36- بَاب فِي إِقْطَاعِ الأَرَضِينَ
۳۶-باب: زمین جا گیر میں دینے کا بیان
3058- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَمُوتَ۔
* تخريج: ت/الأحکام ۳۹ (۱۳۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۹)، دي/البیوع ۶۶ (۲۶۵۱) (صحیح)
۳۰۵۸- وائل رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حضرموت ۱؎ میں زمین کا ٹکڑا جاگیر میں دیا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یمن کاایک شہر ہے۔
وضاحت ۲؎ : حاکم یا حکومت کی طرف سے رعایا کو دی گئی زمین کو جاگیرکہتے ہیں۔
3059- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا جَامِعُ ابْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۷۳) (صحیح)
۳۰۵۹- اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی کے مثل روایت مروی ہے۔
3060- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فِطْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ قَالَ: خَطَّ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ دَارًا بِالْمَدِينَةِ بِقَوْسٍ وَقَالَ: < أَزِيدُكَ، أَزِيدُكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۱۸) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''خلفیہ مخزومی'' لین الحدیث ہیں)
۳۰۶۰- عمرو بن حر یث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مد ینہ میں مجھے گھر بنانے کے لئے کمان سے نشان لگا کر ایک زمین دی اور فرمایا :'' میں تمہیں مزید دوں گا مزید دوں گا''(فی الحال یہ لے لو)۔
3061- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقْطَعَ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ، وَهِيَ مِنْ نَاحِيَةِ الْفُرْعِ، فَتِلْكَ الْمَعَادِنُ لا يُؤْخَذُ مِنْهَا إِلا الزَّكَاةُ إِلَى الْيَوْمِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۷)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۳ (۸)، حم (۱/۳۰۶) (ضعیف)
(یہ روایت مرسل ہے، اس میں مذکورجاگیر دینے والے واقعہ کی متابعت اورشواہد تو موجودہیں مگر زکاۃ والے معاملہ کے متابعات وشواہد نہیں ہیں)
۳۰۶۱- ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حا رث مز نی کو فرع ۱؎ کی طرف کے قبلیہ ۲؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جا تارہا۔
وضاحت ۱؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔
وضاحت۲؎ : قبلیہ ایک گاؤں ہے جوفرع کے متعلقات میں سے ہے۔
3062- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ وَغَيْرُهُ قَالَ الْعَبَّاسُ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ [عَمْرِو بْنِ] عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا -وَقَالَ غَيْرُهُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا- وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ، وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا أَعْطَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ، أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا -وَقَالَ غَيْرُهُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا- وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ >.
قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَوْلَى بَنِي الدِّيْلِ بْنِ بَكْرِ بْنِ كِنَانَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۱۵، ۱۰۷۷۷) (حسن)
(''کثیر''کی روایت متابعات وشواہد سے تقویت پا کر حسن ہے، ورنہ ''کثیر'' خود ضعیف راوی ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت حسن ہے)
۳۰۶۲- عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حا رث مز نی کو قبلیہ کی نشیب وفراز کی کانیں ٹھیکہ میںدیں ۱؎ ۔
( ابو داود کہتے ہیں) اور دیگر لوگوں نے ''جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا'' کہا ہے) اور قدس (ایک پہا ڑ کا نام ہے)کی وہ زمین بھی دی جو قابل کاشت تھی اور وہ زمین انہیں نہیں دی جس پرکسی مسلمان کا حق اور قبضہ تھا، اورنبی اکرم ﷺ نے انہیں اس کے لئے ایک دستاویز لکھ کر دی، وہ اس طرح تھی : ''بسم الله الرحمن الرحيم'' یہ دستاویز ہے اس بات کا کہ رسول اللہ ﷺ نے بلا ل بن حا رث مز نی کو قبلیہ کے کانوں کا جو بلندی میں ہیں اور پستی میں ہیں'' ٹھیکہ دیا اور قدس کی وہ زمین بھی دی جس میں کھیتی ہو سکتی ہے، اور انہیں کسی مسلمان کا حق نہیں دیا ''۔
ابو اویس راوی کہتے ہیں:مجھ سے بنو دیل بن بکر بن کنانہ کے غلام ثور بن زید نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے اورعکرمہ نے ابن عباس سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کے نام سے الاٹ کردیا ۔
3063- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحُنَيْنِيَّ قَالَ: قَرَأْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ -يَعْنِي كِتَابَ قَطِيعَةِ النَّبِيِّ ﷺ - قَالَ أَبو دَاود: وَحَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، قَالَ ابْنُ النَّضْرِ: وَجَرْسَهَا وَذَاتَ النُّصُبِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ حَقَّ مُسْلِمٍ، وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < هَذَا مَا أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ، أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ >.
قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ، زَادَ ابْنُ النَّضْرِ: وَكَتَبَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۷) (حسن)
۳۰۶۳- محمد بن نضر کہتے ہیں کہ میں نے حنینی کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اسے یعنی نبی اکرم ﷺ کے جا گیر نامہ کو کئی با ر پڑھا ۔
ابوداود کہتے ہیں : مجھ سے کئی ایک نے حسین بن محمدکے واسطہ سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ابو اویس نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں:مجھ سے کثیر بن عبداللہ نے بیان کیا ہے وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلا ل بن حا رث مز نی رضی اللہ عنہ کو قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں بطور جاگیر دیں۔
ابن نضر کی روایت میں ہے: اوراس کے جر س اور
ذات النّصب ۱؎ کو دیا، پھر دونوں راوی متفق ہیں: اور قدس کی قابل کاشت زمین دی، اور بلال بن حارثکو کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا، اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں لکھ کر دیا کہ یہ وہ تحریر ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حا رث مز نی کو لکھ کر دی، انہیںقبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں اور قدس کی قابل کاشت زمینیں دیں، اور انہیں کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا ۔
ابو اویس کہتے ہیں کہ ثور بن زید نے مجھ سے بیان کیا انہوں نے عکر مہ سے، عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کیا اور ابن نضر نے اتنا اضافہ کیا کہ( یہ دستاویز) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لکھی۔
وضاحت ۱؎ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو جگہوں کے نام ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین کی قسموں کے نام ہیں ۔
3064- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ -الْمَعْنَى وَاحِدٌ- أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيَّ حَدَّثَهُمْ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شُمَيْرٍ - قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: ابْنِ عَبْدِ الْمَدَانِ- عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ: أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ -قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: الَّذِي بِمَأْرِبَ- فَقَطَعَهُ لَهُ، فَلَمَّا أَنْ وَلَّى قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجْلِسِ: أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ، إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ، قَالَ: فَانْتَزَعَ مِنْهُ، قَالَ: وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنَ الأَرَاكِ، قَالَ: < مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ >، وَقَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: < أَخْفَافُ الإِبِلِ >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۳۹ (۱۳۸۰)، ق/الرھون ۱۷ (۲۴۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱)، وقد أخرجہ: دي/البیوع ۶۶ (۲۶۵۰) (حسن لغیرہ)
(یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے: ثمامہ لیّن، سمی مجہول اور''شمیر'' لین ہیں، لیکن آنے والی حدیث (۳۰۶۶) سے تقویت پا کر یہ حسن ہوئی، اس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے، البانی نے دوسرے طریق کی وجہ سے اس کی تحسین کی ہے،
''ما لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ '' کے استثناء کے ساتھ، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۳۸۸)
