• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي نَسْخِ الْوَصِيَّةِ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ
۵-باب: ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کے منسوخ ہونے کا بیان​


2869- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ} فَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ كَذَلِكَ حَتَّى نَسَخَتْهَا آيَةُ الْمِيرَاثِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۶۲۶۰)، وقد أخرجہ: دي/الوصایا ۲۸ (۳۳۰۶) (حسن صحیح)
۲۸۶۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ: { إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ} ۱؎ وصیت اسی طرح تھی ( جیسے اس آیت میں مذکور ہے ) یہاں تک کہ میراث کی آیت نے اسے منسوخ کر دیا۔
وضاحت ۱؎ : ''اگرمال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے '' (سورۃ البقرۃ: ۱۸۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ لِلْوَارِثِ
۶-باب: وارث کے لئے وصیت کرنا کیسا ہے؟​


2870- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ سَمِعْتُ أَبَاأُمَامَةَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ >۔
* تخريج: ت/الوصایا ۵ (۲۱۲۰) ، ق/الوصایا ۶ (۲۷۱۳)، (تحفۃ الأشراف:۴۸۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۷)، ویأتي ہذا الحدیث برقم : ۳۵۶۵ (حسن صحیح)
۲۸۷۰- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:'' کہ اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ۱؎ لہٰذا اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ''۔
وضاحت ۱؎ : آیت میراث نازل فرما کر اس کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مُخَالَطَةِ الْيَتِيمِ فِي الطَّعَامِ
۷-باب: یتیم کا کھانا اپنے کھانے کے ساتھ شریک کرنا کیسا ہے؟​


2871- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاء، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ} وَ {إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا} الآيَةَ، انْطَلَقَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ يَتِيمٌ فَعَزَلَ طَعَامَهُ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرَابَهُ مِنْ شَرَابِهِ، فَجَعَلَ يَفْضُلُ مِنْ طَعَامِهِ فَيُحْبَسُ لَهُ حَتَّى يَأْكُلَهُ أَوْ يَفْسُدَ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ، وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ} فَخَلَطُوا طَعَامَهُمْ بِطَعَامِهِ وَشَرَابَهُمْ بِشَرَابِهِ۔
* تخريج: ن/الوصایا ۱۰ (۳۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف:۵۵۶۹) (حسن)
۲۸۷۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب اللہ عزوجل نے آیت کریمہ:{ وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ} ۱؎ اور {إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا} ۲؎ نازل فرمائی تو جن لوگوں کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا کھانا اپنے کھانے سے اور ان کاپانی اپنے پانی سے جد ا کر دیا تو یتیم کا کھانا بچ رہتا یہاں تک کہ وہ اسے کھاتا یا سڑ جا تا ، یہ امر لوگوں پر شاق گزرا تو انہوں نے اس بات کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تواللہ نے یہ آیت {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ، وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ}۳؎ اتاری تو لوگوں نے اپنا کھانا پینا ان کے کھانے پینے کے ساتھ ملا لیا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہے'' (سورۃ الانعام : ۱۵۲)
وضاحت ۲؎ : ''جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں'' (سورۃ النساء : ۱۰)
وضاحت ۳؎ : ''اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیرخواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں'' (سورۃ البقرۃ : ۲۲۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِيمَا لِوَلِيِّ الْيَتِيمِ أَنْ يَنَالَ مِنْ مَالِ الْيَتِيمِ
۸-باب: یتیم کے مال سے اس کا ولی کتنا کھا سکتا ہے؟​


