• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي خَاتَمِ الْحَدِيدِ
۴-باب: لو ہے کی انگوٹھی پہننا کیسا ہے؟​


4223- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، الْمَعْنَى أَنَّ زَيْدَ بْنَ حُبَابٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ السُّلَمِيِّ الْمَرْوَزِيِّ -أَبِي طَيْبَةَ- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ شَبَهٍ، فَقَالَ لَهُ: < مَا لِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الأَصْنَامِ >؟ فَطَرَحَهُ، ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ حَدِيدٍ، فَقَالَ: < مَا لِي أَرَى عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَهْلِ النَّارِ > فَطَرَحَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيِّ شَيْئٍ أَتَّخِذُهُ؟ قَالَ: < اتَّخِذْهُ مِنْ وَرِقٍ وَلا تُتِمَّهُ مِثْقَالا >.
وَلَمْ يَقُلْ مُحَمَّدٌ: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يَقُلِ الْحَسَنُ: السُّلَمِيَّ الْمَرْوَزِيَّ۔
* تخريج: ت/اللباس ۴۳ (۱۷۸۵)، ن/الزینۃ ۴۴ (۵۱۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۹) (ضعیف)
(ابوطیبہ عبداللہ بن مسلم کثیرالوہم راوی ہیں )
۴۲۲۳- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کی خدمت میں آیا، وہ پتیل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا:'' کیا با ت ہے، میں تجھ سے بتوں کی بد بومحسو س کر رہا ہوں؟''، تو اس نے اپنی انگوٹھی پھینک دی، پھر لو ہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا :'' کیا با ت ہے، میں تجھے جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے دیکھتا ہوں؟''، تو اس نے پھراپنی انگوٹھی پھینک دی، اور عرض کیا :اللہ کے رسول! پھر کس چیز کی انگوٹھی بنوائوں ؟آپ ﷺ نے فرمایا :'' چاندی کی بنوائو اور اسے ایک مثقال سے کم رکھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے اگر اس کے برابر ہو گی تو بھاری اور بد وضع ہو گی یا مردوں کے لئے اس سے زیادہ چاندی کا استعمال درست نہیں۔


4224- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى وَزِيَادُ بْنُ يَحْيَى وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ أَبُوعَتَّابٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَكِينٍ نُوحُ بْنُ رَبِيعَةَ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُعَيْقِيبِ -وَجَدُّهُ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ أَبُو ذُبَابٍ- عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كَانَ خَاتَمُ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ حَدِيدٍ مَلْوِيٌّ عَلَيْهِ فِضَّةٌ، قَالَ: فَرُبَّمَا كَانَ فِي يَدِي، قَالَ: وَكَانَ الْمُعَيْقِيبُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: ن/الزینۃ ۴۷ (۵۲۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۶) (ضعیف)
۴۲۲۴- معیقیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی انگوٹھی لوہے کی تھی اس پر چاندی کی پالش تھی کبھی کبھی وہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں ہوتی۔
ٍ راوی کہتے ہیں: اور نبی اکرمﷺ کی انگوٹھی کے امین معیقیب تھے۔


4225- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < قُلِ اللَّهُمَّ اهْدِنِي وَسَدِّدْنِي، وَاذْكُرْ بِالْهِدَايَةِ هِدَايَةَ الطَّرِيقِ، وَاذْكُرْ بِالسَّدَادِ تَسْدِيدَكَ السَّهْمَ > قَالَ: وَنَهَانِي أَنْ أَضَعَ الْخَاتَمَ فِي هَذِهِ أَوْ فِي هَذِهِ، لِلسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى، شَكَّ عَاصِمٌ، وَنَهَانِي عَنِ الْقَسِّيَّةِ وَالْمِيثَرَةِ، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَقُلْنَا لِعَلِيٍّ: مَا الْقَسِّيَّةُ؟ قَالَ: ثِيَابٌ تَأْتِينَا مِنَ الشَّامِ أَوْ مِنْ مِصْرَ مُضَلَّعَةٌ فِيهَا أَمْثَالُ الأُتْرُجِّ، قَالَ: وَالْمِيثَرَةُ: شَيْئٌ كَانَتْ تَصْنَعُهُ النِّسَاءُ لِبُعُولَتِهِنَّ۔
* تخريج: م/اللباس ۱۶ (۲۰۸۷)، ت/اللباس ۴۴ (۱۷۸۶)، ن/الزینۃ ۵۰ (۵۲۱۴)، الزینۃ من المجتبی ۲۵ (۵۲۸۸، ۵۲۸۹)، ق/اللباس ۴۳ (۳۶۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۸، ۱۳۴، ۱۳۸) (صحیح)
۴۲۲۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا :'' کہو :اے اللہ! مجھے ہدا یت دے، اور درستگی پر قائم رکھ، اور ہدایت سے سیدھی راہ پر چلنے کی نیت رکھو، درستگی سے تیر کی طرح سیدھا رہنے یعنی سیدھی راہ پر جمے رہنے کی نیت کرو''، اور آپ ﷺ نے مجھے منع فرمایا کہ انگوٹھی اِس انگلی یا اُس انگلی میں رکھوں انگشت شہادت یعنی کلمہ کی یا درمیانی انگلی میں (عاصم جو حدیث کے راوی ہیں نے شک کیا ہے) اور مجھے قسیہ اور میثرہ سے منع فرمایا ۔
ابو بردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:تو ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قسیہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک قسم کے کپڑے ہیں جو شام یا مصر سے آتے تھے، ان کی دھاریوں میں تر نج (چکوترہ) بنے ہوئے ہوتے تھے اور میثرہ وہ بچھونا (بستر) ہے جسے عورتیں اپنے خاوندوں کے لئے بنایا کرتی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّخَتُّمِ فِي الْيَمِينِ أَوِ الْيَسَارِ
۵-باب: انگوٹھی دائیں یا بائیں ہاتھ میں پہننے کا بیان​


4226- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلالٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ شَرِيكٌ: و أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ۔
* تخريج: ت/الشمائل ۱۲ (۹۰)، ن/الزینۃ ۴۶ (۵۲۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۸۰) (صحیح)
۴۲۲۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بھی بیان کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ انگوٹھی اپنے داہنے ہاتھ میں پہنتے تھے۔


4227- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَخَتَّمُ فِي يَسَارِهِ، وَكَانَ فَصُّهُ فِي بَاطِنِ كَفِّهِ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ، وَأُسَامَةُ -يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ- عَنْ نَافِعٍ [بِإِسْنَادِهِ]: فِي يَمِينِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۶۶) (شاذ)
(محفوظ اور صحیح دائیں ہاتھ میں پہننا ہے)
۴۲۲۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ انگوٹھی اپنے بائیں ہاتھ میں پہنتے تھے اور اس کا نگینہ آپ کی ہتھیلی کے نچلے حصہ کی طرف ہوتا تھا۔
ابو داود کہتے ہیں: ابن اسحاق اور اسا مہ نے یعنی ابن زید نے نا فع سے اسی سند سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔


4228- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَلْبَسُ خَاتَمَهُ فِي يَدِهِ الْيُسْرَى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۶۶) (صحیح الإسناد)
۴۲۲۸- نافع سے روایت ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہما انگوٹھی اپنے بائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔


4229- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: رَأَيْتُ عَلَى الصَّلْتِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ خَاتَمًا فِي خِنْصَرِهِ الْيُمْنَى، فَقُلْتُ: مَاهَذَا؟ قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَلْبَسُ خَاتَمَهُ هَكَذَا، وَجَعَلَ فَصَّهُ عَلَى ظَهْرِهَا، قَالَ: وَلا يَخَالُ ابْنَ عَبَّاسٍ إِلا قَدْ كَانَ يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَلْبَسُ خَاتَمَهُ كَذَلِكَ۔
* تخريج: ت/اللباس ۱۶ (۱۷۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۸۶) (حسن صحیح)
۴۲۲۹- محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے صلت بن عبداللہ بن نو فل بن عبدالمطلب کو اپنے دا ہنے ہاتھ کی چھنگلی میں انگوٹھی پہنے دیکھا تو کہا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اسی طرح اپنی انگوٹھی پہنے اور اس کے نگینہ کو اپنی ہتھیلی کی پشت کی طرف کئے دیکھا، اور کہا: یہ مت سمجھنا کہ صرف ابن عباسؓ ہی ایسا کرتے تھے، بلکہ وہ ذکر کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اپنی انگوٹھی ایسا ہی پہنی کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَلاجِلِ
۶-باب: پیروں میں گھونگھرو پہننا کیسا ہے؟​


4230- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ قَالا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ أَنَّ عَامِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ سَهْلِ: ابْنِ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ مَوْلاةً لَهُمْ ذَهَبَتْ بِابْنَةِ الزُّبَيْرِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَفِي رِجْلِهَا أَجْرَاسٌ، فَقَطَعَهَا عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ مَعَ كُلِّ جَرَسٍ شَيْطَانًا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۸۱) (ضعیف)
۴۲۳۰- عامر بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ان کی ایک لونڈی زبیر کی ایک بچی کو عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئی، اس بچی کے پاؤں میں گھنٹیاں تھیں یعنی گھونگھرو تھے تو عمرنے اسے کاٹ دیا ،اور کہنے لگے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ہر گھنٹی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔


4231- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ بُنَانَةَ مَوْلاةِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: بَيْنَمَا هِيَ عِنْدَهَا إِذْ دُخِلَ عَلَيْهَا بِجَارِيَةٍ وَعَلَيْهَا جَلاجِلُ يُصَوِّتْنَ، فَقَالَتْ: لا تُدْخِلْنَهَا عَلَيَّ إِلا أَنْ تَقْطَعُوا جَلاجِلَهَا، وَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا تَدْخُلُ الْمَلائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ جَرَسٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۴۲، ۲۴۳) (حسن)
۴۲۳۱- عبدالرحمن بن حسّان کی لونڈی بُنانہ کہتی ہیں کہ وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھیں کہ اسی دوران ایک لڑکی آپ کے پاس آئی ، اس کے پا ئوں میں گھو نگھرو بج رہے تھے تو آپ نے کہا: اسے میرے پاس نہ آنے دو جب تک تم انہیں کاٹ نہ دو، اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :''فر شتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں گھنٹی ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي رَبْطِ الأَسْنَانِ بِالذَّهَبِ
۷-باب: سونے سے دا نت بندھوانے کا بیان​


4232- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوالأَشْهَبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ، أَنَّ جَدَّهُ عَرْفَجَةَ بْنَ أَسْعَدَ قُطِعَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلابِ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ، فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ؛ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ.
* تخريج: ت/اللباس ۳۱ (۱۷۷۰)، ن/الزینۃ ۴۱ (۵۱۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۲، ۵/۲۳) (حسن)
۴۲۳۲- عبدالرحمن بن طرفہ کہتے ہیں کہ کے دادا عر فجہ بن اسعد کی ناک جنگ کّلاب ۱؎ کے دن کاٹ لی گئی، تو انہوں نے چاندی کی ایک ناک بنوائی، انہیں اس کی بد بو محسوس ہوئی، تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا، تو انہوں نے سونے کی ناک بنوالی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بصرہ اور کوفہ کے مابین ایک چشمہ کا نام ہے، زمانہ جاہلیت میں یہاں ایک جنگ ہوئی تھی (النہا یۃ لا ِ بن الا ٔ ثیر)
وضاحت ۲؎ : اگرچہ حدیث میں دانت بندھوانے کا ذکر نہیں ہے، مگر مصنف نے دانت کو ناک پر قیاس کیا کہ جب ناک جو ایک عضو ہے سونے کی بنوانی جائز ہے تو سونے سے دانتوں کا بندھوانا بھی جائز ہوگا، اسی لئے '' دانت بندھوانے کا باب'' باندھا۔


4233- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَأَبُو عَاصِمٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوالأَشْهَبِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ أَسْعَدَ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ يَزِيدُ: قُلْتُ لأَبِي الأَشْهَبِ: أَدْرَكَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ طَرَفَةَ جَدَّهُ عَرْفَجَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۵) (حسن)
۴۲۳۳- اس سند سے بھی عرفجہ بن اسعد سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، یز ید کہتے ہیں: میں نے ابو اشہب سے پوچھا: عبد الرحمن بن طرفہ نے اپنے دا دا عر فجہ کا زمانہ پایا ہے، تو انہوں نے کہا: ہاں (پایا ہے)۔


4234- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَبِي الأَشْهَبِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ أَسْعَدَ، عَنْ أَبِيهِ [أَنَّ عَرْفَجَةَ] بِمَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۵) (حسن)
۴۲۳۴- اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّهَبِ لِلنِّسَاءِ
۸-باب: عورتوں کے سونا پہننے کا بیان​


4235- حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى ابْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ حِلْيَةٌ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ أَهْدَاهَا لَهُ، فِيهَا خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ، قَالَتْ: فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِعُودٍ مُعْرِضًا عَنْهُ، أَوْ بِبَعْضِ أَصَابِعِهِ، ثُمَّ دَعَا أُمَامَةَ ابْنَةَ أَبِي الْعَاصِ -ابْنَةَ ابْنَتِهِ زَيْنَبَ- فَقَالَ: < تَحَلَّيْ بِهَذَا يَا بُنَيَّةُ >۔
* تخريج: ق/اللباس۴۰ (۳۶۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۰۱، ۱۱۹) (حسن الإسناد)
۴۲۳۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس نجاشی کی طرف سے کچھ زیور ہدیہ میں آئے اس میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی جس میں یمنی نگینہ جڑا ہوا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک لکڑی سے بغیر اس کی طرف التفات کئے پکڑا،یا اپنی بعض انگلیوں سے پکڑا، پھر اپنی نواسی زینب کی بیٹی امامہ بنت ابی العاص کوبلایا اور فرمایا:’’ بیٹی ! اسے تو پہن لے‘‘۔


