- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
171- بَاب فِي الإِذْنِ فِي الْقُفُولِ بَعْدَ النَّهْيِ
۱۷۱-باب: پہلے جہاد سے لوٹ آنا منع تھا بعد میں اس کی اجازت ہوگئی
2771- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: { لا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ} الآيَةَ، نَسَخَتْهَا الَّتِي فِي النُّورِ: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ} إِلَى قَوْلِهِ: {غَفُورٌ رَحِيمٌ}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۷) (حسن)
۲۷۷۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ {لا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ} ۱؎ کو سورہ نور کی آیت {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ} سے {غَفُورٌ رَحِيمٌ} ۲؎ تک نے منسوخ کر دیا ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے تو کبھی بھی تجھ سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو لے کر جہاد کرنے سے رکے رہنے کی اجازت طلب نہیں کریں گے۔۔۔'' (سورۃ التوبہ : ۴۴)۔
وضاحت ۲؎ : ''با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے، جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں، پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ سے بخشش کی دعا مانگیں، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے'' (سورۃ النور : ۶۲) ۔
وضاحت۳؎ : باب اور اثرابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کسی صورت میں جہاد سے چھٹی لے کر گھر آجانے کی اجازت نہیں تھی، پھر بعد میں اجازت لے کر آنے کی رخصت مل گئی۔
ابتدائے اسلام میں منافقوں کی عام روش یہ تھی کہ وہ جہاد کے لئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلتے نہیں تھے، اور اگر نکلتے بھی تو طرح طرح کے بہانے کر آپ ﷺ سے اجازت لے کر راستہ ہی سے واپس آجاتے تھے، تو اللہ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی: {إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ}(سورۃ التوبہ: ۴۵)، جب یہ آیت اتری تو جہاد سے راستہ سے واپس آنے کو ممنوع قراردے دیا گیا، گو آپ ﷺ کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔
پھر جب اسلام طاقتور ہو گیا گو آپ ﷺ اور مجاہدین کی کثرت ہو گئی تو اللہ تعالی نے سورہ نور کی آیت: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ} سے {غَفُورٌ رَحِيمٌ} تک نازل فرمائی، تو پہلی آیت منسوخ ہو گئی اور بوقت ضرورت اجازت لے کر جہاد سے واپس آجانے کو جائز قراردے دیا گیا۔