• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِي هَدَايَا الْعُمَّالِ
۱۱-باب: ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟​


2946- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ لَفْظهُ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَعْمَلَ رَجُلا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ -قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: ابْنُ الأُتْبِيَّةِ- عَلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَ فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ: < مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَجِيئُ فَيَقُولُ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَلا جَلَسَ فِي بَيْتِ أُمِّهِ، أَوْ أَبِيهِ، فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لا؟ لا يَأْتِي أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشَيْئٍ مِنْ ذَلِكَ إِلا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا فَلَهُ رُغَائٌ، أَوْ بَقَرَةً فَلَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ > ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: < اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۶۷ (۱۵۰۰)، الھبۃ ۱۷ (۲۵۹۷)، الأیمان والنذور ۳ (۶۶۳۶)، الحیل ۱۵ (۶۹۷۹)، الأحکام ۲۴ (۷۱۷۲)، م/الإمارۃ ۷ (۱۸۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۲۳)، دي/الزکاۃ ۳۱ (۱۷۱۱) (صحیح)
۲۹۴۶- ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیّہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لئے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیّہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لئے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ''عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لئے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لئے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہیں وہ اپنی ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا ہے کہ نہیں ۱؎ ، تم میں سے جو شخص کوئی چیز لے گا وہ اسے قیامت کے دن لے کر آئے گا، اگر اونٹ ہوگا تو وہ بلبلا رہا ہوگا، اگر بیل ہوگا تو ڈکار رہا ہوگا، اگر بکری ہوگی تو ممیا رہی ہوگی''، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ ہم نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا: ''اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟''، (یعنی تو گواہ رہ جیسا تو نے فرمایا ہو بہو ویسے ہی میں نے اسے پہنچا دیا)۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اس کام پر مقرر نہ ہوتا تو یہ ہدیہ اس کو کبھی نہ ملتا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي غُلُولِ الصَّدَقَةِ
۱۲-باب: صدقہ وزکاۃ میں چوری اور خیانت کی سزا کا بیان​


2947- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ سَاعِيًا، ثُمَّ قَالَ: < انْطَلِقْ أَبَا مَسْعُودٍ [وَ]لا أُلْفِيَنَّكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَجِيئُ [وَ]عَلَى ظَهْرِكَ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ لَهُ رُغَائٌ قَدْ غَلَلْتَهُ > قَالَ: إِذًا لا أَنْطَلِقُ، قَالَ: < إِذًا لاأُكْرِهُكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۸۹) (حسن)
۲۹۴۷- ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے عامل بنا کربھیجا اور فرمایا:'' ابومسعود!جاؤ (مگردیکھو) ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت میں اپنی پیٹھ پر زکاۃ کا اونٹ جسے تم نے چرایا ہو لا دے ہوئے آتا دیکھوں اور وہ بلبلا رہا ہو''، ابو مسعود رضی اللہ عنہ بولے: اگر ایسا ہے تو میں نہیں جاتا، آپ ﷺ نے فرمایا:''تو میں تجھ پر جبر نہیں کرتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی خواہ مخواہ تم جاؤ ہی بلکہ اگر تمہیں اپنے نفس پر اطمینان ہو تو جا ؤ ورنہ نہ جانا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
13- بَاب فِيمَا يَلْزَمُ الإِمَامُ مِنْ أَمْرِ الرَّعِيَّةِ وَالْحَجَبَةِ عَنْهُ
۱۳-باب: امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال​


2948- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَيْمِرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا مَرْيَمَ الأَزْدِيَّ أَخْبَرَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ: مَا أَنْعَمَنَا بِكَ أَبَا فُلانٍ، وَهِيَ كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ، فَقُلْتُ: حَدِيثًا سَمِعْتُهُ أُخْبِرُكَ بِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمُ احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ وَفَقْرِهِ >، قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ۔
* تخريج: ت/الأحکام ۶ (۱۳۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۷۳) (صحیح)
۲۹۴۸- ابو مریم ازدی (اسدی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، انہوں نے کہا: اے ابو فلاں ! بڑے اچھے آئے، میں نے کہا :میں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث بتا رہا ہوں، میں نے آپ کو فرماتے سناہے: ''جسے اللہ مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام کا ذمہ دار بنائے پھر وہ ان کی ضروریات اور ان کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان رکاوٹ بن جائے ۱؎ تو اللہ اس کی ضر وریات اور اس کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان حائل ہوجاتا ہے '' ۲؎ ۔
یہ سنا تومعاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مقررکر دیا جو لوگوں کی ضروریات کو سنے اور اسے پورا کرے۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ان کی ضر و ریات پوری نہ کرے اور ان کی محتاجی و تنگ دستی دور نہ کرے۔
وضاحت ۲؎ ؎ : یعنی اللہ تعالی بھی اس کی حاجت و ضروریات پوری نہیں کرتا۔


2949- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا [بِهِ] أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: [قَالَ] رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَا أُوتِيكُمْ مِنْ شَيْئٍ وَمَا أَمْنَعُكُمُوهُ، إِنْ أَنَا إِلا خَازِنٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۹۲)، وقد أخرجہ: خ/فرض الخمس ۷ (۳۱۱۷)، حم (۲/ ۳۱۴، ۴۸۲) (صحیح)
۲۹۴۹- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے''۔


2950- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاء، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا الْفَيْئَ فَقَالَ: مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهَذَا الْفَيْئِ مِنْكُمْ، وَمَا أَحَدٌ مِنَّا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ، إِلا أَنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: فَالرَّجُلُ وَقِدَمُهُ، وَالرَّجُلُ وَبَلاؤُهُ، وَالرَّجُلُ وَعِيَالُهُ، وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۲) (حسن)
۲۹۵۰- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن فیٔ (بغیر جنگ کے ملا ہوا مال ) کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس فیٔ کا تم سے زیادہ حق دار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہم میں سے اس کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے، لیکن ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کے اعتبار سے اپنے اپنے مرا تب پر ہیں، جو شخص اسلام لانے میں مقدم ہوگا یا جس نے (اسلام کے لئے) زیادہ مصائب بر داشت کئے ہونگے یا عیال دار ہوگا یا حاجت مند ہو گا تو اسی اعتبار سے اس میں مال تقسیم ہوگا، ہرشخص کو اس کے مقام و مر تبہ اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے مال فیٔ تقسیم کیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِي قَسْمِ الْفَيْئِ
۱۴-باب: فیٔ یعنی جنگ کے بغیر حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کی تقسیم کا بیان​


2951- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ: حَاجَتَكَ يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! فَقَالَ: عَطَاءُ الْمُحَرَّرِينَ، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَوَّلَ مَا جَائَهُ شَيْئٌ بَدَأَ بِالْمُحَرَّرِينَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۲۹) (حسن)
۲۹۵۱- زید بن اسلم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: ابوعبدالرحمن! کس ضرورت سے آنا ہوا؟کہا: آزاد کئے ہوئے غلاموں کا حصہ لینے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ جب آپ کے پاس فیٔ کا مال آتا تو سب سے پہلے آپ ﷺ آزاد غلاموں کا حصہ دینا شروع کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ آزاد غلاموں کانام حکومت کے رجسٹر میں نہیں رہتا تھا اس لئے وہ بیچارے محروم رہ جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان غلاموں کی بابت یاد دلایا اور ان کے حق میں عطیات کے سلسلہ میں سفارش کی ۔


2952- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نِيَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِظَبْيَةٍ فِيهَا خَرَزٌ فَقَسَمَهَا لِلْحُرَّةِ وَالأَمَةِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ أَبِي رَضِي اللَّه عَنْه يَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۵۶، ۱۵۹، ۲۳۸) (صحیح)
۲۹۵۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک تھیلا لا یا گیا جس میں خونگے (قیمتی پتھر) تھے تو آپ ﷺ نے انہیں آزاد عو رتوں اور لونڈیوں میں تقسیم کر دیا ۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میرے والد( ابو بکر رضی اللہ عنہ ) آزاد مردوں اور غلاموں میں تقسیم کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مونگوں کی تقسیم عورتوں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔


2953- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُصَفَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، جَمِيعًا عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا أَتَاهُ الْفَيْئُ قَسَمَهُ فِي يَوْمِهِ، فَأَعْطَى الآهِلَ حَظَّيْنِ، وَأَعْطَى الْعَزَبَ حَظًّا، زَادَ ابْنُ الْمُصَفَّى: فَدُعِينَا وَكُنْتُ أُدْعَى قَبْلَ عَمَّارٍ، فَدُعِيتُ فَأَعْطَانِي حَظَّيْنِ وَكَانَ لِي أَهْلٌ، ثُمَّ دُعِيَ بَعْدِي عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَأَعْطَى [لَهُ] حَظًّا وَاحِدًا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۵، ۲۹) (صحیح)
۲۹۵۳- عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جس دن مال فیٔ آتا آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار رضی اللہ عنہ سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلا یا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بلائے گئے توانہیں صرف ایک حصہ دیا گیا ( کیونکہ وہ کنوارے تھے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
15- بَاب فِي أَرْزَاقِ الذُّرِّيَّةِ
۱۵-باب: مسلمانوں کی اولاد کو وظیفہ دینے کا بیان​


