• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ كَبَّرَ خَمْسًا
۲۵ - باب: صلاۃِ جنازہ میں پانچ تکبیریں کہنے کا بیان​

1505- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَأَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَأَنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جِنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُكَبِّرُهَا۔
* تخريج: م/الجنائز۲۳ (۹۶۱)، د/الجنائز۵۸ (۳۱۹۷)، ت/الجنائز۳۷ (۱۰۲۳)، ن/الجنائز۷۶ (۱۹۸۴)، (تحفۃ الأشراف:۳۶۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۸،۳۷۰،۳۷۱،۳۷۲) (صحیح)

۱۵۰۵- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں میں چار باراللہ اکبرکہاکرتے تھے، ایک بار انہوں نے ایک جنازہ میں پانچ تکبیرات کہیں،میں نے ان سے وجہ پوچھی توانہوں نے کہا:رسول اللہﷺ پانچ تکبیرات ۱؎ (بھی) کہتے تھے۔
وضاحت ۱ ؎ : جنازے کی تکبیرات کے سلسلے میں چار سے لے کرنو تک کی حدیثیں اور آثار مروی ہیں، بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد تک بھی صحابہ کرامرضی اللہ عنہم نے پانچ اور چھ تکبیرات کہی ہیں،خودنبی اکرم ﷺ نے بعض شہداء اُحدپر نو تکبیرات کہی ہیں،بعض لوگوں نے '' كان آخر ماكبر رسول الله ﷺ على الجنازة أربعا'' چار سے زائد تکبیرات والی حدیثوں کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے،لیکن اس روایت کے تمام طرق ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں، ان کی وجہ سے صحیح سندوں سے ثابت احادیث ردنہیں کی جاسکتیں، واضح رہے جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعائے ثناپڑھے، دوسری کے بعد سورئہ فاتحہ اورتیسری کے بعد نبی اکرم ﷺپر صلاۃ (درود) اور چوتھی کے بعد دعا اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے ۔ (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ: ۱؍۴۱۶ -۴۱۹، احکام الجنائز للألبانی: ۱۴۱-۱۴۷)​

1506- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الرَّافِعِيُّ، عَنْ كَثِيرِ بنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَبَّرَ خَمْسًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۵۳۶) (صحیح)

(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابراہیم بن علی اور کثیر بن عبد اللہ ضعیف ہیں )
۱۵۰۶- عمر وبن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ تکبیرات کہیں ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ عَلَى الطِّفْلِ
۲۶ - باب: بچے کی صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان​

1507- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، حَدَّثَنِي عَمِّي زِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي جُبَيْرُ بْنُ حَيَّةَ أَنَّهُ سَمِعَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ : < الطِّفْلُ يُصَلَّى عَلَيْهِ >۔
* تخريج: د/الجنائز۴۹ (۳۱۸۰)، ت/الجنائز ۴۲ (۱۰۳۱)، ن/الجنائز ۵۵ (۱۹۴۴)، ۵۶ (۱۹۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۰، ۱۱۴۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۷، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۵۲) (صحیح)

۱۵۰۷- مغیرہ بن شعبہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : '' بچہ کی بھی صلاۃ جنازہ پڑھی جائے گی ''۔​

1508- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوُرِثَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۰۸)، و قد أخرجہ: ت/الجنائز ۴۳ (۱۰۳۲)، دي/الفرائض ۴۷ (۳۱۶۸) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: ۲۳۶)

۱۵۰۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب بچہ( پیدائش کے وقت)روئے تو اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہوگا ''۔​

1509- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْبَخْتَرِيُّ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < صَلُّوا عَلَى أَطْفَالِكُمْ فَإِنَّهُمْ مِنْ أَفْرَاطِكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۵۳۷) (ضعیف جدا)

(اس کی سند میںبختری بن عبید متہم بالوضع راوی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۷۲۵)۔
۱۵۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: '' اپنے بچوں کی صلاۃ جنازہ پڑھو،کیوں کہ وہ تمہارے پیش رو ہیں'' ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ عَلَى ابْنِ رسول ﷺ وَذِكْرِوَفَاتِهِ

۲۷ - باب: رسول اکرم ﷺ کے صاحب زادے کی وفات کا ذکر اور ان کی صلاۃِ جنازہ کا بیان​
1510- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا إِسمَاعِيلُ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى: رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابنَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: مَاتَ وَهُوَ صَغِيرٌ، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ نَبِيٌّ لَعَاشَ ابْنُهُ، وَلَكِنْ لا نَبِيَّ بَعْدَهُ۔

* تخريج: خ/الأدب ۱۰۹ (۶۱۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۳) (صحیح)​
۱۵۱۰- اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا :آپ نے رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا : ابراہیم بچپن ہی میں انتقال کرگئے، اور اگر نبی اکرم ﷺکے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۱؎ ۔​
وضاحت ۱ ؎ : ایک حدیث میں ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے، اور اس حدیث میں ہے کہ اگر نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو ابراہیم زندہ رہتے، ایسا ہونا محال تھا کیونکہ نبی اکرمﷺ خاتم الانبیاء تھے، آپ ﷺ کے بعد دوسرا کوئی نبی نہیں ہوسکتا، اور تقدیر الٰہی بھی ایسی ہی تھی، جب تو آپ کے صاحبزادوں میں سے کوئی زندہ نہ بچا،جیسے طیب، طاہر اور قاسم، خدیجہ رضی اللہ عنہا سے، اور ابراہیم ماریہ رضی اللہ عنہا سے، یہ چار صاحبزادے بچپن ہی میں انتقال کرگئے، اگرچہ یہ لازم نہیں ہے کہ نبی کا بیٹا بھی نبی ہی ہو۔​
1511- حَدَّثَنَا عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ابْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺقَالَ: < إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ >۔

* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۵۳۸) (صحیح)​
(اس کی سند میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ متروک الحدیث ہے، لیکن عتق کے جملہ کے علاوہ بقیہ حدیث عبد اللہ بن ابی اوفی سے صحیح ہے، تراجع الألبانی: رقم : ۲۳۵)​
۱۵۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہوگیا، توآپ نے ان کی صلاۃِجنازہ پڑھائی، اورفرمایا: ''جنت میں ان کے لئے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے توصدیق اورنبی ہوتے، اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہو جاتے، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا '' ۔​
وضاحت ۱ ؎ : قبطی : ایک مصری قوم ہے، فرعون اسی قوم سے تھا، اور اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ بھی اسی قوم کی تھیں، نیز نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کی والدہ ماریہ بھی اسی قوم کی تھیں ۔​
1512- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهَا الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ الْقَاسِمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَتْ خَدِيجَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! دَرَّتْ لُبَيْنَةُ الْقَاسِمِ، فَلَوْ كَانَ اللَّهُ أَبْقَاهُ حَتَّى يَسْتَكْمِلَ رِضَاعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ إِتْمَامَ رَضَاعِهِ فِي الْجَنَّةِ > قَالَتْ: لَوْ أَعْلَمُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَهَوَّنَ عَلَيَّ أَمْرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ تَعَالَى فَأَسْمَعَكِ صَوْتَهُ > قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! بَلْ أُصَدِّقُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔

* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۱۳، ومصباح الزجاجۃ: ۵۳۹) (ضعیف جدا)​
(اس میں ہشام بن أبی الولید متروک راوی ہے )​
۱۵۱۲- حسین بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے قاسم کا انتقال ہوگیا،تو ام المو منین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول!قاسم جس پستان سے دودھ پیتے تھے اس میں دودھ جمع ہوگیا ہے، کاش کہ اللہ ان کو باحیات رکھتا یہاں تک کہ دودھ کی مدت پوری ہوجاتی،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ان کی مدت رضاعت جنت میں پوری ہو رہی ہے، تو خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! اگر یہ بات مجھے معلوم رہی ہوتی تو مجھ پر ان کا غم ہلکا ہوگیا ہوتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ قاسم کی آواز تمہیں سنا دے''،خدیجہ رضی اللہ عنہا بولیں: (نہیں) بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کرتی ہوں ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ عَلَى الشُّهَدَاءِ وَدَفْنِهِمْ
۲۸ - باب: شہداء کی صلاۃِ جنازہ اور ان کی تدفین​

1513- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أُتِيَ بِهِمْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، فَجَعَلَ يُصَلِّي عَلَى عَشَرَةٍ عَشَرَةٍ، وَحَمْزَةُ هُوَ كَمَا هُوَ، يُرْفَعُونَ وَهُوَ كَمَا هُوَ مَوْضُوعٌ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۹۷، ومصباح الزجاجۃ:۵۴۰) (صحیح)

(شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہے)
۱۵۱۳- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غزوۂ اُحد کے دن شہداء رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے گئے، توآپ دس دس آدمیوں پرصلاۃ جنازہ پڑھنے لگے،اورحمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش اسی طرح رکھی رہی اور باقی لاشیں صلاۃ جنازہ کے بعد لوگ اٹھا کر لے جاتے رہے، لیکن حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش جیسی تھی ویسی ہی رکھی رہی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : میت کی صلاۃ جنازہ فرض کفایہ ہے، یعنی اگر بعض لوگ اس پر صلاۃ جنازہ پڑھ لیں، تو دوسرے لوگوں سے یہ فریضہ ساقط ہوجائیگا، نابالغ بچے کی صلاۃ جنازہ واجب نہیں ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے لڑکے ابراہیم علیہ السلام کی صلاۃ جنازہ نہیں پڑھی تھی، اسی طرح سے شہید کی بھی صلاۃ جنازہ واجب نہیں، اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ نے شہداءِ بدر واُحد وغیرہ پر صلاۃ جنازہ نہیں پڑھی، لیکن نابالغ اورشہیدپر صلاۃ جنازہ پڑھنے کی نفی نہیں کی جاسکتی، ہاں! واجب نہیں ہے، اور رسول اکرم ﷺ سے بعض شہداء کی صلاۃ جنازہ پڑھنا بھی ثابت ہے، اس سلسلے میں شداد بن الہاد، عبد اللہ بن زبیر، انس بن مالک، اور عقبہ بن عامرالجہنی رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، اس لئے اصل صلاۃ جنازہ سنت ہے، واجب نہیں ، امام ابن القیم اس مسئلہ میں فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ آدمی کو شہید کی صلاۃ جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اس لئے کہ دونوں طرح کے آثار وارد ہیں، (تہذیب السنن: ۴؍۲۹۵)، علامہ محمد ناصر الدین الالبانی کہتے ہیں کہ شہداء پر صلاۃ جنازہ پڑھنی نہ پڑھنے سے زیادہ افضل اور بہترہے، جب ایسا کرنا آسان ہو اس لئے کہ یہ دعا اور عبادت ہے، اسی طرح سے بچوں اور ساقط ناتمام بچوں پر بھی صلاۃ جنازہ پڑھنا مشروع ہے۔(احکام الجنائز: ۱۰۸)​

