• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَنْ لا يَجِبُ عَلَيْهِ الْحَدُّ
۴- باب: جس پر حد واجب نہیں ہے اس کا بیان​


2541- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيَّ يَقُولُ: عُرِضْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ، فَكُنْتُ فِيمَنْ لَمْ يُنْبِتْ، فَخُلِّيَ سَبِيلِي ۔
* تخريج: د/الحدود ۱۷ (۴۴۰۴)، ت/السیر ۲۹ (۱۵۸۴)، ن/الطلاق ۲۰ (۳۴۶۰)، القطع ۱۴ (۴۹۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۰، ۳۸۳، ۵/۳۱۲، ۳۸۳) (صحیح)
۲۵۴۱- عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ غزوۂ قریظہ کے دن ( جب بنی قریظہ کے تمام یہودی قتل کر دیئے گئے ) رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اُ گ آئے تھے اسے قتل کردیاگیا، اورجس کے نہیں اُگے تھے اسے (نابالغ سمجھ کر ) چھوڑدیا گیا ، میں ان لوگوں میں تھاجن کے بال نہیں اُگے تھے تو مجھے چھوڑ دیا گیا ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عطیہ رضی اللہ عنہ کا تعلق یہود بنی قریظہ سے تھا،غزوئہ احزاب کے فوراً بعد اس قبیلے کی غداری اوراللہ تعالیٰ کے حکم کے بعداس پر چڑھائی کا واقعہ پیش آیا ، اس غزوہ میں عطیہ رضی اللہ عنہ دیگرنابالغ بچوں کے ساتھ قتل ہونے سے بچ گئے ، اور بعد میں اسلام قبول کیا ، ان کا اسلام اور ان کی اسلامی خدمات بہت اعلیٰ درجے کی ہیں۔


2542- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيَّ يَقُولُ: فَهَا أَنَا ذَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۵۴۲- عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی کہتے سنا: تو اب میں تمہارے درمیان ہوں ۔


2543- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَأَبُو أُسَامَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْنِي، وَعُرِضْتُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَنِي.
قَالَ نَافِعٌ فَحَدَّثْتُ بِهِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ فِي خِلافَتِهِ فَقَالَ: هَذَا فَصْلُ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ۔
* تخريج: حدیث أبي أسامۃ أخرجہ: خ/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، المغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۳۳)، وقد أخرجہ: وحدیث عبد اللہ بن نمیر م/الإمارہ ۲۳ (۱۸۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۵۵)، حم (۲/۱۷)، وحدیث أبي معاویہ تفردبہ ابن ماجہ، تحفۃ الأشراف: ۸۱۱۵)، د/الخراج ۱۶ (۲۹۵۷)، الحدود ۱۷ (۴۴۰۶)، ت/الأحکام ۲۴ (۱۳۱۶)، الجہاد ۳۱ (۱۷۱۱)، ن/الطلا ق۲۰ (۳۴۳۱)، حم (۲/۱۷) (صحیح)
۲۵۴۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا ، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی ، آپﷺ نے مجھے ( غزوہ میں شریک ہونے کی ) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ ٔ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپﷺ نے اجازت دے دی ، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی ۔
نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی توانہوں نے کہا: یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔
وضاحت ۱؎ : بلوغ کی کئی نشانیاں ہیں : زیر ناف بال اگنا ، ڈاڑھی مونچھ کے بال اگنا، احتلام ہونا، پندرہ برس کی عمرکا ہونا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب السِّتْرِ عَلَى الْمُؤْمِنِ وَدَفْعِ الْحُدُودِ بِالشُّبُهَاتِ
۵- باب: مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالنے کا ثواب اور شکوک وشبہات کی وجہ سےحد ساقط ہو جانے کا بیان ۱ ؎​
وضاحت ۱؎ : یعنی حاکم تک مقدمہ لے جانے سے پہلے قابل حد مجرم کو چھپالو ، اس سے کہہ دو کہ توبہ اور استغفار کرلے اور خاموش ہورہے ، یا مراد یہ ہے کہ حاکم کو چاہئے کہ جب جرم پورے طور پر ثابت ہوجائے اور کوئی شک و شبہ نہ باقی رہے تواس وقت حد کے نفاذ کا حکم دے ورنہ اگر ذرا سا بھی شبہ ہو تو حد کو ساقط کردے، یا مراد یہ ہے کہ جب حد کے قابل مجرم حاکم کے سامنے آئے اور جرم کا اقرار کرلے تو حاکم اس سے مثلاً زناکے جرم میں اس طرح کہے ، شاید تم نے بوسہ لیا ہوگا یا اس عورت کا بدن چھوا ہوگا ،اور اس طرح سے اس کے لیے آسانی پیداکرے۔


