• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
20- بَاب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
۲۰-باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان​


2978- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يُكَلِّمَانِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِيمَا قَسَمَ مِنَ الْخُمُسِ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَسَمْتَ لإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْكَ وَاحِدَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: <إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ >، قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلا لِبَنِي نَوْفَلٍ، مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ، كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُوبَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِيهِمْ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُعْطِيهِمْ مِنْهُ، وَعُثْمَانُ بَعْدَهُ ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۹ (۴۲۲۹)، ن/الفيء (۴۱۴۱)، ق/الجھاد ۴۶ (۲۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
۲۹۷۸- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ۱؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا،تو میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں'' ۲؎ جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ ﷺ نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیاجیسے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ ۳؎ بھی اپنی خلا فت میں خمس کو اسی طرح تقسیم کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم فرماتے تھے مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے عز یز وں کو نہ دیتے تھے جب کہ نبی اکرم ﷺ ان کو دیتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس میں سے ان کو دیتے تھے اور ان کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی ان کو دیتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ان دونوں کے خاند ان والوں کو نہیں دیا تھا جب کہ ان سب کا اصل خاندان ایک تھا عبدمناف کے چار بیٹے تھے ایک ہاشم جن کی اولاد میں رسول اللہ ﷺ تھے، دوسرے مطلب، تیسرے عبدشمس جن کی اولاد میں عثمان رضی اللہ عنہ تھے، اورچو تھے نو فل جن کی اولاد میں جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ تھے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ہمیشہ ایک دوسرے کی مددکرتے رہے اسی لئے کفا ر نے جب مقاطعہ کا عہد نامہ لکھاتو انہوں نے اس میںبنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں کو شریک کیا۔
وضاحت ۳؎ : ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے نہیں دیا کہ وہ اس وقت غنی اور مالدار رہے ہوں گے، اور دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند رہے ہوں گے، جیسا کہ دوسری روایت میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے انہیں ایک حصہ خمس میں سے دیدیا تھا، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حصہ دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے نہیں لیا اور کہا کہ ہم غنی ہیں۔


2979- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلالِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا، كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، كَمَا كَانَ يُعْطِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ وَمَنْ كَانَ بَعْدَهُ مِنْهُمْ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
۲۹۷۹- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا، جب کہ بنو ہا شم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم کیا کرتے تھے،مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ ﷺ ان کو دیا کرتے تھے، البتہ عمر رضی اللہ عنہ انہیں دیا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو بکر رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو غا لباً ان کے مالدار ہونے کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔


2980- حَدَّثَنَا مُسَدِّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى فِي بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، وَتَرَكَ بَنِي نَوْفَلٍ، وَبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَؤُلاءِ بَنُو هَاشِمٍ، لا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِلْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ، فَمَا بَالُ إِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَنَا، وَقَرَابَتُنَا وَاحِدَةٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّا وَبَنُو الْمُطَّلِبِ لا نَفْتَرِقُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلا إِسْلامٍ، وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ شَيْئٌ وَاحِدٌ > وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۹۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
۲۹۸۰- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے قرابت داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا، اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو چھوڑ دیا، تو میں اور عثمان رضی اللہ عنہ دونوںچل کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنوہاشم ہیں،ہم ان کی فضیلت کاانکار نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو انہیں میں سے کیا ہے، لیکن ہمارے بھائی بنو مطلب کا کیا معا ملہ ہے؟ کہ آپ نے ان کو دیا اور ہم کو نہیں دیا، جب کہ آپ سے ہماری اور ان کی قرابت داری یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہم اور بنومطلب دونوں جدا نہیں ہوئے نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں، ہم اور وہ ایک چیز ہیں '' ۱؎ ، آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا (گویا دکھایا کہ اس طرح) ۔
وضاحت ۱؎ : یہ جو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ''ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں''، توقصہ یہ ہے کہ قریش اور بنی کنانہ نے بنی ہاشم اوربنی مطلب کے جدا کرنے پر حلف لیا تھا کہ وہ نہ ان سے نکاح کریں گے، نہ خریدو فروخت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے سپرد نہ کریں، اور اس عہد نامہ کو محصب میں لٹکا دیا تھا، اللہ تعالی کی قدرت سے اسے دیمک چاٹ گئی اور کفار مغلوب ہوئے۔


2981- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ السُّدِّيِّ فِي ذِي الْقُرْبَى، قَالَ هُمْ بَنُو [عَبْدِ] الْمُطَّلِبِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۳۸) (ضعیف) (اس کے راوی ''حسین عجلی'' کثیرالخطأ ہیں)
۲۹۸۱- سدی کہتے ہیں کہ کلام اللہ میں {ذي القربى} کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔
2982- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ حَجَّ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، وَيَقُولُ: لِمَنْ تَرَاهُ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، قَسَمَهُ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا مِنْ ذَلِكَ عَرْضًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا، فَرَدَدْنَاهُ عَلَيْهِ وَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۸ (۱۸۱۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، ن/الفيء (۴۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲) (صحیح)
۲۹۸۲- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یز ید بن ہر مز نے خبردی کہ نجدہ حر وری ( خارجیوں کے رئیس) نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے بحران کے زمانہ میں ۱؎ جس وقت حج کیا تو اس نے ایک شخص کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس''ذي القربى'' کا حصہ پو چھنے کے لئے بھیجا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس سے کون مراد ہے ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس سے رسول اللہ ﷺ کے عزیز واقارب مرا د ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اسے ان سب میں تقسیم فرمایا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ہمیں اس میں سے دیا تھا لیکن ہم نے اسے اپنے حق سے کم پا یا تو لو ٹا دیا اور لینے سے انکار کر دیا۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔


2983- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُوجَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًا يَقُولُ: وَلانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خُمُسَ الْخُمُسِ، فَوَضَعْتُهُ مَوَاضِعَهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَحَيَاةَ أَبِي بَكْرٍ، وَحَيَاةَ عُمَرَ، فَأُتِيَ بِمَالٍ فَدَعَانِي، فَقَالَ: خُذْهُ، فَقُلْتُ: لا أُرِيدُهُ، قَالَ: خُذْهُ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ بِهِ، قُلْتُ: قَدِ اسْتَغْنَيْنَا عَنْهُ، فَجَعَلَهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''ابوجعفررازی '' ضعیف ہیں)
۲۹۸۳- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے خمس کا خمس ( پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ ) دیا، تو میں اسے اس کے خرچ کے مد میں صر ف کرتا رہا، جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما زندہ رہے پھر (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں )ان کے پاس مال آیا تو انہوں نے مجھے بلا یا اور کہا: اس کو لے لو، میں نے کہا: میں نہیں لینا چا ہتا، انہوں نے کہا :لے لو تم اس کے زیادہ حق دار ہو، میں نے کہا: اب ہمیں اس مال کی حاجت نہیں رہی (ہمیں اللہ نے اس سے بے نیاز کر دیا ہے) توانہوں نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔


2984- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ ابْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا وَالْعَبَّاسُ، وَفَاطِمَةُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، ثُمَّ وَلانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه، حَتَّى [إِذَا] كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْه فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ، فَعَزَلَ حَقَّنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى، وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ لَمْ يَدْعُنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ بَعْدَ عُمَرَ، فَلَقِيتُ الْعَبَّاسَ بَعْدَمَا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا عَلِيُّ ! حَرَمْتَنَا الْغَدَاةَ شَيْئًا لا يُرَدُّ عَلَيْنَا أَبَدًا، وَكَانَ رَجُلا دَاهِيًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''حسین بن میمون لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی روایت اور یہ روایت دونوں آپس میں ایک دوسرے سے مل کر اس واقعہ کی اصلیت کو حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچادیتی ہیں)
۲۹۸۴- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں، عباس، فاطمہ اور زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے مو افق ہے وہ ہمارے اختیا ر میں دے دیجئے تا کہ آپ ﷺ کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑانہ کرے، توآپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سا ل میں آپ کے پاس بہت سامال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا، عمر رضی اللہ عنہ کے بعد پھر کسی نے مجھے اس مال ( یعنی خمس الخمس) کے لینے کے لئے نہیں بلا یا،عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلنے کے بعد میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملا، تو وہ کہنے لگے: علی! تم نے ہم کو آج ایسی چیز سے محروم کر دیا جو پھر کبھی لو ٹ کر نہ آئے گی (یعنی اب کبھی یہ حصہ ہم کو نہ ملے گا) اوروہ ایک سمجھدار آدمی تھے (انہوں نے جو کہا تھا وہی ہوا)۔


2985- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ أَنَّ عَبْدَالْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ قَالا لِعَبْدِالْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُولا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ بَلَغْنَا مِنَ السِّنِّ مَا تَرَى، وَأَحْبَبْنَا أَنْ نَتَزَوَّجَ، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُهُمْ، وَلَيْسَ عِنْدَ أَبَوَيْنَا مَا يُصْدِقَانِ عَنَّا، فَاسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ، فَلْنُؤَدِّ إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي الْعُمَّالُ، وَلْنُصِبْ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ مَرْفَقٍ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَنَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لا وَاللَّهِ لانَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لَهُ رَبِيعَةُ: هَذَا مِنْ أَمْرِكَ، قَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ نَحْسُدْكَ عَلَيْهِ، فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَائَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ، وَاللَّهِ لا أَرِيمُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَائكما بِجَوَابِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، قَالَ عَبْدُالْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ [إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم] حَتَّى نُوَافِقَ صَلاةَ الظُّهْرِ قَدْ قَامَتْ، فَصَلَّيْنَا مَعَ النَّاسِ، ثُمَّ أَسْرَعْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُمْنَا بِالْبَابِ، حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَخَذَ بِأُذُنِي وَأُذُنِ الْفَضْلِ، ثُمَّ قَالَ: < أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ >، ثُمَّ دَخَلَ فَأَذِنَ لِي وَلِلْفَضْلِ فَدَخَلْنَا، فَتَوَاكَلْنَا الْكَلامَ قَلِيلا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ أَوْ كَلَّمَهُ الْفَضْلُ -قَدْ شَكَّ فِي ذَلِكَ عَبْدُاللَّهِ- قَالَ: كَلَّمَهُ بِالأَمْرِ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ أَبَوَانَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَاعَةً وَرَفَعَ بَصَرَهُ قِبَلَ سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى طَالَ عَلَيْنَا أَنَّهُ لا يَرْجِعُ إِلَيْنَا شَيْئًا، حَتَّى رَأَيْنَا زَيْنَبَ تَلْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ بِيَدِهَا تُرِيدُ أَنْ لا تَعْجَلا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي أَمْرِنَا، ثُمَّ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَأْسَهُ فَقَالَ لَنَا: < إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلا لآلِ مُحَمَّدٍ، ادْعُوا لِي نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ >، فَدُعِيَ لَهُ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ، فَقَالَ: < يَا نَوْفَلُ أَنْكِحْ عَبْدَالْمُطَّلِبِ >، فَأَنْكَحَنِي نَوْفَلٌ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < ادْعُوا لِي مَحْمِئَةَ بْنَ جَزْء > وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُبَيْدٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَخْمَاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِمَحْمِئَةَ: < أَنْكِحِ الْفَضْلَ > فَأَنْكَحَهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < قُمْ فَأَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا > لَمْ يُسَمِّهِ لِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۵۱ (۱۰۷۲)، ن/الزکاۃ ۹۵ (۲۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۶) (صحیح)
۲۹۸۵- عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبردی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے ان سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس جائو اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شا دی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول ! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول!ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ ( یعنی حق محنت ) ہو گا وہ ہم پائیں گے۔
عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ گئے اور انہوں نے ہم سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''قسم اللہ کی! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے'' ۱؎ ۔
اس پر ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شر ف حا صل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اورکہنے لگے: میں ابو الحسن سردار ہوں ( جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آجائیں جس کے لئے تم نے انہیں اللہ کے نبی ﷺ کے پاس بھیجا ہے ۔
عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں گئے، ہم نبی کریم ﷺ کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہو گئی ہم نے سب کے ساتھ صلاۃجما عت سے پڑھی، صلاۃ پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم ﷺ کے حجرے کے در وازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المومنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ آگئے اور( پیا ر سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا: ''بو لو بولو، جو دل میں لئے ہو''، یہ کہہ کر آپ ﷺ گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لئے اشا رہ کیا ( تم کہو تم کہو) پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کوہوا)آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیںحکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ایک گھڑ ی تک چپ رہے، پھر نگا ہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شا ید آپ ﷺ ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پر دے کی آڑ سے ( ام المو منین) زینب رضی اللہ عنہا اشا رہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو ( گھبرائو نہیں) رسول اللہ ﷺ تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: ''یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال ) کا میل ( کچیل ) ہے''، اور یہ محمد ﷺ کے لئے اور محمد ﷺ کی آل ( واولاد) کے لئے حلال نہیں ہے، ( یعنی بنو ہاشم کے لئے صدقہ لینا درست نہیں ہے ) نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ''، چنانچہ نوفل بن حارث رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''نوفل! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو''، تو نو فل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیا۔
پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' محمّیہ بن جزء کومیرے پاس بلاؤ''،محمّیۃ بن جز ء رضی اللہ عنہ بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا ( وہ آئے ) آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : ''تم فضل کا ( اپنی بیٹی سے) نکاح کردو''، تو انہوں نے ان کا نکا ح کر دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے ( ان سے ) کہا:'' جائو مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کردو ''۔
( ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حا رث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔


2986- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ؛ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَاعَدْتُ رَجُلا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ، وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارِفَيَّ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا، وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنَ الأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا:
أَلا يَا حَمْزَ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ
فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ، فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَا لَكَ؟ > قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ، فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَهَا هُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: وَهَلْ أَنْتُمْ إِلا عَبِيدٌ لأَبِي؟ فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ ثَمِلٌ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ ۔
* تخريج: خ/البیوع ۲۸ (۲۰۸۹)، المساقاۃ ۱۳ (۲۳۷۵)، فرض الخمس ۱ (۳۰۹۱)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۳)، اللباس ۹ (۵۷۹۳)، م/الأشربۃ ۱ (۱۹۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴۲) (صحیح)
۲۹۸۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بد رکے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارا دہ کیا کہ میں فا طمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شب عروسی منائوں تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنا ر سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر( ایک خوشبو دار گھا س ہے ) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیا ری میں اس سے مدد لوں، اسی دور ان کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لئے پالان،گھا س کے ٹو کرے اور رسیاں ( وغیرہ ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضرور ی سامان میں مہیا کر سکتا تھا کر کے لو ٹ کر آیاتو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لئے گئے ہیں،جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھو ں پر قابو نہ پاسکا میں نے کہا :یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب کی کارستانی ہے، وہ اس گھر میں چند انصا ریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنّیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یو ں گا یا:
''أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ'' ۱؎
یہ سن کروہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جاکر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چا ک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لئے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو( صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''تمہیں کیا ہوا؟''، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھا ڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شرا ب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی چا در منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حا رثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ ﷺ اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے،آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ ﷺ حمزہ کو ان کے کئے پر ملا مت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سر خ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا، پھر تھو ڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظراور بلند کی، اور آپ ﷺ کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھو ڑی نظراور بلند کی اور آپ ﷺ کے چہرہ کو دیکھا، پھربولے: تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو،اس وقت رسول اللہ ﷺ نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں ( یہ دیکھ کر ) رسول اللہ ﷺ الٹے پائوں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آ ئے ( اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی)۔
وضاحت ۱؎ ؎ : باقی اشعار اس طرح ہیں :


أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء
وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء
ضَع السكين في اللبات منها
وضرجهن حمزة بالدماء
وعجـل مـن أطايبهـا لشـرب
قديدًا من طبيخ أو شواء


(اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اوران کے حلق پرچھری پھیر کر انہیں خون میںلت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو )۔


2987- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ، أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْهُ عَنْ إِحْدَاهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَبْيًا، فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ، وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ، لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ: تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلاةٍ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَكْبِيرَةً، وَثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَثَلاثًا وَثَلاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لاشَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ >.
قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۱۲، ۱۵۳۱۴)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۶) (ضعیف)
(اس حدیث کی البانی نے صحیحۃ ۲؍ ۱۸۸، اور صحیح ابی داود ۲۶۴۴، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا،ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲؍ ۴۲۴)
۲۹۸۷- فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام حکم یا ضبا عہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کاآپ ﷺ سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوادیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آکر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لئے اس سے بہتر ہے، ہر صلاۃ کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمد اللہ، اور ایک بار: '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ '' کہہ لیا کرو''۔
عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضبا عہ اور ام حکم رضی اللہ عنہما ) دونوں نبی اکرم ﷺ کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے،سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔


2988- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ -يَعْنِي الْجُرَيرِيَّ- عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه: أَلا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ وَكَانَتْ مِنْ أَحَبِّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: إِنَّهَا جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَ فِي نَحْرِهَا، وَكَنَسَتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ خَدَمٌ فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَرَجَعَتْ، فَأَتَاهَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: < مَا كَانَ حَاجَتُكِ؟ > فَسَكَتَتْ، فَقُلْتُ: أَنَا أُحَدِّثُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا، وَحَمَلَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا، فَلَمَّا أَنْ جَائَكَ الْخَدَمُ أَمَرْتُهَا أَنْ تَأْتِيَكَ فَتَسْتَخْدِمَكَ خَادِمًا يَقِيهَا حَرَّ مَا هِيَ فِيهِ، قَالَ: < اتَّقِي اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ، وَأَدِّي فَرِيضَةَ رَبِّكِ، وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ فَسَبِّحِي ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَاحْمَدِي ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلاثِينَ، فَتِلْكَ مِائَةٌ، فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ >، قَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَنْ رَسُولِهِ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود بہذا الیساق: (اتقي اللّٰہ یا فاطمۃ، وأدي فریضۃ ربک، واعملي عمل أہلک)، وأما البقیۃ من الحدیث فقد رواہ کل من :خ/فرض الخمس ۶ (۳۱۱۳)، فضائل الصحابۃ ۹ (۳۷۰۵)، النفقات ۶ (۵۳۶۱)، الدعوات ۱۱ (۶۳۱۸)، م/الذکر والدعاء ۱۹ (۲۷۲۷)، ت/الدعوات ۲۴ (۳۴۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۶)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۲) (ضعیف)
(مذکورہ جملے کے اضافہ کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس سے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں اور ابن اعبد مجہول ہیں، بقیہ حصہ توصحیحین میں ہے)
۲۹۸۸- ابن اعبُد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتائوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتایئے، آپ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے، اور پانی بھر بھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہوجاتے، نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لئے ایک خادمہ مانگ لیتی، چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ آپ سے گفتگو کررہے ہیں تو لوٹ آئیں، دوسرے دن آپ ﷺ خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا: ''تم کس ضرورت سے آئی تھیں؟''، وہ چپ رہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتا تا ہوں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان (گٹھا) پڑ گیا، مشک ڈھوتے ڈھوتے سینے میں درد رہنے لگا اب آپ کے پاس خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جائیں، اور آپ سے ایک خادم مانگ کر لائیں، جس کے ذریعہ اس شدت وتکلیف سے انہیں نجات ملے جس سے وہ دو چار ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: ''فاطمہ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو، اور اپنے گھر کے کام کیا کرو، اور جب سونے چلو تو (۳۳) بار سبحان اللہ، (۳۳) بار الحمد للہ، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، یہ کل سو ہوئے یہ تمہارے لئے خادمہ سے بہتر ہیں'' ۱؎ ۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے خوش ہوں۔
وضاحت ۱؎ : شاید اسی میں مصلحت رہی ہوکہ رسول اللہ ﷺ کی آل واولاد کو دنیا میں تکلیف وتنگ دستی رہے، تاکہ یہ چیز آخرت میں ان کے لئے بلندی درجات کا سبب بنے۔


2989- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَلَمْ يُخْدِمْهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
(علی بن حسین زیدالعابدین نے اپنے ناناعلی کو نہیں پایا ہے لیکن واقعہ صحیح ہے)
۲۹۸۹- علی بن حسین سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ'' آپ ﷺ نے انہیں خادم نہیں دیا''۔


2990- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ الْقُرَشِيُّ -قَالَ أَبُوجَعْفَرٍ -يَعْنِي ابْنَ عِيسَى-: كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الأَبْدَالَ مِنَ الْمَوَالِي- قَالَ: حَدَّثَنِي الدَّخِيلُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ نُوحِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ هِلالِ بْنِ سِرَاجِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ مُجَّاعَةَ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ يَطْلُبُ دِيَةَ أَخِيهِ -قَتَلَتْهُ بَنُو سَدُوسٍ مِنْ بَنِي ذُهْلٍ- فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < لَوْ كُنْتُ جَاعِلا لِمُشْرِكٍ دِيَةً جَعَلْتُ لأَخِيكَ، وَلَكِنْ سَأُعْطِيكَ مِنْهُ عُقْبَى >، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ بِمِائَةٍ مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ فَأَخَذَ طَائِفَةً مِنْهَا، وَأَسْلَمَتْ بَنُو ذُهْلٍ، فَطَلَبَهَا بَعْدُ مُجَّاعَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَأَتَاهُ بِكِتَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَكَتَبَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ بِاثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ صَاعٍ مِنْ صَدَقَةِ الْيَمَامَةِ: أَرْبَعَةِ آلافٍ بُرًّا، وَأَرْبَعَةِ آلافٍ شَعِيرًا، وَأَرْبَعَةِ آلافٍ تَمْرًا، وَكَانَ فِي كِتَابِ النَّبِيِّ ﷺ لِمُجَّاعَةَ: < بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيّ،ِ لِمُجَّاعَةَ بْنِ مَرَارَةَ مِنْ بَنِي سُلْمَى، إِنِّي أَعْطَيْتُهُ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ عُقْبَةً مِنْ أَخِيهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۲) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''دخیل'' مجہول الحال، اور''ہلال '' لین الحدیث ہیں)
۲۹۹۰- مجاّعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے بھائی کی دیت مانگنے آئے جسے بنو ذہل میں سے بنی سدوس نے قتل کر ڈالا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اگر میں کسی مشرک کی دیت دلاتا تو تمہارے بھائی کی دیت دلاتا، لیکن میں اس کا بدلہ تمہیں دلائے دیتا ہوں''، پھر نبی اکرم ﷺ نے بنو ذہل کے مشرکین سے پہلے پہل حاصل ہونے والے خمس میں سے سو اونٹ اسے دینے کے لئے لکھ دیا۔
مجاعہ رضی اللہ عنہ کو ان اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بنو ذہل کے مسلمان ہو جانے کے بعد ملے، اور مجاّعہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باقی اونٹوں کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ان کے خلیفہ ہونے کے بعد طلب کئے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی کتاب (تحریر) دکھائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجاعہ رضی اللہ عنہ کے یمامہ کے صدقے میں سے بارہ ہزار صاع دینے کے لئے لکھ دیا، چار ہزار صاع گیہوں کے، چار ہزار صاع جو کے اور چار ہزار صاع کھجور کے۔
رسول اللہ ﷺ نے مجاعہ کو جو کتاب (تحریر) لکھ کر دی تھی اس کا مضمون یہ تھا: ''شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے؛ یہ کتاب محمد نبی کی جانب سے مجاعہ بن مرارہ کے لئے ہے جو بنو سلمی میں سے ہیں، میں نے اسے بنی ذہل کے مشرکوں سے حاصل ہونے والے پہلے خمس میں سے سو اونٹ اس کے مقتول بھائی کے عوض میں دیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک کی کوئی دیت نہیں، البتہ جو مشرک ذمی ہو یعنی اسلامی حکومت کا باشندہ ہو، اور اس سے جزیہ لیا جاتا ہو تو اس کو اگر کوئی کافر مار ڈالے تو اس پر قصاص ہوگا، یا دیت ہوگی، اور جو مسلمان مار ڈالے تو دیت دینی ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي سَهْمِ الصَّفِيِّ
۲۱-باب: خمس سے پہلے صفی یعنی جس مال کو رسولﷺ اپنے لیے منتخب کر لیتے تھے کا بیان​


2991- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ ﷺ سَهْمٌ يُدْعَى الصَّفِيَّ، إِنْ شَاءَ عَبْدًا، وَإِنْ شَاءَ أَمَةً، وَإِنْ شَاءَ فَرَسًا، يَخْتَارُهُ قَبْلَ الْخُمُسِ۔
* تخريج: ن/الفيء ۱ (۴۱۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۶۸) (ضعیف الإسناد)
(عامر تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے)
۲۹۹۱- عامر شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک حصہ تھا، جس کو صفی کہا جاتا تھا آپ اگر کوئی غلام، لونڈی یا کوئی گھوڑا لینا چاہتے تو مال غنیمت میں سے خمس سے پہلے لے لیتے۔


2992- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَأَزْهَرُ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ سَهْمِ النَّبِيِّ ﷺ وَالصَّفِيِّ، قَالَ: كَانَ يُضْرَبُ لَهُ بِسَهْمٍ مَعَ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ لَمْ يَشْهَدْ، وَالصَّفِيُّ يُؤْخَذُ لَهُ رَأْسٌ مِنَ الْخُمُسِ قَبْلَ كُلِّ شَيْئٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹۵) (ضعیف الإسناد)
(یہ بھی مرسل ہے، محمد بن سیر ین تابعی ہیں )
۲۹۹۲- ابن عون کہتے ہیں: میں نے محمد( ابن سیرین) سے نبی اکرم ﷺ کے حصے اورصفی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کا بھی حصہ لگایا جا تا تھا اگر چہ آپ لڑائی میں شریک نہ ہو تے اور سب سے پہلے خمس میں سے ۱؎ صفی آپ کے لئے لیا جاتا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صفی خمس میں سے ہوتا تھا اور اس سے پہلے شعبی والی روایت دلالت کرتی ہے کہ صفی خمس سے پہلے پورے مال غنیمت میں سے ہوتا تھا دونوں میں تطبیق کے لئے تاویل یہ کی جاتی ہے کہ قبل الخمس سے مراد ’’قَبْلَ أَنْ يُقَسَّمَ الخُمُسَ‘‘ ہے یعنی صفی خمس میں سے ہوتا تھا لیکن خمس کی تقسیم سے پہلے اسے نکالا جاتاتھا۔


