- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
20- بَاب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
۲۰-باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان
2978- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يُكَلِّمَانِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِيمَا قَسَمَ مِنَ الْخُمُسِ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَسَمْتَ لإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْكَ وَاحِدَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: <إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ >، قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلا لِبَنِي نَوْفَلٍ، مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ، كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُوبَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِيهِمْ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُعْطِيهِمْ مِنْهُ، وَعُثْمَانُ بَعْدَهُ ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۹ (۴۲۲۹)، ن/الفيء (۴۱۴۱)، ق/الجھاد ۴۶ (۲۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
۲۹۷۸- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ۱؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا،تو میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں'' ۲؎ جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ ﷺ نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیاجیسے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ ۳؎ بھی اپنی خلا فت میں خمس کو اسی طرح تقسیم کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم فرماتے تھے مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے عز یز وں کو نہ دیتے تھے جب کہ نبی اکرم ﷺ ان کو دیتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس میں سے ان کو دیتے تھے اور ان کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی ان کو دیتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ان دونوں کے خاند ان والوں کو نہیں دیا تھا جب کہ ان سب کا اصل خاندان ایک تھا عبدمناف کے چار بیٹے تھے ایک ہاشم جن کی اولاد میں رسول اللہ ﷺ تھے، دوسرے مطلب، تیسرے عبدشمس جن کی اولاد میں عثمان رضی اللہ عنہ تھے، اورچو تھے نو فل جن کی اولاد میں جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ تھے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ہمیشہ ایک دوسرے کی مددکرتے رہے اسی لئے کفا ر نے جب مقاطعہ کا عہد نامہ لکھاتو انہوں نے اس میںبنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں کو شریک کیا۔
وضاحت ۳؎ : ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے نہیں دیا کہ وہ اس وقت غنی اور مالدار رہے ہوں گے، اور دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند رہے ہوں گے، جیسا کہ دوسری روایت میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے انہیں ایک حصہ خمس میں سے دیدیا تھا، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حصہ دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے نہیں لیا اور کہا کہ ہم غنی ہیں۔
2979- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلالِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا، كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، كَمَا كَانَ يُعْطِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ وَمَنْ كَانَ بَعْدَهُ مِنْهُمْ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
۲۹۷۹- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا، جب کہ بنو ہا شم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم کیا کرتے تھے،مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ ﷺ ان کو دیا کرتے تھے، البتہ عمر رضی اللہ عنہ انہیں دیا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو بکر رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو غا لباً ان کے مالدار ہونے کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔
2980- حَدَّثَنَا مُسَدِّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى فِي بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، وَتَرَكَ بَنِي نَوْفَلٍ، وَبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَؤُلاءِ بَنُو هَاشِمٍ، لا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِلْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ، فَمَا بَالُ إِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَنَا، وَقَرَابَتُنَا وَاحِدَةٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّا وَبَنُو الْمُطَّلِبِ لا نَفْتَرِقُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلا إِسْلامٍ، وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ شَيْئٌ وَاحِدٌ > وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۹۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
۲۹۸۰- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے قرابت داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا، اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو چھوڑ دیا، تو میں اور عثمان رضی اللہ عنہ دونوںچل کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنوہاشم ہیں،ہم ان کی فضیلت کاانکار نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو انہیں میں سے کیا ہے، لیکن ہمارے بھائی بنو مطلب کا کیا معا ملہ ہے؟ کہ آپ نے ان کو دیا اور ہم کو نہیں دیا، جب کہ آپ سے ہماری اور ان کی قرابت داری یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہم اور بنومطلب دونوں جدا نہیں ہوئے نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں، ہم اور وہ ایک چیز ہیں '' ۱؎ ، آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا (گویا دکھایا کہ اس طرح) ۔
