• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي وَصِيَّةِ الْحَرْبِيِّ يُسْلِمُ وَلِيُّهُ أَيُلْزِمُهُ أَنْ يُنْفِذَهَا
۱۶-باب: کیا کافر کی وصیت کا نفاذ مسلم ولی (وارث) پر لازم ہوگا؟​


2883- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ ابْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ أَوْصَى أَنْ يُعْتِقَ عَنْهُ مِائَةُ رَقَبَةٍ، فَأَعْتَقَ ابْنُهُ هِشَامٌ خَمْسِينَ رَقَبَةً، فَأَرَادَ ابْنُهُ عَمْرٌو أَنْ يُعْتِقَ عَنْهُ الْخَمْسِينَ الْبَاقِيَةَ فَقَالَ: حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبِي أَوْصَى بِعَتْقِ مِائَةِ رَقَبَةٍ، وَإِنَّ هِشَامًا أَعْتَقَ عَنْهُ خَمْسِينَ، وَبَقِيَتْ عَلَيْهِ خَمْسُونَ رَقَبَةً، أَفَأُعْتِقُ عَنْهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <[إِنَّهُ] لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۱) (حسن)
۲۸۸۳- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عاص بن وائل نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تو اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے، اس کے بعد اس کے( دوسرے) بیٹے عمرو نے ارا دہ کیا کہ با قی پچاس وہ اس کی طرف سے آزاد کر دیں ، پھر انہوں نے کہا:(ہم رکے رہیں)یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیں، چنانچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی تو ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کر دیئے ہیں، اور پچاس غلام ابھی آزاد کرنے باقی ہیں تو کیا میں انہیں اس کی طرف سے آزاد کردوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''اگر وہ (باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : لیکن جب وہ کافر مرا ہے اور کافر کا کوئی عمل اللہ کے یہاں مقبول نہیں لہٰذا اس کی طرف سے تمہارے غلام آزاد کرنے سے اُسے کوئی فائدہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَمُوتُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ وَلَهُ وَفَائٌ يُسْتَنْظَرُ غُرَمَاؤُهُ وَيُرْفَقُ بِالْوَارِثِ
۱۷-باب: مال چھوڑ کر مر نے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان​


2884- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ أَنَّ شُعَيْبَ بْنَ إِسْحَاقَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ ثَلاثِينَ وَسْقًا لِرَجُلٍ مِنْ يَهُودَ، فَاسْتَنْظَرَهُ جَابِرٌ فَأَبَى، فَكَلَّمَ جَابِرٌ النَّبِيَّ ﷺ أَنْ يَشْفَعَ لَهُ إِلَيْهِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ لِيَأْخُذَ ثَمَرَ نَخْلِهِ بِالَّذِي لَهُ عَلَيْهِ، فَأَبَى [عَلَيْهِ] وَكَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُنْظِرَهُ فَأَبَى، وَسَاقَ الْحَدِيثَ ۔
* تخريج: خ/البیوع ۵۱ (۲۱۲۷)، الاستقراض ۸ (۲۳۹۵)، ۹ (۲۳۹۶)، ۱۸ (۲۴۰۵)، الھبۃ ۲۱ (۲۶۰۱)، الصلح ۱۳ (۲۷۰۹)، الوصایا ۳۶ (۲۷۸۱)، المناقب ۲۵ (۳۵۸۰)، المغازي ۱۸ (۴۰۵۳)، ن/الوصایا ۴ (۳۶۷۰)، ق/الصدقات ۲۰ (۲۴۳۴)، (تحفۃ الأشراف:۳۱۲۶) (صحیح)
۲۸۸۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے ، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے( مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم ﷺ سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں ، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا :'' اچھا جابر کو مہلت دے دو ''، اس نے اس سے بھی انکار کیا ، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پھر رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے جابر رضی اللہ عنہ کے باغ کے کھجوروں کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کرنا شروع کردیا، بفضل الٰہی سب کا قرضہ اداء ہوگیا اور کھجوروں کا ڈھیر ویسا ہی رہا ، یہ آپ کا معجزہ تھا۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
{ 13- كِتَابُ الفَرَائِض }
۱۳-کتاب: میراث کے احکام ومسائل

1- بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْلِيمِ الْفَرَائِضِ
۱-باب: علم فرائض سیکھنے کا بیان ۱؎​


