• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
141- بَاب فِي الرَّجُلِ يَنْتَفِعُ مِنَ الْغَنِيمَةِ بِالشَّيْئِ
۱۴۱-باب: مالِ غنیمت میں سے کسی چیز کو اپنے کام میں لانا کیسا ہے؟​


2708- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى -قَالَ أَبو دَاود: وَأَنَا لِحَدِيثِهِ أَتْقَنُ- قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ مَوْلَى تُجِيبَ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ فَلا يَرْكَبْ دَابَّةً مِنْ فَيْئِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى إِذَا أَعْجَفَهَا رَدَّهَا فِيهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ فَلايَلْبَسْ ثَوْبًا مِنْ فَيْئِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى إِذَا أَخْلَقَهُ رَدَّهُ فِيهِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۱۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۱۵) (حسن صحیح)
۲۷۰۸- رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت کے کسی جانور پر سوار نہ ہو کہ اسے جب دبلا کر ڈالے تو مال غنیمت میں واپس لوٹا دے، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے کہ جب اسے پرانا کردے تو اسے غنیمت کے مال میں واپس کر دے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حاصل یہ ہے کہ غنیمت کے مال میں کھانے کی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کا استعمال بلا ضرورت درست نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
142- بَاب فِي الرُّخْصَةِ فِي السِّلاحِ يُقَاتَلُ بِهِ فِي الْمَعْرَكَةِ
۱۴۲-باب: لڑائی میں غنیمت کے ہتھیار کا استعمال جائز ہے​


2709- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ -يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ- قَالَ: قَالَ أَبودَاود: هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ [بْنِ إِسْحَاقَ] بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ السُّبَيْعِيُّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ [السُّبَيْعِيِّ]، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرَرْتُ فَإِذَا أَبُوجَهْلٍ صَرِيعٌ قَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُهُ فَقُلْتُ: يَا عَدُوَّ اللَّهِ يَا أَبَا جَهْلٍ، قَدْ أَخْزَى اللَّهُ الأَخِرَ، قَالَ: وَلا أَهَابُهُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: أَبْعَدُ مِنْ رَجُلٍ قَتَلَهُ قَوْمُهُ! فَضَرَبْتُهُ بِسَيْفٍ غَيْرِ طَائِلٍ، فَلَمْ يُغْنِ شَيْئًا حَتَّى سَقَطَ سَيْفُهُ مِنْ يَدِهِ، فَضَرَبْتُهُ بِهِ حَتَّى بَرَدَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۹)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ السیر (۸۶۷۰)، حم (۱/۴۰۳، ۴۰۶، ۴۲۲، ۴۴۴) (صحیح)
۲۷۰۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (غزوہ بدر میں) گزرا تو ابوجہل کو پڑا ہوا دیکھا، اس کا پاؤں زخمی تھا، میں نے کہا : اللہ کے دشمن! ابوجہل !آخر اللہ نے اس شخص کو جو اس کی رحمت سے دور تھا ذلیل کر ہی دیا، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں اس سے ڈر نہیں رہا تھا، اس پر اس نے کہا: اس سے زیادہ تو کوئی بات نہیں ہوئی ہے کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے مار ڈالا اور یہ کوئی عار کی بات نہیں، پھر میں نے اُسے کند تلوار سے مارا لیکن وار کارگر نہ ہوا یہاں تک کہ اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی، تو اسی کی تلوار سے میں نے اس کو (دوبارہ) مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
143- بَاب فِي تَعْظِيمِ الْغُلُولِ
۱۴۳-باب: مالِ غنیمت میں چوری بڑا گناہ ہے​


2710- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ وَبِشْرَ بْنَ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَاهُمْ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ [الْجُهَنِيِّ] أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ تُوُفِّيَ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ > فَتَغَيَّرَتْ وُجُوهُ النَّاسِ لِذَلِكَ، فَقَالَ: < إِنَّ صَاحِبَكُمْ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ >، فَفَتَّشْنَا مَتَاعَهُ فَوَجَدْنَا خَرَزًا مِنْ خَرَزِ يَهُودَ لا يُسَاوِي دِرْهَمَيْنِ۔
* تخريج: ن/الجنائز ۶۶ (۱۹۶۱)، ق/الجھاد ۳۴ (۲۸۴۸)، ط/الجھاد ۱۳ (۲۳)، حم (۴/۱۱۴، ۵/۱۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶۷) (ضعیف)
(اس کی سند میں ابوعمرہ مولی زید بن خالد مقبول راوی ہیں ، یعنی متابعت کے بعد قوی ہیں، اور متابعت نہ ہونے پر ضعیف اور لین الحدیث حافظ ابن حجرنے ان کو مقبول کہا ہے ، یعنی متابعت کی موجودگی میں )
۲۷۱۰- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی کا غزوہ خیبر کے دن انتقال ہوگیا، لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا :'' اپنے ساتھی کی صلاۃِ جنازہ پڑھ لو''، یہ سن کر لوگوں کے چہرے بدل گئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارے ساتھی نے جہاد میں خیانت کی ہے''، پھر جب ہم نے اس کا سامان ڈھونڈا تو یہود کے مونگوں میں سے ہمیں چند مونگے ملے جس کی قیمت دو درہم کے برابر بھی نہ تھی۔


