• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
151- بَاب فِيمَنْ جَاءَ بَعْدَ الْغَنِيمَةِ لا سَهْمَ لَهُ
۱۵۱-باب: جو شخص مالِ غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا​


2723- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ عَنْبَسَةَ بْنَ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ أَبَانَ بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَلَى سَرِيَّةٍ مِنَ الْمَدِينَةِ قِبَلَ نَجْدٍ، فَقَدِمَ أَبَانُ ابْنُ سَعِيدٍ وَأَصْحَابُهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِخَيْبَرَ بَعْدَ أَنْ فَتَحَهَا، وَإِنَّ حُزُمَ خَيْلِهِمْ لِيفٌ، فَقَالَ أَبَانُ: اقْسِمْ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: لا تَقْسِمْ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ أَبَانُ: أَنْتَ بِهَا يَا وَبْرُ تَحَدَّرُ عَلَيْنَا مِنْ رَأْسِ ضَالٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <اجْلِسْ يَا أَبَانُ>، وَلَمْ يَقْسِمْ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۲۸ (۲۸۲۷)، والمغازي ۳۸ (۴۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۰) (صحیح)
۲۷۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سعید بن عاص رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابان بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہما کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک سریّہ کا سردار بنا کر بھیجا تو ابان بن سعید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب کہ آپ خیبر فتح کر چکے تھے، ان کے گھوڑوں کے زِین کھجور کی چھال کے تھے، تو ابان نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے لئے بھی حصہ لگائیے، ابو ہریرہ کہتے: ہیں اس پر میں نے کہا:اللہ کے رسول! ان کے لئے حصہ نہ لگائیے، ابان نے کہا: تو ایسی باتیں کرتا ہے اے وبر! ۱؎ جو ابھی ہمارے پاس ضال پہاڑ کی چوٹی سے اتر کے آرہا ہے ۲؎ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ابان تم بیٹھ جائو''، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا حصہ نہیں لگایا۔
وضاحت ۱؎ : بلی کے مشابہ ایک چھوٹا سا وحشی جانور ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس جملہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تحقیر اور انہیں یہ بتانا مقصود ہے کہ ابھی تم اس مقام اور مرتبہ کو نہیں پہنچے ہوکہ رسول اللہ ﷺ کو کسی کو دینے یا نہ دینے کا مشورہ دو۔


2724- حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، وَسَأَلَهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، فَحَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَنْبَسَةَ بْنَ سَعِيدٍ الْقُرَشِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِخَيْبَرَ حِينَ افْتَتَحَهَا، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُسْهِمَ لِي، فَتَكَلَّمَ بَعْضُ وُلْدِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ: لا تُسْهِمْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ: يَا عَجَبًا لِوَبْرٍ [قَدْ] تَدَلَّى عَلَيْنَا مِنْ قَدُومِ ضَالٍ، يُعَيِّرُنِي بِقَتْلِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَكْرَمَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى يَدَيَّ وَلَمْ يُهِنِّي عَلَى يَدَيْهِ.
[قَالَ أَبو دَاود: هَؤُلاءِ كَانُوا نَحْوَ عَشَرَةٍ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سِتَّةٌ وَرَجَعَ مَنْ بَقِيَ]۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۰) (صحیح)
۲۷۲۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ اس وقت آیا جب خیبر فتح ہوا، رسول اللہ ﷺ خیبر میں تھے، میں نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے بھی حصہ دیجئے ۱؎ تو سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے لڑکوں میں سے کسی نے کہا:اللہ کے رسول! اسے حصہ نہ دیجئے، تو میں نے کہا: ابن قوقل کا قاتل یہی ہے، تو سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: تعجب ہے ایک وبر پر جو ہمارے پاس ضال کی چوٹی سے اتر کرآیا ہے مجھے ایک مسلمان کے قتل پر عار دلاتا ہے جسے اللہ نے میرے ہاتھوں عزت دی اور اس کے ہاتھ سے مجھ کو ذلیل نہیں کیا ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ لوگ نو یا دس افراد تھے جن میں سے چھ شہید کر دئے گئے اور باقی واپس آئے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے پہلی والی حدیث میں ہے کہ ابان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لئے حصہ لگائیں اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے حصہ لگانے کی درخواست کی تھی دونوں حدیثوں میں بظاہرتعارض ہے صحیح یہ ہے کہ دونوں ہی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے لئے حصہ لگانے کی درخواست کی تھی، اور اپنے اپنے نظریہ کے مطابق دوسرے کو نہ دینے کا مشورہ دیا تھا، ابانرضی اللہ عنہ کو اس لئے کہ ابن قوقل رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا تھا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس لئے کہ ابھی مسلمان ہوئے تھے۔
وضاحت ۲؎ : انہوں نے ابن قوقل رضی اللہ عنہ کو اُس وقت قتل کیا تھا جب وہ کافر تھے، ابن قوقل کو اس قتل کی وجہ سے شہادت کی عزت ملی، اس وقت ابن قوقل رضی اللہ عنہ نے اگر ابان بن سعید کو قتل کردیا ہوتا تو وہ جہنم میں ڈالے جاتے اور ذلیل ہوتے، لیکن اللہ نے ایمان کی دولت دے کر انہیں اس ذلت سے بچا دیا ۔


2725- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَدِمْنَا فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا، أَوْ قَالَ: فَأَعْطَانَا مِنْهَا، وَمَا قَسَمَ لأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا إِلا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلا أَصْحَابَ سَفِينَتِنَا جَعْفَرٌ وَأَصْحَابُهُ فَأَسْهَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ۔
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱۵ (۳۱۳۶)، والمناقب ۳۷ (۳۸۷۶)، والمغازي ۳۸ (۴۲۳۰)، ت/السیر ۱۰ (۱۵۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۴۹)، وقد أخرجہ: م/فضائل الصحابۃ ۴۱ (۲۵۰۲)، حم (۴/۳۹۴، ۴۰۵، ۴۱۲) (صحیح)
۲۷۲۵- ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ( حبشہ سے) آئے اور رسول اللہ ﷺ سے فتح خیبرکے موقع پر ملے، آپ ﷺ نے ( مال غنیمت سے) ہمارے لئے حصہ لگایا، یا ہمیں اس میں سے دیا، اور جو فتح خیبر میں موجود نہیں تھے انہیں کچھ بھی نہیں دیا سوائے ان کے جو آپ کے ساتھ حاضر اور خیبر کی فتح میں شریک تھے، البتہ ہماری کشتی والوں کو یعنی جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان سب کے ساتھ حصہ دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو مال غنیمت میں سے آپ نے جو حصہ دیا اس کے سلسلہ میں کئی اقوال ہیں :
(۱) یہ حصہ آپ نے خمس سے دیا تھا، (۲) یہ لوگ تقسیم سے پہلے پہنچے تھے اس لئے انہیں منجملہ مال غنیمت سے دیا گیا، (۳) لشکر کی رضامندی سے ایسا کیا گیا (واللہ اعلم )۔