2885- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْروِ بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الْعِلْمُ ثَلاثَةٌ، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ >۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۸ (۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۷۶) (ضعیف)
(اس کے راوی دونوں ''عبد الرحمن'' ضعیف ہیں)
۲۸۸۵- عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''(اصل) علم تین ہیں اور ان کے علاوہ علوم کی حیثیت فضل (زائد) کی ہے: آیت محکمہ ۲؎ ، یا سنت قائمہ ۳؎ ، یافریضہ عادلہ ۴؎ ''۔
وضاحت ۱؎ : فرائض فریضہ کی جمع ہے یعنی اللہ کے مقرر کردہ حصے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی غیر منسوخ قرآن کا علم ۔
وضاحت ۳؎ : یعنی صحیح احادیث کا علم ۔
وضاحت۴؎ : فرائض کا علم، جس سے تر کے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فِي الْكَلالَةِ
۲-باب: کلالہ کا بیان​


2886- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: مَرِضْتُ فَأَتَانِي النَّبِيُّ ﷺ يَعُودُنِي هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ مَاشِيَيْنِ، وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَلَمْ أُكَلِّمْهُ، فَتَوَضَّأَ وَصَبَّهُ عَلَيَّ [فَأَفَقْتُ]، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي وَلِي أَخَوَاتٌ؟ قَالَ: فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمَوَارِيثِ: {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ}۔
* تخريج: خ/تفسیر النساء ۲۷ (۴۶۰۵)، المرضی ۵ (۵۶۵۱)، الفرائض ۱۳ (۶۷۴۳)، م/الفرائض ۲ (۱۶۱۶)، ت/الفرائض ۷ (۲۰۹۷)، ق/الفرائض ۵ (۲۷۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۲۸)، وقد أخرجہ: دي/الطھارۃ ۵۶ (۷۶۰) (صحیح)
۲۸۸۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بیمار ہوا تو نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے دیکھنے کے لئے پیدل چل کر آئے، مجھ پر غشی طاری تھی اس لئے آپ ﷺ سے بات نہ کر سکا تو آپ نے وضو کیا اور وضو کے پانی کا مجھ پر چھینٹا مارا تومجھے افاقہ ہوا، میں نے کہا:اللہ کے رسول! میں اپنا مال کیا کروں اور بہنوں کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، اس وقت میراث کی آیت {يَسْتَفْتُونَكَ، قُلِ: اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ} ۱؎ اتر ی ۔
وضاحت ۱؎ : ''آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ( خود ) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے '' (سورۃ النساء : ۱۷۶)، کلالہ: ایسا شخص جو نہ باپ چھوڑے نہ کوئی اولاد، اس کے سلسلہ میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی مر جائے اور اس کی اپنی کوئی اولاد نہ ہو صرف ایک بہن ہو تو آدھا مال لے گی، دو ہوں تو ثلث لے لیں گی، اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا اخیر تک۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَنْ كَانَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أَخَوَاتٌ
۳-باب: جس کی اولاد نہ ہو صرف بہنیں ہوں​


2887- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ -يَعْنِي الدَّسْتُوَائِيَّ- عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: اشْتَكَيْتُ وَعِنْدِي سَبْعُ أَخَوَاتٍ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَنَفَخَ فِي وَجْهِي فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلا أُوصِي لأَخَوَاتِي بِالثُّلُثِ؟ قَالَ: < أَحْسِنْ >، قُلْتُ: الشَّطْرُ؟ قَالَ: < أَحْسِنْ >، ثُمَّ خَرَجَ وَتَرَكَنِي، فَقَالَ: < يَا جَابِرُ! لا أُرَاكَ مَيِّتًا مِنْ وَجَعِكَ هَذَا، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَنْزَلَ فَبَيَّنَ الَّذِي لأَخَوَاتِكَ، فَجَعَلَ لَهُنَّ الثُّلُثَيْنِ >، قَالَ: فَكَانَ جَابِرٌ يَقُولُ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِيَّ: {يَسْتَفْتُونَكَ، قُلِ: اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ}.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۷۷)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری (۶۳۲۵)، حم (۳/۳۷۲) (صحیح)
۲۸۸۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بیمار ہوا اور میرے پاس سات بہنیں تھیں ،رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے اور میرے چہرے پر پھونک ماری تو مجھے ہوش آگیا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی بہنوں کے لئے ثلث مال کی وصیت نہ کردوں؟ آپ نے فرمایا: ''نیکی کرو''، میں نے کہا آدھے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :''نیکی کرو''، پھر آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا : ''جابر! میرا خیال ہے تم اس بیماری سے نہیں مرو گے، اور اللہ تعالی نے اپنا کلام اتارا ہے اور تمہاری بہنوں کا حصہ بیان کر دیا ہے، ان کے لئے دوثلث مقرر فرمایا ہے''۔
جابر کہا کرتے تھے کہ یہ آیت {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ} میرے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔


