- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,587
- ری ایکشن اسکور
- 6,767
- پوائنٹ
- 1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي سَهْمِ الصَّفِيِّ
۲۱-باب: خمس سے پہلے صفی یعنی جس مال کو رسولﷺ اپنے لیے منتخب کر لیتے تھے کا بیان
2991- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ ﷺ سَهْمٌ يُدْعَى الصَّفِيَّ، إِنْ شَاءَ عَبْدًا، وَإِنْ شَاءَ أَمَةً، وَإِنْ شَاءَ فَرَسًا، يَخْتَارُهُ قَبْلَ الْخُمُسِ۔
* تخريج: ن/الفيء ۱ (۴۱۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۶۸) (ضعیف الإسناد)
(عامر تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے)
۲۹۹۱- عامر شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک حصہ تھا، جس کو صفی کہا جاتا تھا آپ اگر کوئی غلام، لونڈی یا کوئی گھوڑا لینا چاہتے تو مال غنیمت میں سے خمس سے پہلے لے لیتے۔
2992- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَأَزْهَرُ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ سَهْمِ النَّبِيِّ ﷺ وَالصَّفِيِّ، قَالَ: كَانَ يُضْرَبُ لَهُ بِسَهْمٍ مَعَ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ لَمْ يَشْهَدْ، وَالصَّفِيُّ يُؤْخَذُ لَهُ رَأْسٌ مِنَ الْخُمُسِ قَبْلَ كُلِّ شَيْئٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹۵) (ضعیف الإسناد)
(یہ بھی مرسل ہے، محمد بن سیر ین تابعی ہیں )
۲۹۹۲- ابن عون کہتے ہیں: میں نے محمد( ابن سیرین) سے نبی اکرم ﷺ کے حصے اورصفی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کا بھی حصہ لگایا جا تا تھا اگر چہ آپ لڑائی میں شریک نہ ہو تے اور سب سے پہلے خمس میں سے ۱؎ صفی آپ کے لئے لیا جاتا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صفی خمس میں سے ہوتا تھا اور اس سے پہلے شعبی والی روایت دلالت کرتی ہے کہ صفی خمس سے پہلے پورے مال غنیمت میں سے ہوتا تھا دونوں میں تطبیق کے لئے تاویل یہ کی جاتی ہے کہ قبل الخمس سے مراد ’’قَبْلَ أَنْ يُقَسَّمَ الخُمُسَ‘‘ ہے یعنی صفی خمس میں سے ہوتا تھا لیکن خمس کی تقسیم سے پہلے اسے نکالا جاتاتھا۔
2993- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْوَاحِدِ- عَنْ سَعِيدٍ -يَعْنِي ابْنَ بَشِيرٍ- عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا غَزَا كَانَ لَهُ سَهْمٌ صَافٍ يَأْخُذُهُ مِنْ حَيْثُ شَائَهُ، فَكَانَتْ صَفِيَّةُ مِنْ ذَلِكَ السَّهْمِ، وَكَانَ إِذَا لَمْ يَغْزُ بِنَفْسِهِ ضُرِبَ لَهُ بِسَهْمِهِ وَلَمْ يُخَيَّرْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۱۴) (ضعیف الإسناد)
(قتادہ تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت بھی مرسل ہے)
۲۹۹۳- قتا دہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ جب خو دلڑائی میں شر یک ہو تے تو ایک حصہ چھانٹ کر جہاں سے چاہتے لے لیتے، ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا ( جو جنگ خیبر میں آپ ﷺ کو ملیں) اسی حصے میں سے آئیں اور جب آپ لڑائی میں شریک نہ ہوتے تو ایک حصہ آپ ﷺ کے لئے لگایا جا تا اور اس میں آپ کو انتخا ب کا اختیا ر نہ ہوتا کہ جو چاہیں چھانٹ کر لے لیں۔
2994- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَتْ صَفِيَّةُ مِنَ الصَّفِيِّ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۱۸) (صحیح)
۲۹۹۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: صفیہ رضی اللہ عنہا صفی میں سے تھیں ۔
2995- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَدِمْنَا خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ تَعَالَى الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا، وَكَانَتْ عَرُوسًا، فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِنَفْسِهِ، فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سُدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ فَبَنَى بِهَا۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۱ (۲۲۳۵)، الجہاد ۷۴ (۲۸۹۳)، المغازی ۳۹ (۴۲۱۱)، الأطعمۃ ۲۸ (۵۴۲۵)، الدعوات ۳۶ (۶۳۶۳)، وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷) (صحیح)
۲۹۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ہم خیبر آئے ( یعنی غزوہ کے موقع پر) تو جب اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ ﷺ سے ام المومنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے حسن و جمال کا ذکر کیا گیا، ان کا شو ہر مارا گیا تھا، وہ دلہن تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے لئے منتخب فرمالیا، پھرآپ ﷺ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم سدّ الصہباء ۱؎ پہنچے، وہاں وہ حلال ہوئیں (یعنی حیض سے فا رغ ہوئیں اور ان کی عدت پوری ہو گئی) تواس وقت آپ ﷺ نے ان کے ساتھ شبِ زفاف منائی۔
وضاحت ۱؎ : خیبر میں ایک مقام کا نام ہے ۔
2996- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: ق/ النکاح ۴۲ (۱۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۸۰) وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴) (صحیح)
۲۹۹۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا پہلے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آگئی تھیں پھر رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئیں۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺ نے ان کی جگہ دحیہ رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی دے دی، اور ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لئے منتخب کر لیا، صفیہ قریظہ اور نضیرکے سردار کی بیٹی تھیں، اس لئے ان کا ایک عام صحابی کے پاس رہنامناسب نہ تھا،کیونکہ اس سے دوسروں کو رشک ہوتا۔