4236- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنْ أَسِيدِ بْنِ أَبِي أَسِيدٍ الْبَرَّادِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُحَلِّقَ حَبِيبَهُ حَلْقَةً مِنْ نَارٍ فَلْيُحَلِّقْهُ حَلْقَةً مِنْ ذَهَبٍ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُطَوِّقَ حَبِيبَهُ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَلْيُطَوِّقْهُ طَوْقًا مِنْ ذَهَبٍ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُسَوِّرَ حَبِيبَهُ سِوَارًا مِنْ نَارٍ فَلْيُسَوِّرْهُ سِوَارًا مِنْ ذَهَبٍ، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِالْفِضَّةِ فَالْعَبُوا بِهَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۳۴، ۳۷۸) (حسن)
۴۲۳۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو اپنے محبوب کو آگ کا بالا پہنا نا چا ہے تووہ اسے سونے کی بالی پہنا دے، اور جو اپنے محبو ب کو آگ کا طوق ۱؎پہنا نا چا ہے تو اسے سونے کا طوق پہنا دے اور جو اپنے محبوب کو آگ کا کنگن پہنا نا چا ہے وہ اسے سونے کا کنگن پہنا دے، البتّہ سونے کے بجائے چاندی تمہارے لئے جائز ہے، لہذا تم اسی کو ناک یا کان میں استعمال کرو اور اس سے کھیلو۔
وضاحت ۱؎ : طوق گلے میں پہننے کا زیور، اسے گلوبند اور ہنسلی بھی کہتے ہیں۔


4237- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ أُخْتٍ لِحُذَيْفَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، أَمَا لَكُنَّ فِي الْفِضَّةِ مَا تَحَلَّيْنَ بِهِ، أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تَحَلَّى ذَهَبًا تُظْهِرُهُ إِلا عُذِّبَتْ بِهِ >۔
* تخريج: ن/الزینۃ ۳۹ (۵۱۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۴۳، ۱۸۳۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۵۵، ۳۵۷، ۳۵۸، ۳۶۹)، دي/الاستئذان ۱۷ (۲۶۸۷) (ضعیف)
(ربعی کی اہلیہ مبہم ہیں، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بہن اگرصحابیہ ہیں تو کوئی حرج نہیں ورنہ تابعیہ ہونے کی صورت میں وہ بھی مبہم ہوئیں )
۴۲۳۷- حذیفہ کی بہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے عورتوں کی جماعت!کیا زیور بنانے کے لئے تمہیں چاندی نہیں ملتی،سنو! تم میں جو عورت بھی سونے کا زیور پہنے گی تواسے قیا مت کے دن اسی سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔


4238- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ مَحْمُودَ ابْنَ عَمْرٍو الأَنْصَارِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَيُّمَا امْرَأَةٍ تَقَلَّدَتْ قِلادَةً مِنْ ذَهَبٍ قُلِّدَتْ فِي عُنُقِهَا مِثْلَهُ مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ جَعَلَتْ فِي أُذُنِهَا خُرْصًا مِنْ ذَهَبٍ جُعِلَ فِي أُذُنِهَا مِثْلُهُ مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج: ن/الزینۃ ۳۹ (۵۱۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۵۵، ۴۵۷،۴۶۰) (ضعیف)
۴۲۳۸- اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس عورت نے سونے کا ہار پہنا تو قیامت کے دن اس کے گلے میں آگ کا ہار پہنایا جائے گا، اور جس عورت نے اپنے کان میں سونے کی بالی پہنی تو قیامت کے دن اس کے کان میں اسی کے ہم مثل آگ کی بالی پہنائی جائے گی۔


4239- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ مَيْمُونٍ الْقَنَّادِ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ رُكُوبِ النِّمَارِ، وَعَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ إِلا مُقَطَّعًا.
[قَالَ أَبو دَاود: أَبُو قِلابَةَ لَمْ يَلْقَ مُعَاوِيَةَ]۔
* تخريج: ن/الزینۃ ۴۰ (۵۱۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۲، ۹۳، ۹۵، ۹۸، ۹۹) (صحیح)
۴۲۳۹- معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چیتوں کی کھال پر سواری کرنے اور سونا پہننے سے منع فرمایا ہے مگر جب مقطّع یعنی تھوڑا اور معمولی ہو ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو قلا بہ کی ملا قات معاویہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ رخصت عورتوں کے لئے ہے مردوں کے لئے سونا مطلقا حرام ہے چاہے کم ہو یا زیادہ ،عورتوں کے لئے جنس سونا حرام نہیں،سونے کی اتنی مقدار جس میں زکاۃ واجب نہیں وہ اپنے استعمال میں لاسکتی ہیں، البتہ اس سے زائد مقدار ان کے لئے بھی درست نہیں کیونکہ بسا اوقات بخل کے سبب وہ زکاۃ سے گریز کرنے لگتی ہیں جو ان کے گناہ اور حرج میں پڑ جانے کا سبب بن جاتا ہے۔


* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ 29- أوَّل كِتَاب الْفِتَنِ [وَالْمَلاحِمِ] }
۲۹-کتاب: فتنوں اور لڑائیوں کا بیان​
1- بَاب ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلائِلِهَا
۱-باب: فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان​


4240- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَائِمًا، فَمَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِي مَقَامِهِ ذَلِكَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلا حَدَّثَهُ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابُهُ هَؤُلاءِ، وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّيْئُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ ثُمَّ إِذَا رَآهُ عَرَفَهُ۔
* تخريج: خ/ القدر ۴ (۶۶۰۴)، م/ الفتن ۶ (۲۸۹۱) ، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۳، ۳۸۵، ۳۸۹، ۴۰۱) (صحیح)
۴۲۴۰- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، پھر اس مقام پر آپ نے قیامت تک پیش آنے والی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے بیان نہ فرما دیا ہو، تو جو اسے یاد رکھ سکا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا، اور وہ آپ کے ان اصحاب کو معلوم ہے، اور جب ان میں سے کوئی چیز ظہور پذیر ہوجاتی ہے تو مجھے یاد آ جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی فرمایا تھا، جیسے کوئی کسی کے غائب ہو جانے پر اس کے چہرہ کو یاد رکھتا ہے اور دیکھتے ہی اسے پہچان لیتا ہے۔


4241- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ بَدْرِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < يَكُونُ فِي هَذِهِ الأُمَّةِ أَرْبَعُ فِتَنٍ فِي آخِرِهَا الْفَنَاءُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۳۹) (ضعیف)
۴۲۴۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''اس امت میں چا ر (بڑے بڑے) فتنے ہوں گے ان کا آخری فناء ( قیامت ) ہو گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نعیم بن حماد کی فتن اور طبرانی کی معجم کبیر کی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ پہلے فتنہ میں خون حلال ہوگا، دوسرے میں خون اور مال، تیسرے میں خون (جان) مال اور شرمگاہ، اور چوتھے میں خروج دجال۔