2726- حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ هَانِئِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَامَ -يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ- فَقَالَ: < إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ >، فَضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِسَهْمٍ وَلَمْ يَضْرِبْ لأَحَدٍ غَابَ غَيْرَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۸۴) (صحیح)
۲۷۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا:'' بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ۱؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں''، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے حصہ مقرر کیا اوران کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔
وضاحت ۱؎ : عثمان رضی اللہ عنہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے، کیونکہ آپ کی اہلیہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ہیں ان ایّام میں سخت بیمار تھیں اسی وجہ سے ان کی دیکھ ریکھ کے لئے انہیں رکنا پڑ گیا تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
152- بَاب فِي الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يُحْذَيَانِ مِنَ الْغَنِيمَةِ
۱۵۲-باب: عورت اور غلام کو مال غنیمت سے کچھ دینے کا بیان​


2727- حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ [عَنْ] كَذَا وَكَذَا، وَذَكَرَ أَشْيَاءَ، وَعَنِ الْمَمْلُوكِ: أَلَهُ فِي الْفَيْئِ شَيْئٌ؟ وَعَنِ النِّسَاءِ: هَلْ كُنَّ يَخْرُجْنَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ؟ وَهَلْ لَهُنَّ نَصِيبٌ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَوْلا أَنْ يَأْتِيَ أُحْمُوقَةً مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، أَمَّا الْمَمْلُوكُ فَكَانَ يُحْذَى، وَأَمَّا النِّسَاءُ فَقَدْ كُنَّ يُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيَسْقِينَ الْمَاءَ۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۸ (۱۸۱۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، ن/الفیٔ (۴۱۳۸)، حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷) (صحیح)
۲۷۲۷- یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ ۱؎ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا وہ ان سے فلاں فلاں چیزوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور بہت سی چیزوں کا ذکر کیا اور غلام کے بارے میں کہ (اگر جہاد میں جائے) تو کیا غنیمت میں اس کو حصہ ملے گا ؟ اور کیا عورتیں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد میں جاتی تھیں؟ کیا انہیں حصہ ملتا تھا؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ وہ احمقانہ حرکت کرے گا تومیں اس کو جواب نہ لکھتا( پھرانہوں نے اُسے لکھا: ) رہے غلام تو انہیں بطور انعام کچھ دے دیا جاتا تھا، (اور ان کا حصہ نہیں لگتا تھا )اور رہیں عورتیں تو وہ زخمیوں کاعلاج کرتیں اور پانی پلاتی تھیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: نجدہ حروری جو خوارج کا سردار تھا ۔


2728- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ -يَعْنِي الْوَهْبِيَّ- حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَالزُّهْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنِ النِّسَاءِ: هَلْ كُنَّ يَشْهَدْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟ قَالَ: فَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ: قَدْ كُنَّ يَحْضُرْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَمَّا أَنْ يُضْرَبَ لَهُنَّ بِسَهْمٍ فَلا، وَقَدْ كَانَ يُرْضَخُ لَهُنَّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷) (صحیح)
۲۷۲۸- یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ حروری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا، وہ عورتوں کے متعلق آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں جایا کرتی تھیں؟ اور کیا آپ ان کے لئے حصہ معتین کرتے تھے؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا خط میں نے ہی نجدہ کو لکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں حاضر ہوتی تھیں، رہی ان کے لئے حصہ کی بات تو ان کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہوتا تھا البتہ انہیں کچھ دے دیا جاتا تھا۔


2729- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ، قَالا: أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَافِعُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنِي حَشْرَجُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ أَبِيهِ أَنَّهَا خَرَجَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ سَادِسَ سِتِّ نِسْوَةٍ فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَبَعَثَ إِلَيْنَا، فَجِئْنَا فَرَأَيْنَا فِيهِ الْغَضَبَ، فَقَالَ: < مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِإِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟ > فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَرَجْنَا نَغْزِلُ الشَّعَرَ، وَنُعِينُ [بِهِ] فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَعَنَا دَوَاءُ الْجَرْحَى، وَنُنَاوِلُ السِّهَامَ، وَنَسْقِي السَّوِيقَ، فَقَالَ: < قُمْنَ > حَتَّى إِذَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ أَسْهَمَ لَنَا كَمَا أَسْهَمَ لِلرِّجَالِ، قَالَ: فقُلْتُ لَهَا: يَا جَدَّةُ، وَمَا كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَتْ: تَمْرًا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷۱، ۳۷۱) (ضعیف)
(اس کے رواۃ ''رافع'' اور''حشرج'' دونوں مجہول ہیں، اور بعض ائمہ کے نزدیک رافع لین الحدیث ہیں)
۲۷۲۹- حشرج بن زیاد اپنی دادی (ام زیاد اشجعیہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی جنگ میں نکلیں، یہ چھ عورتوں میں سے چھٹی تھیں، جب رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ہمیں بلا بھیجا، ہم آئے تو ہم نے آپ کو ناراض دیکھا، آپ ﷺ نے پوچھا: ''تم کس کے ساتھ نکلیں؟ اور کس کے حکم سے نکلیں؟''، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نکل کر بالوں کو بٹ رہی ہیں، اس سے اللہ کی راہ میں مدد پہنچائیں گے، ہمارے پاس زخمیوں کی دوا ہے، اور ہم مجاہدین کو تیر دیں گے، اور ستو گھول کر پلائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: '' اچھا چلو''، یہاں تک کہ جب خیبر فتح ہوا تو آپ ﷺ نے ہمیں بھی ویسے ہی حصہ دیا جیسے کہ مردوں کو دیا، حشرج بن زیاد کہتے ہیں: میں نے ان سے پوچھا:دادی! وہ حصہ کیا تھا؟ تو وہ کہنے لگیں: کچھ کھجوریں تھیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ضعیف روایت ہے اس سے استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ صحیح روایت کے مطابق جہاد میں شریک ہونے والی عورتوں کا مال غنیمت میں کوئی متعین حصہ نہیں ہے البتہ انہیں ایسے ہی کچھ دے دیا جاتا ہے ۔


