) (حسن)
(سند میں معاویہ بن یحییٰ صدفی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو، الصحیحہ : ۹۴۰)
۴۱۸۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے '' ۔


4182- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَإِنَّ خُلُقَ الإِسْلامِ الْحَيَاءُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۸۵) (حسن)
(صالح بن حسان متروک اور سعید الوراق ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۹۴۰)
۴۱۸۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے ، اور اسلام کا اخلاق حیا ہے''۔


4183- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلامِ النُّبُوَّةِ الأُولَى: إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ "۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۸۳)، د/الأدب ۷ (۴۷۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۱، ۱۲۲، ۵/۲۷۳ ) (صحیح)
۴۱۸۳- ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''گذشتہ کلام نبوت میں سے جو باتیں لوگوں کو ملی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں حیا نہ ہو تو جو چاہے کرو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جس کا ترجمہ یہ ہے ،بے حیا باش ہرچہ خواہی کن یعنی بری باتوں سے روکنے والی چیز شرم ہے، جب اسی کو آدمی نے اٹھادیا تو آزاد ہوگیا اب جو جی چاہئے وہ کرے۔


4184- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ،وَالإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ، وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ ، (تحفۃ الأشراف:۱۱۶۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۸۶) (صحیح)
(سندمیں حسن بصری ہیں، جن کا سماع ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۴۹۵)
۴۱۸۴- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''حیا ایمان سے ہے، اور ایمان کا بدلہ جنت ہے، اور فحش گوئی جفا (ظلم و زیادتی) ہے اور جفا (ظلم زیادتی) کا بدلہ جہنم ہے '' ۔


4185- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْئٍ قَطُّ، إِلا شَانَهُ، وَلا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْئٍ قَطُّ،إِلا زَانَهُ "۔
* تخريج: ت/البروالصلۃ ۴۷ (۱۹۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۶۵) (صحیح)
۴۱۸۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنادے گی، اور حیا جس چیز میںہو اس کو خوب صورت بنادے گی '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب الْحِلْمِ
۱۸- باب: حلم اور بردباری کا بیا ن ۱ ؎​
وضاحت ۱؎ : حلم اور بردباری یہ ہے کہ آدمی ذرا ذرا سی بات پر جلدی غصہ نہ ہو جیسے بیوقوفوں کی عادت ہوتی ہے بلکہ دنیا کے لئے غصہ ہی نہ ہو البتہ اللہ تعالی کی رضامندی کے واسطے غصہ ہو اس پر جو خلاف شرع کام کرے، اور توبہ کے ساتھ ہی پھر غصہ دور کر ے۔


4186- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ ابْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنْ كَظَمَ غَيْظًا، وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللَّهُ عَلَى رُئُوسِ الْخَلائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ "۔
* تخريج: د/الأدب ۳ (۴۷۷۷)، ت/البروالصلۃ ۷۴ (۲۰۲۱)، وصفۃ القیامۃ ۴۸ (۲۴۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۸، ۴۴۰) (حسن)
۴۱۸۶- معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے غصے پر قابو پالیا اس حال میں کہ وہ اس کے کرگزرنے پر قادر تھا، تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا، اور اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے اپنے لئے چن لے ''۔


4187- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عُمَارَةَ الْعَبْدِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: " أَتَتْكُمْ وُفُودُ عَبْدِالْقَيْسِ " وَمَا يَرَى أَحَدٌ فِينَا نَحْنُ كَذَلِكَ، إِذْ جَائُوا فَنَزَلُوا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، وَبَقِيَ الأَشَجُّ الْعَصَرِيُّ، فَجَاءَ بَعْدُ فَنَزَلَ مَنْزِلا، فَأَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، وَوَضَعَ ثِيَابَهُ جَانِبًا، ثُمَّ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَا أَشَجُّ! إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ: الْحِلْمَ وَالتُّؤَدَةَ "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَشَيْئٌ جُبِلْتُ عَلَيْهِ، أَمْ شَيْئٌ حَدَثَ لِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " بَلْ شَيْئٌ جُبِلْتَ عَلَيْهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۸۷) (ضعیف جدا)
(سندمیں عمارہ بن جوین متروک ہے)
۴۱۸۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے پاس قبیلۂ عبدالقیس کے وفود آئے ہیں، اور کوئی اس وقت نظر نہیں آرہاتھا ، ہم اسی حال میں تھے کہ وہ آپہنچے ، اترے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئے ، اشج عصری رضی اللہ عنہ باقی رہ گئے، وہ بعد میں آئے ، ایک مقام پر اترے ، اپنی اونٹنی کو بٹھایا ، اپنے کپڑے ایک طرف رکھے پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اے اشج ! تم میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے : ایک تو حلم وبردباری، دوسری طما نینت وسہولت، اشج رضی اللہ عنہ نے کہا :اللہ کے رسول ! یہ صفات میری خلقت میں ہے یا نئی پیدا ہوئی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' نہیں ، یہ پیدائشی ہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حلم اور وقار انسان میں فطری ہوتا ہے ، اسی طرح غصہ اور جلدبازی بھی پیدائشی فطری ہوتے ہیں ، لیکن اگر آدمی محنت کرے اور نفس پر بارڈالے تو بری صفات اوربرے اخلاق دور ہو سکتے ہیں، یا کم ہو سکتے ہیں ،محققین علماء کایہی قول ہے، اور اگر برے اخلاق کا علاج ممکن نہ ہوتا تو تعلیم اخلاق ،محنت وریاضت اور مجاہدہ کا کچھ فائدہ ہی نہ ہوتا، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ فطری عیوب بہت مشکل سے جاتے ہیں ، یا کم ہوتے ہیں ۔


4188- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحاقَ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لِلأَشَجِّ الْعَصَرِيِّ "إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ:الْحِلْمَ وَالْحَيَاءَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۳۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۸۸)، وقد أخرجہ: ت/البروالصلۃ ۶۶ (۲۰۱۱) (صحیح)
(سندمیں عباس بن فضل انصاری متروک ہے، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، لیکن لفظ '' الاناۃ '' کے ساتھ)
۴۱۸۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اشج عصری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: '' تم میں دو خصلتیں ہیں جو اللہ تعالی کو محبوب ہیں : ایک حلم او ر دوسری حیا '' ۔