1514- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ وَالثَّلاثَةِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ: < أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ؟ > فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمْ قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ: < أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلاءِ > وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ،وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُغَسَّلُوا۔
* تخريج: خ/الجنائز۷۲ (۱۳۴۳)، ۷۳ (۱۲۴۵)، ۷۵ (۱۳۴۷)، ۷۸ (۱۳۵۳)، المغازي ۱۲۶ (۴۰۷۹)، د/ الجنائز ۳۱ (۳۱۳۸، ۳۱۳۹)، ت/الجنائز۴۶ (۱۰۳۶)، ن/الجنائز۶۲ (۱۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۸۲) (صحیح)

۱۵۱۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺغزوۂ اُحد کے شہداء میں سے دو دوتین تین کو ایک کپڑے میں لپیٹتے،پھر پوچھتے : ''ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد ہے ''؟ جب ان میں سے کسی ایک کی جانب اشارہ کیاجاتا،تو اسے قبر(قبلہ کی طرف )میں آگے کرتے، اور فرماتے : '' میں ان لوگوں پہ گواہ ہوں'' اورآپ ﷺ نے انہیں ان کے خونوں کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا، نہ توآپ نے ان کی صلاۃ جنازہ پڑھی، اور نہ غسل دلایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہداء کو غسل نہیں دیاجائے گا، اس پر سب کا اتفاق ہے، نیز امام احمد کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے شہیدوں کو غسل دینے سے منع کیا، اور فرمایا : ''اس کا زخم قیامت کے دن مشک کی خوشبو چھوڑے گا''، اور حنظلہ رضی اللہ عنہ جنابت کی حالت میں شہید ہوئے تھے، جب بھی نبی اکرم ﷺ نے ان کو غسل نہیں دیا، اور فرمایا : '' فرشتے ان کو غسل دیتے ہیں''۔​

1515- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِقَتْلَى أُحُدٍ أَنْ يُنْزَعَ عَنْهُمُ الْحَدِيدُ وَالْجُلُودُ، وَأَنْ يُدْفَنُوا فِي ثِيَابِهِمْ بِدِمَائِهِمْ ۔
* تخريج: د/الجنائز ۳۱ (۳۱۳۴)، (تحفۃ الأشراف:۵۵۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۷) (ضعیف)

(اس کے راوی علی بن عاصم اور عطاء اخیر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۷۰۹ )۔
۱۵۱۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ ان سے ہتھیار اور پوستین اتار لی جائے، اور ان کو انہیں کپڑوں میں خون سمیت دفنایا جائے ۔​

1516- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الأَسْوَدِ ابْنِ قَيْسٍ، سَمِعَ نُبَيْحًا الْعَنْزِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِقَتْلَى أُحُدٍ أَنْ يُرَدُّوا إِلَى مَصَارِعِهِمْ، وَكَانُوا نُقِلُوا إِلَى الْمَدِينَةِ۔
* تخريج:د/الجنائز۴۲ (۳۱۶۵)، ت/الجہاد ۳۷ (۱۷۱۷)، ن/الجنائز ۸۳ (۲۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/ ۲۹۷، ۳۰۳، ۳۰۸، ۳۹۷)، دي/المقدمۃ ۷ (۴۶) (صحیح)

(متابعات وشواہد سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے روای نبیح لین الحدیث ہیں)
۱۵۱۶- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ وہ اپنی شہادت گاہوں کی جانب لوٹا دئیے جائیں، لوگ انہیں مدینہ لے آئے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہداء اپنی شہادت کی جگہ سے کہیں اورمنتقل نہ کئے جائیں، بلکہ جہاں وہ شہید ہوئے ہوں، وہیں ان کو دفن کردیا جائے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ فِي الْمَسْجِدِ
۲۹ - باب: صلاۃِ جنازہ مسجد میں پڑھنے کا بیان​

1517- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلَيْسَ لَهُ شَيْئٌ >۔
* تخريج: د/الجنائز۵۴ (۳۱۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۴۴، ۴۵۵، ۵۰۵) (صحیح)
(تراجع الألبانی: رقم: ۶۰)
۱۵۱۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' جوشخص صلاۃ جنازہ مسجد میں پڑھے تو اس کے لئے کچھ نہیں ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : افضل یہ ہے کہ صلاۃ جنازہ مسجد سے باہر ایسی جگہ پڑھی جائے جو اس کے لئے خاص کردی گئی ہو، نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں عام طریقہ یہی تھا، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔​

1518- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ،حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ إِلا فِي الْمَسْجِدِ.
قَالَ ابْن مَاجَه: حَدِيثُ عَائِشَةَ أَقْوَى۔
* تخريج: د/الجنائز ۵۴ (۳۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۶۱۷۴)، وقد أخرجہ: م/الجنائز۳۴ (۹۷۳)، ت/الجنائز۴۴ (۱۰۳۳)، ن/الجنائز۷۰ (۱۹۶۹)، ط/الجنائز۸ (۲۲)، حم (۶/۷۹،۱۳۳، ۱۶۹) (صحیح)