۳۰۶۴- ابیض بن حمال مأربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے نمک کی کان کی جاگیر مانگی (ابن متوکل کی روایت میں ہے:جو مآرب ۱؎ میں تھی) تو آپ ﷺ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ وا پس مڑے تو مجلس میں مو جو د ایک شخص نے عرض کیا : جانتے ہیں کہ آپ نے ان کو کیا دے دیا ہے ؟ آپ نے ان کو ایسا پانی دے دیا ہے جو ختم نہیں ہوتا، بلا محنت ومشقت کے حا صل ہوتا ہے ۲؎ وہ کہتے ہیں: توآپ ﷺ نے اسے واپس لے لیا،تب انہوں نے آپ سے پوچھا : پیلو کے درختوں کی کونسی جگہ گھیر ی جائے ؟ ۳؎ ، آپ نے فرمایا: ''جہا ں جانوروں کے پائوں نہ پہنچ سکیں'' ۴؎ ۔
ابن متوکل کہتے ہیں: خفاف سے مراد
''أَخْفَافُ الإِبِلِ'' ( یعنی اونٹوں کے پیر)ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یمن کے ایک گاؤں کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی یہ چیز توسب کے استعمال واستفادہ کی ہے اسے کسی خاص شخص کی جاگیر میں دے دینا مناسب نہیں۔
وضاحت۳؎ : کہ جس میں اور لوگ نہ آسکیں اور اپنے جانوروہاں نہ چراسکیں۔
وضاحت۴؎ : یعنی جوآبادی اور چراگاہ سے دورہو۔
3065- حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَخْزُومِيُّ: < مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الإِبِلِ > يَعْنِي أَنَّ الإِبِلَ تَأْكُلُ مُنْتَهَى رُئُوسِهَا وَيُحْمَى مَا فَوْقَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (ضعیف جداً)
(محمد بن حسن مخزومی کذّاب راوی ہے)
۳۰۶۵- ہا رون بن عبداللہ کہتے ہیں کہ محمد بن حسن مخزومی نے کہا:
''مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الإِبِلِ'' کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کا سر جہاں تک پہنچے گا وہاں تک وہ کھائے ہی کھائے گا اس سے اوپر کا حصہ بچا یا جا سکتا ہے ( اس لئے ایسی جگہ گھیرو جہاں اونٹ جاتے ہی نہ ہوں)۔
3066- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ حِمَى الأَرَاكِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا حِمَى فِي الأَرَاكِ > فَقَالَ: أَرَاكَةٌ فِي حِظَارِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: <لا حِمَى فِي الأَرَاكِ> قَالَ فَرَجٌ: يَعْنِي بِحِظَارِي: الأَرْضَ الَّتِي فِيهَا الزَّرْعُ الْمُحَاطُ عَلَيْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳)، وقد أخرجہ: دی/ البیوع ۶۶ (۲۶۵۰) (حسن لغیرہ)
(ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۳۹۰)
ٍ ۳۰۶۶- ابیض بن حمال مأربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پیلو کی ایک چرا گا ہ مانگی ۱؎ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''پیلو میں روک نہیں ہے''، انہوں نے کہا : پیلو میرے با ڑھ اور احا طے کے اندر ہیں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''پیلو میں روک نہیں ہے''، ( اس لئے کہ اس کی حاجت سبھی آدمیوں کو ہے)۔
فرج کہتے ہیں:حظاری سے ایسی سرزمین مراد ہے جس میں کھیتی ہو تی ہو اور وہ گھری ہوئی ہو۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک احا طہ جس میں دوسرے لو گ آکر نہ درخت کا ٹیں نہ اس میں اپنے جانور چرائیں۔