2872- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ -يَعْنِي الْمُعَلِّمَ- عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي فَقِيرٌ لَيْسَ لِي شَيْئٌ وَلِي يَتِيمٌ، قَالَ: فَقَالَ: < كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ، وَلامُبَادِرٍ، وَلا مُتَأَثِّلٍ >۔
* تخريج: ن/الوصایا ۱۰(۳۶۹۸)، ق/الوصایا ۹ (۲۷۱۸)، (تحفۃ الأشراف:۸۶۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۶، ۲۱۶) (حسن صحیح)
۲۸۷۲- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ ایک یتیم میرے پاس ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرنا، نہ جلد بازی دکھانا ( اس کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ) نہ اس کے مال سے کما کر اپنا مال بڑھانا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے بقدر تم کھاؤ ، نہ کہ فضول خرچی کرو، یا یہ خیال کر کے یتیم بڑا ہو جائے گا تو مال نہ مل سکے گا جلدی جلدی خرچ کر ڈالو، یا اس میں سے اپنے لئے جمع کرلو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ مَتَى يَنْقَطِعُ الْيُتْمُ
۹-باب: یتیم کس عمر تک یتیم رہے گا؟​


2873- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ خَالِدِ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ [بْنِ يَزِيدَ] بْنِ رُقَيْشٍ أَنَّهُ سَمِعَ شُيُوخًا مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَمِنْ خَالِهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي أَحْمَدَ قَالَ: قَالَ عَلِيُّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ: حَفِظْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: < لا يُتْمَ بَعْدَ احْتِلامٍ، وَلا صُمَاتَ يَوْمٍ إِلَى اللَّيْلِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۰۱۶۰) (صحیح)
۲۸۷۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سن کر یا د رکھی ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں ( یعنی جب جوان ہوگیا تو یتیم نہیں رہا ) اور نہ دن بھر رات کے آنے تک خا موشی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : زمانہ ٔ جاہلیت کے لوگوں کی عبادت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ خاموشی کا صیام رکھتے اور دوران خاموشی کسی سے بات نہیں کرتے تھے ، اسلام نے اس طریقہ ٔ عبادت سے منع کردیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي أَكْلِ مَالِ الْيَتِيمِ
۱۰-باب: یتیم کا مال کھانا سخت گناہ کا کام ہے​


2874- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ، عَنْ ثَوْرِ ابْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ > قِيلَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: < الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاتِ الْمُؤْمِنَاتِ >.
[قَالَ أَبو دَاود: أَبُو الْغَيْثِ: سَالِمٌ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ] ۔
* تخريج: خ/الوصایا ۲۳ (۲۷۶۶)، والطب ۴۸ (۵۷۶۴)، والحدود ۴۴ (۶۸۵۷)، م/الإیمان ۳۸ (۸۹)، ن/الوصایا ۱۱ (۳۷۰۱)، (تحفۃ الأشراف:۱۲۹۱۵) (صحیح)
۲۸۷۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''سات تباہ وبرباد کر دینے والی چیزوں (کبیرہ گناہوں) سے بچو''،عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :''اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جا دو ، ناحق کسی کو جان سے مارنا، سودکھانا، یتیم کامال کھانا، اور لڑائی کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنا، اور پاک باز اور عفت والی بھو لی بھالی مو منہ عورتوں پر تہمت لگانا''۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو الغیث سے مراد سالم مولی ابن مطیع ہیں۔


2875- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجُوْزَجَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ -وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ- أَنَّ رَجُلا سَأَلَهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الْكَبَائِرُ؟ فَقَالَ: < هُنَّ تِسْعٌ > فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، زَادَ: < وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ الْمُسْلِمَيْنِ، وَاسْتِحْلالُ الْبَيْتِ الْحَرَامِ قِبْلَتِكُمْ أَحْيَائً وَأَمْوَاتًا >۔
* تخريج: ن/المحاریۃ ۳ (۴۰۱۷) (وعندہ: ''تسع'')، (تحفۃ الأشراف:۱۰۸۹۵) (حسن)
۲۸۷۵- عمیر بن قتادۃ لیثی رضی اللہ عنہ (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول!کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''وہ نو ۱؎ ہیں''، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی جو اوپر بیان ہوئی، اور اس میں: ''مسلمان ماں باپ کی نافرمانی، اوربیت اللہ جو کہ زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے کی حرمت کو حلال سمجھ لینے'' کا اضافہ ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہاں حصر اور استقصاء مقصود نہیں ان کے علاوہ اور بھی متعدد کبیرہ گناہ ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَفَنَ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ
۱۱-باب: کفن کا کپڑا بھی مردے کے مال میں داخل ہے اس کی دلیل کابیان​


