• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79- بَاب فِي فَضْلِ الْجُمُعَةِ
۷۹ -باب: جمعہ کی فضیلت کابیان​


1084- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي لُبَابَةَ ابْنِ عَبْدِالْمُنْذِرِ؛ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ سَيِّدُ الأَيَّامِ، وَأَعْظَمُهَا عِنْدَاللَّهِ، وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ يَوْمِ الأَضْحَى وَيَوْمِ الْفِطْرِ، فِيهِ خَمْسُ خِلالٍ: خَلَقَ اللَّهُ فِيهِ آدَمَ، وَأَهْبَطَ اللَّهُ فِيهِ آدَمَ إِلَى الأَرْضِ، وَفِيهِ تَوَفَّى اللَّهُ آدَمَ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لا يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا الْعَبْدُ شَيْئًا إِلا أَعْطَاهُ، مَا لَمْ يَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، مَا مِنْ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ، وَلا سَمَائٍ، وَلا أَرْضٍ، وَلا رِيَاحٍ، وَلا جِبَالٍ، وَلا بَحْرٍ إِلا وَهُنَّ يُشْفِقْنَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۵۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۰) (ضعیف)
(عبداللہ بن محمد بن عقیل کی اس روایت کی سند ومتن میں شدید اضطراب ہے، اس لئے یہ سیاق ضعیف ہے، اصل حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کے لئے ملاحظہ ہو : ابوداود، نیز ساعت اجابہ متفق علیہ ہے، تراجع الألبانی: رقم : ۱۸۸) ۔
۱۰۸۴- ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''بیشک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے، اس کا درجہ اللہ تعالی کے نزدیک عیدالاضحی اور عید الفطر سے بھی زیادہ ہے، اس کی پانچ خصوصیات ہیں: اللہ تعالی نے اسی دن آدم کو پیدا فرمایا، اسی دن ان کو روئے زمین پہ اتارا، اسی دن اللہ تعالی نے ان کو وفات دی، اور اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ بندہ اس میں جو بھی اللہ سے مانگے اللہ تعالی اسے دے گا جب تک کہ حرام چیز کا سوال نہ کرے، اور اسی دن قیامت آئے گی، جمعہ کے دن ہر مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ اور سمندر (قیامت کے آنے سے) ڈرتے رہتے ہیں'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : جمعہ کی اجابت کی ساعت یعنی قبولیت ِ دعا کی گھڑی کے بارے میں بہت اختلاف ہے، راجح قول یہ ہے کہ یہ عصر اور مغرب کے درمیان کوئی گھڑی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے صلاۃ کے ختم ہو نے کے درمیانی وقفے میں ہوتی ہے، واللہ اعلم، اور یہ جو فرمایا: ''جب تک حرام کا سوال نہ کرے''، یعنی گناہ کے کام کے لئے دعا نہ کرے جیسے زنا یا چوری یا ڈاکے یاقتل کے لئے، تو ایسی دعا کا قبول نہ ہو نا بھی بندے کے حق میں افضل اور زیادہ بہتر ہے، اور قبول نہ ہونے والی ہر دعا کا یہی حال ہے، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری اسی میں رکھی ہے، انسان اپنے انجام سے آگاہ نہیں، ایک چیز اس کے لئے مضر ہوتی ہے لیکن وہ بہتر خیال کر کے اس کے لئے دعا کرتا ہے۔


1085- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ شَدَّاد بْنِ أَوْسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ>، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تُعْرَضُ صَلاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ، يَعْنِي بَلِيتَ؟ فَقَالَ: <إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۲۰۷ (۱۰۴۷)، ن/الجمعۃ ۵ (۱۳۷۵)، حم (۴/۸) (صحیح)
۱۰۸۵- شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اور اسی دن پہلااور دوسرا صور پھونکا جائے گا، لہٰذا اس دن مجھ پر کثرت سے درود (صلاۃ) بھیجا کرو، اس لئے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا''، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہمارا درود (صلاۃ) آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ قبر میں بوسیدہ ہو چکے ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے زمین پہ انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام قراردیاہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : شداد بن اوس: یہ وہم ہے جو (۱۱۰۳) نمبر حدیث میں آرہا ہے، صحیح : اوس بن او س ہے، (ملاحظہ ہو : تحفۃ الاشراف : ۴۸۱۹، ۱۷۳۶، و مصباح الزجاجۃ : ۳۸۳)
وضاحت ۲؎ : سارے انبیاء ورسل کے اجسادِ مبارکہ زمین کے اندر صحیح ۱ور سالم ہیں، اور روح تو سب کی زندہ وسلامت رہتی ہے، پس نبی اکرمﷺ اپنی روح اور جسم کے ساتھ قبر میں صحیح سالم ہیں، اور یہ برزخی زندگی کی سب سے بہتر شکل ہے، جو کوئی قبر کے پاس آپ پر صلاۃ وسلام بھیجے تو آپ ﷺ خود اس کا جواب دیتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : ''ما من أحد يسلّم عليَّ عند قبري ردَّ الله عليَّ روحي حتّى أردّ عليه السلام'' یہ آپ ﷺ کی خصوصیت میں سے ہے، اور اگر درود وسلام دور سے بھیجا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ ﷺ تک پہنچانے کے لئے فرشتے مقرر فرما دیئے ہیں، جو اسے آپ ﷺ تک پہنچادیتے ہیں، اہل حدیث کا یہ اعتقاد ہے، اگرچہ یہ زندگی دنیا کی سی زندگی نہیں ہے، جس میں آدمی کھانے اور پینے کا محتاج ہوتاہے، برزخی زندگی کی مکمل کیفیت وحالت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتاہے، ہم صرف انہی احوال پر ایمان لانے کے مکلف ہیں جو قرآن مجید اوراحادیث صحیحہ میں مذکورہیں۔