2544 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۹)، وقد أخرجہ: م/الذکر ۱۱ (۲۶۹۹)، د/الأدب ۶۸ (۴۹۴۶)، ت/الحدود ۳ (۱۴۲۵)، حم (۲/۲۵۲، ۳۲۵،۵۰۰، ۵۲۲)، دي/المقدمۃ ۳۲ (۳۶۰) (صحیح)
۲۵۴۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جوشخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ''۔


2545- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ < ادْفَعُوا الْحُدُودَ مَا وَجَدْتُمْ لَهُ مَدْفَعًا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۲) (ضعیف)
(سند میں ابراہیم بن الفضل المخزومی ضعیف راوی ہیں، ملاحظہ ہو: الإروا ء : ۲۳۵۶)
۲۵۴۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم حدود کو دفع کرو،جہاں تک دفع کرنے کی گنجائش پاؤ ''۔


2546- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، كَشَفَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ حَتَّى يَفْضَحَهُ بِهَا فِي بَيْتِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۳) (صحیح)
(سند میں محمد بن عثمان جُمَحِي ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: ۳۸۷)
۲۵۴۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کا عیب فاش کرے گا ، یہاں تک کہ وہ اسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ تجربہ کی بات ہے کہ جو کوئی اپنے بھائی مسلمان کا عیب اس کو ذلیل کرنے کے لئے ظاہر کرتا ہے وہ اس سے بڑھ کر عیب میں گرفتار ہوتا ہے ،اور اس سے بڑھ کر ذلیل وخوار ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب الشَّفَاعَةِ فِي الْحُدُودِ
۶ - باب: حدود میں سفارش کے حکم کا بیان​


2547- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِءُ عَلَيْهِ إِلا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ؟ > ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ ! إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا، إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ، تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ! لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ، لَقَطَعْتُ يَدَهَا >.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ: سَمِعْتُ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ يَقُولُ: قَدْ أَعَاذَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَسْرِقَ، وَكُلُّ مُسْلِمٍ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَقُولَ هَذَا۔
* تخريج: خ/الشبہات ۸ (۲۶۴۸)، الأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۵)، فضائل الصحابۃ ۱۸ (۳۷۳۲)، المغازي ۵۲ (۴۳۰۴)، الحدود ۱۱ (۶۷۸۷)، ۱۲ (۶۷۸۸)، ۱۴ (۶۸۰۰)، م/الحدود ۲ (۱۶۸۸)، د/الحدود ۴ (۴۳۷۳)، ت/الحدود ۶ (۱۴۳۰)، ن/قطع السارق ۵ (۴۹۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۶۲)، دي/الحدود ۵ ۲۳۴۸) (صحیح)
۲۵۴۷- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قبیلۂ مخزوم کی ایک عورت کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، قریش کافی فکر مند ہوئے اور کہا :اس کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے علاوہ کون اس کی جرأت کر سکتا ہے ؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرمﷺ سے گفتگو کی توآپ ﷺنے فرمایا: '' کیا تم اللہ تعالی کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کررہے ہو '' ؟پھر آپ ﷺکھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ''لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بناء پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزورحال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا '' ۔
محمد بن رمح ( راوی حدیث ) کہتے ہیں کہ میں نے لیث بن سعد کو کہتے سنا : اللہ تعالیٰ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چوری کرنے سے محفوظ رکھا اور ہر مسلمان کو ایسا ہی کہنا چاہیے ۔