۱۸ ۱۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی صلاۃ جنازہ مسجد ہی میں پڑھی ۔
ابن ماجہ کہتے ہیں کہ ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث زیادہ قوی ہے ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي الأَوْقَاتِ الَّتِي لا يُصَلَّى فِيهَا عَلَى الْمَيِّتِ وَلا يُدْفَنُ
۳۰ - باب: صلاۃِ جنازہ اور میت کی تدفین کے ممنوع اوقات کا بیان​

1519- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،(ح) وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، جَمِيعًا عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ: ثَلاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ نَقْبِرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ۔
* تخريج: م/المسافرین ۵۱ (۸۳۱)، د/الجنائز۵۵ (۳۱۹۲)، ت/الجنائز۴۱ (۱۰۳۰)، ن/المواقیت ۳۰ (۵۶۱)، ۳۳ (۵۶۶)، الجنائز۸۹ (۲۰۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۲)، دي/الصلاۃ ۱۴۲ (۱۴۷۲) (صحیح)

۱۵۱۹- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ ہم کو تین اوقات میں صلاۃ پڑھنے، اور مردوں کو دفن کرنے سے منع فرماتے تھے: ''ایک تو جب سورج نکل ہورہاہو،اور دوسرے جب کہ ٹھیک دو پہر ہو، یہاں تک کہ زوال ہوجائے یعنی سورج ڈھل جائے، تیسرے جب کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہویہاں تک کہ ڈوب جائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حدیث عام ہے جس میں صلاۃ جنازہ بھی داخل ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حدیث سے یہی سمجھا ہے، اس لیے بغیر کسی مجبوری کے ان اوقات میں صلاۃ جنازہ پڑھنا جائز نہیں ۔​

1520- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَدْخَلَ رَجُلا قَبْرَهُ لَيْلا، وَأَسْرَجَ فِي قَبْرِهِ۔
* تخريج: ت/الجنائز ۶۳ (۱۰۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۸۹) (حسن)

(شواہد و متابعات کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں)
۱۵۲۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو رات میں دفن کیا، اور اس کی قبر کے پاس (روشنی کے لئے) چراغ جلایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہو کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے۔​

1521- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَوْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تَدْفِنُوا مَوْتَاكُمْ بِاللَّيْلِ إِلا أَنْ تُضْطَرُّوا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۵۳)، وقد أخرجہ: م/الجنائز۱۵ (۹۴۳)، د/الجنائز ۲۴ (۳۱۴۸)، ن/الجنائز ۳۷ (۱۸۹۶)، حم (۳/۲۹۵) (صحیح)

۱۵۲۱- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: '' اپنے مردوں کو رات میں دفن نہ کرو،مگریہ کہ تم مجبورکر دئیے جاؤ '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلا ضرورت رات میں دفن نہ کرو، لیکن اگر رات ہوجائے تو بالاتفاق رات کو دفن کرنا جائز اورصحیح ہے،جیسا کہ اس سے پہلے والی حدیث میں ذکر ہوا، نیز واضح رہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صلاۃ جنازہ رات ہی میں پڑھی گئی، اور ان کی تدفین بھی رات ہی میں ہوئی۔​

1522- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < صَلُّوا عَلَى مَوْتَاكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۵۴۲)وقد أخرجہ: حم (۳/۳۳۶، ۳۴۹) (ضعیف)
(اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف اور ولید بن مسلم مدلس راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۳۹۷۴ )
۱۵۲۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''اپنے مردوں کی صلاۃ جنازہ رات اور دن میں جس وقت چاہو پڑھو '' ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
31- بَاب فِي الصَّلاةِ عَلَى أَهْلِ الْقِبْلَةِ
۳۱ - باب: اہلِ قبلہ کی صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان ۱؎​

وضاحت ۱ ؎ : جو لوگ کعبہ کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھتے ہیں، ان کو اہل قبلہ کہتے ہیں،یعنی اہل اسلام ۔​

1523- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ جَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < آذِنُونِي بِهِ > فَلَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ قَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا ذَاكَ لَكَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: أَنَا بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ: {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ }، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: { وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ }.
* تخريج:خ/الجنائز۲۲ (۱۲۶۹)، تفسیرالتوبہ ۱۲ (۴۶۷۰)، ۱۳ (۴۶۷۲)، اللباس ۸ (۵۷۹۶)، م/فضائل الصحابۃ ۲ (۲۴۰۰)، صفات المنافقین ۳ (۲۷۷۴)، ت/تفسیر التوبۃ (۳۰۹۸)، ن/الجنائز ۴۰ (۱۹۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸) (صحیح)

۱۵۲۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (منافقین کے سردار) عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوگیاتو اس کے (مسلمان) بیٹے نبی اکرمﷺکے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اپنا کرتہ دے دیجیے، میں اس میں اپنے والدکو کفناؤںگا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' (اس کا جنازہ تیار کرکے ) مجھے اطلاع دینا''، جب آپ نے اس کی صلاۃ جنازہ پڑھنی چاہی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: یہ آپ کے لئے مناسب نہیں ہے، بہرحال نبی اکرمﷺ نے اس پر صلاۃ جنازہ پڑھی، اورعمررضی اللہ عنہ سے فرمایا: ''مجھے دوباتوں میں اختیار دیا گیا ہے { اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ} [سورة التوبة: 80] ( تم ان کے لئے مغفرت طلب کرویا نہ کرو ) اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : { وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ } [ سورة التوبة: 84] ( منافقوں میں سے جو کوئی مرجائے تو نہ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں)۔​