وضاحت ۱؎ : یہ جو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ''ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں''، توقصہ یہ ہے کہ قریش اور بنی کنانہ نے بنی ہاشم اوربنی مطلب کے جدا کرنے پر حلف لیا تھا کہ وہ نہ ان سے نکاح کریں گے، نہ خریدو فروخت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے سپرد نہ کریں، اور اس عہد نامہ کو محصب میں لٹکا دیا تھا، اللہ تعالی کی قدرت سے اسے دیمک چاٹ گئی اور کفار مغلوب ہوئے۔
2981- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ السُّدِّيِّ فِي ذِي الْقُرْبَى، قَالَ هُمْ بَنُو [عَبْدِ] الْمُطَّلِبِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۳۸) (ضعیف) (اس کے راوی ''حسین عجلی'' کثیرالخطأ ہیں)
۲۹۸۱- سدی کہتے ہیں کہ کلام اللہ میں {ذي القربى} کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔
2982- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ حَجَّ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، وَيَقُولُ: لِمَنْ تَرَاهُ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، قَسَمَهُ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا مِنْ ذَلِكَ عَرْضًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا، فَرَدَدْنَاهُ عَلَيْهِ وَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۸ (۱۸۱۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، ن/الفيء (۴۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲) (صحیح)
۲۹۸۲- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یز ید بن ہر مز نے خبردی کہ نجدہ حر وری ( خارجیوں کے رئیس) نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے بحران کے زمانہ میں ۱؎ جس وقت حج کیا تو اس نے ایک شخص کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس''ذي القربى'' کا حصہ پو چھنے کے لئے بھیجا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس سے کون مراد ہے ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس سے رسول اللہ ﷺ کے عزیز واقارب مرا د ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اسے ان سب میں تقسیم فرمایا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ہمیں اس میں سے دیا تھا لیکن ہم نے اسے اپنے حق سے کم پا یا تو لو ٹا دیا اور لینے سے انکار کر دیا۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔
2983- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُوجَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًا يَقُولُ: وَلانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خُمُسَ الْخُمُسِ، فَوَضَعْتُهُ مَوَاضِعَهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَحَيَاةَ أَبِي بَكْرٍ، وَحَيَاةَ عُمَرَ، فَأُتِيَ بِمَالٍ فَدَعَانِي، فَقَالَ: خُذْهُ، فَقُلْتُ: لا أُرِيدُهُ، قَالَ: خُذْهُ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ بِهِ، قُلْتُ: قَدِ اسْتَغْنَيْنَا عَنْهُ، فَجَعَلَهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''ابوجعفررازی '' ضعیف ہیں)
۲۹۸۳- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے خمس کا خمس ( پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ ) دیا، تو میں اسے اس کے خرچ کے مد میں صر ف کرتا رہا، جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما زندہ رہے پھر (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں )ان کے پاس مال آیا تو انہوں نے مجھے بلا یا اور کہا: اس کو لے لو، میں نے کہا: میں نہیں لینا چا ہتا، انہوں نے کہا :لے لو تم اس کے زیادہ حق دار ہو، میں نے کہا: اب ہمیں اس مال کی حاجت نہیں رہی (ہمیں اللہ نے اس سے بے نیاز کر دیا ہے) توانہوں نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔
2984- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ ابْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا وَالْعَبَّاسُ، وَفَاطِمَةُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، ثُمَّ وَلانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه، حَتَّى [إِذَا] كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْه فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ، فَعَزَلَ حَقَّنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى، وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ لَمْ يَدْعُنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ بَعْدَ عُمَرَ، فَلَقِيتُ الْعَبَّاسَ بَعْدَمَا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا عَلِيُّ ! حَرَمْتَنَا الْغَدَاةَ شَيْئًا لا يُرَدُّ عَلَيْنَا أَبَدًا، وَكَانَ رَجُلا دَاهِيًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''حسین بن میمون لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی روایت اور یہ روایت دونوں آپس میں ایک دوسرے سے مل کر اس واقعہ کی اصلیت کو حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچادیتی ہیں)
۲۹۸۴- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں، عباس، فاطمہ اور زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے مو افق ہے وہ ہمارے اختیا ر میں دے دیجئے تا کہ آپ ﷺ کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑانہ کرے، توآپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سا ل میں آپ کے پاس بہت سامال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا، عمر رضی اللہ عنہ کے بعد پھر کسی نے مجھے اس مال ( یعنی خمس الخمس) کے لینے کے لئے نہیں بلا یا،عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلنے کے بعد میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملا، تو وہ کہنے لگے: علی! تم نے ہم کو آج ایسی چیز سے محروم کر دیا جو پھر کبھی لو ٹ کر نہ آئے گی (یعنی اب کبھی یہ حصہ ہم کو نہ ملے گا) اوروہ ایک سمجھدار آدمی تھے (انہوں نے جو کہا تھا وہی ہوا)۔
