- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,587
- ری ایکشن اسکور
- 6,767
- پوائنٹ
- 1,207
152- بَاب فِي الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يُحْذَيَانِ مِنَ الْغَنِيمَةِ
۱۵۲-باب: عورت اور غلام کو مال غنیمت سے کچھ دینے کا بیان
2727- حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ [عَنْ] كَذَا وَكَذَا، وَذَكَرَ أَشْيَاءَ، وَعَنِ الْمَمْلُوكِ: أَلَهُ فِي الْفَيْئِ شَيْئٌ؟ وَعَنِ النِّسَاءِ: هَلْ كُنَّ يَخْرُجْنَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ؟ وَهَلْ لَهُنَّ نَصِيبٌ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَوْلا أَنْ يَأْتِيَ أُحْمُوقَةً مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، أَمَّا الْمَمْلُوكُ فَكَانَ يُحْذَى، وَأَمَّا النِّسَاءُ فَقَدْ كُنَّ يُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيَسْقِينَ الْمَاءَ۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۸ (۱۸۱۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، ن/الفیٔ (۴۱۳۸)، حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷) (صحیح)
۲۷۲۷- یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ ۱؎ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا وہ ان سے فلاں فلاں چیزوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور بہت سی چیزوں کا ذکر کیا اور غلام کے بارے میں کہ (اگر جہاد میں جائے) تو کیا غنیمت میں اس کو حصہ ملے گا ؟ اور کیا عورتیں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد میں جاتی تھیں؟ کیا انہیں حصہ ملتا تھا؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ وہ احمقانہ حرکت کرے گا تومیں اس کو جواب نہ لکھتا( پھرانہوں نے اُسے لکھا: ) رہے غلام تو انہیں بطور انعام کچھ دے دیا جاتا تھا، (اور ان کا حصہ نہیں لگتا تھا )اور رہیں عورتیں تو وہ زخمیوں کاعلاج کرتیں اور پانی پلاتی تھیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: نجدہ حروری جو خوارج کا سردار تھا ۔
2728- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ -يَعْنِي الْوَهْبِيَّ- حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَالزُّهْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنِ النِّسَاءِ: هَلْ كُنَّ يَشْهَدْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟ قَالَ: فَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ: قَدْ كُنَّ يَحْضُرْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَمَّا أَنْ يُضْرَبَ لَهُنَّ بِسَهْمٍ فَلا، وَقَدْ كَانَ يُرْضَخُ لَهُنَّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷) (صحیح)
۲۷۲۸- یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ حروری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا، وہ عورتوں کے متعلق آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں جایا کرتی تھیں؟ اور کیا آپ ان کے لئے حصہ معتین کرتے تھے؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا خط میں نے ہی نجدہ کو لکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں حاضر ہوتی تھیں، رہی ان کے لئے حصہ کی بات تو ان کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہوتا تھا البتہ انہیں کچھ دے دیا جاتا تھا۔
2729- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ، قَالا: أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَافِعُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنِي حَشْرَجُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ أَبِيهِ أَنَّهَا خَرَجَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ سَادِسَ سِتِّ نِسْوَةٍ فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَبَعَثَ إِلَيْنَا، فَجِئْنَا فَرَأَيْنَا فِيهِ الْغَضَبَ، فَقَالَ: < مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِإِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟ > فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَرَجْنَا نَغْزِلُ الشَّعَرَ، وَنُعِينُ [بِهِ] فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَعَنَا دَوَاءُ الْجَرْحَى، وَنُنَاوِلُ السِّهَامَ، وَنَسْقِي السَّوِيقَ، فَقَالَ: < قُمْنَ > حَتَّى إِذَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ أَسْهَمَ لَنَا كَمَا أَسْهَمَ لِلرِّجَالِ، قَالَ: فقُلْتُ لَهَا: يَا جَدَّةُ، وَمَا كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَتْ: تَمْرًا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷۱، ۳۷۱) (ضعیف)
(اس کے رواۃ ''رافع'' اور''حشرج'' دونوں مجہول ہیں، اور بعض ائمہ کے نزدیک رافع لین الحدیث ہیں)
۲۷۲۹- حشرج بن زیاد اپنی دادی (ام زیاد اشجعیہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی جنگ میں نکلیں، یہ چھ عورتوں میں سے چھٹی تھیں، جب رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ہمیں بلا بھیجا، ہم آئے تو ہم نے آپ کو ناراض دیکھا، آپ ﷺ نے پوچھا: ''تم کس کے ساتھ نکلیں؟ اور کس کے حکم سے نکلیں؟''، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نکل کر بالوں کو بٹ رہی ہیں، اس سے اللہ کی راہ میں مدد پہنچائیں گے، ہمارے پاس زخمیوں کی دوا ہے، اور ہم مجاہدین کو تیر دیں گے، اور ستو گھول کر پلائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: '' اچھا چلو''، یہاں تک کہ جب خیبر فتح ہوا تو آپ ﷺ نے ہمیں بھی ویسے ہی حصہ دیا جیسے کہ مردوں کو دیا، حشرج بن زیاد کہتے ہیں: میں نے ان سے پوچھا:دادی! وہ حصہ کیا تھا؟ تو وہ کہنے لگیں: کچھ کھجوریں تھیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ضعیف روایت ہے اس سے استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ صحیح روایت کے مطابق جہاد میں شریک ہونے والی عورتوں کا مال غنیمت میں کوئی متعین حصہ نہیں ہے البتہ انہیں ایسے ہی کچھ دے دیا جاتا ہے ۔
2730- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ -يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرٌ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: شَهِدْتُ خَيْبَرَ مَعَ سَادَتِي فَكَلَّمُوا فِيَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَأَمَرَ بِي، فَقُلِّدْتُ سَيْفًا، فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ، فَأُخْبِرَ أَنِّي مَمْلُوكٌ، فَأَمَرَ لِي بِشَيْئٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ.
[قَالَ أَبو دَاود: مَعْنَاهُ أَنَّهُ لَمْ يُسْهِمْ لَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: كَانَ حَرَّمَ اللَّحْمَ عَلَى نَفْسِهِ فَسُمِّيَ آبِي اللَّحْمِ]۔
* تخريج: ت/السیر ۹ (۱۵۵۷)، ق/الجھاد ۳۷ (۲۸۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۳)، دي/ السیر ۳۵ (۲۵۱۸) (صحیح)
۲۷۳۰- محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ مجھ سے عمیر مولی آبی اللحم نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ میں جنگ خیبر میں اپنے مالکوں کے ساتھ گیا، انہوں نے میرے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ نے مجھے (ہتھیار پہننے اور مجاہدین کے ساتھ رہنے کا ) حکم دیا، چنانچہ میرے گلے میں ایک تلوار لٹکائی گئی تو میں اسے (اپنی کم سنی اور کوتاہ قامتی کی وجہ سے زمین پر) گھسیٹ رہا تھا، پھر آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ میں غلام ہوں تو آپ نے مجھے گھر کے سامانوں میں سے کچھ سامان دیئے جانے کا حکم دیا ۔
ابوداود کہتے ہیں:اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے لئے حصہ مقرر نہیں کیا، ابوداود کہتے ہیں :انہوں (آبی اللحم) نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا تھا، اسی وجہ سے ان کا نام آبی اللحم رکھ دیا گیا۔
2731- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمِيحُ أَصْحَابِي الْمَاءَ يَوْمَ بَدْرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۲۸) (صحیح)
۲۷۳۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بدر کے دن (پانی کم ہونے کی وجہ سے ) صحابہ کے لئے چلّو سے پانی کا ڈول بھر رہا تھا۔