2888- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: آخِرُ آيَةٍ نَزَلَتْ فِي الْكَلالَةِ: {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ}.
* تخريج: خ/المغازي ۶۶ (۴۳۶۴)، والتفسیر ۲۷ (۴۶۰۵)، ۳ (۴۶۵۶)، والفرائض ۱۴ (۶۷۴۴)، م/الفرائض ۳ (۱۶۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۰)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر سورۃ النساء ۲۷ (۴۳۴۶) (صحیح)
۲۸۸۸- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:کلالہ کے سلسلے میں آخری آیت جو نازل ہوئی ہے وہ: {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ} ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جو سورہ نساء کے اخیر میں ہے۔


2889- حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! {يَسْتَفْتُونَكَ فِي الْكَلالَةِ}، فَمَا الْكَلالَةُ؟ قَالَ: < تُجْزِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ >، فَقُلْتُ لأَبِي إِسْحَاقَ: هُوَ مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَدَعْ وَلَدًا وَلا وَالِدًا؟ قَالَ: كَذَلِكَ ظَنُّوا أَنَّهُ كَذَلِكَ۔
* تخريج: م/الفرائض ۲ عن عمر (۱۶۱۷)، ت/تفسیر سورۃ النساء ۲۷ (۳۰۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۹۳، ۲۹۵، ۳۰۱) (صحیح)
۲۸۸۹- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! {يَسْتَفْتُونَكَ فِي الْكَلالَةِ} میں کلالہ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:آیت صیف ۱؎ تمہارے لئے کافی ہے۔
ابو بکرکہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے کہا: کلالہ وہی ہے نا جو نہ اولاد چھوڑے نہ والد؟ انہوں نے کہا: ہاں،لوگوں نے ایسا ہی سمجھا ہے۔
وضاحت ۱؎ : سورہ نساء کا آخری حصہ گرمی کے زمانہ میں نازل ہوا ہے اس لئے اسے آیت صیف کہا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الصُّلْبِ
۴-باب: صلبی(حقیقی)اولاد کی میراث کا بیان​


2890- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الأَوْدِيِّ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ الأَوْدِيِّ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ وَسَلْمَانَ ابْنِ رَبِيعَةَ فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ لأَبٍّ وَأُمٍّ، فَقَالا: لابْنَتِهِ النِّصْفُ، وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفُ، وَلَمْ يُوَرِّثَا ابْنَةَ الابْنِ شَيْئًا، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَإِنَّهُ سَيُتَابِعُنَا، فَأَتَاهُ الرَّجُلُ فَسَأَلَهُ وَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنِّي سَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَائِ النَّبِيِّ ﷺ: لابْنَتِهِ النِّصْفُ، وَلابْنَةِ الابْنِ سَهْمٌ تَكْمِلَةُ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ۔
* تخريج: خ/الفرائض ۸ (۶۷۳۶)، ت/الفرائض ۴ (۲۰۹۳)، ق/الفرائض ۲ (۲۷۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۲۸، ۴۴۰، ۴۶۳)، دي/الفرائض ۷ (۲۹۳۲) (صحیح)
۲۸۹۰- ہزیل بن شر حبیل اودی کہتے ہیں: ایک شخص ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن ( یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا، اور انہوں نے پو تی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پو چھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتائی تو انہوں نے کہا:تب تو میں بھٹکا ہوا ہوں گا اور راہ یاب لوگوں میں سے نہ ہو ں گا، لیکن میں تو رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور وہ یہ کہ ''بیٹی کا آدھا ہوگا'' اور پوتی کا چھٹا حصہ ہوگا دو تہائی پورا کرنے کے لئے(یعنی جب ایک بیٹی نے آدھا پایا تو چھٹا حصہ پوتی کو دے کر دو تہائی پورا کردیں گے) اور جو باقی رہے گا وہ سگی بہن کا ہوگا۔