1524- حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: مَاتَ رَأْسُ الْمُنَافِقِينَ بِالْمَدِينَةِ، وَأَوْصَى أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ ، وَأَنْ يُكَفِّنَهُ فِي قَمِيصِهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ وَكَفَّنَهُ فِي قَمِيصِهِ وَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: { وَلاتُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ }۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۵۵) (منکر)

(ملاحظہ ہو: احکام الجنائز : ۱۶۰، اس حدیث میں وصیت کا ذکر منکر ہے)۔
۱۵۲۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منافقین کا سردار( عبداللہ بن ابی) مدینہ میں مرگیا، اس نے وصیت کی کہ نبی اکرم ﷺ اس کی صلاۃ جنا زہ پڑھیں، اور اس کو اپنی قمیص میں کفنائیں،تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی، اور اسے اپنے کرتے میں کفنایا، اور اس کی قبر پہ کھڑے ہوئے،تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:{ وَلاتُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ } ( منافقوں میں سے جو کوئی مرجائے تو اس کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پہ مت کھڑے ہوں ) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ :اس میں حکمت یہ تھی کہ جب نبی اکرم ﷺ ایسے لوگوں کی صلاۃ جنازہ نہیں پڑھیں گے تو منافقین خائف ہوں گے، اور امید ہے کہ جو زندہ ہیں وہ آئندہ نفاق سے توبہ کریں گے، غرض عمررضی اللہ عنہ کی رائے اس معاملہ میں بھی صحیح تھی، اور ان کی موافقت وتائیدمیں قرآن نازل ہوا، جیسے اور کئی معاملوں میں ہوا، نبی اکرم ﷺ کے اس منافق کو اپنی قمیص پہنانے میں یہ حکمت تھی کہ اس کا بیٹا سچا مسلمان تھا، اس کا دل خوش ہوجائے، اس بدبخت کا آخرت میں انجام تو اس کے اپنے اعمال بد کے مطابق ہوگا، جیسا گناہ ویسی اس کی سزا، اور بعضوں نے کہا کہ عبداللہ بن ابی نے بدر کے دن آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کوقمیص پہنائی تھی، اس لئے آپ ﷺ نے اس کا بدلہ دے دیا، تاکہ منافق کا احسان باقی نہ رہے، واللہ اعلم ۔
1525- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ نَبْهَانَ،حَدَّثَنَا عُتْبَةُ بْنُ يَقْظَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < صَلُّوا عَلَى كُلِّ مَيِّتٍ وَجَاهِدُوا مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۱۱۷۵۰، ومصباح الزجاجۃ: ۵۴۲) (ضعیف)

(اس سند میں تین روای: عتبہ بن یقظان ضعیف، حارث بن نبہان اور ابوسعید مصلوب فی الزندقہ دونوں متروک ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲؍۳۰۹)
۱۵۲۵- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ہرمیت کی صلاۃ پڑھو، اور ہر امیر (حاکم) کے ساتھ (مل کر) جہاد کرو ''۔​

1526- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ جُرِحَ، فَآذَتْهُ الْجِرَاحَةُ، فَدَبَّ إِلَى مَشَاقِصَ، فَذَبَحَ بِهَا نَفْسَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ، قَالَ: وَكَانَ ذَلِكَ مِنْهُ أَدَبًا۔
* تخريج: د/الجنائز۵۱ (۳۱۸۵)، ت/الجنائز ۶۸ (۱۰۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۷۴)، وقد أخر جہ: م/الجنائز ۳۶ (۹۷۸)، ن/الجنائز ۶۸ (۱۹۶۳)، حم (۵/۸۷، ۹۲، ۹۴، ۹۶، ۹۷) (صحیح)

۱۵۲۶- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص زخمی ہوا، اور زخم نے اسے کافی تکلیف پہنچائی،تو وہ آہستہ آہستہ تیرکی انی کے پاس گیا، اور اس سے اپنے کو ذبح کرلیا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی صلاۃ جنازہ نہیں پڑھی تاکہ اس سے دوسروں کو نصیحت ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خود کشی کرنے والے کی صلاۃ جنازہ امام اور کوئی مقتدیٰ اور پیشوا نہ پڑھے، لیکن دوسرے عام لوگ پڑھ لیں، واضح رہے کہ ایک قرض دار تھا اور اس کا انتقال ہوگیا ، تو اس کی بھی نبی کریم ﷺ نے صلاۃ جنازہ نہیں پڑھائی تھی، لیکن لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ساتھی کی صلاۃ جنازہ پڑھ لیں ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ عَلَى الْقَبْرِ
۳۲ - باب: (مردہ دفن ہوجائے تو ) قبر پر صلاۃِ جنا زہ پڑھنے کا بیان​

1527- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ، فَفَقَدَ هَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلَ عَنْهَا بَعْدَ أَيَّامٍ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ: < فَهَلا آذَنْتُمُونِي > فَأَتَى قَبْرَهَا، فَصَلَّى عَلَيْهَا۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۷۴ (۴۵۸)، م/الجنائز۲۳ (۹۵۶)، د/الجنائز ۶۱ (۳۲۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۵۳) (صحیح)

