• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي الْغِيبَةِ وَالرَّفَثِ لِلصَّائِمِ
۲۱ -باب: غیبت اور فحش کلامی پرصائم کے لیے وارد وعید کا بیان​

1689- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍالْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ، وَالْجَهْلَ، وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلا حَاجَةَ لِلَّهِ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ >۔
* تخريج: خ/الصوم ۸ (۱۹۰۳)، د/الصوم ۲۵ (۲۳۶۲)، ت/الصوم ۱۶ (۷۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۵۲، ۵۰۵) (صحیح)

۱۶۸۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''جو شخص صیام میں جھوٹ بولنا، جہالت کی باتیں کرنا ، اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حدیث کامطلب یہ ہے کہ صوم صرف اسی کو مت سمجھو کہ کھانا پانی چھوڑ دیا تو صوم ادا ہوگیا ، بلکہ صوم کی غرض وغایت اورمقصدیہ ہے کہ خواہشات نفس کو قابو میں رکھے، ہرطرح کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچے، اور جھوٹ ، غیبت ،برے کام اور گالی گلوج سے دور رہے، ورنہ خطرہ ہے کہ صوم قبول نہ ہو اور یہ سب محنت بے کار ہوجائے، اگر چہ یہ سب باتیں یوں بھی منع ہیں خواہ صوم ہو یا نہ ہو لیکن صوم میں اور زیادہ سخت گناہ ہے۔​

1690- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍالْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلا السَّهَرُ >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۶۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۷۳)، دي/الرقاق ۱۲ (۲۷۶۲) (حسن صحیح)

۱۶۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بہت سے صوم رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کواپنے صوم سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا ، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ان کو صیام اور عبادت کا نور حاصل نہیں ہوتا، اور نہ اس میں لذت وبرکت ہوتی ہے بلکہ صوم وصلاۃ ان پر ایک بوجھ اور تکلیف ہے، دن میں بھوکا رہنا اور رات کو جاگنا بس اسی کو وہ کافی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ان کی غلطی ہے، اگر آداب و شروط کے مطابق عبادت کریں تو وہ قبول ہوگی اور اس سے نور ولذت کی نعمت بھی حاصل ہوگی، اور اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ صوم وصلاۃ کا مقصدصرف بھوکا رہنا اور جاگنا نہیں ہے ، افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہوگئے ہیں جو صوم وصلاۃ کو ظاہری طورسے ادا کرلیتے ہیں ،اور خضوع وخشوع مطلق حاصل نہیں کرتے ،اگرچہ عوام کے لئے یہ بھی کافی ہے ،اور امید ہے کہ اللہ اپنی مہربانی سے قبول کرلے۔​

1691- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلا يَرْفُثْ وَلايَجْهَلْ، وَإِنْ جَهِلَ عَلَيْهِ أَحَدٌ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۶۲)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۲ (۱۸۹۴)، ۹ (۱۹۰۴)، م/الصوم ۳۰ (۱۱۵۱)، د/الصوم ۲۵ (۲۳۶۳)، ت/الصوم ۵۵ (۷۶۴)، ن/الصوم ۲۳ (۲۲۱۸)، ط/الصیام ۲۲ (۵۷)، حم (۲/۲۳۲)، دي/الصوم ۵۰ (۱۸۱۲) (صحیح)

ا۱۶۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کے صیام کا دن ہو تو گندی اور فحش باتیں اور جماع نہ کرے ،اور نہ ہی جہالت اور نادانی کا کام کرے، اگر کوئی اس کے ساتھ جہالت اور نادانی کرے تو کہہ دے کہ میں صائم ہوں'' ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي السُّحُورِ
۲۲ -باب: سحری کھانے کا بیان​

1692- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۹)، وقد أخرجہ: خ/الصوم۲۰ (۱۹۲۳)، م/الصوم ۹ (۱۰۹۵)، ت/الصوم ۱۷ (۷۰۸)، ن/الصوم ۹ (۲۱۴۸)، حم (۳/۹۹، ۲۱۵، ۲۲۹، ۲۴۳)، دي/الصوم ۹ (۱۷۳۸) (صحیح)

