• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
161- بَاب فِي الإِمَامِ يَسْتَأْثِرُ بِشَيْئٍ مِنَ الْفَيْئِ لِنَفْسِهِ
۱۶۱-باب: مالِ فئی میں سے امام کا اپنے لئے کچھ رکھ لینے کا بیان​


2755- حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْعَلاءِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاسَلامٍ الأَسْوَدَ قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى بَعِيرٍ [مِنَ الْمَغْنَمِ]، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ الْبَعِيرِ، ثُمَّ قَالَ: < وَلا يَحِلُّ لِي مِنْ غَنَائِمِكُمْ مِثْلُ هَذَا، إِلا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۶۹) (صحیح)
۲۷۵۵- عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مال غنیمت کے ایک اونٹ کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو اونٹ کے پہلو سے ایک بال لیا، اور فرمایا: ''تمہاری غنیمتوں میں سے میرے لئے اتنا بھی حلال نہیں سوائے خمس کے، اور خمس بھی تمہیں لوٹا دیا جاتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام غنیمت کے مال میں سے سوائے خمس کے کچھ نہیں لے گا، اور خمس بھی جو لے گا وہ تنہا اس کا نہیں ہوگا بلکہ وہ اسے مسلمانوں ہی میں اس تفصیل کے مطابق خرچ کرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ {وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيئٍ فَإِنَّ لله خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِيْ الْقُرْبَى وَلِلْيَتَاْمَى وَالْمَسَاْكِيْنِ} میں بیان کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
162- بَاب فِي الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ
۱۶۲-باب: عہد و پیمان کو نبھانے کا بیان​


2756- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ الْغَادِرَ يُنْصَبُ لَهُ لِوَائٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلانِ بْنِ فُلانٍ >۔
* تخريج: خ/الجزیۃ ۲۲ (۳۱۸۸)، والأدب ۹۹ (۶۱۷۷)، والحیل ۹ (۶۹۶۶)، والفتن ۲۱ (۷۱۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳۲)، وقد أخرجہ: م/الجھاد ۴ (۱۷۳۶)، ت/السیر ۲۸ (۱۵۸۱)، حم (۲/۱۴۲) وأعادہ المؤلف فی السنۃ (۴۶۵۵) (صحیح)
۲۷۵۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' بدعہدی کرنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
163- بَاب فِي الإِمَامِ يُسْتَجَنُّ بِهِ فِي الْعُهُودِ
۱۶۳-باب: عہد و پیمان میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہے اس لیے امام جوعہد کرے اس کی پابندی لوگوں پرضروری ہے​


2757- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <إِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ بِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۸۸)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۱۰۹ (۲۹۵۷)، م/الإمارۃ ۹ (۱۸۴۱)، ن/البیعۃ ۳۰ (۴۲۰۱) (صحیح)
۲۷۵۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' امام بحیثیت ڈھال کے ہے اسی کی رائے سے لڑائی کی جاتی ہے(تو اسی کی رائے پر صلح بھی ہوگی)'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام اور امیر کی قیادت میں عام شہری اس کے حکم اور اس کی رائے اور اس کی طرف سے دشمن سے کیے گئے معاہدوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، ایسی صورت میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہوتا ہے ، جس کے ذریعے سے لوگ نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں، جیسے ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وارسے محفوظ رہتا ہے ،امام اور دشمن کے درمیان جو بات صلح اوراتفاق سے طے ہوجاتی ہے ، اس کے مطابق دونوں فریق اپنے مسائل حل کرتے ہیں، توامام کے معاہدہ کے نتیجے میں لوگ دشمن کی ایذا سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے امام اور حاکم کی حیثیت امن اور جنگ میں ڈھال کی ہے ، جس سے رعایا فوائد حاصل کرتی ہے ، اور دشمن کے شر سے محفوظ رہتی ہے ۔


