• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ تَهْيِيجِ التُّرْكِ والْحَبَشَةِ
۸-باب: کافر ترکوں اور حبشیوں سے چھیڑ چھاڑ منع ہے​


4302- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ [مُحَمَّدٍ] الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ السَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي سُكَيْنَةَ رَجُلٌ مِنَ الْمُحَرَّرِينَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: <دَعُوا الْحَبَشَةَ مَا وَدَعُوكُمْ، وَاتْرُكُوا التُّرْكَ مَا تَرَكُوكُمْ >۔
* تخريج: ن/الجہاد ۴۲ (۳۱۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۹) (حسن)
۴۳۰۲- ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' حبشہ کے کافروں کو اس وقت تک چھوڑے رہو جب تک کہ وہ تم سے چھیڑچھاڑ نہ کریں، اور ترکوں کو بھی چھوڑے رہو جب تک کہ وہ تم سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ایک جنگی تدبیر تھی جو نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو بتلائی کہ یہ کافر اقوام جب تک مسلمانوں کے خلاف اقدام نہ کریں ، مسلمانوں کو بھی ان سے جنگ میں ابتداء نہ کرنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي قِتَالِ التُّرْكِ
۹-باب: کافر ترکوں سے لڑنے کا بیان​


4303- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ -يَعْنِي الإِسْكَنْدَرَانِيَّ- عَنْ سُهَيْلٍ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَالِحٍ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ التُّرْكَ، قَوْمًا وُجُوهُهُمْ كَالْمَجَانِّ الْمُطْرَقَةِ، يَلْبَسُونَ الشَّعْرَ >۔
* تخريج: م/الفتن ۱۸ (۲۹۱۲)، ن/الجہاد ۴۲ (۳۱۷۹)، ق/الفتن ۳۶ (۴۰۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۶۶)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۹۵ (۲۹۲۸)، ۹۶ (۲۹۲۹)، المناقب ۲۵ (۳۵۹۰)، حم ( ۲ /۲۳۹، ۲۷۱، ۳۰۰، ۳۱۹، ۳۳۸، ۴۷۵، ۴۹۳، ۵۳۰) (صحیح)
۴۳۰۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان ترکوں سے نہ لڑیں جو ایک ایسی قوم ہوگی جن کے چہرے تہ بہ تہ جمی ہوئی ڈھالوں کے مانند ہونگے، اور وہ بالوں کے لباس پہنتے ہوں گے ''۔


4304- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ السَّرْحِ وَغَيْرُهُمَا، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً، قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ، وَلا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الأَعْيُنِ ذُلْفَ الآنُفِ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ >۔
* تخريج: خ/ الجہاد ۹۶ (۲۹۲۹)، م/ الإمارۃ ۱۲ (۲۹۱۲)، ت/ الفتن ۴۰ (۲۲۱۵)، ق/ الفتن ۳۶ (۴۰۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۹) (صحیح)
۴۳۰۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے لڑوگے جن کی جوتیاں بالوں کی ہوں گی، اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے لڑوگے جن کی آنکھیں چھوٹی اور ناک چپٹی ہوں گی، اور ان کے چہرے اس طرح ہوں گے گویا تہ بہ تہ ڈھال ہیں''۔


4305- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَدِيثِ: < يُقَاتِلُكُمْ قَوْمٌ صِغَارُ الأَعْيُنِ > يَعْنِي التُّرْكَ، قَالَ: < تَسُوقُونَهُمْ ثَلاثَ مِرَارٍ حَتَّى تُلْحِقُوهُمْ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، فَأَمَّا فِي السِّيَاقَةِ الأُولَى فَيَنْجُو مَنْ هَرَبَ مِنْهُمْ، وَأَمَّا فِي الثَّانِيَةِ فَيَنْجُو بَعْضٌ وَيَهْلَكُ بَعْضٌ، وَأَمَّا فِي الثَّالِثَةِ فَيُصْطَلَمُونَ > أَوْ كَمَا قَالَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۹)، وقد أخرجہ: حم ( ۵/۳۴۸) (ضعیف)
۴۳۰۵- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:'' تم سے ایک ایسی قوم لڑے گی جس کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی''، یعنی ترک، پھر فرمایا:'' تم انہیں تین بار پیچھے کھدیڑ دوگے، یہاں تک کہ تم انہیں جزیرہ ٔ عرب سے ملا دو گے، تو پہلی بار میں ان میں سے جو بھاگ گیا وہ نجات پا جائے گا، اور دوسری بار میں کچھ بچ جائیں گے، اور کچھ ہلاک ہو جائیں گے، اور تیسری بار میں ان کا بالکل خاتمہ ہی کردیا جائے گا '' أو کماقال (جیسا آپ ﷺ نے فرمایا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہی روایت امام ا حمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے جس کا سیاق ابو داود کی اس حدیث کے سیاق کے مخالف ہے، اس میں ہے بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھا تھا، میں نے آپ کوکہتے سنا کہ میری امت کو ایک ایسی قوم تین بار کھدیڑے گی جس کے چہرے چوڑے، اور آنکھیں چھوٹیں ہوں گی، گویا ان کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال ہوں گے، یہاں تک کہ وہ انہیں جزیرۂ عرب سے ملادیں گے۔۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھدیڑنے والے ترک ہوں گے، وہ مسلمانوں کو کھدیڑیں گے، اس اختلاف کے ذکر کے بعد صاحب عون لکھتے ہیں: ''وعندي أن الصواب هي رواية أحمد وأما رواية أبي داود فالظاهر أنه وقع الوهم فيه من بعض الرواة''، اور اپنے اس نقطہ نظر کی تائید میں انہوں نے مزید شواہد بھی ذکر کئے ہیں (ملاحظہ ہو عون المعبود،۴؍۱۸۷)، علی کل حال بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ضعیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10- بَاب فِي ذِكْرِ الْبَصْرَةِ
۱۰-باب: بصرہ کا بیان​