4242- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ ابْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنِي الْعَلاءُ بْنُ عُتْبَةَ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ الْعَنْسِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الأَحْلاسِ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الأَحْلاسِ؟ قَالَ: < هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ، ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي، وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ، ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ، ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ لا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ إِلا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً، فَإِذَا قِيلَ انْقَضَتْ تَمَادَتْ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ: فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لا نِفَاقَ فِيهِ، وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لا إِيمَانَ فِيهِ، فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنْ يَوْمِهِ أَوْ [مِنْ] غَدِهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۳۳) (صحیح)
۴۲۴۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے آپ نے فتنوں کے تذکرہ میں بہت سے فتنوں کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ فتنۂ احلاس کا بھی ذکر فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول! فتنہ احلاس کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ ایسی نفرت وعداوت اور قتل وغارت گری ہے کہ انسان ایک دوسرے سے بھاگے گا، اور باہم برسر پیکار رہے گا، پھر اس کے بعد'' فتنہ سرّاء'' ہے جس کا فساد میرے اہل بیت کے ایک شخص کے پیروں کے نیچے سے رونما ہوگا، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے حالانکہ وہ مجھ سے نہ ہوگا، میرے اولیاء تو وہی ہیں جو متقی ہوں، پھر لوگ ایک شخص پر اتفاق کرلیں گے جیسے سرین ایک پسلی پر ( یعنی ایسے شخص پر اتفاق ہو گا جس میں استقامت نہ ہو گی جیسے سرین پہلو کی ہڈی پر سیدھی نہیں ہوتی)، پھر دھیماء ( اندھیرے) کا فتنہ ہو گا جو اس امت کے ہر فرد کو پہنچ کر رہے گا، جب کہا جائے گا کہ فساد ختم ہو گیا تو وہ اور بھڑک اٹھے گا جس میں صبح کو آدمی مومن ہو گا، اور شام کو کافر ہو جائے گا، یہاں تک کہ لوگ دوخیموں میں بٹ جائیں گے، ایک خیمہ اہل ایمان کا ہوگا جس میں کوئی منافق نہ ہوگا، اور ایک خیمہ اہل نفاق کا جس میں کوئی ایمان دا ر نہ ہو گا، تو جب ایسا فتنہ رونما ہو تو اسی روز، یا اس کے دو سرے روز سے دجال کا انتظار کرنے لگ جاؤ''۔


4243- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فَرُّوخَ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَخْبَرَنِي ابْنٌ لِقَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَصْحَابِي أَمْ تَنَاسَوْا؟ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ قَائِدِ فِتْنَةٍ إِلَى أَنْ تَنْقَضِيَ الدُّنْيَا يَبْلُغُ مَنْ مَعَهُ ثَلاثَ مِائَةٍ فَصَاعِدًا إِلا قَدْ سَمَّاهُ لَنَا بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ وَاسْمِ قَبِيلَتِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۷۹) (ضعیف)
۴۲۴۳- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ میرے اصحاب بھول گئے ہیں؟ یا ظاہر کررہے ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں، قسم اللہ کی ایسا نہیں ہوا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے قیامت تک ہونے والے کسی ایسے فتنہ کے سردار کا ذکر چھوڑ دیا ہو جس کے ساتھ تین سو یا اس سے زیادہ افراد ہوں، اور اس کا اور اس کے باپ اور اس کے قبیلہ کا نام لے کر آپ ﷺ نے بتا نہ دیا ہو۔


4244- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ سُبَيْعِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْكُوفَةَ فِي زَمَنِ فُتِحَتْ تُسْتَرُ أَجْلُبُ مِنْهَا بِغَالا، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا صَدْعٌ مِنَ الرِّجَالِ، وَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ تَعْرِفُ إِذَا رَأَيْتَهُ أَنَّهُ مِنْ رِجَالِ أَهْلِ الْحِجَازِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَتَجَهَّمَنِي الْقَوْمُ، وَقَالُوا: أَمَا تَعْرِفُ هَذَا؟ هَذَا حُذَيْفَةُ [بْنُ الْيَمَانِ] صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: إِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، فَأَحْدَقَهُ الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي أَرَى الَّذِي تُنْكِرُونَ، إِنِّي قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ هَذَا الْخَيْرَ الَّذِي أَعْطَانَا اللَّهُ أَيَكُونُ بَعْدَهُ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ؟ قَالَ: < نَعَمْ > قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: <السَّيْفُ > قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ مَاذَا [يَكُونُ]؟ قَالَ: إِنْ كَانَ لِلَّهِ خَلِيفَةٌ فِي الأَرْضِ فَضَرَبَ ظَهْرَكَ وَأَخَذَ مَالَكَ فَأَطِعْهُ، وَإِلا فَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ > قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: <ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ مَعَهُ نَهْرٌ وَنَارٌ، فَمَنْ وَقَعَ فِي نَارِهِ وَجَبَ أَجْرُهُ وَحُطَّ وِزْرُهُ، وَمَنْ وَقَعَ فِي نَهْرِهِ وَجَبَ وِزْرُهُ وَحُطَّ أَجْرُهُ > قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: < ثُمَّ هِيَ قِيَامُ السَّاعَةِ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۲)، وقد أخرجہ: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۰۶)، م/الإمارۃ ۱۳ (۱۸۴۷)، ق/الفتن ۱۳ (۲۹۸۱)، حم (۵/۳۸۶، ۴۰۳، ۴۰۴، ۴۰۶) (حسن)
۴۲۴۴- سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد وقامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے : کیا تم انہیں نہیں جانتے ؟ یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے با رے میں پوچھا کرتا تھا، تو لوگ انہیں غور سے دیکھنے لگے، انہوں نے کہا: جس پر تمہیں تعجب ہورہا ہے وہ میں سمجھ رہا ہوں، پھر وہ کہنے لگے: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اس خیر کے بعد جسے اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے کیا شر بھی ہوگا جیسے پہلے تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں''، میں نے عرض کیا: پھر اس سے بچائو کی کیا صورت ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تلوار'' ۱؎ ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر اس کے بعد کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' اگر اللہ کی طرف سے کوئی خلیفہ (حاکم) زمین پر ہو پھر وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگائے، اور تمہارا مال لوٹ لے جب بھی تم اس کی اطاعت کرو ورنہ تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جاؤ'' ۲؎ ، میں نے عرض کیا : پھر کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا :''پھر دجال ظاہر ہوگا، اس کے ساتھ نہر بھی ہو گی اور آگ بھی جو اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر ثابت ہو گیا، اورا س کے گناہ معاف ہو گئے، اور جو اس کی (اطا عت کر کے) نہر میں داخل ہوگیا تو اس کا گناہ واجب ہوگیا، اور اس کا اجر ختم ہو گیا''، میں نے عرض کیا : پھر کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :'' پھر قیامت قائم ہو گی''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو قتل کر دینا ہی اس کا علاج ہوگا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ایسے بے دینوں کی صحبت چھوڑ کر جنگل میں رہنا منظور کرلو اور فقر وفاقہ میں زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجاؤ۔


4245- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ابْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ خَالِدٍ الْيَشْكُرِيِّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: قُلْتُ: بَعْدَ السَّيْفِ، قَالَ: < بَقِيَّةٌ عَلَى أَقْذَائٍ، وَهُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ > ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ: وَكَانَ قَتَادَةُ يَضَعُهُ عَلَى الرِّدَّةِ الَّتِي فِي زَمَنِ أَبِي بَكْرٍ < عَلَى أَقْذَائٍ > يَقُولُ: قَذًى، وَ < هُدْنَةٌ > يَقُولُ: صُلْحٌ < عَلَى دَخَنٍ > عَلَى ضَغَائِن ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۰۷) (حسن)
۴۲۴۵- خالد بن خالد یشکری سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا : پھر تلوار کے بعد کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا :'' باقی لوگ رہیں گے مگر دلوں میں ان کے فساد ہوگا، اور ظاہر میں صلح ہو گی''، پھر ا ٓگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
راوی کہتے ہیں: قتادہ اسے ( تلوار کو ) اس فتنۂ ارتداد پر محمول کرتے تھے جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوا، اور'' اقذاء'' کی تفسیر قذی سے یعنی غبار اور گندگی سے جو ا ٓنکھ یا پینے کی چیز میں پڑ جاتی ہے، اور''ھدنہ'' کی تفسیر صلح سے، ''دخن'' کی تفسیر دلوں کے فساد اور کینوں سے کرتے تھے۔