2711- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدَّيْلِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ -مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَامَ خَيْبَرَ فَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلا وَرِقًا إِلاالثِّيَابَ وَالْمَتَاعَ وَالأَمْوَالَ، قَالَ: فَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَحْوَ وَادِي الْقُرَى -وَقَدْ أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَبْدٌ أَسْوَدُ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ- حَتَّى إِذَا كَانُوا بِوَادِي الْقُرَى، فَبَيْنَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ جَائَهُ سَهْمٌ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَهُ الْجَنَّةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < كَلا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا >، فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ جَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ أَوْ شِرَاكَيْنِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < شِرَاكٌ مِنْ نَارٍ>، أَوْ قَالَ: < شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ >۔
* تخريج: خ/المغازي ۳۸ (۴۲۳۴)، والأیمان ۳۳ (۶۷۰۷)، م/الإیمان ۴۸ (۱۱۵)، ن/الأیمان والنذور ۳۷ (۳۸۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۱۶)، وقد أخرجہ: ط/الجھاد ۱۳ (۲۵) (صحیح)
۲۷۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کے سال نکلے، تو ہمیں غنیمت میں نہ سونا ہاتھ آیا نہ چاندی، البتہ کپڑے اور مال و اسباب ملے، رسول اللہ ﷺ وادی القری کی جانب چلے اور آپ کو ایک کالا غلام ہدیہ میں دیا گیا تھا جس کا نام مدعم تھا، جب لوگ وادی القری میں پہنچے تو مدعم آپ ﷺ کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا، اتنے میں اس کو ایک تیر آلگا اور وہ مرگیا، لوگوں نے کہا:اس کے لئے جنت کی مبارک بادی ہو، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ چادر جو اس نے خیبر کی لڑائی میں غنیمت کے مال سے تقسیم سے قبل لی تھی اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے ''، جب لوگوں نے یہ سنا تو ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ آگ کا ایک تسمہ ہے''، یا فرمایا:'' آگ کے دو تسمے ہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
144- بَاب فِي الْغُلُولِ إِذَا كَانَ يَسِيرًا يَتْرُكُهُ الإِمَامُ وَلا يُحَرِّقُ رَحْلَهُ
۱۴۴-باب: مالِ غنیمت میں سے کوئی معمولی چیز چرالے تو امام اس کو چھوڑ دے اور اس کا سامان نہ جلائے​


2712- حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ شَوْذَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْوَاحِدِ- عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أَصَابَ غَنِيمَةً أَمَرَ بِلالا فَنَادَى فِي النَّاسِ فَيَجِيئُونَ بِغَنَائِمِهِمْ، فَيَخْمُسُهُ وَيُقَسِّمُهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ بَعْدَ ذَلِكَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا فِيمَا كُنَّا أَصَبْنَا[هُ] مِنَ الْغَنِيمَةِ فَقَالَ: < أَسَمِعْتَ بِلالا يُنَادِي؟ > ثَلاثًا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تَجِيئَ بِهِ؟ > فَاعْتَذَرَ [إِلَيْهِ] فَقَالَ: <كُنْ أَنْتَ تَجِيئُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَنْ أَقْبَلَهُ عَنْكَ >۔
* تخريج:تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۳) (حسن)
۲۷۱۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کوجب مال غنیمت حاصل ہوتا تو آپ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ لوگ اپنا مال غنیمت لے کر آئیں، پھر آپ ﷺ اس میں سے خمس( پا نچواں حصہ) نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیتے، ایک شخص اس تقسیم کے بعد بال کی ایک لگام لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بھی اسی مال غنیمت میں سے ہے جو ہمیں ملا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: '' کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ آواز لگاتے سنا ہے؟''، اس نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: '' پھر اُسے لانے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟''، تو اس نے آپ سے کچھ عذر بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا:'' جائو لے جائو، قیامت کے دن لے کر آنا، میں تم سے اسے ہرگز قبول نہیں کر ونگا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
145- بَاب فِي عُقُوبَةِ الْغَالِّ
۱۴۵-باب: مالِ غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا کا بیان​


