19- بَاب فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الأَمْوَالِ
۱۹-باب: مالِ غنیمت میں سے رسول اللہ ﷺ اپنے لئے جومال منتخب کیا اس کا بیان
2963- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ فَجِئْتُهُ، فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رِمَالِهِ، فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ: يَا مَالِ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَ[إِنِّي] قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْئٍ، فَأَقْسِمْ فِيهِمْ، قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِكَ، فَقَالَ: خُذْهُ، فَجَائَهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ! هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَائَهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! هَلْ لَكَ فِي الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا -يَعْنِي عَلِيًّا- فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْهُمَا، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِكَ النَّفَرَ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ: اتَّئِدَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ >؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَالْعَبَّاسِ، رَضِي اللَّه عَنْهمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ > فَقَالا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ ﷺ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ} وَكَانَ اللَّهُ أَفَاءَ عَلَى رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَلاأَخَذَهَا دُونَكُمْ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ، أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً، وَيَجْعَلُ مَابَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْهما، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالا: نَعَمْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ > وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيَهَا أَبُوبَكْرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ [أَبُو بَكْرٍ] قُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَوَلِيتُهَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا، فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا، وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَسَأَلْتُمَانِيهَا فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَلِيهَا، فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي لأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ، وَاللَّهِ لا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ.
[قَالَ أَبو دَاود: إِنَّمَا سَأَلاهُ أَنْ يَكُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ، لا أَنَّهُمَا جَهِلا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ >، فَإِنَّهُمَا كَانَا لا يَطْلُبَانِ إِلا الصَّوَابَ، فَقَالَ عُمَرُ: لاأُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ، أَدَعُهُ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ ] ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۸۰ (۲۹۰۴)، فرض الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، تفسیرالقرآن ۳ (۴۸۸۰)، النفقات ۳ (۵۳۵۸)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجھاد ۵ (۱۷۵۷)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، الجھاد ۳۹ (۱۷۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۲، ۱۰۶۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵) (صحیح)
۲۹۶۳- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلوا بھیجا، چنانچہ میں آیا تو انہیں ایک تخت پرجس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں تھی بیٹھا ہوا پایا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کرکہنے لگے: مالک!تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور میں نے انہیں کچھ دینے کے لئے حکم دیا ہے تو تم ان میں تقسیم کر دو، میں نے کہا: اگر اس کام کے لئے آپ کسی اور کو کہتے ( تو اچھا رہتا)، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں تم ( جو میں دے رہا ہوں)لے لو(اور ان میں تقسیم کردو) اسی دوران یر فاء ۱؎ آگیا، اس نے کہا: امیر المو منین! عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہوئے ہیں اور ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں بلا لوں؟عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :ہاں (بلالو)، اس نے انہیں اجازت دی، وہ لو گ اندر آگئے، جب وہ اندر آگئے،تو یرفأ پھر آیا، اور آکرکہنے لگا :امیر المو منین! ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں؛ اگر حکم ہو تو آنے دوں؟ کہا: ہاں( آنے دو) اس نے انہیں بھی اجازت دے دی، چنانچہ وہ بھی اندر آگئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المو منین! میرے اور ان کے (یعنی علی رضی اللہ عنہ کے) درمیان( معاملے کا) فیصلہ کر دیجئے، (تاکہ جھگڑا ختم ہو ) ۲؎ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا:ہاں امیرالمومنین!ان دونوں کا فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچائیے۔
