• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78- بَاب الأَرْضِ يُصِيبُهَا الْبَوْلُ كَيْفَ تُغْسَلُ؟
۷۸ -باب: زمین پر پیشاب پڑ جائے تو اسے کیسے دھلے؟​


528- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَوَثَبَ إِلَيْهِ بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لا تُزْرِمُوهُ>، ثُمَّ دَعَا بِدَلْوٍ مِنْ مَائٍ، فَصَبَّ عَلَيْهِ.
* تخريج:خ/الوضوء ۵۸ (۲۱۹)، الأدب ۳۵ (۶۰۲۵)، ۸۰ (۶۱۲۸)، م/الطہارۃ ۳۰ (۲۸۴)، ن/الطہارۃ ۴۵ (۵۳)، المیاہ ۲(۳۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۰)، وقد أخرجہ: ت/الطہارۃ ۱۲ (۱۴۷)، حم (۲/۲۲۹، ۲۸۲)، دي/الطہارۃ ۶۲ (۷۶۷) (صحیح)
۵۲۸- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا، توکچھ لوگ اس کی جانب لپکے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اس کا پیشاب نہ روکو اطمنان سے کرلینے دو''، پھر آپﷺ نے ایک ڈول پانی منگایا، اور اس پر بہادیا '' ۔


529- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسٌ . فَقَالَ: اللَّهُمَّ! اغْفِرْ لِي وَلِمُحَمَّدٍ، وَلا تَغْفِرْ لأَحَدٍ مَعَنَا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: < لَقَدِ احْتَظَرْتَ وَاسِعًا > ثُمَّ وَلَّى، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَشَجَ يَبُولُ، فَقَالَ الأَعْرَابِيُّ، بَعْدَ أَنْ فَقِهَ، فَقَامَ: إِلَيَّ، بِأَبِي وَأُمِّي، فَلَمْ يُؤَنِّبْ وَلَمْ يَسُبَّ، فَقَالَ: < إِنَّ هَذَا الْمَسْجِدَ لا يُبَالُ فِيهِ، وَإِنَّمَا بُنِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ وَلِلصَّلاةِ > ثُمَّ أَمَرَ بِسَجْلٍ مِنْ مَائٍ، فَأُفْرِغَ عَلَى بَوْلِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۷۳)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۵۸ (۲۱۹)، د/الطہارۃ ۱۳۸ (۳۸۰)، ت/الطہارۃ ۱۱۲(۱۴۷)، ن/الطہارۃ ۴۵ (۵۳)، حم (۲/۵۰۳) (حسن صحیح)
۵۲۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کہا: اے اللہ! میری اور محمد کی مغفرت فرمادے، اور ہمارے ساتھ کسی اور کی مغفر ت نہ کر، رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: '' تم نے ایک کشادہ چیز(یعنی اللہ کی مغفرت) کو تنگ کردیا، '' پھر وہ دیہاتی پیٹھ پھیر کرچلا، اور جب مسجد کے ایک گوشہ میں پہنچا تو ٹانگیں پھیلا کر پیشاب کرنے لگا، پھر دین کی سمجھ آجانے کے بعد(یہ قصہ بیان کرکے) دیہاتی نے کہا: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں، مجھے نہ تو آپ نے ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف یہ فرمایا: '' یہ مسجد پیشاب کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ذکر اور صلاۃ کے لیے بنائی گئی ہے'' پھر آپﷺنے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا، تو وہ اس کے پیشاب پر بہا دیا گیا ۔


530- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ الْهُذَلِيِّ - قَالَ مُحَمَّدُ ابْنُ يَحْيَى: هُوَ عِنْدَنَا ابْنُ أَبِي حُمَيْدٍ- أَنْبَأَنَا أَبُو الْمَلِيحِ الْهُذَلِيُّ، عَنْ وَاثِلَةَ ابْنِ الأَسْقَعِ؛ قَالَ: جَائَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: اللَّهُمّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا، وَلا تُشْرِكْ فِي رَحْمَتِكَ إِيَّانَا أَحَدًا، فَقَالَ: < لَقَدْ حَظَرْتَ وَاسِعًا، وَيْحَكَ! أَوْ وَيْلَكَ ! > قَالَ، فَشَجَ يَبُولُ، فَقَالَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ: مَهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < دَعُوهُ > ثُمَّ دَعَا بِسَجْلٍ مِنْ مَائٍ فَصَبَّ عَلَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵۵، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۱) (صحیح)
(سند میں عبیداللہ الہذلی ضعیف ہیں، لیکن ابو ہریرہ وانس رضی اللہ عنہما کی سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۵۳۰- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اے اللہ مجھ پر اور محمد پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ اپنی رحمت میں کسی کو شریک نہ کر، آپﷺ نے فرمایا: ''تم نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کردیا ''، افسوس ہے تم پر یا تمہارے لیے خرابی ہے''، واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ پاؤںپھیلا کر پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: رکو، رکو، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اسے چھوڑدو '' (پیشاب کرلینے دو)، پھر آپﷺ نے ایک ڈول پانی منگایا اور اس پر بہادیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس باب کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ ناپاک زمین پر پانی بہانا کافی ہے، اور اسی سے وہ پاک ہو جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79- بَاب الأَرْضُ يُطَهِّرُ بَعْضُهَا بَعْضًا
۷۹- باب: پاک زمین ناپاک زمین کی نجاست کو پاک کردیتی ہے​


531- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لإِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ؛ أَنَّهَا سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي، فَأَمْشِي فِي الْمَكَانِ الْقَذِرِ. فَقَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ >۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۴۰ (۳۸۳)، ت/الطہارۃ ۱۰۹ (۱۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۹۶)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۴ (۱۶)، دي/الطہارۃ ۶۴ (۷۶۹) (صحیح)
(اس سند میں ام ولد ابراہیم مجہول ہے، لیکن شواہدکی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود: ۴۰۷)
۵۳۱- ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کی اُمّ ولد سے روایت ہے کہانہوں نے ام المومنین اُمّ سلمہ سے پوچھا : میرا دامن بہت لمبا ہے، اور مجھے گندی جگہ میں چلنا پڑتا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے : '' ناپاک زمین کے بعد والی زمین اس دامن کو پاک کردیتی ہے'' ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حال اس لٹکتے ہوئے دامن کا ہے جو ناپاک جگہوں سے رگڑتا ہے، جس کی طہارت کا حدیث میں ایک انوکھا عمدہ اور سہل طریقہ بیان کیاگیا ہے کہ اس کے بعد کی پاک جگہ کی رگڑ اسے پاک وصاف کردے گی بر خلاف ہمارے یہاں کے وسوسہ میں مبتلا لوگوں کے جنہوں نے دامنِ محمدی چھوڑکر شیطان کے گریبان وسواس میں سر ڈالا ہے، اور ادنی سے چھینٹو ں کو دھوکر کپڑوں کا ناس نکالا ہے، نعوذ باللہ من ہذا الوسواس ۔


532- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْيَشْكُرِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا نُرِيدُ الْمَسْجِدَ فَنَطَأُ الطَّرِيقَ النَّجِسَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الأَرْضُ يُطَهِّرُ بَعْضُهَا بَعْضًا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۴۵، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۱) (ضعیف)
(اس کی سند میں ابراہیم الیشکری مجہول اور ابن أبی حبیبہ (ابراہیم بن اسماعیل) ضعیف راوی ہیں، ابو داود میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ثابت ہے کہ : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے جو تے سے نجاست روندے تو (اس کے بعد کی) مٹی اس کو پاک کر دے گی (حدیث نمبر: ۳۸۵)
۵۳۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! ہم مسجد جاتے ہیں تو ناپاک راستے پر ہمارے پیر پڑجاتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' زمین کا دوسرا (پاک) حصہ اسے پاک کردیتا ہے '' ۔


533- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي عَبْدِالأَشْهَلِ، قَالَتْ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ، فَقُلْتُ: إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمَسْجِدِ طَرِيقًا قَذِرَةً، قَالَ: < فَبَعْدَهَا طَرِيقٌ أَنْظَفُ مِنْهَا؟ > قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: <فَهَذِهِ بِهَذِهِ >.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۴۰(۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۳۵) (صحیح)
۵۳۳- قبیلہ بنو عبدالاشہل کی ایک عورت رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ سے سوال کیا: میرے اور مسجد کے مابین ایک گندا راستہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: '' کیا اس کے بعد اس سے صاف راستہ ہے''، میں نے کہا : ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا: ''تو یہ اس کے بدلے ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ جو وضو کر کے مسجد میں اپنے گھر سے ننگے پائوں آئے، اس کو پیر دھونا کچھ ضروری نہیں، اس لئے کہ ناپاک راستے کا کفارہ پاک وصاف راستے میں قدم رکھنا ہے، اور جو کپڑا لٹک گیا ہو یا ہمیشہ لٹکتا ہو اس کے دھونے کی ضرورت نہیں، سبحان اللہ شریعت محمدی میں یہ کیسی آسانی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80- بَاب مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ
۸۰ -باب: جنبی سے مصافحہ کے حکم کا بیان​


534- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ لَقِيَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ جُنُبٌ، فَانْسَلَّ، فَفَقَدَهُ النَّبِيُّ ﷺ، فَلَمَّا جَائَ، قَالَ: < أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ > قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَقِيتَنِي وَأَنَا جُنُبٌ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ حَتَّى أَغْتَسِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الْمُؤْمِنُ لا يَنْجُسُ >۔
* تخريج: خ/الغسل ۲۳ (۲۸۳)، م/الحیض ۲۹ (۳۷۱)، د/الطہارۃ ۹۲ (۲۳۱)، ت/الطہارۃ ۸۹ (۱۲۱)، ن/الطہارۃ ۱۷۲ (۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۵، ۲۸۲، ۴۷۱) (صحیح)
۵۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جنبی تھے نبی اکرمﷺ مدینے کے کسی راستے میں انہیں ملے، تو وہ چپکے سے نکل لیے، نبی اکرم ﷺ نے ان کو غائب پایا، جب وہ آئے توآپﷺ نے پوچھا: ''ابوہریرہ ! تم کہاں تھے؟''، کہا: اللہ کے رسول ! آپ سے ملاقات کے وقت میں جنبی تھا، اور بغیر غسل کئے آپ کی محفل میں بیٹھنا مجھے اچھا نہیں لگا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مومن ناپاک نہیں ہوتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی ہونے سے مومن کا جسم اس طرح ناپاک نہیں ہوتا کہ کوئی اسے ہاتھ سے چھولے تو ہاتھ نا پاک ہوجائے، بلکہ اس کی ناپاکی حکمی ہوتی ہے عینی نہیں۔


535- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ (ح) وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، جَمِيعًا، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ وَاصِلٍ الأَحْدَبِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ؛ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ، فَلَقِيَنِي وَأَنَا جُنُبٌ، فَحِدْتُ عَنْهُ، فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ: <مَا لَكَ؟> قُلْتُ: كُنْتُ جُنُبًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ الْمُسْلِمَ لا يَنْجُسُ >۔
* تخريج: م/الحیض ۲۹ (۳۷۲)، د/الطہارۃ ۹۲ (۲۳۰)، ن/الطہارۃ ۱۷۲ (۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۴، ۴۰۲) (صحیح)
۵۳۵- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نکلے تو آپ کی مجھ سے ملاقات ہوگئی اور میں جنبی تھا، میں کھسک لیا، پھر غسل کرکے حاضر خدمت ہوا، آپﷺ نے پوچھا: تمہیں کیا ہوگیا تھا ؟ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مسلمان ناپاک نہیں ہوتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان ا حادیث سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا، خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، مردہ ہویا زندہ، امام بخاری نے ایک روایت میں تعلیقاً یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں کہ مومن زندہ یا مردہ کسی صورت میں نجس نہیں ہوتا، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہواکہ بزرگوں کی محفلوں میں پاکی کے اہتمام کے ساتھ حاضر ہونا چاہیے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم یا استاذ اپنے شاگردوں کا حال پوچھے اور غیر حاضری کے اسباب دریافت کرے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81- بَاب الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ
۸۱-باب: منی لگے ہوئے کپڑے کا حکم​


536- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ؛ قَالَ: سَأَلْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ عَنِ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الْمَنِيُّ، أَنَغْسِلُهُ أَوْ نَغْسِلُ الثَّوْبَ كُلَّهُ؟ قَالَ سُلَيْمَانُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصِيبُ ثَوْبَهُ، فَيَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فِي ثَوْبِهِ إِلَى الصَّلاةِ، وَأَنَا أَرَى أَثَرَ الْغَسْلِ فِيهِ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۶۴ (۲۲۷)، ۶۵ (۲۲۹)، م/الطہارۃ ۳۲ (۲۸۹) د/الطہارۃ ۱۳۶(۳۷۳)، ن/الطہارۃ ۱۸۷ (۲۹۶)، ت/الطہارۃ ۱۸۷(۱۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۳۵)، حم (۶/۴۸، ۱۴۲، ۱۶۲، ۲۳۵) (صحیح)
۵۳۶- عمر وبن میمون کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان بن یسار سے سوال کیا: اگر کپڑے میں منی لگ جائے تو ہم صرف اتنا ہی حصہ دھوئیں یا پورے کپڑے کو ؟ سلیمان نے کہا: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے کپڑے میں منی لگ جاتی تو اس حصے کو دھولیتے، پھر اسی کو پہن کر صلاۃ کے لیے تشریف لے جاتے، اور میں اس کپڑے میں دھونے کا نشان دیکھتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82- بَاب فِي فَرْكِ الْمَنِيِّ مِنَ الثَّوْبِ
۸۲-باب: کپڑے سے منی کھرچنے کا بیان​


537- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ابْنُ سُلَيْمَانَ، جَمِيعًا عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: رُبَّمَا فَرَكْتُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِيَدِي۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۳۲ (۶۸۸)، د/الطہارۃ ۱۳۶(۳۷۱)، ن/الطہارۃ ۱۸۸ (۲۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۷۶)، وقد أخرجہ: ت/الطہارۃ ۸۵ (۱۱۶)، حم (۶ /۶۷، ۱۲۵، ۱۳۵، ۲۱۳، ۲۳۹، ۲۶۳، ۰ ۲۸) (صحیح)
۵۳۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض اوقات میں اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کھرچ دیاکرتی تھی ۔


538- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ؛ قَالَ: نَزَلَ بِعَائِشَةَ ضَيْفٌ فَأَمَرَتْ لَهُ بِمِلْحَفَةٍ لَهَا صَفْرَائَ، فَاحْتَلَمَ فِيهَا، فَاسْتَحْيَا أَنْ يُرْسِلَ بِهَا، وَفِيهَا أَثَرُ الاحْتِلامِ، فَغَمَسَهَا فِي الْمَائِ، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ أَفْسَدَ عَلَيْنَا ثَوْبَنَا؟ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَفْرُكَهُ بِإِصْبَعِهِ، رُبَّمَا فَرَكْتُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِإِصْبَعِي۔
* تخريج: ت/الطہارۃ ۸۵ (۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۷۷) (صحیح)
۵۳۸- ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک مہمان آیا، انہوں نے مہمان کے لیے اپنی پیلی چادر دینے کا حکم دیا، اسے اس چادر میں احتلام ہوگیا، اسے شرم محسوس ہوئی کہ وہ چادر کواس حال میں بھیجے کہ اس میں احتلام کا نشان ہو، اس نے چادر پانی میں ڈبودی، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کردیا؟ اسے تو انگلی سے کھرچ دینا کافی تھا، میں نے اکثر رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی اپنی انگلی سے کھرچی ہے ۔


539- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ،عَنْ عَائِشَةَ؛ قالَتْ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَجِدُهُ فِي ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَحُتُّهُ عَنْهُ۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۳۲ (۲۸۸)، ن/الطہارۃ ۱۸۸(۳۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۷۶) (صحیح)
۵۳۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر میں کبھی رسول اللہ ﷺ کے کپڑے میں منی لگی دیکھتی تو اسے کھرچ دیتی تھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر کپڑے میں منی لگ جائے تو اسے دور کرنے کے تین طریقے ہیں، کھر چنا، رگڑنا، اور دھونا، جس طریقے سے بھی اس کا ازالہ ممکن ہو کرسکتا ہے، بعض روایتوں میں اگرمنی گیلی ہو تو دھوئے اور سوکھی ہوتو کھرچنے یار گڑنے کا ذکر ہے، کھرچنے، رگڑنے، یا دھونے سے اگر نشان باقی رہتا ہے تو کوئی حرج نہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ منی کا معاملہ رینٹ اور تھوک جیسا ہے اس کو کھر چنا یا رگڑنا کافی ہے، اور یہی دلیل ہے اس کے پاک ہونے کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83- بَاب الصَّلاةِ فِي الثَّوْبِ الَّذِي يُجَامِعُ فِيهِ
۸۳ -باب: جماع والے کپڑوں میں صلاۃ پڑھنے کاحکم​


540- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّهُ سَأَلَ أُخْتَهُ أُمَّ حَبِيبَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي فِي الثَّوْبِ الَّذِي يُجَامِعُ فِيهِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، إِذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ أَذًى۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۳۳(۳۶۶)، ن/الطہارۃ ۱۸۶ (۲۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۶۸)، وقد أخرجہ: حم ۶/۳۲۵، ۴۲۶)، دي/الصلاۃ ۱۰۲(۱۴۱۵) (صحیح)
۵۴۰- معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بہن ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ جماع والے کپڑوں میں صلاۃ پڑھتے تھے؟ کہا: ہاں، لیکن ایسا تب ہوتا تھا جب کپڑوں میں گندگی نہ لگی ہوتی تھی۔


541- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى الْخُشَنِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ ابْنُ وَاقِدٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ مَائً، فَصَلَّى بِنَا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، مُتَوَشِّحًا بِهِ، قَدْ خَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! تُصَلِّي بِنَا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: " نَعَمْ أُصَلِّي فِيهِ ، وَفِيهِ > أَيْ قَدْ جَامَعْتُ فِيهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۴۵، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۲) (حسن)
(اس حدیث کی سند میں حسن بن یحییٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ میں ہے، صحیح ابی داود : /۳۹۰)
۵۴۱- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہاتھا، آپ نے ہمیں ایک ہی کپڑے میں صلاۃ پڑھائی، جسے آپ اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کا داہنا کنارا بائیں کندھے پراور بایاں داہنے کندھے پرتھا، جب آپ صلاۃ سے فارغ ہوئے، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ ہمیں ایک ہی کپڑے میں صلاۃ پڑھالیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا: '' ہاں، میں ایک ہی کپڑے میں صلاۃ پڑھاؤں گا، اور اسی میں...'' یعنی اسی میں مجامعت بھی کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ان روایتوں سے ثابت ہوگیا کہ رسول اکرم ﷺ کا کوئی کپڑا خاص صلاۃ کے لئے نہیں رہتا تھا، بلکہ روز مرہ کے کپڑوں سے ہی صلاۃ بھی ادا کر لیتے تھے، اس لئے بعض لوگوں نے جو سجادے، جوڑے اور کپڑے صلاۃ کے لئے خاص کر لئے ہیں، یہ بدعات ومحدثات میں داخل ہیں، پھر اگر کوئی ان کو چھو لے تو ہندؤوں کی طرح چھوت سمجھتے ہیں، اور بھوت کی طرح الگ رہتے ہیں، ان کو وسواس خناس نے مبہوت کردیا ہے ۔


542- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يُوسُفَ الزِّمِّيُّ (ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ،حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ الرَّقِّيُّ؛ قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ ﷺ: يُصَلِّي فِي الثَّوْبِ الَّذِي يَأْتِي فِيهِ أَهْلَهُ ؟ قَالَ: <نَعَمْ، إِلا أَنْ يَرَى فِيهِ شَيْئًا، فَيَغْسِلَهُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۰۶، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۴)، حم (۵/۸۹، ۹۷) (صحیح)
۵۴۲- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا : کیا وہ اس کپڑے میں صلاۃ پڑھ سکتا ہے جس میں بیوی سے صحبت کرتا ہے؟آپﷺ نے فرمایا: '' ہاں، مگر یہ کہ اس میں کسی گندگی کا نشان دیکھے تو اسے دھولے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84- بَاب مَا جَائَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ
۸۴ -باب: موزوں پر مسح کا بیان​


543- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: بَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ؛ فَقِيلَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: وَمَا يَمْنَعُنِي؟ وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَفْعَلُهُ.
قَالَ إِبْرَاهِيمُ: كَانَ يُعْجِبُهُمْ حَدِيثُ جَرِيرٍ؛ لأَنَّ إِسْلامَهُ كَانَ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ۔
* تخريج:خ/الصلاۃ ۲۵ (۳۸۷)، م/الطہارۃ ۲۲ (۲۷۲)، ت/الطہارۃ ۷۰ (۱۱۸)، ن/الطہارۃ ۹۶ (۱۱۸)، القبلۃ ۲۳ (۷۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۸، ۳۶۳، ۳۶۴) (صحیح)
۵۴۳- ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے پوچھا گیا: کیا آپ ایسا کرتے ہیں ؟کہا: میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
ابراہیم کہتے ہیں: لوگ جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث پسند کرتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے سورہ مائدہ کے نزول کے بعد اسلام قبول کیا، (کیونکہ سورہ مائدہ میں پیر کے دھونے کا حکم تھا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت میں لوگوں سے مراد اصحاب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، جس کی صراحت مسلم کی روایت میں ہے، مطلب یہ کہ سورہ مائدہ میں وضو کا حکم ہے، اگر جریر رضی اللہ عنہ کا اسلام نزول آیت سے پہلے ہوتا تو احتمال تھا کہ یہ حکم منسوخ ہو، اور جب متأخر ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سنت آیت کی مخصص ہے، اور حکم یہ ہے کہ اگر پیروں میں وضو کے بعد خف (موزے) پہنے ہوں تو مسح کافی ہے، دھونے کی ضرورت نہیں۔


544- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ (ح) وحَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، جَمِيعًا عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ۔
* تخريج:انظر حدیث رقم (۳۰۵، ۳۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۵) (صحیح)
۵۴۴- حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا ۔


545- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،عَنْ أَبِيهِ الْمُغِيرَةِ ابْنِ شُعْبَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ خَرَجَ لِحَاجَتِهِ، فَاتَّبَعَهُ الْمُغِيرَةُ بِإِدَاوَةٍ فِيهَا مَائٌ، حَتَّى فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۴۸ (۱۸۲)، ۴۹ (۲۰۳)، المغازي ۸۱ (۴۴۲۱)، اللباس ۱۱(۵۷۹۹) م/الطہارۃ ۲۲(۲۷۴)، د/الطہارۃ ۵۹ (۱۴۹)، ن/الطہا رۃ ۶۳ (۷۹)، ۶۶ (۸۲)، ۷۹ (۹۶)، ۸۰ (۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱۴)، وقد أخرجہ: ت/الطہارۃ ۷۵ (۱۰۰)، ط/الطہارۃ ۸ (۴۱)، حم (۴/۲۵۵)، دي/الطہارۃ ۴۱ (۷۴۰) (صحیح)
۵۴۵- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ قضائے حاجت کے لئے نکلے، وہ ایک لوٹے میں پانی لے کر آپ ﷺ کے پیچھے ہولیے، جب آپ اپنی ضرورت سے فارغ ہوگئے، تو وضو کیا، اور موزوں پر مسح کیا ۔


546- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ رَأَى سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَتَفْعَلُونَ ذَلِكَ؟ فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ سَعْدٌ لِعُمَرَ: أَفْتِ ابْنَ أَخِي فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ عُمَرُ: كُنَّا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَمْسَحُ عَلَى خِفَافِنَا، لا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنْ جَائَ مِنَ الْغَائِطِ؟ قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۵)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۴۹ (۲۰۲)، ط /الطہارۃ ۸ (۴۲)، حم (۱/۳۵) (صحیح)
(اس سند میں سعید بن أبی عروبہ مد لس صاحب اختلاط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن بقول بوصیری محمد بن سواء نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے، نیز دوسرے طرق ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
۵۴۶- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سعد بن مالک (ابن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو کہا : کیا آپ لوگ بھی ایسا کرتے ہیں ؟ وہ دونوں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھا ہوئے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتائیے، تو عمررضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوتے تھے، اور اپنے موزوں پر مسح کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، ابن عمررضی اللہ عنہما نے کہا: خواہ کوئی بیت الخلاء سے آئے ؟ فرمایا: ہاں ۔


547- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمُهَيْمِنِ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍالسَّاعِدِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَأَمَرَنَا بِالْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۰، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۷) (صحیح)
(اس حدیث کی سند میں عبد المہیمن ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
۵۴۷- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا، اور ہمیں موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا ۔


548- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍالطَّنَافِسِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ: < هَلْ مِنْ مَائٍ > فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ لَحِقَ بِالْجَيْشِ، فَأَمَّهُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۳، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۷) (ضعیف)
(عمر بن المثنی الاشجعی الرقی مستور ہیں، اور عطاء خراسانی اور انس رضی اللہ عنہ کے مابین انقطاع ہے، جس کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
۵۴۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھاکہ آپ نے فرمایا: ''کچھ پانی ہے؟''، پھر آپ نے وضو کیا، اور موزوں پر مسح کیا، پھر لشکر میں شامل ہوئے اور ان کی امامت فرمائی ۔


549- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا دَلْهَمُ بْنُ صَالِحٍ الْكِنْدِيُّ، عَنْ حُجَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْكِنْدِيِّ، عَنِ أبِيْ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّجَاشِيَّ أَهْدَى لِلنَّبِيِّ ﷺ خُفَّيْنِ أَسْوَدَيْنِ سَاذَجَيْنِ، فَلَبِسَهُمَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَيْهِمَا۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۵۹ (۱۵۵)، ت/الأدب ۵۵ (۲۸۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۲)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۶۲۰) (حسن)
۵۴۹- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجاشی نے نبی اکرمﷺ کو دو سیاہ سادے موزے بطورہدیہ پیش کئے، آپ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85- بَاب مَا جَائَ فِي مَسْحِ أَعْلَى الْخُفِّ وَأَسْفَلِهِ
۸۵ -باب: موزوں کے اوپر اور نیچے مسح کرنے کا بیان​


550- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَسَحَ أَعْلَى الْخُفِّ وَأَسْفَلَهُ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۳ (۱۶۵)، ت/الطہارۃ ۷۲ (۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۳۷)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۸ (۴۱) حم (۴/۲۵۱) دي/الطہارۃ ۴۱ (۷۴۰) (ضعیف)
(ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۵۲۱)
(شاید سند میں انقطاع ہے کیونکہ ثور کا سماع حیوۃ سے ثابت نہیں ہے)
۵۵۰- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موزے کے اوپر اور نیچے مسح کیا ۔


551- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ يَزِيدَ؛ قَالَ: حَدَّثَنِي مُنْذِرٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ،عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرَجُلٍ يَتَوَضَّأُ وَيَغْسِلُ خُفَّيْهِ، فَقَالَ بِيَدِهِ، كَأَنَّهُ دَفَعَهُ < إِنَّمَا أُمِرْتَ بِالْمَسْحِ > وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِيَدِهِ هَكَذَا: مِنْ أَطْرَافِ الأَصَابِعِ إِلَى أَصْلِ السَّاقِ . وَخَطَّطَ بِالأَصَابِعِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۸) (ضعیف جدا)
(سند میں بقیہ مدلس اور جریر بن یزید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: ۱۹)
۵۵۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو وضو کر رہا تھا، اور اپنے دونوں موزوں کو دھو رہا تھا، آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، گویا آپ اُسے روک رہے ہیں، اور فرمایا: '' تمہیں تو (موزوں پر) صرف مسح کا حکم دیا گیا ہے''، اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح کیا یعنی انگلیوں کے کناروں سے خط کھینچتے ہوئے پنڈلیوں کی جڑ تک لے گئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86- بَاب مَا جَائَ فِي التَّوْقِيتِ فِي الْمَسْحِ لِلْمُقِيمِ وَالْمُسَافِرِ
۸۶ -باب: مقیم اور مسافر کے لئے مسح کی مدت کابیان​


552- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ؛ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَتِ: ائْتِ عَلِيًّا فَسَلْهُ، فَإِنَّهُ أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنِّي، فَأَتَيْتُ عَلِيًّا فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْمَسْحِ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَأْمُرُنَا أَنْ نَمْسَحَ، لِلْمُقِيمِ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَلِلْمُسَافِرِ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۲۴ (۲۷۶)، ن/الطہارۃ ۹۹ (۱۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۶، ۱۰۰، ۱۱۳، ۱۲۰، ۳ ۱۳، ۱۳۴، ۱۴۶، ۱۴۹)، دي/الطہارۃ ۴۲ (۷۴۱) (صحیح)
۵۵۲- شریح بن ہانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے پوچھو، اس لئے کہ وہ اس مسئلہ کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، چنانچہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے مسح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ہم کو حکم دیتے تھے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات، اورمسافر تین دن تک مسح کرے ۔


553- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلْمُسَافِرِ ثَلاثًا، وَلَوْ مَضَى السَّائِلُ عَلَى مَسْأَلَتِهِ لَجَعَلَهَا خَمْسًا۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۰ (۱۵۷)، ت/الطہارۃ ۷۱ (۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۱۳، ۲۱۴، ۲۱۵) (صحیح)
۵۵۳- خُزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مسافر کے لئے تین دن تک کی اجازت دی ہے اور اگر پوچھنے والا اپنے سوال کو جاری رکھتا تو شاید اسے آپ پانچ دن کردیتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر مسافر نے وضو کرنے کے بعد موزے پہنے ہیں، تو وہ ان پر تین دن اور تین رات تک مسح کرسکتا ہے، واضح رہے کہ جس وقت پہنا ہے اس کا اعتبار نہیں بلکہ جس صلاۃ کے وقت سے موزے پر مسح شروع کیا ہے اس کا اعتبار ہوگا، نیز نہانے کی حاجت اگر ہو جائے، تو اتارنے پڑیں گے۔


554- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ ابْنِ كُهَيْلٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ، يُحَدِّثُ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <ثَلاثَةُ أَيَّامٍ> أَحْسِبُهُ قَالَ: <وَلَيَالِيهِنَّ لِلْمُسَافِرِ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ>۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۵۵۴- خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''تین دن اور ان کی راتیں مسافر کے لئے موزوں پر مسح کے حکم میں داخل ہیں '' ۔


555- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ؛ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ الثُّمَالِيُّ،قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الطُّهُورُ عَلَى الْخُفَّيْنِ؟ قَالَ: < لِلْمُسَافِرِ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۱۴) (صحیح)
(اس حدیث کی سند میں عمر الثمالی ضعیف ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر حدیث صحیح ہے)
۵۵۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! موزوں پر طہارت کی مدت کتنی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' مسافر کے لئے تین دن اور تین رات، اور مقیم کے لئے ایک دن اورایک رات '' ۔


556- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَبِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ؛ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ ابْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُهَاجِرُ أَبُو مَخْلَدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ " أ نَّهُ رَخَّصَ لِلْمُسَافِرِ إِذَا تَوَضَّأَ وَلَبِسَ خُفَّيْهِ ثُمَّ أَحْدَثَ وُضُوئًا، أَنْ يَمْسَحَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ وَلِلْمُقِيمِ يَوْمًا وَلَيْلَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۲، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲۹) (حسن)
۵۵۶- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مسافر کو رخصت دی کہ جب وہ با وضو ہو کر اپنے موزے پہنے، پھر اس کا وضو ٹوٹ جائے اور نیا وضو کرے، تو وہ اپنے موزوں پر تین دن اور تین رات تک مسح کرے، اور مقیم ایک دن، اور ایک رات تک ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
87- بَاب مَا جَائَ فِي الْمَسْحِ بِغَيْرِ تَوْقِيتٍ
۸۷ -باب: موزوں پر مسح کے لیے مدت کی حد نہ ہونے کا بیان​


557- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيَّانِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ ابْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ رَزِينٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ قَطَنٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ عِمَارَةَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَدْ صَلَّى فِي بَيْتِهِ الْقِبْلَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ: أَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ؟ قَالَ: < نَعَمْ > قَالَ: يَوْمًا؟ قَالَ: < وَيَوْمَيْنِ > قَالَ: وَثَلاثًا؟ حَتَّى بَلَغَ سَبْعًا، قَالَ لَهُ: < وَمَا بَدَا لَكَ >۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۰ (۱۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶) (ضعیف)
(اس کی سند میں محمدبن یزید مجہول الحال ہیں)
۵۵۷- ابی بن عمارہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ان کے گھر میں دونوں قبلوں کی جانب صلاۃ پڑھی تھی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : کیا میں موزوں پر مسح کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' ہاں ''، کہا: ایک دن تک؟ آپ نے فرمایا: '' ہاں ''، کہا : دو دن تک آپﷺ نے فرمایا: '' ہاں''، کہا: تین دن؟ آپﷺنے فرمایا : ''ہاں''، یہاں تک کہ سات تک پہنچے، آپﷺنے ان سے فرمایا : ''جب تک تمہارا دل چاہے '' ۔


558- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْبَلَوِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ ابْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنْ مِصْرَ، فَقَالَ: مُنْذُ كَمْ لَمْ تَنْزِعْ خُفَّيْكَ؟ قَالَ: مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، قَالَ: أَصَبْتَ السُّنَّةَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۰) (صحیح)
۵۵۸- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مصر سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ نے اپنے موزے کب سے نہیں اتارے ہیں ؟ انہوں نے کہا: جمعہ سے جمعہ تک، تو عمررضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے سنت کو پالیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عقبہ بن عامرجہنی رضی اللہ عنہ فتح مصر کی خوش خبری لے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے، چونکہ ایسے موقعہ پررکنے ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ہوتا، اس لئے انہوں نے تین دن سے زیادہ تک مسح کرلیا، یہ حکم ایسی ہی اضطراری صورتوں کے لئے ہے، ورنہ اصل حکم وہی ہے جو گزرا، مقیم ایک دن اور ایک رات، اور مسافر تین دن اور تین رات تک مسح کرسکتا ہے ۔
 
Top