2758- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا [عَبْدُاللَّهِ] بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَهُ قَالَ: بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الإِسْلامُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وَاللَّهِ لاأَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنِّي لا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنِ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الآنَ فَارْجِعْ >، قَالَ: فَذَهَبْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَأَسْلَمْتُ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا .
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلا يَصْلُحُ.
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۳)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ السیر (۸۶۷۴) (صحیح)
۲۷۵۸- ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں)رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جائوں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جائو، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جواب ہے تو آجانا''، ابو رافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دو بارہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر مسلمان ہو گیا۔
بکیر کہتے ہیں: مجھے حسن بن علی نے خبردی ہے کہ ابو رافع قبطی غلام تھے۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسلام لے آنے والے قاصد کو کفار کی طرف لوٹا دینا اُسی مدت کے اندر اور خاص آپ ﷺ کے لئے تھا، اب ایسا کرنا اسلامی کاز کے لئے بہتر نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
164- بَاب فِي الإِمَامِ يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ عَهْدٌ فَيَسِيرُ إِلَيْهِ
۱۶۴-باب: جب امام اور دشمن میں معاہدہ ہو تو امام دشمن کے ملک میں جاسکتا ہے​


2759- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ -رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ- قَالَ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ يَسِيرُ نَحْوَ بِلادِهِمْ، حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ غَزَاهُمْ، فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ أَوْ بِرْذَوْنٍ وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَفَائٌ لاغَدَرَ، فَنَظَرُوا فَإِذَا عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلا يَشُدُّ عُقْدَةً وَلا يَحُلُّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَائٍ> فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ۔
* تخريج: ت/السیر ۲۷ (۱۵۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۱، ۱۱۳، ۳۸۵) (صحیح)
۲۷۵۹- سلیم بن عامر سے روایت ہے، وہ قبیلہ حمیر کے ایک فرد تھے، وہ کہتے ہیں:معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لئے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے،(اس مدت میں) معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گز رگئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو ۱؎ لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے ۔
معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو معاہدہ نہ توڑے اور نہ نیا معاہدہ کرے جب تک کہ اس معاہدہ کی مدت پوری نہ ہو جائے، یا برابری پر عہد ان کی طرف واپس نہ کردے''، تو یہ سن کرمعاویہ رضی اللہ عنہ واپس آگئے۔
وضاحت ۱؎ : عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو اس لئے ناپسند کیا کیونکہ معاہدہ کی مدت پوری ہونے کے فوراً بعد دشمن کو آگاہ کئے بغیر جنگ نامناسب تھی اور بہتر یہ تھا کہ مدت پوری ہونے کے بعد دشمن کو آگاہ کردیا جاتا پھر جنگ شروع کی جاتی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
165- بَاب فِي الْوَفَاءِ لِلْمُعَاهِدِ وَحُرْمَةِ ذِمَّتِهِ
۱۶۵-باب: ذمی اور جس سے عہد وپیمان ہو اس کا پاس و احترام ضروری ہے​


2760- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ >۔
* تخريج: ن/القسامۃ ۱۰(۴۷۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶، ۳۸، ۴۶،۵۰، ۵۱)، دي/السیر ۶۱ (۲۵۴۶) (صحیح)
۲۷۶۰- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرے گا تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
166- بَاب فِي الرُّسُلِ
۱۶۶-باب: ایلچی اور سفیر کا بیان​


2761- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: كَانَ مُسَيْلِمَةُ كَتَبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: وَقَدْ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَشْجَعَ يُقَالُ لَهُ: سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُعَيْمِ بْنِ مَسْعُودٍ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ نُعَيْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَأَ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ: < مَا تَقُولانِ أَنْتُمَا؟ > قَالا: نَقُولُ كَمَا قَالَ، قَالَ: < أَمَا وَاللَّهِ لَوْلا أَنَّ الرُّسُلَ لا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸۷) (صحیح)
۲۷۶۱- نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا:'' تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟''، ان دونوں نے کہا:'' ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ ۱؎ نے کہا ہے''، ( یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا''۔
وضاحت ۱؎ : مسیلمہ نے نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں نبوت کا دعوی کیا تھا، عبداللہ بن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کا پیام لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تھے، اسی موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ نہ ہوتا کہ قاصد قتل نہ کئے جائیں، تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر مسیلمہ سے مقابلہ کے لئے روانہ کیا گیا بالآخر وحشی کے ہاتھوں مسیلمہ مارا گیا۔