2954- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، مَنْ تَرَكَ مَالا فَلأَهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ >۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۷ (۴۵)، والصدقات ۱۳ (۲۴۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۵)، وقد أخرجہ: م/الجمعۃ ۱۳ (۸۶۷)، ن/العیدین ۲۱ (۱۵۷۹)، والجنائز ۶۷ (۱۹۶۴)، حم (۳/۳۷۱) (صحیح)
۲۹۵۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : ''میں مسلمانوں سے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں(بس) جو مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ مال اس کے گھر والوں کاحق ہے اور جو قرض چھوڑ جائے یا عیال، تو وہ (قرض کی ادائیگی اور عیال کی پر ورش ) میرے ذمہ ہے''۔


2955- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ، وَمَنْ تَرَكَ كَلاَّ فَإِلَيْنَا >۔
* تخريج: خ/ الاستقراض ۱۱ (۲۳۹۸)، الفرائض ۲۵ (۶۷۶۳)، م/الفرائض ۴ (۱۶۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۱۰)، وقد أخرجہ: ت/الجنائز ۶۹ (۲۰۱۹)، ن/الجنائز ۶۷ (۱۹۶۵)، ق/الصدقات ۱۳ (۲۴۱۶) حم (۲/۲۹۰، ۴۵۳، ۴۵۵) (صحیح)
۲۹۵۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو مال چھوڑ کرجائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو عیال چھوڑ کر مر جائے تو ان کی پرورش ہمارے ذمہ ہے''۔


2956- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ كَانَ يَقُولُ: < أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَكَ دَيْنًا فَإِلَيَّ، وَمَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۹) (صحیح)
۲۹۵۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے :''میں ہر مسلمان سے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں، تو جو مر جائے اور قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے، اور جو مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَتَى يُفْرَضُ لِلرَّجُلِ فِي الْمُقَاتَلَةِ
۱۶-باب: لڑائی میں کس عمر کے مرد کا حصہ لگایا جائے ؟​


2957- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عُرِضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ، وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَلَمْ يُجِزْهُ، وَعُرِضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ [سَنَةً] فَأَجَازَهُ ۔
* تخريج: خ/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، والمغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، ن/الطلاق ۲۰ (۳۴۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۳۳، ۸۱۱۵، ۸۱۵۳)، وقد أخرجہ: م/الإمارۃ ۲۳ (۱۸۶۴)، ت/الأحکام ۲۴ (۱۳۱۶)، والجھاد ۳۱ (۱۷۱۱)، ق/الحدود ۴ (۲۵۴۳)، حم (۲/۱۷) ویأتی ہذا الحدیث فی الحدود (۴۴۰۶) (صحیح)
۲۹۵۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے اس وقت ان کی عمر (۱۴) سال تھی، آپ ﷺ نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، پھروہ غزوئہ خندق کے موقع پر پیش کئے گئے اس وقت وہ پندرہ سال کے ہو گئے تھے، آپ ﷺ نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
17- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ الافْتِرَاضِ فِي آخَرِ الزَّمَانِ
۱۷-باب: آخر ی زمانہ میں عطیہ لینے کی کر اہت کا بیان​


2958- حَدَّثَنَا [أَحْمَدُ] بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ مُطَيْرٍ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ وَادِي الْقُرَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِى مُطَيْرٌ أَنَّهُ خَرَجَ حَاجًّا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالسُّوَيْدَاءِ إِذَا أنا بِرَجُلٍ قَدْ جَاءَ كَأَنَّهُ يَطْلُبُ دَوَائً وَحُضُضًا، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يَعِظُ النَّاسَ وَيَأْمُرُهُمْ وَيَنْهَاهُمْ، فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا الْعَطَاءَ مَا كَانَ عَطَائً، فَإِذَا تَجَاحَفَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْمُلْكِ، وَكَانَ عَنْ دِينِ أَحَدِكُمْ؛ فَدَعُوهُ >.
[قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ مُطَيْرٍ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۶) (ضعیف)
(اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں)
۲۹۵۸- سلیم بن مطیر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حج کرنے کے ارا دے سے نکلے، جب مقام سویدا پر پہنچے تو انہیں ایک (بوڑھا) شخص ملا، لگتا تھا کہ وہ دوا اور رسوت ۱؎ کی تلاش میں نکلا ہے، وہ کہنے لگا:مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں اس حال میں سنا کہ آپ لوگوں کو نصیحت کررہے تھے، انہیں نیکی کا حکم دے رہے تھے اور بری باتوں سے روک رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا :
''لو گو!( امام و حاکم کے) عطیہ کو لے لو جب تک کہ وہ عطیہ رہے ۲؎ ، اور پھر جب قریش ملک و اقتدار کے لئے لڑنے لگیں، اور عطیہ ( بخشش ) دِین کے بدلے ۳؎ میں ملنے لگے تو اسے چھوڑ دو''۔
ابو داود کہتے ہیں: اس روایت کو ابن مبارک نے محمد بن یسار سے انہوں نے سلیم بن مطیر سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : ایک کڑوی دوا جو اکثر آنکھوں اور پھنسیوں کی دوا میں استعمال ہوتی ہے ۔
وضاحت ۲؎ ؎ : یعنی شریعت کے مطابق وہ مال حاصل کیا گیا ہو اور شریعت کے مطابق تقسیم بھی کیا گیا ہو۔
وضاحت۳؎ ؎ : یعنی حاکم عطیہ دے کر تم سے کوئی ناجائز کام کرانا چاہتا ہو۔


2959- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ مُطَيْرٍ، مِنْ أَهْلِ وَادِي الْقُرَى، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَمَرَ النَّاسَ وَنَهَاهُمْ، ثُمَّ قَالَ: < اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ > قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: < إِذَا تَجَاحَفَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْمُلْكِ فِيمَا بَيْنَهَا وَعَادَ الْعَطَاءُ، [أَوْ كَانَ] رشًا فَدَعُوهُ >، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا ذُو الزَّوَائِدِ، صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۶) (ضعیف)
(اس کی سند میں ضعیف اورمجہول راوی ہیں)
۲۹۵۹- وادی القری کے باشندہ سلیم بن مطیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میں نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں سنا آپ نے( لوگوں کو اچھی با توں کا) حکم دیا (اورانہیں بری با توں سے) منع کیا پھر فرمایا: '' اے اللہ ! کیا میں نے( تیرا پیغام ) انہیں پہنچا دیا''،لوگوں نے کہا : ہاں،پہنچا دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب قریش کے لو گ حکو مت اور ملک و اقتدار کے لئے لڑنے لگیں اور عطیہ کی حیثیت رشوت کی بن جائے ( یعنی مستحق کے بجائے غیر مستحق کو ملنے لگے ) تو اسے چھوڑدو''۔
پوچھا گیا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا:یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ذوالزوائد ۱؎ ہیں۔
وضاحت ۱؎ ؎ : یہ اہل مدینہ میں سے ایک صحابی کا لقب ہے، ان کے نام کا پتہ نہیں چل سکا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
18- بَاب فِي تَدْوِينِ الْعَطَاءِ
۱۸-باب: وظیفہ کے مستحقین کے ناموں کو رجسٹر میں لکھنے کا بیان​


2960- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ -يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ- حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ جَيْشًا مِنَ الأَنْصَارِ كَانُوا بِأَرْضِ فَارِسَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، وَكَانَ عُمَرُ يُعْقِبُ الْجُيُوشَ فِي كُلِّ عَامٍ فَشُغِلَ عَنْهُمْ عُمَرُ، فَلَمَّا مَرَّ الأَجَلُ قَفَلَ أَهْلُ ذَلِكَ الثَّغْرِ، فَاشْتَدَّ عَلَيْهِمْ وَتَوَاعَدَهُمْ وَهُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقَالُوا: يَا عُمَرُ، إِنَّكَ غَفَلْتَ عَنَّا وَتَرَكْتَ فِينَا الَّذِي أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ إِعْقَابِ بَعْضِ الْغَزِيَّةِ بَعْضًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۱۵) (صحیح الإسناد)
۲۹۶۰- عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ انصار کا ایک لشکر اپنے امیرکے ساتھ سرزمین فارس میں تھا اور عمر رضی اللہ عنہ ہر سال لشکر تبدیل کر دیا کرتے تھے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو (خیال نہیں رہا ) دوسرے کا م میں مشغول ہو گئے جب میعاد پوری ہوگئی تو اس لشکر کے لو گ لو ٹ آئے تو وہ ان پر برہم ہوئے اور ان کو دھمکا یا جب کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ تھے، تو وہ کہنے لگے: عمر! آپ ہم سے غافل ہو گئے، اور آپ نے وہ قاعدہ چھوڑ دیا جس پرعمل کرنے کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ ایک کے بعد ایک لشکر بھیجنا تا کہ پہلا لشکر لو ٹ آئے اور اس کی جگہ وہاں دوسرا لشکر رہے۔