3067- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبُو حَفْصٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا أَبَانُ قَالَ عُمَرُ: وَهُوَ ابْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ صَخْرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ غَزَا ثَقِيفًا، فَلَمَّا أَنْ سَمِعَ ذَلِكَ صَخْرٌ رَكِبَ فِي خَيْلٍ يُمِدُّ النَّبِيَّ ﷺ فَوَجَدَ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ قَدِ انْصَرَفَ وَلَمْ يَفْتَحْ، فَجَعَلَ صَخْرٌ يَوْمَئِذٍ عَهْدَ اللَّهِ وَذِمَّتَهُ أَنْ لا يُفَارِقَ هَذَا الْقَصْرَ حَتَّى يَنْزِلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَلَمْ يُفَارِقْهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَكَتَبَ إِلَيْهِ صَخْرٌ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ ثَقِيفًا قَدْ نَزَلَتْ عَلَى حُكْمِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَنَا مُقْبِلٌ إِلَيْهِمْ وَهُمْ فِي خَيْلٍ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالصَّلاةِ جَامِعَةً، فَدَعَا لأَحْمَسَ عَشْرَ دَعَوَاتٍ: < اللَّهُمَّ بَارِكْ لأَحْمَسَ فِي خَيْلِهَا وَرِجَالِهَا > وَأَتَاهُ الْقَوْمُ فَتَكَلَّمَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ صَخْرًا أَخَذَ عَمَّتِي وَدَخَلَتْ فِيمَا دَخَلَ فِيهِ الْمُسْلِمُونَ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: < يَا صَخْرُ، إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَادْفَعْ إِلَى الْمُغِيرَةِ عَمَّتَهُ>، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ: وَسَأَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَا لِبَنِي سُلَيْمٍ قَدْ هَرَبُوا عَنِ الإِسْلامِ، وَتَرَكُوا ذَلِكَ الْمَاءَ؟ > فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَنْزِلْنِيهِ أَنَا وَقَوْمِي، قَالَ: < نَعَمْ >، فَأَنْزَلَهُ وَأَسْلَمَ -يَعْنِي السُّلَمِيِّينَ- فَأَتَوْا صَخْرًا، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَيْهِمُ الْمَاءَ، فَأَبَى، فَأَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَسْلَمْنَا وَأَتَيْنَا صَخْرًا لِيَدْفَعَ إِلَيْنَا مَائَنَا فَأَبَى عَلَيْنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ: < يَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَهُمْ وَدِمَائَهُمْ، فَادْفَعْ إِلَى الْقَوْمِ مَائَهُمْ > قَالَ: نَعَمْ، يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَتَغَيَّرُ عِنْدَ ذَلِكَ حُمْرَةً حَيَائً مِنْ أَخْذِهِ الْجَارِيَةَ وَأَخْذِهِ الْمَاءَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۰)، دي/الزکاۃ ۳۴ (۱۷۱۵) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ابان ضعیف الحفظ اور''عثمان'' لین الحدیث ہیں)
۳۰۶۷- صخر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ثقیف سے جہاد کیا (یعنی قلعہ طائف پر حملہ آور ہوئے) چنانچہ جب صخر رضی اللہ عنہ نے اسے سنا تو وہ چند سوار لے کر نبی اکرم ﷺ کی مدد کے لئے نکلے تو دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ واپس ہوچکے ہیں اور قلعہ فتح نہیں ہوا ہے، تو صخر رضی اللہ عنہ نے اس وقت اللہ سے عہد کیا کہ وہ قلعہ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ جائیں اور قلعہ خالی نہ کردیں (پھر ایسا ہی ہوا) انہوں نے قلعہ کا محاصرہ اس وقت تک ختم نہیں کیا جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ گئے ۔
صخر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کو لکھا: ''امّا بعد، اللہ کے رسول! ثقیف آپ کا حکم مان گئے ہیں اور وہ اپنے گھوڑ سواروں کے ساتھ ہیں میں ان کے پاس جا رہا ہوں (تاکہ آگے کی بات چیت کروں)''، جب آپ ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے با جماعت صلاۃ قائم کرنے کا حکم دیا اور صلاۃ میں احمس ۱؎ کے لئے دس (باتوں کی) دعائیں مانگیں اور (ان دعائوں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی):
