• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب الْعُمْرَى
۳- باب: عمریٰ ۱؎ (عمر بھر کے لئے کسی کو کوئی چیز دینے ) کا بیان​
وضاحت ۱؎ : کسی کو عمر بھر کے لئے کوئی چیز ہبہ کرنے کو عمر ی کہتے ہیں، مثلا یوں کہے : میں نے تمہیں تمہاری عمر بھر کے لئے یہ گھر دے دیا ،یا اپنی عمر بھر کے لئے دے دیا ،زمانہ جاہلت میں یہ شکل رائج تھی ۔


ّ 2379- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لاعُمْرَى فَمَنْ أُعْمِرَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۰۷)، وقد أخرجہ: ن/الرقبي ۴ (۳۵۵۵) (حسن صحیح)
۲۳۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' عمریٰ کوئی چیزنہیں ہے، جس کو عمریٰ کے طور پر کوئی چیز دی گئی تو وہ اسی کی ملک ہوجائے گی '' ۔
وضاحت ۱؎ : صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمری والوں کے لئے، عمری میراث ہوگی ایک روایت میں ہے کہ عمری جائز ہے ۔


2380- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: مَنْ أَعْمَرَ رَجُلا عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، فَقَدْ قَطَعَ قَوْلُهُ حَقَّهُ فِيهَا، فَهِيَ لِمَنْ أُعْمِرَ وَلِعَقِبِهِ >۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۳۲ (۲۶۲۵)، م/الھبات ۴ (۱۶۲۵)، د/البیوع ۸۷ (۳۵۵۰، ۳۵۵۲)، ت/الأحکام ۱۵ (۱۳۵۰)، ن/االعمريٰ (۳۷۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۸)، وقد أخرجہ: ط/الأقضیۃ ۳۷ (۴۳)، حم (۳/۳۰۲، ۳۰۴، ۳۶۰، ۳۹۳، ۳۹۹) (صحیح)
۲۳۸۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ''جس نے کسی کو بطور عمریٰ کوئی چیز دی، تووہ جس کو دیا ہے اس کی اور اس کے بعد اس کے اولاد کی ہوجائے گی، اس نے عمریٰ کہہ کر اپنا حق ختم کرلیا ،اب وہ چیز جس کو عمریٰ دیا گیا اس کی اور اس کے بعد اس کے وارثوں کی ہوگئی '' ۔
وضاحت ۱؎ : عمریٰ کرنے والے کو اب واپس لینے کا کوئی حق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا کوئی عذر مقبول ہوگا۔


2381- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ حُجْرٍ الْمَدَرِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَعَلَ الْعُمْرَى لِلْوَارِثِ۔
* تخريج: د/البیوع ۸۹ (۳۵۵۹)، ن/الرقبي (۳۷۴۶)، (تحفۃ الأشراف:۳۷۰۰) (صحیح الإسناد)
۲۳۸۱- زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ وارث کو دلادیا ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عمری دینے سے وہ چیز ہمیشہ کے لئے دینے والے کی ملکیت سے نکل جائے گی اور اس کی ہوجائے گی جس کو عمری دیا گیا، اس کے بعد اس کے وارثوں کو ملے گی، اہل حدیث اور جمہور علماء کا یہی قول ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب الرُّقْبَى
۴- باب: رقبی کا بیان​
وضاحت ۱؎ : رقبی یہ ہے کہ کوئی دوسرے سے کہے کہ میں نے یہ مکان تم کو اس شرط پردیا کہ اگر میں پہلے مرجاؤں تو مکان تمہاراہے اور اگر تم پہلے مرجاؤگے تو مکان میں لے لوں گا ، اس کا حکم بھی اہل حدیث اور شافعی ، احمد ، ابو یوسف کے نزدیک عمری کا سا ہے ، یعنی وہ چیز اسی کی ہوجائے گی جس کے لئے رقبی کیا گیا ہے ،اور اس کو رقبی اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا ہے، رقب ترقب سے ہے یعنی انتظار کرنا ۔