4189- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا مِنْ جُرْعَةٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ، مِنْ جُرْعَةِ غَيْظٍ، كَظَمَهَا عَبْدٌ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۹۰، ومصباح الزجاجۃ:۱۴۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۸) (صحیح)
۴۱۸۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' کسی گھونٹ پینے کا ثواب اللہ تعالی کے یہاں اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا اللہ تعالی کی رضا کے لئے غصہ کا گھونٹ پینے کا ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب الْحُزْنِ وَالْبُكَاءِ
۱۹- باب: غمگین ہونے اور رونے کا بیان​


4190- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنِّي أَرَى مَا لا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لاتَسْمَعُونَ، إِنَّ السَّمَاءَ أَطَّتْ وَحَقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ، مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ! لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ،لَضَحِكْتُمْ قَلِيلا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشَاتِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ " وَاللَّهِ! لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۶)، وقد أخرجہ: ت/الزھد ۹ (۲۳۱۲)، حم (۳/۱۷۳) (حسن)
(''واللہ لوددت ''کے بغیر حدیث حسن ہے، یہ ابوذر رضی اللہ عنہ کا قول ہے، جیسا کہ مسند احمد میں بصراحت آیا ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۱۷۲۲ )
۴۱۹۰- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، اور سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے ، بیشک آسمان چرچرارہا ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، اس میں چارانگل کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور سجدے میں رکھے ہوئے ہے ، اللہ کی قسم! اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ، اور تم بستروںپر اپنی عورتوں سے لطف اندوزنہ ہوتے ،اور تم میدانوں کی طرف نکل جاتے اللہ تعالی سے فریاد کرتے ہوئے''، اللہ کی قسم ! میری تمنا ہے کہ میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ۔


4191- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۶)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۲۵ (۴۲۶)، حم (۳/۱۰۲، ۱۲۶، ۱۵۴، ۱۹۳، ۲۱۰، ۲۱۷، ۲۴۰، ۲۴۵، ۲۵۱، ۲۶۸، ۲۹۰)، دي/الرقاق ۲۶ (۲۷۷۸) (صحیح)
۴۱۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو ہنستے کم اور روتے زیادہ '' ۔


4192- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ عَامِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ إِسْلَامِهِمْ وَبَيْنَ أَنْ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ، يُعَاتِبُهُمُ اللَّهُ بِهَا، إِلا أَرْبَعُ سِنِينَ {وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ}۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۶۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۰) (حسن)
۴۱۹۲- عامر بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ان کے والد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ ان کے اسلام اور اس آیت {وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ}[سورة الحديد : 16] (اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب عطا کی گئی ، ان پر مدت طویل ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ) کے نزول کے درمیان جس میں اللہ تعالی نے ان پرعتاب کیا ہے صرف چار سال کا وقفہ ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ان لوگوں کی طرح نہہو جن کو اگلے زمانہ میں کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر مدت درازگزری تو ان کے دل سخت ہوگئے ان میں بہت سے لوگ فاسق ہیں۔


4193- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لاتُكْثِرُوا الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۱) (صحیح)
۴۱۹۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' زیادہ نہ ہنسا کرو ، کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے ''۔


4194- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: " اقْرَأْ عَلَيَّ " فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ بِسُورَةِ النِّسَاءِ، حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا} فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ،فَإِذَا عَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ۔
* تخريج: ت/تفسیرالقرآن ۵ (۳۰۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۲۸)، وقد أخرجہ: خ/تفسیر القرآن ۹ (۴۵۸۲)، فضائل القرآن ۳۲ (۵۰۴۹)، م/المسافرین ۴۰ (۸۰۰)، د/العلم ۱۳ (۳۶۶۸)، حم (۱/۳۰۸، ۴۳۲) (صحیح)
۴۱۹۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: '' میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو ،تو میں نے آپ کے سامنے سورہ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت{ َفكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا }[سورة النساء:41] ( تو اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اورپھرہم تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے ) پر پہنچا تو میں نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اپنی امت کے برے اعمال کا خیال کر کے اور اس پر کہ مجھے ان پر گواہی دینی پڑے گی، اے مسلمانو! رسول اکرم ﷺ سے شرم کرو اور کوشش کرو کہ رسول اکرم ﷺ تمہارے نیک اعمال کے گواہ ہوں ، اور برے اعمال کر کے آپ کو رنج مت دو ،اور ضد نفسانیت اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دو ،جو طریقہ حق ہے یعنی اتباع قرآن اور حدیث اس کو اخیار کرو تمہارے نبی تم سے راضی رہیں گے ۔


4195- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا إِسْحاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُورَجَائٍ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي جِنَازَةٍ، فَجَلَسَ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ، فَبَكَى، حَتَّى بَلَّ الثَّرَى، ثُمَّ قَالَ: " يَا إِخْوَانِي! لِمِثْلِ هَذَا فَأَعِدُّوا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۹۴) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: ۵۲۷)
۴۱۹۵- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک جنازے میں تھے ،آپ قبر کے کنارے بیٹھ گئے ،اور رونے لگے یہاں تک کہ مٹی گیلی ہوگئی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''میرے بھائیو ! اس جیسی کے لئے تیاری کرلو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : تم اس طرح ایک دن تنگ وتار یک قبر میں ڈالے جاؤگے، نہ کوئی یار ہوگا، نہ مدد گار ، نئی راہ اور راہ بتانے والا کوئی نہیں، نہ رفیق صرف اپنے نیک اعمال رفیق ہوں گے، باقی سب چھٹ جائیں گے، مال متاع آل واولاد ،وغیرہ سب یہیں رہ جائیں گے، اور مرنے کے بعد تم کو مٹی میں دبا کے لوٹ کر عیش کریں گے، جب یہ حال ہے تو تم ان کی محبت میں اللہ تعالی کو مت بھولو، نیک اعمال کو ہرگز نہ چھوڑو، اس کو اپنا محبوب اور رفیق سمجھو، جو رشتہ داروں، دوستوں اور بیو ی بچوں سے ہزار درجہ بہتر ہے ، وہ تمہارا ساتھ کبھی نہ چھوڑے گا، جب نبی اکرم ﷺ دیکھ کر اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی حالانکہ آپ کو اپنی نجات کا یقین تھا، تو ہم اگرآنسوؤں کی ندی بہادیں بلکہ ساری عمر رویا کریں تو زیبا ہے ،ہمیں معلوم نہیں کہ وہاں ہمارا کیا حال ہوگا ۔ اللهم اغفر لنا وارحمنا، آمين.