2713- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ النُّفَيْلِيُّ: الأَنْدَرَاوَرْدِيُّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ [قَالَ أَبو دَاود: وَصَالِحٌ هَذَا أَبُووَاقِدٍ] قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ مَسْلَمَةَ أَرْضَ الرُّومِ فَأُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ غَلَّ، فَسَأَلَ سَالِمًا عَنْهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِذَا وَجَدْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ غَلَّ فَأَحْرِقُوا مَتَاعَهُ وَاضْرِبُوهُ >، قَالَ: فَوَجَدْنَا فِي مَتَاعِهِ مُصْحَفًا، فَسَأَلَ سَالِمًا عَنْهُ فَقَالَ: بِعْهُ وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ۔
* تخريج: ت/الحدود ۲۸ (۱۴۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲)، دي/السیر ۴۹ (۲۵۳۷) (ضعیف)
(اس سند کے راوی ''صالح '' ضعیف ہیں)
۲۷۱۳- صالح بن محمد بن زائدہ کہتے ہیں کہ میں مسلمہ کے ساتھ روم کی سر زمین میں گیا تو وہاں ایک شخص لایا گیا جس نے مال غنیمت میں چوری کی تھی، انہوں نے سالم سے اس سلسلہ میں مسئلہ پوچھا تو سالم بن عبداللہ نے کہا: میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کر رہے تھے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی ایسے شخص کو پائو کہ جس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہو تو اس کا سامان جلا دو، اور اسے مارو۔
راوی کہتے ہیں: ہمیں اس کے سامان میں ایک مصحف بھی ملا تو مسلمہ نے سالم سے اس کے متعلق پوچھا، انہوں نے کہا: اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو۔


2714- حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى الأَنْطَاكِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ الْوَلِيدِ بْنِ هِشَامٍ وَمَعَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، فَغَلَّ رَجُلٌ مَتَاعًا، فَأَمَرَ الْوَلِيدُ بِمَتَاعِهِ فَأُحْرِقَ وَطِيفَ بِهِ، وَلَمْ يُعْطِهِ سَهْمَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ الْحَدِيثَيْنِ، رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ هِشَامٍ أَحْرَقَ رَحْلَ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ وَكَانَ قَدْ غَلَّ، وَضَرَبَهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۶۳) (ضعیف)
(اس سند میں بھی ''صالح'' ہیں جو ضعیف راوی ہیں)
۲۷۱۴- صالح بن محمد کہتے ہیں کہ ہم نے ولید بن ہشام کے ساتھ غزوہ کیا اور ہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز بھی تھے، ایک شخص نے مال غنیمت سے ایک سامان چُرا لیا تو ولید بن ہشام کے حکم سے اس کا سامان جلا دیا گیا، پھر وہ سب لوگوں میں پھرایا گیا اور اسے اس کا حصہ بھی نہیں دیا گیا۔
ابو داود کہتے ہیں: دونوں حدیثوں میں سے یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، اسے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے کہ ولید بن ہشام نے زیاد بن سعد کے ساز و سامان کو اس لئے جلوادیا تھا کہ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی، اور اسے زدو کوب بھی کیا۔


2715- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَأَبَابَكْرٍ وَعُمَرَ حَرَّقُوا مَتَاعَ الْغَالِّ وَضَرَبُوهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَزَادَ فِيهِ عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ عَنِ الْوَلِيدِ -وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ- وَمَنَعُوهُ سَهْمَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَحَدَّثَنَا بِهِ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ وَعَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ زُهَيْرِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ قَوْلَهُ: وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ (مَنْعَ سَهْمِهِ) ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۰۶، ۱۹۱۶۹) (ضعیف)
(یہ ضعیف ہونے کے ساتھ عمرو بن شعیب کا قول ہے ، جس کو اصطلاح علماء میں موقوف کہتے ہیں)
۲۷۱۵- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے خیانت کرنے والے کے سامان کو جلا دیا اور اسے مارا۔
ابو داود کہتے ہیں:علی بن بحرنے اس حدیث میں ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسے اس کا حصہ نہیں دیا، لیکن میں نے یہ زیادتی علی بن بحر سے نہیں سنی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں:اسے ہم سے ولید بن عتبہ اور عبدالوہاب بن نجدہ نے بھی بیان کیا ہے ان دونوں نے کہا اسے ہم سے ولید (بن مسلم )نے بیان کیا ہے انہوں نے زہیر بن محمد سے زہیر نے عمرو بن شعیب سے موقوفاً روایت کیا ہے اور عبدالوہاب بن نجدہ حوطی نے ''حصہ سے محروم کر دینے'' کا ذکر نہیں کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
146- بَاب النَّهْيِ عَنِ السَّتْرِ عَلَى مَنْ غَلَّ
۱۴۶-باب: مالِ غنیمت میں خیانت کرنے والے پر پردہ ڈالنا منع ہے​