4246- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ [الْقَعْنَبِيُّ] حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ- عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: أَتَيْنَا الْيَشْكُرِيَّ فِي رَهْطٍ مِنْ بَنِي لَيْثٍ فَقَالَ: مَنِ الْقَوْمُ؟ قُلْنَا: [بَنُو لَيْثٍ] أَتَيْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ حَدِيثِ حُذَيْفَةَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: < فِتْنَةٌ وَشَرٌّ > قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَعْدَ هَذَا الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: < يَا حُذَيْفَةُ، تَعَلَّمْ كِتَابَ اللَّهِ وَاتَّبِعْ مَا فِيهِ > ثَلاثَ مِرَارٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَعْدَ هَذَا الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: < هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ، وَجَمَاعَةٌ عَلَى أَقْذَائٍ، فِيهَا، أَوْ فِيهِمْ > قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الْهُدْنَةُ عَلَى الدَّخَنِ مَا هِيَ؟ قَالَ: < لا تَرْجِعُ قُلُوبُ أَقْوَامٍ عَلَى الَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ > قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَبَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: < فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ صَمَّاءُ، عَلَيْهَا دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ النَّارِ، فَإِنْ تَمُتْ يَا حُذَيْفَةُ! وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتَّبِعَ أَحَدًا مِنْهُمْ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۰۷) (حسن)
۴۲۴۶- نصر بن عاصم لیثی کہتے ہیں کہ ہم بنی لیث کے کچھ لوگوں کے ساتھ یشکری کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ ہم نے کہا: ہم بنی لیث کے لوگ ہیں ہم آپ کے پاس حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پو چھنے آئے ہیں؟ تو انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اس میں ہے: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''فتنہ اور شر ہوگا''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس شر کے بعد پھرخیر ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''حذیفہ! اللہ کی کتاب کو پڑھو اور جو کچھ اس میں ہے اس کی پیروی کرو''،آپ نے یہ تین بار فرمایا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''هدنة على الدخن'' ہوگا اور جماعت ہو گی جس کے دلوں میں کینہ وفساد ہو گا''، میں نے عرض کیا: ''هدنة على الدخن'' کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں واپس آئیں گے جس پر پہلے تھے'' ۱؎ ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا :'' ایک ایسا اندھا اور بہرا فتنہ ہو گا جس جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہوں گے، تو اے حذیفہ! تمہارا جنگل میں درخت کی جڑ چبا چبا کر مرجا نا بہتر ہو گا اس بات سے کہ تم ان میں کسی کی پیروی کرو''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی لوگوں کے دل پہلے کی طرح صاف نہیں ہوں گے ان کے دلوں میں بغض وکینہ باقی رہے گا۔


4247- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، عَنْ صَخْرِ بْنِ بَدْرِ الْعِجْلِيِّ، عَنْ سُبَيْعِ بْنِ خَالِدٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < فَإِنْ لَمْ تَجِدْ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةً فَاهْرُبْ حَتَّى تَمُوتَ، فَإِنْ تَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ> وَقَالَ فِي آخِرِهِ: قَالَ: قُلْتُ: فَمَا يَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلا نَتَجَ فَرَسًا لَمْ تُنْتَجْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۴۲۴۴، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۲) (حسن )
۴۲۴۷- اس سند سے بھی حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے کہ ان دنوں میں اگر مسلمانوں کا کوئی خلیفہ ( حاکم ) تمہیں نہ ملے تو بھاگ کر (جنگل میں) چلے جاؤ یہاں تک کہ وہیں مرجاؤ، اگر تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جاؤ (تو بہتر ہے ایسے بے دینوں میں رہنے سے) اس روایت کے آخر میں یہ ہے کہ میں نے کہا: پھراس کے بعد کیا ہوگا ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ''اگر کسی کی گھوڑی بچّہ جننا چاہتی ہو تو وہ نہ جن سکے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کے بعد قیامت بہت قریب ہوگی۔


4248- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الآخَرِ> قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ قَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، قُلْتُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَفْعَلَ وَنَفْعَلَ، قَالَ: أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ۔
* تخريج: م/ الإمارہ ۱۰ (۱۸۴۴)، ن/البیعۃ ۲۵ (۴۱۹۶)، ق/الفتن ۹ (۳۹۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۱، ۱۹۱، ۱۹۳) (صحیح)
۴۲۴۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس شخص نے کسی امام سے بیعت کی، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، اوراس سے عہد واقرار کیا تو اسے چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اس کی اطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا امام بن کر اس سے جھگڑنے آئے تو اس دوسرے کی گردن مار دے''۔
عبدا لرحمن کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو سے پوچھا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں اسے میرے دونوں کانوں نے سنا ہے، اور میرے دل نے یا د رکھا ہے، میں نے کہا: یہ آپ کے چچا کے لڑکے معاویہ رضی اللہ عنہ ہم سے تاکیداً کہتے ہیں کہ ہم یہ یہ کریں ( یعنی علی رضی اللہ عنہ سے لڑیں) تو انہوں نے کہا: ان کی اطا عت ان چیزوں میں کرو جس میں اللہ کی اطاعت ہو، اور جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اس میں ان کا کہنا نہ مانو۔


4249- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ شَيْبَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِاقْتَرَبَ، أَفْلَحَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۱۰)، وقد أخرجہ: م/ الفتن ۱ (۲۸۸۰)، ق/ الفتن ۹ (۳۹۵۳)، حم (۲/۳۹۰، ۳۹۱، ۴۴۱، ۵۳۶، ۵۴۱) (صحیح)
۴۲۴۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''خرابی اور بربادی ہے عربوں کے لئے اس شر سے جو قریب آچکا ہے، اس میں وہی شخص فلاح یاب رہے گا جو اپنا ہاتھ روکے رکھے''۔


4250- قَالَ أَبو دَاود: حُدِّثْتُ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُوشِكُ الْمُسْلِمُونَ أَنْ يُحَاصَرُوا إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى يَكُونَ أَبْعَدَ مَسَالِحِهِمْ سَلاحِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۱۸) وأعادہ المؤلف فی الملاحم (۴۲۹۹) (صحیح)
۴۲۵۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قریب ہے کہ مسلمان مدینہ ہی میں محصور کردیے جائیں یہاں تک کہ ان کی عملداری صرف مقام سلاح تک رہ جائے'' ۔


4251- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: وَسَلاحِ: قَرِيبٌ مِنْ خَيْبَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح الإسناد)
۴۲۵۱- ابن شہاب زہری کہتے ہیں:ا ور سلاح خیبر کے قریب ایک جگہ ہے۔