1086- حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <الْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَفَّارَةُ مَا بَيْنَهُمَا، مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۳۸)، وقد أخرجہ: م/الطہارۃ ۵ (۲۳۳)، ت/المواقیت ۴۷ (۲۱۴)، حم (۲/۴۸۱) (صحیح)
۱۰۸۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80- بَاب مَا جَاءَ فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۸۰ -باب: جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان​


1087- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو الأَشْعَثِ ، حَدَّثَنِي أَوْسُ بْنُ أَوْسٍ الثَّقَفِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: <مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ، وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ، وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الإِمَامِ، فَاسْتَمَعَ، وَلَمْ يَلْغُ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خَطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ، أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا>۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۲۹ (۳۴۶، ۳۴۷)، ت/الصلاۃ ۲۳۹ (۴۶۹)، ن/الجمعۃ ۱۰ (۱۳۸۲)، ۱۲ (۱۳۸۵)، ۱۹ (۱۳۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸، ۹، ۱۰)، دي/الصلاۃ ۱۹۴ (۱۵۸۸) (صحیح)
۱۰۸۷- اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا '':جس نے جمعہ کے دن غسل کرایا اور خود بھی غسل کیا ۱؎ ، اور صلاۃ کے لئے سویرے نکلا اور شروع خطبہ میں حاضرہوا، بغیر سواری کے پیدل چل کر آیا، اور امام کے قریب بیٹھا، خطبہ غور سے سنا، اور کوئی لغو کام نہیں کیا، تو اسے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے نفلی روزوں اور تہجد کا ثواب ملے گا'' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جمعہ کے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کر ے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہوجائے ۔


1088- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: <مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۴۸)، وقد أخرجہ: خ/الجمعۃ ۲ (۸۷۷)، ۱۲ (۸۹۴)، ۲۶ (۹۱۹)، م/الجمعۃ ۱ (۸۴۴)، ت/الصلاۃ ۲۳۸ (۴۹۲)، ن/الجمعۃ ۷ (۱۳۷۷)، ط/الجمعۃ ۱ (۵)، حم (۲/۳، ۹، ۳۷، ۴۱، ۴۲، ۴۸، ۵۳، ۵۵، ۵۸)، دي/الصلاۃ ۱۹۰ (۱۵۷۷) (صحیح)
۱۰۸۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ''جو جمعہ کے لئے آئے، وہ غسل کرے'' ۔


1089- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ >۔
* تخريج:خ/الأذان ۱۶۱ (۸۵۷)، الجمعۃ ۲ (۸۷۹)، ۱۲ (۸۹۵)، الشہادات ۱۸ (۲۶۶۵)، م/الجمعۃ۱ (۸۴۶)، د/الطہارۃ۱۲۹ (۳۴۱)، ن/الجمعۃ ۶ (۱۳۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۶۱)، وقد أخرجہ: ط/الجمعۃ ۱ (۴)، حم (۳/۶) دي/الصلاۃ ۱۹۰ (۱۵۷۸) (صحیح)
۱۰۸۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : علماء کی ایک جماعت کے نزدیک جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے، اہل ظاہر کا یہی قول ہے، اور جمہور علماء کرام اس کو مستحب اور مسنون کہتے ہیں۔شیخ الإسلام ابن تیمیہ نے فرمایا ہے کہ اگر آدمی کا جسم اور اس کا لباس صاف ستھرا ہو تو اس کے حق میں یہ غسل مسنون ومستحب ہے، اور جسم اور کپڑوں کے صاف نہ ہونے یا بدن میں بو موجود ہونے کی صورت میں یہ غسل واجب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۸۱ -باب: جمعہ کے دن غسل نہ کرنے کابیان​


1090- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ، فَدَنَا وَأَنْصَتَ وَاسْتَمَعَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الأُخْرَى، وَزِيَادَةُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۸ (۸۵۷)، د/الصلاۃ ۲۰۹ (۱۰۵۰)، ت/الصلاۃ ۲۴۰ (۴۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۴) وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۴) (صحیح)
۱۰۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر جمعہ کے لئے آیا اور امام سے قریب بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئیے جائیں گے، اور جس نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا اس نے لغو حرکت کی'' ۔


1091- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، تُجْزِءُ عَنْهُ الْفَرِيضَةُ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۴) (صحیح)
(اس کی سند میں یزید بن ابان ضعیف ہیں، اس لئے حدیث میں وارد یہ ٹکڑا ''يجزئ عنه الفريضة'' صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث دوسرے شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۵۴۰) ۔
۱۰۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو یہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے فریضہ ادا ہوجائے گا، اور جس نے غسل کیا تو غسل زیادہ بہتر ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : " فبها" کا مطلب ہے "فباالرخصة أخذ" یعنی اس نے رخصت کو اختیار کیا ہے اور نعمت کا مطلب ''نعمت هي الرخصة'' یعنی یہ رخصت خوب ہے، اس حدیث سے جمعہ کے غسل کے واجب نہ ہونے پر استدلال کیا گیاہے کیو نکہ اس میں ایک تو وضوپر اکتفا کرنے کی رخصت دی گئی ہے، اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے غسل نہ کر نے کی اجازت نکلتی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّهْجِيرِ إِلَى الْجُمُعَةِ
۸۲ -باب: جمعہ کے لئے مسجد سویرے جانے کا بیان​