2762- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ أَنَّهُ أَتَى عَبْدَاللَّهِ فَقَالَ: مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ حِنَةٌ، وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَاللَّهِ، فَجِيئَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ، غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَالَ لَهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لَوْلا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ >، فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلا بِالسُّوقِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۴)، دي/السیر ۶۰ (۲۵۴۵) (صحیح)
۲۷۶۲- حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا : میرے اور کسی عر ب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ''اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے''۔
پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے با زار میں اس کی گردن ماردی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
167- بَاب فِي أَمَانِ الْمَرْأَةِ
۱۶۷-باب: مسلمان عورت کافر کو امان دیدے اس کے حکم کا بیان​


2763- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهَا أَجَارَتْ رَجُلا مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: < قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۰۵)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۴ (۳۵۷)، والجزیۃ ۹ (۳۱۷۱)، والأدب ۹۴ (۶۱۵۸)، م/المسافرین ۱۶ (۳۳۶)، ط/قصر الصلاۃ ۸ (۲۸)، حم (۶/۳۴۳، ۴۲۳)، دي الصلاۃ ۱۵۱ (۱۴۹۴) (صحیح)
۲۷۶۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے ام ہانی بنت ابو طالب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے دن ایک مشرک کو امان دی، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہم نے اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی، اور ہم نے اس کو امان دیا جس کو تم نے امان دیا''۔


2764- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ لَتُجِيرُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ فَيَجُوزُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۹۸) (صحیح)
۲۷۶۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی کافر کو مسلمانوں سے پناہ دے دیا کرتی تو وہ پناہ درست ہوتی تھی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
168- بَاب فِي صُلْحِ الْعَدُوِّ
۱۶۸-باب: دشمن سے صلح کرنے کا بیان​


2765- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ: وَسَارَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يَهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ، مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < مَا خَلأَتْ وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ>، ثُمَّ قَالَ: < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لا يَسْأَلُونِي [الْيَوْمَ] خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا >، ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ، فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ، فَجَائَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ، ثُمَّ أَتَاهُ -يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ- فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ ﷺ فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ، فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ، أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ؟ -وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَمَّا الإِسْلامُ فَقَدْ قَبِلْنَا، وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ >- فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < اكْتُبْ: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ > وَقَصَّ الْخَبَرَ، فَقَالَ سُهَيْلٌ: وَعَلَى أَنَّهُ لا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لأَصْحَابِهِ: < قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا > ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ، الآيَةَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَائَهُ أَبُوبَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ -يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ- فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ، فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذْا بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلانُ جَيِّدًا، فَاسْتَلَّهُ الآخَرُ، فَقَالَ: أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ، فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ، فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ، وَفَرَّ الآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ، فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا > فَقَالَ: [قَدْ] قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُوبَصِيرٍ فَقَالَ: قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ، فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ > فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سَيْفَ الْبَحْرِ، وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۶ (۱۶۹۴)، والشروط ۱۶ (۲۷۳۴)، والمغازي ۳۵ (۴۱۴۸)، ن الحج ۶۲ (۲۷۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۳، ۳۲۷، ۳۲۸) (صحیح)
۲۷۶۵- مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ ﷺ ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ ﷺ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: '' حل حل'' ۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ ﷺ نے فرمایا:'' قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے''، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا''، پھرآپ ﷺ نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ ﷺ کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ بار بار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لئے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا: نبی اکرم ﷺ کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا: اے بد عہد! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ۲؎ پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر مسلمان ہوگئے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں'' ۳؎ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی ۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے مصالحت کی ہے''، پھر پورا قصہ بیان کیا۔
سہیل نے کہا: اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اُسے ہماری طرف واپس کردیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا:'' اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو ''، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالی نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کردیں۔
پھر آپ ﷺ مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابو بصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آگیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لئے دو آدمی بھیجے، آپ ﷺ نے ابو بصیر کو ان کے حوالہ کردیا، وہ ابو بصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابو بصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا: ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابو بصیر نے کہا: مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابو بصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آگیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہ ڈر گیا ہے''، وہ بولا: قسم اللہ کی! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جائوں گا، اتنے میں ابو بصیر آپہنچے اور بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ ﷺ نے فرمایا: '' تباہی ہو اس کی ماں کے لئے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا''، ابو بصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ ﷺ پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آگئے اور (ابو جندل جو صلح کے بعد آپ ﷺ کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابو بصیر سے آملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔
وضاحت ۱؎ : ''حل حل'': یہ کلمہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی رُک جائے اور چلنا چھوڑ دے ۔
وضاحت ۲؎ : اصل واقعہ یہ ہے کہ بنو مالک کی شاخ ثقیف کے تیرہ لوگوں کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ مقوقس مصر کی زیارت کے لئے نکلے تھے واپسی میں مقوقس مصر نے ان لوگوں کو خوب خوب ہدایا وتحائف دئے لیکن مغیرہ رضی اللہ عنہ کو کم نوازا جس کی وجہ سے انہیں غیرت آگئی، راستے میں ان لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور شراب اس قدر پی کہ سب مدہوش ہوگئے،مغیرہ رضی اللہ عنہ کو اچھا موقع ہاتھ آیا انہوں نے سب کو قتل کردیا اور سب کے سامان لے لئے، بعد میں مقتولین کے ورثاء نے عروہ بن مسعود ثقفی سے جھگڑا کیا کیونکہ مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کے بھتیجے تھے بمشکل عروہ نے ان سب کو دیت پر راضی کرکے فیصلہ کرایا، اسی احسان کی طرف عروہ نے اشارہ کیا ہے۔
وضاحت۳؎ : کیونکہ یہ مکر اور فریب سے حاصل ہوا ہے ۔