2716- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ كَتَمَ غَالًّا فَإِنَّهُ مِثْلُهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''خبیب'' مجہول، اور''سلیمان'' لین الحدیث ہیں)
۲۷۱۶- سمرہ بن جند ب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے حمد وصلاۃ کے بعد کہا: رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے :'' جو شخص غنیمت میں خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے تو وہ بھی اسی جیسا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
147- بَاب فِي السَّلَبِ يُعْطَى الْقَاتِلَ
۱۴۷-باب: جو شخص کسی کافر کو قتل کردے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا​


2717- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي [عَامِ] حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلا رَجُلا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَاسْتَدَرْتُ لَهُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ، فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ [لَهُ]: مَا بَالُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا، وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: < مَنْ قَتَلَ قَتِيلا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ >، قَالَ: فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ [ذَلِكَ] الثَّانِيَةَ: < مَنْ قَتَلَ قَتِيلا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ >، قَالَ: فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ، فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟ > قَالَ: فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَسَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي، فَأَرْضِهِ مِنْهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: لاهَا اللَّهِ إِذًا، يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < صَدَقَ، فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ >.
فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَأَعْطَانِيهِ فَبِعْتُ الدِّرْعَ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلَمَةَ فَإِنَّهُ لأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الإِسْلامِ۔
* تخريج: خ/البیوع ۳۷ (۲۱۰۰)، فرض الخمس ۱۸ (۳۱۴۲)، المغازي ۵۴ (۴۳۲۱، الأحکام ۲۱ (۷۱۷۰)، م/الجھاد ۱۳ (۱۵۷۱)، ت/السیر ۱۳ (۱۵۶۲)، ق/ الجہاد ۲۹ (۲۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳۲)، وقد أخرجہ: ط/الجھاد ۱۰ (۱۸)، حم (۵/۲۹۵، ۲۹۶، ۳۰۶)، دي/السیر ۴۴ (۲۵۲۸) (صحیح)
۲۷۱۷- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آپڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے مو ت آگئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہی ہوا جو اللہ کا حکم تھا، پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور فرمایا :'' جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اُسی کو ملے گا'' ۱ ؎ ۔
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ( جب میں نے یہ سنا) تو میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لئے کون گواہی دے گا یہی سو چ کر بیٹھ گیا، پھر آپ ﷺ نے دوسری بار فرمایا:'' جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا'' ۔
ابو قتا دہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں( جب میں نے یہ سنا ) تو اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لئے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا ۔
پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ یہی بات کہی پھر میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ابو قتادہ کیا بات ہے؟''، میں نے آپ سے سارا معا ملہ بیان کیا، تو قوم کے ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول! یہ سچ کہہ رہے ہیں اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے، آپ ان کو اس بات پر راضی کر لیجئے( کہ وہ مال مجھے دے دیں )اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کبھی بھی ایسا نہ کر یں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تمہیں مل جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ سچ کہہ رہے ہیں، تم اسے ابو قتادہ کو دے دو''۔
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس نے مجھے دے دیا، تو میں نے زرہ بیچ دی اور اس سے میں نے ایک با غ قبیلہ بنو سلمہ میں خریدا، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔
وضاحت ۱؎ : جنگ حنین میں مسلمان تعداد میں زیادہ تھے، لیکن تعلي اور کثرت تعداد کے زعم کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، میدان جنگ سے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، رسول اکرم ﷺ اور چند جانثار صحابہ رہ گئے تھے، بھگدڑ سے یہی مراد ہے، بعد میں جنگ کا پانسہ پلٹا اور مسلمان فتحیاب ہوئے۔