4306- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يَنْزِلُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي بِغَائِطٍ يُسَمُّونَهُ الْبَصْرَةَ عِنْدَ نَهْرٍ يُقَالُ لَهُ دِجْلَةُ يَكُونُ عَلَيْهِ جِسْرٌ يَكْثُرُ أَهْلُهَا وَتَكُونُ مِنْ أَمْصَارِ الْمُهَاجِرِينَ > قَالَ ابْنُ يَحْيَى: قَالَ أَبُو مَعْمَرٍ: < وَتَكُونُ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ؛ فَإِذَا كَانَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ جَاءَ بَنُو قَنْطُورَاءَ عِرَاضُ الْوُجُوهِ صِغَارُ الأَعْيُنِ حَتَّى يَنْزِلُوا عَلَى شَطِّ النَّهْرِ، فَيَتَفَرَّقُ أَهْلُهَا ثَلاثَ فِرَقٍ: فِرْقَةٌ يَأْخُذُونَ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَالْبَرِّيَّةِ وَهَلَكُوا، وَفِرْقَةٌ يَأْخُذُونَ لأَنْفُسِهِمْ وَكَفَرُوا، وَفِرْقَةٌ يَجْعَلُونَ ذَرَارِيَّهُمْ خَلْفَ ظُهُورِهِمْ وَيُقَاتِلُونَهُمْ وَهُمُ الشُّهَدَاءُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۰۴)، وقد أخرجہ: حم ( ۵/۴۰، ۴۵) (حسن)
۴۳۰۶- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت کے کچھ لوگ دجلہ نامی ایک نہرکے قریب کے ایک نشیبی زمین پر اتریں گے جسے وہ لوگ بصرہ کہتے ہوں گے، اس پر ایک پل ہوگا، وہاں کے لوگ ( تعداد میں ) دیگر شہروں کے بالمقابل زیادہ ہوں گے، اور وہ مہاجرین کے شہروں میں سے ہوگا (ابومعمر کی روایت میں ہے کہ وہ مسلمانوں کے شہروں میں سے ہوگا)، پھر جب آخری زمانہ ہوگا تو وہاں قنطورہ ۱؎ کی اولاد ( اہل بصرہ کے قتل کے لئے ) آئیگی جن کے چہرے چوڑے، اور آنکھیں چھوٹی ہوں گی، یہاں تک کہ وہ نہر کے کنارے اتریں گے، پھر تین گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک گروہ تو بیل کی دم، اور صحرا کو اختیار کرکے ہلاک ہوجائے گا، اور ایک گروہ اپنی جانوں کو بچا کر کافر ہوجانے کو قبول کرلے گا، اور ایک گروہ اپنی اولاد کو اپنے پیچھے چھوڑ کر نکل کھڑا ہوگا، اور ان سے لڑے گا یہی لوگ شہداء ہوں گے'' ۔
وضاحت ۱؎ : ترکوں کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔


4307- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا مُوسَى الْحَنَّاطُ -لا أَعْلَمُهُ إِلا ذَكَرَهُ عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لَهُ: < يَا أَنَسُ، إِنَّ النَّاسَ يُمَصِّرُونَ أَمْصَارًا، وَإِنَّ مِصْرًا مِنْهَا يُقَالُ لَهُ الْبَصْرَةُ أَوِ الْبُصَيْرَةُ، فَإِنْ أَنْتَ مَرَرْتَ بِهَا، أَوْ دَخَلْتَهَا، فَإِيَّاكَ وَسِبَاخَهَا وَكِلائَهَا وَسُوقَهَا وَبَابَ أُمَرَائِهَا، وَعَلَيْكَ بِضَوَاحِيهَا؛ فَإِنَّهُ يَكُونُ بِهَا خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَرَجْفٌ، وَقَوْمٌ يَبِيتُونَ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۶) (صحیح)
۴۳۰۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ شہر بسائیں گے انہیں شہروں میں سے ایک شہرہوگا جسے بصرہ یا بصیرہ کہا جاتا ہوگا، اگر تم اس سے گزرنا یا اس میں داخل ہونا تو اس کی سب شور زمین اس کی کلاء ۱؎ اس کے بازار اور اس کے امراء کے دروازوں سے اپنے آپ کو بچانا، اور اپنے آپ کو اس کے اطراف ہی میں رکھنا، کیونکہ اس میں خسف (زمینوں کا دھنسنا ) قذف ( پتھر برسنا) اور رجف ( زلزلہ ) ہوگا، اور کچھ لوگ رات صحیح سالم ہوکر گزار یں گے، اور صبح کو بندر اور سور ہوکر اٹھیں گے۔
وضاحت ۱؎ : بصرہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔


4308- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ صَالِحِ بْنِ دِرْهَمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: انْطَلَقْنَا حَاجِّينَ فَإِذَا رَجُلٌ فَقَالَ لَنَا: إِلَى جَنْبِكُمْ قَرْيَةٌ يُقَالُ لَهَا الأُبُلَّةُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: مَنْ يَضْمَنُ لِي مِنْكُمْ أَنْ يُصَلِّيَ [لِي] فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَكْعَتَيْنِ أَوْ أَرْبَعًا وَيَقُولَ هَذِهِ لأَبِي هُرَيْرَةَ؟ سَمِعْتُ خَلِيلِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مِنْ مَسْجِدِ الْعَشَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَاءَ لا يَقُومُ مَعَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ غَيْرُهُمْ >.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا الْمَسْجِدُ مِمَّا يَلِي النَّهْرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۰۱) (ضعیف)
۴۳۰۸- صالح بن درہم کہتے ہیں کہ ہم حج کے ارادہ سے چلے تو اچانک ہمیں ایک شخص ملا ۱؎ جس نے ہم سے پوچھا: کیا تمہارے قریب میں کوئی ایسی بستی ہے جسے ابلّہ کہا جاتا ہو؟ ہم نے کہا :ہاں، ہے، پھر اس نے کہا : تم میں سے کون اس بات کی ضمانت لیتا ہے کہ وہ وہاں مسجد عشار میں میرے لئے دو یا چار رکعت صلاۃ پڑھے؟ اور کہے: اس کا ثواب ابوہریرہ کو ملے کیونکہ میں نے اپنے خلیل ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے سنا ہے :''اللہ قیامت کے دن مسجد عشّار سے ایسے شہداء اٹھائے گا جن کے علاوہ کوئی اور شہداء بدر کے ہم پلہ نہ ہوں گے''۔
ابو داود کہتے ہیں :یہ مسجد نہر ۲؎ کے متصل ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مراد نہر فرات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11- بَاب النَّهْيِ عَنْ تَهْيِيجِ الْحَبَشَةِ
۱۱-باب: اہل حبشہ سے چھیڑ چھاڑ منع ہے​


4309- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حَنِيفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوكُمْ، فَإِنَّهُ لا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۰۴)، وقد أخرجہ: حم ( ۵/۳۷۱) (حسن)
۴۳۰۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اہل حبشہ کو چھوڑے رہو جب تک وہ تمہیں چھوڑے ہوئے ہیں ۱؎ ، کیونکہ کعبہ کے خزانے کو سوائے ایک باریک پنڈلیوں والے حبشی کے کوئی اور نہیں نکالے گا'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان سے چھیڑ خوانی میں پہل نہ کرو۔
وضاحت ۲ ؎ : ایسا قیامت کے قریب عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12- بَاب أَمَارَاتِ السَّاعَةِ
۱۲-باب: قیامت کی نشانیوں کا بیان​


4310- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، قَالَ: جَاءَ نَفَرٌ إِلَى مَرْوَانَ بِالْمَدِينَةِ، فَسَمِعُوهُ يُحَدِّثُ فِي الآيَاتِ أَنَّ أَوَّلَهَا الدَّجَّالُ، قَالَ: فَانْصَرَفْتُ إِلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: لَمْ يَقُلْ شَيْئًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ أَوَّلَ الآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، أَوِ الدَّابَّةُ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، فَأَيَّتُهُمَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالأُخْرَى عَلَى أَثَرِهَا > قَالَ عَبْدُاللَّهِ، وَكَانَ يَقْرَأُ الْكُتُبَ: وَأَظُنُّ أَوَّلَهُمَا خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا۔
* تخريج: م/الفتن ۲۳ (۲۹۴۱)، ق/الفتن ۳۲ (۴۰۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۴، ۲۰۱) (صحیح)
۴۳۱۰- ابوزرعہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ مروان کے پاس مدینہ آئے تو وہاں اسے ( قیامت کی ) نشانیوں کے متعلق بیان کرتے سنا کہ سب سے پہلی نشانی ظہور دجال کی ہوگی، تو میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان سے اسے بیان کیا، تو عبداللہ نے صرف اتنا کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ پہلی نشانی سورج کا پچھم سے طلوع ہونا ہے، یا بوقت چاشت لوگوں کے درمیان دابّہ (چوپایہ) کا ظہور ہے، ان دونوں میں سے جونشانی بھی پہلے واقع ہو دوسری بالکل اس سے متصل ہوگی، اور عبداللہ بن عمروجن کے زیر مطالعہ آسمانی کتابیں رہا کرتی تھیں کہتے ہیں: میرا خیال ہے ان دونوں میں پہلے سورج کا پچھم سے نکلنا ہے۔


