- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
8- بَاب فِي مِيرَاثِ ذَوِي الأَرْحَامِ
۸-باب: ذوی الا رحام کی میراث کا بیان ۱؎
2899- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ ابْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ [الْهَوْزَنِيِّ عَبْدِاللَّهِ بْنِ لُحَيٍّ]، عَنِ الْمِقْدَامِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: $ مَنْ تَرَكَ كَلا فَإِلَيَّ -وَرُبَّمَا قَالَ: إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ- وَمَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ، وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لاوَارِثَ لَهُ: أَعْقِلُ لَهُ، وَأَرِثُهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ: يَعْقِلُ عَنْهُ، وَيَرِثُهُ #۔
* تخريج: ق/الفرائض ۹ (۲۷۳۸)، والدیات ۷ (۲۶۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۱، ۱۳۳) (حسن صحیح)
۲۸۹۹- مقدام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بوجھ( قرضہ یا بال بچّے) چھوڑ جائے تو وہ میری طرف ہے، اور کبھی راوی نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے ۲؎ اور جو مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا میں وارث ہوں، میں اس کی طرف سے دیت دوں گا اور اس شخص کا ترکہ لو ں گا، ایسے ہی ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کی دیت دے گا اور اس کا وارث ہو گا۔
وضاحت ۱؎ : میت کا ایسا رشتہ دار جو نہ ذوی الفروض میں سے ہو اور نہ عصبہ میں سے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اس کی اولاد کی خبر گیری کروں گا۔
2900- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ فِي آخَرِينَ قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ بُدَيْلٍ [يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ] عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ الْكِنْدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيْعَةً فَإِلَيَّ، وَمَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ، وَأَنَا مَوْلَى مَنْ لا مَوْلَى لَهُ: أَرِثُ مَالَهُ، وَأَفُكُّ عَانَهُ، وَالْخَالُ مَوْلَى مَنْ لا مَوْلَى لَهُ: يَرِثُ مَالَهُ، وَيَفُكُّ عَانَهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ عَنْ رَاشِدِ [بْنِ سَعْدٍ] عَنِ ابْنِ عَائِذٍ عَنِ الْمِقْدَامِ، وَرَوَاهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ رَاشِدٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْمِقْدَامَ .
قَالَ أَبو دَاود يَقُولُ: الضَّيْعَةُ مَعْنَاهُ : عِيَالٌ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۹) (حسن صحیح)
۲۹۰۰- مقدام کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''میں ہر مسلمان سے اس کی ذات کی نسبت قریب تر ہوں، جو کوئی اپنے ذمہ قرض چھو ڑ جائے یا عیال چھوڑ جائے تو اس کا قرض ادا کر نا یا اس کے عیا ل کی پرورش کر نا میرے ذمہ ہے، اور جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے، اور جس کا کوئی والی نہیں اس کا والی میں ہوں، میں اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور میں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور جس کا کوئی والی نہیں، اس کا ماموں اس کا والی ہے(یہ ) اس کے مال کا وارث ہوگا اور اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا ''۔
ابو داود کہتے ہیں: اس روایت کو زبیدی نے راشد بن سعدسے، راشد نے ابن عائذ سے، ابن عائذ نے مقدام سے روایت کیا ہے اور اسے معاویہ بن صالح نے راشد سے روایت کیا ہے اس میں''عَنْ مِقْدَاْمٍ'' کے بجائے ''سَمِعْتُ الْمِقْدَاْمَ'' ہے۔ ابوداود کہتے ہیں: ''ضَيْعَةٌ'' کے معنی عیال کے ہیں۔
2901- حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ عَتِيقٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَنَا وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ: أَفُكُّ عَانِيَهُ، وَأَرِثُ مَالَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاوَارِثَ لَهُ: يَفُكُّ عَانِيَهُ، وَيَرِثُ مَالَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۶) (حسن صحیح)
۲۹۰۱- مقدام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث میں ہوں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے ۱؎ جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا، اور اس کے مال کا وارث ہو گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنے بھانجے کا ۔
2902- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ سُفْيَانَ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ مَوْلًى لِلنَّبِيِّ ﷺ مَاتَ وَتَرَكَ شَيْئًا، وَلَمْ يَدَعْ وَلَدًا وَلا حَمِيمًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < أَعْطُوا مِيرَاثَهُ رَجُلا مِنْ أَهْلِ قَرْيَتِهِ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَحَدِيثُ سُفْيَانَ أَتَمُّ، وَقَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < هَاهُنَا أَحَدٌ مَنْ أَهْلِ أَرْضِهِ؟ > قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: < فَأَعْطُوهُ مِيرَاثَهُ >۔
* تخريج: ت/الفرائض ۱۳ (۲۱۰۵)، ق/الفرائض ۷ (۲۷۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۳۷، ۱۷۴، ۱۸۱) (صحیح)