2382- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا رُقْبَى، فَمَنْ أُرْقِبَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، حَيَاتَهُ وَمَمَاتَهُ >۔
قَالَ: وَالرُّقْبَى أَنْ يَقُولَ هُوَ لِلآخَرِ: مِنِّي وَمِنْكَ مَوْتًا۔
* تخريج: ن/العمریٰ ۱ (۳۷۶۳، ۳۷۶۴، ۳۷۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۴،۷۳) (صحیح)
۲۳۸۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' رقبیٰ کوئی چیز نہیں ہے جس کو بطور رقبیٰ کوئی چیزدی گئی تو وہ اسی کی ہوگی اس کی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں ''۔
راوی کہتے ہیں: رُقبیٰ یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو کوئی چیز دے کر یہ کہے کہ ہم اور تم میں سے جو آخر میں مرے گا یہ اس کی ہوگی۔


2383- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ قَالا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِمَنْ أُعْمِرَهَا، وَالرُّقْبَى جَائِزَةٌ لِمَنْ أُرْقِبَهَا >۔
* تخريج: د/البیوع ۸۹ (۳۵۵۸)، ت/الأحکام ۱۶ (۱۳۵۱)، ن/العمريٰ (۳۷۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۰۵) (صحیح)
۲۳۸۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' عمریٰ اس شخص کا ہوجائے گا جس کو عمریٰ دیا گیا، اور رقبیٰ اس شخص کا ہوجائے گا جس کو رقبیٰ دیا گیا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دونوں صورتوں میں وہ شئی دینے والے کے ملک سے نکل جا ئے گی ، اور جس کو عمری یا رقبی کے طور پر دی گئی ہے اس کی ہو جائے گی، اور اس کے بعد اس کے وارثوں کو ملے گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب الرُّجُوعِ فِي الْهِبَةِ
۵- باب: ہبہ کرکے واپس لینے کے حکم کا بیان​


2384- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خِلاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ مَثَلَ الَّذِي يَعُودُ فِي عَطِيَّتِهِ، كَمَثَلِ الْكَلْبِ، أَكَل حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ، ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ فَأَكَلَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۰۵، ومصباح الزجاجۃ:۸۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۹، ۴۳۰، ۴۹۲) (صحیح)
( خلاس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لئے کہ خلاس نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۶ ۶۴ و الصحیحہ : ۱۶۹۹)۔
۲۳۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا '': اس شخص کی مثال جو ہبہ کرکے واپس لے اس کتے جیسی ہے جو خوب آسودہ ہو کر کھالے، پھر قے کرکے اسے چاٹے '' ۔


2385- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ < الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ >۔
* تخريج:خ/الھبۃ ۱۴ (۲۵۸۸)، م/الھبات ۲ (۱۶۲۲)، د/البیوع ۸۳ (۳۵۳۸)، ت/البیوع ۶۲ (۱۲۹۹)، ن/الھبۃ ۲ (۳۷۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۰،۲۸۰، ۲۸۹، ۲۹۱، ۳۳۹، ۳۴۲، ۳۴۵، ۳۴۹) (صحیح)
۲۳۸۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ہبہ کرکے واپس لینے والا قے کرکے چاٹنے والے کے مانند ہے '' ۔


2386- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يُوسُفَ الْعَرْعَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۷۳۵) (صحیح)
۲۳۸۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ہبہ کرکے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے چاٹتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ کرکے واپس لے لینا کمینہ پنی ، اور خست کا کام ہے اور خلاف مروت ہے، اکثر علماء ہبہ واپس لینے کو حرام کہتے ہیں مگر باپ ہبہ کو واپس لے لے تو جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَنْ وَهَبَ هِبَةً رَجَاءَ ثَوَابِهَا
۶- باب: عوض کی امید میں ہبہ کرنے کا بیان​


2387- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسمَعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الرَّجُلُ أَحَقُّ بِهِبَتِهِ مَا لَمْ يُثَبْ مِنْهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۶) (ضعیف)
(سند میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف راوی ہے)
۲۳۸۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: '' ہبہ کرنے والا اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کا زیادہ حق دار ہے جب تک اس کا عوض نہ پائے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب عَطِيَّةِ الْمَرْأَةِ بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا
۷- باب: شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی ہبہ کرے تو اس کے حکم کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنے مال میں سے بھی اگر کسی کو عطیہ دینا چاہے تو شوہر سے اجازت لے لے، اور یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں کیونکہ اکثر میاں بیوی کا مال ملا جلا ہوتا ہے ، لیکن اس پر بھی عورت اگر اپنے مال میں سے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو عطیہ دے تو نافذ ہوگا اس پر علماء کا اجماع ہے، اور یہ امر دوسری حدیثوں سے بھی ثابت ہے ۔