4311- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَهَنَّادٌ، الْمَعْنَى، قَالَ مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا فُرَاتٌ الْقَزَّازُ، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، وَقَالَ هَنَّادٌ: عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِي ظِلِّ غُرْفَةٍ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرْنَا السَّاعَةَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لَنْ تَكُونَ، أَوْ لَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، حَتَّى يَكُونَ قَبْلَهَا عَشْرُ آيَاتٍ: طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ، وَخُرُوجُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَالدَّجَّالُ، وَعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَالدُّخَانُ، وَثَلاثَةُ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْيَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ >۔
* تخريج: م/الفتن ۱۳ (۲۹۰۱)، ت/الفتن ۲۱ (۲۱۸۳)، ق/الفتن ۲۸ (۴۰۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۷)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۷) (صحیح)
۴۳۱۱- حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے کمرے کے زیر سایہ بیٹھے باتیں کررہے تھے، ہم نے قیامت کا ذکر کیا تو ہماری آوازیںبلند ہو گئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت اس وقت تک نہیں ہوگی، یا قائم نہیں ہوگی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں : سورج کا پچھم سے طلوع ہونا، دابہ (چوپایہ) کا ظہور ، یا جوج وماجوج کا خروج، ظہوردجال ،ظہور عیسیٰ بن مریم، ظہور دخان(دھواں) اور تین جگہوں : مغرب، مشرق اور جزیرۂ عرب میں خسف (دھنسنا) اور سب سے آخر میں یمن کی طرف سے عدن کے گہرائی میں سے ایک آگ ظاہر ہوگی وہ ہانک کر لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی''۔


4312- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا، فَذَاكَ حِينَ: ( لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ) > الآيَةَ۔
* تخريج: خ/تفسیر القرآن ۷ (۴۶۳۵)، الرقاق ۴۰ (۶۵۰۶)، الفتن ۲۵ (۷۱۲۱)، م/الإیمان ۷۲ (۱۵۷)، ق/الفتن ۳۱ (۴۰۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۹۷)، وقد أخرجہ: ت/التفسیر ۷ (۳۰۷۲)، حم ( ۲/۲۳۱، ۳۱۳، ۳۵۰، ۳۷۲،۵۳۰) (صحیح)
۴۳۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سورج پچھم سے نہ نکل آئے، تو جب سورج نکلے گا اور لوگ اس کو دیکھ لیں گے تو جو بھی روئے زمین پر ہوگا ایمان لے آئے گا،لیکن یہی وہ وقت ہوگا جب کسی کو بھی جو اس سے پہلے ایمان نہ لے آیا ہو اور اپنے ایمان میں خیر نہ کما لیا ہواس کا ایمان فائدہ نہ دے گا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
13- بَاب فِي حَسْرِ الْفُرَاتِ عَنْ كَنْزٍ
۱۳-باب: دریائے فرات میں سے خزانہ نکلنے کا بیان​


4313- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ السَّكُونِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ كَنْزٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَمَنْ حَضَرَهُ فَلا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا >.
* تخريج: خ/الفتن ۲۴ (۷۱۱۹)، م/الفتن ۸ (۲۸۹۴)، ت/صفۃ الجنۃ ۲۶ (۲۵۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۶۳)، وقد أخرجہ: ق/الفتن ۲۵ (۴۰۴۶)، حم ( ۲/۲۶۱، ۳۳۲، ۳۶۰) (صحیح)
۴۳۱۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''قریب ہے کہ فرات کے اندر سونے کا خزانہ نکلے تو جو کوئی وہاں موجود ہو اس میں سے کچھ نہ لے ''۔


4314- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنِي عُقْبَةُ -يَعْنِي ابْنَ خَالِدٍ- حَدَّثَنِي عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، مِثْلَهُ إِلا أَنَّهُ قَالَ: < يَحْسِرُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۹۵) (صحیح)
۴۳۱۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مگر اس میں ہے کہ سونے کا پہاڑ ظاہر ہوجائے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پانی خشک ہوجائے گا اور سونے کا پہاڑ نظر آنے لگے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
14- بَاب خُرُوجِ الدَّجَّالِ
۱۴-باب: دجال کے نکلنے کا بیان​