2961- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَائِذٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي فِيمَا حَدَّثَهُ ابْنٌ لِعَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ كَتَبَ: إِنَّ مَنْ سَأَلَ عَنْ مَوَاضِعِ الْفَيْئِ فَهُوَ مَا حَكَمَ فِيهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه، فَرَآهُ الْمُؤْمِنُونَ عَدْلا، مُوَافِقًا لِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم: < جَعَلَ اللَّهُ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ > فَرَضَ الأَعْطِيَةَ [لِلْمُسْلِمِينَ]، وَعَقَدَ لأَهْلِ الأَدْيَانِ ذِمَّةً بِمَا فَرَضَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْجِزْيَةِ، لَمْ يَضْرِبْ فِيهَا بِخُمُسٍ، وَلا مَغْنَمٍ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)
(عدی بن عدی کے لڑکے مبہم ہیں)
۲۹۶۱- عدی بن عدی کندی کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا کہ جو کوئی شخص پو چھے کہ مال فیٔ کہاں کہاں صرف کرنا چاہئے تو اسے بتایا جائے کہ جہا ں جہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے وہیں خرچ کیا جائے گا، عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کو مسلمانوں نے انصاف کے موافق اور نبی اکرم ﷺ کے قول: ''جَعَلَ اللَّهُ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ'' (اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کر دیا ہے) کا مصداق جانا،انہوں نے مسلمانوں کے لئے عطیے مقرر کئے اور دیگر ادیان والوں سے جزیہ لینے کے عوض ان کے امان اور حفاظت کی ذمہ داری لی، اور جز یہ میں نہ خمس (پانچواں حصہ ) مقرر کیا اور نہ ہی اسے مال غنیمت سمجھا۔
وضاحت ۱ ؎ : مال غنیمت مجا ہدین میں تقسیم کیا جا تا ہے اوراس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کے حق کے طور پر نکالا جا تا ہے۔


2962- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ >۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴۵، ۱۶۵، ۱۷۷) (صحیح)
۲۹۶۲- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: '' اللہ نے عمرکی زبان پر حق رکھ دیاہے وہ (جب بولتے ہیں )حق ہی بو لتے ہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
19- بَاب فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الأَمْوَالِ
۱۹-باب: مالِ غنیمت میں سے رسول اللہ ﷺ اپنے لئے جومال منتخب کیا اس کا بیان​


2963- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ فَجِئْتُهُ، فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رِمَالِهِ، فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ: يَا مَالِ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَ[إِنِّي] قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْئٍ، فَأَقْسِمْ فِيهِمْ، قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِكَ، فَقَالَ: خُذْهُ، فَجَائَهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ! هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَائَهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! هَلْ لَكَ فِي الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا -يَعْنِي عَلِيًّا- فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْهُمَا، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِكَ النَّفَرَ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ: اتَّئِدَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ >؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَالْعَبَّاسِ، رَضِي اللَّه عَنْهمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ > فَقَالا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ ﷺ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ} وَكَانَ اللَّهُ أَفَاءَ عَلَى رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَلاأَخَذَهَا دُونَكُمْ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ، أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً، وَيَجْعَلُ مَابَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْهما، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالا: نَعَمْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ > وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيَهَا أَبُوبَكْرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ [أَبُو بَكْرٍ] قُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَوَلِيتُهَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا، فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا، وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَسَأَلْتُمَانِيهَا فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَلِيهَا، فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي لأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ، وَاللَّهِ لا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ.
[قَالَ أَبو دَاود: إِنَّمَا سَأَلاهُ أَنْ يَكُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ، لا أَنَّهُمَا جَهِلا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ >، فَإِنَّهُمَا كَانَا لا يَطْلُبَانِ إِلا الصَّوَابَ، فَقَالَ عُمَرُ: لاأُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ، أَدَعُهُ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ ] ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۸۰ (۲۹۰۴)، فرض الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، تفسیرالقرآن ۳ (۴۸۸۰)، النفقات ۳ (۵۳۵۸)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجھاد ۵ (۱۷۵۷)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، الجھاد ۳۹ (۱۷۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۲، ۱۰۶۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵) (صحیح)
۲۹۶۳- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلوا بھیجا، چنانچہ میں آیا تو انہیں ایک تخت پرجس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں تھی بیٹھا ہوا پایا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کرکہنے لگے: مالک!تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور میں نے انہیں کچھ دینے کے لئے حکم دیا ہے تو تم ان میں تقسیم کر دو، میں نے کہا: اگر اس کام کے لئے آپ کسی اور کو کہتے ( تو اچھا رہتا)، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں تم ( جو میں دے رہا ہوں)لے لو(اور ان میں تقسیم کردو) اسی دوران یر فاء ۱؎ آگیا، اس نے کہا: امیر المو منین! عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہوئے ہیں اور ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں بلا لوں؟عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :ہاں (بلالو)، اس نے انہیں اجازت دی، وہ لو گ اندر آگئے، جب وہ اندر آگئے،تو یرفأ پھر آیا، اور آکرکہنے لگا :امیر المو منین! ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں؛ اگر حکم ہو تو آنے دوں؟ کہا: ہاں( آنے دو) اس نے انہیں بھی اجازت دے دی، چنانچہ وہ بھی اندر آگئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المو منین! میرے اور ان کے (یعنی علی رضی اللہ عنہ کے) درمیان( معاملے کا) فیصلہ کر دیجئے، (تاکہ جھگڑا ختم ہو ) ۲؎ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا:ہاں امیرالمومنین!ان دونوں کا فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچائیے۔
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ ان دونوں ہی نے ان لوگوں ( عثمان، عبدا لرحمن، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم ) کو اپنے سے پہلے اسی مقصد سے بھیجا تھا ( کہ وہ لو گ اس قضیہ کا فیصلہ کرانے میں مدددیں)۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ ان پر رحم کرے ! تم دونوں صبر و سکون سے بیٹھو ( میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں) پھر ان موجود صحابہ کی جما عت کی طرف متو جہ ہوئے اور ان سے کہا: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: ''ہم انبیا ء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جوکچھ چھوڑ کر مرتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے؟''، سبھوں نے کہا :ہاں ہم جانتے ہیں۔
پھروہ علی اورعباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے کہا: میں تم دونوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین، وآسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ''ہمارا ( گروہ انبیا ء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتاہے؟''، ان دونوں نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ایک ایسی خصو صیت سے سر فراز فرمایا تھا جس سے دنیا کے کسی انسان کو بھی سر فراز نہیں کیا،اللہ تعالی نے فرمایا :{وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ}۳؎ چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو بنو نضیر کا مال دلایا، لیکن قسم اللہ کی رسول اللہ ﷺ نے اسے تمہیں محروم کر کے صرف اپنے لئے نہیں رکھ لیا، رسول اللہ ﷺ اس مال سے صرف اپنے اور اپنے اہل وعیال کا سال بھرکا خرچہ نکال لیتے تھے، اور جو باقی بچتا وہ دوسرے مالوں کی طرح رہتا (یعنی مستحقّین اورضرورت مندوں میں خرچ ہوتا )۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی جماعت کی طرف متو جہ ہوئے اورکہنے لگے: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم اس بات کو جانتے ہو( یعنی یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کرتے تھے ) انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں اس اللہ کی ذات کو گواہ بناکر تم سے پو چھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں (یعنی ایسا ہی ہے) پھر جب رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :میں رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں، پھرتم اور یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تم اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہ ﷺ )کے ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کی میراث مانگ رہے ہیں جو انہیں ان کے باپ کے ترکہ سے ملنے والا تھا، پھر ابوبکر (اللہ ان پر رحم کر ے) نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے''، اور اللہ جانتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سچے نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اس مال پر قابض رہے، جب انہوں نے وفات پائی تو میں نے کہا :میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں، اور اس وقت تک والی ہوں جب تک اللہ چاہے۔
پھر تم اور یہ( علی) آئے تم دونوں ایک ہی تھے، تمہارا معاملہ بھی ایک ہی تھا تم دونوں نے اسے مجھ سے طلب کیا تو میں نے کہا تھا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے تم دونوں کو اس شرط پر دے دوں کہ اللہ کا عہد کر کے کہو اس مال میں اسی طرح کام کرو گے جس طرح رسول اللہ ﷺ متولی رہتے ہوئے کرتے تھے، چنانچہ اسی شرط پر وہ مال تم نے مجھ سے لے لیا۔
اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ اس کے سوادوسر ے طریقہ پر میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں۴؎ تو قسم اللہ کی! میں قیامت تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر تم دونوں ان مالوں کا (معاہدہ کے مطابق) اہتمام نہیں کر سکتے تو پھر اسے مجھے لوٹا دو (میں اپنی تو لیت میں لے کر پہلے کی طرح اہتمام کروں گا)۔
ابو داود کہتے ہیں :ان دونوں حضرا ت نے اس بات کی درخواست کی تھی کہ یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کر دیا جائے، ایسا نہیں کہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا فرمان: '' لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ '' ( ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتاہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے) معلوم نہیں تھا بلکہ وہ بھی حق ہی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس پر تقسیم کا نام نہ آنے دوں گا (کیوں کہ ممکن ہے بعد والے میراث سمجھ لیں) بلکہ میں اسے پہلی ہی حالت پرباقی رہنے دوں گا۔
وضاحت ۱ ؎ : یرفأ عمر رضی اللہ عنہ کے دربان کا نام تھا، وہ ان کا غلام تھا ۔
وضاحت ۲؎ : معاملہ تھا بنو نضیر کے فِدَک اور خیبر کے اموال کی وراثت کا جوا للہ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا ۔
وضاحت۳؎ : ''اوران کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے'' (سورۃ الحشر : ۶)
وضاحت۴؎ : یعنی اس مال کو تم دونوں میں تقسیم کر دوں اور وہ تم میں سے ہر ایک کے ملک میں ہو جائے۔