2891- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى جِئْنَا امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ فِي الأَسْوَاف، فَجَائَتِ الْمَرْأَةُ بِابْنَتَيْنِ [لَهَا] فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَاتَانِ بِنْتَا ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَقَدِ اسْتَفَائَ عَمُّهُمَا مَالَهُمَا وَمِيرَاثَهُمَا كُلَّهُ، فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالا إِلا أَخَذَهُ، فَمَا تَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَاللَّهِ لا تُنْكَحَانِ أَبَدًا إِلا وَلَهُمَا مَالٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ > قَالَ: وَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَائِ: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ} الآيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ادْعُوا لِيَ الْمَرْأَةَ وَصَاحِبَهَا > فَقَالَ لِعَمِّهِمَا: < أَعْطِهِمَا الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَلَكَ >.
قَالَ أَبو دَاود: أَخْطَأَ [بِشْرٌ] فِيهِ [إِنَّمَا] هُمَا ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، وَثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ قُتِلَ يَوْمَ الْيَمَامَةِ ۔
* تخريج: ت/الفرائض ۳ (۲۰۹۲)، ق/الفرائض ۲ (۲۷۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۲) (حسن)
(اس روایت میں ثابت بن قیس کا تذکرہ صحیح نہیں ہے جیساکہ مؤلف نے بیان کیاہے)
۲۸۹۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو اسواف(مدینہ کے حرم) میں ایک انصاری عورت کے پا س پہنچے، وہ عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کرآئی، اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! یہ دونوں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہیں،جوجنگ احد میں آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا سارا مال اور میراث لے لیا، ان کے لئے کچھ بھی نہ چھوڑا، اب آپ کیا فرماتے ہیں ؟ اللہ کے رسول!قسم اللہ کی ! ان کا نکاح نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان کے پاس مال نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمائے گا''، پھرسو رہ نساء کی یہ آیتیں{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ} نازل ہوئیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس عورت کو اور اس کے دیو ر کو بلا ؤ ''، تو آپ ﷺ نے ان دونوں لڑکیوں کے چچا سے کہا: ''دو تہائی مال انہیں دے دو، اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دو، اور جو انہیں دینے کے بعد بچارہے وہ تمہارا ہے'' ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: اس میں بشر نے غلطی کی ہے، یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع کی تھیں، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ تو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے ۔
وضاحت ۱؎ : لہذا مسئلہ (۲۴) سے ہوگا، (۱۶) دونوں بیٹیوں کے اور (۳) ان کی ماں کے اور (۵) ان کے چچا کے ہوں گے ۔


2892- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ وَغَيْرُهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ امْرَأَةَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ سَعْدًا هَلَكَ وَتَرَكَ ابْنَتَيْنِ، وَسَاقَ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا هُوَ أَصَحُّ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۵) (حسن)
۲۸۹۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی عورت نے کہا: اللہ کے رسول! سعد مر گئے اور دوبیٹیاں چھوڑ گئے ہیں، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ روایت زیادہ صحیح ہے ۔


2893- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو حَسَّانَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَرَّثَ أُخْتًا وَابْنَةً، فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ، وَنَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يَوْمَئِذٍ حَيٌّ۔
* تخريج: خ/الفرائض ۶، ۱۲ (۶۷۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۰۷)، وقد أخرجہ: دي/الفرائض ۴ (۲۹۲۱) (صحیح)
۲۸۹۳- اسود بن یزید کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بہن اور بیٹی میں اس طرح ترکہ تقسیم کیا کہ آدھا مال بیٹی کو ملا اور آدھا بہن کو (کیونکہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہے) اور وہ یمن میں تھے، اور اللہ کے نبی ﷺ اس وقت باحیات تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فِي الْجَدَّةِ
۵-باب: دادی اور نانی کی میراث کا بیان​