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ ان دونوں ہی نے ان لوگوں ( عثمان، عبدا لرحمن، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم ) کو اپنے سے پہلے اسی مقصد سے بھیجا تھا ( کہ وہ لو گ اس قضیہ کا فیصلہ کرانے میں مدددیں)۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ ان پر رحم کرے ! تم دونوں صبر و سکون سے بیٹھو ( میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں) پھر ان موجود صحابہ کی جما عت کی طرف متو جہ ہوئے اور ان سے کہا: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: ''ہم انبیا ء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جوکچھ چھوڑ کر مرتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے؟''، سبھوں نے کہا :ہاں ہم جانتے ہیں۔
پھروہ علی اورعباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے کہا: میں تم دونوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین، وآسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ''ہمارا ( گروہ انبیا ء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتاہے؟''، ان دونوں نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ایک ایسی خصو صیت سے سر فراز فرمایا تھا جس سے دنیا کے کسی انسان کو بھی سر فراز نہیں کیا،اللہ تعالی نے فرمایا :
{وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ}۳؎ چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو بنو نضیر کا مال دلایا، لیکن قسم اللہ کی رسول اللہ ﷺ نے اسے تمہیں محروم کر کے صرف اپنے لئے نہیں رکھ لیا، رسول اللہ ﷺ اس مال سے صرف اپنے اور اپنے اہل وعیال کا سال بھرکا خرچہ نکال لیتے تھے، اور جو باقی بچتا وہ دوسرے مالوں کی طرح رہتا (یعنی مستحقّین اورضرورت مندوں میں خرچ ہوتا )۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی جماعت کی طرف متو جہ ہوئے اورکہنے لگے: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم اس بات کو جانتے ہو( یعنی یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کرتے تھے ) انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں اس اللہ کی ذات کو گواہ بناکر تم سے پو چھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں (یعنی ایسا ہی ہے) پھر جب رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :میں رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں، پھرتم اور یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تم اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہ ﷺ )کے ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کی میراث مانگ رہے ہیں جو انہیں ان کے باپ کے ترکہ سے ملنے والا تھا، پھر ابوبکر (اللہ ان پر رحم کر ے) نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے''، اور اللہ جانتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سچے نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اس مال پر قابض رہے، جب انہوں نے وفات پائی تو میں نے کہا :میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں، اور اس وقت تک والی ہوں جب تک اللہ چاہے۔
پھر تم اور یہ( علی) آئے تم دونوں ایک ہی تھے، تمہارا معاملہ بھی ایک ہی تھا تم دونوں نے اسے مجھ سے طلب کیا تو میں نے کہا تھا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے تم دونوں کو اس شرط پر دے دوں کہ اللہ کا عہد کر کے کہو اس مال میں اسی طرح کام کرو گے جس طرح رسول اللہ ﷺ متولی رہتے ہوئے کرتے تھے، چنانچہ اسی شرط پر وہ مال تم نے مجھ سے لے لیا۔
اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ اس کے سوادوسر ے طریقہ پر میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں۴؎ تو قسم اللہ کی! میں قیامت تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر تم دونوں ان مالوں کا (معاہدہ کے مطابق) اہتمام نہیں کر سکتے تو پھر اسے مجھے لوٹا دو (میں اپنی تو لیت میں لے کر پہلے کی طرح اہتمام کروں گا)۔
ابو داود کہتے ہیں :ان دونوں حضرا ت نے اس بات کی درخواست کی تھی کہ یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کر دیا جائے، ایسا نہیں کہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا فرمان: '' لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ '' ( ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتاہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے) معلوم نہیں تھا بلکہ وہ بھی حق ہی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس پر تقسیم کا نام نہ آنے دوں گا (کیوں کہ ممکن ہے بعد والے میراث سمجھ لیں) بلکہ میں اسے پہلی ہی حالت پرباقی رہنے دوں گا۔
وضاحت ۱ ؎ : یرفأ عمر رضی اللہ عنہ کے دربان کا نام تھا، وہ ان کا غلام تھا ۔
وضاحت ۲؎ : معاملہ تھا بنو نضیر کے فِدَک اور خیبر کے اموال کی وراثت کا جوا للہ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا ۔
وضاحت۳؎ : ''اوران کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے'' (سورۃ الحشر : ۶)
وضاحت۴؎ : یعنی اس مال کو تم دونوں میں تقسیم کر دوں اور وہ تم میں سے ہر ایک کے ملک میں ہو جائے۔
2964- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ ابْنِ أَوْسٍ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَهُمَا -يَعْنِي عَلِيًّا وَالْعَبَّاسَ، رَضِي اللَّه عَنْهمَا- يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ.