2993- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْوَاحِدِ- عَنْ سَعِيدٍ -يَعْنِي ابْنَ بَشِيرٍ- عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا غَزَا كَانَ لَهُ سَهْمٌ صَافٍ يَأْخُذُهُ مِنْ حَيْثُ شَائَهُ، فَكَانَتْ صَفِيَّةُ مِنْ ذَلِكَ السَّهْمِ، وَكَانَ إِذَا لَمْ يَغْزُ بِنَفْسِهِ ضُرِبَ لَهُ بِسَهْمِهِ وَلَمْ يُخَيَّرْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۱۴) (ضعیف الإسناد)
(قتادہ تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت بھی مرسل ہے)
۲۹۹۳- قتا دہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ جب خو دلڑائی میں شر یک ہو تے تو ایک حصہ چھانٹ کر جہاں سے چاہتے لے لیتے، ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا ( جو جنگ خیبر میں آپ ﷺ کو ملیں) اسی حصے میں سے آئیں اور جب آپ لڑائی میں شریک نہ ہوتے تو ایک حصہ آپ ﷺ کے لئے لگایا جا تا اور اس میں آپ کو انتخا ب کا اختیا ر نہ ہوتا کہ جو چاہیں چھانٹ کر لے لیں۔


2994- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَتْ صَفِيَّةُ مِنَ الصَّفِيِّ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۱۸) (صحیح)
۲۹۹۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: صفیہ رضی اللہ عنہا صفی میں سے تھیں ۔


2995- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَدِمْنَا خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ تَعَالَى الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا، وَكَانَتْ عَرُوسًا، فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِنَفْسِهِ، فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سُدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ فَبَنَى بِهَا۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۱ (۲۲۳۵)، الجہاد ۷۴ (۲۸۹۳)، المغازی ۳۹ (۴۲۱۱)، الأطعمۃ ۲۸ (۵۴۲۵)، الدعوات ۳۶ (۶۳۶۳)، وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷) (صحیح)
۲۹۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ہم خیبر آئے ( یعنی غزوہ کے موقع پر) تو جب اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ ﷺ سے ام المومنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے حسن و جمال کا ذکر کیا گیا، ان کا شو ہر مارا گیا تھا، وہ دلہن تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے لئے منتخب فرمالیا، پھرآپ ﷺ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم سدّ الصہباء ۱؎ پہنچے، وہاں وہ حلال ہوئیں (یعنی حیض سے فا رغ ہوئیں اور ان کی عدت پوری ہو گئی) تواس وقت آپ ﷺ نے ان کے ساتھ شبِ زفاف منائی۔
وضاحت ۱؎ : خیبر میں ایک مقام کا نام ہے ۔


2996- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: ق/ النکاح ۴۲ (۱۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۸۰) وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴) (صحیح)
۲۹۹۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا پہلے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آگئی تھیں پھر رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئیں۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺ نے ان کی جگہ دحیہ رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی دے دی، اور ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لئے منتخب کر لیا، صفیہ قریظہ اور نضیرکے سردار کی بیٹی تھیں، اس لئے ان کا ایک عام صحابی کے پاس رہنامناسب نہ تھا،کیونکہ اس سے دوسروں کو رشک ہوتا۔


2997- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: وَقَعَ فِي سَهْمِ دِحْيَةَ جَارِيَةٌ جَمِيلَةٌ فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَصْنَعُهَا وَتُهَيِّئُهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۷، ۳۹۰) (صحیح)
۲۹۹۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں ایک خو بصورت لونڈی آئی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سات غلام دے کر خر یدلیا اور انہیں ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ انہیں بنا سنوار دیں۔
حما د کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے ام المومنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ وہ وہاں عدت گزار کر پاک و صاف ہولیں۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۲۰۵۴) (صحیح)


2998- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ (ح) وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: جُمِعَ السَّبْيُ -يَعْنِي بِخَيْبَرَ- فَجَاءَ دِحْيَةُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، قَالَ: <اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً > فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ، قَالَ يَعْقُوبُ: صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ؟ [ثُمَّ اتَّفَقَا]: مَا تَصْلُحُ إِلا لَكَ: قَالَ: < ادْعُوهُ بِهَا > فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ ﷺ قَالَ لَهُ: < خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا > وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا۔
* تخريج: خ/ الصلاۃ ۱۲ (۳۷۱)، م/ النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، ن/ النکاح ۶۴ (۳۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰، ۱۰۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۱، ۱۸۶) (صحیح)
۲۹۹۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:خیبرمیں سب قیدی جمع کئے گئے تودحیہ کلبی رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول !ان قیدیوں میں سے مجھے ایک لونڈی عنایت فرما دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جائو ایک لونڈی لے لو‘‘، دحیہ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لے لیا، تو ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور بولا:اللہ کے رسول! آپ نے (صفیہ بنت حیی کو)دحیہ کو دے دیا، صفیہ بنت حیی قریظہ اور نضیر ( کے یہو دیوں ) کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لئے موزوں و مناسب ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دحیہ کو صفیہ سمیت بلا لائو‘‘، جب آپ ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو آپ نے دحیہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم کوئی اور لونڈی لے لو، پھر رسو ل اللہﷺ نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور ان سے نکا ح کر لیا۔


2999- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كُنَّا بِالْمِرْبَدِ، فَجَاءَ رَجُلٌ أَشْعَثُ الرَّأْسِ بِيَدِهِ قِطْعَةُ أَدِيمٍ أَحْمَرَ، فَقُلْنَا: كَأَنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: أَجَلْ، قُلْنَا: نَاوِلْنَا هَذِهِ الْقِطْعَةَ الأَدِيمَ الَّتِي فِي يَدِكَ، فَنَاوَلَنَاهَا فَقَرَأْنَاهَا فَإِذَا فِيهَا: < مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى بَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ، إِنَّكُمْ إِنْ شَهِدْتُمْ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَقَمْتُمُ الصَّلاةَ، وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ، وَأَدَّيْتُمُ الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، وَسَهْمَ النَّبِيِّ ﷺ الصَّفِيَّ أَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ > فَقُلْنَا: مَنْ كَتَبَ لَكَ هَذَا الْكِتَابَ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷۷، ۷۸، ۳۶۳) (صحیح الإسناد)
۲۹۹۹- یزید بن عبداللہ کہتے ہیں : ہم مربد (ایک گاؤں کا نام ہے ) میں تھے اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سرکے بال بکھرے ہوئے تھے اوراس کے ہاتھ میں سرخ چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے کہا : تم گویا کہ صحراء کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا : ہاں ہم نے کہا : چمڑے کا یہ ٹکڑا جو تمہارے ہاتھ میں ہے تم ہمیں دے دو، اس نے اس کو ہمیں دے دیا، ہم نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا:’’ یہ محمد ﷺ کی طرف سے زہیر بن اقیش کے لئے ہے ( انہیں معلوم ہو کہ) اگرتم اس بات کی گواہی دینے لگ جاؤگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد ﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اور صلاۃ قائم کرنے اور زکاۃ دینے لگوگے اور مال غنیمت میں سے(خمس جو اللہ ورسول کا حق ہے ) اور نبی اکرم ﷺ کے حصہ صفی کو ادا کروگے تو تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہوگی‘‘، تو ہم نے پوچھا: یہ تحریر تمہیں کس نے لکھ کردی ہے؟ تو اس نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
22- بَاب كَيْفَ كَانَ إِخْرَاجُ الْيَهُودِ مِنَ الْمَدِينَةِ
۲۲-باب: مدینہ سے یہو د کیسے نکا لے گئے​


3000- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَحَدَ الثَّلاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ ﷺ وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلاطٌ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الأَوْثَانَ وَالْيَهُودُ، وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ ﷺ وَأَصْحَابَهُ، فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ، فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنِ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} الآيَةَ، فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ ﷺ أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ، فَبَعَثَ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ، وَذَكَرَ قِصَّةَ قَتْلِهِ، فَلَمَّا قَتَلُوهُ فَزَعَتِ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ، فَغَدَوْا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالُوا: طُرِقَ صَاحِبُنَا فَقُتِلَ، فَذَكَرَ لَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ الَّذِي كَانَ يَقُولُ، وَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى أَنْ يَكْتُبَ بَيْنَهُ كِتَابًا يَنْتَهُونَ إِلَى مَا فِيهِ، فَكَتَبَ النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمُسْلِمِينَ عَامَّةً صَحِيفَةً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۵۲) (صحیح الإسناد)
۳۰۰۰- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور آپ ان تین لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر تو بہ قبول ہوئی ۱؎ ):کعب بن اشرف ( یہو دی ) رسول اللہﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا اور کفا ر قر یش کو آپ کے خلاف اکسایاکرتا تھا،نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اس وقت وہاں سب قسم کے لوگ ملے جلے تھے ان میں مسلمان بھی تھے، اور مشرکین بھی جو بتوں کو پو جتے تھے، اور یہو د بھی، وہ سب رسول اللہﷺ کو اور آپ کے صحابہ کو بہت ستاتے تھے تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو صبراور عفوو در گز ر کا حکم دیا، انہیں کی شان میں یہ آیت {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنِ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} ۲؎ اتری تو کعب بن اشرف جب نبی اکرم ﷺ کی ایذارسانی سے با ز نہیں آیا توآپ ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ چند آدمیوں کو بھیج کر اس کوقتل کر ا دیں تو آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا،پھر راوی نے اس کے قتل کا قصہ بیان کیا، جب ان لوگوں نے اسے قتل کردیا تو یہودی اور مشرکین سب خوف زدہ ہوگئے، اور دوسرے د ن صبح نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: رات میں ہمارا سردار مارا گیا، تو نبی کریم ﷺ نے ان سے وہ باتیں ذکرکیں جو وہ کہا کرتا تھا، آپ ﷺ نے انہیں ایک بات کی دعوت دی کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ لکھا جائے جس کی سبھی لوگ پا بندی کریں، پھر آپ ﷺ نے اپنے اور ان کے درمیان ایک عمو می صحیفہ ( تحر یری معاہدہ) لکھا ۔
وضاحت ۱؎ : سند میں’’ عبدالرحمن بن عبدالله بن كعب بن مالك، عن أبيه ‘‘ہے،اس عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ بن کعب بن مالک ان تین اشخاص میں سے ایک ہیں جن کی غزوۂ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی حالانکہ ایسانہیں ہے بلکہ وہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ کے بجائے ان کے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں اور باقی دو کے نام مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہما ہیں۔
وضاحت ۲؎ : ’’تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جو شرک کرتے ہیں سنو گے بہت سی مصیبت یعنی تم کو برا کہیں گے، تم کو ایذا پہنچائیں گے، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو بڑا کام ہے‘‘ (سورۃ آل عمران : ۱۸۶)


3001- حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الأَيَامِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ -يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ- قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قُرَيْشًا يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدِمَ الْمَدِينَةَ جَمَعَ الْيَهُودَ فِي سُوقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَقَالَ: < يَا مَعْشَرَ يَهُودَ! أَسْلِمُوا قَبْلَ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قُرَيْشًا >، قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ! لا يَغُرَّنَّكَ مِنْ نَفْسِكَ أَنَّكَ قَتَلْتَ نَفَرًا مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا أَغْمَارًا لا يَعْرِفُونَ الْقِتَالَ، إِنَّكَ لَوْ قَاتَلْتَنَا لَعَرَفْتَ أَنَّا نَحْنُ النَّاسُ، وَأَنَّكَ لَمْ تَلْقَ مِثْلَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ: {قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ} قَرَأَ مُصَرِّفٌ إِلَى قَوْلِهِ: {فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} بِبَدْرٍ {وَأُخْرَى كَافِرَةٌ}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۰۶) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ’’محمد بن ابی محمد‘‘مجہول ہیں)
۳۰۰۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے جنگ بدر میں قریش پرفتح حا صل کی اور مدینہ لوٹ کر آئے تو آپ ﷺ نے یہو دیوں کو بنی قینقاع کے بازار میں اکٹھا کیا، اور ان سے کہا :’’ اے یہودکی جماعت !تم مسلمان ہوجائو قبل اس کے کہ تمہا را حال بھی وہی ہو جو قریش کاہو ا‘‘، انہوں نے کہا: محمد ! تم اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تم نے قر یش کے کچھ نا تجربہ کا ر لوگوں کوجو جنگ سے واقف نہیں تھے قتل کر دیا ہے، اگر تم ہم سے لڑ تے تو تمہیں پتہ چلتاکہ مرد میدان ہم ہیں ابھی تمہا ری ہم جیسے جنگجو بہا در لوگوں سے مڈ بھیڑ نہیں ہوئی ہے، تب اللہ تعا لی نے یہ آیت اتاری {قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ} ۱؎حدیث کے راوی مصّرف نے اللہ تعالی کے فرمان:{فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ} تک تلاوت کی۔
وضاحت ۱؎ : ’’کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے‘‘ (سورۃ آل عمران : ۱۲)


3002- حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: حَدَّثَنِي مَوْلًى لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَتْنِي ابْنَةُ مُحَيْصَةَ، عَنْ أَبِيهَا مُحَيْصَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ ظَفِرْتُمْ بِهِ مِنْ رِجَالِ يَهُودَ فَاقْتُلُوهُ > فَوَثَبَ مُحَيْصَةُ عَلَى شَبِيبَةَ رَجُلٍ مِنْ تُجَّارِ يَهُودَ كَانَ يُلابِسُهُمْ، فَقَتَلَهُ، وَكَانَ حُوَيْصَةُ إِذْ ذَاكَ لَمْ يُسْلِمْ، وَكَانَ أَسَنَّ مِنْ مُحَيْصَةَ، فَلَمَّا قَتَلَهُ جَعَلَ حُوَيْصَةُ يَضْرِبُهُ وَيَقُولُ: يَا عَدُوَّ اللَّهِ، أَمَا وَاللَّهِ لَرُبَّ شَحْمٍ فِي بَطْنِكَ مِنْ مَالِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳۶، ۴۳۵) (ضعیف)
(اس کے دوراوی ’’مولی زیدبن ثابت‘‘ اور’’ابنت محیصہ‘‘ ضعیف ہیں)
۳۰۰۲- محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ یہو دیوں میں سے جس کسی مرد پربھی تم قابو پائو اسے قتل کر دو‘‘، تو محیصہ رضی اللہ عنہ نے یہود کے سو داگروں میں سے ایک سو دا گر کو جس کا نام شبیبہ تھا حملہ کر کے قتل کردیا، اور اس وقت تک حویصہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور وہ محیصہؓ سے بڑے تھے، تو جب محیصہؓ نے یہو دی تاجر کو قتل کر دیا تو حو یصہ محیصہؓ کو مارنے لگے اورکہنے لگے : اے اللہ کے دشمن !قسم اللہ کی تیرے پیٹ میں اس کے مال کی بڑ ی چر بی ہے۔