2894- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خَرَشَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ أَنَّهُ قَالَ: جَائَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى شَيْئٌ، وَمَا عَلِمْتُ لَكِ فِي سُنَّةِ نَبِيِّ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا، فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ، فَسَأَلَ النَّاسَ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْطَاهَا السُّدُسَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ مَعَكَ غَيْرُكَ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَأَنْفَذَهُ لَهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَائَتِ الْجَدَّةُ الأُخْرَى إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى شَيْئٌ، وَمَا كَانَ الْقَضَائُ الَّذِي قُضِيَ بِهِ إِلا لِغَيْرِكِ، وَمَا أَنَا بِزَائِدٍ فِي الْفَرَائِضِ، وَلَكِنْ هُوَ ذَلِكَ السُّدُسُ، فَإِنِ اجْتَمَعْتُمَا فِيهِ فَهُوَ بَيْنَكُمَا، وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا۔
* تخريج: ت/الفرائض ۱۰ (۲۱۰۱)، ق/الفرائض ۴ (۲۷۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۳۲، ۱۱۵۲۲)، وقد أخرجہ: ط/ الفرائض ۸ (۴)، حم (۴/۲۲۵) (ضعیف)
(اس کی سند میں قبیصہ اورابوبکر صدیق کے درمیان انقطاع ہے)
۲۸۹۴- قبیصہ بن ذویب کہتے ہیں کہ میت کی نانی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس میراث میں اپنا حصہ دریافت کرنے آئی توانہوں نے کہا: اللہ کی کتاب ( قرآن پاک) میں تمہارا کچھ حصہ نہیں ہے، اور مجھے نبی اکرم ﷺ کی سنت میں بھی تمہارے لئے کچھ نہیں معلوم، تم جاؤ میں لوگوں سے دریافت کر کے بتائوں گا، پھر انہوں نے لوگوں سے پو چھا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مو جود تھا، آپ نے اسے چھٹا حصہ دلایا ہے، اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:کیا تمہارے ساتھ کوئی اوربھی ہے ( جواس معا ملے کو جانتا ہو) تو محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی وہی بات کہی جو مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہی تھی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے لئے اسی کو نافذکر دیا، پھرعمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں دادی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا میرا ث مانگنے آئی، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی کتاب (قرآن ) میں تمہارے حصہ کا ذکر نہیں ہے اور پہلے ( رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں) جو حکم ہو چکا ہے وہ نانی کے معاملے میں ہوا ہے، میں اپنی طرف سے فرائض میں کچھ بڑھا نہیں سکتا، لیکن وہی چھٹا حصہ تم بھی لو، اگر نانی بھی ہو تو تم دونوں (سدس) کو بانٹ لو اور جو تم دونوں میں اکیلی ہو ( یعنی صرف نانی یا صرف دادی) تو اس کے لئے وہی چھٹا حصہ ہے۔


2895- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ [أَبُو الْمُنِيبِ] الْعَتَكِيِّ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَعَلَ لِلْجَدَّةِ السُّدُسَ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهَا أُمٌّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۸۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبیداللہ'' کے بارے میں کلام ہے)
۲۸۹۵- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نانی کا چھٹا حصہ مقرر فرما یا ہے اگر ماں اس کے درمیان حا جب نہ ہو ( یعنی اگر میت کی ماں زندہ ہو گی تو وہ نانی کو حصے سے محروم کر دے گی )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الْجَدِّ
۶-باب: دادا کی میرا ث کا بیان​


2896- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنً أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ ابْنِي مَاتَ، فَمَا لِي مِنْ مِيرَاثِهِ؟ فَقَالَ: <لَكَ السُّدُسُ > فَلَمَّا أَدْبَرَ دَعَاهُ، فَقَالَ: < لَكَ سُدُسٌ آخَرُ > فَلَمَّا أَدْبَرَ دَعَاهُ فَقَالَ: < إِنَّ السُّدُسَ الآخَرَ طُعْمَةٌ >.
قَالَ قَتَادَةُ: فَلا يَدْرُونَ مَعَ أَيِّ شَيْئٍ وَرَّثَهُ، قَالَ قَتَادَةُ: أَقَلُّ شَيْئٍ وَرِثَ الْجَدُّ السُّدُسُ۔
* تخريج: ت/الفرائض ۹ (۲۰۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۸، ۴۳۶) (ضعیف)
(اس کے رواۃ قتادۃ '' اور''حسن'' مدلس ہیں اورعنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، نیز حسن کے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سماع میں بھی سخت اختلاف ہے )
۲۸۹۶- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرا پو تا مر گیا ہے، مجھے اس کی میراث سے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارے لئے چھٹا حصہ ہے''، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ نے اس کو بلا یا اور فرمایا: ''تمہارے لئے ایک اور چھٹا حصہ ہے''، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ ﷺ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا:'' یہ دوسرا سدس تمہارے لئے تحفہ ہے''۔
قتادہ کہتے ہیں:معلوم نہیں دادا کو کس کے ساتھ سدس حصہ دار بنایا؟۔
قتادہ کہتے ہیں: سب سے کم حصہ جو دادا پاتا ہے وہ سدس ہے۔