''اللَّهُمَّ بَارِكْ لأَحْمَسَ فِي خَيْلِهَا وَرِجَالِهَا'' (اے اللہ! احمس کے سواروں اور پیادوں میں برکت دے)، پھر سب لوگ (یعنی ضحر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی اور کہا: اللہ کے نبی! صخر نے میری پھوپھی کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ وہ اس (دین) میں داخل ہو چکی ہیں جس میں سبھی مسلمان داخل ہوچکے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے صخر رضی اللہ عنہ کو بلایا، اور فرمایا:''صخر! جب کوئی قوم اسلام قبول کر لیتی ہے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو بچا اور محفوظ کر لیتی ہے، اس لئے مغیرہ کی پھوپھی کو انہیں لوٹا دو''، تو صخر رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی پھوپھی واپس کردی، پھر صخر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سُلیمیوں کے پانی کے چشمے کو مانگا جسے وہ لوگ اسلام کے خوف سے چھوڑ کر بھاگ لئے تھے، صخر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے نبی! آپ مجھے اور میری قوم کو اس پانی کے چشمے پہ رہنے اور اس میں تصرف کرنے کا حق واختیار دے دیجئے، آپ ﷺ نے کہا: ''ہاں ہاں (لے لو اور) رہو''، تو وہ لوگ رہنے لگے (اور کچھ دنوں بعد) بنو سلیم مسلمان ہوگئے اور صخر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور صخر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ انہیں پانی (کا چشمہ) واپس دے دیں، صخر رضی اللہ عنہ (اور ان کی قوم) نے دینے سے انکار کیا (اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ چشمہ انہیں اور ان کی قوم کو دے دیا ہے) تو وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم صخر کے پاس پہنچے (اور ان سے درخواست کی) کہ ہمارا پانی کا چشمہ ہمیں واپس دے دیں تو انہوں نے ہمیں لوٹانے سے انکار کر دیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے صخر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور فرمایا: ''صخر!جب کوئی قوم اسلام قبول کر لیتی ہے تو اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیتی ہے (نہ اسے ناحق قتل کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کا مال لیا جا سکتا ہے) تو تم ان کو ان کا چشمہ دے دو، صخر رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت اچھا اللہ کے نبی! (صخر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے اس وقت رسول اللہ ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا کہ وہ شرم وندامت سے بدل گیا اور سرخ ہوگیا (یہ سوچ کر) کہ میں نے اس سے لونڈی بھی لے لی اور پانی بھی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : احمس ایک قبیلہ ہے، صخراسی قبیلہ کے ایک فرد تھے۔
وضاحت ۲؎ : لونڈی وہی مغیرہ کی پھوپھی اور پانی وہی ''بنی سلیم'' کے پانی کا چشمہ ۔
3068- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَبْرَةُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ الْجُهَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَزَلَ فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ تَحْتَ دَوْمَةٍ، فَأَقَامَ ثَلاثًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ، وَإِنَّ جُهَيْنَةَ لَحِقُوهُ بِالرَّحْبَةِ فَقَالَ لَهُمْ: < مَنْ أَهْلُ ذِي الْمَرْوَةِ > فَقَالُوا: بَنُو رِفَاعَةَ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَقَالَ: < قَدْ أَقْطَعْتُهَا لِبَنِي رِفَاعَةَ > فَاقْتَسَمُوهَا: فَمِنْهُمْ مَنْ بَاعَ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَمْسَكَ فَعَمِلَ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَبَاهُ عَبْدَالْعَزِيزِ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِي بِبَعْضِهِ وَلَمْ يُحَدِّثْنِي بِهِ كُلِّهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۲) (ضعیف)