3003- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ > فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ: < يَا مَعْشَرَ يَهُودَ! أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا > فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ! فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا > فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَاالْقَاسِمِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < ذَلِكَ أُرِيدُ > ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ: < اعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ وَإِلا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ﷺ >۔
* تخريج: خ/الجزیۃ ۶ (۳۱۶۷)، والإکراہ ۲ (۶۹۴۴)، والاعتصام ۱۸ (۷۳۴۸)، م/الجھاد ۲۰ (۱۷۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۵۱) (صحیح)
۳۰۰۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم مسجد میں تھے کہ اچانک رسول اللہﷺ ہماری طرف تشریف لے آئے اور فرمانے لگے:’’یہود کی طرف چلو‘‘ ،تو ہم سب آپ کے ساتھ نکلے یہا ں تک کہ یہود کے پاس پہنچ گئے، پھررسول ﷺ کھڑے ہوئے اور انہیں پکا ر کر کہا: ’’اے یہودکی جماعت! اسلام لے آئو تو (دنیا و آخر ت کی بلائوں ومصیبتوں سے) محفوظ ہو جائو گے‘‘، تو انہوں نے کہا: اے ابو القاسم ! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پھر یہی فرمایا:’’ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا‘‘ انہوں نے پھر کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میرا یہی مقصد تھا‘‘، پھر تیسری بار بھی آپ ﷺ نے یہی فرمایا اور مزید یہ بھی کہا کہ: ’’جان لو! زمین اللہ کی، اور اس کے رسول کی ہے ( اگر تم ایمان نہ لائے ) تو میں تمہیں اس سر زمین سے جلا وطن کر دینے کا ارادہ کرتا ہوں، تو جو شخص اپنے مال کے لے جانے میں کچھ (دقت ودشواری) پائے (اور بیچنا چاہے) تو بیچ لے، ورنہ جان لو کہ( سب بحق سر کا ر ضبط ہو جائے گا کیونکہ)زمین اللہ کی اور اس کے رسول کی ہے ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
23- بَاب فِي خَبَرِ النَّضِيرِ
۲۳-باب: بنو نضیرسے جنگ کا بیان​


3004- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ كَتَبُوا إِلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مَعَهُ الأَوْثَانَ مِنَ الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ: إِنَّكُمْ آوَيْتُمْ صَاحِبَنَا، وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللَّهِ لَتُقَاتِلُنَّهُ أَوْ لَتُخْرِجُنَّهُ أَوْ لَنَسِيرَنَّ إِلَيْكُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّى نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَكُمْ وَنَسْتَبِيحَ نِسَائَكُمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ مِنْ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ اجْتَمَعُوا لِقِتَالِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ لَقِيَهُمْ فَقَالَ: < لَقَدْ بَلَغَ وَعِيدُ قُرَيْشٍ مِنْكُمُ الْمَبَالِغَ، مَا كَانَتْ تَكِيدُكُمْ بِأَكْثَرَ مِمَّا تُرِيدُونَ أَنْ تَكِيدُوا بِهِ أَنْفُسَكُمْ، تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا أَبْنَائَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ >، فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ تَفَرَّقُوا، فَبَلَغَ ذَلِكَ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَكَتَبَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِلَى الْيَهُودِ: إِنَّكُمْ أَهْلُ الْحَلْقَةِ وَالْحُصُونِ، وَإِنَّكُمْ لَتُقَاتِلُنَّ صَاحِبَنَا أَوْ لَنَفْعَلَنَّ كَذَا وَكَذَا، وَلا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَدَمِ نِسَائِكُمْ شَيْئٌ -وَهِيَ الْخَلاخِيلُ- فَلَمَّا بَلَغَ كِتَابُهُمُ النَّبِيَّ ﷺ أَجْمَعَتْ بَنُو النَّضِيرِ بِالْغَدْرِ: فَأَرْسَلُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: اخْرُجْ إِلَيْنَا فِي ثَلاثِينَ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِكَ، وَلْيَخْرُجْ مِنَّا ثَلاثُونَ حَبْرًا، حَتَّى نَلْتَقِيَ بِمَكَانِ الْمَنْصَفِ فَيَسْمَعُوا مِنْكَ، فَإِنْ صَدَّقُوكَ وَآمَنُوا بِكَ آمَنَّا بِكَ، [فَقَصَّ خَبَرَهُمْ] فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ غَدَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْكَتَائِبِ فَحَصَرَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ: < إِنَّكُمْ وَاللَّهِ لا تَأْمَنُونَ عِنْدِي إِلا بِعَهْدٍ تُعَاهِدُونِي عَلَيْهِ > فَأَبَوْا أَنْ يُعْطُوهُ عَهْدًا، فَقَاتَلَهُمْ يَوْمَهُمْ ذَلِكَ، ثُمَّ غَدَا الْغَدُ عَلَى بَنِي قُرَيْظَةَ بِالْكَتَائِبِ، وَتَرَكَ بَنِي النَّضِيرِ، وَدَعَاهُمْ إِلَى أَنْ يُعَاهِدُوهُ، فَعَاهَدُوهُ: فَانْصَرَفَ عَنْهُمْ، وَغَدَا عَلَى بَنِي النَّضِيرِ بِالْكَتَائِبِ، فَقَاتَلَهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى الْجَلاءِ، فَجَلَتْ بَنُو النَّضِيرِ وَاحْتَمَلُوا مَا أَقَلَّتِ الإِبِلُ مِنْ أَمْتِعَتِهِمْ وَأَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ وَخَشَبِهَا، فَكَانَ نَخْلُ بَنِي النَّضِيرِ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَاصَّةً، أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا وَخَصَّهُ بِهَا، فَقَالَ: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} يَقُولُ: بِغَيْرِ قِتَالٍ، فَأَعْطَى النَّبِيُّ ﷺ أَكْثَرَهَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَقَسَمَهَا بَيْنَهُمْ، وَقَسَمَ مِنْهَا لِرَجُلَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ، وَكَانَا ذَوِي حَاجَةٍ، لَمْ يَقْسِمْ لأَحَدٍ مِنَ الأَنْصَارِ غَيْرِهِمَا، وَبَقِيَ مِنْهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الَّتِي فِي أَيْدِي بَنِي فَاطِمَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۲۲) (صحیح الإسناد)
۳۰۰۴- عبدالرحمن بن کعب بن مالک ایک صحابی رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ کفار قریش نے اس وقت جب کہ رسول اللہﷺ مدینہ آگئے تھے اور جنگ بد ر پیش نہ آئی تھی عبداللہ بن ابی اور اس کے او س و خزر ج کے بت پر ست ساتھیوں کو لکھا کہ تم نے ہمارے سا تھی ( رسول اللہﷺ ) کو اپنے یہاں پنا ہ دی ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم اس سے لڑبھڑ (کر اسے قتل کر دو) یا اسے وہاں سے نکال دو، نہیں تو ہم سب مل کر تمہارے اوپر حملہ کردیں گے، تمہارے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کر دیں گے اور تمہا ری عورتوں کو اپنے لئے مبا ح کر لیں گے۔
جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پر ست سا تھیوں کو پہنچا تو وہ سب رسول اللہﷺ سے لڑ نے کے لئے جمع ہوئے، جب یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ جا کر ان سے ملے اور انہیں سمجھا یا کہ قریش کی دھمکی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی دھمکی ہے، قریش تمہیں اتنا ضرر نہیں پہنچا سکتے جتنا تم خو د اپنے تئیں ضرر پہنچا سکتے ہو، کیونکہ تم ا پنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں سے لڑنا چاہتے ہو، جب ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے یہ سنا تو وہ آپس میں ایک رائے نہیں رہے، بٹ گئے، ( جنگ کا ارادہ سب کا نہیں رہا )تو یہ بات کفا رقر یش کوپہنچی تو انہوں نے وا قعہ بد ر کے بعد پھر اہل یہود کو خط لکھا کہ تم لوگ ہتھیا ر او ر قلعہ والے ہو تم ہمارے ساتھی ( محمد ﷺ ) سے لڑ و نہیں تو ہم تمہا ری ایسی تیسی کر دیں گے ( یعنی قتل کریں گے)اورہمارے درمیان اور تمہا ی عورتوں کی پنڈلیوں و پا زیبوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو گی، جب ان کا خط رسول اللہﷺ کے ہا تھ لگا،تو بنو نضیر نے فریب دہی و عہدشکنی کا پلان بنا لیا اور رسول اللہﷺ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے اصحا ب میں سے تیس آدمی لے کر ہماری طرف نکلئے، اور ہمارے بھی تیس عالم نکل کر آپ سے ایک درمیانی مقام میں رہیں گے، وہ آپ کی گفتگو سنیں گے اگر آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے، آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے ان کی یہ سب باتیں بیان کر دیں، دوسرے دن رسول اللہﷺ اپنا لشکر لے کر ان کی طرف گئے اور ان کا محا صر ہ کر لیا، آپ ﷺ نے ان سے کہا:’’اللہ کی قسم ہمیں تم پراس وقت تک اطمینان نہ ہو گا جب تک کہ تم ہم سے معاہدہ نہ کر لو گے‘‘، تو انہوں نے عہد دینے سے انکار کیا ( کیونکہ ان کا ارا دہ دھو کہ دینے کا تھا )،آپ ﷺ نے ان سے اس دن جنگ کی، پھر دوسرے دن آپ نے اپنے لشکر کو لے کر قریظہ کے یہودیوں پر چڑھائی کر دی اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا اور ان سے کہا: ’’تم ہم سے معاہدہ کر لو‘‘، انہوں نے معاہدہ کر لیا کہ ( ہم آپ سے نہ لڑیں گے اور نہ آپ کے دشمن کی مد د کر یں گے) آپ ﷺ بنو قریظہ سے معاہدہ کر کے واپس آگئے، دوسرے دن پھر آپ ﷺ فو جی دستے لے کر بنونضیر کی طرف بڑھے اور ان سے جنگ کی یہاں تک کہ وہ جلا و طن ہوجانے پر راضی ہو گئے تو وہ جلا وطن کر دئے گئے، اور ان کے اونٹ ان کا جتنا مال و اسبا ب گھروں کے در وازے اور کاٹ کبا ڑ لاد کر لے جاسکے وہ سب لا د کر لے گئے، ان کے کھجو روں کے با غ رسول اللہﷺ کے لئے خاص ہو گئے، اللہ نے انہیں آپ کو عطا کردیا، اور آپ کے لئے خا ص کر دیا،اورارشادفرمایا : { وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ} ۱؎ ۔
راوی کہتے ہیں : {فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ}کے معنی ہیں جو آپ کو بغیر لڑائی کے حاصل ہوا ہے، نبی اکرم ﷺ نے اس کا زیادہ تر حصہ مہاجرین کو دیا اور انہیں کے درمیان تقسیم فرمایا اور اس میں سے آپ نے دو ضرورت مند انصاریوں کوبھی دیا، ان دو کے علاوہ کسی دوسرے انصا ری کو نہیں دیا،اور جس قدر با قی رہا وہ رسول اللہﷺ کا صدقہ تھا جو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے ہا تھ میں رہا۔
وضاحت ۱؎ : ’’ اللہ تعا لی نے اپنے رسول کو کا فروں کے مال میں سے جو کچھ عطا کیا ہے وہ تمہارے اونٹ اور گھو ڑے دو ڑانے یعنی جنگ کرنے کے نتیجہ میں نہیں دیا ہے‘‘ (سورۃ الحشر : ۶)


3005- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ يَهُودَ النَّضِيرِ وَقُرَيْظَةَ حَارَبُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَجْلَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَنِي النَّضِيرِ، وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ وَقَسَمَ نِسَائَهُمْ وَأَوْلادَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلا بَعْضَهُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَمَّنَهُمْ وَأَسْلَمُوا، وَأَجْلَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَهُودَ الْمَدِينَةِ كُلَّهُمْ: بَنِي قَيْنُقَاعَ، وَهُمْ قَوْمُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ: وَكُلَّ يَهُودِيٍّ كَانَ بِالْمَدِينَةِ۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۴ (۴۰۲۸)، م/الجھاد ۲۰ (۱۷۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۹) (صحیح)
۳۰۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنونضیر اور بنوقریظہ کے یہو دیوں نے رسول اللہ ﷺ سے جنگ کی آپ نے بنونضیر کو جلا وطن کر دیا، اور بنو قریظہ کو رہنے دیا اور ان پر احسان فرمایا ( اس لئے کہ انہوں نے آپ ﷺ سے معاہدہ کر لیا تھا) یہاں تک کہ قریظہ اس کے بعدلڑے ۱؎ توان کے مرد مارے گئے، ان کی عورتیں، ان کی اولاد، اور ان کے مال مسلمانوں میں تقسیم کر دئے گئے، ان میں کچھ ہی لو گ تھے جو رسول اللہﷺ سے آکر ملے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں امان دی، وہ مسلمان ہوگئے، باقی مدینہ کے سارے یہو دیوں کو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے نکال بھگا یا، بنوقینقاع کے یہو دیوں کو بھی جو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی قوم سے تھے اور بنو حا رثہ کے یہودیوں کوبھی اور جو کوئی بھی یہودی تھاسب کو مد ینہ سے نکال با ہر کیا ۔
وضاحت ۱؎ : جنگ خندق کے موقع پرانہوں نے بد عہدی کی اور در پردہ قریش کی اعانت کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي حُكْمِ أَرْضِ خَيْبَرَ
۲۴-باب: خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان​