2897- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ أَنْ عُمَرَ قَالَ: أَيُّكُمْ يَعْلَمُ مَاوَرَّثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْجَدَّ؟ فَقَالَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ: أَنَا، وَرَّثَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ السُّدُسَ، قَالَ: مَعَ مَنْ؟ قَالَ: لا أَدْرِي، قَالَ: لا دَرَيْتَ، فَمَا تُغْنِي إِذًا؟!.
* تخريج: ن/ الکبری (۶۳۳۵)، ق/الفرائض ۳ (۲۷۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۷) (صحیح)
(حسن بصری کاعمر رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، لیکن دوسرے طرق اور شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۲۵۱)
۲۸۹۷- حسن بصری کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے دادا کو تر کے میں سے جو دلا یا ہے اسے تم میں کون جانتا ہے؟ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے کہا:میں( جانتا ہوں) رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھٹا حصہ دلا یا ہے، انہوں نے پوچھا:کس وارث کے ساتھ؟ وہ کہنے لگے: یہ تو معلوم نہیں، اس پر انہوں نے کہا: تمہیں پوری بات معلوم نہیں پھر کیا فائدہ تمہارے جاننے کا ؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِي مِيرَاثِ الْعَصَبَةِ
۷-باب: عصبہ کی میراث کا بیان​


2898- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَمخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، وَهَذَا حَدِيثُ مَخْلَدٍ، وَهُوَ الأَشْبَعُ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اقْسِمِ الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلأَوْلَى ذَكَرٍ >۔
* تخريج: خ/الفرائض ۵ (۶۷۳۲)، م/الفرائض ۱ (۱۶۱۵)، ت/الفرائض ۸ (۲۰۹۸)، ق/الفرائض ۱۰ (۲۷۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹۲، ۳۱۳، ۳۲۵)، دي/الفرائض ۲۸ (۳۰۳۰) (صحیح)
۲۸۹۸- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''ذوی الفروض ۱؎ میں مال کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر دو اور جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کو ملے گا جو میت سے سب سے زیادہ قر یب ہو ۲؎ ''۔
وضاحت ۱؎ : ذوی الفروض : وہ وارثین ہیں جن کے حصے کتاب اللہ میں مقرر ہیں۔
وضاحت ۲؎ : جیسے بھائی چچا کے بہ نسبت اور چچا زاد بھائی کی بہ نسبت اور بیٹا پوتے کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي مِيرَاثِ ذَوِي الأَرْحَامِ
۸-باب: ذوی الا رحام کی میراث کا بیان ۱؎​


2899- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ ابْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ [الْهَوْزَنِيِّ عَبْدِاللَّهِ بْنِ لُحَيٍّ]، عَنِ الْمِقْدَامِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: $ مَنْ تَرَكَ كَلا فَإِلَيَّ -وَرُبَّمَا قَالَ: إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ- وَمَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ، وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لاوَارِثَ لَهُ: أَعْقِلُ لَهُ، وَأَرِثُهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ: يَعْقِلُ عَنْهُ، وَيَرِثُهُ #۔
* تخريج: ق/الفرائض ۹ (۲۷۳۸)، والدیات ۷ (۲۶۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۱، ۱۳۳) (حسن صحیح)
۲۸۹۹- مقدام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بوجھ( قرضہ یا بال بچّے) چھوڑ جائے تو وہ میری طرف ہے، اور کبھی راوی نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے ۲؎ اور جو مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا میں وارث ہوں، میں اس کی طرف سے دیت دوں گا اور اس شخص کا ترکہ لو ں گا، ایسے ہی ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کی دیت دے گا اور اس کا وارث ہو گا۔
وضاحت ۱؎ : میت کا ایسا رشتہ دار جو نہ ذوی الفروض میں سے ہو اور نہ عصبہ میں سے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اس کی اولاد کی خبر گیری کروں گا۔