2548- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَائِشَةَ بِنْتِ مَسْعُودِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهَا قَالَ: لَمَّا سَرَقَتِ الْمَرْأَةُ تِلْكَ الْقَطِيفَةَ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَعْظَمْنَا ذَلِكَ، وَكَانَتِ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ، فَجِئْنَا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ نُكَلِّمُهُ، وَقُلْنَا نَحْنُ نَفْدِيهَا بِأَرْبَعِينَ أُوقِيَّةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < تُطَهَّرَ خَيْرٌ لَهَا > فَلَمَّا سَمِعْنَا لِينَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَتَيْنَا أُسَامَةَ فَقُلْنَا: كَلِّمْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَلِكَ، قَامَ خَطِيبًا فَقَالَ: < مَا إِكْثَارُكُمْ عَلَيَّ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَعَ عَلَى أَمَةٍ مِنْ إِمَاءِ اللَّهِ؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَوْ كَانَتْ فَاطِمَةُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ نَزَلَتْ بِالَّذِي نَزَلَتْ بِهِ، لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ يَدَهَا >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۶۳، ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۰۹) (ضعیف)
(محمد بن اسحاق مدلس ہیں،روایت عنعنہ سے کی ہے۔نیز ملاحظہ ہو : الضعیفۃ : ۴۴۲۵)
۲۵۴۸- مسعود بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اس عورت ( فاطمہ بنت اسود ) نے رسول اللہ ﷺ کے گھر سے چادرچرائی توہمیں اس کی بڑی فکر ہوئی ، وہ قریشی عورت تھی ، چنانچہ ہم گفتگو کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا: ہم اس کے فدیہ میں چالیس اوقیہ ادا کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اس عورت کا پاک کردیا جانا اس کے حق میں بہتر ہے ''، جب ہم نے رسول اللہ ﷺ کی نرم گفتگو سنی تو ( امید یں لگائے ) اسامہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے کہا : رسول اللہ ﷺ سے ( اس کے سلسلے میں ) گفتگو کرو، جب رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھا ( کہ اسامہ سفارش کر رہے ہیں ) تو کھڑے ہوکرخطبہ دیا، اور فرمایا:'' کیا بات ہے تم باربار مجھ سے اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کررہے ہو ؟ جو اللہ کی ایک باندی پرثابت ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے، اگر یہ چیز اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ کے ساتھ پیش آتی، جو اس کے ساتھ پیش آئی ہے تو محمد اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7-بَاب حَدِّ الزِّنَا
۷- باب: زنا کی حد کا بیان​


2549- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ قَالُوا: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ ا للَّهِ ﷺ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ لَمَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ خَصْمُهُ، وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي حَتَّى أَقُولَ، قَالَ: < قُلْ > قَالَ : إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا وَإِنَّهُ زَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، فَسَأَلْتُ رِجَالا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْمِائَةُ الشَّاةُ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ! عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا >.
قَالَ هِشَامٌ: فَغَدَا عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا۔
* تخريج: خ/الوکالۃ ۱۳ (۲۳۱۴، ۲۳۱۵مختصراً) الصلح ۵ (۲۶۹۵ ، ۲۶۹۶)، الشروط ۹ (۲۷۲۴، ۲۷۲۵)، الإیمان ۳ (۶۶۳۳، ۶۶۳۴)، الحدود ۲۰ (۶۸۳۵، ۶۸۳۶)، ۱۶ (۶۸۲۷، ۶۸۲۸)، ۳۳ (۶۸۵۹، ۶۸۶۰)، الأحکام ۳ (۷۱۹۳۴، ۷۱۹۴)، الآحاد ۱ (۷۲۵۸، ۷۲۶۰)، م/الحدود ۵ (۱۶۹۷، ۱۶۹۸)، د/الحدود ۲۵ (۴۴۴۵)، ت/الحدود ۸ (۱۴۳۳)، ن/آداب القضاۃ ۲۱ (۴۵۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۵)، وقد أخرجہ: ط/الحدود ۱ (۶)، حم (۴/۱۱۵، ۱۱۶)، دي/الحدود ۱۲ (۲۳۶۳) (صحیح)
۲۵۴۹- ابوہریرہ ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور بولا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، اللہ کی کتاب کے مطابق آپ ہمارا فیصلہ کردیجیے ، اس کا فریق (مقابل) جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا ، بولا: آپ ہمارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق فرمائیے لیکن مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجیے ، آپﷺ نے فرمایا: ''کہو '' اس نے بیان کیاکہ میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں مزدورتھا ، اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا ، میں نے اس کی جانب سے سو بکریاں اور ایک نوکر فدیہ میں دے دیاہے ، پھر میں نے اہل علم میں سے کچھ لوگوں سے پوچھا،تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے کے لئے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے ،اور اس کی بیوی کے لئے رجم یعنی سنگساری کی سزا ہے، رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: '' قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں تم دونوں کے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور خادم تم واپس لے لو، اور تمہارے بیٹے کے لئے سو کو ڑوں اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہے، اور اے انیس ! کل صبح تم اس کی عورت کے پاس جاؤ اور اگر وہ اقبال جرم کرلے تو اسے رجم کردو '' ۱؎ ۔
حدیث کے راوی ہشام کہتے ہیں : انیس صبح کو اس کے ہاں پہنچے ، اس نے اقبال جرم کیا، تو انہوں نے اسے رجم کردیا ۔
وضاحت ۱؎ : عورت شادی شدہ تھی اس لئے اسے پتھر مار مار کر ہلاک کردیا گیا ، اور لڑکا شادی شدہ نہیں تھا، اس لئے اس کے لئے ایک سال جلاوطنی اور سوکوڑوں کی سزا متعین کی گئی۔