2876- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ خَبَّابٍ قَالَ: مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَلَمْ تَكُنْ لَهُ إِلا نَمِرَةٌ كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا [بِهَا] رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاهُ، وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <غَطُّوا بِهَا رَأْسَهُ، وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَيْهِ مِنَ الإِذْخِرِ >۔
* تخريج: خ/الجنائز ۲۷ (۱۲۷۶)، مناقب الأنصار ۴۵ (۳۸۹۷)، المغازي ۱۷ (۴۰۴۵)، ۲۶ (۴۰۸۲)، الرقاق ۷ (۶۴۳۲)، ۱۶ (۶۴۴۸)، م/الجنائز ۱۳ (۹۴۰)، ت/المناقب ۵۴ (۳۸۵۳)، ن/الجنائز ۴۰ (۱۹۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰۹، ۱۱۲، ۶/۳۹۵) (صحیح)
۲۸۷۶- خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن قتل کر دیے گئے ، اور ان کے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہ تھا، جب ہم ان کا سر ڈھانکتے تو ان کے دونوں پائوں کھل جاتے اور جب دونوں پائوں ڈھانکتے تو ان کا سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پرا ذخر ڈال دو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اذخربلاد عرب میں ایک خوشبو دار گھاس ہوتی ہے جو بہت سی ضرورتوں میں استعمال کی جا تی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي الرَّجُلِ يَهَبُ الْهِبَةَ ثُمَّ يُوصَى لَهُ بِهَا أَوْ يَرِثُهَا
۱۲-باب: آدمی کوئی چیز ہبہ کردے پھر وصیت یا میراث سے وہی چیز پالے تو کیسا ہے؟​


2877- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بَنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ بُرَيْدَةَ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ: كُنْتُ تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِوَلِيدَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ وَتَرَكَتْ تِلْكَ الْوَلِيدَةَ، قَالَ: < قَدْ وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَجَعَتْ إِلَيْكِ فِي الْمِيرَاثِ >، قَالَتْ: وَإِنَّهَا مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَيُجْزِئُ، أَوْ يَقْضِي عَنْهَا أَنْ أَصُومَ عَنْهَا؟ قَالَ: < نَعَمْ >، قَالَتْ: وَإِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ، أَفَيُجْزِئُ، أَوْ يَقْضِي عَنْهَا أَنْ أَحُجَّ عَنْهَا؟ قَالَ: < نَعَمْ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۶۵۶)، (تحفۃ الأشراف:۱۹۸۰) (صحیح)
۲۸۷۷- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکرکہا: میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی ہبہ کی تھی ، اب وہ مرگئیں اور لونڈی چھوڑ گئیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارا ثواب بن گیااور تمہیں تمہاری لونڈی بھی میراث میں واپس مل گئی''، پھر اس نے عرض کیا: میری ماں مر گئی، اور اس پر ایک مہینے کے صیام تھے، کیا میں اس کی طرف سے قضا کروں تو کافی ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں ۱؎ ''، پھر اس نے کہا: اس نے حج بھی نہیں کیا تھا ، کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کے لئے کا فی ہوگا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں( کر لو)''۔
وضاحت ۱؎ : بعض اہل علم کا خیال ہے کہ میت کی طرف سے صیام رکھا جاسکتا ہے جب کہ علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ بدنی عبادت میں نیابت درست نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ صلاۃ میں کسی کی طرف سے نیابت نہیں کی جاتی، البتہ جن چیزوں میں نیابت کی تصریح ہے ان میں نیابت درست ہے جیسے صوم وحج وغیرہ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُوقِفُ الْوَقْفَ
۱۳-باب: جائیداد وقف کرنے کا بیان​