4196- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " ابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۰۰، و مصباح الزجاجۃ: ) (ضعیف)
( سند میں ابو رافع اور عبد الرحمن بن سا ئب دو نوں ضعیف ہیں )
۴۱۹۶- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم رویا کرو ، اگر رونا نہ آئے تو تکلف کرکے رؤو''۔


4197- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ دُمُوعٌ، وَإِنْ كَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ، مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، ثُمَّ تُصِيبُ شَيْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ ـ إِلا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۳) (ضعیف)
(سند میں حماد بن ابی حمید الزرقی ضعیف راوی ہیں)
۴۱۹۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس مومن کی آنکھ سے اللہ تعالی کے خوف کی وجہ سے آنسو بہہ نکلیں ، خواہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ، پھر وہ اس کے رخساروں پر بہیں تو اللہ تعالی اس کو جہنم پر حرام کردے گا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب التَّوَقِّي عَلَى الْعَمَلِ
۲۰- باب: عمل قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنے کا بیان​


4198- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! { وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ } أَهُوَ الَّذِي يَزْنِي وَيَسْرِقُ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ؟ قَالَ: " لا،يَا بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ (أَوْ يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ!) وَلَكِنَّهُ الرَّجُلُ يَصُومُ وَيَتَصَدَّقُ وَيُصَلِّي،وَهُوَ يَخَافُ أَنْ لا يُتَقَبَّلَ مِنْهُ "۔
* تخريج: ت/تفسیر القرآن ۲۴ (۳۱۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۵۹، ۲۰۵) (حسن)
۴۱۹۸- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول !{ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ}[سورة المو منون: 60] سے کیا وہ لوگ مراد ہیں جو زنا کرتے ہیں ، چوری کرتے ہیں اور شراب پیتے ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا: '' نہیں : ابوبکر کی بیٹی یا آپ ﷺ نے فرمایا: '' صدیق کی بیٹی! اس سے مراد وہ شخص ہے جو صوم رکھتا ہے ، صدقہ دیتا ہے، اور صلاۃ پڑھتا ہے ، اور ڈرتا رہتاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کا یہ عمل قبول نہ ہو '' ۔


4199- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عِمْرَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ رَبٍّ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّمَا الأَعْمَالُ كَالْوِعَاءِ، إِذَا طَابَ أَسْفَلُهُ، طَابَ أَعْلاهُ، وَإِذَا فَسَدَ أَسْفَلُهُ، فَسَدَ أَعْلاهُ "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۵۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۴) (صحیح) (الصحیحہ: ۱۷۳۴)
۴۱۹۹- معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا: '' اعمال برتن کی طرح ہیں ، جب اس میں نیچے اچھا ہوگا تو اوپر بھی اچھا ہوگا، اور جب نیچے خراب ہوگا تو اوپر بھی خراب ہوگا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : پس جو اعمال خلوص اور صدق دل سے کئے جائیں ان کی تاثیر آدمی پر پڑتی ہے ، اور لوگ خواہ مخواہ ایسے شخص کو اچھا سمجھتے ہیں،لیکن جو اعمال ریا کی نیت سے کئے جائیں اس کے کرنے والے پر نور نہیں ہوتا ،اور تامل سے اس کا خبیث باطن عاقل آدمی کو ظاہر ہوتا ہے۔


4200- حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍالْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ وَرْقَاءَ بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ ذَكْوَانَ أَبُوالزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا صَلَّى فِي الْعَلانِيَةِ فَأَحْسَنَ، وَصَلَّى فِي السِّرِّ فَأَحْسَنَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: هَذَا عَبْدِي حَقًّا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۳۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۳۷) (ضعیف)
(سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
۴۲۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بیشک جب بندہ سب کے سامنے صلاۃ پڑھتا ہے تو اچھی طرح پڑھتا ہے، اورتنہائی میں صلاۃ پڑھتا ہے تو بھی اچھی طرح پڑھتا ہے ،(ایسے ہی بندے کے متعلق) اللہ عزوجل فرماتا ہے : یہ حقیقت میں میرا بندہ ہے '' ۔


4201- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى قَالا: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " قَارِبُوا وَسَدِّدُوا، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ بِمُنْجِيهِ عَمَلُهُ " قَالُوا: وَلا أَنْتَ ؟ يَارَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " وَلا أَنَا، إِلا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۶) (صحیح)
(سندمیں شریک بن عبداللہ القاضی متفق علیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۲۶۰۲)
۴۲۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میانہ روی اختیار کرو ،اور سیدھے راستے پر رہو، کیوں کہ تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات دلانے والا نہیں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: '' اللہ کے رسول ! آپ کوبھی نہیں ؟! آپ ﷺ نے فرمایا: '' اورمجھے بھی نہیں! مگر یہ کہ اللہ تعالی اپنی رحمت وفضل سے مجھے ڈھانپ لے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : قاربوا اور سددوا دونوں کے معنی قریب ہی کے ہیں ، یعنی عبادت میں اعتدال کرو اور میا نہ روی پر مضبوطی سے رہو، جہاںتک خوشی سے ہو سکے عبادت کرو، جب دل اکتا جائے تو عبادت بندکردو، بعضوں نے کہا : قاربوا کا یہ معنی ہے کہ عبادت سے اللہ تعالی کی قربت چاہو ،بعضوں نے کہا: کثرت عبادت سے قرب حاصل کرو لیکن صحیح وہی ترجمہ ہے جو اوپر لکھا گیا اور وہی مناسب ہے اس عبادت کے ، کسی کو اس کے اعمال نجات نہیں دیں گے، اس حدیث سے فخر اور تکبر کی جڑ کٹ گئی، اگر کوئی عابد اور زہدہو تو بھی اپنی عبادت پر گھمنڈ نہ کرے، اور گناہگاروں کو ذلیل نہ سمجھے اس لئے کہ نجات فضل اور رحمت الہی پر موقوف ہے ، لیکن اس میں شک نہیں کہ اعمال صالحہ اللہ کے فضل واحسان اوراس کی رحمت ورأفت کا قرینہ ہیں ، اور ان سے نجات کی امید قوی ہوئی ہے باقی اختیار مالک کو ہے۔ اللہم اغفرلنا وارحمنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ
۲۱- باب: ریا اور شہرت کا بیان​