قَالَ أَبو دَاود: أَرَادَ أَنْ لا يُوقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ قَسْمٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۲، ۱۰۶۳۳) (صحیح)
۲۹۶۴- اس سند سے بھی مالک بن اوس سے یہی قصہ مر وی ہے اس میں ہے: اور وہ دونوں( یعنی علی اور عباس رضی اللہ عنہما ) اس مال کے سلسلہ میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو بنو نضیر کے مالوں میں سے عنایت فرمایا تھا ۔
ابو داود کہتے ہیں: وہ( عمر رضی اللہ عنہ ) چاہتے تھے کہ اس میں حصہ و تقسیم کا نام نہ آئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ تقسیم تو ملکیت میں جا ری ہو تی ہے اور وہ مال کسی کی ملکیت میں تھا نہیں۔
2965- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ -الْمَعْنَى- أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلارِكَابٍ، كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَالِصًا، يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ قُوتَ سَنَةٍ، فَمَا بَقِيَ جَعَلَ فِي الْكُرَاعِ وَعُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلاحِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۹۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۱) (صحیح)
۲۹۶۵- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دو ڑائے تھے ( یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا ) اس مال کو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے ۔
ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ ﷺ اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں:
''فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلاحِ''کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لئے گھوڑے اور ہتھیار کی فراہمی میں خرچ کرتے تھے)۔
2966- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلارِكَابٍ}، قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ عُمَرُ: هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَاصَّةً قُرَى عُرَيْنَةَ: فَدَكَ، وَكَذَا وَكَذَا، {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ، وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ}،وَ {للْفُقَرَاءِ المهاجرين الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ}،{وَالَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ}،{وَالَّذِينَ جَائُوا مِنْ بَعْدِهِمْ}، فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الآيَةُ النَّاسَ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلا لَهُ فِيهَا حَقٌّ، قَالَ أَيُّوبُ: أَوْ قَالَ: حَظٌّ، إِلا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۸) (صحیح)
(پچھلی اور اگلی روایات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں زہری اورعمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)
۲۹۶۶- ابن شہاب زہری کہتے ہیں(عمر رضی اللہ عنہ )نے کہا: اللہ نے فرما یا:
{وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} ۱؎ زہری کہتے ہیں : عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آیت سے رسول اللہ ﷺ کے لئے عر ینہ کے چند گائوں جیسے فدک وغیرہ خا ص ہوئے، اور دوسری آیتیں
{مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ، وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ}۲؎ ، اور
{للْفُقَرَاءِ المهاجرين الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ}۳؎
{وَالَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ}۴؎
{وَالَّذِينَ جَائُوا مِنْ بَعْدِهِمْ}۵؎ تو اس آیت نے تمام لوگوں کو سمیٹ لیا کوئی ایسا مسلمان باقی نہیں رہا جس کا مال فیٔ میں حق نہ ہو ۔
ایوب کہتے ہیں: یا
''فيها حق''کے بجائے
''فيها حظ'' کہا، سوائے بعض ان چیزوں کے جن کے تم مالک ہو (یعنی اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے)۔
وضاحت ۱؎؎ : جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا، اور تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے(سورۃ الحشر :۶)
وضاحت ۲ ؎ : ''گاؤں والوں کا جو (مال ) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے'' (سورۃ الحشر : ۷)
وضاحت۳؎ : ''(فئی کا مال ) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جواپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئے گئے ہیں'' (سورۃ الحشر:۸)
وضاحت ۴؎ : ''اور (ان کے لئے ) جنہوں نے اس گھر میں ( یعنی مدینہ ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے'' (سورۃ الحشر : ۹)
وضاحت ۵؎ : ''اور ( ان کے لئے ) جو ان کے بعد آئیں'' (سورۃ الحشر : ۱۰)
2967- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ (ح) وَحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى -وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ- كُلُّهُمْ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ ابْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: كَانَ فِيمَا احْتَجَّ بِهِ عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّهُ قَالَ: كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثَلاثُ صَفَايَا: بَنُو النَّضِيرِ، وَخَيْبَرُ، وَفَدَكُ، فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ: فَكَانَتْ حُبُسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ حُبُسًا لأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلاثَةَ أَجْزَاء: جُزْأَيْنِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، وَجُزْئًا نَفَقَةً لأَهْلِهِ، فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۵) (حسن الإسناد)