2730- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ -يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرٌ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: شَهِدْتُ خَيْبَرَ مَعَ سَادَتِي فَكَلَّمُوا فِيَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَأَمَرَ بِي، فَقُلِّدْتُ سَيْفًا، فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ، فَأُخْبِرَ أَنِّي مَمْلُوكٌ، فَأَمَرَ لِي بِشَيْئٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ.
[قَالَ أَبو دَاود: مَعْنَاهُ أَنَّهُ لَمْ يُسْهِمْ لَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: كَانَ حَرَّمَ اللَّحْمَ عَلَى نَفْسِهِ فَسُمِّيَ آبِي اللَّحْمِ]۔
* تخريج: ت/السیر ۹ (۱۵۵۷)، ق/الجھاد ۳۷ (۲۸۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۳)، دي/ السیر ۳۵ (۲۵۱۸) (صحیح)
۲۷۳۰- محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ مجھ سے عمیر مولی آبی اللحم نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ میں جنگ خیبر میں اپنے مالکوں کے ساتھ گیا، انہوں نے میرے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ نے مجھے (ہتھیار پہننے اور مجاہدین کے ساتھ رہنے کا ) حکم دیا، چنانچہ میرے گلے میں ایک تلوار لٹکائی گئی تو میں اسے (اپنی کم سنی اور کوتاہ قامتی کی وجہ سے زمین پر) گھسیٹ رہا تھا، پھر آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ میں غلام ہوں تو آپ نے مجھے گھر کے سامانوں میں سے کچھ سامان دیئے جانے کا حکم دیا ۔
ابوداود کہتے ہیں:اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے لئے حصہ مقرر نہیں کیا، ابوداود کہتے ہیں :انہوں (آبی اللحم) نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا تھا، اسی وجہ سے ان کا نام آبی اللحم رکھ دیا گیا۔


2731- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمِيحُ أَصْحَابِي الْمَاءَ يَوْمَ بَدْرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۲۸) (صحیح)
۲۷۳۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بدر کے دن (پانی کم ہونے کی وجہ سے ) صحابہ کے لئے چلّو سے پانی کا ڈول بھر رہا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
153- بَاب فِي الْمُشْرِكِ يُسْهَمُ لَهُ
۱۵۳-باب: لڑائی میں مسلمانوں کے ساتھ مشرک ہو تو اس کو حصہ ملے گا یا نہیں؟​


2732- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَيَحْيَى بْنُ مَعِينٍ قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْفُضَيْلِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نِيَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَ يَحْيَى: إِنَّ رَجُلا مِنَ الْمُشْرِكِينَ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ ﷺ لِيُقَاتِلَ مَعَهُ، فَقَالَ: < ارْجِعْ > ثُمَّ اتَّفَقَا: فَقَالَ: < إِنَّا لا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ >۔
* تخريج: م/الجھاد ۵۱ (۱۸۱۷)، ت/السیر ۱۰ (۱۵۵۸)، ق/الجھاد ۲۷ (۲۸۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۶۷، ۱۴۸)، دي/السیر ۵۴ (۲۵۳۸) (صحیح)
۲۷۳۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مشرکوں میں سے ایک شخص نبی اکرم ﷺ سے آکر ملا تا کہ آپ کے ساتھ مل کر لڑائی کرے تو آپ ﷺ نے فرمایا :'' لوٹ جائو، ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
154- بَاب فِي سُهْمَانِ الْخَيْلِ
۱۵۴-باب: گھوڑے کے حصے کا بیان​


2733- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَسْهَمَ لِرَجُلٍ وَلِفَرَسِهِ ثَلاثَةَ أَسْهُمٍ: سَهْمًا لَهُ، وَسَهْمَيْنِ لِفَرَسِهِ.
* تخريج: ق/الجھاد ۳۶ (۲۸۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۱۱)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۵۱ (۲۸۶۳)، المغازي ۳۸ (۴۲۲۸)، م/الجھاد ۱۷ (۱۷۶۲)، ت/السیر ۶ (۱۵۵۴)، حم (۲/۲، ۶۲، ۷۲، ۸۰، ۱۴۳، ۱۵۲)، دي/السیر ۳۳ (۲۵۱۵) (صحیح)
۲۷۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آدمی اور اس کے گھوڑے کو تین حصہ دیا: ایک حصہ اس کا اور دو حصہ اس کے گھوڑے کا۔


2734- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أبو معاوية حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عَمْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَمَعَنَا فَرَسٌ، فَأَعْطَى كُلَّ إِنْسَانٍ مِنَّا سَهْمًا وَأَعْطَى لِلْفَرَسِ سَهْمَيْنِ ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، حم (۴/۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۷۲) (صحیح)
۲۷۳۴- ابو عمرہ کے والد عبدالرحمن بن ابی عمرہ انصاریرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم چار آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ہمارے ساتھ ایک گھوڑا تھا، تو آپ نے ہم میں سے ہر آدمی کو ایک ایک حصہ دیا، اور گھوڑے کو دو حصے دئے۔


2735- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، بِمَعْنَاهُ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: ثَلاثَةُ نَفَرٍ، زَادَ: فَكَانَ لِلْفَارِسِ ثَلاثَةُ أَسْهُمٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۷۲) (صحیح)
(پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے)
۲۷۳۵- اس سند سے بھی ابو عمرہ سے اسی حدیث کے ہم معنی مروی ہے مگر اس میں یہ ہے کہ ہم تین آدمی تھے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ سوار کو تین حصے ملے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
155- بَاب فِيمَنْ أَسْهَمَ لَهُ سَهْمًا
۱۵۵-باب: جس کے نزدیک گھوڑے کو ایک حصہ دینا چاہئے اس کی دلیل کا بیان​


