- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
4-بَاب مَنْ لا يَجِبُ عَلَيْهِ الْحَدُّ
۴- باب: جس پر حد واجب نہیں ہے اس کا بیان
2541- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيَّ يَقُولُ: عُرِضْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ، فَكُنْتُ فِيمَنْ لَمْ يُنْبِتْ، فَخُلِّيَ سَبِيلِي ۔
* تخريج: د/الحدود ۱۷ (۴۴۰۴)، ت/السیر ۲۹ (۱۵۸۴)، ن/الطلاق ۲۰ (۳۴۶۰)، القطع ۱۴ (۴۹۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۰، ۳۸۳، ۵/۳۱۲، ۳۸۳) (صحیح)
۲۵۴۱- عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ غزوۂ قریظہ کے دن ( جب بنی قریظہ کے تمام یہودی قتل کر دیئے گئے ) رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اُ گ آئے تھے اسے قتل کردیاگیا، اورجس کے نہیں اُگے تھے اسے (نابالغ سمجھ کر ) چھوڑدیا گیا ، میں ان لوگوں میں تھاجن کے بال نہیں اُگے تھے تو مجھے چھوڑ دیا گیا ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عطیہ رضی اللہ عنہ کا تعلق یہود بنی قریظہ سے تھا،غزوئہ احزاب کے فوراً بعد اس قبیلے کی غداری اوراللہ تعالیٰ کے حکم کے بعداس پر چڑھائی کا واقعہ پیش آیا ، اس غزوہ میں عطیہ رضی اللہ عنہ دیگرنابالغ بچوں کے ساتھ قتل ہونے سے بچ گئے ، اور بعد میں اسلام قبول کیا ، ان کا اسلام اور ان کی اسلامی خدمات بہت اعلیٰ درجے کی ہیں۔
2542- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيَّ يَقُولُ: فَهَا أَنَا ذَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۵۴۲- عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی کہتے سنا: تو اب میں تمہارے درمیان ہوں ۔
2543- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَأَبُو أُسَامَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْنِي، وَعُرِضْتُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَنِي.
قَالَ نَافِعٌ فَحَدَّثْتُ بِهِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ فِي خِلافَتِهِ فَقَالَ: هَذَا فَصْلُ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ۔
* تخريج: حدیث أبي أسامۃ أخرجہ: خ/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، المغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۳۳)، وقد أخرجہ: وحدیث عبد اللہ بن نمیر م/الإمارہ ۲۳ (۱۸۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۵۵)، حم (۲/۱۷)، وحدیث أبي معاویہ تفردبہ ابن ماجہ، تحفۃ الأشراف: ۸۱۱۵)، د/الخراج ۱۶ (۲۹۵۷)، الحدود ۱۷ (۴۴۰۶)، ت/الأحکام ۲۴ (۱۳۱۶)، الجہاد ۳۱ (۱۷۱۱)، ن/الطلا ق۲۰ (۳۴۳۱)، حم (۲/۱۷) (صحیح)
۲۵۴۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا ، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی ، آپﷺ نے مجھے ( غزوہ میں شریک ہونے کی ) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ ٔ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپﷺ نے اجازت دے دی ، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی ۔
نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی توانہوں نے کہا: یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔
وضاحت ۱؎ : بلوغ کی کئی نشانیاں ہیں : زیر ناف بال اگنا ، ڈاڑھی مونچھ کے بال اگنا، احتلام ہونا، پندرہ برس کی عمرکا ہونا۔