2766- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُمُ اصْطَلَحُوا عَلَى وَضْعِ الْحَرْبِ عَشْرَ سِنِينَ يَأْمَنُ فِيهِنَّ النَّاسُ، وَعَلَى أَنَّ بَيْنَنَا عَيْبَةً مَكْفُوفَةً وَأَنَّهُ لا إِسْلالَ وَلا إِغْلالَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۵۳) (حسن)
۲۷۶۶- عروہ بن زیبرسے روایت ہے کہ مسور بن مخر مہرضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے ، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے ۱؎ اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہوگی نہ چوری چھپے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں عیبہ کا لفظ آیا ہے ، جس کے معنی ایسی تھیلی یا گٹھری کے ہیں جس میں عمدہ کپڑے رکھے جاتے ہیں، یہاں دل کو عیبہ سے تشبیہ دی اور مکفوفہ کے معنی بندھے ہوئے کے ہیں، یعنی ہمارے درمیان کپڑوں کا صندوق بند رہے گا، یعنی ہمارا دل ہر طرح کے مکر و فساد ، کینے اور بدعہدی سے پاک ہوگا، عہد کی محافظت و پاسداری کی جائے گی اور دونوں طرف سے اب تک جو باتیں ہوئی ہیں انہیں لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا کسی کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔
وضاحت ۲؎ : بعض لوگوں کے یہاں حدیث میں وارد ''إسلال''سے مراد تلواریں نکالنا ہے، اور ''إغلال'' سے مراد زرہ پہننا ہے، اور''لا إسلال ولا إغلال''کے معنی ہیں جنگ نہیں کریں گے۔