2736- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَمِّعِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَعْقُوبَ بْنِ مُجَمِّعٍ يَذْكُرُ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَمِّهِ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيِّ -وَكَانَ أَحَدَ الْقُرَّاءِ الَّذِينَ قَرَئُوا الْقُرْآنَ- قَالَ: شَهِدْنَا الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا عَنْهَا إِذَا النَّاسُ يَهُزُّونَ الأَبَاعِرَ، فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: مَا لِلنَّاسِ؟ قَالُوا: أُوحِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَخَرَجْنَا مَعَ النَّاسِ نُوجِفُ، فَوَجَدْنَا النَّبِيَّ ﷺ وَاقِفًا عَلَى رَاحِلَتِهِ عِنْدَ كُرَاعِ، الْغَمِيمِ فَلَمَّا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ قَرَأَ عَلَيْهِمْ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَتْحٌ هُوَ؟ قَالَ: < نَعَمْ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّهُ لَفَتْحٌ > فَقُسِّمَتْ خَيْبَرُ عَلَى أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ، فَقَسَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا، وَكَانَ الْجَيْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ، فِيهِمْ ثَلاثُ مِائَةِ فَارِسٍ، فَأَعْطَى الْفَارِسَ سَهْمَيْنِ، وَأَعْطَى الرَّاجِلَ سَهْمًا.
قَالَ أَبو دَاود: حَدِيثُ أَبِي مُعَاوِيَةَ أَصَحُّ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ، وَأَرَى الْوَهْمَ فِي حَدِيثِ مُجَمِّعٍ [أَنَّهُ] قَالَ: ثَلاثَ مِائَةِ فَارِسٍ، وَكَانُوا مِائَتَيْ فَارِسٍ ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، حم (۳/۴۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۴)، ویأتی ہذا الحدیث فی الخراج (۳۰۱۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مجمع '' سے وہم ہو گیا ہے حالانکہ وہ صدوق ہیں)
۲۷۳۶- مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ ان قاریوں میں سے ایک تھے جو قرأت قرآن میں ماہر تھے، وہ کہتے ہیں: ہم صلح حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، جب ہم وہاں سے واپس لوٹے تو لوگ اپنی سواریوں کو حرکت دے رہے تھے، بعض نے بعض سے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کی گئی ہے تو ہم بھی لوگوں کے ساتھ ( اپنی سواریوں ) کو دوڑاتے اور ایڑ لگاتے ہوئے نکلے، ہم نے نبی اکرم ﷺ کو اپنی سواری پر کراع الغمیم ۱؎ کے پاس کھڑا پایا جب سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے{إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} پڑھی، تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہی فتح ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' ہاں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہی فتح ہے''، پھر خیبر کی جنگ میں جو مال آیا وہ صلح حدیبیہ کے لوگوں پر تقسیم ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اس مال کے اٹھارہ حصے کئے اور لشکر کے لوگ سب ایک ہزار پانچ سو تھے جن میں تین سو سوار تھے، آپ ﷺ نے سواروں کو دو حصے دئے اور پیدل والوں کو ایک حصہ۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو معاویہ کی حدیث(نمبر۳ ۲۷۳) زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے، اور میرا خیال ہے مجمع کی حدیث میں وہم ہوا ہے انہوں نے کہا ہے: تین سو سوار تھے حالانکہ دو سو سوار تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے ۔
وضاحت ۲؎ : گویا لشکر کی صحیح تعداد چودہ سو تھی جن میں دو سو سوار تھے، سواروں کو تین تین حصے دئے گئے اور پیدل والوں کو ایک حصہ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
156- بَاب فِي النَّفَلِ
۱۵۶-باب: نفل کا بیان ۱؎​


2737- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ بَدْرٍ: < مَنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا فَلَهُ مِنَ النَّفَلِ كَذَا وَكَذَا >، قَالَ: فَتَقَدَّمَ الْفِتْيَانُ وَلَزِمَ الْمَشْيَخَةُ الرَّايَاتِ فَلَمْ يَبْرَحُوهَا، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَالَ الْمَشْيَخَةُ: كُنَّا رِدْئًا لَكُمْ، لَوِ انْهَزَمْتُمْ لَفِئْتُمْ إِلَيْنَا، فَلا تَذْهَبُوا بِالْمَغْنَمِ وَنَبْقَى، فَأَبَى الْفِتْيَانُ وَقَالُوا: جَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ، قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ} إِلَى قَوْلِهِ: {كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ} يَقُولُ: فَكَانَ ذَلِكَ خَيْرًا لَهُمْ، فَكَذَلِكَ أَيْضًا فَأَطِيعُونِي فَإِنِّي أَعْلَمُ بِعَاقِبَةِ هَذَا مِنْكُمْ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۱) (صحیح)
۲۷۳۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن فرمایا :'' جس نے ایسا ایسا کیا اس کو بطور انعام اتنا اتنا ملے گا''، جوان لوگ آگے بڑھے اور بوڑھے جھنڈوں سے چمٹے رہے اس سے ہٹے نہیں، جب اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی تو بوڑھوں نے کہا: ہم تمہارے مددگار اور پشت پناہ تھے اگر تم کو شکست ہوتی تو تم ہماری ہی طرف پلٹتے، تو یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ غنیمت کا مال تم ہی اڑا لو، اور ہم یوں ہی رہ جائیں، جوانوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے اسے ہم کو دیا ہے، تب اللہ نے یہ آیت کر یمہ {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ، قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ} ۲؎ سے{كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ} تک نازل فرمائی، پھران کے لئے یہی بہتر ہوا، اسی طرح تم سب میری اطاعت کرو، کیوں کہ میں اس کے انجام کار کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔
وضاحت ۱ ؎ : امام اپنے اختیار سے مجاہدین کو غنیمت سے مقررہ حصہ کے سوا بطور تشجیع وہمت افزائی جوکچھ دیتا ہے اسے نفل کہا جاتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : ''یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو، بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈرجاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ صلاۃ کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی'' (سورۃ الانفال : ۱-۵)


2738- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ يَوْمَ بَدْرٍ: < مَنْ قَتَلَ قَتِيلا فَلَهُ كَذَا وَكَذَا، وَمَنْ أَسَرَ أَسِيرًا فَلَهُ كَذَا وَكَذَا >، ثُمَّ سَاقَ نَحْوَهُ، وَحَدِيثُ خَالِدٍ أَتَمُّ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۱) (صحیح)
۲۷۳۸- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر کے دن فرمایا:'' جو شخص کسی کافر کو مارے تو اس کے لئے اتنا اور اتنا( انعام) ہے، اور جو کسی کافر کو قید کرے اس کے لئے اتنا اور اتنا( انعام) ہے''، پھر آگے اسی حدیث کی طرح بیان کیا، اور خالد کی (یعنی : پچھلی حدیث) زیادہ کامل ہے۔