4315- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ حُذَيْفَةُ وَأَبُو مَسْعُودٍ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: لأَنَا بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ أَعْلَمُ مِنْهُ، إِنَّ مَعَهُ بَحْرًا مِنْ مَائٍ وَنَهْرًا مِنْ نَارٍ، فَالَّذِي تَرَوْنَ أَنَّهُ [مَنْ] نَارٌ مَائٌ، وَالَّذِي تَرَوْنَ أَنَّهُ مَائٌ نَارٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ [فَأَرَادَ الْمَاءَ] فَلْيَشْرَبْ مِنَ الَّذِي يَرَى أَنَّهُ نَارٌ؛ فَإِنَّهُ سَيَجِدُهُ مَائً، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ الْبَدْرِيُّ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۰ (۳۴۵۰) والفتن ۲۶ (۷۱۳۰)، م/الفتن ۲۰ (۲۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۹۵، ۳۹۹) (صحیح)
۴۳۱۵- ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اکٹھا ہوئے تو حذیفہ نے کہا :دجال کے ساتھ جو چیزہوگی میں اسے خوب جانتا ہوں، اس کے ساتھ ایک نہر پانی کی ہوگی اور ایک آگ کی، جس کو تم آگ سمجھتے ہو گے وہ پانی ہوگا،اور جس کو پانی سمجھتے ہوگے وہ آگ ہوگی، تو جو تم میں سے اسے پائے اور پانی پینا چاہے تو چاہئے کہ وہ اس میں سے پئے جسے وہ آگ سمجھ رہا ہے کیونکہ وہ اسے پانی پائے گا ۔
ابو مسعودبدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اسی طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا۔


4316- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < مَا بُعِثَ نَبِيٌّ إِلا قَدْ أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ الأَعْوَرَ الْكَذَّابَ أَلاوَإِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبًا كَافِرٌ >۔
* تخريج: خ/الفتن ۲۶ (۷۱۳۱) التوحید ۱۷ (۷۴۰۸)، م/الفتن ۲۰ (۲۹۳۳)، ت/الفتن۶۲ (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۳، ۱۷۳، ۲۷۶، ۲۹۰) (صحیح)
۴۳۱۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا گیا جس نے اپنی امت کو کانے اور جھوٹے دجال سے ڈرایا نہ ہو، توخوب سن لو کہ وہ کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے، اور اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ یعنی پیشانی پر’’ کافر‘‘ لکھا ہوگا‘‘ ۔


4317- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، (ك ف ر)۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۱)
۴۳۱۷- شعبہ سے ’’ک ف ر‘‘ مروی ہے ۔


4318- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَنَسِ [بْنِ مَالِكٍ]، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: < يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُسْلِمٍ >۔
* تخريج: م/ الفتن ۲۰ (۲۹۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۱۱، ۲۴۹) (صحیح)
۴۳۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے :’’ اسے ہر مسلمان پڑھ لے گا ‘‘ ۔


4319- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلالٍ، عَنْ أَبِي الدَّهْمَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ يُحَدِّثُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْأَ عَنْهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ فَيَتَّبِعُهُ مِمَّا يَبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ، أَوْ لِمَا يُبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ > هَكَذَا قَالَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۳۸)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۴۳۱، ۴۴۱) (صحیح)
۴۳۱۹- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو دجال کے متعلق سنے کہ وہ ظاہر ہوچکا ہے تو وہ اس سے دور ہی رہے کیونکہ قسم ہے اللہ کی! آدمی اس کے پاس آئے گا تو یہی سمجھے گا کہ وہ مومن ہے، اور وہ اس کا ان مشتبہ چیزوں کی وجہ سے جن کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہوگا تابع ہو جائے گا‘‘، راوی کوشک ہے کہ’’مما یُبعث بہ‘‘ کہا ہے یا ’’لما یُبعث بہ‘‘ ۔


4320 - حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنِي بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنِّي قَدْ حَدَّثْتُكُمْ عَنِ الدَّجَّالِ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ لا تَعْقِلُوا، إِنَّ مَسِيحَ الدَّجَّالِ رَجُلٌ قَصِيرٌ أَفْحَجُ جَعْدٌ أَعْوَرُ مَطْمُوسُ الْعَيْنِ لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ وَلا حَجْرَاءَ، فَإِنْ أُلْبِسَ عَلَيْكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ >.
قَالَ أَبو دَاود: عَمْرُو بْنُ الأَسْوَدِ وَلِيَ الْقَضَاءَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۲۴) (صحیح)
۴۳۲۰- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میں دجال کے متعلق تمہیں اتنی باتیں بتا چکا ہوں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم اسے یاد نہ رکھ سکوگے( تو یا د رکھو) مسیح دجال پستہ قد ہوگا، چلنے میں اس کے دونوں پاؤں کے بیچ فاصلہ رہے گا، اس کے بال گھنگھریا لے ہوں گے، کانا ہوگا، آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، نہ ابھری ہوئی اور نہ اندر گھسی ہوئی، پھر اس پر بھی اگر تمہیں اشتباہ ہوجائے تو یاد رکھو تمہارا رب کانا نہیں ہے ‘‘۔