3006- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: أَحْسَبُهُ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَاتَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ، فَغَلَبَ عَلَى النَّخْلِ وَالأَرْضِ، وَأَلْجَأَهُمْ إِلَى قَصْرِهِمْ، فَصَالَحُوهُ عَلَى أَنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ الصَّفْرَاءَ وَالْبَيْضَاءَ وَالْحَلْقَةَ، وَلَهُمْ مَا حَمَلَتْ رِكَابُهُمْ عَلَى أَنْ لا يَكْتُمُوا، وَلايُغَيِّبُوا شَيْئًا، فَإِنْ فَعَلُوا فَلا ذِمَّةَ لَهُمْ وَلا عَهْدَ، فَغَيَّبُوا مَسْكًا لِحُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ، وَقَدْ كَانَ قُتِلَ قَبْلَ خَيْبَرَ، كَانَ وَاحْتَمَلَهُ مَعَهُ يَوْمَ بَنِي النَّضِيرِ حِينَ أُجْلِيَتِ النَّضِيرُ فِيهِ حُلِيُّهُمْ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِسَعْيَةَ: < أَيْنَ مَسْكُ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ؟ > قَالَ: أَذْهَبَتْهُ الْحُرُوبُ وَالنَّفَقَاتُ، فَوَجَدُوا الْمَسْكَ، فَقَتَلَ ابْنَ أَبِي الْحُقَيْقِ وَسَبَى نِسَائَهُمْ وَذَرَارِيَّهُمْ وَأَرَادَ أَنْ يُجْلِيَهُمْ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ! دَعْنَا نَعْمَلْ فِي هَذِهِ الأَرْضِ وَلَنَا الشَّطْرُ مَا بَدَا لَكَ وَلَكُمُ الشَّطْرُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُعْطِي كُلَّ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ ثَمَانِينَ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ وَعِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ شَعِيرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۷۷) (حسن الإسناد)
۳۰۰۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اہل خیبر سے جنگ کی،ان کی زمیں، اور ان کے کھجورکے باغات قابض ہو گئے اور انہیں اپنے قلعہ میں محصور ہو جانے پر مجبو ر کر دیا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس شر ط پر صلح کرلی کہ سونا چاندی اور ہتھیا ر جو کچھ بھی ہیں وہ سب رسول اللہ ﷺ کے لئے ہوں گے اور ان کے لئے صرف وہی کچھ ( مال واسباب) ہے جنہیں ان کے اونٹ اپنے ساتھ اٹھا کر لے جا سکیں، انہیں اس کا حق و اختیا ر نہ ہو گا کہ وہ کوئی چیز چھپائیں یا غائب کریں، اگر انہوں نے ایسا کیا تو مسلمانوں پر ان کی حفا ظت اور معا ہدے کی پاس داری کی کوئی ذمہ داری نہ رہے گی تو انہوں نے حیی بن اخطب کے چمڑے کی ایک تھیلی غائب کر دی، حیی بن اخطب خیبر سے پہلے قتل کیا گیا تھا، اور وہ جس دن بنو نضیر جلا وطن کئے گئے تھے اسے اپنے ساتھ اٹھا لایا تھا اس میں ان کے زیورات تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے سعیہ ( یہو دی ) سے پوچھا : ''حیی بن اخطب کی تھیلی کہاں ہے؟''، اس نے کہا: لڑائیوں میں کام آگئی اور مصارف میں خرچ ہو گئی پھر صحابہ کو وہ تھیلی مل گئی تو آپ ﷺ نے ابن ابی حقیق کو قتل کر دیا، ان کی عو رتوں کو قید ی بنا لیا، اور ان کی اولاد کو غلام بنا لیا، ان کو جلا وطن کر دینے کا ارا دہ کر لیا، تو وہ کہنے لگے: محمد ! ہمیں یہیں رہنے دیجئے، ہم اس زمین میں کا م کریں گے ( جو تیں بو ئیں گے ) اور جو پیدا وا ر ہو گی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا آپ کو دیں گے، رسول اللہ ﷺ (اس پیداوار سے) اپنی ہر ہر بیو ی کو (سال بھر میں)( ۸۰،۸۰) وسق کھجو ر کے اور (۲۰،۲۰ ) وسق جو کے دیتے تھے ۔


3007- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا فَمَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ فَلْيَلْحَقْ بِهِ فَإِنِّي مُخْرِجٌ يَهُودَ فَأَخْرَجَهُمْ۔
* تخريج: خ/ الشروط ۱۴ (۲۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۵۴) (حسن صحیح)
۳۰۰۷- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے یہ معاملہ کیا تھا کہ ہم جب چاہیں گے انہیں یہاں سے جلا وطن کر دیں گے،تو جس کا کوئی مال ان یہودیوں کے پاس ہو وہ اسے لے لے، کیونکہ میں یہودیوں کو ( اس سر زمین سے) نکال دینے والا ہوں، پھر آپ ﷺ نے انہیں نکال دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہودیوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں نکال رہے ہیں، حالانکہ آپ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہاں رکھا تھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا کہ ہمارے رسول ﷺ نے کہا ہے کہ جزیرئہ عرب میں دو دین نہ رہیں، اسی وجہ سے میں تمہیں نکال رہا ہوں۔


3008- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا افْتُتِحَتْ خَيْبَرُ سَأَلَتْ يَهُودُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُقِرَّهُمْ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا عَلَى النِّصْفِ مِمَّا خَرَجَ مِنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: <أُقِرُّكُمْ فِيهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا > فَكَانُوا عَلَى ذَلِكَ، وَكَانَ التَّمْرُ يُقْسَمُ عَلَى السُّهْمَانِ مِنْ نِصْفِ خَيْبَرَ وَيَأْخُذُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْخُمُسَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَطْعَمَ كُلَّ امْرَأَةٍ مِنْ أَزْوَاجِهِ مِنَ الْخُمُسِ مِائَةَ وَسْقٍ تَمْرًا وَعِشْرِينَ وَسْقًا شَعِيرًا، فَلَمَّا أَرَادَ عُمَرُ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ أَرْسَلَ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُنَّ: مَنْ أَحَبَّ مِنْكُنَّ أَنْ أَقْسِمَ لَهَا نَخْلا بِخَرْصِهَا مِائَةَ وَسْقٍ فَيَكُونَ لَهَا أَصْلُهَا وَأَرْضُهَا وَمَاؤُهَا وَمِنَ الزَّرْعِ مَزْرَعَةَ خَرْصٍ عِشْرِينَ وَسْقًا فَعَلْنَا، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ نَعْزِلَ الَّذِي لَهَا فِي الْخُمُسِ كَمَا هُوَ فَعَلْنَا۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۱ (۱۵۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۷۲)، وقد أخرجہ: خ/الحرث ۸ (۲۳۲۸)، ت/الأحکام ۴۱ (۱۳۸۳)، ق/الرھون ۱۴ (۲۴۶۷)، حم (۲/۱۷، ۲۲، ۳۷) (صحیح)
۳۰۰۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہو ا تو یہو دیوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخوا ست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیدا وار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اچھاہم تمہیں اس شر ط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چا ہیں گے رکھیں گے'' چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ ﷺ اس میں سے پانچو اں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سووسق کھجو ر اور بیس وسق جو ( سال بھر میں ) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہود کو نکال دینے کا ارادہ کر لیا تو امہا ت المو منین کو کہلا بھیجا کہ آپ میں سے جس کا جی چاہے کہ میں اس کو اتنے درخت دے دوں جن میں سے سو وسق کھجو ر نکلیں مع جڑ کھجو ر اور پانی کے اور اسی طرح کھیتی میں سے اس قدر زمین دے دوں جس میں بیس وسق جو پیدا ہو، تو میں دے دوں اور جو پسند کرے کہ میں خمس میں سے اس کا حصہ نکالا کروں جیسا کہ ہے تو میں ویسا ہی نکالا کروں گا۔


3009- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ (ح) وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ [بْنِ مَالِكٍ] أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ غَزَا خَيْبَرَ فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجُمِعَ السَّبْيُ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۲ (۳۷۱)، م/الجھاد ۴۳ (۱۳۶۵)، ن/النکاح ۶۴ (۳۳۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۹) (صحیح)
۳۰۰۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل خیبر سے جہادکیا، ہم نے اسے لڑکر حاصل کیا، پھر قید ی اکٹھا کئے گئے ( تا کہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے)۔


3010- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَيْبَرَ نِصْفَيْنِ: نِصْفًا لِنَوَائِبِهِ وَحَاجَتِهِ، وَنِصْفًا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، قَسَمَهَا بَيْنَهُمْ عَلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲) (حسن صحیح)
۳۰۱۰- سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو دو برا برحصو ں میں تقسیم کیا: ایک حصہ تو اپنی حوائج و ضر وریات کے لئے رکھا اور ایک حصہ کے اٹھا رہ حصے کر کے مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔


3011- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الأَسْوَدِ أَنَّ يَحْيَى بْنَ آدَمَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي شِهَابٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالُوا: فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: فَكَانَ النِّصْفُ سِهَامَ الْمُسْلِمِينَ وَسَهْمَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَعَزَلَ النِّصْفَ لِلْمُسْلِمِينَ لِمَا يَنُوبُهُ مِنَ الأُمُورِ وَالنَّوَائِبِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶) (صحیح الإسناد)
۳۰۱۱- بشیر بن یسا ر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں سے سنا، انہوں نے کہا، پھر راوی نے یہی حدیث ذکر کی اور کہا کہ نصف میں سب مسلمانوں کے حصے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا بھی حصہ تھا اور باقی نصف مسلمانوں کی ضروریا ت اور مصائب و مشکلا ت کے لئے رکھا جا تا تھا جو انہیں پیش آتے۔


3012- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الأَنْصَارِ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَيْبَرَ قَسَمَهَا عَلَى سِتَّةٍ وَثَلاثِينَ سَهْمًا، جَمَعَ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ سَهْمٍ، فَكَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَلِلْمُسْلِمِينَ النِّصْفُ مِنْ ذَلِكَ، وَعَزَلَ النِّصْفَ الْبَاقِيَ لِمَنْ نَزَلَ بِهِ مِنَ الْوُفُودِ وَالأُمُورِ وَنَوَائِبِ النَّاسِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶) (صحیح الإسناد)
۳۰۱۲- بشیر بن یسا ر جو انصا ر کے غلام تھے بعض اصحاب رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب خیبر پر غالب آئے تو آپ نے اسے چھتیس حصو ں میں تقسیم فرمایا، ہر ایک حصے میں سوحصے تھے تو اس میں سے نصف رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لئے ہوا اور با قی نصف آنے والے وفو د اور دیگر کا موں اور اچانک مسلمانوں کو پیش آنے والے حادثات ومصیبتوں میں خرچ کرنے کے لئے الگ کر کے رکھ دیا۔


3013- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ -يَعْنِي سُلَيْمَانَ- عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ ﷺ خَيْبَرَ قَسَمَهَا عَلَى سِتَّةٍ وَثَلاثِينَ سَهْمًا جَمَعَ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ سَهْمٍ، فَعَزَلَ نِصْفَهَا لِنَوَائِبِهِ وَمَا يَنْزِلُ بِهِ الْوَطِيحَةَ وَالْكُتَيْبَةَ وَمَا أُحِيزَ مَعَهُمَا، وَعَزَلَ النِّصْفَ الآخَرَ فَقَسَمَهُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ الشِّقَّ وَالنَّطَاةَ وَمَا أُحِيزَ مَعَهُمَا، وَكَانَ سَهْمُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيمَا أُحِيزَ مَعَهُمَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶) (صحیح)
(یہ روایت گرچہ مرسل ہے پچھلی سے تقویت پا کر صحیح ہے، أغلب یہی ہے کہ وہی صحابی یہاں بھی واسطہ ہیں)
۳۰۱۳- بشیر بن یسا ر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب اللہ تعا لی نے خیبر اپنے نبی اکرم ﷺ کو بطور غنیمت عطا فرمایا تو آپ نے اس کے (۳۶ چھتیس ) حصے کئے اور ہر حصے میں سو حصے رکھے، تو اس کے نصف حصے اپنی ضر ورتوں و کا موں کے لئے رکھا اور اسی میں سے و طیحہ و کتیبہ ۱؎ اور ان سے متعلق جائدادبھی ہے اور دوسرے نصف حصے کو جس میں شق و نطاۃ ۲؎ ہیں اور ان سے متعلق جائیداد بھی شامل تھی الگ کر کے مسلمانوں خیں تقسیم کردیا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ ان دونو ں گائوں کے متعلقات میں تھا۔
وضاحت ۱؎ : یہ دونوں گاؤوں کے نام ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ بھی دو گاؤں کے نام ہیں۔