4252- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ > أَوْ قَالَ: < إِنَّ رَبِّي زَوَى لِيَ الأَرْضَ > < فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الأَحْمَرَ وَالأَبْيَضَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي أَنْ لا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَائً فَإِنَّهُ لا يُرَدُّ، وَلا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ، وَلا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِ أَقْطَارِهَا، أَوْ قَالَ بِأَقْطَارِهَا، حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، وَحَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يَسْبِي بَعْضًا، وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ، وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لا نَبِيَّ بَعْدِي، وَلا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ > قَالَ ابْنُ عِيسَى < ظَاهِرِينَ > ثُمَّ اتَّفَقَا < لايَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ >۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۵۳ (۱۹۲۰)، والفتن ۵ (۲۸۸۹)، ت/الفتن ۱۴ (۲۱۷۶)، ق/الفتن ۹ (۳۹۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۷۸، ۲۸۴) دي/المقدمۃ ۲۲ (۲۰۵) (صحیح)
۴۲۵۲- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اللہ تعالی نے میرے لئے زمین سمیٹ دی''، یا فرمایا: ''میرے لئے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق ومغر ب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقینا میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لئے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلا ک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام با قی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کوعام قحط سے ہلا ک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو سا ری زمین کے کافر مل کر ان پرحملہ کر یں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خو د آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کر یں گے، انہیں قید کر یں گے، اور میں اپنی امت پرگمراہ کردینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھا ئی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پو جنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس (۳۰) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا( ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے) وہ غالب رہے گا، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے ''۔


4253- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ ابْنُ عَوْفٍ: وَقَرَأْتُ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، عَنْ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ -يَعْنِي الأَشْعَرِيَّ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ أَجَارَكُمْ مِنْ ثَلاثِ خِلالٍ: أَنْ لا يَدْعُوَ عَلَيْكُمْ نَبِيُّكُمْ فَتَهْلَكُوا جَمِيعًا، وَأَنْ لا يَظْهَرَ أَهْلُ الْبَاطِلِ عَلَى أَهْلِ الْحَقِّ، وَأَنْ لاتَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلالَةٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۵۵) (ضعیف)
حدیث کا آخری جملہ ( وأن لا تجتمعوا۔۔۔ الخ)صحیح ہے۔
۴۲۵۳- ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے تمہیں تین آفتوں سے بچا لیا ہے: ایک یہ کہ تمہارا نبی تم پر ایسی بدعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہو جائو، دوسری یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آئیں گے ، تیسری یہ کہ تم سب گمراہی پر متفق نہیں ہو گے''۔


4254- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ نَاجِيَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < تَدُورُ رَحَى الإِسْلامِ لِخَمْسٍ وَثَلاثِينَ، أَوْ سِتٍّ وَثَلاثِينَ، أَوْ سَبْعٍ وَثَلاثِينَ، فَإِنْ يَهْلَكُوا فَسَبِيلُ مَنْ هَلَكَ، وَإِنْ يَقُمْ لَهُمْ دِينُهُمْ يَقُمْ لَهُمْ سَبْعِينَ عَامًا > قَالَ: قُلْتُ: أَمِمَّا بَقِيَ أَوْ مِمَّا مَضَى؟ قَالَ: < مِمَّا مَضَى >.
[قَالَ أَبو دَاود: مَنْ قَالَ خِرَاشٍ فَقَدْ أَخْطَأَ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۹۰، ۳۹۳، ۳۹۵) (صحیح)
۴۲۵۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اسلام کی چکی پینتیس یا چھتیس یا سینتیس سال تک گردش میں رہے گی، پھر اگر وہ ہلا ک ہوئے تو ان کی راہ وہی ہو گی جوان لوگوں کی راہ رہی جو ہلاک ہوئے اور اگر ان کا دین قائم رہا تو سترسال تک قائم رہے گا''، میں نے عرض کیا : کیا اس زمانہ سے جو باقی ہے یا اس سے جو گزر گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' اس زما نہ سے جو گزر گیا''۔


4255- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ الْعِلْمُ؛ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ، وَيُلْقَى الشُّحُّ، وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ > قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيَّةُ هُوَ؟ قَالَ: < الْقَتْلُ الْقَتْلُ >۔
* تخريج: خ/العلم ۲۴ (۸۵)، والفتنۃ ۲۵ (۷۰۶۱)، م/الزکاۃ ۱۸ (۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۸۲)، وقد أخرجہ: ق/الفتن ۲۵ (۴۰۴۵)، ۲۶ (۴۰۵۱)، حم (۲/۲۳۳، ۴۱۷، ۵۲۵) (صحیح)
۴۲۵۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' زمانہ سمٹ جائے گا، علم کم ہو جائے گا، فتنے رونما ہوں گے، لوگوں پر بخیلی ڈال دی جائے گی، اور ہرج کثرت سے ہو گا''، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' قتل، قتل''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ السَّعْيِ فِي الْفِتْنَةِ
۲-باب: فتنہ وفسادپھیلانامنع ہے​


4256- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ ابْنُ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ يَكُونُ الْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرًا مِنَ الْجَالِسِ، وَالْجَالِسُ خَيْرًا مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ خَيْرًا مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي خَيْرًا مِنَ السَّاعِي > قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، [مَا تَأْمُرُنِي]؟ قَالَ: <مَنْ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ، وَمَنْ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ فَلْيَلْحَقْ بِغَنَمِهِ، وَمَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَلْحَقْ بِأَرْضِهِ > قَالَ: فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْئٌ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: < فَلْيَعْمِدْ إِلَى سَيْفِهِ فَلْيَضْرِبْ بِحَدِّهِ عَلَى حَرَّةٍ ثُمَّ لِيَنْجُ مَا اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ > ۔
* تخريج: م/الفتن ۳ (۲۸۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۹، ۴۸) (صحیح)
۴۲۵۶- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ عنقریب ایک ایسا فتنہ رونما ہو گا کہ اس میں لیٹا ہوا شخص بیٹھے ہوئے سے بہتر ہو گا ،بیٹھا کھڑے سے بہتر ہوگا، کھڑا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے‘‘، عرض کیا: اللہ کے رسول!اس وقت کے لئے آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جس کے پاس اونٹ ہو وہ اپنے اونٹ سے جاملے، جس کے پاس بکری ہو وہ اپنی بکری سے جا ملے ،اور جس کے پاس زمین ہو تو وہ اپنی زمین ہی میں جابیٹھے ‘‘، عرض کیا: جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اپنی تلوار لے کر اس کی دھار ایک پتھر سے مار کرکند کردے( اسے لڑنے کے لائق نہ رہنے دے)پھر چاہئے کہ جتنی جلدممکن ہو سکے وہ (فتنوں سے) گلو خلاصی حاصل کرے ‘‘۔


4257- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُفَضِّلٌ، عَنْ عَيَّاشٍ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَشْجَعِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي وَبَسَطَ يَدَهُ لِيَقْتُلَنِي؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كُنْ كَابْنِ آدَمَ > وَتَلا يَزِيدُ: < لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ > الآيَةَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۴۸)، وقد أخرجہ: ت/الفتن ۲۹ (۲۱۹۴) (صحیح)
(متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’حسین ‘‘ لین الحدیث ہیں)
۴۲۵۷- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس حدیث میں کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!( اس فتنہ وفساد کے زمانہ میں ) اگرکوئی میرے گھرمیں گھس آئے، اور اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لئے بڑھائے تو میں کیا کروں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم آدم کے نیک بیٹے (ہابیل ) کی طرح ہوجاؤ‘‘ ، پھر یزید نے یہ آیت پڑھی {لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ} ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائے‘‘ ( سورۃ المائدۃ : ۲۸)