2739- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلالٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى [بْنُ زَكَرِيَّا] بْنِ أَبِي زَائِدَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي دَاوُدُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: فَقَسَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالسَّوَاءِ، وَحَدِيثُ خَالِدٍ أَتَمُّ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۲۷۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۱، ۱۵۶۵۸) (صحیح)
۲۷۳۹- اس سند بھی سے داود سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے اس میں ہے:'' رسول اللہ ﷺ نے اسے برابر برابر تقسیم کیا''، اور خالد کی حدیث (نمبر ۲۷۳۷) کامل ہے۔


2740- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يَوْمَ بَدْرٍ بِسَيْفٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَفَى صَدْرِي الْيَوْمَ مِنَ الْعَدُوِّ، فَهَبْ لِي هَذَا السَّيْفَ، قَالَ: < [إِنَّ] هَذَا السَّيْفَ لَيْسَ لِي وَلا لَكَ > فَذَهَبْتُ وَأَنَا أَقُولُ: يُعْطَاهُ الْيَوْمَ مَنْ لَمْ يُبْلِ بَلائِي، فَبَيْنَمَا أَنَا إِذْ جَائَنِي الرَّسُولُ، فَقَالَ: أَجِبْ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ نَزَلَ فِيَّ شَيْئٌ بِكَلامِي، فَجِئْتُ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ : < إِنَّكَ سَأَلْتَنِي هَذَا السَّيْفَ، وَلَيْسَ هُوَ لِي وَلالَكَ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ جَعَلَهُ لِي، فَهُوَ لَكَ>، ثُمَّ قَرَأَ: {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ، قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ.
قَالَ أَبو دَاود: قِرَائَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ يَسْأَلُونَكَ [عن] النَّفْلَ۔
* تخريج: م/الجھاد ۱۲ (۱۷۴۸)، ت/تفسیر الأنفال ۹ (۳۰۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۸، ۱۸۱، ۱۸۵) (حسن صحیح)
۲۷۴۰- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر کے دن نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک تلوار لے کر آیا اورعرض کیا: اللہ کے رسول! آج اللہ نے میرے سینے کو دشمنوں سے شفا دی، لہٰذا آپ مجھے یہ تلوار دے دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ تلوار نہ تو میری ہے نہ تمہاری ''، یہ سن کر میں چلا اور کہتا جاتا تھا: یہ تلوار آج ایسے شخص کو ملے گی جس نے مجھ جیسا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے، اسی دوران مجھے قاصد بلانے کے لئے آیا، اور کہا چلو، میں نے سوچا شاید میرے اس بات کے کہنے کی وجہ سے میرے سلسلے میں کچھ وحی نازل ہوئی ہے، چنانچہ میں آیا تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا:'' تم نے یہ تلوار مانگی جب کہ یہ تلوار نہ تو میری ہے نہ تمہاری، اب اسے اللہ نے مجھے عطا کر دیا ہے، لہٰذا(اب) یہ تمہاری ہے''، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ پوری پڑھی {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ، قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ}۔
ابو داود کہتے ہیں:عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت { يَسْأَلُونَكَ عَنِ النَّفْلِ }ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
157- بَاب فِي نَفْلِ السَّرِيَّةِ تَخْرُجُ مِنَ الْعَسْكَرِ
۱۵۷-باب: لشکر کے کسی ٹکڑے کو انعام میں کچھ زیادہ دینے کا بیان​


2741- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَنْطَاكِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَشَّرٌ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، الْمَعْنَى، كُلُّهُمْ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي جَيْشٍ قِبَلَ نَجْدٍ، وَانْبَعَثَتْ سَرِيَّةٌ مِنَ الْجَيْشِ، فَكَانَ سُهْمَانُ الْجَيْشِ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، [اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا]، وَنَفَّلَ أَهْلَ السَّرِيَّةِ بَعِيرًا بَعِيرًا، فَكَانَتْ سُهْمَانُهُمْ ثَلاثَةَ عَشَرَ ثَلاثَةَ عَشَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۷۹)، وقد أخرجہ: خ/فرض الخمس ۱۵ (۳۱۳۴)، والمغازي ۵۷ (۴۳۳۸)، م/الجھاد ۱۲ (۱۷۴۸)، ط/الجھاد ۶ (۱۵)، دي/السیر ۴۱ (۲۵۲۴) (صحیح)
۲۷۴۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نجد کی جانب ایک لشکر میں بھیجا اور اس لشکر کا ایک دستہ دشمن سے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا، پھر لشکر کے لوگوں کو بارہ بارہ اونٹ ملے اور دستہ کے لوگوں کو ایک ایک اونٹ بطور انعام زیادہ ملا تو ان کے حصہ میں تیرہ تیرہ اونٹ آئے۔


2742- حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: قَالَ الْوَلِيدُ -يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ-: حَدَّثْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قُلْتُ: وَكَذَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: لا تَعْدِلُ مَنْ سَمَّيْتَ بِمَالِكٍ، هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ، يَعْنِي مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۷۹) (صحیح)
۲۷۴۲- ولید بن مسلم کہتے ہیں: میں نے ابن مبارک سے یہی حدیث بیان کی، میں نے کہا: اور اسی طرح ہم سے ابن ابی فروہ نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ہے تو ابن مبارک نے کہا:جن کا نام تم نے لیا ہے وہ مالک کے برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح یا اس جیسی بات انہوں نے کہی، اس سے وہ امام مالک بن انس کو مراد لے رہے تھے۔


2743- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ [يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ الْكِلابِيَّ] عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَرِيَّةً إِلَى نَجْدٍ، فَخَرَجْتُ مَعَهَا، فَأَصَبْنَا نَعَمًا كَثِيرًا، فَنَفَّلَنَا أَمِيرُنَا بَعِيرًا بَعِيرًا لِكُلِّ إِنْسَانٍ، ثُمَّ قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَسَمَ بَيْنَنَا غَنِيمَتَنَا، فَأَصَابَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا بَعْدَ الْخُمُسِ، وَمَا حَاسَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالَّذِي أَعْطَانَا صَاحِبُنَا وَلا عَابَ عَلَيْهِ [بَعْدَ] مَا صَنَعَ، فَكَانَ لِكُلِّ [رَجُلٍ] مِنَّا ثَلاثَةَ عَشَرَ بَعِيرًا بِنَفْلِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۱۵) (صحیح)
۲۷۴۳- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ ۱؎ نجد کی جانب بھیجا، میں بھی اس کے ساتھ نکلا، ہمیں بہت سے اونٹ ملے، تو ہمارے دستہ کے سردار نے ایک ایک اونٹ ہم میں سے ہر شخص کو بطور انعام دیا، پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ نے ہمارے غنیمت کے مال کو ہم میں تقسیم کیا، تو ہر ایک کو ہم میں سے خمس کے بعد بارہ بارہ اونٹ ملے، اور وہ اونٹ جو ہمارے سردار نے دیا تھا، آپ ﷺ نے اس کو حساب میں شمار نہ کیا، اور نہ ہی آپ نے اس سردار کے عمل پر طعن کیا، تو ہم میں سے ہر ایک کو اس کے نفل سمیت تیرہ تیرہ اونٹ ملے۔
وضاحت ۱ ؎ : سریہ ایسی فوجی کاروائی جس میں رسول ﷺ نے شرکت نہیں فرمائی، اور غزوہ ایسی جنگ جس میں آپ نے شرکت فرمائی۔


