- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
79- بَاب فِي فَضْلِ الْجُمُعَةِ
۷۹ -باب: جمعہ کی فضیلت کابیان
1084- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي لُبَابَةَ ابْنِ عَبْدِالْمُنْذِرِ؛ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ سَيِّدُ الأَيَّامِ، وَأَعْظَمُهَا عِنْدَاللَّهِ، وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ يَوْمِ الأَضْحَى وَيَوْمِ الْفِطْرِ، فِيهِ خَمْسُ خِلالٍ: خَلَقَ اللَّهُ فِيهِ آدَمَ، وَأَهْبَطَ اللَّهُ فِيهِ آدَمَ إِلَى الأَرْضِ، وَفِيهِ تَوَفَّى اللَّهُ آدَمَ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لا يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا الْعَبْدُ شَيْئًا إِلا أَعْطَاهُ، مَا لَمْ يَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، مَا مِنْ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ، وَلا سَمَائٍ، وَلا أَرْضٍ، وَلا رِيَاحٍ، وَلا جِبَالٍ، وَلا بَحْرٍ إِلا وَهُنَّ يُشْفِقْنَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۵۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۰) (ضعیف)
(عبداللہ بن محمد بن عقیل کی اس روایت کی سند ومتن میں شدید اضطراب ہے، اس لئے یہ سیاق ضعیف ہے، اصل حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کے لئے ملاحظہ ہو : ابوداود، نیز ساعت اجابہ متفق علیہ ہے، تراجع الألبانی: رقم : ۱۸۸) ۔
۱۰۸۴- ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''بیشک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے، اس کا درجہ اللہ تعالی کے نزدیک عیدالاضحی اور عید الفطر سے بھی زیادہ ہے، اس کی پانچ خصوصیات ہیں: اللہ تعالی نے اسی دن آدم کو پیدا فرمایا، اسی دن ان کو روئے زمین پہ اتارا، اسی دن اللہ تعالی نے ان کو وفات دی، اور اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ بندہ اس میں جو بھی اللہ سے مانگے اللہ تعالی اسے دے گا جب تک کہ حرام چیز کا سوال نہ کرے، اور اسی دن قیامت آئے گی، جمعہ کے دن ہر مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ اور سمندر (قیامت کے آنے سے) ڈرتے رہتے ہیں'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : جمعہ کی اجابت کی ساعت یعنی قبولیت ِ دعا کی گھڑی کے بارے میں بہت اختلاف ہے، راجح قول یہ ہے کہ یہ عصر اور مغرب کے درمیان کوئی گھڑی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے صلاۃ کے ختم ہو نے کے درمیانی وقفے میں ہوتی ہے، واللہ اعلم، اور یہ جو فرمایا: ''جب تک حرام کا سوال نہ کرے''، یعنی گناہ کے کام کے لئے دعا نہ کرے جیسے زنا یا چوری یا ڈاکے یاقتل کے لئے، تو ایسی دعا کا قبول نہ ہو نا بھی بندے کے حق میں افضل اور زیادہ بہتر ہے، اور قبول نہ ہونے والی ہر دعا کا یہی حال ہے، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری اسی میں رکھی ہے، انسان اپنے انجام سے آگاہ نہیں، ایک چیز اس کے لئے مضر ہوتی ہے لیکن وہ بہتر خیال کر کے اس کے لئے دعا کرتا ہے۔
1085- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ شَدَّاد بْنِ أَوْسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ>، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تُعْرَضُ صَلاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ، يَعْنِي بَلِيتَ؟ فَقَالَ: <إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۲۰۷ (۱۰۴۷)، ن/الجمعۃ ۵ (۱۳۷۵)، حم (۴/۸) (صحیح)
۱۰۸۵- شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اور اسی دن پہلااور دوسرا صور پھونکا جائے گا، لہٰذا اس دن مجھ پر کثرت سے درود (صلاۃ) بھیجا کرو، اس لئے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا''، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہمارا درود (صلاۃ) آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ قبر میں بوسیدہ ہو چکے ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے زمین پہ انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام قراردیاہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : شداد بن اوس: یہ وہم ہے جو (۱۱۰۳) نمبر حدیث میں آرہا ہے، صحیح : اوس بن او س ہے، (ملاحظہ ہو : تحفۃ الاشراف : ۴۸۱۹، ۱۷۳۶، و مصباح الزجاجۃ : ۳۸۳)
وضاحت ۲؎ : سارے انبیاء ورسل کے اجسادِ مبارکہ زمین کے اندر صحیح ۱ور سالم ہیں، اور روح تو سب کی زندہ وسلامت رہتی ہے، پس نبی اکرمﷺ اپنی روح اور جسم کے ساتھ قبر میں صحیح سالم ہیں، اور یہ برزخی زندگی کی سب سے بہتر شکل ہے، جو کوئی قبر کے پاس آپ پر صلاۃ وسلام بھیجے تو آپ ﷺ خود اس کا جواب دیتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : ''ما من أحد يسلّم عليَّ عند قبري ردَّ الله عليَّ روحي حتّى أردّ عليه السلام'' یہ آپ ﷺ کی خصوصیت میں سے ہے، اور اگر درود وسلام دور سے بھیجا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ ﷺ تک پہنچانے کے لئے فرشتے مقرر فرما دیئے ہیں، جو اسے آپ ﷺ تک پہنچادیتے ہیں، اہل حدیث کا یہ اعتقاد ہے، اگرچہ یہ زندگی دنیا کی سی زندگی نہیں ہے، جس میں آدمی کھانے اور پینے کا محتاج ہوتاہے، برزخی زندگی کی مکمل کیفیت وحالت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتاہے، ہم صرف انہی احوال پر ایمان لانے کے مکلف ہیں جو قرآن مجید اوراحادیث صحیحہ میں مذکورہیں۔
1086- حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <الْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَفَّارَةُ مَا بَيْنَهُمَا، مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۳۸)، وقد أخرجہ: م/الطہارۃ ۵ (۲۳۳)، ت/المواقیت ۴۷ (۲۱۴)، حم (۲/۴۸۱) (صحیح)
۱۰۸۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے''۔