۲۹۶۷- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تین صفایا ۱؎ (منتخب مال) تھے: بنونضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنونضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول ﷺ کی (ہنگامی) ضروریات کے کام میں استعمال کے لئے محفوظ ہوتا تھا ۲؎ ، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ ﷺ نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لئے تھے، اور ایک اپنے اہل وعیال کے خرچ کے لئے، اور جو آپ ﷺ کے اہل وعیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے۔
وضاحت ۱؎ : ''صفايا'' : صفیہ کی جمع ہے، صفیہ اس مال کو کہتے ہیں جسے امام تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چھانٹ لے، یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص تھا کہ خمس کے ساتھ اور بھی جو چیزیں چاہیں لے لیں۔
وضاحت ۲؎ : جیسے مہمانوں کی ضیا فت اور مجا ہدین کے لئے ہتھیا ر و سواری کی فر اہمی ۔
2968- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِي اللَّه عَنْه تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ >، وَإِنِّي وَاللَّهِ لا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَلأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلام مِنْهَا شَيْئًا ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱ (۳۰۹۲)، وفضائل الصحابۃ ۱۲ (۳۷۱۱)، والمغازي ۱۴ (۴۰۳۵)، ۳۸ (۴۲۴۱)، والفرائض۳ (۶۷۲۵)، م/الجھاد ۱۶ (۱۷۵۹)، ن/الفيء (۴۱۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴، ۶، ۹، ۱۰، ۶/۱۴۵، ۲۶۲) (صحیح)
۲۹۶۸- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ ﷺ کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد ﷺ کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے (یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے)''، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے (بطور وراثت) کچھ دینے سے انکار کر دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ مطالبہ رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے خلاف تھا، حضرت فاطمہؓ اس مال کو میراث کے حق کے طور پر طلب کر رہی تھیں، بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کی وجہ سے فاطمہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے تاحیات ناراض تھیں، ان کی یہ خفگی اور ناراضگی اس وجہ سے تھی کہ وہ اسے صحیح سمجھتی تھیں اور حضرت ابو بکرؓ چونکہ اس کے خلاف نبی اکرم ﷺ سے سن چکے تھے، اس لئے انہوں نے دینے سے انکار کیا۔
2969- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَفَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلام حِينَئِذٍ تَطْلُبُ صَدَقَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، وَإِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ > يَعْنِي مَالَ اللَّهِ، لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰) (صحیح)
(لیکن
''مال اللہ '' کا لفظ صحیح نہیں اور یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں بھی نہیں ہے)
۲۹۶۹- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عروہ بن زبیرنے بیان کیا کہ ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وقت ( اپنے والد ) رسول اللہ ﷺ کے اس صدقے کی طلب گا ر تھیں جو مدینہ اورفدک میں تھا اور جوخیبر کے خمس میں سے بچ رہا تھا، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:'' ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد ﷺ کی اولاد اس مال میں سے( یعنی اللہ کے مال میں سے)صرف اپنے کھانے کی مقدار لے گی''، اس مال میں خوراکی کے سواان کا کوئی حق نہیں ہے۔
2970- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْمَلُ بِهِ إِلا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهُمْ فَغَلَبَهُ عَلِيٌّ عَلَيْهَا، وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ، وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰) (صحیح)
۲۹۷۰- اس سند سے بھی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اورکہا: میں کوئی ایسی چیزچھوڑ نہیں سکتا جسے رسول اللہ ﷺ کرتے رہے ہوں،میںبھی وہی کروں گا، میں ڈرتا ہوں کہ آپ کے کسی حکم کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجائوں ۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے مدینہ کے صدقے کو علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی تحویل میں دے دیا،علی رضی اللہ عنہ اس پر غالب اور قابض رہے، رہاخیبر اور فدک تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کوروکے رکھااور کہا کہ یہ دونوں آپ ﷺ کے وہ صدقے ہیں جو آپ کی پیش آمدہ ضر وریات اور مشکلا ت وحوادث، مجاہدین کی تیا ری، اسلحہ کی خریداری اورمسافروں کی خبرگیری وغیرہ امور ) میں کام آتے تھے ان کا اختیار اس کو رہے گاجو والی ( یعنی خلیفہ) ہو ۔
راوی کہتے ہیں:تو وہ دونوں آج تک ایسے ہی رہے ۔