2744- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ [الْقَعْنَبِيُّ] عَنْ مَالِكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ وَيَزِيدُ ابْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، الْمَعْنَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ سَرِيَّةً فِيهَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَغَنِمُوا إِبِلا كَثِيرَةً، فَكَانَتْ سُهْمَانُهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا، زَادَ ابْنُ مَوْهَبٍ: فَلَمْ يُغَيِّرْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/ الخمس ۱۵ (۳۱۳۴)، م/ الجہاد ۱۲ (۱۷۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۹۳، ۸۳۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۲، ۱۱۲، ۱۵۶)، ط/ الجہاد ۶ (۱۵)، دی السیر ۴ (۲۵۲۴) (صحیح)
۲۷۴۴- اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک سریہ بھیجا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، ان لوگوں کو غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے، ان میں سے ہر ایک کے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے، اور ایک ایک اونٹ انہیں بطور نفل(انعام) دئے گئے ۔
ابن موہب کی روایت میں یہ اضافہ ہے: تو رسول اللہ ﷺ نے اس تقسیم کو بدلا نہیں۔


2745- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ، فَبَلَغَتْ سُهْمَانُنَا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعِيرًا بَعِيرًا.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَ حَدِيثِ عُبَيْدِاللَّهِ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَهُ إِلاأَنَّهُ قَالَ: وَنُفِّلْنَا بَعِيرًا بَعِيرًا، لَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ ﷺ ۔
* تخريج: م/ الجہاد ۱۲ (۱۷۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۵) (صحیح)
۲۷۴۵- اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، تو ہمارے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے، اور ایک ایک اونٹ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بطور انعام دیا۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے برد بن سنان نے نافع سے عبیداللہ کی حدیث کے ہم مثل روایت کیا ہے اور اسے ایوب نے بھی نافع سے اسی کے مثل روایت کیا، مگر اس میں یہ ہے کہ ہمیں ایک ایک اونٹ بطور نفل دئے گئے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے۔


2746- حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي (ح) وَحَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي حُجَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ كَانَ يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةَ النَّفَلِ سِوَى قَسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ، وَالْخُمُسُ فِي ذَلِكَ وَاجِبٌ كُلِّهُ۔
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱۵ (۳۱۳۵)، م/الجھاد ۱۲ (۱۷۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۰) (صحیح)
۲۷۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن سریوں کو بھیجتے انہیں عام لشکر کی تقسیم کے علاوہ بطور نفل خاص طور سے کچھ دیتے تھے اور خمس ان تمام میں واجب ہوتا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پہلے پورے مال میں سے خمس نکالتے پھر انعام کچھ دینا ہوتا دیتے پھر باقی عام لشکر میں برابر تقسیم کرتے ۔


2747- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُيَيٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَرَجَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي ثَلاثِ مِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمُ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمُ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ >، فَفَتَحَ اللَّهُ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ، فَانْقَلَبُوا حِينَ انْقَلَبُوا وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلا [وَ]قَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْجَمَلَيْنِ، وَاكْتَسَوْا، وَشَبِعُوا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۵۹) (حسن)
۲۷۴۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے دن تین سو پندرہ افراد کے ہم راہ نکلے تو آپ نے یہ دعا فرمائی :''اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمُ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمُ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ'' ( اے اللہ! یہ لوگ پیدل ہیں تو ان کو سوار کردے، اے اللہ! یہ لوگ ننگے ہیں ان کو کپڑا دے دے، اے اللہ! یہ لوگ بھوکے ہیں ان کو آسودہ کر دے)، پھر اللہ نے بدر کے دن انہیں فتح دی، جب وہ لوٹے تو کوئی بھی آدمی ان میں سے ایسا نہ تھا جو ایک یا دو اونٹ لے کر نہ آیا ہو، اور ان کے پاس کپڑے بھی ہو گئے اور وہ آسودہ بھی ہو گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
158- بَاب فِيمَنْ قَالَ الْخُمُسُ قَبْلَ النَّفْلِ
۱۵۸-باب: مالِ غنیمت میں سے نفل (انعام ) دینے سے پہلے خمس (پانچویں حصہ) نکالا جائے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان​


2748- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ الشَّامِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جَارِيَةَ التَّمِيمِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُنَفِّلُ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ۔
* تخريج: ق/الجھاد ۳۵ (۲۸۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۹،۱۶۰)، دي/السیر ۴۳ (۲۵۲۶) (صحیح)


۲۷۴۸- حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (مالِ غنیمت میں سے ) خمس (پانچواں حصہ) نکالنے کے بعد ثلث (ایک تہائی) بطور نفل (انعام) دیتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پہلے کل مال میں سے خمس(پانچواںحصہ) نکال لیتے پھر باقی میں سے ایک تہائی انعام میں دیتے اور دو تہائی بانٹ دیتے۔


2749- حَدَّثَنَا عبدُاللَّهِ بْنُ عَمْرو بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنِ ابْنِ جَارِيَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُنَفِّلُ الرُّبْعَ بَعْدَ الْخُمُسِ، وَالثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ، إِذَا قَفَلَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۳) (صحیح)
۲۷۴۹- حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خمس نکالنے کے بعد ربع (ایک چوتھائی) بطور نفل دیتے تھے (ابتدا جہاد میں ) اور جب جہاد سے لوٹ آتے(اور پھر ان میں سے کوئی گروہ کفار سے لڑتا) تو خمس نکالنے کے بعد ایک تہائی بطور نفل دیتے۔