۱۵۲۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، رسول اللہ ﷺ نے اسے نہیں دیکھا، کچھ روزکے بعداس کے متعلق پوچھا توآپ سے عرض کیا گیاکہ اس کا انتقال ہو گیا،آپ ﷺنے فرمایا: '' پھر مجھے خبر کیوں نہ دی، اس کے بعد آپ اس کی قبر پہ آئے، اور اس پر صلاۃ جنازہ پڑھی '' ۔​

1528- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ ابْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَكَانَ أَكْبَرَ مِنْ زَيْدٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَلَمَّا وَرَدَ الْبَقِيعَ فَإِذَا هُوَ بِقَبْرٍ جَدِيدٍ، فَسَأَلَ عَنْهُ، قَالُوا: فُلانَةُ، قَالَ فَعَرَفَهَا وَقَالَ: < أَلا آذَنْتُمُونِي بِهَا > قَالُوا: كُنْتَ قَائِلا صَائِمًا، فَكَرِهْنَا أَنْ نُؤْذِيَكَ، قَالَ: < فَلا تَفْعَلُوا، لاأَعْرِفَنَّ مَا مَاتَ مِنْكُمْ مَيِّتٌ، مَا كُنْتُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ إِلا آذَنْتُمُونِي بِهِ، فَإِنَّ صَلاتِي عَلَيْهِ لَهُ رَحْمَةٌ، ثُمَّ أَتَى الْقَبْرَ، فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، فَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا۔
* تخريج: ن/الجنائز ۹۴ (۲۰۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۸۸) (صحیح)

۱۵۲۸- یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ (وہ زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی ) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نکلے، جب آپ مقبرہ بقیع پہنچے تو وہاں ایک نئی قبر دیکھی،آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا:فلاں عورت کی ہے،آپ نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا: ''تم لوگوں نے اس کی خبر مجھ کو کیوں نہ دی؟''، لوگوں نے کہا: آپ دوپہر میں آرام فرمارہے تھے، اور صوم سے تھے، ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا، آپ ﷺ نے فرمایا: '' اب ایسا نہ کرنا،آ ئند ہ مجھے یہ معلوم نہ ہونے پائے کہ پھر تم لوگوں نے ایسا کیا ہے، جب تم لوگوں میں سے کوئی شخص مرجائے توجب تک میں تم میں زندہ ہوں مجھے خبر کرتے رہو،اس لئے کہ اس پر میری صلاۃ اس کے لئے رحمت ہے، پھر آپ اس کی قبر کے پاس آئے، اورہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی،آپ نے اس پر چارتکبیریں کہیں ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی۔​

1529- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ مَاتَتْ وَلَمْ يُؤْذَنْ بِهَا النَّبِيُّ ﷺ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَقَالَ: < هَلا آذَنْتُمُونِي بِهَا > ثُمَّ قَالَ لأَصْحَابِهِ: < صُفُّوا عَلَيْهَا > فَصَلَّى عَلَيْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۵۰۴۰، ومصباح الزجاجۃ : ۵۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۴۴) (حسن صحیح)

۱۵۲۹- عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت کا انتقال ہوگیا، اور نبی اکرم ﷺ کو اس کے انتقال کی خبر نہیں دی گئی، پھر جب آپ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم لوگوں نے مجھے اس کے انتقال کی خبر کیوں نہیں دی'' ؟ اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا: اس پہ صف باندھو، پھر آپ نے اس عورت کی صلاۃ جنازہ پڑھی ۔​

1530- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ،عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعُودُهُ، فَدَفَنُوهُ بِاللَّيْلِ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَعْلَمُوهُ، فَقَالَ: < مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تُعْلِمُونِي؟ > قَالُوا: كَانَ اللَّيْلُ، وَكَانَتِ الظُّلْمَةُ، فَكَرِهْنَا أَنْ نَشُقَّ عَلَيْكَ، فَأَتَى قَبْرَهُ، فَصَلَّى عَلَيْهِ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۶۱ (۸۵۷)، الجنائز۵ (۱۲۴۷)، ۵۴ (۱۳۲۱)، ۵۵ (۱۳۲۲)، ۵۹ (۱۳۲۶)، ۶۶ (۱۳۳۶)، ۶۹(۱۳۴۰)، م/الجنائز ۲۳ (۹۵۴)، د/الجنائز ۵۸ (۳۱۹۶)، ت/الجنائز ۴۷ (۱۰۳۷)، ن/الجنائز۹۴ (۲۰۲۵،۲۰۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۴، ۲۳۸، ۳۳۸) (صحیح)

۱۵۳۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کا انتقال ہوگیا، جس کی عیادت رسول اکرم ﷺ کیا کرتے تھے، لوگوں نے اسے رات میں دفنا دیا، جب صبح ہوئی اورلوگوں نے (اس کی موت کے بارے میں) آپ کو بتایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم لوگوں نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی ''؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور تاریکی تھی، ہم نے آپ کو تکلیف دینا اچھا نہیں سمجھا، تو آپ ﷺ اس کی قبر کے پاس آئے، اور اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی '' ۔​

1531- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالا: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى قَبْرٍ بَعْدَ مَا قُبِرَ۔
* تخريج: م/الجنائز۲۳ (۹۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۰۶، ۳/۱۳۰) (صحیح)

۱۵۳۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے ایک قبر پر دفن کیے جانے کے بعداس میت کی صلاۃ جنازہ پڑھی۔​