(ربیع جہنی تابعی ضعیف ہیں، اور حدیث مرسل ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲/۴۵۷)
۳۰۶۸- ربیع جہنی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس جگہ جہاں اب مسجد ہے ایک بڑے درخت کے نیچے پڑائو کیا، وہاں تین دن قیام کیا، پھر تبوک ۱؎ کے لئے نکلے، اور جہینہ کے لوگ آپ ﷺ سے ایک وسیع میدان میں جا کر ملے (یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ہوئے) آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ''مروہ والوں میں سے یہاں کون رہتا ہے؟''، لوگوں نے کہا: بنو رفاعہ کے لوگ رہتے ہیں جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ''میں یہ زمین (علاقہ) بنو رفاعہ کو بطور جاگیر دیتا ہوں تو انہوں نے اس زمین کو آپس میں بانٹ لیا، پھر کسی نے اپنا حصہ بیچ ڈالا اور کسی نے اپنے لئے روک لیا، اور اس میں محنت ومشقت (یعنی زراعت) کی۔
ابن وہب کہتے ہیں: میں نے پھر اس حدیث کے متعلق سبرہ کے والد عبدالعزیز سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اس کا کچھ حصہ بیان کیا پورا بیان نہیں کیا۔
وضاحت ۱؎ : تبوک مدینہ سے شمال شام کی طرف ایک جگہ کا نام ہے، جہاں نو ہجری میں لشکر اسلام گیا تھا۔
3069- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ آدَمَ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقْطَعَ الزُّبَيْرَ نَخْلاً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۲)، وقد أخرجہ: خ/فرض الخمس ۱۹ (۲۸۱۵)، حم (۶/۳۴۷) (حسن صحیح)
۳۰۶۹- اسما ء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زبیر رضی اللہ عنہ (اسماء رضی اللہ عنہا کے خاوندہیں) کو کھجو ر کے کچھ درخت بطور جاگیر عنایت فرمائی ۔
3070- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ حَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايَ صَفِيَّةُ وَدُحَيْبَةُ ابْنَتَا عُلَيْبَةَ -وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ- وَكَانَتْ جَدَّةَ أَبِيهِمَا أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، قَالَتْ: تَقَدَّمَ صَاحِبِي -تَعْنِي حُرَيْثَ بْنَ حَسَّانَ، وَافِدَ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ- فَبَايَعَهُ عَلَى الإِسْلامِ عَلَيْهِ وَعَلَى قَوْمِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! اكْتُبْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ بِالدَّهْنَاءِ [ أَنْ ] لا يُجَاوِزَهَا إِلَيْنَا مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلا مُسَافِرٌ أَوْ مُجَاوِرٌ، فَقَالَ: < اكْتُبْ لَهُ يَا غُلامُ بِالدَّهْنَاءِ > فَلَمَّا رَأَيْتُهُ قَدْ أَمَرَ لَهُ بِهَا شُخِصَ بِي وَهِيَ وَطَنِي وَدَارِي: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ لَمْ يَسْأَلْكَ السَّوِيَّةَ مِنَ الأَرْضِ إِذْ سَأَلَكَ، إِنَّمَا هِيَ [هَذِهِ] الدَّهْنَاءُ عِنْدَكَ مُقَيَّدُ الْجَمَلِ، وَمَرْعَى الْغَنَمِ، وَنِسَاءُ [بَنِي] تَمِيمٍ وَأَبْنَاؤُهَا وَرَاءَ ذَلِكَ، فَقَالَ: <أَمْسِكْ يَا غُلامُ، صَدَقَتِ الْمِسْكِينَةُ، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ يَسَعُهُمَا الْمَاءُ وَالشَّجَرُ، وَيَتَعَاوَنَانِ عَلَى الْفَتَّانِ >۔
* تخريج: ت/الأدب ۵۰ (۲۸۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۴۷) (حسن)
(ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۷/۳۹۲)