4202- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ ، فَمَنْ عَمِلَ لِي عَمَلا أَشْرَكَ فِيهِ غَيْرِي، فَأَنَا مِنْهُ بَرِيئٌ، وَهُوَ لِلَّذِي أَشْرَكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۷)، وقد أخرجہ: م/الزھد ۵ (۲۹۸۵) (صحیح)
۴۲۰۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ عزوجل فرماتا ہے : میں تمام شرکاء کے شرک سے مستغنی اور بے نیاز ہوں، جس نے کوئی عمل کیا ،اور اس میں میرے علاوہ کسی اور کو شریک کیا، تو میں اس سے بری ہوں، اور وہ اسی کے لئے ہے جس کو اس نے شریک کیا '' ۔


4203- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ، وَإِسْحاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِينَاءَ، عَنْ أَبِي سَعْدِ بْنِ أَبِي فَضَالَةَ الأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِيَوْمٍ لا رَيْبَ فِيهِ نَادَى مُنَادٍ: مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ، فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ "۔
* تخريج: ت/تفسیر القرآن ۱۹(۳۱۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۵، ۳/۴۶۶) (حسن)
(سند میں زیادبن میناء ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے ، ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۵۳۱۸)
۴۲۰۳- سعد بن ابی فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ ( صحابی تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب اللہ تعالی قیامت کے دن اگلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا ، اس دن جس میں کوئی شک نہیں ہے، تو ایک پکارنے والا پکارے گاکہ جسنے کوئی کام اللہ تعالی کے لئے کیا ،اور اس میں کسی کو شریک کیا ،تو وہ اپنا بدلہ شرکاء سے طلب کرے، کیو نکہ اللہ تعالی تمام شریکوں کی شرکت سے بے نیاز ہے''۔


4204- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُوخَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ رُبَيْحِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: " أَلا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِنَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ؟ " قَالَ قُلْنَا بَلَى، فَقَالَ: " الشِّرْكُ الْخَفِيُّ: أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ يُصَلِّي فَيُزَيِّنُ صَلاتَهُ لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۲۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰) (حسن)
(سند میں کیثر بن زید اور ربیح بن عبد الرحمن میں ضعف ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
۴۲۰۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس نکل کر آئے ، ہم مسیح دجال کا تذکرہ کررہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا: '' کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے'' ؟ ہم نے عرض کیا: ''کیوں نہیں'' ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی صلاۃ پڑھنے کھڑا ہوتا ہے، تو اپنی صلاۃ کو صرف اس وجہ سے خوب صورتی سے ادا کرتاہے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور جب کوئی شخص نہ ہو تو جلدی جلدی پڑھ لے، معاذ اللہ، ریا کتنی بری بلا ہے اس کو شرک فرمایا جسے بخشا نہ جائے گا ،ایسے ہی ریا کا عمل کبھی قبول نہ ہوگا : { فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا} [سورة الكهف : 110] اس آیت میں شرک سے ریا ہی مراد ہے اور عمل صالح وہی ہے جو خالص اللہ کی رضامندی کے لئے ہو ۔اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اللہ کی رضا حاصل کر نے کے لیے ہرطرح کے اعمال شرک سے بچتے ہوئے سنت صحیحہ کے مطابق زندگی گزارے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو قبول فرمائے ۔


4205- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَقُولُ يَعْبُدُونَ شَمْسًا وَلا قَمَرًا وَلا وَثَنًا، وَلَكِنْ أَعْمَالا لِغَيْرِ اللَّهِ، وَشَهْوَةً خَفِيَّةً "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۳، ۱۲۴) (ضعیف)
(سند میں عامر بن عبد اللہ مجہول ہیں، اور الحسن بن ذکوان مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
۴۲۰۵- شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' بیشک سب سے زیادہ خطرناک چیز جس کا مجھ کو اپنی امت کے بارے میں ڈر ہے ، وہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج ، چاند یا بتوں کی پوجا کریں گے، بلکہ وہ غیر اللہ کے لئے عمل کریں گے، اور دوسری چیز مخفی شہوت ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مخفی شہوت یہ ہے کہ آدمی ظاہر میں تو یہ کہے کہ اسے عورتوں کا بالکل خیال نہیں ہے، اور جب تنہائی میں عورت مل جائے تو اس سے حرام کا ارتکاب کرے ، اور بعض نے کہا کہ شہوت خفیہ ہر اس گناہ کو شامل ہے جس کی دل میں آرزوہو۔


4206- حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوكُرَيْبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَنْ يُسَمِّعْ، يُسَمِّعِ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُرَاءِ، يُرَاءِ اللَّهُ بِهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۴۱، ومصباح الزجاجۃ:۱۵۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰) (صحیح)
(سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد کی حدیث جندب سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۴۲۰۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جو لوگوں میں شہرت وناموری کے لئے کوئی نیک کام کرے گا ، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو ذلیل و رسواکرے گا، اور جس نے ریا کا ری کی تو اللہ تعالی بھی اس کو لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا کر دکھائے گا'' ۔


