32- بَاب التَّعْزِيرِ
۳۲ - باب: تعزیرات( تادیبی سزاؤں ) کا بیان ۱؎
وضاحت ۱؎ : تعزیرایسے جرائم پر تادیب اور سزاکوکہتے ہیں جن پر اسلامی شریعت میں کوئی حد (سزا) مقرر نہیں ہے ، اورنہ ہی اس میں کوئی کفارہ ہے ، امام اور حاکم کو اختیار ہے کہ جس طرح سے چاہے سزا دے، کوڑے لگاکر یا قید کر کے یا مارکر یا فقط ڈانٹ پلادے یا کوئی مالی جرمانہ کرے،یا مجرم کا مال بربادکردے، وغیرہ وغیرہ ۔
2601- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: < لا يُجْلَدُ أَحَدٌ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ، إِلافِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ >۔
* تخريج: خ/الحدود ۴۲ (۶۸۴۸، ۶۸۴۹،۶۸۵۰)، م/الحدود ۹ (۱۷۰۸)، د/الحدود ۳۹ (۴۴۹۱، ۴۴۹۲)، ت/الحدود ۳۰ (۱۴۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۶، ۴/۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۰)، دي/الحدود ۱۱ (۲۳۶۰) (صحیح)
۲۶۰۱- ابوبردہ بن نیار انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے: ''دس کوڑے سے زیادہ کسی کو نہ لگائے جائیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو ۔'' ۱؎
وضاحت ۱؎ : ان احادیث میں رسول اکرمﷺنے خاندان کے سرپرستوں کے لیے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ان کی تربیت ونگرانی میں رہنے والے افراد کے اخلاق سدھارنے میں اگرسارے وسائل ناکام ہوجائیں توتادیباً ان کومارنا پیٹنابھی جائزہے، اور اس کی آخری حددس کوڑے ہیں، اس سے زیادہ کی سزانہ دینی چاہئے، اس حدیث کا علماء کے اقوال میں سب سے صحیح مطلب یہی ہے ، حدیث کے آخری ٹکڑے میں حدوداللہ کا لفظ استعمال ہواہے ، جس سے مراد بعض علماء کے یہاںوہ حدود(جرائم)ہیں،جن کی سزا اسلامی شریعت میں موجودہے، جیسے : زانی کی سزا ، بہتان لگانے والے کی سزا، چورکی سزا، ناحق جان لینے پرقصاص یا دیت اوراعضاء اور جوارح کے تلف ہوجانے پر مقررسزائیں، ان سب کو حدودکہاجاتاہے۔
ان جرائم کے علاوہ جن میں سزامقررہے ، دوسرے جرائم اورگناہ ایسے ہیں جن میں تعزیر (یعنی تادیبی سزا) ہے، یعنی دس کوڑے اور اس سے کم ،یہ امام احمدبن حنبل کا مذہب ہے، اوریہ سزاایسے آدمی کودی جائے گی جس نے جرم اورگناہ کا کام کرلیا ہے، اور جوشخص گناہ اورجرم میں برابر ملوث ہے، تو اس کی تادیب اس وقت تک ہوتی رہے گی ، جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائے ۔شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ اس مسئلہ میں فرماتے ہیں: ہمارے اصحاب (حنابلہ ) نے جوتعزیرات (تادیبی سزائیں) مقررفرمائی ہیں ، وہ اس گناہ پر ہے ، جو ماضی میں ہواہے ، چاہے اس کا تعلق کسی ناجائز کام کے کرنے سے ہویا کسی مشروع کا م کے چھوڑنے سے ہو، لیکن اگرتعزیر اس گناہ اورجرم میں ملوث آدمی پر ہو تو وہ مرتد اور حربی کافر کے قتل اور باغی سے جنگ کے مقام میں ہے ، اور اس تعزیر کی کوئی حدمقررنہیں ہے ، یہ قتل تک ہوسکتی ہے ،جیساکہ کسی آدمی کے مال کوکوئی زبردستی لینے کی کوشش کرے ، تو صاحبِ مال کے لیے جائزہے کہ اس حملہ آور کواس اقدام سے روکے ، اوراپنے مال کوبچائے چاہے یہ کام اس کے قتل ہی کے ذریعہ انجام پائے ۔
امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کے یہاں تعزیرات(تادیبی سزائیں) مقررہ حدود سے زیادہ نہ ہوں گی ۔
بعض علماء نے