1092- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ مَلائِكَةٌ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ مَنَازِلِهِمُ، الأَوَّلَ فَالأَوَّلَ، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ طَوَوُا الصُّحُفَ، وَاسْتَمَعُوا الْخُطْبَةَ، فَالْمُهَجِّرُ إِلَى الصَّلاةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي بَقَرَةٍ، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي كَبْشٍ، (حَتَّى ذَكَرَ الدَّجَاجَةَ وَالْبَيْضَةَ ".
زَادَ سَهْلٌ فِي حَدِيثِهِ: " فَمَنْ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ فَإِنَّمَا يَجِيئُ بِحَقٍّ إِلَى الصَّلاةِ >۔
* تخريج: م/الجمعۃ ۷ (۸۵۰)، ن/الإمامۃ ۵۹ (۸۶۵)، الجمعۃ ۱۳ (۱۳۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۵)، وقد أخرجہ: خ/الجمعۃ، ۳۱ (۹۲۹)، بدء الخلق ۶ (۳۲۱۱)، ت/الجمعۃ ۶ (۴۹۹)، ط/الجمعۃ ۱ (۱)، حم (۲/۲۳۹، ۲۵۹، ۲۸۰، ۵۰۵، ۵۱۲)، دي/الصلاۃ ۳ ۹ ۱ (۱۵۸۵) (صحیح)
(صرف ابن ماجہ میں ''قَدْرِ مَنَازِلِهِمُ'' کا لفظ ہے، دوسروں نے یہ لفظ نہیں ذکر کیا ہے)
۱۰۹۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے متعین ہوتے ہیں، وہ لوگوں کے نام ان کے درجات کے مطابق لکھتے رہتے ہیں، جو پہلے آتے ہیں ان کا نام پہلے (ترتیب وار) لکھتے ہیں، اور جب امام خطبہ کے لئے نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں، لہٰذا جمعہ کے لئے سویرے جانے والا ایک اونٹ قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا گائے قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا مینڈھاقربان کرنے والے کے مانندہے یہاں تک کہ آپ نے مرغی اور انڈے (کی قربانی) کا بھی ذکر فرمایا''اور سہل نے اپنی حدیث میں اتنا زیادہ بیان کیاکہ جو کوئی اس کے (خطبہ شروع ہو چکنے کے) بعد آئے تو وہ صرف اپنا فریضئہ صلاۃ ادا کرنے کے لئے آیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور فرض ادا کرنے کے لئے آنے کا یہ نتیجہ ہوگاکہ عذاب سے بچ جائے گا، لیکن اس کو ثواب اور درجے نہ ملیں گے جیسے ان لوگوں کو ملتے ہیں جوسویرے آتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلاۃ جمعہ کے لیے جو جتنا جلدی مسجد میں پہنچے گا اتناہی زیادہ اجروثواب کا مستحق ہوگا، اور جتنی دیر کر ے گا اتنے ہی اس کے ثواب میں کمی آتی جائے گی ۔


1093- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ضَرَبَ مَثَلَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ التَّبْكِيرِ كَنَاحِرِ الْبَدَنَةِ، كَنَاحِرِ الْبَقَرَةِ، كَنَاحِرِ الشَّاةِ، حَتَّى ذَكَرَ الدَّجَاجَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۰۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۶) (حسن صحیح)
(شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں سعید بن بشیر ضعیف ہیں، نیز حسن بصری کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے عقیقہ والی حدیث کے علاوہ ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ: ۳۹۰، بتحقیق الشہری)
۱۰۹۳- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ اور جمعہ کے لئے سویرے آنے والے کی مثال اونٹ قربان کرنے والے، گائے قربان کرنے والے اور بکری قربان کرنے والے کی بیان فرمائی ہے، یہاں تک کہ مرغی (کی قربانی) کا بھی ذکر فرمایا۔


