20- بَاب الْقَضَاءِ بِالْقُرْعَةِ
۲۰- باب: قرعہ اندازی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا بیان
2345- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلا كَانَ لَهُ سِتَّةُ مَمْلُوكِينَ، لَيْسَ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ، فَأَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ، فَجَزَّأَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً۔
* تخريج: م/الحدود ۵ (۱۶۶۸)، د/الحدود ۲۵ (۳۹۵۸، ۳۹۵۹)، ت/الأحکام ۲۷ (۱۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۰)، وقد أخرجہ: ن/الجنائز۶۵ (۱۹۶۰)، حم (۴/۴۲۰، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۴۰) (صحیح)
۲۳۴۵- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کے چھ غلام تھے ،ان غلاموں کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا،مرتے وقت اس نے ان سب کو آزاد کردیا، رسول اللہﷺ نے ان کے حصے کئے ( دودو کے تین حصے ) ( اور قرعہ اندازی کرکے ) دو کو (جن کے نام قرعہ نکلا) آزاد کردیا، اور چار کو بدستور غلام رکھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب آدمی بیمار ہو تو اس کو چاہئے کہ وارثوں کا خیال رکھے ،اور اپنی ساری دولت تقسیم نہ کردے ، اگر ایسا ہی ضرور ی ہو تو تہائی مال تک اللہ کی راہ میں دے دے، اور دو تہائی دولت وارثوں کے لئے چھوڑ دے ، اگر ساری دولت کے صدقہ کی وہ وصیت کرے تو یہ وصیت تہائی مال ہی میں نافذ ہوگی ۔ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا ، دو غلاموں کو قرعہ ڈال کر آزاد کرایا ،اور قرعہ اس واسطے ڈالا کہ وہ جھگڑا نہ کریں، اور وہ وارثوں کی ملکیت میں بدستور غلام رہے ، دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے حق میں سخت کلمہ کہا کیونکہ اس نے وارثوں کا خیال نہیں رکھا تھا۔
2346- حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلاسٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلَيْنِ تَدَارَئَا فِي بَيْعٍ، لَيْسَ لِوَاحِدٍ مِنْهُمَا بَيِّنَةٌ، فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَسْتَهِمَا عَلَى الْيَمِينِ، أَحَبَّا ذَلِكَ أَمْ كَرِهَا.
* تخريج: د/الأقضیۃ ۲۲ (۳۶۱۶) وأنظر حدیث رقم : (۲۳۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۸۹، ۵۲۴) (صحیح)
۲۳۴۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بیع کے متعلق دو آدمیوں نے جھگڑا کیا ،اور ان میں کسی کے پاس گواہ نہیں تھے،آپ ﷺنے ان دونوں کو قسم کھانے کے لئے قرعہ ڈالنے کا حکم دیا خواہ انہیں یہ فیصلہ پسند ہو یا ناپسند ۔
2347- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا سَافَرَ أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۱۵ (۲۵۹۳)، المغازي ۳۴ (۴۱۴۱)، النکاح ۹۷ (۵۰۹۲)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۵)، التوبۃ ۱۰ (۲۴۴۵)، د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۵۱، ۱۹۷، ۲۶۹)، دي/النکاح ۲۶ (۲۲۴۵) ،الجہاد ۳۱ (۲۴۶۷)، (یہ حدیث مکرر ہے ،ملاحظہ ہو: ۱۹۷۰) (صحیح)
۲۳۴۷- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس کے نام قرعہ نکلتا اس کو اپنے ساتھ لے جاتے۔
2348- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ، فِي ثَلاثَةٍ قَدْ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ، فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالا: لا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالا: لا، فَجَعَلَ كُلَّمَا سَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالا: لا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ۔
* تخريج: د/الطلاق ۳۲ (۲۲۷۰)، ن/الطلاق ۵۰ (۳۵۱۸)، (تحفۃ الأشراف:۳۶۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷۳، ۴۷۴) (صحیح)
۲۳۴۸ - زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے ،تو ان کے پاس یہ مقدمہ آیا کہ تین آدمیوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو انہوں نے پہلے دو آدمیوں سے پوچھا: کیا تم دونوں اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے؟ ان دونوں نے کہا: نہیں، پھر دو کو الگ کیا ،اور ان سے پوچھا :کیا تم دونوں اقرار کرتے ہوکہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے؟ اس طرح جب وہ دو دو سے پوچھتے کہ تم اس لڑکے کو تیسرے کا کہتے ہو؟ تو وہ انکار کرتے ،آخر انہوں نے قرعہ اندازی کی، اور جس کے نام قرعہ نکلا وہ لڑکا اس کو دلایا ،اور دو تہائی کی دیت اس پر لازم کردی، اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہوگئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ یہ فیصلہ عجیب طور کا تھا، اور دو تہائی دیت کی اس سے اس لئے دلوائی کہ دعوی کے مطابق اس لڑکے میں تینوں شریک تھے ، اب قرعہ جھگڑا ختم کرنے کے لئے کیا، نہ نسب ثابت کرنے کے لئے ، تو اس شخص کو بچہ کا دوتہائی کا بدلہ دوسرے دعویداروں کو دینا پڑا اور یہ علی رضی اللہ عنہ کی اپنی رائے تھی ، لیکن ابو داود نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی صورت میں یہ حکم فرمایا : وہ بچہ اپنی ماں کے پاس رہے گا، اور کسی سے اس کا نسب ثابت نہ ہوگا ، نہ وہ ان دعویداروں میں سے کسی مرد کا وارث ہوگا ۔