2767- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ قَالَ: مَالَ مَكْحُولٌ وَابْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ إِلَى خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، وَمِلْتُ مَعَهُمَا، فَحَدَّثَنَا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ: قَالَ جُبَيْرٌ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ذِي مِخْبَرٍ -رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ - فَأَتَيْنَاهُ، فَسَأَلَهُ جُبَيْرٌ عَنِ الْهُدْنَةِ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا، وَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِكُمْ >۔
* تخريج: ق/الفتن ۳۵ (۴۰۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۱، ۵/۴۰۹) ویأتی عند المؤلف فی الملاحم برقم (۴۲۹۳) (صحیح)
۲۷۶۷- حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا خالد بن معدان کی طرف مڑے اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں: جبیر نے (مجھ سے) کہا: ہمیں ذومخبر رضی اللہ عنہ جو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں کے پاس لے چلو، چنانچہ ہم ان کے پاس آئے جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''قریب ہے کہ تم روم سے ایسی صلح کرو گے کہ کوئی خوف نہ رہے گا، پھر تم اور وہ مل کر ایک اور دشمن سے لڑو گے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
169- بَاب فِي الْعَدُوِّ يُؤْتَى عَلَى غِرَّةٍ وَيُتَشَبَّهُ بِهِمْ
۱۶۹-باب: دشمن کے پاس دھوکہ سے پہنچنا اور یہ ظاہر کرنا کہ وہ انہی میں سے ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہے​


2768- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ! > فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: أَنَا يَارَسُولَ اللَّهِ! أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ قَالَ: < نَعَمْ >، قَالَ: فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ: < نَعَمْ [قُلْ] > فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا الصَّدَقَةَ، وَقَدْ عَنَّانَا، قَالَ: وَأَيْضًا لَتَمَلُّنَّهُ، قَالَ: اتَّبَعْنَاهُ فَنَحْنُ نَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْئٍ يَصِيرُ أَمْرُهُ، وَقَدْ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْوَسْقَيْنِ، قَالَ كَعْبٌ: أَيَّ شَيْئٍ تَرْهَنُونِي؟ قَالَ: وَمَا تُرِيدُ مِنَّا؟ قَالَ: نِسَائَكُمْ، قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ نَرْهَنُكَ نِسَائَنَا فَيَكُونُ ذَلِكَ عَارًا عَلَيْنَا، قَالَ: فَتَرْهَنُونِي أَوْلادَكُمْ، قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ يُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا فَيُقَالُ: رُهِنْتَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ، قَالُوا: نَرْهَنُكَ اللأْمَةَ؟ -يُرِيدُ السِّلاحَ- قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا أَتَاهُ نَادَاهُ فَخَرَجَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُتَطَيِّبٌ يَنْضَحُ رَأْسُهُ، فَلَمَّا أَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ وَقَدْكَانَ جَاءَ مَعَهُ بِنَفَرٍ ثَلاثَةٍ أَوْ أَرْبَعَةٍ فَذَكَرُوا لَهُ، قَالَ: عِنْدِي فُلانَةُ وَهِيَ أَعْطَرُ نِسَاءِ النَّاسِ، قَالَ: تَأْذَنُ لِي فَأَشُمَّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي رَأْسِهِ فَشَمَّهُ، قَالَ: أَعُودُ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي رَأْسِهِ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ قَالَ: دُونَكُمْ، فَضَرَبُوهُ حَتَّى قَتَلُوهُ۔
* تخريج: خ/الرھن ۳ (۲۵۱۰)، والجھاد ۱۵۸ (۳۰۳۱)، والمغازي ۱۵ (۴۰۳۷)، م/الجھاد ۴۲ (۱۸۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۲۴)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ (۸۶۴۱) (صحیح)
۲۷۶۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' کون ہے جو کعب بن اشرف ۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے''، یہ سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں''، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں، کہہ سکتے ہو''، پھر انہوں نے کعب کے پاس آکر کہا: اس شخص (یعنی محمد ﷺ ) نے ہم سے صدقے مانگ مانگ کر ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے، کعب نے کہا : ابھی کیا ہے؟ تم اور اکتا جاؤ گے، اس پر انہوں نے کہا: ہم اس کی پیروی کر چکے ہیں اب یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے؟ ہم تم سے یہ چاہتے ہیں کہ ایک وسق یا دو وسق اناج ہمیں بطور قرض دے دو، کعب نے کہا: تم اس کے عوض رہن میں میرے پاس کیا رکھو گے ؟ محمد بن مسلمہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا: اپنی عورتوں کو رہن ر کھ دو، انہوں نے کہا: ''سبحان الله! '' تم عربوں میں خوبصورت ترین آدمی ہو، اگر ہم اپنی عورتوں کو تمہارے پاس گروی رکھ دیں تو یہ ہمارے لئے عار کا سبب ہو گا، اس نے کہا: اپنی اولاد کو رکھ دو، انہوں نے کہا: ''سبحان الله!'' جب ہمارا بیٹا بڑا ہوگا تو لوگ اس کو طعنہ دیں گے کہ تو ایک وسق یا دو وسق کے بدلے گروی رکھ دیا گیا تھا، البتہ ہم اپنا ہتھیار تمہارے پاس گروی رکھ دیں گے، کعب نے کہا ٹھیک ہے۔ پھرجب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب کے پاس گئے اور اس کو آواز دی تو وہ خوشبو لگائے ہوئے نکلا، اس کا سر مہک رہا تھا، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ان کے ساتھ تین چار آدمی جو اور تھے سبھوں نے اس کی خوشبو کا ذکر شروع کر دیا، کعب کہنے لگا کہ میرے پاس فلاں عورت ہے جو سب سے زیا دہ معطر رہتی ہے، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں (تمہارے بال ) سونگھوں ؟ اس نے کہا :ہاں، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں ڈال کر سونگھا، پھر دو بارہ اجازت چاہی اس نے کہا: ہاں، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، پھر جب اسے مضبوطی سے پکڑ لیا تو (ا پنے ساتھیوں سے) کہا: پکڑو اسے، پھر ان لوگوں نے اس پر وار کیا یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔
وضاحت ۱؎ : کعب بن اشرف یہودیوں کا سردار تھا، نبی اکرم ﷺ کی ہجو کرتا تھا، دوسروں کو بھی اس پر ابھارتا تھا اس کے ساتھ ساتھ عہد شکنی کا مجرم بھی تھا اسی لئے آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا۔