2388- حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ الرَّقِّيُّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الصَّيْدَلانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ فِي خُطْبَةٍ خَطَبَهَا: < لا يَجُوزُ لامْرَأَةٍ فِي مَالِهَا، إِلا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، إِذَا هُوَ مَلَكَ عِصْمَتَهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۷۹)، وقد أخرجہ:د/البیوع ۸۶ (۳۵۴۶)، ن/الزکاۃ ۵۸ (۲۵۴۱)، العمریٰ (۳۷۸۷)، حم (۲/۲۲۱) (صحیح)
۲۳۸۸- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: '' کسی عورت کاا پنے مال میں بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے تصرف کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ وہ اس کی عصمت(ناموس) کا مالک ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نکاح قائم ہو، یہ حکم مصلحتا ہے ، کیونکہ اکثر عورتیں کم عقل ہوتی ہیں ، احتمال ہے کہ اپنا مال ضائع کردیں ، اس پر بھی جمہور علماء کا قول یہی ہے کہ عورت کا تصرف اپنے ذاتی مال میں صحیح ہے گو شوہر کی اجازت نہ ہو ۔


2389- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَحْيَى ( رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ) عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ جَدَّتَهُ خَيْرَةَ امْرَأَةَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بِحُلِيٍّ لَهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ بِهَذَا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَجُوزُ لِلْمَرْأَةِ فِي مَالِهَا إِلا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، فَهَلِ اسْتَأْذَنْتِ كَعْبًا؟ > قَالَتْ: نَعَمْ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، زَوْجِهَا فَقَالَ: < هَلْ أَذِنْتَ لِخَيْرَةَ أَنْ تَتَصَدَّقَ بِحُلِيِّهَا؟ > فَقَال: نَعَمْ . فَقَبِلَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۳۱، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۷) (صحیح)
(سند میں عبد اللہ بن یحییٰ مجہول ہیں، لیکن دوسرے شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۷۷۵)
۲۳۸۹- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی اہلیہ خیرۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا زیور لے کر آئیں، اور عرض کیا: میں نے اسے صدقہ کردیا ہے ، رسو ل اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: '' شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لئے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں، کیا تم نے کعب سے اجازت لے لی ہے''؟ وہ بولیں : ہاں، آپﷺ نے ان کے شوہر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیج کر پچھوایا '' کیا تم نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے''، وہ بولے : ہاں ،تب جاکر رسول اللہ ﷺ نے ان کا صدقہ قبول کیا ۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 15-كِتَابُ الصَّدَقَاتِ }
۱۵-کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام ومسائل


1- بَاب الرُّجُوعِ فِي الصَّدَقَةِ
۱- باب: صدقہ دے کر واپس لینے کا بیان​


2390- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۹ (۱۴۹۰)، الھبۃ ۳۰ (۲۶۲۳)، ۳۷ (۲۶۳۶)، الوصایا ۳۱ (۲۷۷۵)، الجہاد ۱۱۹ (۲۹۷۰)، ۱۳۷ (۳۰۰۲)، م/الھبات ۱ (۱۶۲۰)، ن/الزکاۃ ۱۰۰ (۲۶۱۶)، (تحفۃ الأشراف:۱۰۳۸۵)، وقد أخرجہ: ت/الزکاۃ ۳۲ (۶۶۸)، ط/الزکاۃ ۲۶ (۴۹)، حم (۱/۲۵، ۳۷،۴۰، ۵۴) (صحیح)
۲۳۹۰- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اپنے صدقہ کو دے کر واپس نہ لو '' ۔