2718- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَئِذٍ -يَعْنِي يَوْمَ حُنَيْنٍ-: <مَنْ قَتَلَ كَافِرًا فَلَهُ سَلَبُهُ > فَقَتَلَ أَبُو طَلْحَةَ يَوْمَئِذٍ عِشْرِينَ رَجُلا وَأَخَذَ أَسْلابَهُمْ، وَلَقِيَ أَبُوطَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ وَمَعَهَا خِنْجَرٌ، فَقَالَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا هَذَا مَعَكِ؟ قَالَتْ: أَرَدْتُ وَاللَّهِ إِنْ دَنَا مِنِّي بَعْضُهُمْ أَبْعَجُ بِهِ بَطْنَهُ، فَأَخْبَرَ بِذَلِكَ أَبُوطَلْحَةَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ .
[قَالَ أَبو دَاود: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ .
قَالَ أَبو دَاود: أَرَدْنَا بِهَذَا ا لْخِنْجَرَ، وَكَانَ سِلاحَ الْعَجَمِ يَوْمَئِذٍ الْخِنْجَرُ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰)، وقد أخرجہ: م/الجھاد ۴۷ (۱۸۰۹)، حم (۳/۲۷۹،۱۹۰)، دي/السیر ۴۴ (۲۵۲۷) (صحیح)
۲۷۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن یعنی حنین کے دن فرمایا:'' جس نے کسی کافر کو قتل کیا تو اس کے مال و اسباب اسی کے ہوں گے''، چنانچہ اس دن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیس آدمیوں کو قتل کیا اور ان کے مال واسباب لے لئے، ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے ملے تو دیکھا ان کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا انہوں نے پوچھا: ام سلیم! تمہارے ساتھ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے یہ قصد کیا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی میرے نزدیک آیا تو اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی، تو اس کی خبر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو دی ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، اس حدیث سے ہم نے سمجھا ہے کہ خنجر کا استعمال جائز ہے، ان دنوں اہل عجم کے ہتھیار خنجر ہوتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
148- بَاب فِي الإِمَامِ يَمْنَعُ الْقَاتِلَ السَّلَبَ إِنْ رَأَى وَالْفَرَسُ وَالسِّلاحُ مِنَ السَّلَبِ
۱۴۸-باب: امام کو یہ اختیار ہے کہ وہ قاتل کو مقتول کا سامان نہ دے ، گھوڑا اور ہتھیار بھی مقتول کے سامان میں سے ہے​