3014- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ قَسَمَهَا سِتَّةً وَثَلاثِينَ سَهْمًا جَمْعُ، فَعَزَلَ لِلْمُسْلِمِينَ الشَّطْرَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا يَجْمَعُ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةً النَّبِيُّ ﷺ مَعَهُمْ، لَهُ سَهْمٌ كَسَهْمِ أَحَدِهِمْ، وَعَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا -وَهُوَ الشَّطْرُ- لِنَوَائِبِهِ وَمَا يَنْزِلُ بِهِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، فَكَانَ ذَلِكَ الْوَطِيحَ وَالْكُتَيْبَةَ وَالسَّلالِمَ وَتَوَابِعَهَا، فَلَمَّا صَارَتِ الأَمْوَالُ بِيَدِ النَّبِيِّ ﷺ وَالْمُسْلِمِينَ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ عُمَّالٌ يَكْفُونَهُمْ عَمَلَهَا، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْيَهُودَ فَعَامَلَهُمْ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶) (صحیح)
(یہ روایت بھی سابقہ روایت سے تقویت پا کر صحیح ہے)
۳۰۱۴- بشیر بن یسا ر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کوجب اللہ نے خیبرکا مال عطا کیا تو آپ نے اس کے کل چھتیس حصے کئے، پھر آپ ﷺ نے آدھے یعنی اٹھا رہ حصے مسلمانوں کے لئے الگ کر دئیے، ہر حصے میں سو حصے تھے نبی اکرم ﷺ بھی انہیں کے ساتھ تھے آپ کا بھی ویسے ہی ایک حصہ تھا جیسے ان میں سے کسی دوسرے شخص کا تھا، اور رسول اللہ ﷺ نے اٹھا رہ حصے (یعنی نصف آخر) اپنی ضر وریات اور مسلمانوں کے امو ر کے لئے الگ کر دیے، اسی نصف میں وطیح، کتیبہ اور سلالم (دیہا ت کے نام ہیں) اور ان کے متعلقات تھے، جب یہ سب اموال رسول اللہ ﷺ کے قبضے میں آئے تومسلمانوں کے پاس ان کی دیکھ بھا ل اور ان میں کا م کرنے والے نہیں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے یہود کو بلا کران سے ( بٹائی پر )معاملہ کرلیا۔


3015- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَمِّعِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَعْقُوبَ بْنَ مُجَمِّعٍ يَذْكُرُ [لِي]، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَمِّهِ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيِّ -وَكَانَ أَحَدَ الْقُرَّاءِ الَّذِينَ قَرَئُوا الْقُرْآنَ- قَالَ: قُسِمَتْ خَيْبَرُ عَلَى أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ، فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا، وَكَانَ الْجَيْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ فِيهِمْ ثَلاثُ مِائَةِ فَارِسٍ، فَأَعْطَى الْفَارِسَ سَهْمَيْنِ، وَأَعْطَى الرَّاجِلَ سَهْمًا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم : (۲۷۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۴) (حسن)
۳۰۱۵- مجمع بن جا ریہ انصا ری (جو قر آن کے قا ریوں میں سے ایک تھے) کہتے ہیں کہ خیبر ان لوگوں پر تقسیم کیا گیا جو صلح حدیبیہ میں شریک تھے ۱؎ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو اٹھا رہ حصو ں میں تقسیم کیا، لشکر کی تعدا د ایک ہز ار پانچ سو تھی، ان میں تین سو سوا ر تھے تو رسول اللہ ﷺ نے سواروں کو دودو حصے دئے اور پیا دوں کو ایک ایک حصہ دیا ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ یہی لوگ مکہ سے آکر خیبر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔


3016- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْعَجْلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ آدَمَ- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، وَبَعْضِ وَلَدِ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، قَالُوا: بَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ تَحَصَّنُوا، فَسَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَحْقِنَ دِمَائَهُمْ وَيُسَيِّرَهُمْ، فَفَعَلَ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ أَهْلُ فَدَكَ، فَنَزَلُوا عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَاصَّةً؛ لأَنَّهُ لَمْ يُوجَفْ عَلَيْهَا بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۸۶) (ضعیف الإسناد)
(یہ روایت مرسل ہے جیساکہ سند سے ظاہر ہے )
۳۰۱۶- ابن شہاب زہری، عبداللہ بن ابوبکر اور محمد بن مسلمہ کے بعض لڑکوں سے روایت ہے یہ لوگ کہتے ہیں (جب خیبر فتح ہوگیا) خیبر کے کچھ لو گ رہ گئے وہ قلعہ بند ہو گئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے در خوا ست کی کہ ان کا خون نہ بہا یا جائے اور انہیں یہاں سے نکل کر چلے جانے دیا جائے، آپ نے ان کی در خواست قبول کر لی) یہ خبر فدک والوں نے بھی سنی، تو وہاں کے لوگ بھی اس جیسی شرط پراترے تو فدک ( اللہ کی جانب سے،رسول اللہ ﷺ کے لئے خا ص ( عطیہ ) قرار پا یا، اس لئے کہ اس پر اونٹ اور گھوڑے نہیں دو ڑائے گئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوا جنگ سے حاصل ہوتا تو اس میں مسلمانوں کا بھی حق ہوتا۔


3017- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ افْتَتَحَ بَعْضَ خَيْبَرَ عَنْوَةً.
قَالَ أَبو دَاود: [وَ] قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ، وَأَنَا شَاهِدٌ: أَخْبَرَكُمُ ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ خَيْبَرَ كَانَ بَعْضُهَا عَنْوَةً، وَبَعْضُهَا صُلْحًا، وَالْكَتِيبَةُ أَكْثَرُهَا عَنْوَةً، وَفِيهَا صُلْحٌ . قُلْتُ لِمَالِكٍ: وَمَا الْكُتيبَةُ؟ قَالَ: أَرْضُ خَيْبَرَ، وَهِيَ أَرْبَعُونَ أَلْفَ عَذْقٍ۔
قال أبو داود: العَذْقُ: النخلة، والعِذْق: العُرجون.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۳۲، ۱۹۳۶۷) (ضعیف)
(یہ روایت بھی مرسل ہے)
۳۰۱۷- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا کچھ حصہ طاقت سے فتح کیا۔
ابو داود کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ آپ لوگوں کو ابن وہب نے خبردی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا ہے وہ ابن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں کہ '' خیبر کا بعض حصہ زور وطاقت سے حاصل ہوا ہے، اور بعض صلح کے ذریعہ اور کتیبہ (جو خیبر کا ایک گائوں ہے) کا زیادہ حصہ زور وطاقت سے فتح ہوا اور کچھ صلح کے ذریعہ ''۔
ابن وہب کہتے ہیں: میں نے مالک سے پوچھا کہ کتیبہ کیا ہے؟ بولے: خیبر کی زمین کا ایک حصہ ہے، اور وہ چالیس ہزار کھجور کے درختوں پر مشتمل تھا ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: ''عَذْق'' کھجور کے درخت کو کہتے ہیں، اور ''عِذْق'' کھجور کے گچھے کی جڑ جو ٹیڑھی ہوتی ہے، اور گچھے کو کاٹنے پر درخت پر خشک ہوکر باقی رہ جاتی ہے اس کو کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : خیبر کے زیادہ تر درخت کھجور ہی کے تھے اور کچھ زراعت (کھیتی باڑی) بھی ہوتی تھی ۔


3018- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ [بْنُ يَزِيدَ]، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ افْتَتَحَ خَيْبَرَ عَنْوَةً بَعْدَ الْقِتَالِ، وَنَزَلَ مَنْ نَزَلَ مِنْ أَهْلِهَا عَلَى الْجَلاءِ بَعْدَ الْقِتَالِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۰۲) (ضعیف)
(اس سند میں انقطاع ہے، زہری اور نبی کریم ﷺ کے درمیان واسطے کا پتہ نہیں ہے مگر بات یہی صحیح ہے کہ خبیربزورطاقت (جنگ سے) فتح کیا گیا تھا جیساکہ صحیح اور متصل مرفوع روایات میں وارد ہے)
۳۰۱۸- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو طاقت کے ذریعہ لڑ کر فتح کیا اور خیبر کے جو لوگ قلعہ سے نکل کر جلا وطن ہوئے وہ بھی جنگ کے بعد ہی جلا وطنی کی شرط پر قلعہ سے باہر نکلے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پھر انہوں نے منت سماجت کی اور کہنے لگے کہ ہمیں یہاں رہنے دو، ہم زراعت(کھیتی باڑی) کریں گے، اور نصف پیداوار آپ کو دیں گے، تو آپ ﷺ نے انھیں رکھ لیا، اس شرط کے ساتھ کہ جب ہم چاہیں گے، نکال دیں گے۔


3019- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: خَمَّسَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَيْبَرَ، ثُمَّ قَسَمَ سَائِرَهَا عَلَى مَنْ شَهِدَهَا وَمَنْ غَابَ عَنْهَا مِنْ أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۰۱) (حسن)
(یہ روایت بھی مرسل ہے مگر واقعہ شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۳۵۸)
۳۰۱۹- ابن شہاب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے مال میں سے ( جو غنیمت میں آیا ) خمس (پانچواں حصہ) نکال لیا اور جو با قی بچ رہا اسے ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جو جنگ میں مو جو د تھے اور جو موجودنہیں تھے لیکن صلح حدیبیہ میںحاضر تھے ۔


3020- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: لَوْلا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فُتِحَتْ قَرْيَةٌ إِلا قَسَمْتُهَا كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَيْبَرَ۔
* تخريج: خ/الحرث ۱۴ (۲۳۳۴)، فرض الخمس ۱۴ (۳۱۲۵)، المغازي ۳۸ (۴۲۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱، ۳۲) (صحیح)
۳۰۲۰- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا ( یعنی ان کی محتاجی کا ) خیال نہ ہوتا توجو بھی گائوں و شہر فتح کیا جاتااسے میں اسی طرح تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو تقسیم کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِي خَبَرِ مَكَّةَ
۲۵-باب: فتحِ مکہ کا بیان​


3021- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ جَائَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ بِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ، فَأَسْلَمَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرِ، فَلَوْ جَعَلْتَ لَهُ شَيْئًا، قَالَ: < نَعَمْ، مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ، فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ [عَلَيْهِ] بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۵۴) (حسن)
۳۰۲۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ۱؎عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ابو سفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے وہ مر الظہران ۲؎میں مسلمان ہوگئے، اس وقت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابو سفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود ونمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لئے کوئی چیز کردیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا)، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کردیتا ہوں) جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ بھی مامون ہے‘‘ (ہم اسے نہیں ماریں گے)۔
وضاحت ۱؎ : مکہ ۸ ھ؁میں فتح ہوا۔
وضاحت ۲؎ : مکہ کے قریب ایک مقام کانام ہے۔


3022- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَرَّ الظَّهْرَانِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ عَنْوَةً قَبْلَ أَنْ يَأْتُوهُ فَيَسْتَأْمِنُوهُ إِنَّهُ لَهَلاكُ قُرَيْشٍ، فَجَلَسْتُ عَلَى بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: لَعَلِّي أَجِدُ ذَا حَاجَةٍ يَأْتِي أَهْلَ مَكَّةَ، فَيُخْبِرُهُمْ بِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لِيَخْرُجُوا إِلَيْهِ فَيَسْتَأْمِنُوهُ، فَإِنِّي لأَسِيرُ إِذْ سَمِعْتُ كَلامَ أَبِي سُفْيَانَ، وَبُدَيْلِ بْنِ وَرْقَاءَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنْظَلَةَ! فَعَرَفَ صَوْتِي، فَقَالَ: أَبُو الْفَضْلِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: مَا لَكَ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي؟! قُلْتُ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَالنَّاسُ، قَالَ: فَمَا الْحِيلَةُ؟ قَالَ: فَرَكِبَ خَلْفِي وَرَجَعَ صَاحِبُهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَوْتُ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَسْلَمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرَ، فَاجْعَلْ لَهُ شَيْئًا، قَالَ: < نَعَمْ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ دَارَهُ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ >، قَالَ: فَتَفَرَّقَ النَّاسُ إِلَى دُورِهِمْ، وَإِلَى الْمَسْجِدِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۳۲) (حسن)
(پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم (بعض أہلہ) راوی ہے)
۳۰۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے مرا لظہران میں ( فتح مکہ کے لئے آنے والے مبارک لشکر کے ساتھ ) پڑائو کیا، عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے(اپنے جی میں)کہا کہ اگر رسول اللہﷺ بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حا ضر ہوکر امان حا صل نہ کر لی تو قریش تبا ہ ہوجائیں گے، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے خچر پر سوار ہوکرنکلا، میں نے(اپنے جی) میں کہا: شاید کوئی ضرورت مند اپنی ضرور ت سے مکہ جا تا ہو ا مل جائے ( تو میں اسے بتا دوں) اور وہ جا کر اہل مکہ کو آپ ﷺ کے متعلق خبر کر دے (کہ آپ مع لشکر جرا ر تمہارے سر پر آپہنچے ہیں) تاکہ وہ آپ کے حضور میں پہنچ کر آپ سے امان حاصل کر لیں ۔
میں اسی خیال میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک ابو سفیان اور بدیل بن ورقاء کی آواز سنی، میں نے پکا ر کر کہا: اے ابو حنظلہ (ابو سفیان کی کنیت ہے ) اس نے میری آواز پہچان لی، اس نے کہا: ابوفضل ؟ (عباس کی کنیت ہے ) میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا : کیا با ت ہے، تم پر میرے ماں با پ فدا ہوں، میں نے کہا: دیکھ! یہ رسول اللہﷺ ہیں اور آپ کے ساتھ کے لوگ ہیں ( سو چ لے) ابوسفیان نے کہا: پھر کیا تد بیر کروں ؟وہ کہتے ہیں: ابو سفیان میرے پیچھے ( خچر پر ) سوار ہو ا، اور اس کا سا تھی ( بدیل بن ورقاء ) لوٹ گیا ۔
پھر جب صبح ہوئی تو میں ابو سفیان کو اپنے سا تھ لے کر رسول اللہﷺ کے پاس گیا ( وہ مسلمان ہو گیا ) میں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان فخرکو پسند کرتا ہے، تو آپ اس کے لئے (اس طرح کی) کوئی چیز کر دیجئے، تو آپ ﷺ نے کہا :’’ہاں ( ایسی کیا بات ہے، لو کر دیا میں نے)، جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لئے امن ہے (وہ قتل نہیں کیا جائے گا) اور جو اپنے گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے اس کے لئے امن ہے، اور جو خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے‘‘، یہ سن کر لو گ اپنے اپنے گھروں میں اور مسجد میں بٹ گئے ۔