4258- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ وَابِصَةَ الأَسَدِيُّ، عَنْ أَبِيهِ وَابِصَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ، فَذَكَرَ بَعْضَ حَدِيثِ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: < قَتْلاهَا كُلُّهُمْ فِي النَّارِ> قَالَ فِيهِ: قُلْتُ: مَتَى ذَلِكَ يَا ابْنَ مَسْعُودٍ؟ قَالَ: < تِلْكَ أَيَّامُ الْهَرْجِ حَيْثُ لا يَأْمَنُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ الزَّمَانُ؟ قَالَ: تَكُفُّ لِسَانَكَ وَيَدَكَ، وَتَكُونُ حِلْسًا مِنْ أَحْلاسِ بَيْتِكَ، فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ طَارَ قَلْبِي مَطَارَهُ، فَرَكِبْتُ حَتَّى أَتَيْتُ دِمَشْقَ، فَلَقِيتُ خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ فَحَدَّثْتُهُ، فَحَلَفَ بِاللَّهِ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ لَسَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَمَا حَدَّثَنِيهِ ابْنُ مَسْعُودٍ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۴۸، ۴۴۹) (ضعف الإسناد)
۴۲۵۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا پھر انہوں نے ابی بکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی بعض باتیں ذکرکیں اس میں یہ اضافہ ہے: ’’ اس فتنہ میںجو لوگ قتل کئے جائیں گے وہ جہنم میں جائیں گے‘‘ اور اس میں مزید یہ ہے کہ میں نے پوچھا: ابن مسعود!یہ فتنہ کب ہو گا؟ کہا: یہ وہ زمانہ ہوگا جب قتل شروع ہوچکا ہو گا، اس طرح سے کہ آدمی اپنے ساتھی سے بھی مامون نہ رہے گا، میں نے عرض کیا : اگر میں یہ زمانہ پائوں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ’’تم اپنی زبان اور ہاتھ روکے رکھنا، اور اپنے گھر کے کمبلوں میں کا ایک کمبل بن جا نا ۱؎ ، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے تو میرے دل میں یکا یک خیال گزر ا کہ شا ید یہ وہی فتنہ ہو جس کا ذکر ابن مسعود نے کیا تھا، چنانچہ میں سواری پربیٹھا اور دمشق آگیا، وہاں خریم بن فا تک سے ملا اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے اس اللہ کی قسم کھا کر کہا جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ اسے انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہے جیسے ابن مسعود نے اسے مجھ سے بیان کیا تھا۔
وضاحت ۱؎ : اپنے گھر میں پڑے رہنا۔


4259- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ ثَرْوَانَ، عَنْ هُزَيْلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ، وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ، وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ، فَإِنْ دُخِلَ -يَعْنِي عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ- فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ >۔
* تخريج: ت/الفتن ۳۳ (۲۲۰۴)، ق/الفتن ۱۰ (۳۹۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۸، ۴۱۶) (صحیح)
۴۲۵۹- ابومو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت سے پہلے کچھ فتنے ہیں جیسے تاریک رات کی گھڑیاں ( کہ ہر گھڑی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے) ان فتنوں میں صبح کوآدمی مومن رہے گا، اور شام کو کافر ہوجائے گا، اور شام کو مومن رہے گا، اور صبح کو کافر ہوجائے گا، اس میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ہو گا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، تو تم ایسے فتنے کے وقت میں اپنی کمانیں توڑ دینا، ان کے تانت کاٹ ڈالنا، اور اپنی تلواروں کی دھار کو پتھروں سے مار کر ختم کر دینا ۱؎ ، پھر اگر اس پربھی کوئی تم میں سے کسی پر چڑھ آئے، تواسے چاہئے کہ وہ آدم کے نیک بیٹے (ہابیل ) کے مانند ہوجائے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان فتنوں سے بالکل کنارہ کش رہنا۔


4260- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ [يَعْنِي ابْنَ سَمُرَةَ] قَالَ: كُنْتُ آخِذًا بِيَدِ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ إِذْ أَتَى عَلَى رَأْسٍ مَنْصُوبٍ، فَقَالَ: شَقِيَ قَاتِلُ هَذَا، فَلَمَّا مَضَى قَالَ: وَمَا أُرَى هَذَا إِلا قَدْ شَقِيَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ مَشَى إِلَى رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي لِيَقْتُلَهُ فَلْيَقُلْ هَكَذَا، فَالْقَاتِلُ فِي النَّارِ وَالْمَقْتُولُ فِي الْجَنَّةِ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَوْنٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سُمَيْرٍ أَوْ سُمَيْرَةَ، وَرَوَاهُ لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ عَوْنٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سُمَيْرَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ لِيَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ -يَعْنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ- عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، و قَالَ: هُوَ فِي كِتَابِي ابْنُ سَبَرَةَ، وَقَالُوا: سَمُرَةَ، وَقَالُوا سُمَيْرَةَ، هَذَا كَلامُ أَبِي الْوَلِيدِ ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۹۶، ۱۰۰) (ضعیف)
۴۲۶۰- عبد الرحمن بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ میں ابن عمررضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑے چل رہاتھا کہ وہ اچا نک ایک لٹکے ہوئے سر کے پاس آئے اور کہنے لگے: بدبخت ہے جس نے اسے قتل کیا ،پھر جب کچھ اور آگے بڑھے تو کہا :میں تو اسے بدبخت ہی سمجھ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے: ’’جو شخص میری امت میں سے کسی شخص کی طرف چلا تاکہ وہ اسے (ناحق) قتل کرے، پھروہ اسے قتل کردے تو قتل کرنے والا جہنم میں ہو گا، اور جسے قتل کیا گیاہے وہ جنت میں ہوگا‘‘۔