1532- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مِهْرَانُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ،عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى مَيِّتٍ بَعْدَ مَا دُفِنَ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف : ۱۹۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۵۴۴) (صحیح)

(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے کونکہ ابو سنان مہران، اور محمد بن حمید متکلم فیہ راوی ہیں )
۱۵۳۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک میت کی اس کے دفن کردئیے جانے کے بعد صلاۃ جنازہ پڑھی ۔
1533- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: كَانَتْ سَوْدَاءُ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ، فَتُوُفِّيَتْ لَيْلا، فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أُخْبِرَ بِمَوْتِهَا، فَقَالَ: < أَلا آذَنْتُمُونِي بِهَا؟ > فَخَرَجَ بِأَصْحَابِهِ، فَوَقَفَ عَلَى قَبْرِهَا، فَكَبَّرَ عَلَيْهَا وَالنَّاسُ خَلْفَهُ، وَدَعَا لَهَا ثُمَّ انْصَرَفَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۵۴۵) (صحیح)
(سابقہ حدیث تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں)۔
۱۵۳۳- ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، ایک رات اس کا انتقال ہوگیا، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کو اس کے مرنے کی اطلاع دی گئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' تم لوگوں نے مجھے خبر کیوں نہ دی ''؟، پھر آپ ﷺاپنے صحابہ کے ساتھ نکلے اور اس کی قبر پر کھڑے ہوکر تکبیر کہی، اور لوگ آپ کے پیچھے تھے،آپ نے اس کے لئے دعا کی پھر آپ لوٹ آئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر پر صلاۃ جنازہ صحیح ہے،سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ آپ ﷺنے ام سعد کی قبر پرصلاۃ جنازہ پڑھی، ان کے دفن پر ایک مہینہ گزرچکا تھا، نیز یہ حدیث عام ہے خواہ اس میت پر لوگ صلاۃ جنازہ پڑھ چکے ہوں یا کسی نے نہ پڑھی ہو، ہر طرح اس کی قبر پرصلاۃ جنازہ پڑھنا صحیح ہے ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ عَلَى النَّجَاشِيِّ
۳۳- باب: نجاشی کی صلاۃِ جنازہ کا بیان​

1534- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ > فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْبَقِيعِ، فَصَفَّنَا خَلْفَهُ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ ۔
* تخريج: خ/الجنائز ۴ (۱۲۴۵)، ۵۴ (۱۳۱۸)، ۶۰ (۱۳۳۴)، ت/الجنائز۳۷ (۱۰۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۶۷)، وقد أخرجہ: د/الجنائز ۶۲ (۳۲۰۴)، ن/الجنائز ۷۲ (۱۹۷۳)، ط/الجنائز۵ (۱۴)، حم (۲/۲۳۰، ۲۸۰، ۴۳۸، ۴۳۹) (صحیح)

۱۵۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے،پھر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مقبرہ بقیع کی طرف گئے، ہم نے صف باند ھی ، اوررسول اللہ ﷺ آگے بڑھے، پھر آپ نے چارتکبیریں کہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہے، ان کا نام اصحمہ تھا، یہ پہلے نصرانی تھے، پھرنبی اکرم ﷺ پر ایمان لائے، اور حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خوب خدمت کی، جب ان کا انتقال ہوا تو نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مقبرہ بقیع کی طرف گئے اور ان کی صلاۃ جنازہ پڑھی، چونکہ ان کا انتقال حبشہ میں ہواتھا، اور آپ ﷺنے مدینہ میں ان کی صلاۃ جنازہ پڑھی تھی، اس سے بعض لوگوں نے صلاۃ جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے،صلاۃ جنازہ غائبا نہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی جائے، اور اگر پڑھی جاچکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا، الا یہ کہ کوئی محترم اورصالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہترہے، یہی قول امام احمد بن حنبل، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحہم اللہ کا ہے، عام مسلمانوں کی غائبانہ صلاۃ جنازہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں، اور نہ ہی تعامل امت ہے، بلکہ بعض اہل علم نے جس کی صلاۃ کسی جگہ پڑھی جاچکی ہو، اس کی صلاۃِ جنازہ غائبانہ کو بدعت کہا ہے۔ نیز شرعی حد کے نفاذ میں مقتول آدمی کی صلاۃ جنازہ سنت ہے، ایسے ہی فاسق وفاجر کی صلاۃ جنازہ بھی جائز ہے، بشرطیکہ وہ اسلامی اوامر ونواہی کو تسلیم کرتا رہا ہو، اور فی الجملہ اسلام کا قائل ہو تو ایسے لوگوں کی صلاۃ جنازہ جائز ہے، ہاں!اہل علم ودین کے لئے اس کا نہ پڑھنا اس واسطے مناسب ہے کہ ایسا کرنے میں اس طرح کے لوگوں کے لئے تنبیہ و تادیب ہے، اس سلسلے میں کئی احادیث موجود ہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، احکام الجنائز للألبانی: ۱۰۳-۱۱۰)​

1535- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، (ح) وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، جَمِيعًا عَنْ يُونُسَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ أَخَاكُمُ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، فَصَلُّوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَقَامَ فَصَلَّيْنَا خَلْفَهُ، وَإِنِّي لَفِي الصَّفِّ الثَّانِي، فَصَلَّى عَلَيْهِ صَفَّيْنِ "۔
* تخريج: ت/الجنائز ۴۸ (۱۰۳۹)، ن/الجنائز ۷۲ (۱۹۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۹)، وقد أخرجہ: م/الجنائز ۲۲ (۹۵۳)، حم (۴/۴۳۱، ۴۳۳، ۴۴۱) (صحیح)