4207- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ يُرَاءِ، يُرَاءِ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُسَمِّعْ، يُسَمِّعِ اللَّهُ بِهِ "۔
* تخريج: خ/الرقاق ۳۴ (۶۴۹۹)، م/الزھد ۵ (۲۹۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۳) (صحیح)
۴۲۰۷- جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو ریاکاری کرے گا ، اللہ تعالی اس کی ریا کا ری لوگوں کے سامنے نمایاں اور ظاہر کرے گا، اور جو شہرت کے لئے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالی اس کو رسوا اور ذلیل کرے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب الْحَسَدِ
۲۲- باب: حسد کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : حسد بڑی مذموم صفت ہے اور حاسد کو ہمیشہ رنج رہتا ہے آخر حسد میں مرجاتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے کی نعمت اور راحت کو دیکھ کر رنج کرے اور اس کا زوال چاہے اگر زوال نہ چاہے صرف اپنے لئے بھی اس نعمت کی آرزو کرے تو وہ غبطہ اور رشک ہے اور یہ اچھے کاموں میں جائز ہے ۔


4208- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي وَمُحَمَّدُ ابْنُ بِشْرٍ قَالا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا حَسَدَ إِلا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً، فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا "۔
* تخريج: خ/العلم ۱۵ (۷۳)، الزکاۃ ۵ (۱۴۰۹)، الأحکام ۳ (۱۷۴۱)، الاعتصام بالکتاب ۱۳(۷۳۱۶)، م/المسافرین ۴۷ (۸۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۵، ۴۳۲) (صحیح)
۴۲۰۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''رشک وحسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے مال عطا کیا ،اور پھر اس کو راہ حق میں لٹا دینے کی توفیق دی، دوسرا وہ جس کو علم وحکمت عطا کی تو وہ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : معلوم ہو ا کہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا،اورعلم وحکمت کے مطابق عمل کرنا ، اورلوگوں کو اس کی تعلیم دینا،ان دونوں کا مرتبہ بہت بڑا ہے، اور دوسروں کو بھی ان پر رشک کرنا جائز ہے یعنی صرف یہ آرزو کرنا کہ اللہ تعالی ہم کو بھی اس شخص کی طرح مال اور علم دے مگر اس کے لئے زوال کی آرزو کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے، بعض اللہ کے بندے ایسے گذرے ہیں جن کو اللہ تعالی نے ان دونوں نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا، یعنی مال اور علم دونوں سے، اور ان کا حال سن کر آج تک رشک ہوتا ہے، انہی میں سے تھے مجدد علوم اسلامیہ ودعوت سلفیہ علامہ سید محمد صدیق حسن قنوجی نور اللہ مرقدہ کہ آپ غنی اور نواب تھے ، اور عالم وفاضل بھی اور دو نوں طرح کے فیض ان سے جاری تھے ان کے علم کا فیض تو ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا، سیکڑوں کتابیں ان کی علوم دینیہ میں یاد گار ہیں،جن سے قیامت تک لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور ان کو ثواب ہوتا رہے گا۔


4209- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا حَسَدَ إِلا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ، فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالا، فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ "۔
* تخريج: خ/التوحید ۴۵ (۷۵۲۹)، م/المسافرین ۴۷ (۸۱۵)، ت/البروالصلۃ ۲۴ (۱۹۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۶، ۸۸، ۱۵۲) (صحیح)
۴۲۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' رشک و حسد کے لائق صرف دولوگ ہیں : ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے قرآن کا علم عطا کیا، تو وہ اسے دن رات پڑھتا ہے ، دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے مال عطا کیا، تو وہ اسے دن رات (نیک کاموں میں ) خرچ کرتا ہے '' ۔


4210- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ وَأَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَر: قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي عِيسَى الْحَنَّاطِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " الْحَسَدُ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ، كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ، كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَالصَّلاةُ نُورُ الْمُؤْمِنِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۱) (ضعیف)
(سند میں عیسیٰ الحناط ضعیف ہیں، لیکن ''وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ '' کا جملہ متعدد احادیث میں ثابت ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۱۹۰۱ - ۱۹۰۲)
۴۲۱۰- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو، اور صدقہ وخیرات گناہوں کو اسی طرح بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو،صلاۃ مومن کا نور ہے اور صوم آگ سے ڈھال ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب الْبَغْيِ
۲۳- باب: بغاوت وسرکشی کا بیان​


4211- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الآخِرَةِ ـ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ "۔
* تخريج: د/الأدب ۵۱ (۴۹۰۲)، ت/صفۃ القیامۃ ۵۷ (۲۵۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶، ۳۸) (صحیح)
۴۲۱۱- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کے کرنے پر آخرت کے عذاب کے ساتھ جو اللہ تعالی نے اس کے لئے تیار کررکھا ہے دنیا میں بھی سزا دینی زیادہ لائق ہو سوائے بغاوت اور قطع رحمی کے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی امام برحق کی اطاعت نہ کرنا اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مستعد ہونا، اور بعضوں نے کہا بغی سے یہاں ظلم مراد ہے یعنی لوگوں کو ستانا اوران کی حق تلفی کرنا ۔


4212- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحاقَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَسْرَعُ الْخَيْرِ ثَوَابًا: الْبِرُّ وَصِلَةُ الرَّحِمِ، وَأَسْرَعُ الشَّرِّ عُقُوبَةً: الْبَغْيُ وَقَطِيعَةُ الرَّحِمِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۲) (ضعیف جدا)
(سندمیں صالح بن موسیٰ متروک راوی ہے، اورا سے ہی سوید میں کلام ہے)
۴۲۱۲- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' سب سے جلدی جن نیکیوں کا ثواب ملتا ہے وہ نیکی اور صلہ رحمی ہے، اور سب سے جلدی جن برائیوں پر عذاب آتا ہے وہ بغاوت وسرکشی اور قطع رحمی ہیں ''۔


4213- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي عَامِرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ "۔
* تخريج: م/البروالصلۃ ۱۰ (۲۵۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۴۱)، وقد أخرجہ: د/الأدب ۴۰ (۳۸۸۲)، ت/البروالصلۃ ۱۸ (۱۹۲۷)، حم (۲/۲۷۷، ۳۱۱، ۳۶۰) (صحیح)
۴۲۱۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' شر سے آدمی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائی کی تحقیر کرے '' ۔