۱۶۹۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سحری کھانا مسنون ہے، اور اس میں برکت ہے کیونکہ سحری کھانے سے آدمی کی قوّت وتوانائی برقرار رہتی ہے، اور وہ پورے دن چاق وچوبند رہتا ہے۔​

1693- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّار، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ، وَبِالْقَيْلُولَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۰۹۷، ومصباح الزجاجۃ: ۶۱۳) (ضعیف)

( سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں، نیزملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۲۷۵۸)
۱۶۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' دن کے صیام میں سحری کھانے سے مدد لو، اور قیلولہ ۱ ؎ سے رات کی عبادت میں مدد لو'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : دو پہر کے آرام کو قیلولہ کہتے ہیں۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ السُّحُورِ
۲۳ -باب: سحری دیر سے کھانے کا بیان​

1694 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: < تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلاةِ، قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: قَدْرُ قِرَائَةِ خَمْسِينَ آيَةً >۔
* تخريج: خ/المواقیت ۲۷ (۵۷۵)، الصوم ۱۹ (۱۹۲۱)، م/الصوم ۹ (۱۰۹۷)، ت/الصوم ۱۴ (۷۰۳،۷۰۴)، ن/الصوم ۱۱ (۲۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۲، ۱۸۵، ۸۶ا، ۱۸۸، ۱۹۲، دي/الصوم ۸ (۱۷۳۷) ( صحیح)

۱۶۹۴- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھرہم صلاۃ کے لئے کھڑے ہوئے۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا :سحری اور صلاۃ کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟کہا: پچاس آیتیں پڑھنے کی مقدار ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جتنی دیر میں پچاس آیتیں پڑھی جائیں ، اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سحری صبح صادق کے قریب کھاتے تھے اتنا کہ سحری سے فارغ ہوکر صلاۃ فجر کو کھڑے ہوتے، جس کو صبح صادق کی پہچان ہو، اس کے لیے ایسا ہی کرنا سنت ہے، اگر یہ نہ ہو تو صبح سے پاؤ گھنٹہ یا آدھا گھنٹہ پہلے سحری سے فارغ ہو ، یہ نہیں کہ آدھی رات کو یا ایک بجے یا دو بجے سحری کرے جیسے ہمارے زمانہ کے عوام کرتے ہیں۔​

1695- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ؛ قَالَ: تَسَحَّرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، هُوَ النَّهَارُ إِلا أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ۔
* تخريج: ن/الصوم ۱۰ (۲۱۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۹۶،۴۰۰) (حسن الإسناد)

۱۶۹۵- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری فجر کے طلوع ہوجانے کے وقت کھائی ، لیکن ابھی طلوع نہیں ہوئی تھی ۔​

1696- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلالٍ مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ لِيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ، وَلِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ، وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا، وَلَكِنْ هَكَذَا، يَعْتَرِضُ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ >۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۳ (۶۲۱)، الطلاق ۲۴ (۵۲۹۸)، أخبارالآحاد ۱ (۷۲۴۷)، م/الصوم ۸ (۱۰۹۲)، د/الصوم ۱۷ (۲۳۴۷)، ن/الأذان ۱۱ (۶۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷۵)، حم (۱/۳۸۶، ۳۹۲، ۴۳۵) (صحیح)

۱۶۹۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے، وہ اذان اس لئے دیتے ہیں کہ تم میں سونے والا (سحری کھانے کے لئے ) جاگ جائے ،اور قیام (یعنی تہجد پڑھنے) والا اپنے گھر چلاجائے، اور فجر اس طرح سے نہیں ہے،بلکہ اس طرح سے ہے کہ وہ آسمان کے کنارے عرض (چوڑان) میں ظاہر ہوتی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور جو لمبی دھاری بھیڑئے کی دم کی طرح آسمان پر ظاہر ہوتی ہے وہ صبح کاذب ہے اس کا اعتبار نہیں ہے، اس وقت کھانا پینا جائزہے ، یہاں تک کہ صبح صادق ظاہر ہوجائے جو مشرق (پورب) کی طرف آسمان کے کنارے عرض (لمبائی) میں ظاہر ہوتی ہے، یہ سورج کی روشنی ہے اسی کو پو پھٹنا کہتے ہیں۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ
۲۴ -باب: افطار کرنے میں جلدی کرنے کا بیان​