2900- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ فِي آخَرِينَ قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ بُدَيْلٍ [يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ] عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ الْكِنْدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيْعَةً فَإِلَيَّ، وَمَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ، وَأَنَا مَوْلَى مَنْ لا مَوْلَى لَهُ: أَرِثُ مَالَهُ، وَأَفُكُّ عَانَهُ، وَالْخَالُ مَوْلَى مَنْ لا مَوْلَى لَهُ: يَرِثُ مَالَهُ، وَيَفُكُّ عَانَهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ عَنْ رَاشِدِ [بْنِ سَعْدٍ] عَنِ ابْنِ عَائِذٍ عَنِ الْمِقْدَامِ، وَرَوَاهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ رَاشِدٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْمِقْدَامَ .
قَالَ أَبو دَاود يَقُولُ: الضَّيْعَةُ مَعْنَاهُ : عِيَالٌ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۹) (حسن صحیح)
۲۹۰۰- مقدام کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''میں ہر مسلمان سے اس کی ذات کی نسبت قریب تر ہوں، جو کوئی اپنے ذمہ قرض چھو ڑ جائے یا عیال چھوڑ جائے تو اس کا قرض ادا کر نا یا اس کے عیا ل کی پرورش کر نا میرے ذمہ ہے، اور جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے، اور جس کا کوئی والی نہیں اس کا والی میں ہوں، میں اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور میں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور جس کا کوئی والی نہیں، اس کا ماموں اس کا والی ہے(یہ ) اس کے مال کا وارث ہوگا اور اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا ''۔
ابو داود کہتے ہیں: اس روایت کو زبیدی نے راشد بن سعدسے، راشد نے ابن عائذ سے، ابن عائذ نے مقدام سے روایت کیا ہے اور اسے معاویہ بن صالح نے راشد سے روایت کیا ہے اس میں''عَنْ مِقْدَاْمٍ'' کے بجائے ''سَمِعْتُ الْمِقْدَاْمَ'' ہے۔ ابوداود کہتے ہیں: ''ضَيْعَةٌ'' کے معنی عیال کے ہیں۔


2901- حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ عَتِيقٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَنَا وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ: أَفُكُّ عَانِيَهُ، وَأَرِثُ مَالَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاوَارِثَ لَهُ: يَفُكُّ عَانِيَهُ، وَيَرِثُ مَالَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۶) (حسن صحیح)
۲۹۰۱- مقدام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث میں ہوں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے ۱؎ جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا، اور اس کے مال کا وارث ہو گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنے بھانجے کا ۔


2902- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ سُفْيَانَ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ مَوْلًى لِلنَّبِيِّ ﷺ مَاتَ وَتَرَكَ شَيْئًا، وَلَمْ يَدَعْ وَلَدًا وَلا حَمِيمًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < أَعْطُوا مِيرَاثَهُ رَجُلا مِنْ أَهْلِ قَرْيَتِهِ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَحَدِيثُ سُفْيَانَ أَتَمُّ، وَقَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < هَاهُنَا أَحَدٌ مَنْ أَهْلِ أَرْضِهِ؟ > قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: < فَأَعْطُوهُ مِيرَاثَهُ >۔
* تخريج: ت/الفرائض ۱۳ (۲۱۰۵)، ق/الفرائض ۷ (۲۷۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۳۷، ۱۷۴، ۱۸۱) (صحیح)
۲۹۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک غلام مر گیا ، کچھ مال چھوڑ گیا اور کوئی وارث نہ چھوڑ ا، نہ کوئی اولاد، اور نہ کوئی عزیز، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اس کا ترکہ اس کی بستی کے کسی آدمی کو دے دو '' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: سفیان کی روایت سب سے زیادہ کامل ہے، مسد د کی روایت میں ہے : نبی اکرم ﷺ نے پوچھا: ''یہاں کوئی اس کا ہم وطن ہے؟'' ، لوگوں نے کہا: ہاں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس کا ترکہ اس کو دے دو''۔
وضاحت ۱؎ : وہ ترکہ آپ کا حق تھا مگرآپ نے اس کے ہم وطن پراسے صدقہ کردیا، امام کو ایسا اختیار ہے اس میں کوئی مصلحت ہی ہوگی ۔