2769- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُزَابَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ -يَعْنِي ابْنَ مَنْصُورٍ- حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الإِيمَانُ قَيَّدَ الْفَتْكَ، لايَفْتِكُ مُؤْمِنٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۱۵)، وقد أخرجہ: م/الحج ۷۶ (۳۲۷۸) (صحیح)
۲۷۶۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' ایمان نے کسی کو دھوکہ سے قتل کرنے کو روک دیا، کوئی مومن دھوکہ سے قتل نہیں کرتا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ غفلت میں پڑے ہوئے شخص کو قتل کرنا درست نہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اس حدیث میں فتک ( غفلت میں قتل) کی ممانعت سے قبل کا ہے یا کعب کا قتل اس کی عہد شکنی اور نبی اکرم ﷺ کی مسلسل ہجو کرنے اور اس پر دوسروں کو ابھارنے کی وجہ سے تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
170- بَاب فِي التَّكْبِيرِ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ فِي الْمَسِيرِ
۱۷۰-باب: سفر میں ہر بلندی پر چڑھتے وقت تکبیر کہنے کا بیان​


2770- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوٍ أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الأَرْضِ ثَلاثَ تَكْبِيرَاتٍ، وَيَقُولُ: < لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، سَاجِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ >۔
* تخريج: خ/الحج ۱۲ (۱۷۹۷)، والجھاد ۱۳۳ (۲۹۹۵)، والمغازي ۲۹ (۴۱۱۶)، م/الحج ۱۵ (۱۳۴۴)، ت/الحج ۱۰۴ (۹۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۳) (صحیح)
۲۷۷۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جہاد یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو ہر بلندی پر چڑھتے وقت تین بار''اللہ اکبر'' کہتے، اور اس کے بعد یہ دعا پڑھتے : ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، سَاجِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ '' ( اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تن تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے، اور اسی کے لئے حمد ہے، او وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور اکیلے ہی جتھوں کو شکست دی )۔
 
Top