2971- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، فِي قَوْلِهِ: {فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} قَالَ: صَالَحَ النَّبِيُّ ﷺ أَهْلَ فَدَكَ وَقُرًى قَدْ سَمَّاهَا لا أَحْفَظُهَا، وَهُوَ مُحَاصِرٌ قَوْمًا آخَرِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ بِالصُّلْحِ، قَالَ: {فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} يَقُولُ: بِغَيْرِ قِتَالٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَتْ بَنُو النَّضِيرِ لِلنَّبِيِّ ﷺ خَالِصًا لَمْ يَفْتَحُوهَا عَنْوَةً افْتَتَحُوهَا عَلَى صُلْحٍ، فَقَسَمَهَا النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ، لَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ مِنْهَا شَيْئًا، إِلا رَجُلَيْنِ كَانَتْ بِهِمَا حَاجَةٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۷۹) (صحیح الإسناد)
۲۹۷۱- ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ اللہ نے جو فرمایا ہے:
{فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} ۱؎ تو ان کا قصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل فدک اور کچھ دوسرے گائوں والوں سے جن کے نام زہری نے تو لئے لیکن راوی کو یا د نہیں رہا صلح کی، اس وقت آپ ایک اور قوم کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، اور ان لوگوں نے آپ کے پاس بطورصلح مال بھیجا تھا، اس مال کے تعلق سے اللہ نے فرمایا:
{فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلارِكَابٍ} یعنی بغیر لڑائی کے یہ مال ہاتھ آیا(اور اللہ نے اپنے رسول کو دیا )۔
ابن شہاب زہری کہتے ہیں بنو نضیر کے مال بھی خالص رسول اللہ ﷺ کے لئے تھے، لوگوں نے اسے زورو زبردستی سے ( یعنی لڑائی کر کے) فتح نہیں کیا تھا۔ صلح کے ذریعہ فتح کیا تھا،تو آپ نے اسے مہاجرین میں تقسیم کر دیا، اس میں سے انصار کو کچھ نہ دیا، سوائے دو آدمیوں کے جو ضرورت مند تھے۔
وضاحت ۱؎ ؎ : یعنی تم نے ان مالوں کے واسطے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوئے (سورۃ الحشر : ۶)
2972- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ، فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا، وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ، وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى، فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ ﷺ فِي حَيَاتِهِ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلا، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، قَالَ عُمَرُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ-: فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ، وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ، يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم.
[قَالَ أَبو دَاود: وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ الْخِلافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ، وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مغیرۃ بن مقسم'' مدلس اور کثیر الارسال ہیں)
۲۹۷۲- مغیر ہ کہتے ہیں: عمر بن عبدا لعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس فد ک تھا، آپ اس کی آمدنی سے ( اہل و عیال، فقراء ومساکین پر) خرچ کرتے تھے، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیو ہ عو رتوں کے نکا ح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے فدک مانگاتو آپ نے انہیں دینے سے انکارکیا،آپ ﷺ کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ ﷺ انتقال فرما گئے، پھر جب ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرماگئے، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا،عمر بن عبد العزیز کہتے ہیں:تو میں نے اس معاملے پر غور وفکر کیا، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فاطمہ علیہاالسلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لو ٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھا ( یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے) ۔
ابو داود کہتے ہیں :عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہز ار دینار تھی، اورانتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جا تی۔
2973- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: جَائَتْ فَاطِمَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ -عَزَّوَجَلَّ- إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴، ۶، ۹) (حسن)
۲۹۷۳- ابو طفیل کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم ﷺ کے ترکہ سے اپنی میراث مانگنے آئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: '' اللہ عز وجل جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کے قائم مقام (خلیفہ) کو ملتا ہے''، ( یعنی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا ہے، دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے نہیں، اس لئے جومال دولت اس کو اس کی زندگی میں مل جائے، وہ بھی اس کی وفات کے بعد صدقہ ہوگا، تاکہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ اپنے وارثوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف تھا۔
قرآن مجید میں جو حضرت زکریا علیہ السلام کا قول منقول ہے
{يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ} (سورۃ مریم: ۶) اور جو یہ فرمایا گیا ہے
{وَوَرِثَ سُلَيْمَاْنُ} (سورۃ النمل: ۱۳) تو اس سے مراد علم اور نبوت کی وراثت ہے، نہ کہ دنیا کے مال کی۔
2974- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ >.