1094- حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍالْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِاللَّهِ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَوَجَدَ ثَلاثَةً قَدْ سَبَقُوهُ، فَقَالَ: رَابِعُ أَرْبَعَةٍ، وَمَا رَابِعُ أَرْبَعَةٍ بِبَعِيدٍ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ النَّاسَ يَجْلِسُونَ مِنَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَدْرِ رَوَاحِهِمْ إِلَى الْجُمُعَاتِ، الأَوَّلَ، وَالثَّانِيَ، وَالثَّالِثَ >، ثُمَّ قَالَ: رَابِعُ أَرْبَعَةٍ، وَمَا رَابِعُ أَرْبَعَةٍ بِبَعِيدٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۳۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۷) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں عبد المجید بن عبد العزیز بن أبی رواد ہیں، جو صدوق روای ہیں لیکن خطاء کرتے ہیں، ان کی طرف سے اس حدیث میں اضطراب ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۲۸۱۰)
۱۰۹۴- علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میںعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کے لئے نکلا، انہوں نے تین آدمیوں کو دیکھا جو ان سے آگے بڑھ گئے تھے، تو کہا :میں چار میں کا چوتھا ہوں اور چار میں کا چوتھا کچھ دور نہیں ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ ''لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس اسی ترتیب سے بیٹھیں گے جس ترتیب سے جمعہ کے لئے پہلے اور بعد میں جاتے رہتے ہیں، جمعہ کے لئے پہلے جانے والا وہاں بھی پہلے درجہ میں دوسرا دوسرے درجہ میں اور تیسرا تیسرے درجہ میں'' پھر کہا: چار میں کا چوتھا اور چار میں کا چوتھا کچھ دور نہیں ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : چار میں کا چو تھا کچھ دور نہیں ہے یعنی اپنے نفس کو دیر میں آنے پر تنبیہ کی اور اس کو دھمکایا، اور بعضوں نے کہا : اپنے نفس کو تسلی دی کہ تین ہی آدمیوں سے پیچھے رہا، اور اپنے مالک سے قرب میں چوتھے درجہ میں ہوا، اور یہ درجہ بھی غنیمت ہے چنداں دور نہیں ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83- بَاب مَا جَاءَ فِي الزِّينَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۸۳ -باب: جمعہ کے دن زیب و زینت کا بیان​


1095- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ، عَلَى الْمِنْبَرِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ: < مَا عَلَى أَحَدِكُمْ لَوِاشْتَرَى ثَوْبَيْنِ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ، سِوَى ثَوْبِ مِهْنَتِهِ >.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۱۹ (۱۰۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳۴) (صحیح)
۱۰۹۵- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کے دن منبر پہ فرماتے ہوئے سنا: ''کیا اچھا ہوتا کہ تم میں سے ہر شخص جمعہ کے لئے اپنے عام استعمال کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے خرید لے'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عام کپڑے اکثر میلے کچیلے یا کم قیمت کے ہوتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جمعہ کا احترام اور اس کی عزت وتوقیر کرے، اور اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ اورصاف ستھرے کپڑے پہنے، جیسے کوئی حاکم اور امیر کے دربار میں جاتے وقت اچھا لباس پہننے اور زیب وزینت کا خیال رکھتا ہے۔
1095/أ - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَيْخٌ لَنَا، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ.
۱۰۹۵/أ- اس سند سے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اور پھر انہوں نے یہی حدیث ذکرکی ۔


1096- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زُهَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَرَأَى عَلَيْهِمْ ثِيَابَ النِّمَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدَ سَعَةً أَنْ يَتَّخِذَ ثَوْبَيْنِ لِجُمُعَتِهِ، سِوَى ثَوْبَيْ مِهْنَتِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۹۶ ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۸) (صحیح)
۱۰۹۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھاری دار چادریں پہنے دیکھا، آپﷺ نے فرمایا: ''کیا مشکل ہے کہ تم میں سے جو صاحب وسعت ہو وہ جمعہ کے لئے اپنے عام کپڑے کے علاوہ دوسرے دو کپڑے بنالے'' ۔


1097- حدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَحَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَدِيعَةَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَأَحْسَنَ غُسْلَهُ، وَتَطَهَّرَ فَأَحْسَنَ طُهُورَهُ، وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِيَابِهِ، وَمَسَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِنْ طِيبِ أَهْلِهِ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ وَلَمْ يَلْغُ وَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ اثْنَيْنِ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الأُخْرَى >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۵۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۷۷، ۱۸۰) (صحیح)
۱۰۹۷- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اچھی طرح وضو کیا، سب سے اچھا کپڑا پہنا، اور اس کے گھر والوں کو اللہ نے جو خوشبو میسر کی اسے لگایا، پھر جمعہ کے لئے آیا اور کوئی لغو اور بے کار کام نہیں کیا، اور دو مل کر بیٹھنے والوں کو الگ الگ کرکے بیچ میں نہیں گھسا ۱؎ تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے نہیں گیا۔


1098- حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ، جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ، وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۵۸۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۹۰)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۳۲ (۱۱۳) (حسن)
(شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں علی بن غراب اور صالح بن ابی الأخضر ضعیف ہیں، منذری نے اس کو حسن کہاہے، الترغیب و الترہیب ۱/۴۹۸، نیز ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ: ۳۹۴ بتحقیق الشہری)
۱۰۹۸ - عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''یہ عید کا دن ہے، اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے اسے عید کا دن قرار دیا ہے، لہٰذا جو کوئی جمعہ کے لئے آئے تو غسل کرکے آئے، اور اگر خوشبو میسر ہوتو لگالے، اور تم لوگ اپنے اوپر مسواک کو لازم کرلو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ غسل صلاۃ جمعہ کے لئے مسنون ہے نہ کہ جمعہ کے دن کے لئے، اور بعضوں نے کہا: جمعہ کے دن کے لئے مسنون ہے، پس جس پر جمعہ فرض نہ ہو، جیسے عورت، مریض، مسافر یا نابالغ اور وہ جمعہ کی صلاۃ کے لئے آنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو اس کو بھی غسل کرنا مستحب ہوگا، اور پہلے قول کے لحاظ سے جن پر جمعہ فرض نہیں ہے ان پر غسل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84- بَاب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ الْجُمُعَةِ
۸۴ -باب: جمعہ کے وقت کا بیان​