2878- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ؟ قَالَ: < إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا > فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لايُبَاعُ أَصْلُهَا، وَلا يُوهَبُ، وَلايُوَرَّثُ: لِلْفُقَرَائِ، وَالْقُرْبَى، وَالرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَزَادَ عَنْ بِشْرٍ: وَالضَّيْفِ، ثُمَّ اتَّفَقُوا: لاجُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ، زَادَ عَنْ بِشْرٍ: قَالَ: وَقَالَ مُحَمَّدٌ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالا۔
* تخريج: خ/الشروط ۱۹ (۲۷۳۷)، والوصایا ۲۲ (۲۷۶۴)، ۲۸ (۲۷۷۲)، ۳۲ (۲۷۷۷)، م/الوصایا ۴ (۱۶۳۲)، ت/الأحکام ۳۶ (۱۳۷۵)، ن/الإحباس ۱ (۳۶۲۹)، ق/الصدقات ۴ (۲۳۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۵، ۱۲۵) (صحیح)
۲۸۷۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! مجھے ایک ایسی زمین ملی ہے، مجھے کبھی کوئی مال نہیں ملا تو اس کے متعلق مجھے آپ کیا حکم فرماتے ہیںـ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اگر تم چا ہو تو زمین کی اصل( ملکیت )کو روک لواور اس کے منا فع کو صدقہ کر دو'' ۱؎ ، عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا کہ نہ زمین بیچی جائے گی، نہ ہبہ کی جائے گی، اور نہ میراث میں تقسیم ہو گی (بلکہ ) اس سے فقراء ، قرابت دار، غلام ، مجاہد ین اور مسافر فائدہ اٹھائیں گے۔
بشرکی روایت میں ''مہمان کا اضافہ ہے''،باقی میں سارے راوی متفق ہیں: ''جو اس کا والی ہوگا دستور کے مطا بق اس کے منافع سے اس کے خود کھانے اوردوستوں کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں جب کہ وہ مال جمع کر کے رکھنے والا نہ ہو ''۔
بشر کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ محمد (ابن سیرین) کہتے ہیں: ''مال جوڑنے والا نہ ہو''۔
وضاحت ۱؎ : یہ پہلا اسلامی وقف ہے جس کی ابتداء عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے ہوئی ۔