3023- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْكَرِيمِ- حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَقِيلِ بْنِ مَعْقِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ [بْنِ مُنَبِّهٍ] قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا: هَلْ غَنِمُوا يَوْمَ الْفَتْحِ شَيْئًا؟ قَالَ: لا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۳۵) (صحیح الإسناد)
۳۰۲۳- وہب ( بن منبہ ) کہتے ہیں: میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا مسلمانوں کو فتح مکہ کے دن کچھ مال غنیمت ملا تھا؟ تو انہوں نے کہا :نہیں۔


3024- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا سَلامُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا دَخَلَ مَكَّةَ سَرَّحَ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَأَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْخَيْلِ، وَقَالَ: < يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! اهْتِفْ بِالأَنْصَارِ >، قَالَ: اسْلُكُوا هَذَا الطَّرِيقَ، فَلا يَشْرُفَنَّ لَكُمْ أَحَدٌ إِلا أَنَمْتُمُوهُ، فَنَادَى مُنَادٍ: لا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَنْ دَخَلَ دَارًا فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَى السِّلاحَ فَهُوَ آمِنٌ>، وَعَمَدَ صَنَادِيدُ قُرَيْشٍ، فَدَخَلُوا الْكَعْبَةَ، فَغَصَّ بِهِمْ، وَطَافَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَخَذَ بِجَنْبَتَيِ الْبَابِ، فَخَرَجُوا: فَبَايَعُوا النَّبِيَّ ﷺ عَلَى الإِسْلامِ.
[قَالَ أَبو دَاود: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سَأَلَهُ رَجُلٌ، قَالَ: مَكَّةُ عَنْوَةً هِيَ؟ قَالَ: إِيشْ يَضُرُّكَ مَاكَانَتْ؟!! قَالَ: فَصُلْحٌ؟ قَالَ: لا]۔
* تخريج: م/الجھاد ۳۱ (۱۷۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۲، ۵۳۸) (صحیح)
۳۰۲۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے زبیر بن عوام، ابو عبیدہ ابن جراح اور خالد بن و لید رضی اللہ عنہم کو گھو ڑوں پر سوا ر رہنے دیا،اور ا بو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’تم انصا ر کو پکا ر کر کہہ دو کہ اس راہ سے جائیں، اور تمہارے سامنے جو بھی آئے اسے (موت کی نیند) سلادیں‘‘، اتنے میں ایک منا دی نے آواز دی: آج کے دن کے بعد قریش نہیں رہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو گھر میں رہے اس کو امن ہے اور جو ہتھیا ر ڈال دے اس کو امن ہے‘‘،قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے تو خانہ کعبہ ان سے بھر گیا، نبی اکرم ﷺ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے صلاۃ پڑھی پھر خانہ کعبہ کے در وازے کے دونو ں بازوئوں کو پکڑ کر ( کھڑے ہوئے) تو خانہ کعبہ کے اندر سے لوگ نکلے اور نبی اکرم ﷺ سے اسلام پر بیعت کی ۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ کسی شخص نے احمد بن حنبل سے پوچھا :کیا مکہ طاقت سے فتح ہوا ہے؟ تو احمد بن حنبل نے کہا: اگر ایسا ہوا ہو تو تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: تو کیا صلح ( معاہدہ) کے ذریعہ ہوا ہے؟کہا : نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِي خَبَرِ الطَّائِفِ
۲۶-باب: فتحِ طائف کا بیان​


3025- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْكَرِيمِ- حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ -يَعْنِي ابْنَ عَقِيلِ بْنِ مُنَبِّهٍ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبٍ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ شَأْنِ ثَقِيفٍ إِذْ بَايَعَتْ، قَالَ: اشْتَرَطَتْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ أَنْ لا صَدَقَةَ عَلَيْهَا وَلا جِهَادَ، وَأَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ يَقُولُ: < سَيَتَصَدَّقُونَ وَيُجَاهِدُونَ إِذَا أَسْلَمُوا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۴۱) (صحیح)
۳۰۲۵- وہب کہتے ہیں: میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے بنو ثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ثقیف نے نبی اکرم ﷺ سے شرط رکھی کہ نہ وہ زکاۃ دیں گے اور نہ وہ جہاد میں حصہ لیں گے۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''جب وہ مسلمان ہو جائیں گے تو وہ زکاۃ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب پہلے پہل قبیلۂ ثقیف کے کچھ لوگ اسلام لانے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے شرط رکھی کہ ہمیں زکاۃ اور جہاد سے معاف رکھا جائے، آپ ﷺ نے ان کی یہ شرط اس خیال سے مان لی کہ زکاۃ بالتفصیل اس وقت تک واجب نہیں جب تک آدمی صاحب نصاب نہ ہو جائے اور اس پر سال نہ گزر جائے، اسی طرح جہاد فرض عین (ہرشخص پر فرض) نہیں کہ سب کا نکلنا ضروری ہو، چونکہ یہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، اس لئے آپ ﷺ نے ان کے ساتھ اس امید پر آسانی برتی کہ جب اسلام ان کے دلوں میں پختہ ہو جائے گا تو یہ خود بخود اسلام کے سارے ارکان ادا کرنے لگیں گے۔


3026- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سُوَيْدٍ [يَعْنِي] ابْنَ مَنْجُوفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ حَمَّادِ ابْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ: أَنَّ وَفْدَ ثَقِيفٍ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْزَلَهُمُ الْمَسْجِدَ لِيَكُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِهِمْ فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ: أَنْ لا يُحْشَرُوا وَلا يُعْشَرُوا وَلايُجَبَّوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لَكُمْ أَنْ لا تُحْشَرُوا وَلاتُعْشَرُوا، وَلا خَيْرَ فِي دِينٍ لَيْسَ فِيهِ رُكُوعٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۸) (ضعیف)
(حسن بصری کا عثمان ابن أبی العاص رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
۳۰۲۶- عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہر ایا تا کہ ان کے دل نرم ہوں، انہوں نے شر ط رکھی کہ وہ جہاد کے لئے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر (زکاۃ) لی جائے اور نہ ان سے صلاۃ پڑھوائی جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خیر تمہارے لئے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ تم جہاد کے لئے نہ نکالے جائو ( کیونکہ اور لو گ جہاد کے لئے مو جود ہیں) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے ( کیونکہ با لفعل سال بھر نہیں گز را ) لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع ( صلاۃ) نہ ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي حُكْمِ أَرْضِ الْيَمَنِ
۲۷-باب: یمن کی زمین کے حکم کا بیان​


3027- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَهْرٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقَالَتْ لِي هَمْدَانُ: هَلْ أَنْتَ آتٍ هَذَا الرَّجُلَ وَمُرْتَادٌ لَنَا: فَإِنْ رَضِيتَ لَنَا شَيْئًا قَبِلْنَاهُ، وَإِنْ كَرِهْتَ شَيْئًا كَرِهْنَاهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَجِئْتُ، حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: فَرَضِيتُ أَمْرَهُ، وَأَسْلَمَ قَوْمِي، وَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذَا الْكِتَابَ إِلَى عُمَيْرٍ ذِي مَرَّانٍ، قَالَ: وَبَعَثَ مَالِكَ بْنَ مِرَارَةَ الرَّهَاوِيَّ إِلَى الْيَمَنِ جَمِيعًا، فَأَسْلَمَ عَكٌّ ذُو خَيْوَانَ، قَالَ: فَقِيلَ لِعَكٍّ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَخُذْ مِنْهُ الأَمَانَ عَلَى قَرْيَتِكَ وَمَالِكَ، فَقَدِمَ وَكَتَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ لِعَكٍّ ذِي خَيْوَانَ، إِنْ كَانَ صَادِقًا فِي أَرْضِهِ وَمَالِهِ وَرَقِيقِهِ فَلَهُ الأَمَانُ وَذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ [مُحَمَّدٍ] رَسُولِ اللَّهِ، وَكَتَبَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۴۳) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ’’مجالد‘‘ ضعیف ہیں)
۳۰۲۷- عامر بن شہر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ( بحیثیت نبی ) ظہور ہو اتو مجھ سے (قبیلہ) ہمدان کے لوگوں نے کہا :کیا تم اس آدمی کے پاس جائوگے او ر ہماری طرف سے اس سے با ت چیت کروگے؟ اگرتمہیں کچھ بھی اطمینان ہوا تو ہم اسے قبول کر لیں گے، اگر تم نے اسے نا پسند کیا تو ہم بھی برا جانیں گے، میں نے کہا: ہاں ( ٹھیک ہے میں جائوں گا) پھر میں چلا یہاں تک کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا،تو آپ کامعاملہ ہمیں پسندآگیا (تو میں اسلام لے آیا ) اور میری قوم بھی اسلام لے آئی، اور رسول اللہ ﷺ نے عمیر ذی مران کو یہ تحریر لکھ کر دی، اور آپ ﷺ نے مالک بن مرا رہ رہاوی کو تمام یمن والوں کے پاس ( اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے) بھیجا، تو عک ذوخیوان (ایک شخص کا نام ہے ) اسلام لے آیا۔
عک ذوخیوان سے کہا گیا کہ تو رسول اللہﷺ کے پاس جا اور آپ سے اپنی بستی اور اپنے مال کے لئے امان لے کرآ ( تا کہ آئندہ کوئی تجھ پر اور تیر ی بستی والوں پر زیا دتی نہ کرے) تو وہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے لکھ کر دیا آپ نے لکھا : ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ﷺ کی طرف سے جو اللہ کے رسول ہیں عک ذو خیوان کے لئے اگر وہ سچا ہے تو اسے لکھ کر دیا جا تا ہے کہ اس کو امان ہے، اس کی زمین، اس کے مال اور اس کے غلاموں میں، اسے اللہ اور اللہ کے رسول محمدﷺ کی طرف سے ذمہ اور امان و پنا ہ حا صل ہے‘‘۔
( راوی کہتے ہیں) خالد بن سعید بن العاص نے یہ پروانہ ( رسول اللہﷺ کی طرف سے) اسے لکھ کر دیا۔


3028- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُمْ قَالَ: حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعِيدٍ [يَعْنِي] ابْنَ أَبْيَضَ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ كَلَّمَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي الصَّدَقَةِ حِينَ وَفَدَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: < يَا أَخَا سَبَأٍ، لابُدَّ مِنْ صَدَقَةٍ > فَقَالَ: إِنَّمَا زَرَعْنَا الْقُطْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَقَدْ تَبَدَّدَتْ سَبَأٌ، وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلا قَلِيلٌ بِمَأْرِبَ، فَصَالَحَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ عَلَى سَبْعِينَ حُلَّةً [بَزٍّ] مِنْ قِيمَةِ وَفَاءِ بَزِّ الْمَعَافِرِ كُلَّ سَنَةٍ عَمَّنْ بَقِيَ مِنْ سَبَأٍ بِمَأْرِبَ، فَلَمْ يَزَالُوا يَؤُدُّونَهَا حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَإِنَّ الْعُمَّالَ انْتَقَضُوا عَلَيْهِمْ بَعْدَ قَبْضِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيمَا صَالَحَ أَبْيَضُ بْنُ حَمَّالٍ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي الْحُلَلِ السَّبْعِينَ، فَرَدَّ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى مَا وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى مَاتَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه انْتَقَضَ ذَلِكَ وَصَارَتْ عَلَى الصَّدَقَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲) (ضعیف الإسناد)
(اس کے دو راوی ’’ثابت بن سعید‘‘ اور ’’سعید بن ابیض ‘‘ لین الحدیث ہیں)
۳۰۲۸- ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ وفد میں شامل ہو کر رسول اللہ کے پاس آئے تو آپ سے صدقے کے متعلق با ت چیت کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اے سبائی بھائی! ( سبا یمن کے ایک شہر کا نام ہے ) صدقہ دینا تو ضروری ہے‘‘، ابیض بن حمال نے کہا:اللہ کے رسول! ہماری زراعت تو صرف کپاس ( رو ئی ) ہے، ( سبا ا ب پہلے والا سبا نہیں رہا) سبا والے متفرق ہو گئے (یعنی وہ شہر اور وہ آبادی اب نہیں رہی جو پہلے بلقیس کے زمانہ میں تھی، اب تو بالکل اجا ڑ ہو گیا ہے ) اب کچھ تھوڑے سے سبا کے باشندے مارب( ایک شہر کا نا م ہے) میں رہ رہے ہیں، تونبی اکرم ﷺ نے ان سے ہر سال کپڑے کے ایسے ستر جوڑے دینے پر مصالحت کرلی جو معا فر ۱؎کے ریشم کے جوڑے کی قیمت کے برابر ہوں،وہ لو گ رسول اللہﷺ کی وفات تک برا بر یہ جوڑے ادا کرتے رہے، رسول اللہﷺ کے انتقال کے بعد عمال نے رسول ﷺ کے ابیض بن حمال سے سال بہ سال ستر جوڑے دیتے رہنے کے معا ہدے کو تو ڑ دیا، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سال میں ستر جوڑے دئے جانے کے رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کو دوبارہ جا ری کر دیا، پھر جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو ا تو یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا اور ان سے بھی ویسے ہی صدقہ لیا جانے لگا جیسے دوسروں سے لیا جا تاتھا۔
وضاحت ۱؎ : یمن میں ایک جگہ کانام ہے جہاں کپڑے بنے جاتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
28- بَاب فِي إِخْرَاجِ الْيَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ
۲۸-باب: جزیرئہ عرب سے یہود کے نکا لنے کا بیان​


