• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
171- بَاب فِي الإِذْنِ فِي الْقُفُولِ بَعْدَ النَّهْيِ
۱۷۱-باب: پہلے جہاد سے لوٹ آنا منع تھا بعد میں اس کی اجازت ہوگئی​


2771- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: { لا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ} الآيَةَ، نَسَخَتْهَا الَّتِي فِي النُّورِ: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ} إِلَى قَوْلِهِ: {غَفُورٌ رَحِيمٌ}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۷) (حسن)
۲۷۷۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ {لا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ} ۱؎ کو سورہ نور کی آیت {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ} سے {غَفُورٌ رَحِيمٌ} ۲؎ تک نے منسوخ کر دیا ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے تو کبھی بھی تجھ سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو لے کر جہاد کرنے سے رکے رہنے کی اجازت طلب نہیں کریں گے۔۔۔'' (سورۃ التوبہ : ۴۴)۔
وضاحت ۲؎ : ''با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے، جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں، پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ سے بخشش کی دعا مانگیں، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے'' (سورۃ النور : ۶۲) ۔
وضاحت۳؎ : باب اور اثرابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کسی صورت میں جہاد سے چھٹی لے کر گھر آجانے کی اجازت نہیں تھی، پھر بعد میں اجازت لے کر آنے کی رخصت مل گئی۔
ابتدائے اسلام میں منافقوں کی عام روش یہ تھی کہ وہ جہاد کے لئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلتے نہیں تھے، اور اگر نکلتے بھی تو طرح طرح کے بہانے کر آپ ﷺ سے اجازت لے کر راستہ ہی سے واپس آجاتے تھے، تو اللہ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی: {إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ}(سورۃ التوبہ: ۴۵)، جب یہ آیت اتری تو جہاد سے راستہ سے واپس آنے کو ممنوع قراردے دیا گیا، گو آپ ﷺ کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔
پھر جب اسلام طاقتور ہو گیا گو آپ ﷺ اور مجاہدین کی کثرت ہو گئی تو اللہ تعالی نے سورہ نور کی آیت: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ} سے {غَفُورٌ رَحِيمٌ} تک نازل فرمائی، تو پہلی آیت منسوخ ہو گئی اور بوقت ضرورت اجازت لے کر جہاد سے واپس آجانے کو جائز قراردے دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
172- بَاب فِي بِعْثَةِ الْبُشَرَاءِ
۱۷۲-باب: جنگ میں فتح کی خوشخبری دینے والوں کو بھیجنے کا بیان​


2772- حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَلا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ؟ > فَأَتَاهَا فَحَرَّقَهَا، ثُمَّ بَعَثَ رَجُلا مِنْ أَحْمَسَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يُبَشِّرُهُ، يُكْنَى أَبَا أَرْطَاةَ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۵۴ (۳۰۲۰)، م/فضائل الصحابۃ ۲۹ (۲۴۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۰، ۳۶۲، ۳۶۵) (صحیح) بأتم منہ۔
۲۷۷۲- جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم مجھے ذو الخَلَصَہ ۱؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے ؟'' ۲؎ ، یہ سن کر جریر رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھرانہوں نے قبیلۂ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوش خبری دے دے۔
وضاحت ۱؎ : ایک گھر تھا جس میں دوس اور خثعم کے بت رہتے تھے، اور بعضوں نے کہا خود بت کا نام تھا۔
وضاحت ۲؎ : تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے کا مطلب ہے کہ کیا تم اسے برباد نہیں کروگے کہ خس کم جہاں پاک۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
173- بَاب فِي إِعْطَاءِ الْبَشِيرِ
۱۷۳-باب: خوشخبری لانے والے کو انعام دینے کا بیان​