2750- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ وَمَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيَّانِ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَهْبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ مَكْحُولا يَقُولُ: كُنْتُ عَبْدًا بِمِصْرَ لامْرَأَةٍ مِنْ بَنِي هُذَيْلٍ فَأَعْتَقَتْنِي، فَمَا خَرَجْتُ مِنْ مِصْرَ وَبِهَا عِلْمٌ إِلا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الْحِجَازَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الْعِرَاقَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الشَّامَ فَغَرْبَلْتُهَا، كُلُّ ذَلِكَ أَسْأَلُ عَنِ النَّفَلِ، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُخْبِرُنِي فِيهِ بِشَيْئٍ، حَتَّى لَقِيتُ شَيْخًا يُقَالُ لَهُ زِيَادُ بْنُ جَارِيَةَ التَّمِيمِيُّ، فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ سَمِعْتَ فِي النَّفَلِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ حَبِيبَ بْنَ مَسْلَمَةَ [الْفِهْرِيَّ] يَقُولُ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ ﷺ نَفَّلَ الرُّبُعَ فِي الْبَدْأَةِ، وَالثُّلُثَ فِي الرَّجْعَةِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۷۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۳) (صحیح)
۲۷۵۰- مکحول کہتے ہیں: میں مصر میں قبیلہ بنو ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے مجھے آزاد کر دیا، تو میں مصر سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں حجاز آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ جتنا علم وہاں تھا اپنے خیال کے مطابق حاصل نہیں کر لیا، پھر عراق آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں شام آیا تو اسے بھی اچھی طرح چھان مارا، ہر شخص سے میں نفل کا حال پوچھتا تھا، میں نے کسی کو نہیں پایا جو اس سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کرے، یہاں تک کہ میں ایک شیخ سے ملا جن کا نام زیاد بن جاریہ تمیمی تھا، میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے نفل کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ کہا : ہاں ! میں نے حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھا آپ ﷺ نے ابتدا میں ایک چوتھائی بطور نفل دیا اور لوٹ آنے کے بعد ( پھر حملہ کرنے پر) ۱؎ ایک تہائی بطور نفل دیا۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ لوٹ آنے کے بعد پھر لڑنے کے لئے جانا سخت اور دشوار عمل ہے کیونکہ دشمن چوکنا اور محتاط ہو جاتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
159- بَاب فِي السَّرِيَّةِ تَرُدُّ عَلَى أَهْلِ الْعَسْكَرِ
۱۵۹-باب: اس فوجی دستہ کا بیان جو واپس لوٹ کر لشکر میں مل جائے​


2751- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ [هُوَ مُحَمَّدٌ] بِبَعْضِ هَذَا (ح) وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ [بْنِ مَيْسَرَةَ]، حَدَّثَنِي هُشَيْمٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، جَمِيعًا عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ: يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، يَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ، وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ، لا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ >، وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنُ إِسْحَاقَ الْقَوَدَ وَالتَّكَافُؤَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وأعاد بعض المؤلف فی الدیات (۴۵۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۸۶، ۸۸۱۵)، وقد أخرجہ: ق/الدیات ۳۱ (۲۶۸۵) (حسن صحیح)
۲۷۵۱- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' مسلمانوں کے خون برابر ہیں ۱؎ ان میں سے ادنیٰ شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہوگی، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے (گرچہ اس سے نز دیک والا مو جود ہو)اور وہ اپنے مخالفوں کے لئے ایک ہاتھ کی طرح ہیں ۲؎ جس کی سواریاں زور آور اور تیز رو ہوں وہ (غنیمت کے مال میں ) اس کے برابر ہوگا جس کی سواریاں کمزور ہیں، اور لشکر میں سے کوئی سریہ نکل کر مال غنیمت حاصل کرے تو لشکر کے باقی لوگوں کو بھی اس میں شریک کرے، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو'' ۔
ابن اسحاق نے '' القَوَدُ'' ۳؎ اور ''التَّكَاْفُؤْ'' کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی شریف اور رذیل کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوں گے ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور سب مل کر غیروں کا مقابلہ کریں گے۔
وضاحت۳؎ : اس سے مراد ''لا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَاْفِرٍ'' کا جملہ ہے ۔