1099- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سَهْلِ ابْنِ سَعْدٍ قَالَ: مَا كُنَّا نَقِيلُ وَلا نَتَغَدَّى إِلا بَعْدَ الْجُمُعَةِ۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۴۰ (۹۳۹)، الحرث والمزارعۃ ۲۱ (۲۹۴۹)، الأطعمۃ ۱۷ (۵۴۰۳)، الإستئذان ۱۶ (۶۲۴۸)، م/الجمعۃ ۹ (۸۵۹)، ت/الصلاۃ ۲۶۱ (۲۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۰۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۲۲۴ (۱۰۸۶) (صحیح)
۱۰۹۹- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کے بعد ہی قیلولہ کرتے، اور دو پہر کا کھاناکھایا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ جمعہ پڑھ لیتے تھے، پھر لوگ اپنے اونٹوں کی طرف جاتے اور سورج ڈھلنے کے وقت ان کو چلاتے، یعنی آپ جلد جمعہ پڑھادیتے تھے۔ سلمہ بن الاکوع اور انس رضی اللہ عنہما کی حدیثیں آگے آرہی ہیں، ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے عہد میں جمعہ زوال (سورج ڈھلنے) سے پہلے پڑھ لیتے تھے، امام احمد کے نزدیک یہ جائز ہے، الروضۃ الندیۃ میں ہے کہ یہی حق ہے، اور جمہور علماء کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال کے بعد سے ہے، جو ظہر کا وقت ہے کیونکہ جمعہ بدل ہے ظہر کا، امام شوکانی نے الدرر البہیہ میں اہل حدیث کا مذہب بھی یہی قرار دیا ہے، اور وہ ان حدیثوں کی تاویل کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح کا کھانا اور دن کا قیلولہ موقوف رکھتے، اور جمعہ کی صلاۃ کا اہتمام کرتے پھر صلاۃ پڑھ کر یہ کام کرتے، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ زوال سے پہلے ہی جمعہ پڑھ لیتے، اور ابن سیدان کی روایت موید ہے امام احمد کے مذہب کی، کہ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ میں حاضر تھا، انہوں نے زوال سے پہلے خطبہ پڑھا، اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی نقل کیا (سنن دارقطنی) لیکن ابن سیدان کو لوگوں نے ضعیف کہا ہے۔


1100- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ الْحَارِثِ قَالَ: سَمِعْتُ إِيَاسَ بْنَ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الْجُمُعَةَ ثُمَّ نَرْجِعُ، فَلا نَرَى لِلْحِيطَانِ فَيْئًا نَسْتَظِلُّ بِهِ۔
* تخريج: خ/المغازي ۳۵ (۴۱۶۸)، م/الجمعۃ ۹ (۸۶۰)، د/الصلاۃ ۲۲۴ (۱۰۸۵)، ن/الجمعۃ ۱۴ (۱۳۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۲) وقد أخرجہ: دي/الصلاۃ ۱۹۴ (۱۵۸۷) (صحیح)
۱۱۰۰- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی صلاۃ پڑھتے تھے، پھر گھروں کو واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ اتنا بھی نہ ہوتا تھا کہ ہم اس سایہ میں چل سکیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حدیث بظاہر امام احمد کے مذہب کی تائید کر تی ہے، اس لئے کہ اگر جمعہ زوال کے بعد پڑھا جائے تو کم سے کم جمعہ میں خطبہ اور صلاۃ سے ایک گھنٹہ میں فراغت ہوگی، اور اس وقت دیواروں کا سایہ خوب ہو جائے گا، مخالفین یہ جواب دیتے ہیں کہ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ سایہ بہت نہ ہو تا، جو چلنے یا آرام کرنے کے لائق ہو اور یہ مطلب نہیں ہے کہ بالکل سایہ نہ ہوتا۔


1101- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ مُؤَذِّنِ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ كَانَ يُؤَذِّنُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذَا كَانَ الْفَيْئُ مِثْلَ الشِّرَاكِ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۹۱) (ضعیف)
(اس کی سند میں عبد الرحمن ضعیف ا ور ان کے والد سعد مجہول ہیں)
۱۱۰۱- مؤذن رسول سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جمعہ کی اذان اس وقت دیتے تھے جب سایہ جوتا کے تسمے کے برابر ہوجاتا ۔


1102- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كُنَّا نُجَمِّعُ ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَقِيلُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۰)، وقد أخرجہ: خ/الجمعۃ ۱۶ (۳۹۲) (صحیح)
۱۱۰۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ پڑھتے پھر لوٹ کر قیلولہ ۱؎ کرتے تھے ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوپہر کے کھانے کے بعد آرا م کو قیلولہ کہتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۸۵ -باب: جمعہ کے خطبہ کا بیان​