۳۰۷۰- عبداللہ بن حسان عنبری کا بیان ہے کہ مجھ سے میری دا دی اورنانی صفیہ اور دحیبہ نے حدیث بیان کی یہ دونوں علیبہ کی بیٹیاں تھیں اورقیلہ بنت مخر مہ رضی اللہ عنہا کی پر ور دہ تھیں اور قیلہ ان دونوں کے والد کی دادی تھیں، قیلہ نے ان سے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ہمارا سا تھی حریث بن حسان جو بکر بن وائل کی طرف پیامبر بن کرا ٓیا تھا ہم سے آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا، اور آپ سے اسلام پر اپنی اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کی پھرعرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے اور بنو تمیم کے درمیان دہنا ء ۱؎ کو سر حدبنا دیجئے، مسا فر اور پڑوسی کے سوا اور کوئی ان میں سے آگے بڑھ کر ہماری طرف نہ آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' اے غلام! دہنا ء کوانہیں لکھ کر دے دو''، قیلہ کہتی ہیں: جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے دہنا ء انہیں دے دیا تو مجھے اس کا ملال ہو ا کیونکہ وہ میرا وطن تھا اور وہیں میرا گھر تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول ! انہوں نے اس زمین کا آپ سے مطالبہ کر کے مبنی پر انصاف مطالبہ نہیں کیا ہے، دہنا ء اونٹوں کے باندھنے کی جگہ اور بکریوں کی چرا گاہ ہے اور بنی تمیم کی عورتیں اور بچے اس کے پیچھے رہتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اے غلام رک جاؤ! (مت لکھو) بڑی بی صحیح کہہ رہی ہیں،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ایک دوسرے کے درختوں اور پانی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مصیبتوں وفتنوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے اور کام آسکتے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ :
دہناء : ایک جگہ کانام ہے۔
3071- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ جَنُوبٍ بِنْتُ نُمَيْلَةَ، عَنْ أُمِّهَا سُوَيْدَةَ بِنْتِ جَابِرٍ، عَنْ أُمِّهَا عَقِيلَةَ بِنْتِ أَسْمَرَ بْنِ مُضَرِّسٍ، عَنْ أَبِيهَا أَسْمَرَ بْنِ مُضَرِّسٍ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَبَايَعْتُهُ، فَقَالَ: < مَنْ سَبَقَ إِلَى مَا[ء] لَمْ يَسْبِقْهُ إِلَيْهِ مُسْلِمٌ فَهُوَ لَهُ > قَالَ: فَخَرَجَ النَّاسُ يَتَعَادَوْنَ [وَ] يَتَخَاطُّونَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵) (ضعیف)
(یہ سند مسلسل بالمجاہیل ہے: ام الجنوب سویدۃ اورعقیلہ سب مجہول ہیں اور عبد الحمید لین الحدیث ہیں)
۳۰۷۱- اسمر بن مضر س رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے بیعت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جو شخص کسی ایسے پانی( چشمے یا تالاب ) پر پہنچ جائے ( یعنی اس کا کھو ج لگا لے) جہا ں اس سے پہلے کوئی اور مسلمان نہ پہنچا ہو تو وہ اس کا ہے''، ( یعنی وہ اس کا مالک و مختا ر ہو گا ) ( یہ سن کر ) لو گ دو ڑتے اور نشان لگاتے ہوئے چلے ( تا کہ نشانی رہے کہ ہم یہاں تک آئے تھے)۔
3072- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَ الزُّبَيْرَ حُضْرَ فَرَسِهِ، فَأَجْرَى فَرَسَهُ حَتَّى قَامَ، ثُمَّ رَمَى بِسَوْطِهِ، فَقَالَ: < أَعْطُوهُ مِنْ حَيْثُ بَلَغَ السَّوْطُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵۶) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''عبد اللہ بن عمر'' ضعیف ہیں)
۳۰۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے زبیر رضی اللہ عنہ کو اتنی زمین جا گیر میں دی جہاں تک ان کا گھوڑا دو ڑ سکے، تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا دو ڑایا اور جہاں گھوڑار کا اس سے آگے انہوں نے اپنا کو ڑا پھینک دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''دے دو زبیر کو جہاں تک ان کا کو ڑا پہنچا ہے''۔