2391- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَثَلُ الَّذِي يَتَصَدَّقُ ثُمَّ يَرْجِعُ فِي صَدَقَتِهِ، مَثَلُ الْكَلْبِ يَقِيئُ ثُمَّ يَرْجِعُ فَيَأْكُلُ قَيْئَهُ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۳۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۶۲) (صحیح)
۲۳۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو صدقہ دے کر واپس لے لیتا ہے اس کی مثال کتے کی ہے جو قے کرتا ہے پھر لوٹ کر اس کوکھاتا ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَوَجَدَهَا تُبَاعُ هَلْ يَشْتَرِيهَا
۲- باب: صدقہ کردینے کے بعد کیا اسے بکتا ہوا پاکر خرید سکتاہے؟​


2392- حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، يَعْنِي عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ أَنَّهُ تَصَدَّقَ بِفَرَسٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَأَبْصَرَ صَاحِبَهَا يَبِيعُهَا بِكَسْرٍ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: < لا تَبْتَعْ صَدَقَتَكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۴۶) (صحیح)
۲۳۹۲- عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک گھوڑا صدقہ کیا، پھر دیکھاکہ اس کا مالک اس کو کم دام میں بیچ رہا ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور آپﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا: '' اپنا صدقہ مت خریدو ''۔


2393- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ يُقَالُ لَهُ غَمْرٌ أَوْ غَمْرَةٌ، فَرَأَى مُهْرًا أَوْ مُهْرَةً مِنْ أَفْلائِهَا يُبَاعُ، يُنْسَبُ إِلَى فَرَسِهِ، فَنَهَى عَنْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۳۲، ومصباح الزجاجۃ: ۸۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۴) (ضعیف)
(سند میں عبد ا للہ بن عامر غیر معروف راوی ہیں، ان کے بارے میں یہ نہیں معلوم کہ وہ عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ غزی ثقہ راوی ہیں، یا کوئی اور، اس لئے اس احتمال کی وجہ سے حدیث ثابت نہیں )
۲۳۹۳- زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی راہ میں ایک گھوڑی صدقہ میں دی جس کو غمر یا غمرۃ کہا جاتا تھا، پھر اسی کے بچوں میں ایک بچھیرا یا بچھیر ی کو بکتا دیکھا ،جو ان کی گھوڑی کی نسل سے تعلق رکھتا تھا، تو اس کو خریدنے سے روک دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ثُمَّ وَرِثَهَا
۳- باب: صدقہ کئے ہوئے مال کے وارث ہونے کا بیان​


2394- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ، فَقَالَ: < آجَرَكِ اللَّهُ، وَرَدَّ عَلَيْكِ الْمِيرَاثَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۱۷۵۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۹۸۰) (صحیح)
۲۳۹۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی صدقہ میں دی تھی، ماں کا انتقال ہوگیا (اب لونڈی کا حکم کیا ہوگا؟ )آپﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالی نے تجھے (تیرے صدقہ کا ) ثواب دیا، اور پھراسے تجھے وارثت میں بھی لوٹا دیا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ترکہ (وراثت) میں تمہارے پاس لونڈی آگئی ، معلوم ہوا کہ صدقہ کی ہوئی چیز اگر میراث میں آجائے تو اس کا لینا منع نہیں ہے، البتہ اس کو خریدنا منع ہے ۔


2395- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَيْتُ أُمِّي حَدِيقَةً لِي، وَإِنَّهَا مَاتَتْ وَلَمْ تَتْرُكْ وَارِثًا غَيْرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < وَجَبَتْ صَدَقَتُكَ، وَرَجَعَتْ إِلَيْكَ حَدِيقَتُكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۵) (حسن صحیح)
۲۳۹۵- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: میں نے اپنی ماں کو ایک باغ دیا تھا، اور وہ مر گئیں، اور میرے سوا ان کا کوئی اور وارث نہیں؟! تو آپﷺ نے فرمایا: ''تمہیں تمہارے صدقہ کا ثواب مل گیا، اورتمہارا باغ بھی تمہیں واپس مل گیا '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَنْ وَقَفَ
۴- باب: جس نے وقف کیا اس کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : جس نے اپنی ملکیت اللہ کے راستہ میں دے دی تو اس نے وقف کیا ، یہ جمہور علماء کے نزدیک صحیح ہے، اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ ہم اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے سلف کے درمیان اختلاف نہیں پاتے کہ زمین کا وقف صحیح ہے ۔