2964- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ ابْنِ أَوْسٍ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَهُمَا -يَعْنِي عَلِيًّا وَالْعَبَّاسَ، رَضِي اللَّه عَنْهمَا- يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ.
قَالَ أَبو دَاود: أَرَادَ أَنْ لا يُوقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ قَسْمٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۲، ۱۰۶۳۳) (صحیح)
۲۹۶۴- اس سند سے بھی مالک بن اوس سے یہی قصہ مر وی ہے اس میں ہے: اور وہ دونوں( یعنی علی اور عباس رضی اللہ عنہما ) اس مال کے سلسلہ میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو بنو نضیر کے مالوں میں سے عنایت فرمایا تھا ۔
ابو داود کہتے ہیں: وہ( عمر رضی اللہ عنہ ) چاہتے تھے کہ اس میں حصہ و تقسیم کا نام نہ آئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ تقسیم تو ملکیت میں جا ری ہو تی ہے اور وہ مال کسی کی ملکیت میں تھا نہیں۔


2965- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ -الْمَعْنَى- أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلارِكَابٍ، كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَالِصًا، يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ قُوتَ سَنَةٍ، فَمَا بَقِيَ جَعَلَ فِي الْكُرَاعِ وَعُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلاحِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۹۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۱) (صحیح)
۲۹۶۵- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دو ڑائے تھے ( یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا ) اس مال کو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے ۔
ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ ﷺ اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: ''فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلاحِ''کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لئے گھوڑے اور ہتھیار کی فراہمی میں خرچ کرتے تھے)۔


2966- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلارِكَابٍ}، قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ عُمَرُ: هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَاصَّةً قُرَى عُرَيْنَةَ: فَدَكَ، وَكَذَا وَكَذَا، {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ، وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ}،وَ {للْفُقَرَاءِ المهاجرين الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ}،{وَالَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ}،{وَالَّذِينَ جَائُوا مِنْ بَعْدِهِمْ}، فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الآيَةُ النَّاسَ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلا لَهُ فِيهَا حَقٌّ، قَالَ أَيُّوبُ: أَوْ قَالَ: حَظٌّ، إِلا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۸) (صحیح)
(پچھلی اور اگلی روایات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں زہری اورعمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)
۲۹۶۶- ابن شہاب زہری کہتے ہیں(عمر رضی اللہ عنہ )نے کہا: اللہ نے فرما یا:{وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} ۱؎ زہری کہتے ہیں : عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آیت سے رسول اللہ ﷺ کے لئے عر ینہ کے چند گائوں جیسے فدک وغیرہ خا ص ہوئے، اور دوسری آیتیں{مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ، وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ}۲؎ ، اور{للْفُقَرَاءِ المهاجرين الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ}۳؎ {وَالَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ}۴؎ {وَالَّذِينَ جَائُوا مِنْ بَعْدِهِمْ}۵؎ تو اس آیت نے تمام لوگوں کو سمیٹ لیا کوئی ایسا مسلمان باقی نہیں رہا جس کا مال فیٔ میں حق نہ ہو ۔
ایوب کہتے ہیں: یا''فيها حق''کے بجائے''فيها حظ'' کہا، سوائے بعض ان چیزوں کے جن کے تم مالک ہو (یعنی اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے)۔
وضاحت ۱؎؎ : جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا، اور تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے(سورۃ الحشر :۶)
وضاحت ۲ ؎ : ''گاؤں والوں کا جو (مال ) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے'' (سورۃ الحشر : ۷)
وضاحت۳؎ : ''(فئی کا مال ) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جواپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئے گئے ہیں'' (سورۃ الحشر:۸)
وضاحت ۴؎ : ''اور (ان کے لئے ) جنہوں نے اس گھر میں ( یعنی مدینہ ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے'' (سورۃ الحشر : ۹)
وضاحت ۵؎ : ''اور ( ان کے لئے ) جو ان کے بعد آئیں'' (سورۃ الحشر : ۱۰)


2967- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ (ح) وَحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى -وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ- كُلُّهُمْ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ ابْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: كَانَ فِيمَا احْتَجَّ بِهِ عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّهُ قَالَ: كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثَلاثُ صَفَايَا: بَنُو النَّضِيرِ، وَخَيْبَرُ، وَفَدَكُ، فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ: فَكَانَتْ حُبُسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ حُبُسًا لأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلاثَةَ أَجْزَاء: جُزْأَيْنِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، وَجُزْئًا نَفَقَةً لأَهْلِهِ، فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۵) (حسن الإسناد)
۲۹۶۷- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تین صفایا ۱؎ (منتخب مال) تھے: بنونضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنونضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول ﷺ کی (ہنگامی) ضروریات کے کام میں استعمال کے لئے محفوظ ہوتا تھا ۲؎ ، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ ﷺ نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لئے تھے، اور ایک اپنے اہل وعیال کے خرچ کے لئے، اور جو آپ ﷺ کے اہل وعیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے۔
وضاحت ۱؎ : ''صفايا'' : صفیہ کی جمع ہے، صفیہ اس مال کو کہتے ہیں جسے امام تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چھانٹ لے، یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص تھا کہ خمس کے ساتھ اور بھی جو چیزیں چاہیں لے لیں۔
وضاحت ۲؎ : جیسے مہمانوں کی ضیا فت اور مجا ہدین کے لئے ہتھیا ر و سواری کی فر اہمی ۔


2968- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِي اللَّه عَنْه تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ >، وَإِنِّي وَاللَّهِ لا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَلأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلام مِنْهَا شَيْئًا ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱ (۳۰۹۲)، وفضائل الصحابۃ ۱۲ (۳۷۱۱)، والمغازي ۱۴ (۴۰۳۵)، ۳۸ (۴۲۴۱)، والفرائض۳ (۶۷۲۵)، م/الجھاد ۱۶ (۱۷۵۹)، ن/الفيء (۴۱۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴، ۶، ۹، ۱۰، ۶/۱۴۵، ۲۶۲) (صحیح)
۲۹۶۸- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ ﷺ کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد ﷺ کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے (یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے)''، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے (بطور وراثت) کچھ دینے سے انکار کر دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ مطالبہ رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے خلاف تھا، حضرت فاطمہؓ اس مال کو میراث کے حق کے طور پر طلب کر رہی تھیں، بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کی وجہ سے فاطمہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے تاحیات ناراض تھیں، ان کی یہ خفگی اور ناراضگی اس وجہ سے تھی کہ وہ اسے صحیح سمجھتی تھیں اور حضرت ابو بکرؓ چونکہ اس کے خلاف نبی اکرم ﷺ سے سن چکے تھے، اس لئے انہوں نے دینے سے انکار کیا۔