1103- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ(ح) و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ، يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا جَلْسَةً، زَادَ بِشْرٌ: وَهُوَ قَائِمٌ ۔
* تخريج: خ/الجمعۃ۳۰ (۹۲۸، ۹۲۰)، ن/الجمعۃ ۳۳ (۱۴۱۷)، (تحفۃ الأشراف:۷۸۱۲، ۸۱۲۹)، وقد أخرجہ: م/الجمعۃ ۱۰ (۸۶۱)، د/الصلاۃ ۲۲۷ (۱۰۹۲)، ت/الجمعۃ ۱۱ (۵۰۶)، حم (۲/۹۸)، دي/الصلاۃ ۲۰۰ (۱۵۹۹) (صحیح)
۱۱۰۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دو خطبہ دیتے تھے، اور دونوں کے درمیان کچھ دیر بیٹھتے تھے ۔
بشر بن مفضل نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ آپﷺ (خطبہ دیتے وقت) کھڑے ہوتے ۔


1104- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ ۔
* تخريج: م/الحج ۸۴ (۱۳۵۹)، د/اللباس ۲۴ (۴۰۷۷)، ن/الزینۃ من المجتیٰ ۵۶ (۵۳۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۰۷ ۳)، ت/الشمائل ۱۶ (۱۰۸، ۱۰۹)،
(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۵۸۴، ۳۵۸۷) (صحیح)
۱۱۰۴- عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پہ خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ کے سر پہ ایک کالا عمامہ تھا ۔


1105- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُ قَائِمًا، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يَقْعُدُ قَعْدَةً، ثُمَّ يَقُومُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۸۴)، وقد أخرجہ: م/الجمعۃ ۱۳ (۸۶۶)، د/الصلاۃ ۲۲۹ (۱۱۰۱)، ت/الصلاۃ ۲۴۷ (۵۰۷)، ن/الجمعۃ ۳۵ (۱۴۱۹)، دي/الصلاۃ ۱۹۹ (۱۵۹۸) (صحیح)
۱۱۰۵- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے، البتہ آپ (دونوں خطبوں کے درمیان) تھوڑی دیر بیٹھتے تھے، پھر کھڑے ہوجاتے تھے ۔


1106- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ ابْنُ مَهْدِيِّ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَقْرَأُ آيَاتٍ، وَيَذْكُرُ اللَّهَ، وَكَانَتْ خُطْبَتُهُ قَصْدًا، وَصَلاتُهُ قَصْدًا۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۲۹ (۱۱۰۱)، ن/الجمعۃ ۳۵ (۱۴۱۹)، صلاۃ العیدین ۲۶ (۱۵۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۶۳) (صحیح)
۱۱۰۶- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہوتے اور قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرماتے اور اللہ کا ذکر کرتے، آپ کا خطبہ اور صلاۃ دونوں ہی درمیانی ہوتے۔


1107- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا خَطَبَ فِي الْحَرْبِ، خَطَبَ عَلَى قَوْسٍ، وَإِذَا خَطَبَ فِي الْجُمُعَةِ، خَطَبَ عَلَى عَصًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲۸ ومصباح الزجاجۃ: ۳۹۳) (ضعیف)
(سعد بن عمار بن سعد القرظ نے ''عن أبیہ عن جدہ'' ایک نسخہ حدیث روایت کیا ہے، اور ان سے ان کے لڑکے عبد الرحمن نے روایت کی ہے، اور یہ باپ اور بیٹے اور پوتے سب مجہول ہیں)
۱۱۰۷- سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب میدان جنگ میں خطبہ دیتے تو کمان پر ٹیک لگا کر دیتے، اور جب جمعہ کا خطبہ دیتے تو چھڑی پر ٹیک لگا کردیتے۔


1108- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ سُئِلَ: أَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ قَائِمًا أَوْ قَاعِدًا؟ قَالَ: أَوَمَا تَقْرَأُ: {وتَرَكُوكَ قَائِمًا}؟.
قَالَ أَبُو عَبْداللَّهِ: غَرِيبٌ،لا يُحَدِّثُ بِهِ إِلا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَحْدَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۳۹۴) (صحیح)
۱۱۰۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: نبی اکرمﷺ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے یا کھڑے ہو کر؟ تو انہوں نے کہا :کیا تم نے یہ آیت کریمہ نہیں پڑھی : {وتَرَكُوكَ قَائِمًا} [سورة الجمعة:11] (جب ان لوگوں نے تجارت یا لہو ولعب دیکھا تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر چل دیئے) ۱؎ ۔
ابو عبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس کو صرف ابن ابی شیبہ ہی نے بیان کرتے ہیں ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ خطبہ کھڑے ہو کردیتے تھے۔
وضاحت ۲ ؎ : پوری آیت یوں ہے : {وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا} [سورة الجمعة: 11]، (یعنی جب کوئی تجارت یا تماشا اور کھیل کود دیکھتے ہیں تو ادھر چل دیتے ہیں، اور آپ کو کھڑا ہوا چھو ڑ جاتے ہیں)، اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ آپ ﷺ جمعہ کا خطبہ کھڑ ے ہو کر دیتے تھے ۔


1109- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ سَلَّمَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۷۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۹۵) (حسن)
(شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الاجوبہ النافعہ : ۵۸)
۱۱۰۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب منبر پر چڑھتے تو لوگوں کو سلام کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی حاضرین کوسلام کرتے، اور امام شافعی نے اسی حدیث کو دلیل بنا کر یہ کہا ہے کہ امام جب منبر پر جائے تو کل حاضرین کو مخاطب کرکے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86- بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِمَاعِ لِلْخُطْبَةِ وَالإِنْصَاتِ لَهَا
۸۶-باب: خطبہء جمعہ کو خاموشی کے ساتھ غور سے سننے کا بیان​


