- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
151- بَاب فِيمَنْ جَاءَ بَعْدَ الْغَنِيمَةِ لا سَهْمَ لَهُ
۱۵۱-باب: جو شخص مالِ غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا
2723- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ عَنْبَسَةَ بْنَ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ أَبَانَ بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَلَى سَرِيَّةٍ مِنَ الْمَدِينَةِ قِبَلَ نَجْدٍ، فَقَدِمَ أَبَانُ ابْنُ سَعِيدٍ وَأَصْحَابُهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِخَيْبَرَ بَعْدَ أَنْ فَتَحَهَا، وَإِنَّ حُزُمَ خَيْلِهِمْ لِيفٌ، فَقَالَ أَبَانُ: اقْسِمْ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: لا تَقْسِمْ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ أَبَانُ: أَنْتَ بِهَا يَا وَبْرُ تَحَدَّرُ عَلَيْنَا مِنْ رَأْسِ ضَالٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <اجْلِسْ يَا أَبَانُ>، وَلَمْ يَقْسِمْ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۲۸ (۲۸۲۷)، والمغازي ۳۸ (۴۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۰) (صحیح)
۲۷۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سعید بن عاص رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابان بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہما کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک سریّہ کا سردار بنا کر بھیجا تو ابان بن سعید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب کہ آپ خیبر فتح کر چکے تھے، ان کے گھوڑوں کے زِین کھجور کی چھال کے تھے، تو ابان نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے لئے بھی حصہ لگائیے، ابو ہریرہ کہتے: ہیں اس پر میں نے کہا:اللہ کے رسول! ان کے لئے حصہ نہ لگائیے، ابان نے کہا: تو ایسی باتیں کرتا ہے اے وبر! ۱؎ جو ابھی ہمارے پاس ضال پہاڑ کی چوٹی سے اتر کے آرہا ہے ۲؎ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ابان تم بیٹھ جائو''، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا حصہ نہیں لگایا۔
وضاحت ۱؎ : بلی کے مشابہ ایک چھوٹا سا وحشی جانور ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس جملہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تحقیر اور انہیں یہ بتانا مقصود ہے کہ ابھی تم اس مقام اور مرتبہ کو نہیں پہنچے ہوکہ رسول اللہ ﷺ کو کسی کو دینے یا نہ دینے کا مشورہ دو۔
2724- حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، وَسَأَلَهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، فَحَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَنْبَسَةَ بْنَ سَعِيدٍ الْقُرَشِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِخَيْبَرَ حِينَ افْتَتَحَهَا، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُسْهِمَ لِي، فَتَكَلَّمَ بَعْضُ وُلْدِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ: لا تُسْهِمْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ: يَا عَجَبًا لِوَبْرٍ [قَدْ] تَدَلَّى عَلَيْنَا مِنْ قَدُومِ ضَالٍ، يُعَيِّرُنِي بِقَتْلِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَكْرَمَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى يَدَيَّ وَلَمْ يُهِنِّي عَلَى يَدَيْهِ.
[قَالَ أَبو دَاود: هَؤُلاءِ كَانُوا نَحْوَ عَشَرَةٍ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سِتَّةٌ وَرَجَعَ مَنْ بَقِيَ]۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۰) (صحیح)
۲۷۲۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ اس وقت آیا جب خیبر فتح ہوا، رسول اللہ ﷺ خیبر میں تھے، میں نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے بھی حصہ دیجئے ۱؎ تو سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے لڑکوں میں سے کسی نے کہا:اللہ کے رسول! اسے حصہ نہ دیجئے، تو میں نے کہا: ابن قوقل کا قاتل یہی ہے، تو سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: تعجب ہے ایک وبر پر جو ہمارے پاس ضال کی چوٹی سے اتر کرآیا ہے مجھے ایک مسلمان کے قتل پر عار دلاتا ہے جسے اللہ نے میرے ہاتھوں عزت دی اور اس کے ہاتھ سے مجھ کو ذلیل نہیں کیا ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ لوگ نو یا دس افراد تھے جن میں سے چھ شہید کر دئے گئے اور باقی واپس آئے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے پہلی والی حدیث میں ہے کہ ابان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لئے حصہ لگائیں اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے حصہ لگانے کی درخواست کی تھی دونوں حدیثوں میں بظاہرتعارض ہے صحیح یہ ہے کہ دونوں ہی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے لئے حصہ لگانے کی درخواست کی تھی، اور اپنے اپنے نظریہ کے مطابق دوسرے کو نہ دینے کا مشورہ دیا تھا، ابانرضی اللہ عنہ کو اس لئے کہ ابن قوقل رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا تھا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس لئے کہ ابھی مسلمان ہوئے تھے۔
وضاحت ۲؎ : انہوں نے ابن قوقل رضی اللہ عنہ کو اُس وقت قتل کیا تھا جب وہ کافر تھے، ابن قوقل کو اس قتل کی وجہ سے شہادت کی عزت ملی، اس وقت ابن قوقل رضی اللہ عنہ نے اگر ابان بن سعید کو قتل کردیا ہوتا تو وہ جہنم میں ڈالے جاتے اور ذلیل ہوتے، لیکن اللہ نے ایمان کی دولت دے کر انہیں اس ذلت سے بچا دیا ۔
2725- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَدِمْنَا فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا، أَوْ قَالَ: فَأَعْطَانَا مِنْهَا، وَمَا قَسَمَ لأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا إِلا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلا أَصْحَابَ سَفِينَتِنَا جَعْفَرٌ وَأَصْحَابُهُ فَأَسْهَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ۔
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱۵ (۳۱۳۶)، والمناقب ۳۷ (۳۸۷۶)، والمغازي ۳۸ (۴۲۳۰)، ت/السیر ۱۰ (۱۵۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۴۹)، وقد أخرجہ: م/فضائل الصحابۃ ۴۱ (۲۵۰۲)، حم (۴/۳۹۴، ۴۰۵، ۴۱۲) (صحیح)
۲۷۲۵- ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ( حبشہ سے) آئے اور رسول اللہ ﷺ سے فتح خیبرکے موقع پر ملے، آپ ﷺ نے ( مال غنیمت سے) ہمارے لئے حصہ لگایا، یا ہمیں اس میں سے دیا، اور جو فتح خیبر میں موجود نہیں تھے انہیں کچھ بھی نہیں دیا سوائے ان کے جو آپ کے ساتھ حاضر اور خیبر کی فتح میں شریک تھے، البتہ ہماری کشتی والوں کو یعنی جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان سب کے ساتھ حصہ دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو مال غنیمت میں سے آپ نے جو حصہ دیا اس کے سلسلہ میں کئی اقوال ہیں :
(۱) یہ حصہ آپ نے خمس سے دیا تھا، (۲) یہ لوگ تقسیم سے پہلے پہنچے تھے اس لئے انہیں منجملہ مال غنیمت سے دیا گیا، (۳) لشکر کی رضامندی سے ایسا کیا گیا (واللہ اعلم )۔
2726- حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ هَانِئِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَامَ -يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ- فَقَالَ: < إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ >، فَضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِسَهْمٍ وَلَمْ يَضْرِبْ لأَحَدٍ غَابَ غَيْرَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۸۴) (صحیح)
۲۷۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا:'' بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ۱؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں''، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے حصہ مقرر کیا اوران کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔
وضاحت ۱؎ : عثمان رضی اللہ عنہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے، کیونکہ آپ کی اہلیہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ہیں ان ایّام میں سخت بیمار تھیں اسی وجہ سے ان کی دیکھ ریکھ کے لئے انہیں رکنا پڑ گیا تھا ۔