1697- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الإِفْطَارَ >۔
* تخريج: م/الصوم ۹ (۱۰۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۲۲)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۴۵ (۱۹۵۷)، ت/الصوم ۱۳ (۶۹۹)، ط/الصیام ۳ (۶)، دي/الصوم ۱۱ (۱۷۴۱) (صحیح)

۱۶۹۷- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ' ' جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، ہمیشہ خیر میں رہیں گے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی سورج ڈوبنے کے بعد صوم کھولنے میں دیر نہ کریں گے تو ہمیشہ خیرمیں رہیں گے ، یہ مطلب نہیں ہے کہ وقت سے پہلے ہی صیام کھول دیں ۔​

1698- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ، عَجِّلُوا الْفِطْرَ فَإِنَّ الْيَهُودَ يُؤَخِّرُونَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۱۵۰۹۰، ومصباح الزجاجۃ: ۶۱۴)، وقد أخرجہ: د/الصوم۲۰ (۲۳۵۳)، حم (۲/۴۵۰) (حسن صحیح)

۱۶۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: '' جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ہمیشہ خیر میں رہیں گے، تم لوگ افطار میں جلدی کرو اس لئے کہ یہود اس میں دیر کرتے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : روافض (شیعہ) بھی یہود کی پیروی کرکے افطار میں دیر کرتے ہیں، حالانکہ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ افطار میں جلدی باعث خیر وبرکت ہے، لہذا ہمیں حدیث کے موافق عمل کرنا چاہئے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ عَلَى مَا يُسْتَحَبُّ الْفِطْرُ
۲۵ -باب: کن چیز وں سے افطار مستحب ہے؟​

1699- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ،(ح) و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَة، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنِ الرَّبَابِ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ، عَنْ عَمِّهَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى الْمَاءِ، فَإِنَّهُ طَهُورٌ۔
* تخريج: د/الصوم ۲۱ (۲۳۵۵)، ت/الصوم ۱۰ (۶۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۸، ۲۱۴)، دي/الصوم ۱۲ (۱۷۴۳) (ضعیف)

(رسول اکرم ﷺ کا عمل صحیح وثابت ہے، اور قول ضعیف ہے، تراجع الألبانی: رقم: ۱۳۲)
۱۶۹۹- سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺنے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے،اور اگر اسے کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرے، اس لئے کہ وہ پاکیزہ چیز ہے'' ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِي فَرْضِ الصَّوْمِ مِنَ اللَّيْلِ وَالْخِيَارِ فِي الصَّوْمِ
۲۶ -باب: فرض صیام کی نیت رات میں ضروری ہونے اور نفلی صیام میں اختیار ہونے کا بیان​

1700- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ الْقَطَوَانِيُّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ >۔
* تخريج: د/الصوم ۷۱ (۲۴۵۴)، ت/الصوم ۳۳ (۷۳۰)، ن/الصیام ۳۹ (۲۳۳۳،)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۰۲)، وقد أخرجہ: ط/الصیام۲ (۵)، حم (۶/۲۷۸)، دي/الصوم ۱۰ (۱۷۴۰) (صحیح)

۱۷۰۰- ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اس شخص کا صوم نہیں جو رات ہی میں اس کی نیت نہ کرلے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صیام کے لیے رات میں نیت کرنے کا یہ حکم فرض اور قضا وکفارہ کے صیام کے سلسلہ میں ہے،نفلی صیام کے لئے رات میں نیت ضروری نہیں جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتاہے جو نیچے آرہی ہے ۔​

1701- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: < هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْئٌ > فَنَقُولُ: لا، فَيَقُولُ: < إِنِّي صَائِمٌ > فَيُقِيمُ عَلَى صَوْمِهِ، ثُمَّ يُهْدَى لَنَا شَيْئٌ فَيُفْطِرُ، قَالَتْ: وَرُبَّمَا صَامَ وَأَفْطَرَ، قُلْتُ: كَيْفَ ذَا؟ قَالَتْ: إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا مَثَلُ الَّذِي يَخْرُجُ بِصَدَقَةٍ، فَيُعْطِي بَعْضًا وَيُمْسِكُ بَعْضًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۷۸)، وقد أخرجہ: م/الصوم ۳۲ (۱۱۵۴)، د/الصوم ۷۲ (۲۴۵۵)، ت/الصوم ۳۵ (۷۳۴)، ن/الصوم ۳۹ (۲۳۲۷)، حم (۶/۴۹، ۲۰۷) (حسن صحیح)