1110- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ: أَنْصِتْ، يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالإِمَامُ يَخْطُبُ، فَقَدْ لَغَوْتَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۵۳)، وقد أخرجہ: خ/الجمعۃ ۳۶ (۹۳۴)، م/الجمعۃ ۳ (۸۵۱)، د/الصلاۃ ۲۳۵ (۱۱۱۲)، ن/الجمعۃ ۲۲ (۱۴۰۳)، ت/الصلاۃ ۲۵۱ (۵۲۱)، ط/الجمعۃ ۲ (۶)، دي/الصلاۃ ۱۹۵ (۱۵۸۹) (صحیح)
۱۱۱۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے دوران خطبہ کہا کہ چپ رہو، تو تم نے لغو کام کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تم سے فضول اور بیکار حرکت صادر ہوئی، کیونکہ خطبہ کے درمیان خاموش رہنا، اور خطبہ سننا ضروری ہے، اگر کوئی بات کرے تو اشارہ سے اس کو منع کردے، جب زبان سے کہاکہ ''خاموش رہو'' تو خود اس نے بات کی، اور دوسرے کو بات سے منع کیا، یہ ایک لغو حرکت ہے ۔


1111- حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ " تَبَارَكَ " وَهُوَ قَائِمٌ، فَذَكَّرَنَا بِأَيَّامِ اللَّهِ، وَأَبُو الدَّرْدَاءِ أَوْ أَبُو ذَرٍّ يَغْمِزُنِي، فَقَالَ: مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ، إِنِّي لَمْ أَسْمَعْهَا إِلا الآنَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنِ اسْكُتْ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا قَالَ: سَأَلْتُكَ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ فَلَمْ تُخْبِرْنِي؟ فَقَالَ أُبَيٌّ: لَيْسَ لَكَ مِنْ صَلاتِكَ الْيَوْمَ إِلا مَا لَغَوْتَ، فَذَهَبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، وَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَ أُبَيٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < صَدَقَ أُبَيٌّ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۸، ومصباح الزجاجۃ: ۳۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴۳) (صحیح)
(ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۸۰-۸۱) ۔
۱۱۱۱- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہوکر سورہ تبارک (سورہ ملک) پڑھی، اور ہمیں اللہ عزوجل کی طرف سے گزشتہ قوموں پر پیش آنے والے اہم واقعات سے نصیحت کی، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ یا ابوذر رضی اللہ عنہ نے میری جانب نظر سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سورہ کب نازل ہوئی؟میں نے تو یہ ابھی سنی ہے، تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان کو اشارہ کیا کہ خاموش رہو، جب وہ لوگ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ یا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اُبی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے آپ سے پوچھا کہ یہ سورہ کب نازل ہوئی تو آپ نے نہیں بتایا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آج آپ کو آپ کی صلاۃ میں ان لغو باتوں کے سوا کچھ بھی اجر وثواب نہیں ملے گا، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، اور ابی رضی اللہ عنہ نے جو بات کہی تھی وہ بھی بتائی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اُبی نے سچ کہا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مسند احمد اور سنن ابو داود میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص امام کے نزدیک بیٹھا لیکن اس نے لغو حرکت کی اور خطبہ نہیں سنا، اور خاموش نہیں رہا، تو اس پر وبال کا ایک حصہ ہوگا، اور جس نے کہا: خاموش رہو تو اس نے لغو کیا اور جس نے لغو کیا، اس کا جمعہ نہ ہوا، علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایسا ہی میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، اس باب کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ پڑھنے کے لئے آنے والے پر ہر طرح کی دینی اور دنیاوی بات چیت خطبہ کے دوران ممنوع ہے۔ جس میں ذکر و اذکار بھی داخل ہے، اسی طریقے سے ایک دوسرے کو نصیحت وتلقین بھی، ہاں! ضرورت وحاجت اور شرعی مصلحت کے پیش نظر امام سامعین سے مخاطب ہوسکتا ہے، جیسا کہ کئی احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے۔ خود آگے کی حدیث میں سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کو آپﷺ نے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، نیز سامعین خطبہ کے دوران امام کی متابعت میں صلاۃ وسلام اور اس کی دعاؤں پر آمین بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ اس سے خطبہ کے سننے میں یا مسجد کے احترام میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
87- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
۸۷ -باب: دورانِ خطبہ مسجد میں آنے والا کیا کرے؟​