2773- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، وَقَصَّ ابْنُ السَّرْحِ الْحَدِيثَ، قَالَ: وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلامِنَا أَيُّهَا الثَّلاثَةُ، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيَّ تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ -وَهُوَ ابْنُ عَمِّي- فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلامَ، ثُمَّ صَلَّيْتُ الصُّبْحَ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَسَمِعْتُ صَارِخًا: يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ! فَلَمَّا جَائَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى [إِذَ] دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسٌ، فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي۔
* تخريج: خ/ الجہاد ۱۹۸ (۳۰۸۸)، م/المسافرین ۱۲ (۷۱۶)، ن/المساجد ۳۸(۷۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۲) (صحیح)
۲۷۷۳- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرم ﷺ جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور اس میں دورکعت صلاۃ پڑھتے، پھر لوگوں سے ملاقات کے لئے بیٹھتے ( اس کے بعد ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں ۱؎ سے بات کرنے سے منع فرما دیا، یہاں تک کہ مجھ پرجب ایک لمبا عرصہ گزر گیا تو میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں دیوار پھاند کر گیا، میں نے ان کو سلام کیا، اللہ کی قسم انہوں نے جواب تک نہیں دیا، پھر میں نے اپنے گھر کی چھت پر پچاسویں دن کی صلاۃِ فجر پڑھی تو ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو پکار رہا تھا: کعب بن مالک! خوش ہوجاؤ، پھر جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیئے، اور میں مسجد نبوی کی طرف چل پڑا، رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے، مجھ کو دیکھ کرطلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دوڑ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہم تینوں سے مراد کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم ہیں، یہ لوگ بغیر کسی عذر شرعی کے غزوہ تبوک میں نہیں گئے، جب رسول اکرم ﷺ غزوہ سے واپس آئے تو ان لوگوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صاف صاف کہہ دیا کہ اللہ کے رسول ہمارے پاس کوئی عذر نہیں تھا، محض سستی کی وجہ سے ہم لوگ اس غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، اسی بناء پرآپ ﷺ نے یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ ان تینوں سے کوئی بات نہ کرے۔
وضاحت ۲؎ : یہ توبہ قبول ہونے کی مبارکبادی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
174- بَاب فِي سُجُودِ الشُّكْرِ
۱۷۴-باب: سجدۂ شکر کا بیان​


2774- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ بَكَّارِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ أَخْبَرَنِي أَبِي -عَبْدُالْعَزِيزِ- عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ إِذَا جَائَهُ أَمْرُ سُرُورٍ أَوْ بُشِّرَ بِهِ خَرَّ سَاجِدًا شَاكِرًا لِلَّهِ۔
* تخريج: ت/السیر ۲۵ (۱۵۷۸)، ق/الإقامۃ ۱۹۲ (۱۳۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۸) (صحیح)
۲۷۷۴- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی خوشی کی بات آتی یا آپ ﷺ کو کوئی خوشخبری سنائی جاتی تو اللہ کا شکر اد اکرتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اسے سجدہ شکر کہتے ہیں، جوا ئمہ اسلام شافعی، احمد، اور محمد کے نزدیک مسنون اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ ہے، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔


2775- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ، عَنِ ابْنِ عُثْمَانَ -قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ يَحْيَى بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عُثْمَانَ- عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ مَكَّةَ نُرِيدُ الْمَدِينَةَ، فَلَمَّا كُنَّا قَرِيبًا مِنْ عَزْوَرَا نَزَلَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا اللَّهَ سَاعَةً، ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا، فَمَكَثَ طَوِيلا، ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا اللَّهَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا، فَمَكَثَ طَوِيلا، ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا -ذَكَرَهُ أَحْمَدُ ثَلاثًا- قَالَ: <إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي، وَشَفَعْتُ لأُمَّتِي، فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا شُكْرًا لِرَبِّي، ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي فَسَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي، فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي شُكْرًا، ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي فَسَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي، فَأَعْطَانِي الثُّلُثَ الآخِرَ، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي >.
قَالَ أَبو دَاود: أَشْعَثُ بْنُ إِسْحَاقَ أَسْقَطَهُ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حِينَ حَدَّثَنَا بِهِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ عَنْهُ مُوسَى بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۷۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابن عثمان'' مجہول اور''اشعث'' لین الحدیث ہیں)
۲۷۷۵- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ سے نکلے، ہم مدینہ کا ارادہ کر رہے تھے، جب ہم عزورا ۱؎ کے قریب ہوئے تو آپ ﷺ اترے، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، اور کچھ دیر اللہ سے دعا کی، پھر سجدہ میں گر پڑے، اور بڑی دیر تک سجدہ ہی میں پڑے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ دیر تک اللہ سے دعا کی، پھر سجدہ میں گر پڑے اور دیر تک سجدہ میں پڑے رہے، پھر اٹھے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ دیر دعا کی، پھر دوبارہ آپ سجد ہ میں گر پڑ ے، اور فرمایا :''میں نے اپنے رب سے دعا کی اور اپنی امت کے لئے سفارش کی تو اللہ نے مجھے ایک تہائی امت دے دی، میں اپنے رب کا شکرادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر گیا، پھر سر اٹھایا، اور اپنی امت کے لئے دعا کی تو اللہ نے مجھے اپنی امت کا ایک تہائی اور دیدیا تو میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لئے پھر سجدہ میں گر گیا، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا، اور اپنی امت کے لئے اپنے رب سے درخواست کی تو اللہ نے جو ایک تہائی باقی تھا اسے بھی مجھے دیدیا تو میں اپنے ر ب کا شکریہ ادا کرنے کے لئے سجد ہ میں گر پڑا'' ۔
وضاحت ۱؎ : جحفہ کے پاس ایک گھاٹی کا نام ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
175- بَاب فِي الطُّرُوقِ
۱۷۵-باب: رات میں سفر سے گھر واپس آنا کیسا ہے؟​