۲۹۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک غلام مر گیا ، کچھ مال چھوڑ گیا اور کوئی وارث نہ چھوڑ ا، نہ کوئی اولاد، اور نہ کوئی عزیز، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اس کا ترکہ اس کی بستی کے کسی آدمی کو دے دو '' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: سفیان کی روایت سب سے زیادہ کامل ہے، مسد د کی روایت میں ہے : نبی اکرم ﷺ نے پوچھا: ''یہاں کوئی اس کا ہم وطن ہے؟'' ، لوگوں نے کہا: ہاں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس کا ترکہ اس کو دے دو''۔
وضاحت ۱؎ : وہ ترکہ آپ کا حق تھا مگرآپ نے اس کے ہم وطن پراسے صدقہ کردیا، امام کو ایسا اختیار ہے اس میں کوئی مصلحت ہی ہوگی ۔
2903- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ جِبْرِيلَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي مِيرَاثَ رَجُلٍ مِنَ الأَزْدِ، وَلَسْتُ أَجِدُ أَزْدِيًّا أَدْفَعُهُ إِلَيْهِ قَالَ: < اذْهَبْ فَالْتَمِسْ أَزْدِيًّا حَوْلا>، قَالَ: فَأَتَاهُ بَعْدَ الْحَوْلِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَمْ أَجِدْ أَزْدِيًّا أَدْفَعُهُ إِلَيْهِ قَالَ: <فَانْطَلِقْ، فَانْظُرْ أَوَّلَ خُزَاعِيٍّ تَلْقَاهُ فَادْفَعْهُ إِلَيْهِ > فَلَمَّا وَلَّى قَالَ: < عَلَيَّ الرَّجُلُ >، فَلَمَّا جَائَهُ قَالَ: < انْظُرْ كُبْرَ خُزَاعَةَ فَادْفَعْهُ إِلَيْهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''جبریل بن احمر'' ضعیف ہیں)
۲۹۰۳- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اوراس نے عرض کیا: قبیلہ ازد کے ایک آدمی کا ترکہ میرے پاس ہے اور مجھے کوئی ازدی مل نہیں رہا ہے جسے میں یہ ترکہ دے دوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ایک سال تک کسی ازدی کو تلاش کرتے رہو ''۔
وہ شخص پھر ایک سال بعدآپ ﷺ کے پاس آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ازدی نہیں ملا کہ میں اسے ترکہ دے دیتا آپ ﷺ نے فرمایا : ''جاؤ کسی خزاعی ہی کوتلاش کرو، اگر مل جائے تو مال اس کو دے دو''، جب وہ شخص پیٹھ پھیرکر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''آدمی کو میرے پاس بلاکے لاؤ''، جب وہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''دیکھو جو شخص خزاعہ میں سب سے بڑا ہواس کو یہ مال دے دینا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ جو سب سے بڑاہوگا وہ اپنے جد اعلیٰ سے زیادہ قریب ہوگا اور جو اپنے جد اعلیٰ سے قریب ہوگا ازد سے بھی زیادہ قریب ہوگا کیونکہ خزاعہ ازد ہی کی ایک شاخ ہے۔
2904- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَسْوَدَ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ جِبْرِيلَ ابْنِ أَحْمَرَ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ فَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِمِيرَاثِهِ، فَقَالَ: < الْتَمِسُوا لَهُ وَارِثًا، أَوْ ذَا رَحِمٍ >، فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ وَارِثًا وَلا ذَا رَحِمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَعْطُوهُ الْكُبْرَ مِنْ خُزَاعَةَ >، وَقَالَ يَحْيَى: قَدْ سَمِعْتُهُ [مَرَّةً] يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: < انْظُرُوا أَكْبَرَ رَجُلٍ مِنْ خُزَاعَةَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۵) (ضعیف)
۲۹۰۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:خز اعہ (قبیلہ ) کے ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کی میراث رسول اللہ ﷺ کے پاس لائی گئی توآپ نے فرمایا :'' اس کا کوئی وارث یا ذی رحم تلاش کرو''، تو نہ اس کا کوئی وارث ملا، اور نہ ہی کوئی ذی رحم، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خز اعہ میں سے جو بڑا ہو اسے میراث دیدو''۔
یحییٰ کہتے ہیں: ایک بار میں نے شریک سے سنا وہ اس حدیث میں یوں کہتے تھے: دیکھو جو شخص خزاعہ میں سب سے بڑا ہواسے دے دو۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اوپری نسب میں خزاعہ سے نز دیک ہو ۔
2905- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَوْسَجَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا مَاتَ وَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا إِلا غُلامًا لَهُ كَانَ أَعْتَقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < هَلْ لَهُ أَحَدٌ؟ > قَالُوا: لا، إِلا غُلامًا [لَهُ] كَانَ أَعْتَقَهُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِيرَاثَهُ لَهُ۔
* تخريج: ت/الفرائض ۱۴ (۲۱۰۶)، ق/الفرائض ۱۱ (۲۷۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۱، ۳۵۸) (ضعیف)
(اس کے راوی''عوسجہ'' مجہول ہیں)
۲۹۰۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مرگیا اور ایک غلام کے سوا جسے وہ آزاد کر چکا تھا کوئی وارث نہ چھوڑا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا :''کیا کوئی اس کا وارث ہے؟''، لوگوں نے کہا: کوئی نہیں سوائے ایک غلام کے جس کو اس نے آزاد کر دیا تھا تو آپ ﷺ نے اسی کو اس کا ترکہ دلا دیا۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتق ( آزاد کیا ہوا) بھی وارث ہوتا ہے جب آزاد کرنے والے کا کوئی اور وارث نہ ہو، لیکن جمہور اس کے خلا ف ہیں اور حدیث بھی ضعیف ہے۔