2550- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ >۔
* تخريج: م/الحدود ۳ (۱۶۹۰)، د/الحدود ۲۳ (۴۴۱۵، ۴۴۱۶)،ت/الحدود ۸ (۱۴۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۳)، وقد أخرجہ:حم (۳/۴۷۵، ۵/۳۱۳، ۳۱۷، ۳۱۸،۳۲۰)، دي/الحدود ۱۹ (۲۳۷۲) (صحیح)
۲۵۵۰- عبا دہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ( دین کے احکام ) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ( جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیاتھا ) راہ نکال دی ہے : کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، اور شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کرے ہو تو سوکوڑوں اور رجم کی سزا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : محصن (شادی شدہ) زانی اور محصنہ (شادی شدہ)زانیہ کی سزا سو کوڑے ہیں ، پھر رجم کا حکم دیا جائے گا ،اور اگر کوڑے نہ مارے جائیں اورصرف رجم پراکتفاکیاجائے توایسا بھی ہوسکتا ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اُنیس رضی اللہ عنہ کو اس عورت کے رجم کا حکم دیا، اور کوڑے مارنے کے لئے نہیں فرمایا، اسی طرح آپ ﷺ نے ماعز اسلمی ، غامدیہ رضی اللہ عنہما اور یہود کو رجم کا حکم دیااورکسی کو کوڑے نہیں لگوائے ، اسی طرح شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ) نے اپنی خلافت میں صرف رجم کیا کوڑے نہیں مارے، بعضوں نے کہا: عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کاحکم منسوخ ہے ، اور یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں سورہ نساء کی آیت کا حوالہ ہے اور سورہ نساء اخیر میں اتری ۔ اور حق یہ ہے کہ امام کو اس باب میں اختیار ہے، خواہ کوڑے لگاکر رجم کرے، خواہ رجم ہی پر بس کرے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَنْ وَقَعَ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ
۸ - باب: بیوی کی لونڈی سے صحبت کے حکم کا بیان​


2551- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ أُتِيَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ بِرَجُلٍ غَشِيَ جَارِيَةَ امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: لا أَقْضِي فِيهَا إِلا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ، جَلَدْتُهُ مِائَةً، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَذِنَتْ لَهُ، رَجَمْتُهُ .
* تخريج: د/الحدود ۲۸ (۴۴۵۸، ۴۴۵۹)، ت/الحدود ۲۱ (۱۴۵۱)، ن/النکاح ۷۰ (۳۳۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷۲، ۲۷۶، ۲۷۷)، دي/الحدود ۲۰ (۲۳۷۴) (ضعیف)
(سند میں حبیب بن سالم کے بارے میں بخاری نے کہا : '' فیہ نظر'')
۲۵۵۱- حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیاجس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت کر لی تھی، تونعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا، پھرکہا: اگر اس کی عورت نے اسے اس لونڈی کے ساتھ صحبت کرنے کی اجازت دی ہے تومیں اس شخص کو سو کوڑے لگاؤں گا، اور اگر اس نے اجازت نہیں دی ہے تو میں اسے رجم کروں گا '' ۔


2552- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبِّقِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رُفِعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ وَطِئَ جَارِيَةَ امْرَأَتِهِ، فَلَمْ يَحُدَّهُ۔
* تخريج: د/الحدود ۲۸ (۴۴۶۰، ۴۴۶۱)، ن/النکاح ۷۰ (۳۳۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۶، ۵/۶) (ضعیف)
(سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور ان کی ہشام سے روایت میں کلام ہے)
۲۵۵۲- سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص لایاگیا اس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت کی تھی، آپﷺ نے اس پر حد نافذنہیں کی '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب الرَّجْمِ
۹- باب: زانی کو رجم کرنے کا بیان​