2719- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ فَرَافَقَنِي مَدَدي مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُ سَيْفِهِ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ جَزُورًا، فَسَأَلَهُ الْمَدَدِيُّ طَائِفَةً مِنْ جِلْدِهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، فَاتَّخَذَهُ كَهَيْئَةِ الدَّرْقِ، وَمَضَيْنَا فَلَقِينَا جُمُوعَ الرُّومِ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ لَهُ أَشْقَرَ عَلَيْهِ سَرْجٌ مُذْهَبٌ وَسِلاحٌ مُذْهَبٌ، فَجَعَلَ الرُّومِيُّ يُغْرِي بِالْمُسْلِمِينَ، فَقَعَدَ لَهُ الْمَدَدِيُّ خَلْفَ صَخْرَةٍ، فَمَرَّ بِهِ الرُّومِيُّ فَعَرْقَبَ فَرَسَهُ، فَخَرَّ، وَعَلاهُ فَقَتَلَهُ وَحَازَ فَرَسَهُ وَسِلاحَهُ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُسْلِمِينَ بَعَثَ إِلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَأَخَذَ [مِنَ] السَّلَبِ، قَالَ عَوْفٌ: فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَا خَالِدُ! أَمَاعَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ، قُلْتُ: لَتَرُدَّنَّهُ عَلَيْهِ أَوْ لأُعَرِّفَنَّكَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَبَى أَنْ يَرُدَّ [عَلَيْهِ] قَالَ عَوْفٌ: فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ قِصَّةَ الْمَدَدِيِّ، وَمَا فَعَلَ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا خَالِدُ! مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ > قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَقَدِ اسْتَكْثَرْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا خَالِدُ! رُدَّ عَلَيْهِ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ >، قَالَ عَوْفٌ: فَقُلْتُ [لَهُ]: دُونَكَ يَا خَالِدُ أَلَمْ أَفِ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <وَمَا ذَلِكَ؟ > فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < يَا خَالِدُ! لاتَرُدَّ عَلَيْهِ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو[نَ] لِي أُمَرَائِي؟ لَكُمْ صَفْوَةُ أَمْرِهِمْ وَعَلَيْهِمْ كَدَرُهُ >۔
* تخريج: م/الجھاد ۱۳ (۱۷۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۶، ۲۷) (صحیح)
۲۷۱۹- عو ف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزوہ موتہ میں نکلا تو اہل یمن میں سے ایک مددی میرے ساتھ ہو گیا، اس کے پاس ایک تلوار کے سوا کچھ نہ تھا، پھر ایک مسلمان نے کچھ اونٹ ذبح کئے تو مددی نے اس سے تھوڑی سی کھال مانگی، اس نے اسے دے دی، مددی نے اس کھال کو ڈھال کی شکل کا بنا لیا، ہم چلے تو رومی فوجیوں سے ملے، ان میں ایک شخص اپنے سرخ گھوڑے پرسوار تھا، اس پر ایک سنہری زین تھی، ہتھیار بھی سنہرا تھا، تو رومی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے اُکسانے لگا تو مددی اس سوار کی تاک میں ایک چٹان کی آڑ میں بیٹھ گیا، وہ رومی ادھر سے گزرا تو مددی نے اس کے گھوڑے کے پائوں کاٹ ڈالے، وہ گر پڑا، اور مددی اس پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کرکے گھوڑا اور ہتھیار لے لیا، پھرجب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مددی کے پاس کسی کو بھیجا اور سامان میں سے کچھ لے لیا ۔
عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں خالدرضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور میں نے کہا: خالد ! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے قاتل کے لئے سلب کا فیصلہ کیا ہے؟ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، میں جانتا ہوں لیکن میں نے اسے زیادہ سمجھا، تو میں نے کہا: تم یہ سامان اس کو دے دو، ورنہ میں رسول اللہ ﷺ سے اس معاملہ کو ذکر کروں گا، لیکن خالد رضی اللہ عنہ نے لوٹانے سے انکار کیا ۔
عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھا ہوئے تو میں نے آپ سے مددی کا واقعہ اور خالد رضی اللہ عنہ کی کارستانی بیان کی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' خالد! تم نے جو یہ کام کیا ہے اس پر تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا ؟''، خالد نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اسے زیادہ جانا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' خالد ! تم نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دو''۔
عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: خالد! کیا میں نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کیا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ کیا ہے؟'' ۔
عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اسے آپ سے بتایا۔
عوف کہتے ہیں: تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہو گئے، اور فرمایا:'' خالد! واپس نہ دو، کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میرے امیروں کو چھوڑ دو کہ وہ جو اچھا کام کریں اس سے تم نفع اٹھائو اور بری بات ان پر ڈال دیا کرو''۔


2720- حَدَّثَنَا أحْمَدُ بْن محمد بن حنبل قال حدثنا الْوَلِيدُ، قَالَ: سَأَلْتُ ثَوْرًا، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِي عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عن أبيه عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۰۲) (صحیح)
۲۷۲۰- اس سند سے بھی عو ف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
149- بَاب فِي السَّلَبِ لا يُخَمَّسُ
۱۴۹-باب:قاتل کو مقتول سے جوسامان ملا ہے اس میں سے خمس (پانچواںحصہ) نہ نکالا جائے گا​


2721- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْماَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ، وَلَمْ يُخَمِّسِ السَّلَبَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۰، ۶/۲۶) (صحیح)
۲۷۲۱- عوف بن مالک اشجعی اورخالد بن ولید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلب کا فیصلہ قاتل کے لئے کیا، اور سلب سے خمس نہیں نکالا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
150- بَاب مَنْ أَجَازَ عَلَى جَرِيحٍ مُثْخَنٍ يُنَفَّلُ مِنْ سَلَبِهِ
۱۵۰-باب: زخمی کافر کے قاتل کو اس کے سامان سے کچھ حصہ انعام میں ملے گا​


2722- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبَّادٍ [الأَزْدِيُّ] قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: نَفَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ بَدْرٍ سَيْفَ أَبِي جَهْلٍ، كَانَ قَتَلَهُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۴۴) (ضعیف)
(ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
۲۷۲۲- عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بدر کے دن ابو جہل کی تلوار بطور نفل دی اور انہوں نے ہی اسے قتل کیا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی نے ابوجہل کے سر کو اس کے جسم سے (جب اس میں جان باقی تھی) جدا کیا تھا اسی لئے اس کی تلوار آپ نے انہی کو دی، ورنہ اس کے قاتل اصلاً معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہما ہیں۔
 
Top