[قَالَ أَبو دَاود: < مُؤْنَةُ عَامِلِي > يَعْنِي أَكَرَةَ الأَرْضِ]۔
* تخريج: خ/الوصایا ۳۲ (۳۰۹۶)، فرض الخمس ۳ (۲۷۷۶)، الفرائض ۳ (۶۷۲۹)، م/الجھاد ۱۶ (۱۷۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۰۵)، وقد أخرجہ: ط/ الکلام ۱۲ (۲۸)، حم (۲/۳۷۶) (صحیح)
۲۹۷۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''میرے ورثاء میری میراث سے جو میں چھوڑکر مروں ایک دیناربھی تقسیم نہ کریں گے، اپنی بیویوں کے نفقے اور اپنے عامل کے خرچے کے بعد جو کچھ میں چھوڑوں وہ صدقہ ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں :
''مُؤْنَةُ عَامِلِي'' میں عاملی سے مراد کاشتکا ر، زمین جو تنے بونے والے ہیں۔
2975- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ حَدِيثًا مِنْ رَجُلٍ فَأَعْجَبَنِي فَقُلْتُ: اكْتُبْهُ لِي، فَأَتَى بِهِ مَكْتُوبًا مُذَبَّرًا: دَخَلَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ عَلَى عُمَرَ، وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ وَسَعْدٌ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ عُمَرُ لِطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ وَسَعْدٍ: أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ، إِلا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَكَسَاهُمْ، إِنَّا لا نُورَثُ؟ > قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَى أَهْلِهِ وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، فَكَانَ يَصْنَعُ الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۴۹، ۳۹۵۲) (صحیح)
(شواہدومتابعات پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جوپتہ نہیں صحابی ہے یاتابعی ؟)
۲۹۷۵- ابو البختری کہتے ہیں: میں نے ایک شخص سے ایک حدیث سنی وہ مجھے انوکھی سی لگی، میں نے اس سے کہا: ذرا اسے مجھے لکھ کر دو،تو وہ صاف صاف لکھ کر لا یا:علی اور عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے اوران کے پاس طلحہ، زبیر، عبدالرحمن اور سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے ) بیٹھے تھے، یہ دونوں ( یعنی عباس اور علی رضی اللہ عنہما ) جھگڑنے لگے،عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر،عبدالرحمن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا :کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:''نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا''، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ با ت جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنے مال میں سے اپنے اہل پر صر ف کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے آپ کے بعد اس مال کے متولی ابو بکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی کرتے رہے جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، پھرراوی نے مالک بن اوس کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔
2976- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا نُورَثُ، مَاتَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ > ۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۴ (۴۰۳۴)، الفرائض ۳ (۶۷۳۰)، م/الجہاد ۱۶ (۱۷۵۸)، ط/ الکلام ۱۲ (۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۵، ۲۶۲) (صحیح)
۲۹۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو امہات المو منین نے ارا دہ کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر رسول اللہ ﷺ کی میراث سے اپناآٹھواں حصہ طلب کریں، تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان سب سے کہا (کیا تمہیں یاد نہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے''۔
2977- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ، قُلْتُ: أَلا تَتَّقِينَ اللَّهَ؟ أَلَمْ تَسْمَعْنَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّمَا هَذَا الْمَالُ لآلِ مُحَمَّدٍ لِنَائِبَتِهِمْ وَلِضَيْفِهِمْ، فَإِذَا مُتُّ فَهُوَ إِلَى وَلِيِّ الأَمْرِ مِنْ بَعْدِي >؟!.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۰۷)، وقد أخرجہ: ت/الشمائل (۴۰۲)، حم (۶/۱۴۵) (حسن)
۲۹۷۷- اس سند سے بھی ابن شہاب زہری سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے( دیگر امہا ت المو منین سے) کہا: تم اللہ سے ڈرتی نہیں، کیا تم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سناہے کہ آپ فرماتے تھے: ''ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، اور یہ مال آل محمد کی ضروریات اور ان کے مہمانوں کے لئے ہے، اور جب میرا انتقال ہو جائے گا تو یہ مال اس شخص کی نگرانی و تحویل میں رہے گا جو میرے بعد معاملہ کا والی ہوگا (مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا)''۔