3029- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَوْصَى بِثَلاثَةٍ فَقَالَ: < أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوٍ مِمَّا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ >، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَ: فَأُنْسِيتُهَا [و قَالَ الْحُمَيْدِيُّ عَنْ سُفْيَانَ: قَالَ سُلَيْمَانُ: لا أَدْرِي أَذَكَرَ سَعِيدٌ الثَّالِثَةَ فَنَسِيتُهَا أَوْ سَكَتَ عَنْهَا؟]۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۷۵ (۳۰۵۳)، الجزیۃ ۶ (۳۱۶۸)، المغازي ۸۳ (۴۴۳۱)، م/الوصیۃ ۵ (۱۶۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۲) (صحیح)
۳۰۲۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنی وفات کے وقت) تین چیزوں کی وصیت فرمائی (ایک تو یہ ) کہا کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا، دوسرے یہ کہ وفود (ایلچیوں) کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرنا جیسے میں ان کے ساتھ کرتاہوں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اور تیسری چیز کے بارے میں انہوں نے سکو ت اختیا ر کیا یا کہا کہ (نبی اکرم ﷺ نے ذکر تو کیا) لیکن میں ہی اسے بھلا دیا گیا۔
حمید ی سفیان سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے کہاکہ مجھے یا د نہیں، سعید نے تیسری چیز کا ذکر کیا اور میں بھول گیا یا انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا خامو ش ر ہے ۔


3030- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ قَالا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، فَلاأَتْرُكُ فِيهَا إِلا مُسْلِمًا >۔
* تخريج: م/الجھاد ۲۱ (۱۷۶۷)، ت/السیر ۴۳ (۱۶۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹، ۳۲، ۳/۳۴۵) (صحیح)
۳۰۳۰- جابر بن عبداللہرضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’میں جز یزۂ عرب سے یہودو نصا ری کو ضرور با لضرور نکال دوں گا اور اس میں مسلمانوں کے سوا کسی کو نہ رہنے دوں گا‘‘۔


3031- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِمَعْنَاهُ، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۱۹) (صحیح)
۳۰۳۱- اس سند سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لیکن پہلی حدیث زیادہ کا مل ہے۔


3032- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا تَكُونُ قِبْلَتَانِ فِي بَلَدٍ وَاحِدٍ >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۱۱ (۶۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۲۲۳، ۲۸۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’قابوس‘‘ ضعیف ہیں)
۳۰۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک ملک میں دوقبلے نہیں ہوسکتے‘‘، ( یعنی مسلمان اور یہودو نصا ریٰ عرب میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے)۔


3033- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْوَاحِدِ- قَالَ: قَالَ سَعِيدٌ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ-: جَزِيرَةُ الْعَرَبِ مَا بَيْنَ الْوَادِي إِلَى أَقْصَى الْيَمَنِ إِلَى تُخُومِ الْعِرَاقِ إِلَى الْبَحْرِ.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۶۹۲) (صحیح)
قَالَ أَبو دَاود: قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ: أَخْبَرَكَ أَشْهَبُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: عُمَرُ أَجْلَى أَهْلَ نَجْرَانَ وَلَمْ يُجْلَوْا مِنْ تَيْمَاءَ لأَنَّهَا لَيْسَتْ مِنْ بِلادِ الْعَرَبِ، فَأَمَّا الْوَادِي فَإِنِّي أَرَى أَنَّمَا لَمْ يُجْلَ مَنْ فِيهَا مِنَ الْيَهُودِ أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْهَا مِنْ أَرْضِ الْعَرَبِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۵۱) (منقطع)
(امام مالک نے اپنی سند کا ذکر نہیں کیا اس لئے انقطاع ہے)
۳۰۳۳- سعید یعنی ابن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ جز یرہ عرب وادی قریٰ سے لے کرانتہائے یمن تک عراق کی سمندری حدود تک ہے۔
ابو داود کہتے ہیں : حا رث بن مسکین کے سا منے یہ پڑھا گیا اور میں وہاں خوجود تھا کہ اشہب بن عبدالعزیز نے آپ کو خبر دی ہے کہ مالک کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اہل نجران ۱؎کو جلا وطن کیا، اور تیما ء سے جلا و طن نہیں کیا، اس لئے کہ تیماء ۲؎بلاد عرب میںشامل نہیں ہے، رہ گئے وادی قریٰ کے یہودی تو میرے خیال میں وہ اس وجہ سے جلا وطن نہیں کئے گئے کہ ان لوگوں نے وادی قری کو عرب کی سر زمین میں سے نہیں سمجھا۔
وضاحت ۱؎ : شام وحجاز کے درمیان ایک گاؤں ہے۔
وضاحت ۲؎ : سمندر کے قریب شام کے نواح میں ایک مقام ہے۔


3034- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: وَقَدْ أَجْلَى عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ يَهُودَ نَجْرَانَ وَفَدَكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۵۲) (ضعیف)
(سند میں امام مالک اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے لیکن اسی معنی کی پچھلی حدیث کی سند صحیح ہے)
۳۰۳۴- مالک کہتے ہیں:عمر رضی اللہ عنہ نے نجران وفدک کے یہودیوں کو جلا وطن کیا( کیونکہ یہ دونوں عرب کی سرحد میں ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
29- بَاب فِي إِيقَافِ أَرْضِ السَّوَادِ وَأَرْضِ الْعَنْوَةِ
۲۹-باب: کافروں سے جنگ میں ہا تھ آ نے والی نیز سواد ۱؎ نامی علاقے کی زمینوں کو مصالح عامہ کے لیے روک رکھنے اوراسے غنیمت میں تقسیم نہ کرنے کا بیان​


3035- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ [بْنُ عَبْدِاللَّهِ] بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَنَعَتِ الْعِرَاقُ قَفِيزَهَا وَدِرْهَمَهَا، وَمَنَعَتِ الشَّامُ مُدْيَهَا وَدِينَارَهَا، وَمَنَعَتْ مِصْرُ إِرْدَبَّهَا وَدِينَارَهَا، ثُمَّ عُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ > قَالَهَا زُهَيْرٌ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ لَحْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَدَمُهُ۔
* تخريج: م/الفتن وأشراط الساعۃ ۸ (۲۸۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۶۲)، (صحیح)
۳۰۳۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' ( ایک وقت آئے گا) جب عر اق اپنے پیمانے اور روپے روک دے گا اور شام اپنے مدوں اوراشرفیوں کوروک دے گا اور مصر اپنے اردبوں ۲؎ اور اشرفیوں کوروک دے گا ۳؎ پھر (ایک وقت آئے گاجب) تم ویسے ہی ہو جائوگے جیسے شروع میں تھے ۴؎ ''، (احمدبن یو نس کہتے ہیں:) زہیر نے یہ با ت ( زور دینے کے لئے )تین با ر کہی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے گو شت و خون ( یعنی ان کی ذات )نے اس کی گواہی دی۔
وضاحت ۱؎ : سواد سے مراد عراق کے دیہات کی وہ زمینیں ہیںجنہیں مسلمانوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں حاصل کیا، یہ اپنے کھجورکے باغات اورزراعت کی ہریالی کی وجہ سے سوادکے نام سے مشہورہے، اور اس کی لمبائی موصل سے عبدان تک اورچوڑائی قادسیہ سے حلوان تک ہے۔امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ مفتوحہ زمینیں مالِ غنیمت میں داخل نہیں ہیں ، امام کو مصلحت کے اعتبار سے اس کے تصرف کے بارے میں اختیار ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اسے تقسیم بھی کیا ہے ، اور چھوڑا بھی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے تقسیم نہ کر کے اس کو جوں کا توں رکھا اور اس پرمستقل خراج (محصول) مقرر کردیا ، جوفوجیوں کے استعمال میں آئے ، یہ اس زمین (ارضِ سواد) کے وقف کا معنی ہے، اس کا معنی اصطلاحی وقف نہیں ہے ، جس کی ملکیت منتقل نہیں ہوسکتی بلکہ اس زمین کا بیچنا جائز ہے ، جس پر امت کا عمل ہے ، اوراس بات پر اجماع ہے کہ یہ وراثت میں منتقل ہوگی ، اوروقف میں وراثت نہیں ہے ، امام احمد نے یہ تنصیص فرمائی ہے کہ اس (ارض سواد) کو مہرمیں دیا جاسکتاہے ، اور وقف کو مہرمیں دینا جائزنہیں ہے ، اوراس واسطے بھی کہ وقف کی بیع ممنوع ہے ، ایسے ہی اس کی نقل ملکیت بھی ممنوع ہے ، اس لیے کہ جن لوگوں کے لیے وقف ہوتاہے ، وہ اس سے فائدہ نہ اٹھاسکیں گے ، اور فوجیوں کا حق زمین (ارض سواد) کے خراج (محصول) میں ہے ، توجس نے اس زمین کو خرید لیا وہ اس کے خراج کا مستحق ہوگیا، جیسے کہ کوئی چیز بائع کے یہاں ہوتی ہے (توجب مشتری کے یہاں منتقل ہوتی ہے ، تو اس کا نفع بھی منتقل ہوجاتاہے)،تواس بیع سے کسی مسلمان کا حق باطل نہیں ہوتا، جیسے کہ میراث ، ہبہ اورصدقہ سے باطل نہیں ہوتا ۔(انتہی مختصراً)
مسلمانوں نے جن علاقوں کو جنگ کے ذریعہ حاصل کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے ، امام ابن منذرکہتے ہیں کہ امام شافعی اس بات کی طرف گئے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان مجاہدین کوراضی کرلیا تھا جنہوں نے علاقہ سواد کوفتح کیا تھا اورمالِ غنیمت میں اس کے حق دار تھے،اور طاقت سے حاصل کی گئی زمین کا حکم یہ ہے کہ وہ تقسیم کی جائے گی ، جیسے کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبرکی زمین کو تقسیم فرمایا تھا ، امام مالک کہتے ہیں کہ مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والی یہ زمینیں تقسیم نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وقف رہیں گی ، اوراس کے محصول سے فوجیوں کے وظائف ، پل بنانا اوردوسرے کارخیرکیے جائیں گے ، ہاں اگرامام کبھی یہ دیکھے کہ مصلحت کا تقاضااس کا تقسیم کردینا ہے تو وہ اس زمین کوتقسیم کرسکتاہے، ابوعبیدنے کتاب الأموال میں حارثہ بن مضرب سے نقل کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سواد کی زمین کوتقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس سلسلے میں مشورہ کیا توعلی رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ ا سے مسلمانوں کے مفادعامہ کے لیے چھوڑدیجئے ، توآپ نے اسے مجاہدین میں تقسیم نہ کر کے اس کو ایسے ہی چھوڑدیا ، اورعبداللہ بن ابی قیس سے یہ نقل کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ارض سواد کی تقسیم کا ارادہ فرمایا تو معاذ رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اسے تقسیم کردیں گے تواس کی بڑی آمدنی لوگوں کے پاس چلی جائے گی اورلوگوں کے فوت ہوجانے کے بعد وہ ایک مرد یا ایک عورت کے ہاتھ میں چلی جائے گی ، اوردوسرے ضرورت مند مسلمان آئیں گے توانہیں کچھ نہ ملے گا ، توآپ کوئی ایسا راستہ اختیارکیجئے جس سے پہلے اور بعد کے سارے مسلمان فائدہ اٹھائیں، توعمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کی تقسیم کو مؤخرکردیا ،اور غنیمت پانے والے مجاہدین اور بعد کے آنے والے لوگوں کی مصلحت کے لیے اس پر محصول لگادیا ۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داود ۸/۱۹۴، ۱۹۵)
وضاحت ۲؎ : اردب ایک پیمانہ کانام ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی ان ممالک کی دولت پر تم قابض ہوجاؤگے۔
وضاحت ۴؎ : یعنی یہ ساری دولت تم سے چھِن جائے گی۔


3036- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا [بِهِ] أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: <أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا وَأَقَمْتُمْ فِيهَا، فَسَهْمُكُمْ فِيهَا وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ ثُمَّ هِيَ لَكُمْ >۔
* تخريج: م/الجھاد ۵ (۱۷۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۱۷) (صحیح)
۳۰۳۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جس بستی میں تم آئو اور وہاں رہو تو جو تمہارا حصہ ہے وہی تم کو ملے گا ۱؎ اور جس بستی کے لوگوں نے اللہ و رسول کی نا فرمانی کی ( اور اسے تم نے زور و طاقت سے زیر کیا ) تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کا نکال کر با قی تمہیں مل جائے گا(یعنی بطور غنیمت مجا ہدین میں تقسیم ہو جائے گا)''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی غنیمت کی طرح وہ گائوں تم میں تقسیم نہ ہو گا، کیونکہ بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہے بلکہ امام کواختیار ہے کہ جس کو جس قدر چاہے اس میں سے دے۔
 
Top