2553- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْد اللَّهِ، بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، حَتَّى يَقُولَ قَائِلٌ: مَا أَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ مِنْ فَرَائِضِ ا للَّهِ، أَلا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ إِذَا أُحْصِنَ الرَّجُلُ وَقَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ حَمْلٌ، أَوِ اعْتِرَافٌ، وَقَدْ قَرَأْتُهَا {الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ} رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ۔
* تخريج: خ/الحدود ۳۰ (۶۸۲۹، ۶۸۳۰)، م/الحدود ۴ (۱۶۹۱)، د/الحدود ۲۳ (۴۴۱۸)، ت/الحدود ۷ (۱۴۳۱، ۱۴۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۰۸)، وقد أخرجہ: ط/الحدود ۱ (۱)، حم (۱/ ۲۳،۴۰، ۴۷، ۵۵)، دي/الحدود ۱۶ (۲۳۶۸) (صحیح)
۲۵۵۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ جب زمانہ زیادہ گزر جائے گا تو کہنے والا یہ کہے گا کہ میں کتاب اللہ میں رجم ( کا حکم ) نہیں پاتا، اور اس طرح لوگ اللہ تعالی کے ایک فریضے کو ترک کرکے گمراہ ہوجائیں ، واضح رہے کہ رجم حق ہے، جب کہ آدمی شادی شدہ ہوگواہی قائم ہو، یا حمل ٹھہر جائے ،یازنا کااعتراف کرلے، اور میں نے رجم کی یہ آیت پڑھی ہے: "الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ " ( جب بوڑھا مرداور بوڑھی عورت زنا کریں ۱؎ تو ان دونوں کوضرور رجم کرو...)، رسول اللہﷺ نے رجم کیا، اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ۔
وضاحت ۱؎ : بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت سے مراد شادی شدہ لوگ ہیں ۔


2554- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ: إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى أَقَرَّ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ، فَلَمَّا أَصَابَتْهُ الْحِجَارَةُ أَدْبَرَ يَشْتَدّ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ بِيَدِهِ لَحْيُ جَمَلٍ، فَضَرَبَهُ فَصَرَعَهُ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فِرَارُهُ حِينَ مَسَّتْهُ الْحِجَارَةُ، قَالَ : < فَهَلا تَرَكْتُمُوهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳۴)، وقد أخرجہ: خ/الطلاق ۱۱ (۵۲۷۰)، م/الحدود ۵ (۱۶۹۴)، د/الحدود ۲۴ (۴۴۱۹)، ت/الحدود ۵ (۱۴۲۸) (حسن صحیح)
۲۵۵۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا : میں نے زنا کیا ہے ، آپ ﷺنے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا ، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے ، آپﷺ نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے ،آپﷺ نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے ،آپ ﷺ نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار زنا کا اقرار کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ انہیں رجم کردیا جائے،چنانچہ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے، ایک شخص نے انہیں پالیا، اس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو مار کر گرادیا، پتھر پڑتے وقت ان کے بھاگنے کا تذکرہ جب نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا: ''آخر تم نے انہیں چھوڑ کیوں نہ دیا''؟ ۔
وضاحت ۱؎ : تاکہ ان سے پھر پوچھے شاید وہ اپنے اقرار سے پھرجاتے اور حد ساقط ہوجاتی ، زنا کا اقرار ایک بارکرنا حد کے لئے کافی ہے ، اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ نے غامدیہ کو رجم کیا ،اس نے ایک ہی بار اقرار کیا تھا، ایک یہودی اوریہودیہ کا رجم آگے مذکور ہوگا ، اس میں بھی چار بار اقرار کا ذکر نہیں ہے ۔


2555- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُوعَمْرٍو، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَاعْتَرَفَتْ بِالزِّنَا، فَأَمَرَ بِهَا فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ رَجَمَهَا، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۷۹)، وقد أخرجہ: م/الحدود ۵ (۱۶۹۶)، د/الحدود ۲۵ (۴۴۴۰)، ت/الحدود ۹ (۱۴۳۵)، ن/الجنائز ۶۴ (۱۹۵۹)، حم (۴/۴۲۰، ۴۳۳، ۴۳۷)، دي/الحدود ۱۷ (۲۳۷۰) (صحیح)
۲۵۵۵- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر زنا کا اعتراف کیا،آپ ﷺنے حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دئیے گئے ، پھر اس کو رجم کیا ، اس کے بعد اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تاکہ بے پردگی نہ ہو، بعضوں نے اس کے حق میں کچھ برے الفاظ نکالے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگروہ سارے مدینہ والوں میںبانٹ دی جائے تو ان کو کافی ہوجائے گی، بے شک یہ عورت اس زمانہ کے تمام عابدوں اور زاہدوں سے درجہ میں زیادہ تھی کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے گناہ کا اقرار کیا ، سزا پائی ،پھر نبی کریم ﷺ کی صلاۃ جنازہ سے مشرف ہوئی ، اللہ ان کے درجہ کو بلند کرے ، آمین ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-بَاب رَجْمِ الْيَهُودِيِّ وَالْيَهُودِيَّةِ
۱۰ - باب: یہودی مرد اورعورت کے رجم کا بیان​