2752- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَغَارَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ عَلَى إِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَتَلَ رَاعِيَهَا، فَخَرَجَ يَطْرُدُهَا هُوَ وَأُنَاسٌ مَعَهُ فِي خَيْلٍ، فَجَعَلْتُ وَجْهِي قِبَلَ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ نَادَيْتُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ: يَاصَبَاحَاهُ، ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ فَجَعَلْتُ أَرْمِي وَأَعْقِرُهُمْ، فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى مَاخَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ ظَهْرِ النَّبِيِّ ﷺ إِلا جَعَلْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي، وَحَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاثِينَ رُمْحًا وَثَلاثِينَ بُرْدَةً يَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا، ثُمَّ أَتَاهُمْ عُيَيْنَةُ مَدَدًا فَقَالَ: لِيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ، فَقَامَ إِلَيَّ أَرْبَعَةٌ [مِنْهُمْ] فَصَعِدُوا الْجَبَلَ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمْ قُلْتُ: أَتَعْرِفُونِي؟ قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ، وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ ﷺ لا يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ فَيُدْرِكُنِي، وَلا أَطْلُبُهُ فَيَفُوتُنِي، فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَظَرْتُ [إِلَى] فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ أَوَّلُهُمُ الأَخْرَمُ الأَسَدِيُّ فَيَلْحَقُ بِعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عُيَيْنَةَ وَيَعْطِفُ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ، فَعَقَرَ الأَخْرَمُ عَبْدَالرَّحْمَنِ وَطَعَنَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ، فَتَحَوَّلَ عَبْدُالرَّحْمَنِ عَلَى فَرَسِ الأَخْرَمِ، فَيَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِالرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ فَعَقَرَ بِأَبِي قَتَادَةَ وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ، فَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الأَخْرَمِ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي جَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ ذُو قَرَدٍ، فَإِذَا نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ فِي خَمْسِ مِائَةٍ، فَأَعْطَانِي سَهْمَ الْفَارِسِ وَالرَّاجِلِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۲۷)، وقد أخرجہ: م/الجھاد ۴۵ (۱۸۰۶)، حم (۴/۴۸) (حسن صحیح)
۲۷۵۲- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عیینہ نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کو لوٹ لیا، آپ کے چرواہے کو مار ڈالا، اور اونٹوں کو ہانکتا ہوا وہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگ جو گھوڑوں پر سوار تھے چلے، تو میں نے اپنا رخ مدینہ کی طرف کیا، اور تین بار پکار کر کہا ''يَا صَبَاْحَاْه'' (اے صبح کا حملہ) ۱؎ ، اس کے بعد میں لٹیروں کے پیچھے چلا، ان کو تیر مارتا اور زخمی کرتا جاتا تھا، جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف پلٹتا تو میں کسی درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سارے اونٹوں کو میں نے اپنے پیچھے کردیا، انہوں نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لئے تیس سے زائد نیزے اور تیس سے زیادہ چادریں نیچے پھینک دیں، اتنے میں عیینہ ان کی مدد کے لئے آپہنچا، اور اس نے کہا: تم میں سے چند آدمی اس شخص کی طرف (یعنی سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ ) کی طرف جائیں (اور اسے قتل کردیں) چنانچہ ان میں سے چار آدمی میری طرف آئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے، جب اتنے فاصلہ پر ہوئے کہ میں ان کو اپنی آواز پہنچا سکوں تو میں نے کہا: تم مجھے پہچانتے ہو، انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں اکوع کا بیٹا ہوں، قسم اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کو بزرگی عنایت کی، تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا چاہے تو کبھی نہ پکڑ سکے گا، اور میں جس کو چاہوں گا وہ بچ کر جا نہ سکے گا، پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے بیچ سے چلے آرہے ہیں، ان میں سب سے آگے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ تھے، وہ عبدالرحمن بن عیینہ فزاری سے جاملے، عبدالرحمن نے ان کو دیکھا تو دونوں میں بھالا چلنے لگا، اخرم رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور عبدالرحمن نے اخرم رضی اللہ عنہ کو مار ڈالا، پھر عبدالرحمن اخرم رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر سوار ہوگیا، اس کے بعد ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن کو جا لیا، دونوں میں بھالا چلنے لگا، تو اس نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن کو مار ڈالا، پھر ابو قتادہ اخرم کے گھوڑے پر سوار ہوگئے، اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آگیا، آپ ذو قرد نامی چشمے پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا تو دیکھتا ہوں کہ آپ پانچ سو آدمیوں کے ساتھ موجود ہیں، آپ نے مجھے سوار اور پیدل دونوں کا حصہ دیا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''يا صباحاه'': یہ وہ کلمہ ہے جسے عام طورسے فریادی کہا کرتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : تو تین حصے دیئے یا چار، انہوں نے کام ہی ایسا کیا تھا کہ جو بہت سے آدمیوں سے نہ ہوتا، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ''سواروں میں آج سب سے بہتر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ہیں، اور پیادوں میں سب سے بہتر سلمہ بن الاکوع ہیں''، پھر سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے عضباء نامی اونٹی پر بیٹھا لیا، اور مدینے تک اسی طرح آئے۔
آپ ﷺ نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کو ایک سوار کا حصہ دیا، اور ایک پیدل کا، اس میں دو احتمال ہے: ایک یہ کہ چار حصے دیئے، دوسرے یہ کہ تین حصے دئیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوار کے حصہ میں اختلاف ہے، جن لوگوں کے نزدیک سوار کے تین حصے ہیں، ایک حصہ خود اس کا، دوحصہ اس کے گھوڑے کا، اور جن کے نزدیک سوار کے دو حصے ہیں، ایک حصہ اس کا، اور ایک حصہ اس کے گھوڑے کا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
160- بَاب فِي النَّفْلِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمِنْ أَوَّلِ مَغْنَمٍ
۱۶۰-باب: سونے، چاندی اور مالِ غنیمت سے نفل (انعام) دینے کا بیان​


2753- حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ الْجَرْمِيِّ قَالَ: أَصَبْتُ بِأَرْضِ الرُّومِ جَرَّةً حَمْرَاءَ فِيهَا دَنَانِيرُ فِي إِمْرَةِ مُعَاوِيَةَ وَعَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ يُقَالُ لَهُ مَعْنُ بْنُ يَزِيدَ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَأَعْطَانِي مِنْهَا مِثْلَ مَا أَعْطَى رَجُلا مِنْهُمْ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا نَفْلَ إِلا بَعْدَ الْخُمُسِ > لأَعْطَيْتُكَ، ثُمَّ أَخَذَ يَعْرِضُ عَلَيَّ مِنْ نَصِيبِهِ فَأَبَيْتُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۰) (صحیح)
۲۷۵۳- ابو جویریہ جرمی کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں روم کی سر زمین میں مجھے ایک سرخ رنگ کا گھڑا ملا جس میں دینا ر تھے ۱؎ ، اس وقت قبیلہ ٔبنو سلیم کے ایک شخص جو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے، ہمارے اوپر حاکم تھے، ان کو معن بن یزید کہا جاتا تھا، میں اُسے ان کے پاس لایا، انہوں نے ان دیناروں کو مسلمانوں میں بانٹ دیا اور مجھ کو اس میں سے اتنا ہی دیا جتنا ہر شخص کو دیا، پھر کہا : اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہتے سنا نہ ہوتا کہ نفل خمس ۲؎ نکالنے کے بعد ہی ہے تو میں تمہیں اوروں سے زیادہ دیتا، پھر وہ اپنے حصہ سے مجھے دینے لگے تو میں نے لینے سے انکار کیا۔
وضاحت ۱؎ : دشمن سے جو مال جہاد میں حاصل ہوتا ہے اسے غنیمت کہتے ہیں، غنیمت میں چار حصے غازیوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں، اور ایک حصہ امام رکھ لیتا ہے، امام کو اختیار ہے کہ لشکر میں سے کسی خاص جماعت یا کسی خاص شخص کو کسی خاص کام کے سلسلے میں بطور انعام کچھ زیادہ دے دے، اسے نفل کہتے ہیں، یہ لشکر جو نجد کی طرف گیا تھا اس میں چار ہزار آدمی تھے، ہر ایک کے حصہ میں بارہ اونٹ آئے، لیکن پندرہ آدمیوں کی ایک ٹکڑی کو جن میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے، ایک ایک اونٹ بطور نفل زیادہ دیا۔
وضاحت ۲؎ : یہ غنیمت کا مال نہیں ہے جسے کافروں سے لڑ کر چھینا گیا ہو، بلکہ یہ فیٔ کا مال ہے جس میں خمس نہیں ہوتا لہٰذا اس میں نفل بھی نہیں ہو گا۔


2754- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۴) (صحیح)
۲۷۵۴- اس سند سے بھی عاصم بن کلیب سے اسی طریق سے اور اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
 
Top