4214- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ: أَنْ تَوَاضَعُوا، وَلا يَبْغِي بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۳) (صحیح)
۴۲۱۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیشک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ '' تم تواضع اختیار کرو، اور تم ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب الْوَرَعِ وَالتَّقْوَى
۲۴- باب: ورع اور تقویٰ وپرہیزگاری کا بیان​


4215- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُوعَقِيلٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ وَعَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ، حَتَّى يَدَعَ مَا لا بَأْسَ بِهِ، حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ "۔
* تخريج: ت/صفۃ القیامۃ ۱۹ (۲۴۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۲) (ضعیف)
(ترمذی نے اس کی تحسین فرمائی ہے، اور حافظ نے صحیح الاسناد کہا ہے، سند میں عبداللہ بن یزید مجہول راوی ہیں، جن کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور ان کی مجہول کی توثیق کو علماء نے قبول نہیں کیا ہے، اس لئے یہ سند ضعیف ہے)۔
۴۲۱۵- عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ جو (نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بندہ متقیوں کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی مضائقہ نہ ہو ، اس چیز سے بچنے کے لئے نہ چھوڑ دے جس میں برائی ہے '' ۔


4216 - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مُغِيثُ بْنُ سُمَيٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ، صَدُوقِ اللِّسَانِ " قَالُوا: صَدُوقُ اللِّسَانِ، نَعْرِفُهُ، فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ ؟ قَالَ: " هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لا إِثْمَ فِيهِ وَلا بَغْيَ وَلا غِلَّ وَلا حَسَدَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۴) (صحیح)
(ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۵۷۰)
۴۲۱۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' ہر صاف دل ، زبان کا سچا '' صحابہ کرام e نے عرض کیا : زبان کے سچے کو تو ہم سمجھتے ہیں ، صاف دل کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' پرہیز گار صا ف دل جس میں کوئی گناہ نہ ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد ''۔


4217- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي رَجَائٍ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! كُنْ وَرِعًا، تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَكُنْ قَنِعًا، تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، تَكُنْ مُؤْمِنًا،وَأَحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَكَ، تَكُنْ مُسْلِمًا،وَأَقِلَّ الضَّحِكَ،فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۵)، وقد أخرجہ: ت/الزہد ۲ (۲۳۰۵) (صحیح)
۴۲۱۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ابوہریرہ!ورع وتقوی والے بن جائو، لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہوجائوگے ،قانع بن جائو ، لوگوں میں سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہو جائو گے، اور لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، مومن ہوجائوگے، پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو، مسلمان ہوجائوگے، اور کم ہنسا کرو، کیوں کہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی ہے ''۔


4218- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنِ الْمَاضِي بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ، وَلا وَرَعَ كَالْكَفِّ، وَلا حَسَبَ كَحُسْنِ الْخُلُق "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۶) (ضعیف)
(سند میں قاسم بن محمد اور ماضی بن محمد دونوں راوی ضعیف ہیں)
۴۲۱۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں ہے، اور (حرام سے ) رک جانے جیسی کوئی پرہیز گاری نہیں ہے، اور اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی عالی نسبی (حسب و نسب والا ہونا ) نہیں ہے ''۔


4219- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَلامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْحَسَبُ الْمَالُ، وَالْكَرَمُ التَّقْوَى "۔
* تخريج: ت/تفسیر القرآن ۴۹ (۳۲۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰) (صحیح)
۴۲۱۹- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' عالی نسبی (اچھے حسب و نسب والا ہونا) مال ہے ، اورکرم (جود وسخااورفیاضی) تقویٰ ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حسب لوگوں کے نزدیک تو یہ ہے کہ آدمی مالدار ہو لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے ، خوش خلقی ہی حسب ہے، پس بد خلق بدرویہ گو کتنا ہی مال دار ہو صاحب حسب نہیں ہوسکتا ، بعضوں نے کہا کہ حسب ددھیال کی شرافت کا نام ہے، اور بعضوں نے کہا مجد اور شرف آبا ء واجداد کی شرافت سے ہوتا ہے ،اور حسب اور کرم( جود وسخا) آدمی میں بالطبع ہوتا ہے۔


4220 - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سلَيْمَانَ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ضُرَيْبِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنِّي لأَعْرِفُ كَلِمَةً (وَقَالَ عُثْمَانُ: آيَةً" " لَوْ أَخَذَ النَّاسُ كُلُّهُمْ بِهَا، لَكَفَتْهُمْ " قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَيَّةُ آيَةٍ؟ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا}۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۷۸، دي/الرقاق ۱۷ (۲۷۶۷) (ضعیف)
(سند میں انقطاع ہے ، کیو نکہ ابو السلیل کی ملاقات ابوذر رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
۴۲۲۰- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں ، (راوی عثمان بن أبی شیبہ نے کلمہ کی جگہ ـ'' آیت '' کہا ) اگر تمام لوگ اس کو اختیار کر لیں تو وہ ان کے لئے کافی ہے''، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:اللہ کے رسول ! کون سی آیت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' { وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا }'' ( سورۃ الطلاق:۲-۳) (اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لئے نجات کا راستہ نکال دے گا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب الثَّنَاءِ الْحَسَنِ
۲۵- باب: لوگوں کی عمدہ تعریف و تو صیف کا بیان​