2556- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ، رَجَمَ يَهُودِيَّيْنِ أَنَا فِيمَنْ رَجَمَهُمَا، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَإِنَّهُ يَسْتُرُهَا مِنَ الْحِجَارَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۱۴)، وقد أخرجہ: خ/الحدود ۲۴ (۶۱۴۸)، م/الحدود ۶ (۱۶۹۹)، د/الحدود ۲۶ (۴۴۴۶)، ت/االحدود ۱۰ (۱۴۳۶)، ط/الحدود ۱ (۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۷، ۶۳، ۷۶)، دي/الحدود ۱۵ (۲۳۶۷) (صحیح)
۲۵۵۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک یہودی جوڑے کو رجم کیا ، میں بھی اس کو رجم کرنے والوں میں شامل تھا ، میں نے دیکھا کہ یہودی مرد یہودیہ کو پتھر وں سے بچانے کے لئے آڑے آجاتا تھا ۔
2557- حَدَّثَنَا إِسمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ، رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً۔
* تخريج: ت/الحدود ۱۰ (۱۴۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۷۵)، وقد أخرجہ: (حم (۵/۹۱، ۹۴، ۹۶، ۹۷، ۱۰۴) (صحیح) (سابقہ شاہد سے یہ صحیح ہے)۔
۲۵۵۷- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک یہودی اور ایک یہودیہ کو رجم کیا ۔


2558- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِيَهُودِيٍّ مُحَمَّمٍ مَجْلُودٍ، فَدَعَاهُمْ فَقَالَ: <هَكَذَا تَجِدُونَ فِي كِتَابِكُمْ حَدَّ الزَّانِي؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَدَعَا رَجُلا مِنْ عُلَمَائِهِمْ فَقَالَ: < أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى، أَهَكَذَا تَجِدُونَ حَدَّ الزَّانِي؟ قَالَ: لا، وَلَوْلا أَنَّكَ نَشَدْتَنِي لَمْ أُخْبِرْكَ، نَجِدُ حَدَّ الزَّانِي فِي كِتَابِنَا الرَّجْمَ، وَلَكِنَّهُ كَثُرَ فِي أَشْرَافِنَا الرَّجْمُ، فَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِيفَ تَرَكْنَاهُ، وَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الضَّعِيفَ أَقَمْنَا عَلَيْهِ الْحَدَّ، فَقُلْنَا: تَعَالَوْا فَلْنَجْتَمِعْ عَلَى شَيْئٍ نُقِيمُهُ عَلَى الشَّرِيفِ وَالْوَضِيعِ، فَاجْتَمَعْنَا عَلَى التَّحْمِيمِ وَالْجَلْدِ، مَكَانَ الرَّجْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < اللَّهُمَّ! إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَكَ، إِذْ أَمَاتُوهُ > وَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ۔
* تخريج: م/الحدود ۶ (۱۷۰۰)، د/الحدود ۲۶ (۴۴۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۲۸۶، ۲۹۰، ۳۰۰) (صحیح)
۲۵۵۸- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک یہودی کے پاس سے ہوا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اورجس کو کوڑے لگائے گئے تھے، آپﷺ نے ان یہودیوں کو بلایا اور پوچھا :'' کیا تم لوگ اپنی کتاب توریت میں زانی کی یہی حد پاتے ہو'' ؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپﷺ نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا،اور اس سے پوچھا :'' میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ نازل فرمائی : کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد یہی پاتے ہو ''؟ اس نے جواب دیا : نہیں، اور اگر آپﷺ نے مجھے اللہ کی قسم نہ دی ہوتی تو میں آپ کو کبھی نہ بتاتا، ہماری کتاب میں زانی کی حد رجم ہے ، لیکن ہمارے معزز لوگوں میں کثرت سے رجم کے واقعات پیش آئے، تو جب ہم کسی معزز آدمی کوزنا کے جرم میں پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے او راگر پکڑاجانے والا معمولی آدمی ہوتا تو ہم اس پر حد جاری کرتے ،پھر ہم نے لوگوں سے کہا کہ آؤ ایسی حد پر اتفاق کریں کہ جو معزز اور معمولی دونوں قسم کے آدمیوں پر ہم یکساں طور پر قائم کرسکیں ،چنانچہ ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا پر اتفاق کرلیا ، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اللَّهُمَّ! إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَكَ، إِذْ أَمَاتُوهُ '' یعنی اے اللہ! میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا ہے جسے ان لوگوں نے مردہ کردیاتھا ''،آپ ﷺنے حکم دیا اور وہ یہودی رجم کردیا گیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَنْ أَظْهَرَ الْفَاحِشَةَ
۱۱ - باب: کوئی عورت فاحشہ معلوم ہو لیکن زناثابت نہ ہو تو اس کے حکم کا بیان​