۱۵۳۵- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''تمہارے(دینی) بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھو'' عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے صلاۃ ِجنازہ پڑھی ،میں دوسری صف میں تھا، تو دو صفوں نے نجاشی کی صلاۃ جنازہ پڑھی ۔​

1536- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ أَخَاكُمُ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ > فَصَفَّنَا خَلْفَهُ صَفَّيْنِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۶، و مصباح الزجاجۃ: ۵۴۶) (صحیح)

(سند میں حمران بن أعین ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)۔
۱۵۳۶- مجمع بن جاریہ انصاریرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' تمہارے (دینی) بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے، تم لوگ کھڑے ہو، اور ان کی صلاۃ جنازہ پڑھو،پھر ہم نے رسول اکرم ﷺ کے پیچھے دو صفیں لگائیں''۔​

1537- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ،عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ بِهِمْ فَقَالَ: < صَلُّوا عَلَى أَخٍ لَكُمْ مَاتَ بِغَيْرِ أَرْضِكُمْ > قَالُوا: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: < النَّجَاشِيُّ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۰۰، ومصباح الزجاجۃ: ۵۴۷)، حم (۴/۷) (صحیح)

۱۵۳۷- حذیفہ بن اسیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر نکلے تو فرمایا: '' اپنے (دینی)بھائی پرصلاۃ جنازہ پڑھو جن کی موت تمہارے علاقہ سے باہر ہوگئی ہے '' صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: وہ کون ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''وہ نجاشی ہیں '' ۔​

1538- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو السَّكَنِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۸۴۰۰، ومصباح الزجاجۃ: ۵۴۸) (صحیح)

۱۵۳۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نجاشی کی صلاۃ جنازہ پڑھی، تو چار تکبیرات کہیں ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
34- بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ وَمَنِ انْتَظَرَ دَفْنَهَا
۳۴ - باب: صلاۃِ جنازہ پڑھنے او ر دفن تک انتظار کرنے کا ثواب​

1539- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنِ انْتَظَرَ حَتَّى يُفْرَغَ مِنْهَا فَلَهُ قِيرَاطَانِ > قَالُوا: وَمَا الْقِيرَاطَانِ؟ قَالَ: < مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ >۔
* تخريج: خ/الأیمان ۳۵ (۴۷)، الجنائز ۵۸ (۱۳۲۵)، م/الجنائز۱۷(۹۴۵)، ن/الجنائز۷۹ (۱۹۹۶)، الإیمان ۲۶ (۵۰۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۶۶)، وقد أخرجہ: د/الجنائز۴۵ (۳۱۶۸)، ت/الجنائز ۴۹ (۱۰۴۰)، حم (۲/۲، ۲۳۳، ۲۴۶، ۲۸۰، ۳۲۱، ۳۸۷، ۴۰۱، ۴۳۰، ۴۵۸، ۴۷۵، ۴۸۰، ۴۹۳، ۴۹۸، ۵۰۳، ۵۲۱، ۵۳۱) (صحیح)

۱۵۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: '' جس نے صلاۃ جنازہ پڑھی، اس کو ایک قیرا ط ثواب ہے، اور جو دفن سے فراغت تک انتظار کرتا رہا، اسے دو قیرا ط ثواب ہے ''، لوگوں نے عرض کیا : دو قیراط کیا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''دو پہاڑ کے برابر ''۔​

1540- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ دَفْنَهَا فَلَهُ قِيرَاطَانِ > قَالَ: فَسُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الْقِيرَاطِ؟ فَقَالَ: < مِثْلُ أُحُدٍ >۔
* تخريج: م/الجنائز ۱۷ (۹۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۱۵)، حم (۵/۲۷۶، ۲۷۷، ۲۸۲، ۲۸۳، ۲۸۴) (صحیح)

۱۵۴۰- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے کسی کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، تو اس کو ایک قیراط ثواب ہے، اور جو اس کے دفن میں بھی شریک رہا،تو اس کو دو قیراط برابر ثواب ہے،نبی اکرم ﷺ سے قیراط کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا : '' قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے '' ۔​

1541- حَدَّثَنَا بْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَهَا حَتَّى تُدْفَنَ فَلَهُ قِيرَاطَانِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! الْقِيرَاطُ أَعْظَمُ مِنْ أُحُدٍ هَذَا >.
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳، ومصباح الزجاجۃ: ۵۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۳۱) (صحیح)
(دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس ہیں )
۱۵۴۱- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے صلاۃِجنازہ پڑھی، اس کے لئے ایک قیراط ثواب ہے، اور جو اس کے دفن تک جنازہ میں حاضر رہا اس کے لئے دو قیراط ثواب ہے، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، قیراط اس احد پہاڑ سے بڑاہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اگرچہ قیراط نہایت ہلکا وزن ہے یعنی دانق کا آدھا، اور دانق ایک درہم کا چھٹا حصہ ہے ، تو قیراط درہم کا بارہواں حصہ ہوا، یعنی تقریباً دو رتی ، لیکن اللہ تعالی کے نزدیک یہ قیراط بہت بڑا ہے وہ جو پہاڑ سے بھی وزن میں زائد ہے ۔​
 
Top