2985- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ أَنَّ عَبْدَالْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ قَالا لِعَبْدِالْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُولا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ بَلَغْنَا مِنَ السِّنِّ مَا تَرَى، وَأَحْبَبْنَا أَنْ نَتَزَوَّجَ، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُهُمْ، وَلَيْسَ عِنْدَ أَبَوَيْنَا مَا يُصْدِقَانِ عَنَّا، فَاسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ، فَلْنُؤَدِّ إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي الْعُمَّالُ، وَلْنُصِبْ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ مَرْفَقٍ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَنَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لا وَاللَّهِ لانَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لَهُ رَبِيعَةُ: هَذَا مِنْ أَمْرِكَ، قَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ نَحْسُدْكَ عَلَيْهِ، فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَائَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ، وَاللَّهِ لا أَرِيمُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَائكما بِجَوَابِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، قَالَ عَبْدُالْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ [إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم] حَتَّى نُوَافِقَ صَلاةَ الظُّهْرِ قَدْ قَامَتْ، فَصَلَّيْنَا مَعَ النَّاسِ، ثُمَّ أَسْرَعْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُمْنَا بِالْبَابِ، حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَخَذَ بِأُذُنِي وَأُذُنِ الْفَضْلِ، ثُمَّ قَالَ: < أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ >، ثُمَّ دَخَلَ فَأَذِنَ لِي وَلِلْفَضْلِ فَدَخَلْنَا، فَتَوَاكَلْنَا الْكَلامَ قَلِيلا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ أَوْ كَلَّمَهُ الْفَضْلُ -قَدْ شَكَّ فِي ذَلِكَ عَبْدُاللَّهِ- قَالَ: كَلَّمَهُ بِالأَمْرِ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ أَبَوَانَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَاعَةً وَرَفَعَ بَصَرَهُ قِبَلَ سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى طَالَ عَلَيْنَا أَنَّهُ لا يَرْجِعُ إِلَيْنَا شَيْئًا، حَتَّى رَأَيْنَا زَيْنَبَ تَلْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ بِيَدِهَا تُرِيدُ أَنْ لا تَعْجَلا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي أَمْرِنَا، ثُمَّ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَأْسَهُ فَقَالَ لَنَا: < إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلا لآلِ مُحَمَّدٍ، ادْعُوا لِي نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ >، فَدُعِيَ لَهُ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ، فَقَالَ: < يَا نَوْفَلُ أَنْكِحْ عَبْدَالْمُطَّلِبِ >، فَأَنْكَحَنِي نَوْفَلٌ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < ادْعُوا لِي مَحْمِئَةَ بْنَ جَزْء > وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُبَيْدٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَخْمَاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِمَحْمِئَةَ: < أَنْكِحِ الْفَضْلَ > فَأَنْكَحَهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < قُمْ فَأَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا > لَمْ يُسَمِّهِ لِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۵۱ (۱۰۷۲)، ن/الزکاۃ ۹۵ (۲۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۶) (صحیح)
۲۹۸۵- عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبردی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے ان سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس جائو اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شا دی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول ! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول!ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ ( یعنی حق محنت ) ہو گا وہ ہم پائیں گے۔
عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ گئے اور انہوں نے ہم سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''قسم اللہ کی! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے'' ۱؎ ۔
اس پر ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شر ف حا صل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اورکہنے لگے: میں ابو الحسن سردار ہوں ( جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آجائیں جس کے لئے تم نے انہیں اللہ کے نبی ﷺ کے پاس بھیجا ہے ۔
عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں گئے، ہم نبی کریم ﷺ کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہو گئی ہم نے سب کے ساتھ صلاۃجما عت سے پڑھی، صلاۃ پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم ﷺ کے حجرے کے در وازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المومنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ آگئے اور( پیا ر سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا: ''بو لو بولو، جو دل میں لئے ہو''، یہ کہہ کر آپ ﷺ گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لئے اشا رہ کیا ( تم کہو تم کہو) پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کوہوا)آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیںحکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ایک گھڑ ی تک چپ رہے، پھر نگا ہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شا ید آپ ﷺ ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پر دے کی آڑ سے ( ام المو منین) زینب رضی اللہ عنہا اشا رہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو ( گھبرائو نہیں) رسول اللہ ﷺ تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: ''یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال ) کا میل ( کچیل ) ہے''، اور یہ محمد ﷺ کے لئے اور محمد ﷺ کی آل ( واولاد) کے لئے حلال نہیں ہے، ( یعنی بنو ہاشم کے لئے صدقہ لینا درست نہیں ہے ) نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ''، چنانچہ نوفل بن حارث رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''نوفل! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو''، تو نو فل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیا۔
پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' محمّیہ بن جزء کومیرے پاس بلاؤ''،محمّیۃ بن جز ء رضی اللہ عنہ بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا ( وہ آئے ) آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : ''تم فضل کا ( اپنی بیٹی سے) نکاح کردو''، تو انہوں نے ان کا نکا ح کر دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے ( ان سے ) کہا:'' جائو مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کردو ''۔
( ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حا رث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔
2986- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ؛ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَاعَدْتُ رَجُلا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ، وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارِفَيَّ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا، وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنَ الأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا:
أَلا يَا حَمْزَ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ
فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ، فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَا لَكَ؟ > قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ، فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَهَا هُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: وَهَلْ أَنْتُمْ إِلا عَبِيدٌ لأَبِي؟ فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ ثَمِلٌ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ ۔
* تخريج: خ/البیوع ۲۸ (۲۰۸۹)، المساقاۃ ۱۳ (۲۳۷۵)، فرض الخمس ۱ (۳۰۹۱)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۳)، اللباس ۹ (۵۷۹۳)، م/الأشربۃ ۱ (۱۹۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴۲) (صحیح)
۲۹۸۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بد رکے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارا دہ کیا کہ میں فا طمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شب عروسی منائوں تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنا ر سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر( ایک خوشبو دار گھا س ہے ) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیا ری میں اس سے مدد لوں، اسی دور ان کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لئے پالان،گھا س کے ٹو کرے اور رسیاں ( وغیرہ ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضرور ی سامان میں مہیا کر سکتا تھا کر کے لو ٹ کر آیاتو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لئے گئے ہیں،جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھو ں پر قابو نہ پاسکا میں نے کہا :یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب کی کارستانی ہے، وہ اس گھر میں چند انصا ریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنّیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یو ں گا یا:
''أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ'' ۱؎
یہ سن کروہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جاکر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چا ک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لئے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو( صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''تمہیں کیا ہوا؟''، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھا ڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شرا ب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی چا در منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ ﷺ اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے،آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ ﷺ حمزہ کو ان کے کئے پر ملا مت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سر خ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا، پھر تھو ڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظراور بلند کی، اور آپ ﷺ کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھو ڑی نظراور بلند کی اور آپ ﷺ کے چہرہ کو دیکھا، پھربولے: تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو،اس وقت رسول اللہ ﷺ نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں ( یہ دیکھ کر ) رسول اللہ ﷺ الٹے پائوں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آ ئے ( اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی)۔
وضاحت ۱؎ ؎ : باقی اشعار اس طرح ہیں :
أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء
وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء
ضَع السكين في اللبات منها
وضرجهن حمزة بالدماء
وعجـل مـن أطايبهـا لشـرب
قديدًا من طبيخ أو شواء
(اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اوران کے حلق پرچھری پھیر کر انہیں خون میںلت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو )۔
2987- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ، أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْهُ عَنْ إِحْدَاهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَبْيًا، فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ، وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ، لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ: تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلاةٍ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَكْبِيرَةً، وَثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لاشَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ >.
قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۱۲، ۱۵۳۱۴)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۶) (ضعیف)
(اس حدیث کی البانی نے صحیحۃ ۲؍ ۱۸۸، اور صحیح ابی داود ۲۶۴۴، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا،ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲؍ ۴۲۴)
۲۹۸۷- فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام حکم یا ضبا عہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کاآپ ﷺ سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوادیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آکر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لئے اس سے بہتر ہے، ہر صلاۃ کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمد اللہ، اور ایک بار: '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ '' کہہ لیا کرو''۔
عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضبا عہ اور ام حکم رضی اللہ عنہما ) دونوں نبی اکرم ﷺ کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے،سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔
2988- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ -يَعْنِي الْجُرَيرِيَّ- عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه: أَلا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ وَكَانَتْ مِنْ أَحَبِّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: إِنَّهَا جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَ فِي نَحْرِهَا، وَكَنَسَتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ خَدَمٌ فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَرَجَعَتْ، فَأَتَاهَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: < مَا كَانَ حَاجَتُكِ؟ > فَسَكَتَتْ، فَقُلْتُ: أَنَا أُحَدِّثُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا، وَحَمَلَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا، فَلَمَّا أَنْ جَائَكَ الْخَدَمُ أَمَرْتُهَا أَنْ تَأْتِيَكَ فَتَسْتَخْدِمَكَ خَادِمًا يَقِيهَا حَرَّ مَا هِيَ فِيهِ، قَالَ: < اتَّقِي اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ، وَأَدِّي فَرِيضَةَ رَبِّكِ، وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ فَسَبِّحِي ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَاحْمَدِي ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلاثِينَ، فَتِلْكَ مِائَةٌ، فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ >، قَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَنْ رَسُولِهِ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود بہذا الیساق: (اتقي اللّٰہ یا فاطمۃ، وأدي فریضۃ ربک، واعملي عمل أہلک)، وأما البقیۃ من الحدیث فقد رواہ کل من :خ/فرض الخمس ۶ (۳۱۱۳)، فضائل الصحابۃ ۹ (۳۷۰۵)، النفقات ۶ (۵۳۶۱)، الدعوات ۱۱ (۶۳۱۸)، م/الذکر والدعاء ۱۹ (۲۷۲۷)، ت/الدعوات ۲۴ (۳۴۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۶)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۲) (ضعیف)
(مذکورہ جملے کے اضافہ کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس سے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں اور ابن اعبد مجہول ہیں، بقیہ حصہ توصحیحین میں ہے)
۲۹۸۸- ابن اعبُد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتائوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتایئے، آپ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے، اور پانی بھر بھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہوجاتے، نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لئے ایک خادمہ مانگ لیتی، چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ آپ سے گفتگو کررہے ہیں تو لوٹ آئیں، دوسرے دن آپ ﷺ خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا: ''تم کس ضرورت سے آئی تھیں؟''، وہ چپ رہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتا تا ہوں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان (گٹھا) پڑ گیا، مشک ڈھوتے ڈھوتے سینے میں درد رہنے لگا اب آپ کے پاس خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جائیں، اور آپ سے ایک خادم مانگ کر لائیں، جس کے ذریعہ اس شدت وتکلیف سے انہیں نجات ملے جس سے وہ دو چار ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: ''فاطمہ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو، اور اپنے گھر کے کام کیا کرو، اور جب سونے چلو تو (۳۳) بار سبحان اللہ، (۳۳) بار الحمد للہ، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، یہ کل سو ہوئے یہ تمہارے لئے خادمہ سے بہتر ہیں'' ۱؎ ۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے خوش ہوں۔