2396- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَاسْتَأْمَرَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَصَبْتُ مَالا بِخَيْبَرَ، لَمْ أُصِبْ مَالا قَطُّ هُوَ أَنْفَسُ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ؟ فَقَالَ: < إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا >، قَالَ: فَعَمِلَ بِهَا عُمَرُ عَلَى أَنْ لايُبَاعَ أَصْلُهَا وَلا يُوهَبَ وَلا يُورَثَ، تَصَدَّقَ بِهَا لِلْفُقَرَاءِ وَفِي الْقُرْبَى وَفِي الرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ، لاجُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا، غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ۔
* تخريج: خ/الشروط ۱۹ (۲۷۳۷)، الوصایا ۲۲ (۶۷۶۴)، ۲۸ (۲۷۷۲)، ۳۲ (۲۷۷۷)، م/الوصایا ۴ (۱۶۳۲)، د/الوصایا ۱۳ (۲۸۷۸)، ت/الأحکام ۳۶ (۱۳۷۵)، ن/الإحباس ۱ (۳۶۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۵، ۱۲۵) (صحیح)
۲۳۹۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین ملی ،تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے مشورہ لیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے خیبر میں کچھ مال ملا ہے ،اتنا عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا، تو آپ اس کے متعلق مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: '' اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں باقی رکھواور اسے (یعنی اس کے پھلوں اور منافع کو ) صدقہ کردو '' ۔
عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا،اس طرح کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اسے وراثت میں دیا جائے، اور وہ صدقہ رہے فقیروںاور رشتہ داروں کے لئے، غلاموں کے آزاد کرانے اور مجاہد ین کے سامان تیار کرنے کے لئے، اور مسافروں اور مہمانوں کے لئے اور جو اس کا متولی ہو وہ اس میں دستور کے مطابق کھائے یا کسی دوست کو کھلائے لیکن مال جمع نہ کرے ۔


2397- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّه بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ الْمِائَةَ سَهْم الَّتِي بِخَيْبَرَ، لَمْ أُصِبْ مَالا قَطُّ هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهَا، وَقَدْ أَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < احْبِسْ أَصْلَهَا وَسَبِّلْ ثَمَرَهَا >.
* تخريج: ن/الإحباس ۲ (۳۶۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۰۲) (صحیح)
۲۳۹۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کردوں ؟! تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو '' ۔


2397/أ- قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: فَوَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ فِي كِتَابِي: عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ عُمَرُ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴۱) (صحیح)
۲۳۹۷/أ- ابن ابی عمر کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر سفيان عن عبدالله عن نافع عن ابن عمر کے طریق سے پائی ہے ،وہ(ابن عمر) کہتے ہیں:عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر انہوں نے اسی جیسی روایت ذکر کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب الْعَارِيَةِ
۵- باب: عاریت کا بیان​


2398- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۸۴، ومصباح الزجاجۃ:۸۴۰ )، وقد أخرجہ: د/البیوع ۹۰ (۳۵۶۵)، ت/البیوع ۳۴ (۱۲۶۵)، (الشطر الأول فقط) (صحیح)
(سند میں اسماعیل بن عیاش کی وجہ سے ضعف ہے)۔
۲۳۹۸- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''عاریت( مانگی ہوئی چیز) ادا کی جائے، اور جو جانور دودھ پینے کے لئے دیا جائے وہ لوٹا دیا جائے '' ۔


2399- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۸۴۱) (صحیح)
(ملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۵۱۶)
۲۳۹۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: '' عاریت (منگنی لی ہوئی چیز) ادا کی جائے، اور دودھ پینے کے لئے دئیے گئے جانور کو واپس کردیا جائے ''۔


2400- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ (ح) وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، جَمِيعًا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَهُ >۔
* تخريج: د/البیوع ۹۰ (۳۵۶۱)، ت/البیوع ۳۹ (۱۲۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲،۱۳)، دي/البیوع ۵۶ (۲۶۳۸) (ضعیف)
(سند میں حسن بصری ہیں، جنہوں نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نہیں سنی ہے، کیونکہ انہوں نے صرف سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ سنی ہے ، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۵۱۶)۔
۲۴۰۰- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' ہاتھ پر واجب ہے کہ جو وہ لے اسے واپس کرے '' ۔
 
Top