2997- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: وَقَعَ فِي سَهْمِ دِحْيَةَ جَارِيَةٌ جَمِيلَةٌ فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَصْنَعُهَا وَتُهَيِّئُهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۷، ۳۹۰) (صحیح)
۲۹۹۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں ایک خو بصورت لونڈی آئی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سات غلام دے کر خر یدلیا اور انہیں ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ انہیں بنا سنوار دیں۔
حما د کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے ام المومنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ وہ وہاں عدت گزار کر پاک و صاف ہولیں۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۲۰۵۴) (صحیح)
2998- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ (ح) وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: جُمِعَ السَّبْيُ -يَعْنِي بِخَيْبَرَ- فَجَاءَ دِحْيَةُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، قَالَ: <اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً > فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ، قَالَ يَعْقُوبُ: صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ؟ [ثُمَّ اتَّفَقَا]: مَا تَصْلُحُ إِلا لَكَ: قَالَ: < ادْعُوهُ بِهَا > فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ ﷺ قَالَ لَهُ: < خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا > وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا۔
* تخريج: خ/ الصلاۃ ۱۲ (۳۷۱)، م/ النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، ن/ النکاح ۶۴ (۳۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰، ۱۰۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۱، ۱۸۶) (صحیح)
۲۹۹۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:خیبرمیں سب قیدی جمع کئے گئے تودحیہ کلبی رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول !ان قیدیوں میں سے مجھے ایک لونڈی عنایت فرما دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جائو ایک لونڈی لے لو‘‘، دحیہ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لے لیا، تو ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور بولا:اللہ کے رسول! آپ نے (صفیہ بنت حیی کو)دحیہ کو دے دیا، صفیہ بنت حیی قریظہ اور نضیر ( کے یہو دیوں ) کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لئے موزوں و مناسب ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دحیہ کو صفیہ سمیت بلا لائو‘‘، جب آپ ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو آپ نے دحیہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم کوئی اور لونڈی لے لو، پھر رسو ل اللہﷺ نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور ان سے نکا ح کر لیا۔
2999- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كُنَّا بِالْمِرْبَدِ، فَجَاءَ رَجُلٌ أَشْعَثُ الرَّأْسِ بِيَدِهِ قِطْعَةُ أَدِيمٍ أَحْمَرَ، فَقُلْنَا: كَأَنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: أَجَلْ، قُلْنَا: نَاوِلْنَا هَذِهِ الْقِطْعَةَ الأَدِيمَ الَّتِي فِي يَدِكَ، فَنَاوَلَنَاهَا فَقَرَأْنَاهَا فَإِذَا فِيهَا: < مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى بَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ، إِنَّكُمْ إِنْ شَهِدْتُمْ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَقَمْتُمُ الصَّلاةَ، وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ، وَأَدَّيْتُمُ الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، وَسَهْمَ النَّبِيِّ ﷺ الصَّفِيَّ أَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ > فَقُلْنَا: مَنْ كَتَبَ لَكَ هَذَا الْكِتَابَ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷۷، ۷۸، ۳۶۳) (صحیح الإسناد)
۲۹۹۹- یزید بن عبداللہ کہتے ہیں : ہم مربد (ایک گاؤں کا نام ہے ) میں تھے اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سرکے بال بکھرے ہوئے تھے اوراس کے ہاتھ میں سرخ چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے کہا : تم گویا کہ صحراء کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا : ہاں ہم نے کہا : چمڑے کا یہ ٹکڑا جو تمہارے ہاتھ میں ہے تم ہمیں دے دو، اس نے اس کو ہمیں دے دیا، ہم نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا:’’ یہ محمد ﷺ کی طرف سے زہیر بن اقیش کے لئے ہے ( انہیں معلوم ہو کہ) اگرتم اس بات کی گواہی دینے لگ جاؤگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد ﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اور صلاۃ قائم کرنے اور زکاۃ دینے لگوگے اور مال غنیمت میں سے(خمس جو اللہ ورسول کا حق ہے ) اور نبی اکرم ﷺ کے حصہ صفی کو ادا کروگے تو تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہوگی‘‘، تو ہم نے پوچھا: یہ تحریر تمہیں کس نے لکھ کردی ہے؟ تو اس نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے۔