4221- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالنَّبَاوَةِ أَوِ الْبَنَاوَةِ (قَالَ: وَالنَّبَاوَةُ مِنَ الطَّائِفِ) قَالَ: "يُوشِكُ أَنْ تَعْرِفُوا أَهْلَ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ"، قَالُوا: بِمَ ذَاكَ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "بِالثَّنَاءِ الْحَسَنِ وَالثَّنَاءِ السَّيِّئِ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ، بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۶، ۴۶۶)، دي/الرقاق ۱۷ (۲۷۶۷) (حسن)
۴۲۲۱- ابو زہیر ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نباوہ یا بناوہ ( طائف کے قریب ایک مقام ہے)میں خطبہ دیا، اور فرمایا: ''تم جلد ہی جنت والوں کو جہنم والوں سے تمیز کر لوگے''، لوگوں نے سوال کیا : کیسے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' اچھی تعریف اور بری تعریف کرنے سے تم ایک دوسرے کے اوپر اللہ تعالی کے گواہ ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ شخص جس کی سچے اورپکے مسلمان تعریف کریں وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی قابل تعریف ہوگا،اور جس کی وہ برائی کریں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہوگا۔
اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ مومنین صالحین اور متقی و پرہیزگار لوگ جس کی تعریف کریں یا جس کی مذمت کریں، فساق وفجار اور اہل شرک وبدعت تو ہمیشہ اہل حق اوراہل سنت کی برائی کرتے ہیں، اور ان کی دشمنی پر کمر باندھتے ہیں، چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ مومن زمین میں اللہ کے گواہ ہیں ۔ پس جو شخص متقی، پرہیزگار، خدا ترس، عادل، منصف، رحم دل، غریب پرور، متواضع اور منکسر المزاج ہوتا ہے اس کی لوگ ضرور تعریف کرنے لگتے ہیں، ہر چند مذہبی تعصب سے بعض لوگ اس کو برا کہیں لیکن اکثر لوگ اس کی مدح وثنا ہی کرتے ہیں اور یہ بھی اس کی زندگی میں لیکن اس کے مرنے کے بعد تو سب کرتے ہیں، یہاں تک کہ دشمن بھی اور یہ تجربہ اور مشاہدہ سے معلوم ہوا ہے، جیسے علامہ نواب صدیق حسین بھوپالی رحمہ اللہ کو ان کی زندگی میں دشمنان دین ودعوت برا بھی کہتے تھے، لیکن ان کی وفات کے بعد دوست ودشمن سب کہتے ہیں کہ اب ایسا شخص جو امارت (حکمرانی) کے ساتھ ایسا خدا ترس اور علم دوست ہو مشکل سے پیدا ہوگا، امام ہمام شیخ اسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو بھی اکثر اہل بدعت برا کہتے تھے جب انتقال فرمایا تو موافق اور مخالف سب روتے تھے اور کہتے تھے کہ دنیا سے علم اٹھ گیا اور زمانہ کو کیا کیجئے کہ سب مردہ پرست اور مردہ دوست ہیں، جب تک کوئی ہنرمند اوربا کمال ان میں زندہ رہتا ہے خواہ کتنے ہی بڑے درجہ کا شخص ہو اس کی قدر نہیں کرتے اور مرنے کے بعد قدر ومنزلت کرتے ہیں۔


4222- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ كُلْثُومٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ، أَنِّي قَدْ أَحْسَنْتُ، وَإِذَا أَسَأْتُ، أَنِّي قَدْ أَسَأْتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا قَالَ جِيرَانُكَ: قَدْ أَحْسَنْتَ، فَقَدْ أَحْسَنْتَ، وَإِذَا قَالُوا: إِنَّكَ قَدْ أَسَأْتَ، فَقَدْ أَسَأْتَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۶۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۰۹) (صحیح)
(سندمیں کلثوم بن علقمہ الخزاعی ثقہ ہیں ، اور ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ان کو شرف صحبت رسول حاصل ہے، آنے والی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کی تصحیح حاکم ابن حبان نے کی ہے، اور نسائی کے یہاں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ : ۱۳۲۷ )۔
۴۲۲۲- کلثوم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں اچھا کام کروں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں نے اچھا کام کیا، اور جب برا کروں تو کیسےسمجھوں کہ میں نے برا کام کیا؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: '' جب تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے اچھا کیا ہے، اور جب وہ کہیں کہ تم نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے برا کیا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دنیا کیا ہے گویا چھلنی یا بھٹی کہ عمدہ چیز کو بری چیز خود دور کردیتی ہے ممکن نہیں کہ کوئی آدمی برا ہو اور مخلوق اس کی مدح اور ثناء پر اتفاق کرے ،اور اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ جن اگلے لوگوں کی لاکھوں کروڑوں آدمی اب تک مدح اور ثناء کررہے ہیں وہ فی الواقع اچھے تھے۔جیسے قرونِ اولیٰ کے مسلمان یعنی صحابہ کرامf ، تابعین عظام اوران کے اتباع اوران کے عقیدے اورمنہج پر چلنے والے ائمہ اسلام جن کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں ہم تک دین اسلام کی نعمت پہنچی ہے ، رحمۃ اللہ علیہم جمیعاً۔


4223- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ: كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ وَإِذَا أَسَأْتُ؟ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " إِذَا سَمِعْتَ جِيرَانَكَ يَقُولُونَ: أَنْ قَدْ أَحْسَنْتَ، فَقَدْ أَحْسَنْتَ، وَإِذَا سَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ أَسَأْتَ فَقَدْ أَسَأْتَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۱۰، ومصباح الزجاجۃ:۱۵۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۰۲) (صحیح)
۴۲۲۳- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: جب میں کو ئی اچھا کام کروں تو کیسے سمجھوں کہ میں نے اچھا کام کیا ہے؟ اور جب برا کام کروں تو کیسے جا نوں کہ میں نے برا کام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم اپنے پڑوسیوں کو کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، تو سمجھ لو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، اور جب تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے برا کام کیا ہے، تو سمجھ لو کہ تم نے برا کام کیا ہے ''۔


4224- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَزَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ قَالا: حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُوهِلالٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ أَبِي ثُبَيْتٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْ مَلأَ اللَّهُ أُذُنَيْهِ مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ خَيْرًا، وَهُوَ يَسْمَعُ، وَأَهْلُ النَّارِ مَنْ مَلأَ أُذُنَيْهِ مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ شَرًّا، وَهُوَ يَسْمَعُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۶۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۱۱) (حسن صحیح)
۴۲۲۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جنتی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی اچھی تعریف سے بھردے، اور وہ اسے سنتا ہو،اور جہنمی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالی لوگوں کی بری تعریف سے بھردے، اور وہ اسے سنتا ہو ''۔