۱۷۰۱- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ آتے اور پوچھتے: ''کیاتمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے'' ؟ ہم کہتے :نہیں ، تو آپﷺ کہتے: ''میں صائم ہوں ''،اور اپنے صیام پر قائم رہتے، پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی توصوم توڑ دیتے، ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی صوم رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا: یہ کیسے ؟ تو کہا : اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دعوت ہو یا عمدہ کھاناسامنے آجائے ، یا کوئی دوست کھانے کے لئے اصرار کرے تو نفلی صوم توڑ ڈالے، یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصْبِحُ جُنُبًا وَهُوَ يُرِيدُ الصِّيَامَ
۲۷ -باب: صیام کا ارادہ رکھتے ہوئے صبح تک جنبی رہنے کا بیان​

1702- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: لا، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ! مَا أَنَا قُلْتُ < مَنْ أَصْبَحَ، وَهُوَ جُنُبٌ، فَلْيُفْطِرْ > مُحَمَّدٌ ﷺ قَالَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۸۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۷۰۲)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۲۲ (۱۹۲۶)، م/الصیام ۱۳ (۱۱۰۹)، ط/الصیام ۴ (۹)، حم (۲/۲۴۸، ۲۸۶) (صحیح)

۱۷۰۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رب کعبہ کی قسم! یہ بات کہ کوئی جنابت کی حالت میں صبح کرے تو صوم توڑ دے، میں نے نہیں کہی بلکہ محمد ﷺنے کہی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم یا تو منسوخ ہے یا مرجوح کیونکہ صحیحین (بخاری ومسلم) میں ہے کہ رسول اللہﷺ کو فجر پالیتی اور آپ اپنی بیوی سے جماع کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے نہ کہ احتلام کی وجہ سے، پھرطلوع فجر کے بعد غسل کر تے اور صوم رکھتے تھے ، اورصحیح مسلم میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو انھوں نے اس سے رجوع کر لیا۔​

1703- حدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَبِيتُ جُنُبًا، فَيَأْتِيهِ بِلالٌ، فَيُؤْذِنُهُ بِالصَّلاةِ فَيَقُومُ فَيَغْتَسِلُ، فَأَنْظُرُ إِلَى تَحَدُّرِ الْمَاءِ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَأَسْمَعُ صَوْتَهُ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ، قَالَ مُطَرِّفٌ: فَقُلْتُ لِعَامِرٍ: أَفِي رَمَضَانَ ؟ قَالَ رَمَضَانُ وَغَيْرُهُ سَوَائٌ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۲۲)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۲۲ (۱۹۲۵)، م/الصوم ۱۳ (۱۱۰۹)، د/الصوم ۳۶ (۲۳۸۸)، ت/الصوم ۶۳ (۷۷۹)، ط/الصیام ۴ (۱۱)، حم (۱/۲۱۱، ۶/۳۴، ۳۶، ۳۸، ۲۰۳، ۲۱۳، ۲۱۶، ۲۲۹، ۲۶۶، ۲۷۸، ۲۸۹، ۲۹۰، ۳۰۸)، دي/الصوم ۲۲ (۱۷۶۶) (صحیح)

۱۷۰۳ - ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جنابت کی حالت میں رات گزارتے تھے ،آپﷺ کے پاس بلا ل رضی اللہ عنہ آتے ،اور آپ کو صلاۃ کی اطلاع دیتے تو آپ اٹھتے اور غسل فرماتے،میں آپ کے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے دیکھتی تھی، پھر آپ نکلتے تو میں صلاۃ فجر میں آپ کی آواز سنتی ۔
مطرف کہتے ہیں : میں نے عامرسے پوچھا: کیا ایسا رمضان میں ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ رمضان اور غیر رمضان سب برابر تھا ۔​

1704- حدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ سَلَمَةَ عَنِ الرَّجُلِ يُصْبِحُ، وَهُوَ جُنُبٌ، يُرِيدُ الصَّوْمَ؟ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنَ الْوِقَاعِ لا مِنِ احْتِلامٍ ثُمَّ يَغْتَسِلُ وَيُتِمُّ صَوْمَهُ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۱۸) (صحیح)