2559- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ، لَرَجَمْتُ فُلانَةَ، فَقَدْ ظَهَرَ مِنْهَا الرِّيبَةُ فِي مَنْطِقِهَا وَهَيْئَتِهَا وَمَنْ يَدْخُلُ عَلَيْهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۷۷، ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۵)، وقد أخرجہ: خ/الطلاق ۳۱ (۵۳۱۰)، ۳۶ (۵۳۱۶)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۶)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۷)، ن/الطلاق ۳۶ (۳۴۹۷)، حم (۱/۳۳۵، ۳۵۷، ۳۶۵) (صحیح)
۲۵۵۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو فلاں عورت کو کرتا، اس لئے کہ اس کی بات چیت سے اس کی شکل وصورت سے اور جو لوگ اس کے پاس آتے ہیں اس سے اس کا فاحشہ ہونا ظاہر ہوچکا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کا فاحشہ ہونا معلوم ہو، تو بھی اس کوزنا کی حدنہیں لگا سکتے جب تک کہ اس کی طرف سے جرم کا اعتراف واقرار نہ ہو، یا چار آدمیوں کی گو اہی کا ثبوت نہ ہو۔


2560- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ،عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: ذَكَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمُتَلاعِنَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ شَدَّادٍ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُهَا؟ > فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تِلْكَ امْرَأَةٌ أَعْلَنَتْ۔
* تخريج: خ/الحدود ۳۰ (۶۸۵۵)، التمني ۹ (۷۲۳۸)، م/اللعان (۱۴۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۳۵، ۳۳۶، ۳۵۷، ۳۶۵) (صحیح)
۲۵۶۰- قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا، تو ان سے ابن شداد نے پوچھا : کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا: '' اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو اس عورت کو کرتا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ تو ایسی عورت تھی جو علانیہ بدکار تھی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ
۱۲- باب: قوم لوط کے عمل (اغلام بازی) کی سزا کا بیان​


2561- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ >۔
* تخريج: د/الحدود ۲۹ (۴۴۶۲)، ت/الحدود ۲۴ (۱۴۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۹، ۳۰۰) (صحیح)
۲۵۶۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس کو تم پاؤ کہ وہ قوم لوط کا عمل(اغلام بازی) کر رہا ہے ،تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو ''۔


2562- حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الَّذِي يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، قَالَ: < ارْجُمُوا الأَعْلَى وَالأَسْفَلَ، ارْجُمُوهُمَا جَمِيعًا >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۶)، وقد أخرجہ: ت/الحدود ۲۴، (۱۴۵۶ تعلیقاً) (حسن)
(سند میں عاصم بن عمر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
۲۵۶۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قو م لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: '' اوپر والا ہو کہ نیچے والا، دونوں کو رجم کردو '' ۔