2776- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَكْرَهُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ طُرُوقًا ۔
* تخريج: خ/العمرۃ (الحج) ۱۶(۱۸۰۱)، م/الإمارۃ ۵۶ (۷۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷۷)، وقد أخرجہ: ت/الاستئذان ۱۹ (۲۷۱۳)، حم (۳/۲۹۹، ۳۰۲) (صحیح)
۲۷۷۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی سفر سے رات میں اپنے گھر واپس آئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کے کئی اسباب ہیں، ایک تو یہ کہ لوگ سو جاتے ہیں، دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے جس سے گھر اور محلے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، دوسری یہ کہ رات میں اکثر تمیز نہیں ہو پاتی بسا اوقات چور سمجھ کر لوگ حملہ کر دیتے ہیں، تیسری یہ کہ عورت کو بن سنور کرشوہر کے پاس آنے کا موقع نہیں مل پاتا، احتمال ہے کہ وہ میلے کچیلے کپڑے میں ہو جس سے شوہر اس سے متنفر ہو جائے۔


2777- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِنَّ أَحْسَنَ مَا دَخَلَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ أَوَّلَ اللَّيْلِ >۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۲۱ (۵۲۴۴)، م/الجہاد ۵۶ (۷۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۴۳) (صحیح)
۲۷۷۷- جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: '' سفر سے گھر واپس آنے کا اچھا وقت یہ ہے کہ آدمی شام میں آئے''۔


2778- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ قَالَ: < أَمْهِلُوا حَتَّى نَدْخُلَ لَيْلا، لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ >.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ الزُّهْرِيُّ: الطُّرُوقُ بَعْدَ الْعِشَاءِ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ لا بَأْسَ بِهِ]۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۲۲ (۵۲۴۷)، م/الإمارۃ ۵۶ (۷۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۱۸، ۲۳۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۸، ۳۵۵، ۳۹۶) (صحیح)
۲۷۷۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، جب ہم بستی میں جانے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' ٹھہرو ہم رات میں جائیں گے، تا کہ پرا گندہ بال والی کنگھی کر لے، اور جس عورت کا شوہر غائب تھا وہ زیر ناف کے بالوں کو صاف کرلے''۔
ابو داود کہتے ہیں: زہری نے کہا: ممانعت عشاء کے بعد آنے میں ہے، ابوداود کہتے ہیں: مغرب کے بعد کوئی حرج نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
176- بَاب فِي التَّلَقِّي
۱۷۶-باب: مسافر کا استقبال کرنا​