۱۷۰۴- نافع کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو جنابت کی حالت میں صبح کرے ،اور وہ صوم رکھنا چاہتا ہو؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرتے تھے ، اور آپ کی جنابت جماع سے ہوتی نہ کہ احتلام سے، پھرغسل کرتے اور اپنا صوم پورا کرتے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ الدَّهْرِ
۲۸ -باب: ہمیشہ صیام رکھنا کیسا ہے؟​

1705- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُو دَاوُدَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < مَنْ صَامَ الأَبَدَ، فَلا صَامَ وَلا أَفْطَرَ>۔
* تخريج: ن/الصیام ۴۲ (۲۳۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۵۰)، حم (۴/۲۵)، دي/الصوم ۳۷ (۱۷۸۵) (صحیح)

۱۷۰۵- عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس نے ہمیشہ صوم رکھا، اس نے نہ تو صوم رکھا ،اور نہ ہی افطار کیا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی کھانے پینے کی لذتوں سے محروم رہا، اور صیام کے ثواب سے بھی محروم رہا ، گویا صیام نہیں رکھا، علماء نے کہا: یہ آپ ﷺنے زجر وتوبیخ کے طور پر فرمایا کیونکہ ہمیشہ صیام رکھنے سے نفس کو صوم کی عادت ہوجاتی ہے، پس صوم کا مقصدیعنی خواہشاتِ نفس پر کنٹرول حاصل نہیں ہوتا،بعض نے کہا: اس وجہ سے کہ یہ سنت کے خلاف ہے، سنت یہ ہے کہ ایک دن صوم رکھے اور ایک دن افطار کرے ، داؤد علیہ السلام کی یہی عادت تھی ، بعض نے کہا: اس زجر وتوبیخ کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ صیام رکھنے سے آدمی کمزور ہوجاتا ہے ، جہاد نہیں کرسکتا ،اور بال بچوں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا ۔ واللہ اعلم ۔​

1706- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍوقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ <لاصَامَ مَنْ صَامَ الأَبَدَ>۔
* تخريج: خ/التہجد ۲۰ (۱۱۵۳)، الصیام ۵۷ (۱۹۷۷)، ۵۹ (۱۹۷۹)، أحادیث الأنبیاء ۳۵ (۳۴۱۹)، م/الصوم ۳۵ (۱۱۵۹)، ت/الصیام ۵۷ (۷۷۰)، ن/الصیام ۴۱ (۲۳۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۵)، وقد أخرجہ: ۲/۱۶۴، ۱۸۸، ۱۹۰، ۱۹۵، ۲۱۲، ۳۲۱) (صحیح)

۱۷۰۶- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے ہمیشہ صیام رکھا اس کا صیام ہی نہیں ہوا''۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ
۲۹ -باب: ماہانہ تین دن صیام رکھنے کا بیان​

1707- حدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِصِيَامِ الْبِيضِ،ثَلاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ وَيَقُولُ: < هُوَ كَصَوْمِ الدَّهْرِ، أَوْ كَهَيْئَةِ صَوْمِ الدَّهْرِ >.
* تخريج: د/الصوم ۶۸ (۲۴۴۹)، ن/الصیام ۵۱ ( ۲۴۳۲، ۲۴۳۳، ۲۴۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۵، ۵/۲۷، ۲۸) (صحیح لغیرہ)

۱۷۰۷- منہال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایام بیض کے صیام کے رکھنے کا حکم دیتے تھے یعنی تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں تاریخ کے صیام کا، اور فرماتے: ''یہ ہمیشہ صوم رکھنے کے مثل ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایام بیض کے صیام سے مراد ہجری مہینوں کی تیرھویں چودھویں اورپندرہویں تاریخ کے صیام ہیں انھیں ایّام بیض اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان تاریخوں کی راتیں روشن ہوتی ہیں۔​

1707/أ- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ قَتَادَةَ بْنِ مَلْحَانَ الْقَيْسِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، قَالَ ابْن مَاجَةَ: أَخْطَأَ شُعْبَةُ وَأَصَابَ هَمَّامٌ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ۔