4261- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ، بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنِ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا أَبَا ذَرٍّ> قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ فِيهِ: <كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْوَصِيفِ >؟ [يَعْنِي الْقَبْرَ] قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، أَوْ قَالَ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ: < عَلَيْكَ بِالصَّبْرِ > أَوْ قَالَ: <تَصْبِرُ > ثُمَّ قَالَ لِي: < يَا أَبَا ذَرٍّ > قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: < كَيْفَ أَنْتَ إِذَا رَأَيْتَ أَحْجَارَ الزَّيْتِ قَدْ غَرِقَتْ بِالدَّمِ >؟ قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ: < عَلَيْكَ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ > قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلا آخُذُ سَيْفِي وَأَضَعُهُ عَلَى عَاتِقِي؟ قَالَ: <شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذَنْ > قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: < تَلْزَمُ بَيْتَكَ > قُلْتُ: فَإِنْ دُخِلَ عَلَيَّ بَيْتِي؟ قَالَ: < فَإِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ ثَوْبَكَ عَلَى وَجْهِكَ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِهِ >.
قَالَ أَبو دَاود: لَمْ يَذْكُرِ الْمُشَعَّثَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ۔
* تخريج: ق/الفتن ۱۰ (۳۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴۹، ۱۶۳)، وأعادہ المؤلف فی الحدود (۴۴۰۹) (صحیح)
۴۲۶۱- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ ابو ذر!‘‘،میں نے عرض کیا: تعمیل حکم کے لئے حاضر ہوں، اللہ کے رسول!پھر انہوں نے حدیث ذکر کی اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابو ذر!اس دن تمہارا کیا حال ہوگا؟ جب مدینہ میں اتنی مو تیں ہوں گی کہ گھر یعنی قبر ایک غلام کے بدلہ میں ملے گا ؟‘‘ ۱؎ ، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، یاکہا: اللہ اور اس کے رسول میرے لئے ایسے مو قع پر کیا پسند فرماتے ہیں؟آپ نے فرمایا:’’ صبر کو لا زم پکڑنا‘‘، یا فرمایا: ’’صبر کر نا‘‘، پھرا ٓپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا :’’ اے ابو ذر !‘‘،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ارشاد فرما ئیں تعمیل حکم کے لئے حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’تمہارا اکیا حال ہو گا جب تم احجار الزیت ۲؎ کو خون میں ڈوبا ہوا دیکھو گے‘‘، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کے رسول میرے لئے پسند فرما ئیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’اس جگہ کو لا زم پکڑنا جہاں کے تم ہو۳؎‘‘، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی تلوار لے کراسے اپنے کندھے پر نہ رکھ لوں؟،آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تب تو تم ان کے شریک بن جاؤ گے‘‘، میں نے عرض کیا : پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’اپنے گھر کو لا زم پکڑنا‘‘، میں نے عرض کیا: اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلواروں کی چمک تمہاری نگاہیں خیرہ کردے گی تو تم اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لینا (اور قتل ہو جانا ) وہ تمہارا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک قبر کی جگہ کے لئے ایک غلام دینا پڑے گایا ایک قبر کھودنے کے لئے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہو جائیں گے کہ ہر ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔
وضاحت ۲؎ : مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔


4262- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي > قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: < كُونُوا أَحْلاسَ بُيُوتِكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظرحدیث رقم : (۴۲۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۸) (صحیح)
۴۲۶۲- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تمہارے سامنے فتنے ہوں گے اندھیری رات کی گھڑیوں کی طرح ۱؎ ان میں صبح کو آدمی مو من رہے گا اور شام کو کافر، اور شام کو مومن رہے گا اور صبح کو کافر، اس میں بیٹھا ہوا کھڑے شخص سے بہتر ہو گا، اور کھڑا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والادوڑنے والے سے بہتر ہوگا‘‘، لوگوں نے عرض کیا: تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم اپنے گھر کا ٹاٹ بن جا نا‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہر فتنہ پہلے فتنہ سے زیادہ بڑا ہوگا جیسے اندھیری را ت کی ہر گھڑ ی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی گھر میں پڑے رہنا۔


4263- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ قَالَ: ايْمُ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ، إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ، إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ، وَلَمَنِ ابْتُلِيَ فَصَبَرَ فَوَاهًا >.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴۲) (صحیح)
۴۲۶۳- مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:’’ نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دور رہا، نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دوررہا، اور جو اس میں پھنس گیا پھر اس نے صبر کیا تو پھر اس کا کیا کہنا ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي كَفِّ اللِّسَانِ
۳-باب: فتنے میں زبان کو قابو میں رکھنا​


4264- حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ خَالِدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < سَتَكُونُ فِتْنَةٌ صَمَّاءُ بَكْمَاءُ عَمْيَاءُ مَنْ أَشْرَفَ لَهَا اسْتَشْرَفَتْ لَهُ، وَإِشْرَافُ اللِّسَانِ فِيهَا كَوُقُوعِ السَّيْفِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۴۴) (ضعیف)
۴۲۶۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’عنقریب ایک بہرا گو نگا اور اندھا فتنہ ہوگا ۱؎جواس میں جھانکے گا اسے وہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اور زبان چلانا اس میں ایسے ہو گا جیسے تلوار چلانا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : فتنہ کے بہرے ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدمی حق بات سننے والا نہیں ہوگا، اور اس کے گونگے ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس میں حق بات بولنے والا کوئی نہیں ہوگا۔


4265- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ زِيَادٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ، قَتْلاهَا فِي النَّارِ، اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنِ الأَعْجَمِ۔
* تخريج: ت/الفتن ۱۶ (۲۱۷۸)، ق/الفتن ۲۱ (۳۹۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۱، ۲۱۲) (ضعیف)
۴۲۶۵- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ عنقریب ایک ایسا فتنہ ہوگا جو پورے عرب کو گھیر لے گا جو اس میں ما رے جائیں گے جہنم میں جائیں گے، اس میں زبان کا چلانا تلوار چلانے سے بھی زیادہ سخت ہو گا‘‘۔


4266- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْقُدُّوسِ قَالَ: زِيَادٌ سِيْمِينُ كُوشَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۱)
۴۲۶۶- عبداللہ بن عبدالقدوس نے ’’عن رجل يقال له زياد‘‘ کے بجائے ’’زیاد سیمین کوش‘‘ کہا ہے جس کے معنی سفید کان والا کے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4 - بَاب مَا يُرَخَّصُ فِيهِ مِنَ الْبَدَاوَةِ فِي الْفِتْنَةِ
۴-باب: فتنہ کے دنوں میں آبادی سے باہر دور چلے جانے کی رخصت کا بیان​


4267- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ [بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ] ابْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمًا يَتَّبِعُ بِهَا شَغَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ >.
* تخريج: خ/الإیمان ۱۲ (۱۹)، بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۰)، المناقب ۲۵ (۳۶۰۰)، الرقاق ۳۴ (۶۴۹۵)، ن/الإیمان ۳۰ (۵۰۳۹)، ق/الفتن ۱۳ (۳۹۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۰۳)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۶ (۱۶)، حم (۳/۶، ۳۰، ۴۳، ۵۷) (صحیح)
۴۲۶۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں، جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور با رش کے مقاما ت پر پھر تا اور اپنا دین لے کر وہ فساد اور فتنوں سے بھاگتا ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ الْقِتَالِ فِي الْفِتْنَةِ
۵-باب: فتنہ و فساد کے دنوں میں لڑائی کرنا منع ہے​


4268- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ وَيُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ ابْنِ قَيْسٍ، قَالَ: خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ -يَعْنِي فِي الْقِتَالِ- فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ > قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: <إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۲، (۳۱)، والدیات ۲ (۶۸۷۵)، والفتن ۱۰ (۷۰۸۲)، م/الفتن ۴ (۲۸۸۸)، ن/المحاربۃ ۲۵ (۴۱۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳، ۴۷، ۵۱) (صحیح)
۴۲۶۸- احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تا کہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑوں) تو مجھے(راستہ میں) ابو بکرہ رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے کہا: تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے :''جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے'' ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قاتل(کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا''۔


4269- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْحَسَنِ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ مُخْتَصَرًا۔
قَاْلَ أَبُوْ دَاْوُدَ: لِمُحَمَّدٍ أَخٌ ضَعِيْفٌ -يَعْنِيْ المُتَوَكِّلَ- يُقَاْلُ لَهُ: حُسَيْنْ.
* تخريج: انظر ما قبلہ ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۵)
۴۲۶۹- اس سند سے بھی حسن سے اسی مفہوم کی حدیث مختصراً مروی ہے۔
 
Top