2779- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ تَلَقَّاهُ النَّاسُ فَلَقِيتُهُ مَعَ الصِّبْيَانِ عَلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۹۶ (۳۰۸۳)، والمغازي ۸۲ (۴۴۲۶)، ت/الجھاد ۳۸ (۱۷۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۴۹) (صحیح)
۲۷۷۹- سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوئہ تبوک سے مدینہ آئے تو لوگوں نے آپ کا استقبال کیا، تو میں بھی بچوں کے ساتھ آپ سے جا کر ثنیۃ الوداع پر ملا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
177- بَاب فِيمَا يُسْتَحَبُّ مِنْ إِنْفَادِ الزَّادِ فِي الْغَزْوِ إِذَا قَفَلَ
۱۷۷-باب: جہاد سے واپسی میں زاد راہ ختم ہوجانے پر دوسروں سے مانگنے کا بیان​


2780- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ فَتًى مِنْ أَسْلَمَ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أُرِيدُ الْجِهَادَ، وَلَيْسَ لِي مَالٌ أَتَجَهَّزُ بِهِ، قَالَ: < اذْهَبْ إِلَى فُلانٍ الأَنْصَارِيِّ فَإِنَّهُ كَانَ قَدْ تَجَهَّزَ فَمَرِضَ فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُقْرِئُكَ السَّلامَ، وَقُلْ لَهُ: ادْفَعْ إِلَيَّ مَا تَجَهَّزْتَ بِهِ >، فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ [لامْرَأَتِهِ] يَا فُلانَةُ ادْفَعِي لَهُ مَاجَهَّزْتِنِي بِهِ، وَلاتَحْبِسِي مِنْهُ شَيْئًا، فَوَاللَّهِ لا تَحْبِسِينَ مِنْهُ شَيْئًا فَيُبَارِكَ اللَّهُ فِيهِ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۸ (۱۸۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۰۷) (صحیح)
۲۷۸۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک جوان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس مال نہیں ہے جس سے میں اس کی تیاری کرسکوں، آپ ﷺ نے فرمایا :''فلاں انصاری کے پاس جائو اس نے جہاد کا سامان تیار کیا تھا لیکن بیمار ہو گیا، اس سے جا کر کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں سلام کہا ہے، اور یہ کہو کہ جو اسباب تم نے جہاد کے لئے تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو''، وہ شخص اس انصاری کے پاس آیا اور آکر اس نے یہی بات کہی، انصاری نے اپنی بیوی سے کہا: جتنا سامان تو نے میرے لئے جمع کیا تھا وہ سب اسے دے دے، اس میں سے کچھ مت رکھنا، اللہ کی قسم اس میں سے کچھ نہیں رکھے گی تو اللہ اس میں برکت دے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مذکورہ حدیث سے باب پر استدلال اس طرح ہے کہ جب ابتداء میں سامان جہاد مانگنا جائز ہے تو واپسی میں بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہئے کہ ضرورت اِس وقت سخت ہوتی ہے، ابتداء تو اگر آدمی کے پاس زادراہ نہیں ہے تو جہاد واجب کہاں؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
178- بَاب فِي الصَّلاةِ عِنْدَ الْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ
۱۷۸-باب: سفر سے واپسی پر صلاۃ پڑھنے کا بیان​


2781- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ وَعَمِّهِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِمَا كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ إِلا نَهَارًا، قَالَ الْحَسَنُ: فِي الضُّحَى، فَإِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ أَتَى الْمَسْجِدَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ فِيهِ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم :(۲۷۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۲) (صحیح)
۲۷۸۱- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سفر سے دن ہی میں آتے،(حسن کہتے ہیں) چاشت کے وقت آتے اور جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں آکر دو رکعت پڑھتے پھر اس میں بیٹھتے۔


2782- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حِينَ أَقْبَلَ مِنْ حَجَّتِهِ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، فَأَنَاخَ عَلَى بَابِ مَسْجِدِهِ ثُمَّ دَخَلَهُ، فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَيْتِهِ، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ كَذَلِكَ يَصْنَعُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۹) (حسن صحیح)
۲۷۸۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت حجۃ الوداع سے واپس آئے اور مدینہ میں داخل ہوئے تو مسجد نبوی کے دروازہ پر اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور اندر جا کر دو رکعتیں پڑھیں پھر اپنے گھر گئے ۔
نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
179- بَاب فِي كِرَاءِ الْمَقَاسِمِ
۱۷۹-باب: تقسیم کرنے والوں کی اجرت کا بیان​