وضاحت ۱؎ : شاید اسی میں مصلحت رہی ہوکہ رسول اللہ ﷺ کی آل واولاد کو دنیا میں تکلیف وتنگ دستی رہے، تاکہ یہ چیز آخرت میں ان کے لئے بلندی درجات کا سبب بنے۔
2989- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَلَمْ يُخْدِمْهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
(علی بن حسین زیدالعابدین نے اپنے ناناعلی کو نہیں پایا ہے لیکن واقعہ صحیح ہے)
۲۹۸۹- علی بن حسین سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ'' آپ ﷺ نے انہیں خادم نہیں دیا''۔
2990- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ الْقُرَشِيُّ -قَالَ أَبُوجَعْفَرٍ -يَعْنِي ابْنَ عِيسَى-: كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الأَبْدَالَ مِنَ الْمَوَالِي- قَالَ: حَدَّثَنِي الدَّخِيلُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ نُوحِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ هِلالِ بْنِ سِرَاجِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ مُجَّاعَةَ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ يَطْلُبُ دِيَةَ أَخِيهِ -قَتَلَتْهُ بَنُو سَدُوسٍ مِنْ بَنِي ذُهْلٍ- فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < لَوْ كُنْتُ جَاعِلا لِمُشْرِكٍ دِيَةً جَعَلْتُ لأَخِيكَ، وَلَكِنْ سَأُعْطِيكَ مِنْهُ عُقْبَى >، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ بِمِائَةٍ مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ فَأَخَذَ طَائِفَةً مِنْهَا، وَأَسْلَمَتْ بَنُو ذُهْلٍ، فَطَلَبَهَا بَعْدُ مُجَّاعَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَأَتَاهُ بِكِتَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَكَتَبَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ بِاثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ صَاعٍ مِنْ صَدَقَةِ الْيَمَامَةِ: أَرْبَعَةِ آلافٍ بُرًّا، وَأَرْبَعَةِ آلافٍ شَعِيرًا، وَأَرْبَعَةِ آلافٍ تَمْرًا، وَكَانَ فِي كِتَابِ النَّبِيِّ ﷺ لِمُجَّاعَةَ: < بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيّ،ِ لِمُجَّاعَةَ بْنِ مَرَارَةَ مِنْ بَنِي سُلْمَى، إِنِّي أَعْطَيْتُهُ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ عُقْبَةً مِنْ أَخِيهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۲) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''دخیل'' مجہول الحال، اور''ہلال '' لین الحدیث ہیں)
۲۹۹۰- مجاّعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے بھائی کی دیت مانگنے آئے جسے بنو ذہل میں سے بنی سدوس نے قتل کر ڈالا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اگر میں کسی مشرک کی دیت دلاتا تو تمہارے بھائی کی دیت دلاتا، لیکن میں اس کا بدلہ تمہیں دلائے دیتا ہوں''، پھر نبی اکرم ﷺ نے بنو ذہل کے مشرکین سے پہلے پہل حاصل ہونے والے خمس میں سے سو اونٹ اسے دینے کے لئے لکھ دیا۔
مجاعہ رضی اللہ عنہ کو ان اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بنو ذہل کے مسلمان ہو جانے کے بعد ملے، اور مجاّعہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باقی اونٹوں کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ان کے خلیفہ ہونے کے بعد طلب کئے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی کتاب (تحریر) دکھائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجاعہ رضی اللہ عنہ کے یمامہ کے صدقے میں سے بارہ ہزار صاع دینے کے لئے لکھ دیا، چار ہزار صاع گیہوں کے، چار ہزار صاع جو کے اور چار ہزار صاع کھجور کے۔
رسول اللہ ﷺ نے مجاعہ کو جو کتاب (تحریر) لکھ کر دی تھی اس کا مضمون یہ تھا: ''شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے؛ یہ کتاب محمد نبی کی جانب سے مجاعہ بن مرارہ کے لئے ہے جو بنو سلمی میں سے ہیں، میں نے اسے بنی ذہل کے مشرکوں سے حاصل ہونے والے پہلے خمس میں سے سو اونٹ اس کے مقتول بھائی کے عوض میں دیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک کی کوئی دیت نہیں، البتہ جو مشرک ذمی ہو یعنی اسلامی حکومت کا باشندہ ہو، اور اس سے جزیہ لیا جاتا ہو تو اس کو اگر کوئی کافر مار ڈالے تو اس پر قصاص ہوگا، یا دیت ہوگی، اور جو مسلمان مار ڈالے تو دیت دینی ہوگی۔