• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67- بَاب مَا جَائَ فِي الْوُضُوئِ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ
۶۷ - باب: اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کا بیان​


494- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وأََبُو مُعَاوِيَةَ؛ قَالا: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ؛ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْوُضُوئِ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ؟ فَقَالَ: < تَوَضَّئُوا مِنْهَا >۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۷۲ (۱۸۴)، ت/ الطہارۃ ۶۰ (۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸۸، ۳۰۳) (صحیح)
۴۹۴- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیاگیا: کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: '' اس سے وضو کرو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے، یہی صحیح مذہب ہے، اور عام طور پر اصحاب حدیث کی یہی رائے ہے، جو لوگ اسے ناقض وضو نہیں مانتے وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ یہاں وضو سے وضو شرعی مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے وضو لغوی یعنی ہاتھ منہ دھونا مراد ہے ۔


495- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ وَإِسْرَائِيلُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَائِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ؛ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَتَوَضَّأَ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ وَلا نَتَوَضَّأَ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ۔
* تخريج: م/الحیض ۲۵ (۳۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸۶، ۸۸، ۹۲، ۱۱۰، ۱۰۲، ۱۰۵، ۱۰۸) (صحیح)
۴۹۵- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ کا گوشت کھائیں تو وضو کریں، اور بکری کا گوشت کھائیں تووضو نہ کریں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اونٹ اور بکری کے گوشت میں تفریق کی حکمت اور وجہ جاننا ضروری نہیں کیونکہ یہ تعبدی احکام ہیں، ان کی حکمت کا عقل میں آنا ضروری نہیں، شارع کے نزدیک اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ومصلحت ضرور پوشیدہ ہو گی گو وہ ہماری عقل میں نہ آئے ۔


496- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ - وَكَانَ ثِقَةً، وَكَانَ الْحَكَمُ يَأْخُذُ عَنْهُ- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لاتَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الْغَنَمِ وَتَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الإِبِلِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴، ومصباح الزجاجۃ: ۲۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۲، ۵/۱۲۲) (ضعیف)
(سند میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف اور مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور سابقہ صحیح احادیث میں اونٹ کے گوشت وضو کا حکم ہے، نہ کہ اونٹنی کے دو دھ پینے سے)
۴۹۶- اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' بکری کا دودھ پی کر وضو نہ کرو، البتہ اونٹنی کا دودھ پی کروضو کرو '' ۔


497- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ خَالِدِ ابْنِ يَزِيدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ هُبَيْرَةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَارِبَ بْنَ دِثَارٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ، وَلا تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ، وَتَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الإِبِلِ، وَلا تَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الْغَنَمِ، وَصَلُّوا فِي مُرَاحِ الْغَنَمِ، وَلاتُصَلُّوا فِي مَعَاطِنِ الإِبِلِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۱۶، ومصباح الزجاجۃ: ۲۰۵) (ضعیف)
(سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز خالد بن یزید مجہول ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، اور حدیث کا دوسرا ٹکڑا ''وَتَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الإِبِلِ وَ لا تَتَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الْغَنَمِ'' ضعیف اور منکر ہے، بقیہ حدیث یعنی پہلا اور آخری ٹکڑا شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، یعنی اونٹ کے گوشت سے وضو اور بکر ی کے گوشت سے عدم وضو، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود : ۱۷۷)
۴۹۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''اونٹ کے گوشت سے وضو کرلیاکرو، اور بکری کے گوشت سے وضو نہ کرو، اور اونٹنی کے دودھ سے وضو کیا کرو، اور بکری کے دودھ سے وضو نہ کرو، بکریوں کے باڑوں میں صلاۃ پڑھو، اور اونٹ کے باڑوں میں صلاۃ نہ پڑھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آگ پر پکی دیگر چیزوں کے استعمال سے وضو ضروری نہیں ہے، لیکن اونٹ کے گوشت کا معاملہ جدا ہے، اسی لئے شریعت نے اس کو الگ ذکر کیا ہے، اب ہماری سمجھ میں اس کی مصلحت آئے یا نہ آئے ہمیں فرماں برداری کرنا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- بَاب الْوُضُوئِ مِنَ الْقُبْلَةِ
۶۹- باب: بوسہ لے کروضو کرنے کابیان​


502- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِهِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، قُلْتُ مَا هِيَ إِلا أَنْتِ، فَضَحِكَتْ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۹ (۱۷۹)، ت/الطہارۃ ۶۳ (۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۲۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۰۷) (صحیح)
۵۰۲- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیا، پھر صلاۃ کے لئے نکلے اور وضو نہیں کیا، (عر وہ بن زبیر کہتے ہیں کہ) میں نے (ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے) کہا: وہ آ پ ہی رہی ہوں گی! تو وہ ہنس پڑیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو بوسہ لینے سے یا اسے چھونے سے خواہ شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے وضو نہیں ٹوٹتا۔


503- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عنْ زَيْنَبَ السَّهْمِيَّةِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ يُقَبِّلُ وَيُصَلِّي ولا يَتَوَضَّأُ، وَرُبَّمَا فَعَلَهُ بِي۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۴۲، ومصباح الزجاجۃ: ۲۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۲) (ضعیف)
(سند میں حجاج مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، اور زینب کے حالات معلوم نہیں، ان کے بارے میں دارقطنی کا قول ہے: ''لا تقوم بہا حجۃ '' قابل اعتماد نہیں ہیں)
۵۰۳- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وضو کرتے پھر بوسہ لیتے، اوربغیر وضو کئے صلاۃ پڑھتے، اوربعض دفعہ آپﷺ نے میرے ساتھ بھی ایسا کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب الْوُضُوئِ مِنَ الْمَذْيِ
۷۰- باب: مذی سے وضو کے حکم کا بیان​


504- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمَذْيِ فَقَالَ: < فِيهِ الْوُضُوئُ، وَفِي الْمَنِيِّ الْغُسْلُ >۔
* تخريج: ت/الطہارۃ ۸۳ (۱۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۵)، وقد أخرجہ: خ/الغسل ۱۳ (۲۶۹)، د/الطہارۃ ۸۳ (۲۰۷)، ن/الطہارۃ ۱۱۲ (۱۵۷)، الغسل ۲۸ (۴۳۶)، حم (۱/۸۲، ۱۰۸، ۱۱۰) (صحیح)
(ملاحظہ ہو: الإرواء: ۴۷، ۱۲۵)
۵۰۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولﷺ سے مذی ۱؎ کے بار ے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فر مایا: '' اس میں وضو ہے، اور منی ۱۲؎ میں غسل ہے '' ۔
وضاحت ۱؎ : مذی : وہ لیس دار پتلا پانی ہے، جو ابتداء شہوت میں مرد کے عضو تناسل سے بغیر اچھلے نکلتا ہے اور جس پر وضو ہے۔
وضاحت ۲؎ : منی سے مراد وہ رطوبت ہے، جو شہوت کے وقت عضو تنا سل سے اچھل کر نکلتی ہے، جس پر غسل واجب ہے۔


505- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الرَّجْلِ يَدْنُو مِنِ امْرَأَتِهِ فَلا يُنْزِلُ؟ قَالَ: <إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ، يَعْنِي لِيَغْسِلْهُ، وَيَتَوَضَّأْ>۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۸۳ (۲۰۷)، ن/الطہارۃ ۱۱۲ (۱۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴۴)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۱۳ (۵۳)، حم (۱/۱۲۴، ۶/۴، ۵) (صحیح)
۵۰۵- مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی سے قریب ہوتا ہے، اور اسے انزال نہیں ہوتا، تو آپﷺنے فر ما یا: '' جب ایسا ہو تو آدمی اپنی شرم گاہ پر پانی ڈال لے یعنی اسے دھولے، اور وضو کرلے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر قربت سے انزال نہ ہو تب بھی اس کو بہر حال غسل کرنا ہوگا، مقداد کی یہ حدیث منسوخ ہے: '' إذا التقى الختان'' سے، یعنی جب دو ختنے باہم مل جائیں تو غسل واجب ہے، انزال ہو یا نہ ہو ۔


506- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ: كُنْتُ أَلْقَى مِنَ الْمَذْيِ شِدَّةً، فَأُكْثِرُ مِنْهُ الاغْتِسَالَ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < إِنَّمَا يُجْزِيكَ، مِنْ ذَلِكَ، الْوُضُوئُ > قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي؟ قَالَ: < إِنَّمَا يَكْفِيكَ كَفٌّ مِنْ مَائٍ تَنْضَحُ بِهِ مِنْ ثَوْبِكَ حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَ >۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۸۳ (۲۱۰)، ت/الطہارۃ ۸۴ (۱۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸۵)، دي/الطہارۃ ۴۹ (۷۵۰) (حسن)
۵۰۶- سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے شدت سے مذی آتی تھی جس کی وجہ سے میں کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، چنانچہ میں نے رسول اکرمﷺ سے پو چھا تو آپ نے فر ما یا: ''اس سے وضو کافی ہے''، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! جو کپڑے میں لگ جائے اس کا حکم کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فر ما یا: '' تم ایک چلو پانی لو، اور جہاں پہ دیکھو کہ مذی لگ گئی ہے وہا ں پہ چھڑک دو، بس یہ تمہارے لئے کافی ہو گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : لیکن یہ تبھی ہے جب یقین ہو کہ یہ مذی ہے، اگر یقین ہوکہ منی ہے، تو غسل کرنا ہی ہوگا۔


507- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي حَبِيبِ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُنْيَةَ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَتَى أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَمَعَهُ عُمَرُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمَا، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ مَذْيًا، فَغَسَلْتُ ذَكَرِي وَتَوَضَّأْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَ يُجْزِئُ ذَلِكَ ؟ قَالَ: نَعَمْ . قَالَ: أَسَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۱، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۰، ۵/۱۱۷) (ضعیف الإسناد)
(سند ابوحبیب کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے)
۵۰۷- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ ان دونوں کو اندر چھوڑ کر باہر چلے گئے (پھرواپس آئے) اور کہنے لگے: مجھے مذی ۱؎ آگئی تھی میں نے اپنی شرم گاہ کو دھویا، اور وضو کیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا یہ کافی ہوگا؟ کہا : ہاں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ سے یہ بات سنی ہے؟ کہا: ہاں (سنی ہے) ۔
وضاحت ۱ ؎ : مذی اور اسی طرح پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے جو چیز بھی نکلے اس سے وضو ٹوٹنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71- بَاب وُضُوئِ النَّوْمِ
۷۱ - باب: سونے کے لئے وضو کرنے کا بیان​


508- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ لِزَائِدَةَ ابْنِ قُدَامَةَ: يَا أَبَا الصَّلْتِ! هَلْ سَمِعْتَ فِي هَذَا شَيْئًا؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، فَدَخَلَ الْخَلائَ، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ، ثُمَّ نَامَ.
* تخريج: خ/الدعوات۱۰(۶۳۱۶)، م/الحیض ۵ (۳۰۴)، المسافرین ۲۶ (۷۶۳)، د/الأدب ۱۰۵ (۵۰۴۳)، ت/الشمائل (۲۵۸)، ن/الکبري الصلاۃ ۴۳ (۳۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۴، ۲۸۳، ۲۸۴، ۲۸۴، ۳۴۳) (صحیح)
۵۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں بیدار ہوئے، بیت الخلاء گئے اور قضائے حاجت کی، پھر اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کو دھویا، پھرسوگئے۔
508- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَنْبَأَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ أَنْبَأَنَا بُكَيْرٌ، عَنْ كُرَيْبٍ قَالَ: فَلَقِيتُ كُرَيْبًا فَحَدَّثَني عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
۵۰۸- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسی جیسی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً ذکر کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب الْوُضُوئِ لِكُلِّ صَلاةٍ وَالصَّلَوَاتِ كُلِّهَا بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ
۷۲- باب: ہرصلاۃ کے لئے وضو کرنے اور ایک وضو سے ساری صلاتیں پڑھنے کا بیان​


509- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاةٍ، وَكُنَّا نَحْنُ نُصَلِّي الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ۔
* تخريج:خ/الطہارۃ ۵۴ (۲۱۴)، د/الطہارۃ ۶۶ (۱۷۱)، ت/الطہارۃ ۴۴ (۶۰)، ن/الطہارۃ ۱۰۱ (۱۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/ ۱۳۲، ۱۹۴، ۲۶۰)، دي/الطہارۃ ۴۵ (۷۴۷) (صحیح)
۵۰۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر صلاۃ کے لئے وضو کرتے تھے، اور ہم ساری صلاۃ ایک وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے ۔


510- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاةٍ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ صَلَّى الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۲۵ (۲۷۷)، د/الطہارۃ ۶۶ (۱۷۲)، ت/الطہارۃ ۴۵ (۶۱)، ن/الطہارۃ ۱۰۱ (۱۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۰، ۳۵۱، ۳۵۸)، دي/الطہارۃ ۳ (۶۸۳) (صحیح)
۵۱۰- بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ہر صلاۃ کے لئے وضو کیا کرتے تھے، لیکن فتح مکہ کے دن آپ ﷺ نے ایک وضو سے ساری صلاۃ پڑھیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺ کی عام عادت مبارکہ یہی تھی، فتح مکہ سے پہلے بھی آپ کا ایسا کرنا ثابت ہے۔


511- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُبَشِّرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَصْنَعُ هَذَا، فَأَنَا أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۱) (صحیح)
(اس حدیث کی سند میں ''الفضل بن مبشر'' ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
۵۱۱- فضل بن مبشر کہتے ہیں کہ میں نے جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو ایک ہی وضو سے کئی صلاۃ پڑھتے دیکھا، تومیں نے کہا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے، چنانچہ میں بھی ویسے ہی کرتا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر وضو باقی ہے ٹوٹا نہیں ہے، تو ایک وضو سے کئی صلاۃ پڑھی جاسکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73- بَاب الْوُضُوئِ عَلَى الطَّهَارَةِ
۷۳ - باب: وضو پر وضو کر نے کا بیان​


512- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ الْهُذَلِيِّ ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فِي مَجْلِسِهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الصَّلاةُ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَى مَجْلِسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَى مَجْلِسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْمَغْرِبُ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَى مَجْلِسِهِ، فَقُلْتُ: أَصْلَحَكَ اللَّهُ، أَفَرِيضَةٌ أَمْ سُنَّةٌ، الْوُضُوئُ عِنْدَ كُلِّ صَلاةٍ؟ قَالَ: أَوَ فَطِنْتَ إِلَيَّ، وَإِلَى هَذَا مِنِّي؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لا، لَوْ تَوَضَّأْتُ لِصَلاةِ الصُّبْحِ لَصَلَّيْتُ بِهِ الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا، مَا لَمْ أُحْدِثْ وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى كُلِّ طُهْرٍ فَلَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَإِنَّمَا رَغِبْتُ فِي الْحَسَنَات ".
* تخريج: د/لطہارۃ ۳۲ (۶۲)، ت/الطہارۃ ۴۴ (۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۹، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۲) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں '' ابو غطیف '' مجہول وعبد الرحمن بن زیادافریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: /۹)
۵۱۲- ابو غطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں نے مسجد میں عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے ان کی مجلس میں سنا، پھرجب صلاۃ کا وقت ہوا، تووہ اٹھے وضو کیا، اور صلاۃ ادا کی، پھر مجلس میں دو بارہ حاضر ہوئے، پھر جب عصر کا وقت آیا تو اٹھے وضو کیا، اور صلاۃ پڑھی، پھر اپنی مجلس میں واپس آئے، پھر جب مغرب کا وقت ہوا تواٹھے وضو کیا، اور صلاۃ اداکی پھر اپنی مجلس میں دوبارہ حاضر ہوئے تومیں نے کہا: اللہ آپ کوسلامت رکھے، کیا یہ وضو (ہرصلاۃ کے لیے) فرض ہے یا سنت؟ کہا: کیا تم نے میرے اس کام کو سمجھ لیا اور یہ سمجھا ہے کہ یہ میں نے اپنی طرف سے کیا ہے؟میں نے کہا: ہاں، بولے: نہیں، (ہر صلاۃ کے لئے وضوکرنا فرض نہیں) اگر میں صلاۃ فجرکے لئے وضوکرتا تو اس سے وضو نہ ٹوٹنے تک ساری صلاۃ پڑھتا، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: '' جس شخص نے وضو ہوتے ہوئے وضو کیا، تو اس کے لئے دس نیکیاں ہیں ''، اورمجھ کو ان نیکیوں ہی کا شوق ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74- بَاب لا وُضُوئَ إِلا مِنْ حَدَثٍ
۷۴- باب: حدث کے بغیر وضو کے واجب نہ ہونے کا بیان​


513- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ؛ وَعَبَّادُ بْنُ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ؛ قَالَ: شُكِيَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ الرَّجُلُ يَجِدُ الشَّيْئَ فِي الصَّلاةِ، فَقَالَ: < لا، حَتَّى يَجِدَ رِيحًا، أَوْ يَسْمَعَ صَوْتًا >۔
* تخريج: خ/الوضوء ۴ (۱۳۷)، ۳۴ (۱۷۷)، البیوع ۵ (۲۰۵۶)، م/الحیض ۲۶ (۳۶۱)، د/الطہارۃ ۶۸ (۱۷۶)، ن/الطہارۃ ۱۱۵ (۱۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹، ۴۰) (صحیح)
۵۱۳- عباد بن تمیم کے چچا عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیاجس نے صلاۃ میں(حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپﷺ نے فرمایا: '' نہیں، شک وشبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگ شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں، اور اکثر شیطان ان کو صلاۃ میں وہم دلاتارہتا ہے، یہ حکم ان کے لئے ہے۔


514- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ التَّشَبُّهِ فِي الصَّلاةِ، فَقَالَ: < لا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۴۸، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۹۶) (صحیح)
(اس سند میں ضعف ہے، اس لئے کہ محاربی کا معمر سے سماع ثابت نہیں ہے، نیز وہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، زہری کے حفاظ تلامذہ نے اس حدیث کو زہر ی عن ابن المسیب عن عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جو صحیحین اور سنن ابی داود، ونسائی میں ہے، ملاحظہ ہو: (۵۱۳)اس سابقہ حدیث سے تقویت پاکر اصل حدیث صحیح ہے، نیز ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث دوسرے طریق سے مسند احمد میں بھی ہے، (۳/۳۷)
۵۱۴- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے صلاۃ میں حدث کا شبہ ہوجانے کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: '' جب تک کہ آواز نہ سن لے یا بو نہ محسو س کرلے صلاۃ نہ توڑے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جب ہوا کے خارج ہونے کا یقین ہو جائے، تب صلاۃ توڑے، اور جا کر وضو کرے محض شک اور وہم کی بناء پر نہیں۔


515- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا وُضُوئَ إِلا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ >۔
* تخريج: ت/الطہارۃ ۵۶ (۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۸۳)، وقد أخرجہ: م/الحیض ۲۶ (۳۶۲)، د/الطہارۃ ۶۸ (۱۷۷)، حم (۲/۴۱۰، ۴۳۵) (صحیح)
۵۱۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''بغیر آواز یا بو کے وضو واجب نہیں ہے '' ۔


516- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ ابْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ قَالَ : رَأَيْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَشُمُّ ثَوْبَهُ، فَقُلْتُ: مِمَّ ذَلِكَ ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا وُضُوئَ إِلا مِنْ رِيحٍ أَوْ سَمَاعٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۶) (صحیح)
(سند میں عبد العزیز بن عبید اللہ الأحمصی ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۵۱۶- محمد بن عمروبن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہما کو اپنا کپڑا سونگھتے دیکھا، میں نے پوچھا: اس کا سبب کیاہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے سنا : '' بغیر بو سونگھے یا آواز سنے وضو واجب نہیں ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ سب روایتیں شک کی صورت پر محمول ہیں کہ جب ہوا خارج ہو نے میں شک ہو تو شک سے وضو باطل نہیں ہوتا، ہاں اگر یقین ہو جائے تو وضو باطل ہو جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75- بَاب مِقْدَارِ الْمَائِ الَّذِي لا يُنَجَّسُ
۷۵ -باب: پانی کی وہ مقدار جس میں نجاست پڑنے سے پانی نجس نہیں ہوتا​


517- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ عَنِ الْمَائِ يَكُونُ بِالْفَلاةِ مِنَ الأَرْضِ، وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ الدَّوَابِّ وَالسِّبَاعِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا بَلَغَ الْمَائُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْئٌ >.
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۳ (۶۴)، ت/الطہارۃ ۵۰ (۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۰۵)، وقد أخرجہ: ن/الطہارۃ ۴۴ (۵۲)، دي/الطہارۃ ۵۴ (۷۵۸) (صحیح)
۵۱۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے صحراء اور میدان میں واقع ان گڈھوں کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جن سے مویشی اور درندے پانی پیتے رہتے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا: '' جب پانی دو قلہ (دو بڑے مٹکے کے برابر) ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی '' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر پانی دوقلہ سے زیادہ ہوگا تو بدرجہ اولی ناپاک نہ ہوگا، اور اگر اس کار نگ، بو، یا مزہ یا ان میں سے کوئی کسی ناپاک چیز کے پڑنے سے بدل جائے، تو ناپاک ہو جائے گا، دو قلہ کا اندازہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی ایسے حوض میں کہ جس کی زمین برابر ہوا گر پانی جمع کریں تو تقریباً سات بالشت لمبا اور پانچ بالشت چوڑا ہوگا، اور یہ ادنیٰ درجہ ہے حوض کا اور اعلیٰ درجہ ہے برتنوں کا، عرب میں اس سے بڑا برتن نہیں ہوتاتھا ۔
''قلہ'' : کے معنی مٹکے کے ہیں یہاں مراد ہجر کے مٹکے ہیں کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور تھے، اس میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، اس اعتبار سے دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی، جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس گلوگرام (۲۲۷) بنتی ہے۔
517- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
۵۱۷- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے ۔


518- حَدّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمِ ابْنِ الْمُنْذِرِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا كَانَ الْمَائُ قُلَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا، لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْئٌ>.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۰۵، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۵) (صحیح)
(''أو ثلاثاً'' کا لفظ صرف اس روایت میں ہے، اصحاب حماد نے اس کے بغیر روایت کی ہے کماتقدم)
۵۱۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب پانی دو یاتین قلہ ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی '' ۔
[ز] 518/أ- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَأَبُوسَلَمَةَ، وَابْنُ عَائِشَةَ الْقُرَشِيُّ ؛ قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.۵۱۸/أ- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76- بَاب الْحِيَاضِ
۷۶ -باب: حوض اور تالاب کا بیان​


519- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنِ الْحِيَاضِ الَّتِي بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، تَرِدُهَا السِّبَاعُ وَالْكِلابُ وَالْحُمُرُ، وَعَنِ الطَّهَارَةِ مِنْهَا؟ فَقَالَ: < لَهَا مَا حَمَلَتْ فِي بُطُونِهَا، وَلَنَا مَا غَبَرَ، طَهُورٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۶) (ضعیف)
(عبدالرحمن بن زید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۱۶۰۹)
۵۱۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان جو حوض وتالاب واقع ہیں، اور ان پر درندے، کتے اور گدھے پانی پینے آتے ہیں، تو ایسے حوضوں وتالابوں کا اور ان کے پانی سے طہارت حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: '' جو کچھ انہوں نے اپنی تہ میں سمیٹ لیا، وہ ان کاحصہ ہے، اور جو پانی حوض (تالاب) میں بچا، وہ ہمارے لئے پاک کرنے والا ہے '' ۔


520 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ طَرِيفِ ابْنِ شِهَابٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: انْتَهَيْنَا إِلَى غَدِيرٍ، فَإِذَا فِيهِ جِيفَةُ حِمَارٍ، قَالَ فَكَفَفْنَا عَنْهُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < إِنَّ الْمَائَ لايُنَجِّسُهُ شَيْئٌ > فَاسْتَقَيْنَا وَأَرْوَيْنَا وَحَمَلْنَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۱۴) (صحیح)
(سند میں طریف بن شہاب اور شریک القاضی ضعیف ہیں، اس لئے یہ اسناد ضعیف ہے، اور ' ' جیفہ حمار'' کا قصہ صحیح نہیں ہے، لیکن بقیہ مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: ا لإرواء: ۱۴، وصحیح ابی داود: ۵۹)
۵۲۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک تالاب پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ایک گدھے کی لاش پڑی ہوئی ہے ہم اس(کے استعمال)سے رک گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس پہنچے، تو آپﷺ نے فرمایا: ''پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی'' (یہ سنا) تو ہم نے پیا پلایا، اور پانی بھر کر لاد لیا۔


521- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ، أَنْبَأَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ الْمَائَ لا يُنَجِّسُهُ شَيْئٌ، إِلا مَا غَلَبَ عَلَى رِيحِهِ وَطَعْمِهِ وَلَوْنِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۰، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۸) (ضعیف)
(رشدین اور راشد بن سعد دونوں ضعیف ہیں، یہ حدیث صحیح نہیں ہے، لیکن علماء کا اس کے عمل پر اجماع ہے، یعنی اگرنجاست پڑنے سے پانی میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو وہ پانی نجس ہے)
۵۲۱- ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ''پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگرجو چیز اس کی بو، مزہ اور رنگ پر غالب آجائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نجاست پڑنے کے بعد اگر پانی میں بو، رنگ اور مزہ کی تبدیلی ہو جائے تو وہ پانی کم ہو یا زیادہ نجس وناپاک ہو جائے گا، اس پر علماء کا اجماع ہے کما تقدم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77- بَاب مَا جَائَ فِي بَوْلِ الصَّبِيِّ الَّذِي لَمْ يُطْعَمْ
۷۷-باب: کھانا نہ کھانے والے بچے کے پیشاب کا حکم​


522- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَابُوسَ ابْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ لُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ؛ قَالَتْ: بَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حِجْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعْطِنِي ثَوْبَكَ وَالْبَسْ ثَوْبًا غَيْرَهُ، فَقَالَ: < إِنَّمَا يُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الذَّكَرِ، وَيُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الأُنْثَى >۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۳۷(۳۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۵۵)، ویأتی عند المؤلف في تعبیر الرؤیا (۳۹۲۳) (حسن صحیح)
۵۲۲- لبابہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ کی گود میں پیشاب کردیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنا کپڑا دے دیجیے اور دوسرا کپڑا پہن لیجیے (تاکہ میں اسے دھو دوں)، آپﷺ نے فرمایا: ''بچے کے پیشاب پہ پانی چھڑکا جاتاہے، اور بچی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو داود کی ایک روایت میں ''مالم يطعم'' (جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے) کی قید ہے، اس لئے جو روایتیں مطلق ہیں مقید پر محمول کی جائیں گی، مؤلف نے ترجمۃ الباب میں ''الصبى الذي لم يطعم'' کہہ کر اسی جانب اشارہ کیا ہے ۔


523- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِصَبِيٍّ، فَبَالَ عَلَيْهِ، فَأَتْبَعَهُ الْمَائَ، وَلَمْ يَغْسِلْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۲۱۹)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۹۵ (۲۲۲)، العقیقۃ ۱ (۵۴۶۸)، الأدب ۲۱ (۶۰۰۲)، الدعوات ۳۰ (۶۳۵۵)، م/الطہارۃ ۳۱ (۲۸۶)، ن/الطہارۃ ۱۸۹(۳۰۴)، ط /الطہارۃ ۳۰ (۱۰۹)، حم (۶/۵۲، ۲۱۰، ۲۱۲) (صحیح)
۵۲۳- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر صرف پانی بہالیا، اوراسے دھویا نہیں ۔


524- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ؛ قَالَتْ: دَخَلْتُ بِابْنٍ لِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَأْكُلِ الطَّعَامَ، فَبَالَ عَلَيْهِ، فَدَعَا بِمَائٍ، فَرَشَّ عَلَيْهِ۔
* تخريج:خ/الوضوء ۵۹ (۲۲۳)، الطب ۱۰(۵۶۹۳)، م/الطہارۃ ۳۱ (۲۸۷)، د/الطہارۃ ۱۳۷(۳۷۴)، ت/ الطہارۃ ۵۴ (۷۱)، ن/الطہارۃ ۱۸۹ (۳۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۴۲)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۳۰ (۱۱۰)، حم (۶/۳۵۵، ۳۵۶)، دي /الطہارۃ ۵۳ (۷۶۸) (صحیح)
۵۲۴- ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے ایک شیر خوار بچے کو لے کررسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کردیا، آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا ۔


525- حَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ؛ قَالا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ِشَامٍ، أَنْبَأَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ؛ أنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ، فِي بَوْلِ الرَّضِيعِ < يُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلامِ، وَيُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ >.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۳۷ (۳۷۷)، ت/الطھارۃ ۵۴ (۶۱۰)، الصلاۃ ۴۳۰ (۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۷) (صحیح)
۵۲۵- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے شیر خوار بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا: ''بچے کے پیشاب پہ

چھینٹا مارا جائے، اور بچی کا پیشاب دھویا جائے '' ۔
[ز] 525/أ - قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُوسَى بْنِ مَعْقِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْمِصْرِيُّ قَالَ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ < يُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلامِ، وَيُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ > وَالْمَائَانِ جَمِيعًا وَاحِدٌ، قَالَ: لأَنَّ بَوْلَ الْغُلامِ مِنَ الْمَائِ وَالطِّينِ، وَبَوْلَ الْجَارِيَةِ مِنَ اللَّحْمِ وَالدَّمِ، ثُمَّ قَالَ لِي: فَهِمْتَ؟ أَوْ قَالَ: لَقِنْتَ؟ قَالَ، قُلْتُ: لا ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمَّا خَلَقَ آدَمَ خُلِقَتْ حَوَّائُ مِنْ ضِلْعِهِ الْقَصِيرِ، فَصَارَ بَوْلُ الْغُلامِ مِنَ الْمَائِ وَالطِّينِ، وَصَارَ بَوْلُ الْجَارِيَةِ مِنَ اللَّحْمِ وَالدَّمِ، قَالَ: قَالَ لِي: فَهِمْتَ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ لِي: نَفَعَكَ اللَّهُ بِهِ۔ (مصباح الزجاجۃ : ۲۱۹)
۵۲۵ /أ - ابوالیمان مصری کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے نبی اکرمﷺ کی اس حدیث ''يرش من الغلام، ويغسل من بول الجارية '' بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے کے متعلق پوچھاکہ دونوں میں فرق کی کیا وجہ ہے جب کہ پیشاب ہونے میں دونوں برابر ہیں؟ تو امام شافعی نے جواب دیا : لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے بنا ہے، اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے، اس کے بعد مجھ سے کہا: کچھ سمجھے ؟ میں نے جواب دیا: نہیں، انہوں نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، تو ان کی چھوٹی پسلی سے حوا پیدا کی گئیں، تو بچے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہوا، اور بچی کا پیشاب خون اور گوشت سے، پھر مجھ سے پوچھا: سمجھے ؟میں نے کہا : ہاں، اس پر انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے نفع بخشے ۔


526- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ؛ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو السَّمْحِ؛ قَالَ: كُنْتُ خَادِمَ النَّبِيِّ ﷺ فَجِيئَ بِالْحَسَنِ أَوِ الْحُسَيْنِ، فَبَالَ عَلَى صَدْرِهِ، فَأَرَادُوا أَنْ يَغْسِلُوهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < رُشَّهُ، فَإِنَّهُ يُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ، وَيُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلامِ >۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۳۷ (۳۷۶)، ن/الطہارۃ ۱۹۰(۳۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۱، ۱۲۰۵۲) (صحیح)
۵۲۶- ابوسمح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کاخادم تھا، آپ کے پاس حسن یا حسین کو لایا گیا، انہوں نے آپ ﷺ کے سینے پر پیشاب کردیا، لوگوں نے اسے دھونا چاہا، آپﷺ نے فرمایا: '' اس پر پانی چھڑک دو، اس لئے کہ بچی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جاتا ہے '' ۔


527- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيّ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < بَوْلُ الْغُلامِ يُنْضَحُ، وَبَوْلُ الْجَارِيَةِ يُغْسَلُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۰، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/ ۴۲۲، ۴۴۰، ۴۶۴) (صحیح)
(اس سندمیں انقطاع ہے اس لئے کہ عمروبن شعیب کا ام کرز سے سماع نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث اور دوسرے شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۵۲۷- ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے، اور بچی کا پیشاب دھویا جائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں شریعت نے فرق رکھا ہے، ا س کو روکنے کے لئے طرح طرح کی تاویلات فاسدہ کرنا محض تعصب بے جا کی کرشمہ سازی ہے، مسلمان کو اس کے رسول کا فرمان کافی ہے، اس کے سامنے اسے کسی دوسری طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔
 
Top