'' إلا في حد من حدود الله''کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ حدوداللہ سے مراد اللہ کے اوامرواحکام اورنواہی وممنوعات ہیں، توکسی واجب کام کے چھوڑدینے یا کسی حرام کام کے کرنے پرتعزیر وتادیب کا معاملہ امام اورحاکم کی رائے پر ہے کہ وہ ایسی سزادے جس سے آدمی غلط کام سے باز آجائے ، اوریہ حالات وزمانہ ، مقام ، اشخاص اورگناہ کی نوعیت پر مبنی ہے ، زمانے اورمقام کی بناپرخطاکاروں کی سزامیں کمی اورزیادتی کی جاسکتی ہے ، ایسے ہی افراد واشخاص کا معاملہ ہے ، بعض لوگوں کوہلکی یا سخت ڈانٹ ہی جرم کے ارتکاب سے روکنے میں کافی ہوجاتی ہے ، بعض لوگوں کا علاج جیل بھیج کرہوتاہے ، اوربعض لوگوں کو مال کاتاوان لے کر پابندکیا جاسکتاہے ، معاشرہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیںجوکسی نہ کسی سطح پر اچھی شہرت رکھتے ہیں، اوران کا شمارشرفاء یا دینداروں میں ہوتاہے ،اورایسے لوگوں سے بھی کبھی کبھارغلطی ہوجاتی ہے توان سے چشم پوشی کی جانی چاہئے ، بعض لوگ جرائم کا ارتکاب کھلم کھلاکرتے ہیں، اورعنادوتمرد کامظاہرہ کرتے ہیں توایسے لوگوں کو قرارِ واقعی سزاملنی چاہئے تاکہ وہ اپنے جرائم سے باز آجائیں۔
جرائم اورمعصیت کے کام چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، اس لیے حاکم کو اس کا پس منظرمعلوم رہناچاہئے تاکہ تادیبی سزاؤں کے صحیح نتائج برآمد ہوں، حاکم کوہرطرح کی چھوٹی بڑی سزائیںدینے کا اختیارہے ، ان سزاؤں کی اصل شرع میں موجودہے ، امام احمدرحمہ اللہ ''رمضان میں دن کے وقت شراب پینے والے کے بارے میں یااس طرح کا کام کرنے والے کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اس پرحدنافذکی جائے گی ، اور اس کے بارے میں سختی کی جائے گی ، جیسے حرم میں قتل کرنے والے پردیت ہے ، اورمزیدتہائی دیت''۔
نیزفرمایا : عورت عورت کے ساتھ فحش کاری کرے تودونوں کوسزادی جائے گی اوردونوں کی تادیب ہوگی ، نیز صحابہ کوگالی دینے والے کے بارے میں فرمایا کہ حاکم پرواجب ہے کہ اس کوسزادے اگرتوبہ نہ کرے تودوبارہ سزاکامستحق ہے ۔
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں جوفرمایا ہے ان میں سے اختیارات سے آپ کے بعض اقوال مندرجہ ذیل ہیں:
فرماتے ہیں: ''آدمی کی تعزیرکبھی اس کی بے عزتی کرکے ہوتی ہے ، جیسے اس کو پکارا جائے : اے ظالم ، اے ظلم وعدوان کرنے والے اور اسے مجلس سے اٹھادیا جائے ، مزید فرمایا: مال سے تعزیرجائز ہے ،کبھی مال لے کر اورکبھی مال ضائع کرکے اوریہ امام احمد کے قاعدہ کے مطابق ہے ،اس لیے کہ اصحابِ امام احمدسے اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے کہ مال میں سزائیں سب کی سب منسوخ نہیں ہیں، امام محمدمقدسی کا یہ قول:'' ولا يجوز أخذ مال المعزر'' (جس کی تعزیرکی گئی ہے اس کا مال لینا جائز نہیں ہے) ، اس سے آپ نے اس بات کی طرف سے اشارہ کیا ہے جو ظالم حکمراں کرتے ہیں''۔
نیز فرمایا : ''حاکم کے نزدیک یہ ثابت ہوجائے کہ فلاں آدمی نے ضروری خبرچھپائی ہے تو اس کو اختیار ہے کہ اس کی تعزیرکرے ، جیسے کہ مجہول اقرارکرنے والے کے بارے میں اس کو تعزیرکا حق ہے تاکہ اس کی تفسیر وتوضیح کرے ، یا جس نے اقرارکوچھپالیا اس پر بھی حاکم کو تعزیرکا حق حاصل ہے ''۔
کبھی مستحب کام کے ترک پر بھی تعزیرہوتی ہے ، جیسے چھینکنے والا آدمی اگر
'' الحمد لله'' نہ کہے تو اس کا جواب