2903- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ جِبْرِيلَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي مِيرَاثَ رَجُلٍ مِنَ الأَزْدِ، وَلَسْتُ أَجِدُ أَزْدِيًّا أَدْفَعُهُ إِلَيْهِ قَالَ: < اذْهَبْ فَالْتَمِسْ أَزْدِيًّا حَوْلا>، قَالَ: فَأَتَاهُ بَعْدَ الْحَوْلِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَمْ أَجِدْ أَزْدِيًّا أَدْفَعُهُ إِلَيْهِ قَالَ: <فَانْطَلِقْ، فَانْظُرْ أَوَّلَ خُزَاعِيٍّ تَلْقَاهُ فَادْفَعْهُ إِلَيْهِ > فَلَمَّا وَلَّى قَالَ: < عَلَيَّ الرَّجُلُ >، فَلَمَّا جَائَهُ قَالَ: < انْظُرْ كُبْرَ خُزَاعَةَ فَادْفَعْهُ إِلَيْهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''جبریل بن احمر'' ضعیف ہیں)
۲۹۰۳- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اوراس نے عرض کیا: قبیلہ ازد کے ایک آدمی کا ترکہ میرے پاس ہے اور مجھے کوئی ازدی مل نہیں رہا ہے جسے میں یہ ترکہ دے دوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ایک سال تک کسی ازدی کو تلاش کرتے رہو ''۔
وہ شخص پھر ایک سال بعدآپ ﷺ کے پاس آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ازدی نہیں ملا کہ میں اسے ترکہ دے دیتا آپ ﷺ نے فرمایا : ''جاؤ کسی خزاعی ہی کوتلاش کرو، اگر مل جائے تو مال اس کو دے دو''، جب وہ شخص پیٹھ پھیرکر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''آدمی کو میرے پاس بلاکے لاؤ''، جب وہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''دیکھو جو شخص خزاعہ میں سب سے بڑا ہواس کو یہ مال دے دینا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ جو سب سے بڑاہوگا وہ اپنے جد اعلیٰ سے زیادہ قریب ہوگا اور جو اپنے جد اعلیٰ سے قریب ہوگا ازد سے بھی زیادہ قریب ہوگا کیونکہ خزاعہ ازد ہی کی ایک شاخ ہے۔


2904- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَسْوَدَ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ جِبْرِيلَ ابْنِ أَحْمَرَ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ فَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِمِيرَاثِهِ، فَقَالَ: < الْتَمِسُوا لَهُ وَارِثًا، أَوْ ذَا رَحِمٍ >، فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ وَارِثًا وَلا ذَا رَحِمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَعْطُوهُ الْكُبْرَ مِنْ خُزَاعَةَ >، وَقَالَ يَحْيَى: قَدْ سَمِعْتُهُ [مَرَّةً] يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: < انْظُرُوا أَكْبَرَ رَجُلٍ مِنْ خُزَاعَةَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۵) (ضعیف)
۲۹۰۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:خز اعہ (قبیلہ ) کے ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کی میراث رسول اللہ ﷺ کے پاس لائی گئی توآپ نے فرمایا :'' اس کا کوئی وارث یا ذی رحم تلاش کرو''، تو نہ اس کا کوئی وارث ملا، اور نہ ہی کوئی ذی رحم، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خز اعہ میں سے جو بڑا ہو اسے میراث دیدو''۔
یحییٰ کہتے ہیں: ایک بار میں نے شریک سے سنا وہ اس حدیث میں یوں کہتے تھے: دیکھو جو شخص خزاعہ میں سب سے بڑا ہواسے دے دو۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اوپری نسب میں خزاعہ سے نز دیک ہو ۔


2905- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَوْسَجَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا مَاتَ وَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا إِلا غُلامًا لَهُ كَانَ أَعْتَقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < هَلْ لَهُ أَحَدٌ؟ > قَالُوا: لا، إِلا غُلامًا [لَهُ] كَانَ أَعْتَقَهُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِيرَاثَهُ لَهُ۔
* تخريج: ت/الفرائض ۱۴ (۲۱۰۶)، ق/الفرائض ۱۱ (۲۷۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۱، ۳۵۸) (ضعیف)
(اس کے راوی''عوسجہ'' مجہول ہیں)
۲۹۰۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مرگیا اور ایک غلام کے سوا جسے وہ آزاد کر چکا تھا کوئی وارث نہ چھوڑا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا :''کیا کوئی اس کا وارث ہے؟''، لوگوں نے کہا: کوئی نہیں سوائے ایک غلام کے جس کو اس نے آزاد کر دیا تھا تو آپ ﷺ نے اسی کو اس کا ترکہ دلا دیا۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتق ( آزاد کیا ہوا) بھی وارث ہوتا ہے جب آزاد کرنے والے کا کوئی اور وارث نہ ہو، لیکن جمہور اس کے خلا ف ہیں اور حدیث بھی ضعیف ہے۔
 
Top