۱۷۰۷/أ - اس سند سے بھی قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے ۔
ابن ماجہ کہتے ہیں: شعبہ نے غلطی کی ہے، اور ہمام نے صحیح طرح سے روایت کی ہے ، ''عبدالملک بن منہال ''کے بجائے صحیح عبدالملک بن قتادہ بن ملحان ہے ۔​

1708- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ،عَنْ أَبِي ذَرَّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ صَامَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ >، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ: (مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا)، فَالْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّاٍم۔
* تخريج: ت/الصوم ۵۴ (۷۶۲)، ن/الصیام ۵۰ (۲۴۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۶۷)، حم (۵/۱۴۵) (صحیح)

۱۷۰۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جس نے ہر مہینہ تین دن صوم رکھا تو گویا اس نے ہمیشہ صوم رکھا ''اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق نازل فرمائی: {مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا} ( جو کوئی ایک نیکی کرے اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی ) تو ایک صوم کے دس صوم ہوئے ۔​

1709- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، قُلْتُ: مِنْ أَيِّهِ ؟ قَالَتْ : لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّهِ كَانَ۔
* تخريج: م/الصوم ۳۶ (۱۱۶۰)، د/الصوم ۷۰ (۲۴۵۳)، ت/الصوم ۵۴ (۷۶۳)، ن/الصوم ۵۱ (۲۴۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۶) (صحیح)

۱۷۰۹- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینہ میں تین دن صیام رکھتے تھے ، معاذہ عدویہ کہتی ہیں:میں نے پوچھا : کون سے تین دنوں میں؟ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ ﷺ پروا نہیں کرتے تھے جو بھی تین دن ہوں ''۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ
۳۰ -باب: نبی اکرم ﷺ کے نفلی صیام کا بیان​

1710- حدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ ﷺ؟ فَقَالَتْ: كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَفْطَرَ، وَلَمْ أَرَهُ صَامَ مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلا قَلِيل۔
* تخريج: م/الصوم ۳۴ (۱۱۵۶)، ن/الصوم ۱۹ (۲۱۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۲۹)، وقد أخرجہ: خ/الصوم ۵۲ (۱۹۶۹)، د/الصوم ۵۹ (۲۴۳۴)، ت/الصوم ۳۷ (۷۳۶)، ط/الصیام ۲۲ (۵۶)، حم (۶/۳۹، ۸۰، ۸۴، ۸۹، ۱۰۷، ۱۲۸، ۱۴۳، ۱۵۳، ۱۶۵، ۱۷۹، ۲۳۳،۲۴۲، ۲۴۹، ۲۶۸) (صحیح)

۱۷۱۰- ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم ﷺ کے صیام کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ صوم رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ صیام ہی رکھتے جائیں گے، اور صوم چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺصوم رکھیں گے ہی نہیں ،اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں صوم رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان صوم رکھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شعبان کے مہینے میں آپ ﷺکے کثرت سے صیام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں انسان کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، تو آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال اللہ کے پاس حالت صیام میں پیش ہوں، اور چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے یہ صیام آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتے تھے اس لیے پندرہویں شعبان کے بعد بھی آپ کے لیے صوم رکھنا جائز تھا، اس کے برخلاف امت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں صیام نہ رکھے تاکہ رمضان کے صیام کے لیے قوت وتوانائی برقرارہے۔​

1711- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لا يَصُومُ، وَمَا صَامَ شَهْرًا مُتَتَابِعًا إِلا رَمَضَانَ، مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ۔
* تخريج: خ/الصوم ۵۳ (۱۹۷۱)، م/الصوم ۳۴ (۱۱۵۷)، ت/الشمائل ۴۲ (۲۸۳)، ن/الصیام ۴۱ (۲۳۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۴۷)، حم (۱/۲۲۷،۲۳۱، ۲۴۱، ۳۰۱، ۳۲۱)، دي/الصوم ۳۶ (۱۷۸۴) (صحیح)

۱۷۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صیام رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ صیام چھوڑیں گے ہی نہیں ،اور صیام چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ صوم رکھیں گے ہی نہیں، اور جب سے آپ مدینہ آئے آپ نے رمضان کے سوا کسی بھی مہینے کا صوم لگاتار نہیں رکھا۔​
 
Top