1112- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ جَابِرًا، وَأَبُوالزُّبَيْرِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: دَخَلَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ الْمَسْجِدَ وَالنَّبِيُّ ﷺ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: < أَصَلَّيْتَ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ >.
وَأَمَّا عَمْرٌو فَلَمْ يَذْكُرْ سُلَيْكًا۔
* تخريج: حدیث عمر و بن دینار عن جابر أخرجہ: خ/الجمعۃ ۳۲ (۹۳۰)، ۳۳ (۹۳۱)، م/الجمعۃ ۱۴ (۸۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۳۲)، وحدیث أبي الزبیر عن جابر قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۷۱)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۲۳۷ (۱۱۱۵)، ت/الصلاۃ ۲۵۰ (۵۱۰)، ن/الجمعۃ ۱۶ (۱۳۹۶)، حم (۳/۲۹۷، ۳۰۸، ۳۶۹)، دي/الصلاۃ ۱۹۶ (۱۵۹۲) (صحیح)
۱۱۱۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اس وقت نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے پوچھا: کیاتم نے صلاۃ اداکرلی؟ انہوں نے کہا:نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ''دو رکعت پڑھ لو'' ۱؎ ۔
عمروبن دینارنے سلیک کا ذکر نہیں کیا ۔
وضاحت ۱؎ : اسے تحیۃ المسجد کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص امام کے خطبہ دینے کی حالت میں آئے تو وہ دو رکعتیں پڑھے، بعض لوگوں نے اسے سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کیا ہے، اور کہا ہے کہ انہیں یہ حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ لوگ ان کی غربت دیکھ کر ان کا تعاون کر یں، لیکن ابوداود کی ایک روایت کے الفاظ یوں آئے ہیں: " إذا جاء أحدكم والإمام يخطب فليصل ركعتين" (جب بھی تم میں سے کوئی شخص مسجد آئے، اور امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت پڑھ لے) اس سے ان کے اس قول کی تردید ہوجاتی ہے کہ یہ سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھا۔


1113- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ فَقَالَ: <أَصَلَّيْتَ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۵۰ (۵۱۱)، ن/الجمعۃ ۲۶ (۱۴۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۵)، دي/الصلاۃ ۱۹۶ (۱۵۹۳) (حسن صحیح)
۱۱۱۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، اسی دوران ایک شخص مسجد میں آیا، آپﷺ نے فرمایا: ''کیا تم نے صلاۃ پڑھ لی''؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپﷺ نے فرمایا: ''دو رکعت پڑھ لو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امام خطبہ کے دوران بات کرسکتا ہے، اور مقتدی بھی امام کا جواب دے سکتا ہے، لیکن ازخود مقتدی کا خطبہ کی حالت میں بات کرنا صحیح نہیں ہے۔


1114- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍقَالا: جَاءَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: < أَصَلَّيْتَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تَجِيئَ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَجَوَّزْ فِيهِمَا >۔
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۴ (۸۷۵)، د/الصلاۃ ۲۳۷ (۱۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۴و ۱۲۳۶۸)، وقد أخرجہ: خ/الجمعۃ ۳۲ (۹۳۰)، ۳۳ (۹۳۱)، ت/الجمعۃ ۱۵ (۵۱۰)، ن/الجمعۃ ۱۶ (۱۳۹۶)، حم (۳/۳۸۰)، دي/الصلاۃ ۱۹۶ (۱۵۹۲) (صحیح)
(اس حدیث میں ''قبل أن تجیٔ'' کا جملہ شاذ ہے)
۱۱۱۴- ابوہریرہ اورجابر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے،آپﷺ نے اُن سے فرمایا: ''تم نے (میرے نزدیک) آنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لی ہے''؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''دو رکعتیں پڑھ لو، اور ہلکی پڑھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : امام مزی کہتے ہیں کہ راوی نے اس روایت میں غلطی کی، اور صواب یہ ہے ''أصلّيت ركعتين قبل أن تجلس'' اس کو راوی نے ''تجيىء'' کردیا۔ اب علماء کا اختلاف یہ ہے کہ تحیۃ المسجد سنت ہے یا واجب؟ظاہر حدیث سے اس کا وجوب نکلتا ہے، اور امام شوکانی نے ایک مستقل رسالہ میں اس کے وجوب کو ثابت کیا ہے، اور علامہ نواب صدیق حسن نے الروضہ الندیہ (۱؍۳۷۲) میں اسی کو حق کہا ہے، دلائل کی روشنی میں جمعہ کے دن مسجد میں آنے والے کے لئے دو رکعت ادا کرنا کم سے کم سنت ِ موکدہ تو ہے ہی۔جبکہ محققین نے اس کو واجب کہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
88- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ تَخَطِّي النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۸۸ -باب: دورانِ جمعہ لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی ممانعت​


1115- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَجُلا دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُ، فَجَعَلَ يَتَخَطَّى النَّاسَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اجْلِسْ ، فَقَدْ آذَيْتَ وَآنَيْتَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۳۹۶) (صحیح)
۱۱۱۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا، اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے لگا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیٹھ جاؤ، تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی، اور آنے میں تاخیر بھی کی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بعض لوگ جمعہ کے دن دیر سے آتے ہیں اور لوگوں کی گردنیں پھلانگ کرآگے جاتے ہیں، یہ ممنوع بلکہ حرام ہے، علامہ ابن القیم نے اس کو کبیرہ گناہوں میں لکھا ہے، اس لئے آدمی کو چاہئے کہ جہاں جگہ پائے وہیں بیٹھ جائے، جب دیر میں آیا تو پیچھے ہی بیٹھے۔


1116- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ تَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ اتُّخِذَ جِسْرًا إِلَى جَهَنَّمَ >۔
* تخريج: ت/الجمعۃ ۱۷ (۵۱۳)، (تحفۃ الأشراف : ۱۱۲۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۸) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں رشدین بن سعد، زبان بن فائد اور سہل بن معاذ ضعیف ہیں) ۔
۱۱۱۶- معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگے گا وہ جہنم کاپل بنایاجائے گا'' ۔
 
Top