2563- حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ >۔
* تخريج: ت/الحدود ۲۴ (۱۴۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۸۲) (حسن)
(شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے ، ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہیں)
۲۵۶۳- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابن الطلاع مالکی أقضیۃ الرسولﷺ میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے لواطت میں رجم ثابت نہیں ہے اورنہ اس کے بارے میں آپ کا کوئی فیصلہ ہی ہے ، بلکہ ابن عباس ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو ، اور بیہقی نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے ایک اغلام باز کو رجم کیا(۸/۲۳۲) ، شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا یہی قول ہے کہ وہ رجم کیا جائے ، چاہے شادی شدہ ہو یا کنوارا ، اور بیہقی نے روایت کی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک مفعول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا ،تو اس دن سب سے زیادہ سخت رائے علی رضی اللہ عنہ نے دی اور کہا : اس گناہ کو کسی امت نے نہیں کیا سوائے ایک امت کے ، تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو آگ سے جلادیں ، تو صحابہ کرام نے اس کو آگ سے جلانے پر اتفاق کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو لکھا کہ اس کو آگ سے جلادو ،لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، اس کی سند میں ابراہیم بن ابی رافع مدینی ضعیف راوی ہے ، بعضوں نے اس کو جھوٹا کہا ہے، لیکن اس کا دوسرا طریق بھی ہے ، جس سے روایت صرف مرسل ہے ۔ ابو دا ود نے صحیح سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ اغلام بازی کرنے والے کو رجم کیا جائے گا ، اور بیہقی نے صحیح سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ان سے اغلام بازی کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا :'' سب اونچے مکان سے اوندھا کرکے گرادیاجائے، پھر پتھروں سے کچلا جائے''۔ اغلام بازی متفقہ طور پر حرام اورکبیرہ گناہ ہے، لیکن اس کی سزا کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ، اوپر بعض صحابہ کامذہب مذکورہوا کہ اس کی سزا قتل ہے، چاہے وہ غیر شادی شدہ ہو ، اورفاعل اورمفعول دونوں اس سزامیں برابرہیں،یہی امام شافعی کا مسلک ہے ، اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کریں گرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں بشرطیکہ مفعول پر جبر نہ ہواہو، بعض لوگوں نے اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور بغوی نے شعبی، زہری ، مالک ،احمد اور اسحاق سے نقل کیا کہ وہ رجم کیا جائے ،شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگرزانی کا دوباررجم درست قرار دیاجائے تو اغلام باز کو بھی رجم کیاجائے گا، منذری کہتے ہیں کہ اغلام بازی کرنے والے کو ابو بکر ، علی ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ،اور ہشام بن عبدالملک نے زندہ جلایا ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اغلام باز کی حد زانی کی حد ہے ، اگروہ شادی شدہ ہو تو رجم کیا جائے گا ،ورنہ کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کیاجائے گا، اور جس کے ساتھ یہ فعل قبیح کیاگیاہو یعنی مفعول کو کوڑے لگائے جائیں گے، اور جلا وطن کیاجائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام جو سزامناسب سمجھے وہ دے ، لیکن نہ رجم ہوگااور نہ کوڑے لگائے جائیں گے ۔ نواب صدیق حسن فرماتے ہیں کہ فاعل اورمفعول کے قتل کرنے کے سلسلے میں رسول اللہﷺ کا حکم صحیح اورثابت ہے ، اور صحابہ کرام نے اس حکم کی تنفیذ فرمائی یہ بھی ثابت ہے ، اورانہوں نے اس عظیم فحش کام کرنے والوں کو شادی اورغیر شادی کی تفریق کے بغیر قتل کیا، اور ان کے زمانے میں ایساکئی بار ہوا، اور ان میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی، جب کہ مسلمان کے خون بہائے جانے جیسے مسئلے پر کسی مسلمان کے لیے خاموشی جائز نہیں ہے ، اوریہ وہ عہد تھا کہ حق بات جوبھی ہو اورجہاں سے بھی ہو مقبول ہوتی تھی ، تو اگراغلام باز کا زانی کے سلسلے کے وارد دلائل کے عموم میں اندراج صحیح ہو توہر فاعل چاہے وہ شادی ہو یاغیر شادی شدہ کے قتل کے سلسلے میں وارد دلیل سے وہ عموم مخصوص ہوجائے گا ، ( ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ ۳/۲۸۳- ۲۸۶ )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَنْ أَتَى ذَاتَ مَحْرَمٍ وَمَنْ أَتَى بَهِيمَةً
۱۳- باب: محرم یا جانور سے جماع کرنے والے کی حد کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : محرم مثلاً ماں، بہن، بیٹی سے اور جانور عام ہے جو اونٹ ، گائے ، بکری ، گدھی اور مرغی وغیرہ سب کو شامل ہے ۔


2564- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسمَاعِيلَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ فَاقْتُلُوهُ وَمَنْ وَقَعَ عَلَى بَهِيمَةٍ فَاقْتُلُوهُ، وَاقْتُلُوا الْبَهِيمَةَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۹،ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۷)، وقد أخرجہ: ت/الحدود ۲۳ (۱۴۵۵)، حم (۱/۳۰۰) (ضعیف)
(اس حدیث میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں، اور داود بن الحصین کی عکرمہ سے روایت میں بھی کلام ہے، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا '' مَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ فَاقْتُلُوهُ '' ضعیف ہے،اور دوسرا ٹکڑا صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۲۳۴۸ ، ۸-۴- ۱۵ - ۲۳۵۲)
۲۵۶۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو کسی محرم سے جماع کرے اسے قتل کردو، اور جو کسی جانور سے جماع کرے تو اسے بھی قتل کردو ،اور اس جانور کو بھی '' ۔
 
Top