4321- حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ الدِّمَشْقِيُّ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلابِيِّ قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الدَّجَّالَ فَقَالَ: < إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ فَإِنَّهَا جِوَارُكُمْ مِنْ فِتْنَتِهِ > قُلْنَا: وَمَا لَبْثُهُ فِي الأَرْضِ، قَالَ: < أَرْبَعُونَ يَوْمًا: يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ > فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلاةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ؟ قَالَ: < لا، اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ، ثُمَّ يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عِنْدَالْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ > ۔
* تخريج: م/الفتن ۲۰ (۲۹۳۷)، ت/الفتن ۵۹ (۲۲۴۰)، ق/ الفتن (۴۰۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۱)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۱۸۱، ۱۸۲) (صحیح)
۴۳۲۱- نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا:’’ اگر وہ ظاہر ہوا اور میں تم میں موجود رہا تو تمہارے بجائے میں اس سے جھگڑوں گا، اور اگر وہ ظاہر ہوا اور میں تم میں نہیں رہا تو آدمی خود اس سے نپٹے گا، اور اللہ ہی ہر مسلمان کے لئے میرا خلیفہ ہے، پس تم میں سے جو اس کو پائے تو اس پر سورہ ٔ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے کیونکہ یہ تمہیں اس کے فتنے سے بچائیں گی‘‘۔
ہم نے عرض کیا: وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ چالیس دن تک، اس کا ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا، اور ایک دن ایک مہینہ کے، اور ایک دن ایک ہفتہ کے، اور باقی دن تمہارے اور دنوں کی طرح ہوں گے‘‘۔
تو ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول ! جو دن ایک سال کے برابر ہوگا ،کیا اس میں ایک دن اور رات کی صلاۃ ہمارے لئے کافی ہوں گی ؟آپ ﷺ نے فرمایا:’’ نہیں، تم اس دن اندازہ کرلینا، اور اسی حساب سے صلاۃپڑھنا، پھر عیسی بن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے، اور اسے (یعنی دجال کو) باب لُدّ ۱؎کے پاس پائیں گے اور وہیں اسے قتل کردیں گے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : بیت المقدس کے پاس ایک شہر کا نام ہے۔


4322- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ، وَذَكَرَ الصَّلَوَاتِ مِثْلَ مَعْنَاهُ۔
* تخريج: ق/الفتن ۳۳ (۴۰۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۹۶) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۴۳۲۲- ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کی حدیث نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اورصلاتوں کا ذکر سابقہ حدیث کی طرح کیا ہے۔


4323- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ [بْنِ أَبِي طَلْحَةَ]، عَنْ حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ، يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَا قَالَ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ قَتَادَةَ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: < مَنْ حَفِظَ مِنْ خَوَاتِيمِ سُورَةِ الْكَهْفِ > و قَالَ شُعْبَةُ [عَنْ قَتَادَةَ] < مِنْ آخِرِ الْكَهْفِ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۴۴ (۸۰۹)، ت/فضائل القرآن ۶ (۲۸۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۶۳) (صحیح)
۴۳۲۳- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے سورہ ٔ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں :اسی طرح ہشام دستوائی نے قتادہ سے روایت کیا ہے مگر اس میں ہے:’’ جس نے سورہ ٔ کہف کی آخری آیتیں یاد کیں‘‘، شعبہ نے بھی قتادہ سے ’’کہف کے آخر ‘‘سے کے الفاظ روایت کئے ہیں ۔


4324- حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ آدَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ -يَعْنِي عِيسَى- وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ: رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ، بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ، كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الإِسْلامِ، فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلا الإِسْلامَ، وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۰۶، ۴۳۷) (صحیح)
۴۳۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ میرے اور ان یعنی عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، یقینا وہ اتریں گے، جب تم انہیں دیکھنا تو پہچان لینا، وہ ایک درمیانی قدوقامت کے شخص ہوں گے، ان کا رنگ سرخ وسفید ہوگا، ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے ،ایسا لگے گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے گو وہ تر نہ ہوں گے، تو وہ لوگوں سے اسلام کے لئے جہاد کریں گے، صلیب توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے اور جزیہ معاف کردیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں سوائے اسلام کے سارے مذاہب کو ختم کردے گا، وہ مسیح دجال کو ہلا ک کریں گے، پھراس کے بعد دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے، پھر ان کی وفات ہوگی تو مسلمان ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھیں گے ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
15- بَاب فِي خَبَرِ الْجَسَّاسَةِ
۱۵-باب: جساسہ کا بیان​