2879- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بِنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ صَدَقَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: نَسَخَهَا لِي عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا كَتَبَ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فِي ثَمْغٍ، فَقَصَّ مِنْ خَبَرِهِ نَحْوَ حَدِيثِ نَافِعٍ، قَالَ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالا، فَمَا عَفَا عَنْهُ مِنْ ثَمَرِهِ فَهُوَ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ، قَالَ: وَسَاقَ الْقِصَّةَ، قَالَ: وَإِنْ شَائَ وَلِيُّ ثَمْغٍ اشْتَرَى مِنْ ثَمَرِهِ رَقِيقًا لِعَمَلِهِ، وَكَتَبَ مُعَيْقِيبٌ، وَشَهِدَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الأَرْقَمِ: بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ عَبْدُاللَّهِ عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ، أَنَّ ثَمْغًا وَصِرْمَةَ ابْنَ الأَكْوَعِ وَالْعَبْدَ الَّذِي فِيهِ وَالْمِائَةَ سَهْمٍ الَّتِي بِخَيْبَرَ وَرَقِيقَهُ [الَّذِي فِيهِ] وَالْمِائَةَ الَّتِي أَطْعَمَهُ مُحَمَّدٌ ﷺ بِالْوَادِي، تَلِيهِ حَفْصَةُ مَا عَاشَتْ، ثُمَّ يَلِيهِ ذُو الرَّأْيِ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ لا يُبَاعَ وَلا يُشْتَرَى، يُنْفِقُهُ حَيْثُ رَأَى مِنَ السَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ وَذَوِي الْقُرْبَى، وَلا حَرَجَ عَلَى [مَنْ] وَلِيَهُ إِنْ أَكَلَ أَوْ آكَلَ أَوِ اشْتَرَى رَقِيقًا مِنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۹) (صحیح)
(بطوروجادہ کے یہ روایت صحیح ہے ، وجادہ کا مطلب یہ ہے کہ خاندان کی کتاب میں ایسا لکھا ہوا پایا، وجادہ کے راوی اگر ثقہ ہوں اور صاحب تحریر کی تحریر پہچانتے ہوں تو ایسی روایت بھی صحیح ہوتی ہے)
۲۸۷۹- یحییٰ بن سعید سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقہ کے متعلق روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عبدالحمید بن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نے مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقے کی کتاب نقل کر کے دی،اس میں یوں لکھا ہوا تھا: ''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ کے بندے عمر نے ثمغ ( اس مال یا با غ کا نام ہے جس کو عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ یا خیبر میں وقف کیا تھا ) کے متعلق لکھا ہے''، پھر وہی تفصیل بیان کی جو نافع کی حدیث میں ہے اس میں ہے:'' مال جوڑنے والے نہ ہوں ، جوپھل اس سے گریں وہ مانگنے اور نہ مانگنے والے فقیروں ا ور محتا جوں کے لئے ہیں''،راوی کہتے ہیں:اور انہوں نے پورا قصہ بیان کیا، اورکہا کہ: ''ثمغ کا متولی پھلو ں کے بدلے ( باغ کے) کام کاج کے لئے غلام خرید نا چاہے تو اس کے پھل سے خرید سکتا ہے''، معیقیب نے اسے لکھا اور عبداللہ بن ارقم نے اس بات کی یوں گواہی دی۔
''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یہ وہ وصیت نامہ ہے جس کی اللہ کے بندے امیرا لمو منین عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آجائے ( یعنی مر جائوں) تو ثمغ اور صرمہ بن اکوع اور غلام جو اس میں ہے اور خیبر کے میرے سو حصے اور جو غلام وہاں ہیں اور میرے سو وہ حصے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے خیبر سے قریب کی وادی میں دیئے تھے ان سب کی متولیہ تا حیات حفصہ رہیں گی ، حفصہ کے بعد ان کے اہل میں سے جو صاحب رائے ہوگا وہ متولی ہوگا لیکن کوئی چیز نہ بیچی جائے گی، نہ خریدی جائے گی، سائل ومحروم اور اقرباء پر ان کی ضروریات کو دیکھ کر خرچ کیا جائے گا، ان کا متولی اگر اس میں سے کھائے یا کھلائے یا ان کی حفاظت وخدمت کے لئے ان کی آمدنی سے غلام خرید لے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَيِّتِ
۱۴-باب: میت کی جانب سے صدقہ کے ثواب کا بیان​


2880- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أُرَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثَةِ أَشْيَائَ: مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۲۶)، وقد أخرجہ: م/الوصایا ۳ (۱۶۳۱)، ت/الأحکام ۳۶ (۱۳۷۶)، ن/الوصایا ۸ (۳۶۸۱)، حم (۲/۳۱۶،۳۵۰، ۳۷۲) (صحیح)
۲۸۸۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب انسان مر جا تا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جا تا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے): ایک صدقہ جا ریہ ۱؎ ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۲؎ ، تیسرا صالح اولاد جواس کے لئے دعائیں کر تی رہے''۔
وضاحت ۱؎ : ایسی خیرات جس کا فائدہ ہمیشہ جا ری رہے مثلا مسجد ، مدرسہ ، کنواں وغیرہ۔
وضاحت ۲؎ : مثلاً دینی تعلیم دینا ،کتاب و سنت کے مطابق کتابیں و تفسیریں وغیرہ لکھ جانا۔
 
Top