2969- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَفَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلام حِينَئِذٍ تَطْلُبُ صَدَقَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، وَإِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ > يَعْنِي مَالَ اللَّهِ، لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰) (صحیح)
(لیکن ''مال اللہ '' کا لفظ صحیح نہیں اور یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں بھی نہیں ہے)
۲۹۶۹- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عروہ بن زبیرنے بیان کیا کہ ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وقت ( اپنے والد ) رسول اللہ ﷺ کے اس صدقے کی طلب گا ر تھیں جو مدینہ اورفدک میں تھا اور جوخیبر کے خمس میں سے بچ رہا تھا، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:'' ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد ﷺ کی اولاد اس مال میں سے( یعنی اللہ کے مال میں سے)صرف اپنے کھانے کی مقدار لے گی''، اس مال میں خوراکی کے سواان کا کوئی حق نہیں ہے۔


2970- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْمَلُ بِهِ إِلا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهُمْ فَغَلَبَهُ عَلِيٌّ عَلَيْهَا، وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ، وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰) (صحیح)
۲۹۷۰- اس سند سے بھی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اورکہا: میں کوئی ایسی چیزچھوڑ نہیں سکتا جسے رسول اللہ ﷺ کرتے رہے ہوں،میںبھی وہی کروں گا، میں ڈرتا ہوں کہ آپ کے کسی حکم کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجائوں ۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے مدینہ کے صدقے کو علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی تحویل میں دے دیا،علی رضی اللہ عنہ اس پر غالب اور قابض رہے، رہاخیبر اور فدک تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کوروکے رکھااور کہا کہ یہ دونوں آپ ﷺ کے وہ صدقے ہیں جو آپ کی پیش آمدہ ضر وریات اور مشکلا ت وحوادث، مجاہدین کی تیا ری، اسلحہ کی خریداری اورمسافروں کی خبرگیری وغیرہ امور ) میں کام آتے تھے ان کا اختیار اس کو رہے گاجو والی ( یعنی خلیفہ) ہو ۔
راوی کہتے ہیں:تو وہ دونوں آج تک ایسے ہی رہے ۔


2971- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، فِي قَوْلِهِ: {فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} قَالَ: صَالَحَ النَّبِيُّ ﷺ أَهْلَ فَدَكَ وَقُرًى قَدْ سَمَّاهَا لا أَحْفَظُهَا، وَهُوَ مُحَاصِرٌ قَوْمًا آخَرِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ بِالصُّلْحِ، قَالَ: {فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} يَقُولُ: بِغَيْرِ قِتَالٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَتْ بَنُو النَّضِيرِ لِلنَّبِيِّ ﷺ خَالِصًا لَمْ يَفْتَحُوهَا عَنْوَةً افْتَتَحُوهَا عَلَى صُلْحٍ، فَقَسَمَهَا النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ، لَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ مِنْهَا شَيْئًا، إِلا رَجُلَيْنِ كَانَتْ بِهِمَا حَاجَةٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۷۹) (صحیح الإسناد)
۲۹۷۱- ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ اللہ نے جو فرمایا ہے: {فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} ۱؎ تو ان کا قصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل فدک اور کچھ دوسرے گائوں والوں سے جن کے نام زہری نے تو لئے لیکن راوی کو یا د نہیں رہا صلح کی، اس وقت آپ ایک اور قوم کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، اور ان لوگوں نے آپ کے پاس بطورصلح مال بھیجا تھا، اس مال کے تعلق سے اللہ نے فرمایا: {فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلارِكَابٍ} یعنی بغیر لڑائی کے یہ مال ہاتھ آیا(اور اللہ نے اپنے رسول کو دیا )۔
ابن شہاب زہری کہتے ہیں بنو نضیر کے مال بھی خالص رسول اللہ ﷺ کے لئے تھے، لوگوں نے اسے زورو زبردستی سے ( یعنی لڑائی کر کے) فتح نہیں کیا تھا۔ صلح کے ذریعہ فتح کیا تھا،تو آپ نے اسے مہاجرین میں تقسیم کر دیا، اس میں سے انصار کو کچھ نہ دیا، سوائے دو آدمیوں کے جو ضرورت مند تھے۔
وضاحت ۱؎ ؎ : یعنی تم نے ان مالوں کے واسطے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوئے (سورۃ الحشر : ۶)


2972- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ، فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا، وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ، وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى، فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ ﷺ فِي حَيَاتِهِ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلا، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، قَالَ عُمَرُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ-: فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ، وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ، يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم.
[قَالَ أَبو دَاود: وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ الْخِلافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ، وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مغیرۃ بن مقسم'' مدلس اور کثیر الارسال ہیں)
۲۹۷۲- مغیر ہ کہتے ہیں: عمر بن عبدا لعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس فد ک تھا، آپ اس کی آمدنی سے ( اہل و عیال، فقراء ومساکین پر) خرچ کرتے تھے، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیو ہ عو رتوں کے نکا ح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے فدک مانگاتو آپ نے انہیں دینے سے انکارکیا،آپ ﷺ کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ ﷺ انتقال فرما گئے، پھر جب ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرماگئے، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا،عمر بن عبد العزیز کہتے ہیں:تو میں نے اس معاملے پر غور وفکر کیا، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فاطمہ علیہاالسلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لو ٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھا ( یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے) ۔
ابو داود کہتے ہیں :عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہز ار دینار تھی، اورانتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جا تی۔


2973- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: جَائَتْ فَاطِمَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ -عَزَّوَجَلَّ- إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴، ۶، ۹) (حسن)
۲۹۷۳- ابو طفیل کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم ﷺ کے ترکہ سے اپنی میراث مانگنے آئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: '' اللہ عز وجل جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کے قائم مقام (خلیفہ) کو ملتا ہے''، ( یعنی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا ہے، دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے نہیں، اس لئے جومال دولت اس کو اس کی زندگی میں مل جائے، وہ بھی اس کی وفات کے بعد صدقہ ہوگا، تاکہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ اپنے وارثوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف تھا۔
قرآن مجید میں جو حضرت زکریا علیہ السلام کا قول منقول ہے {يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ} (سورۃ مریم: ۶) اور جو یہ فرمایا گیا ہے {وَوَرِثَ سُلَيْمَاْنُ} (سورۃ النمل: ۱۳) تو اس سے مراد علم اور نبوت کی وراثت ہے، نہ کہ دنیا کے مال کی۔


2974- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ >.
[قَالَ أَبو دَاود: < مُؤْنَةُ عَامِلِي > يَعْنِي أَكَرَةَ الأَرْضِ]۔
* تخريج: خ/الوصایا ۳۲ (۳۰۹۶)، فرض الخمس ۳ (۲۷۷۶)، الفرائض ۳ (۶۷۲۹)، م/الجھاد ۱۶ (۱۷۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۰۵)، وقد أخرجہ: ط/ الکلام ۱۲ (۲۸)، حم (۲/۳۷۶) (صحیح)


۲۹۷۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''میرے ورثاء میری میراث سے جو میں چھوڑکر مروں ایک دیناربھی تقسیم نہ کریں گے، اپنی بیویوں کے نفقے اور اپنے عامل کے خرچے کے بعد جو کچھ میں چھوڑوں وہ صدقہ ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں : ''مُؤْنَةُ عَامِلِي'' میں عاملی سے مراد کاشتکا ر، زمین جو تنے بونے والے ہیں۔


2975- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ حَدِيثًا مِنْ رَجُلٍ فَأَعْجَبَنِي فَقُلْتُ: اكْتُبْهُ لِي، فَأَتَى بِهِ مَكْتُوبًا مُذَبَّرًا: دَخَلَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ عَلَى عُمَرَ، وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ وَسَعْدٌ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ عُمَرُ لِطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ وَسَعْدٍ: أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ، إِلا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَكَسَاهُمْ، إِنَّا لا نُورَثُ؟ > قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَى أَهْلِهِ وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، فَكَانَ يَصْنَعُ الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۴۹، ۳۹۵۲) (صحیح)
(شواہدومتابعات پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جوپتہ نہیں صحابی ہے یاتابعی ؟)
۲۹۷۵- ابو البختری کہتے ہیں: میں نے ایک شخص سے ایک حدیث سنی وہ مجھے انوکھی سی لگی، میں نے اس سے کہا: ذرا اسے مجھے لکھ کر دو،تو وہ صاف صاف لکھ کر لا یا:علی اور عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے اوران کے پاس طلحہ، زبیر، عبدالرحمن اور سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے ) بیٹھے تھے، یہ دونوں ( یعنی عباس اور علی رضی اللہ عنہما ) جھگڑنے لگے،عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر،عبدالرحمن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا :کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:''نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا''، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ با ت جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنے مال میں سے اپنے اہل پر صر ف کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے آپ کے بعد اس مال کے متولی ابو بکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی کرتے رہے جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، پھرراوی نے مالک بن اوس کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔


2976- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا نُورَثُ، مَاتَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ > ۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۴ (۴۰۳۴)، الفرائض ۳ (۶۷۳۰)، م/الجہاد ۱۶ (۱۷۵۸)، ط/ الکلام ۱۲ (۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۵، ۲۶۲) (صحیح)
۲۹۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو امہات المو منین نے ارا دہ کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر رسول اللہ ﷺ کی میراث سے اپناآٹھواں حصہ طلب کریں، تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان سب سے کہا (کیا تمہیں یاد نہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے''۔


2977- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ، قُلْتُ: أَلا تَتَّقِينَ اللَّهَ؟ أَلَمْ تَسْمَعْنَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّمَا هَذَا الْمَالُ لآلِ مُحَمَّدٍ لِنَائِبَتِهِمْ وَلِضَيْفِهِمْ، فَإِذَا مُتُّ فَهُوَ إِلَى وَلِيِّ الأَمْرِ مِنْ بَعْدِي >؟!.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۰۷)، وقد أخرجہ: ت/الشمائل (۴۰۲)، حم (۶/۱۴۵) (حسن)
۲۹۷۷- اس سند سے بھی ابن شہاب زہری سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے( دیگر امہا ت المو منین سے) کہا: تم اللہ سے ڈرتی نہیں، کیا تم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سناہے کہ آپ فرماتے تھے: ''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، اور یہ مال آل محمد کی ضروریات اور ان کے مہمانوں کے لئے ہے، اور جب میرا انتقال ہو جائے گا تو یہ مال اس شخص کی نگرانی و تحویل میں رہے گا جو میرے بعد معاملہ کا والی ہوگا (مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا)''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
20- بَاب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
۲۰-باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان​


2978- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يُكَلِّمَانِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِيمَا قَسَمَ مِنَ الْخُمُسِ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَسَمْتَ لإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْكَ وَاحِدَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: <إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ >، قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلا لِبَنِي نَوْفَلٍ، مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ، كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُوبَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِيهِمْ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُعْطِيهِمْ مِنْهُ، وَعُثْمَانُ بَعْدَهُ ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۹ (۴۲۲۹)، ن/الفيء (۴۱۴۱)، ق/الجھاد ۴۶ (۲۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
۲۹۷۸- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ۱؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا،تو میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں'' ۲؎ جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ ﷺ نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیاجیسے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ ۳؎ بھی اپنی خلا فت میں خمس کو اسی طرح تقسیم کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم فرماتے تھے مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے عز یز وں کو نہ دیتے تھے جب کہ نبی اکرم ﷺ ان کو دیتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس میں سے ان کو دیتے تھے اور ان کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی ان کو دیتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ان دونوں کے خاند ان والوں کو نہیں دیا تھا جب کہ ان سب کا اصل خاندان ایک تھا عبدمناف کے چار بیٹے تھے ایک ہاشم جن کی اولاد میں رسول اللہ ﷺ تھے، دوسرے مطلب، تیسرے عبدشمس جن کی اولاد میں عثمان رضی اللہ عنہ تھے، اورچو تھے نو فل جن کی اولاد میں جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ تھے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ہمیشہ ایک دوسرے کی مددکرتے رہے اسی لئے کفا ر نے جب مقاطعہ کا عہد نامہ لکھاتو انہوں نے اس میںبنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں کو شریک کیا۔
وضاحت ۳؎ : ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے نہیں دیا کہ وہ اس وقت غنی اور مالدار رہے ہوں گے، اور دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند رہے ہوں گے، جیسا کہ دوسری روایت میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے انہیں ایک حصہ خمس میں سے دیدیا تھا، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حصہ دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے نہیں لیا اور کہا کہ ہم غنی ہیں۔


2979- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلالِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا، كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، كَمَا كَانَ يُعْطِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ وَمَنْ كَانَ بَعْدَهُ مِنْهُمْ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
۲۹۷۹- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا، جب کہ بنو ہا شم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم کیا کرتے تھے،مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ ﷺ ان کو دیا کرتے تھے، البتہ عمر رضی اللہ عنہ انہیں دیا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو بکر رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو غا لباً ان کے مالدار ہونے کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔


2980- حَدَّثَنَا مُسَدِّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى فِي بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، وَتَرَكَ بَنِي نَوْفَلٍ، وَبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَؤُلاءِ بَنُو هَاشِمٍ، لا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِلْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ، فَمَا بَالُ إِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَنَا، وَقَرَابَتُنَا وَاحِدَةٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّا وَبَنُو الْمُطَّلِبِ لا نَفْتَرِقُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلا إِسْلامٍ، وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ شَيْئٌ وَاحِدٌ > وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۹۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
۲۹۸۰- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے قرابت داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا، اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو چھوڑ دیا، تو میں اور عثمان رضی اللہ عنہ دونوںچل کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنوہاشم ہیں،ہم ان کی فضیلت کاانکار نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو انہیں میں سے کیا ہے، لیکن ہمارے بھائی بنو مطلب کا کیا معا ملہ ہے؟ کہ آپ نے ان کو دیا اور ہم کو نہیں دیا، جب کہ آپ سے ہماری اور ان کی قرابت داری یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہم اور بنومطلب دونوں جدا نہیں ہوئے نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں، ہم اور وہ ایک چیز ہیں '' ۱؎ ، آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا (گویا دکھایا کہ اس طرح) ۔
وضاحت ۱؎ : یہ جو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ''ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں''، توقصہ یہ ہے کہ قریش اور بنی کنانہ نے بنی ہاشم اوربنی مطلب کے جدا کرنے پر حلف لیا تھا کہ وہ نہ ان سے نکاح کریں گے، نہ خریدو فروخت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے سپرد نہ کریں، اور اس عہد نامہ کو محصب میں لٹکا دیا تھا، اللہ تعالی کی قدرت سے اسے دیمک چاٹ گئی اور کفار مغلوب ہوئے۔


2981- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ السُّدِّيِّ فِي ذِي الْقُرْبَى، قَالَ هُمْ بَنُو [عَبْدِ] الْمُطَّلِبِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۳۸) (ضعیف) (اس کے راوی ''حسین عجلی'' کثیرالخطأ ہیں)
۲۹۸۱- سدی کہتے ہیں کہ کلام اللہ میں {ذي القربى} کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔
2982- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ حَجَّ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، وَيَقُولُ: لِمَنْ تَرَاهُ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، قَسَمَهُ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا مِنْ ذَلِكَ عَرْضًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا، فَرَدَدْنَاهُ عَلَيْهِ وَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۸ (۱۸۱۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، ن/الفيء (۴۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲) (صحیح)
۲۹۸۲- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یز ید بن ہر مز نے خبردی کہ نجدہ حر وری ( خارجیوں کے رئیس) نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے بحران کے زمانہ میں ۱؎ جس وقت حج کیا تو اس نے ایک شخص کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس''ذي القربى'' کا حصہ پو چھنے کے لئے بھیجا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس سے کون مراد ہے ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس سے رسول اللہ ﷺ کے عزیز واقارب مرا د ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اسے ان سب میں تقسیم فرمایا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ہمیں اس میں سے دیا تھا لیکن ہم نے اسے اپنے حق سے کم پا یا تو لو ٹا دیا اور لینے سے انکار کر دیا۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔


2983- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُوجَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًا يَقُولُ: وَلانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خُمُسَ الْخُمُسِ، فَوَضَعْتُهُ مَوَاضِعَهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَحَيَاةَ أَبِي بَكْرٍ، وَحَيَاةَ عُمَرَ، فَأُتِيَ بِمَالٍ فَدَعَانِي، فَقَالَ: خُذْهُ، فَقُلْتُ: لا أُرِيدُهُ، قَالَ: خُذْهُ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ بِهِ، قُلْتُ: قَدِ اسْتَغْنَيْنَا عَنْهُ، فَجَعَلَهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''ابوجعفررازی '' ضعیف ہیں)
۲۹۸۳- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے خمس کا خمس ( پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ ) دیا، تو میں اسے اس کے خرچ کے مد میں صر ف کرتا رہا، جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما زندہ رہے پھر (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں )ان کے پاس مال آیا تو انہوں نے مجھے بلا یا اور کہا: اس کو لے لو، میں نے کہا: میں نہیں لینا چا ہتا، انہوں نے کہا :لے لو تم اس کے زیادہ حق دار ہو، میں نے کہا: اب ہمیں اس مال کی حاجت نہیں رہی (ہمیں اللہ نے اس سے بے نیاز کر دیا ہے) توانہوں نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔


2984- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ ابْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا وَالْعَبَّاسُ، وَفَاطِمَةُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، ثُمَّ وَلانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه، حَتَّى [إِذَا] كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْه فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ، فَعَزَلَ حَقَّنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى، وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ لَمْ يَدْعُنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ بَعْدَ عُمَرَ، فَلَقِيتُ الْعَبَّاسَ بَعْدَمَا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا عَلِيُّ ! حَرَمْتَنَا الْغَدَاةَ شَيْئًا لا يُرَدُّ عَلَيْنَا أَبَدًا، وَكَانَ رَجُلا دَاهِيًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''حسین بن میمون لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی روایت اور یہ روایت دونوں آپس میں ایک دوسرے سے مل کر اس واقعہ کی اصلیت کو حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچادیتی ہیں)
۲۹۸۴- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں، عباس، فاطمہ اور زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے مو افق ہے وہ ہمارے اختیا ر میں دے دیجئے تا کہ آپ ﷺ کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑانہ کرے، توآپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سا ل میں آپ کے پاس بہت سامال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا، عمر رضی اللہ عنہ کے بعد پھر کسی نے مجھے اس مال ( یعنی خمس الخمس) کے لینے کے لئے نہیں بلا یا،عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلنے کے بعد میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملا، تو وہ کہنے لگے: علی! تم نے ہم کو آج ایسی چیز سے محروم کر دیا جو پھر کبھی لو ٹ کر نہ آئے گی (یعنی اب کبھی یہ حصہ ہم کو نہ ملے گا) اوروہ ایک سمجھدار آدمی تھے (انہوں نے جو کہا تھا وہی ہوا)۔


2985- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ أَنَّ عَبْدَالْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ قَالا لِعَبْدِالْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُولا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ بَلَغْنَا مِنَ السِّنِّ مَا تَرَى، وَأَحْبَبْنَا أَنْ نَتَزَوَّجَ، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُهُمْ، وَلَيْسَ عِنْدَ أَبَوَيْنَا مَا يُصْدِقَانِ عَنَّا، فَاسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ، فَلْنُؤَدِّ إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي الْعُمَّالُ، وَلْنُصِبْ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ مَرْفَقٍ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَنَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لا وَاللَّهِ لانَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لَهُ رَبِيعَةُ: هَذَا مِنْ أَمْرِكَ، قَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ نَحْسُدْكَ عَلَيْهِ، فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَائَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ، وَاللَّهِ لا أَرِيمُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَائكما بِجَوَابِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، قَالَ عَبْدُالْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ [إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم] حَتَّى نُوَافِقَ صَلاةَ الظُّهْرِ قَدْ قَامَتْ، فَصَلَّيْنَا مَعَ النَّاسِ، ثُمَّ أَسْرَعْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُمْنَا بِالْبَابِ، حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَخَذَ بِأُذُنِي وَأُذُنِ الْفَضْلِ، ثُمَّ قَالَ: < أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ >، ثُمَّ دَخَلَ فَأَذِنَ لِي وَلِلْفَضْلِ فَدَخَلْنَا، فَتَوَاكَلْنَا الْكَلامَ قَلِيلا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ أَوْ كَلَّمَهُ الْفَضْلُ -قَدْ شَكَّ فِي ذَلِكَ عَبْدُاللَّهِ- قَالَ: كَلَّمَهُ بِالأَمْرِ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ أَبَوَانَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَاعَةً وَرَفَعَ بَصَرَهُ قِبَلَ سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى طَالَ عَلَيْنَا أَنَّهُ لا يَرْجِعُ إِلَيْنَا شَيْئًا، حَتَّى رَأَيْنَا زَيْنَبَ تَلْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ بِيَدِهَا تُرِيدُ أَنْ لا تَعْجَلا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي أَمْرِنَا، ثُمَّ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَأْسَهُ فَقَالَ لَنَا: < إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلا لآلِ مُحَمَّدٍ، ادْعُوا لِي نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ >، فَدُعِيَ لَهُ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ، فَقَالَ: < يَا نَوْفَلُ أَنْكِحْ عَبْدَالْمُطَّلِبِ >، فَأَنْكَحَنِي نَوْفَلٌ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < ادْعُوا لِي مَحْمِئَةَ بْنَ جَزْء > وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُبَيْدٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَخْمَاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِمَحْمِئَةَ: < أَنْكِحِ الْفَضْلَ > فَأَنْكَحَهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < قُمْ فَأَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا > لَمْ يُسَمِّهِ لِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۵۱ (۱۰۷۲)، ن/الزکاۃ ۹۵ (۲۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۶) (صحیح)
۲۹۸۵- عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبردی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے ان سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس جائو اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شا دی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول ! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول!ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ ( یعنی حق محنت ) ہو گا وہ ہم پائیں گے۔
عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ گئے اور انہوں نے ہم سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''قسم اللہ کی! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے'' ۱؎ ۔
اس پر ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شر ف حا صل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اورکہنے لگے: میں ابو الحسن سردار ہوں ( جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آجائیں جس کے لئے تم نے انہیں اللہ کے نبی ﷺ کے پاس بھیجا ہے ۔
عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں گئے، ہم نبی کریم ﷺ کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہو گئی ہم نے سب کے ساتھ صلاۃجما عت سے پڑھی، صلاۃ پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم ﷺ کے حجرے کے در وازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المومنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ آگئے اور( پیا ر سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا: ''بو لو بولو، جو دل میں لئے ہو''، یہ کہہ کر آپ ﷺ گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لئے اشا رہ کیا ( تم کہو تم کہو) پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کوہوا)آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیںحکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ایک گھڑ ی تک چپ رہے، پھر نگا ہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شا ید آپ ﷺ ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پر دے کی آڑ سے ( ام المو منین) زینب رضی اللہ عنہا اشا رہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو ( گھبرائو نہیں) رسول اللہ ﷺ تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: ''یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال ) کا میل ( کچیل ) ہے''، اور یہ محمد ﷺ کے لئے اور محمد ﷺ کی آل ( واولاد) کے لئے حلال نہیں ہے، ( یعنی بنو ہاشم کے لئے صدقہ لینا درست نہیں ہے ) نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ''، چنانچہ نوفل بن حارث رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''نوفل! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو''، تو نو فل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیا۔
پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' محمّیہ بن جزء کومیرے پاس بلاؤ''،محمّیۃ بن جز ء رضی اللہ عنہ بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا ( وہ آئے ) آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : ''تم فضل کا ( اپنی بیٹی سے) نکاح کردو''، تو انہوں نے ان کا نکا ح کر دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے ( ان سے ) کہا:'' جائو مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کردو ''۔
( ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حا رث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔


2986- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ؛ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَاعَدْتُ رَجُلا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ، وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارِفَيَّ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا، وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنَ الأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا:
أَلا يَا حَمْزَ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ
فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ، فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَا لَكَ؟ > قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ، فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَهَا هُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: وَهَلْ أَنْتُمْ إِلا عَبِيدٌ لأَبِي؟ فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ ثَمِلٌ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ ۔
* تخريج: خ/البیوع ۲۸ (۲۰۸۹)، المساقاۃ ۱۳ (۲۳۷۵)، فرض الخمس ۱ (۳۰۹۱)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۳)، اللباس ۹ (۵۷۹۳)، م/الأشربۃ ۱ (۱۹۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴۲) (صحیح)
۲۹۸۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بد رکے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارا دہ کیا کہ میں فا طمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شب عروسی منائوں تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنا ر سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر( ایک خوشبو دار گھا س ہے ) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیا ری میں اس سے مدد لوں، اسی دور ان کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لئے پالان،گھا س کے ٹو کرے اور رسیاں ( وغیرہ ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضرور ی سامان میں مہیا کر سکتا تھا کر کے لو ٹ کر آیاتو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لئے گئے ہیں،جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھو ں پر قابو نہ پاسکا میں نے کہا :یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب کی کارستانی ہے، وہ اس گھر میں چند انصا ریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنّیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یو ں گا یا:
''أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ'' ۱؎
یہ سن کروہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جاکر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چا ک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لئے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو( صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''تمہیں کیا ہوا؟''، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھا ڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شرا ب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی چا در منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ ﷺ اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے،آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ ﷺ حمزہ کو ان کے کئے پر ملا مت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سر خ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا، پھر تھو ڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظراور بلند کی، اور آپ ﷺ کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھو ڑی نظراور بلند کی اور آپ ﷺ کے چہرہ کو دیکھا، پھربولے: تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو،اس وقت رسول اللہ ﷺ نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں ( یہ دیکھ کر ) رسول اللہ ﷺ الٹے پائوں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آ ئے ( اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی)۔
وضاحت ۱؎ ؎ : باقی اشعار اس طرح ہیں :


أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء
وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء
ضَع السكين في اللبات منها
وضرجهن حمزة بالدماء
وعجـل مـن أطايبهـا لشـرب
قديدًا من طبيخ أو شواء


(اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اوران کے حلق پرچھری پھیر کر انہیں خون میںلت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو )۔


2987- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ، أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْهُ عَنْ إِحْدَاهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَبْيًا، فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ، وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ، لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ: تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلاةٍ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَكْبِيرَةً، وَثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لاشَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ >.
قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۱۲، ۱۵۳۱۴)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۶) (ضعیف)
(اس حدیث کی البانی نے صحیحۃ ۲؍ ۱۸۸، اور صحیح ابی داود ۲۶۴۴، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا،ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲؍ ۴۲۴)
۲۹۸۷- فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام حکم یا ضبا عہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کاآپ ﷺ سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوادیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آکر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لئے اس سے بہتر ہے، ہر صلاۃ کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمد اللہ، اور ایک بار: '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ '' کہہ لیا کرو''۔
عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضبا عہ اور ام حکم رضی اللہ عنہما ) دونوں نبی اکرم ﷺ کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے،سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔


2988- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ -يَعْنِي الْجُرَيرِيَّ- عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه: أَلا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ وَكَانَتْ مِنْ أَحَبِّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: إِنَّهَا جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَ فِي نَحْرِهَا، وَكَنَسَتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ خَدَمٌ فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَرَجَعَتْ، فَأَتَاهَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: < مَا كَانَ حَاجَتُكِ؟ > فَسَكَتَتْ، فَقُلْتُ: أَنَا أُحَدِّثُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا، وَحَمَلَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا، فَلَمَّا أَنْ جَائَكَ الْخَدَمُ أَمَرْتُهَا أَنْ تَأْتِيَكَ فَتَسْتَخْدِمَكَ خَادِمًا يَقِيهَا حَرَّ مَا هِيَ فِيهِ، قَالَ: < اتَّقِي اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ، وَأَدِّي فَرِيضَةَ رَبِّكِ، وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ فَسَبِّحِي ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَاحْمَدِي ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلاثِينَ، فَتِلْكَ مِائَةٌ، فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ >، قَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَنْ رَسُولِهِ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود بہذا الیساق: (اتقي اللّٰہ یا فاطمۃ، وأدي فریضۃ ربک، واعملي عمل أہلک)، وأما البقیۃ من الحدیث فقد رواہ کل من :خ/فرض الخمس ۶ (۳۱۱۳)، فضائل الصحابۃ ۹ (۳۷۰۵)، النفقات ۶ (۵۳۶۱)، الدعوات ۱۱ (۶۳۱۸)، م/الذکر والدعاء ۱۹ (۲۷۲۷)، ت/الدعوات ۲۴ (۳۴۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۶)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۲) (ضعیف)
(مذکورہ جملے کے اضافہ کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس سے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں اور ابن اعبد مجہول ہیں، بقیہ حصہ توصحیحین میں ہے)
۲۹۸۸- ابن اعبُد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتائوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتایئے، آپ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے، اور پانی بھر بھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہوجاتے، نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لئے ایک خادمہ مانگ لیتی، چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ آپ سے گفتگو کررہے ہیں تو لوٹ آئیں، دوسرے دن آپ ﷺ خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا: ''تم کس ضرورت سے آئی تھیں؟''، وہ چپ رہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتا تا ہوں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان (گٹھا) پڑ گیا، مشک ڈھوتے ڈھوتے سینے میں درد رہنے لگا اب آپ کے پاس خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جائیں، اور آپ سے ایک خادم مانگ کر لائیں، جس کے ذریعہ اس شدت وتکلیف سے انہیں نجات ملے جس سے وہ دو چار ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: ''فاطمہ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو، اور اپنے گھر کے کام کیا کرو، اور جب سونے چلو تو (۳۳) بار سبحان اللہ، (۳۳) بار الحمد للہ، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، یہ کل سو ہوئے یہ تمہارے لئے خادمہ سے بہتر ہیں'' ۱؎ ۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے خوش ہوں۔
وضاحت ۱؎ : شاید اسی میں مصلحت رہی ہوکہ رسول اللہ ﷺ کی آل واولاد کو دنیا میں تکلیف وتنگ دستی رہے، تاکہ یہ چیز آخرت میں ان کے لئے بلندی درجات کا سبب بنے۔


2989- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَلَمْ يُخْدِمْهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
(علی بن حسین زیدالعابدین نے اپنے ناناعلی کو نہیں پایا ہے لیکن واقعہ صحیح ہے)
۲۹۸۹- علی بن حسین سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ'' آپ ﷺ نے انہیں خادم نہیں دیا''۔


2990- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ الْقُرَشِيُّ -قَالَ أَبُوجَعْفَرٍ -يَعْنِي ابْنَ عِيسَى-: كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الأَبْدَالَ مِنَ الْمَوَالِي- قَالَ: حَدَّثَنِي الدَّخِيلُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ نُوحِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ هِلالِ بْنِ سِرَاجِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ مُجَّاعَةَ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ يَطْلُبُ دِيَةَ أَخِيهِ -قَتَلَتْهُ بَنُو سَدُوسٍ مِنْ بَنِي ذُهْلٍ- فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < لَوْ كُنْتُ جَاعِلا لِمُشْرِكٍ دِيَةً جَعَلْتُ لأَخِيكَ، وَلَكِنْ سَأُعْطِيكَ مِنْهُ عُقْبَى >، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ بِمِائَةٍ مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ فَأَخَذَ طَائِفَةً مِنْهَا، وَأَسْلَمَتْ بَنُو ذُهْلٍ، فَطَلَبَهَا بَعْدُ مُجَّاعَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَأَتَاهُ بِكِتَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَكَتَبَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ بِاثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ صَاعٍ مِنْ صَدَقَةِ الْيَمَامَةِ: أَرْبَعَةِ آلافٍ بُرًّا، وَأَرْبَعَةِ آلافٍ شَعِيرًا، وَأَرْبَعَةِ آلافٍ تَمْرًا، وَكَانَ فِي كِتَابِ النَّبِيِّ ﷺ لِمُجَّاعَةَ: < بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيّ،ِ لِمُجَّاعَةَ بْنِ مَرَارَةَ مِنْ بَنِي سُلْمَى، إِنِّي أَعْطَيْتُهُ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ عُقْبَةً مِنْ أَخِيهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۲) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''دخیل'' مجہول الحال، اور''ہلال '' لین الحدیث ہیں)
۲۹۹۰- مجاّعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے بھائی کی دیت مانگنے آئے جسے بنو ذہل میں سے بنی سدوس نے قتل کر ڈالا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اگر میں کسی مشرک کی دیت دلاتا تو تمہارے بھائی کی دیت دلاتا، لیکن میں اس کا بدلہ تمہیں دلائے دیتا ہوں''، پھر نبی اکرم ﷺ نے بنو ذہل کے مشرکین سے پہلے پہل حاصل ہونے والے خمس میں سے سو اونٹ اسے دینے کے لئے لکھ دیا۔
مجاعہ رضی اللہ عنہ کو ان اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بنو ذہل کے مسلمان ہو جانے کے بعد ملے، اور مجاّعہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باقی اونٹوں کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ان کے خلیفہ ہونے کے بعد طلب کئے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی کتاب (تحریر) دکھائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجاعہ رضی اللہ عنہ کے یمامہ کے صدقے میں سے بارہ ہزار صاع دینے کے لئے لکھ دیا، چار ہزار صاع گیہوں کے، چار ہزار صاع جو کے اور چار ہزار صاع کھجور کے۔
رسول اللہ ﷺ نے مجاعہ کو جو کتاب (تحریر) لکھ کر دی تھی اس کا مضمون یہ تھا: ''شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے؛ یہ کتاب محمد نبی کی جانب سے مجاعہ بن مرارہ کے لئے ہے جو بنو سلمی میں سے ہیں، میں نے اسے بنی ذہل کے مشرکوں سے حاصل ہونے والے پہلے خمس میں سے سو اونٹ اس کے مقتول بھائی کے عوض میں دیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک کی کوئی دیت نہیں، البتہ جو مشرک ذمی ہو یعنی اسلامی حکومت کا باشندہ ہو، اور اس سے جزیہ لیا جاتا ہو تو اس کو اگر کوئی کافر مار ڈالے تو اس پر قصاص ہوگا، یا دیت ہوگی، اور جو مسلمان مار ڈالے تو دیت دینی ہوگی۔
 
Top