2783- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا الزَّمْعِيُّ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ [الْخُدْرِيَّ] أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِيَّاكُمْ وَالْقُسَامَةَ >، قَالَ: فَقُلْنَا: وَمَا الْقُسَامَةُ؟ قَالَ: < الشَّيْئُ يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ -فَيَجِيئُ- فَيَنْتَقِصُ مِنْهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۹۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ''زبیربن عثمان'' لین الحدیث ہیں)
۲۷۸۳- ابوسعید خد ری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' قسامہ سے بچو''، تو ہم نے کہا: قُسامہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' ایک چیز کئی آدمیوں میں مشترک ہوتی ہے پھر تقسیم کرنے والا آتا ہے اور ہر ایک کے حصہ میں تھوڑا تھوڑا کم کر دیتا ہے (اور اُسے تقسیم کی اجرت کے طور پر خود لے لیتا ہے )''۔


2784- حَدَّثَنَا [عَبْدُاللَّهِ] الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنْ شَرِيكٍ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي نَمِرٍ- عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، قَالَ: < الرَّجُلُ يَكُونُ عَلَى الْفِئَامِ مِنَ النَّاسِ فَيَأْخُذُ مِنْ حَظِّ هَذَا وَحَظِّ هَذَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۹۲) (ضعیف)
(یہ مرسل روایت ہے، عطاء تابعی ہیں)
۲۷۸۴- عطاء بن یسار نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا: '' ایک شخص لوگوں کی مختلف جماعتوں پر مقرر ہوتا ہے تو وہ اس کے حصہ سے بھی لیتا ہے اور اس کے حصہ سے بھی لیتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
180- بَاب فِي التِّجَارَةِ فِي الْغَزْوِ
۱۸۰-باب: جہاد میں تجارت کا بیان​


2785- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ -يَعْنِي ابْنَ سَلامٍ- عَنْ زَيْدٍ -يَعْنِي ابْنَ سَلامٍ- أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلامٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَلْمَانَ أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَهُ قَالَ: لَمَّا فَتَحْنَا خَيْبَرَ أَخْرَجُوا غَنَائِمَهُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبْيِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ غَنَائِمَهُمْ، فَجَاءَ رَجُلٌ -حِينَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ - فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَقَدْ رَبِحْتُ رِبْحًا مَا رَبِحَ [الْيَوْمَ] مِثْلَهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ هَذَا الْوَادِي، قَالَ: < وَيْحَكَ [وَ]مَا رَبِحْتَ؟ > قَالَ: مَا زِلْتُ أَبِيعُ وَأَبْتَاعُ حَتَّى رَبِحْتُ ثَلاثَ مِائَةِ أُوقِيَّةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَنَا أُنَبِّئُكَ بِخَيْرِ رَجُلٍ رَبِحَ > قَالَ: مَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الصَّلاةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۳۲) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبیداللہ بن سلمان'' مجہول ہیں)
۲۷۸۵- عبیداللہ بن سلمان نے بیان کیا ہے کہ ایک صحابی نے ان سے کہا کہ جب ہم نے خیبر فتح کیا تو لوگوں نے اپنے اپنے غنیمت کے سامان اور قیدی نکالے اور ان کی خرید و فروخت کرنے لگے، اتنے میں ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس جس وقت آپ صلاۃ سے فارغ ہوئے آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول ! آج میں نے اس وادی میں جتنا نفع کمایا ہے اتنا کسی نے نہ کمایا ہو گا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''تباہی ہو تیرے لئے، کیا نفع کمایا تو نے ؟''، بولا: میں برابر بیچتا اور خریدتا رہا، یہاں تک کہ میں نے تین سو اوقیہ نفع کمائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' میں تجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جس نے ( تجھ سے) زیادہ نفع کمایا ہے''، اس نے پوچھا:وہ کون ہے؟ اللہ کے رسول !،آپ ﷺ نے فرمایا: '' وہ جس نے فرض صلاۃ کے بعد دو رکعت (سنت کی ) پڑھی''۔
 
Top