'' يهديكم الله''کہہ کرنہیں دیا جاتا، شیخ الإسلام فرماتے ہیں: میں نے جنگ میں ایک بڑے لشکرکے ذمہ دار امیرکوفتویٰ دیا کہ وہ ان لوگوں کوجنہوں نے مسلمانوں کے مال لوٹے ہیں اورصرف قتل ہی سے وہ اس اقدام سے رُکیں گے کوقتل کریں چاہے دس آدمی مارے جائیں اس لیے کہ یہ صائل (حملہ آور) سے دفاع کے قبیل سے ہے ۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں حدودسے مرادحقوق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامرواحکام اور اس کی منع کی ہوئی چیزیں،او ر مندرجہ ذیل آیات میں حدوداللہ سے مراد اللہ کے اوامرونواہی ہی ہیں :
{وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [سورة البقرة:229]{ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ } [ سورة الطلاق:1] {تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا} [ سورة البقرة:229]
اورایسے لوگ جن کی تعزیروتادیب دس کوڑے سے زیادہ نہیں ہے ، تووہ ایسی تعزیرات ہیں جن کا تعلق گناہوں (معصیت) سے نہیں ہے ، جیسے :باپ اپنے چھوٹے بچے کی تادیب کرے ۔
امام ابویوسف کہتے ہیں: تعزیرگناہ کے بڑے اورچھوٹے ہونے کے مطابق ہوگی، اورحاکم کی رائے کے مطابق کہ جس آدمی کی تادیب کی جائے وہ اس کو برداشت بھی کرے ، اور اس کی حداسی کوڑے سے کم ہے ۔
امام مالک کہتے ہیں: تعزیرجرم کے مطابق ہوگی، اگراس کا جرم بہتان لگانے سے بڑا ہوگا توسو (۱۰۰) یا اس سے زیادہ کوڑوں کا مستحق ہوگا ۔
امام ابوثورکہتے ہیں: تعزیرجرم کے مطابق ہوگی اورشروفسادکرنے والے کی تعزیر جلدکی جائے گی اور اس مقدارمیں ہوگی جوادب کو پورے طورپر سکھادے چاہے تعزیرحدسے بڑھ جائے جب کہ جرم بڑا ہو، جیسے کہ آدمی اپنے غلام کوقتل کردے ، یا اس کے جسم کے کسی حصے کوکاٹ لے ،یا اس کو سزادینے میں اسراف ومبالغے سے کام لے تو اس کی سزاجرم کے مطابق ہوگی، اور اگرامام عادل ومأمون ہوتواس کی رائے کے مطابق ۔
علامہ عبدالرحمن سعدی فرماتے ہیں: مصلحت اورتنبیہ کوسامنے رکھتے ہوئے دس کوڑوں سے زیادہ تعزیرکا جائز ہونا صحیح مذہب ہے ۔
زیرنظرحدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی آدمی کو دس کوڑے سے زیادہ نہ مارا جائے ، إلا یہ کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حدہو(تواس سے زیادہ مارنا جائز ہے)اس سے مراد معصیت اورگناہ ہے ،اورچھوٹے بچے ، بیوی ، اورخادم وغیرہ کی گناہ کے کاموں کے علاوہ باتوںمیں تادیب دس کوڑے سے زیادہ نہیں ہوگی۔
شیخ الإسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: عمررضی اللہ عنہ کئی کئی بار تعزیرکرتے تھے اورجب وہ کئی حرام کاموں پرتعزیرہوتی تو اس کوالگ الگ کرتے تھے ، پہلے سو کوڑے لگاتے پھردوسرے دن سو پھرتیسرے دن سو، الگ الگ اس واسطے لگاتے کہ مجرم کا کوئی عضوٹوٹ نہ جائے ،نیز فرماتے ہیں: جس آدمی کے پاس غلام ہوں تواس پرواجب ہے کہ وہ انہیں معروف کا حکم دے اورمنکرسے روکے ، اوراگران کوسزادینے پرقادرہوتو واجبات کے چھوڑنے اورمحرمات کاارتکاب کرنے پرتعزیرکرے ، (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام للشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسّام /باب التعزیر من کتاب الحدود حدیث نمبر: ۱۰۸۹)
2602- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لا تُعَزِّرُوا فَوْقَ عَشَرَةِ أَسْوَاطٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۹۲۰) (حسن)
(سند میں عباد بن کثیر ثقفی اور اسماعیل بن عیاش دونوں ضعیف ہیں ، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر حدیث حسن ہے )
۲۶۰۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تعزیراً دس کوڑوں سے زیادہ کی سزا نہ دو '' ۔