4225- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: الرَّجُلُ يَعْمَلُ الْعَمَلَ لِلَّهِ فَيُحِبُّهُ النَّاسُ عَلَيْهِ ؟ قَالَ: " ذَلِكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ "۔
* تخريج: م/البروالصلۃ ۵۱ (۲۶۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵۶، ۱۶۸) (صحیح)
۴۲۲۵- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: ایک شخص اللہ تعالی کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو کیا اس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ تو مومن کے لئے نقد ( جلد ملنے والی ) خوش خبری (بشارت) ہے ''۔


4226- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سِنَانٍ أَبُوسِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَعْمَلُ الْعَمَلَ، فَيُطَّلَعُ عَلَيْهِ، فَيُعْجِبُنِي؟ قَالَ: " لَكَ أَجْرَانِ: أَجْرُ السِّرِّ وَأَجْرُ الْعَلانِيَةِ ".
* تخريج: ت/الزہد ۴۹ (۲۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۱۱) (ضعیف)
(سند میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور سعید صدوق راوی ہیں، لیکن صاحب أوہام ہیں)
۴۲۲۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کوئی عمل کرتا ہوں ، لوگوں کو اس کی خبر ہوتی ہے، تو وہ میری تعریف کرتے ہیں ، تو مجھے اچھا لگتا ہے،(اس کے بارے میں فرمائیے ) آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے لئے دو اجر ہیں: پوشیدہ عمل کرنے کا اجر اور علانیہ کرنے کا اجر '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب النِّيَّةِ
۲۶- باب: نیت کا بیان​


4227- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، (ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالا: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ "۔
* تخريج: خ/بدء الوحي ۱ (۱)، الإیمان ۴۱ (۵۴)، العتق ۶ (۲۵۲۹)، مناقب الأنصار ۴۵ (۳۸۹۸)، النکاح ۵ (۵۰۷۰)، الأیمان والنذور ۲۳ (۶۶۸۹)، الحیل ۱ (۶۹۵۳)، م/الإمارۃ ۴۵ (۹۰۷)، د/الطلاق ۱۱ (۲۲۰۱)، ت/فضائل الجہاد ۱۶ (۱۶۴۷)، ن/الطہارۃ ۶۰ (۷۵)، الطلاق ۲۴ (۳۴۶۷)، الأیمان والنذور ۱۹ (۳۸۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵، ۴۳) (صحیح)
۴۲۲۷- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: '' اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے، اور ہر آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے ،تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہی ہوگی، اور جس کی ہجرت کسی دنیاوی مفاد کے لئے یاکسی عورت سے شادی کے لئے ہو تو اس کی ہجرت اسی کے لئے مانی جائے گی جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : رسول اکرم ﷺ کی طرف ہجرت کرنے کا اس کو ثواب حاصل نہ ہوگا، یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے، اور فقہائے نے اس سے سیکڑوں مسائل نکالے ہیں ،اوریہ حدیث ایک بڑی اصل ہے دین کے اصول میں سے ۔


4228- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ الأَنْمَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَثَلُ هَذِهِ الأُمَّةِ كَمَثَلِ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالا وَعِلْمًا، فَهُوَ يَعْمَلُ بِعِلْمِهِ فِي مَالِهِ، يُنْفِقُهُ فِي حَقِّهِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يُؤْتِهِ مَالا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ هَذَا، عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " فَهُمَا فِي الأَجْرِ سَوَائٌ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالا وَلَمْ يُؤْتِهِ عِلْمًا، فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ، يُنْفِقُهُ فِي غَيْرِ حَقِّهِ، وَرَجُلٌ لَمْ يُؤْتِهِ اللَّهُ عِلْمًا وَلا مَالا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ هَذَا عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " فَهُمَا فِي الْوِزْرِ سَوَائٌ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴۶)، وقد أخرجہ: ت/الزہد ۱۷ (۲۳۲۵)، حم (۴/۲۳۰) (صحیح)
۴۲۲۸- ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس امت کی مثال چار لوگوں جیسی ہے: ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال اور علم عطا کیا ،تو وہ اپنے علم کے مطابق اپنے مال میں تصرف کرتا ہے، اور اس کو حق کے راستے میں خرچ کرتا ہے، ایک وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالی نے علم دیا اور مال نہ دیا، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسے یہ کرتا ہے''، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تو یہ دونوں اجر میں برابر ہیں، اورایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ تعالی نے مال دیا لیکن علم نہیں ،دیا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، نا حق خرچ کرتاہے ،اور ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ نے نہ علم دیا اور نہ مال ، تو وہ کہتا ہے: کاش میرے پاس اس آدمی کے جیسا مال ہوتا تو میں اس (تیسرے) شخص کی طرح کرتا یعنی نا حق خرچ کرتا)'' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں ''۔


4228/أ- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
4228/أ- (ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُفَضَّلٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ۔
۴۲۲۸/أ- ان دونوں سندوں سے بھی ابو کبشہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ بظاہر اس حدیث کے مخالف ہے کہ اللہ تعالی نے میری امت کے دل کا وسوسہ معاف کردیا جب تک اس پر عمل نہ کرے یا منہ سے نہ نکالے جواب یہ ہے کہ وسوسہ سے مراد وہ خیال ہے جو دل میں آئے اور چلاجائے جیسے بہتے پانی پرنجاست گزرگئی لیکن جو وسوسہ دل میں جم جائے اور اعتقاد کی طرح ہو جائے اس پر گرفت ہوگی، اس لئے کہ وہ نفس کی صفت ہوگیا ۔


4229- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّمَا يُبْعَثُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۲) (صحیح)
(سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن جابر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۴۲۲۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' لوگ اپنی نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اگر چہ بری اور فاسق جماعت کے ساتھ اس پر بھی دنیا کا عذاب آجائے لیکن آخرت میں ہرشخص اپنی نیت پر اٹھے گا جیسے اوپر ایک طویل حدیث میں گزرا ۔


4230- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ "۔
* تخريج: م/الجنۃ وصفۃ نعیمہا ۱۹ (۲۸۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۰۶) (صحیح)
۴۲۳۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لو گ اپنی اپنی نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے ''۔
 
Top