4325- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَخَّرَ الْعِشَاءَ الآخِرَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ: < إِنَّهُ حَبَسَنِي حَدِيثٌ كَانَ يُحَدِّثُنِيهِ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ عَنْ رَجُلٍ كَانَ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَإِذَا [أَنَا] بِامْرَأَةٍ تَجُرُّ شَعْرَهَا، قَالَ: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْقَصْرِ، فَأَتَيْتُهُ، فَإِذَا رَجُلٌ يَجُرُّ شَعْرَهُ مُسَلْسَلٌ فِي الأَغْلالِ يَنْزُو فِيمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا الدَّجَّالُ، خَرَجَ نَبِيُّ الأُمِّيِّينَ بَعْدُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَطَاعُوهُ أَمْ عَصَوْهُ؟ قُلْتُ: بَلْ أَطَاعُوهُ، قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۹) (صحیح)
۴۳۲۵- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک رات عشاء پڑھنے میں دیر کی، پھر نکلے تو فرمایا: ’’مجھے ایک بات نے روک لیا، جسے تمیم داری ایک آدمی کے متعلق بیان کررہے تھے، تو میں سمندر کے جزیروں میں سے ایک جزیرے میں تھا،تمیم کہتے ہیں کہ ناگاہ میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے بال کھینچ رہی ہے، تو میں نے پوچھا: تم کون ہو ؟ وہ بولی: میں جساسہ ۱؎ہوں، تم اس محل کی طرف جاؤ، تو میں اس محل میں آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک شخص ہے جو اپنے بال کھینچ رہا ہے، وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے، اور آسمان وزمین کے درمیان میں اچھلتا ہے، میں نے اس سے پوچھا :تم کون ہو؟ تو اس نے کہا: میں دجال ہوں، کیا امیوں کے نبی کا ظہور ہوگیا؟ میں نے کہا: ہاں (وہ ظاہر ہوچکے ہیں) اس نے پوچھا: لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے یا نافرمانی ؟میں نے کہا:نہیں، بلکہ لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے، تواس نے کہا: یہ بہتر ہے ان کے لئے ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جسّاسہ ایک عورت ہے اور اس کے بعد والی روایت میں ہے کہ وہ ایک دابّہ ہے بظاہر دونوں روایتیں متعارض ہیں اس تعارض کو حسب ذیل طریقے سے دفع کیا جاتا ہے: ۱- ہوسکتا ہے کہ دجّال کے پاس دو جسّاسہ ہوں ایک دابّہ ہو اور دوسری عورت ہو، ۲-یاوہ شیطانہ ہو جو کبھی دابّہ کی شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہو اور کبھی عورت کی شکل میں کیونکہ شیطان جوشکل چاہے اپنا سکتا ہے، ۳-یا اسے مجازاً دابّہ کہا گیا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول’’وما من دابّۃ فی الارض إلا علی اللہ رزقھا‘‘ میں ہے، اگلی روایت کے الفاظ ’’فرقنا منھا ان تکون شیطانۃ‘‘سے اس کی تائید ہوتی ہے۔


4326- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ حُسَيْنًا الْمُعَلِّمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يُنَادِي: أَنِ الصَّلاةُ جَامِعَةٌ، فَخَرَجْتُ، فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَلاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَ: < لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ > ثُمَّ قَالَ: <هَلْ تَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ >؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < إِنِّي مَاجَمَعْتُكُمْ لِرَهْبَةٍ وَلا رَغْبَةٍ، وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ أَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلا نَصْرَانِيًّا، فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ، وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي حَدَّثْتُكُمْ عَنِ الدَّجَّالِ، حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلاثِينَ رَجُلا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامٍ، فَلَعِبَ بِهِمُ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ، وَأَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ حِينَ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبِ السَّفِينَةِ، فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ، فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرَةُ الشَّعْرِ، قَالُوا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟! قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي هَذَا الدَّيْرَ، فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالأَشْوَاقِ، قَالَ: لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً، فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ، فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وَثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَسَأَلَهُمْ عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ، وَعَنْ عَيْنِ زُغَرَ، وَعَنِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، قَالَ: إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ، وَإِنَّهُ يُوشَكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < وَإِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّامِ، أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ، لا، بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ > مَرَّتَيْنِ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ، قَالَتْ: حَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ ۔
* تخريج: م/الفتن ۲۴ (۲۹۴۲)، ت/الفتن ۶۶ (۲۲۵۳)، ق /الفتن ۳۳ (۴۰۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۴)، وقد أخرجہ: حم ( ۶/۳۷۴، ۴۱۱، ۴۱۲، ۴۱۳، ۴۱۵، ۴۱۶، ۴۱۸) (صحیح)
۴۳۲۶- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے منادی کو پکارتے سنا: ’’لوگو! صلاۃ کے لئے جمع ہوجاؤ‘‘، تو میں نکلی اور جا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ ادا کی، پھر جب آپ نے صلاۃ ختم فرمائی تو ہنستے ہوئے منبر پر جا بیٹھے، اور فرمایا:’’ ہر شخص اپنی جگہ پر بیٹھا رہے‘‘، پھر فرمایا:’’ کیا تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیاہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے تمہیں جہنم سے ڈرانے اور جنت کا شوق دلانے کے لئے نہیں اکٹھا کیا ہے، بلکہ میں نے تمہیں یہ بتلانے کے لئے اکٹھا کیا ہے کہ تمیم داری نے جو نصرانی شخص تھے آکر مجھ سے بیعت کی ہے، اور اسلام لے آئے ہیں ، انہوں نے مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا ہے جو اس بات کے مطابق ہے جو میں نے تمہیں دجال کے متعلق بتائی ہے، انہوں نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سمندری کشتی پر سوار ہوئے، ان کے ہمراہ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی بھی تھے، تو پورے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں ان کے ساتھ کھیلتی رہیں پھر سورج ڈوبتے وقت وہ ایک جزیرہ کے پاس جا لگے، وہاں سے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوئے، وہاں انہیں ایک لمبی دم اور زیادہ بالوں والا ایک دابہ (جانور ) ملا، لوگوں نے اس سے کہا: کم بخت تو کیا چیزہے ؟ اس نے جواب دیا: میں جسّاسہ ہوں، تم اس شخص کے پاس جاؤ جو اس گھر میں ہے، وہ تمہاری خبروں کا بہت مشتاق ہے، جب ہم سے اس نے اس شخص کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں یہ شیطان نہ ہو، پھر وہاں سے جلدی سے بھاگے اور اس گھر میں جا پہنچے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عظیم الجثۃ اور انتہائی طاقت ور انسان ہے کہ اس جیسا انسان ہم نے کبھی نہیں دیکھا، جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے اور اس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی ۱؎اور ان سے بیسان ۲؎کے کھجوروں، اور زعر ۳؎کے چشموں کا حال پوچھا، اور نبی امی کے متعلق دریافت کیا، پھر اس نے اپنے متعلق بتایا کہ میں مسیح دجال ہوں، اور قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے‘‘، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں،(پھر آپ نے کہا:) نہیں، بلکہ مشرق کی سمت میں ہے‘‘، اور آپ نے اپنے ہاتھ سے دوبار مشرق کی جانب اشارہ کیا۔
فاطمہ کہتی ہیں: یہ حدیث میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر یادکی ہے، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۔
وضاحت ۱؎ : جس میں ہے کہ اس نے ان سے رسول اللہ ﷺاور عربوں کا حال پوچھا جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
وضاحت ۲؎ : بیسان:شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔
وضاحت۳؎ : زعر:یہ بھی شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔


4327- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صُدْرَانَ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، وَكَانَ لا يَصْعَدُ عَلَيْهِ إِلا يَوْمَ جُمُعَةٍ قَبْلَ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ ذَكَرَ هَذِهِ الْقِصَّةَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَابْنُ صُدْرَانَ بَصْرِيٌّ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ مَعَ ابْنِ مِسْوَرٍ لَمْ يَسْلَمْ مِنْهُمْ غَيْرُهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۴) (ضعیف)
(اس سند میں مجالد ضعیف ہیں)
۴۳۲۷- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھی، پھر آپ منبر پرچڑھے، اس سے پہلے آپ صرف جمعہ ہی کو منبر پر چڑھتے تھے، پھر راوی نے اسی قصہ کا ذکر کیا ہے ۔


4328- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ: < إِنَّهُ بَيْنَمَا أُنَاسٌ يَسِيرُونَ فِي الْبَحْرِ فَنَفِدَ طَعَامُهُمْ، فَرُفِعَتْ لَهُمْ جَزِيرَةٌ، فَخَرَجُوا يُرِيدُونَ الْخُبْزَ، فَلَقِيَتْهُمُ الْجَسَّاسَةُ > قُلْتُ لأَبِي سَلَمَةَ: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟ قَالَ: امْرَأَةٌ تَجُرُّ شَعْرَ جِلْدِهَا وَرَأْسِهَا: قَالَتْ: فِي هَذَا الْقَصْرِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَسَأَلَ عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ، وَ [عَنْ] عَيْنِ زُغَرَ، قَالَ: هُوَ الْمَسِيحُ، فَقَالَ لِي ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ: إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا مَا حَفِظْتُهُ، قَالَ: شَهِدَ جَابِرٌ أَنَّهُ [هُوَ] ابْنُ صَيَّادٍ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ قَدْ مَاتَ، قَالَ: وَإِنْ مَاتَ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ أَسْلَمَ، قَالَ: وَإِنْ أَسْلَمَ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ قَدْ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: وَإِنْ دَخَلَ الْمَدِينَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶۱) (ضعیف الإسناد)
۴۳۲۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن منبر پر فرمایا:’’ کچھ لوگ سمندر میں سفر کررہے تھے کہ اسی دوران ان کا کھانا ختم ہوگیا تو ان کو ایک جزیرہ نظر آیا اوروہ روٹی کی تلاش میں نکلے، ان کی ملاقات جساسہ سے ہوئی‘‘،ولید بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے ابو سلمہ سے پوچھا: جساسہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایک عورت تھی جو اپنی کھال اور سر کے بال کھینچ رہی تھی، اس جساسہ نے کہا: اِس محل میں(چلو) پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اس میں ہے’’ اور دجال نے بیسان کے کھجور کے درختوں، اور زغر کے چشموں کے متعلق دریافت کیا، اس میں ہے’’ یہی مسیح ہے‘‘۔
ولید بن عبداللہ کہتے ہیں: اس پر ابن ابی سلمہ نے مجھ سے کہا: اس حدیث میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو مجھے یاد نہیں ہیں ۔
ابوسلمہ بن عبدالر حمن کہتے ہیں: جابر نے پورے وثوق سے کہا: یہی ابن صیاد ۱؎ہے ،تو میں نے کہا :وہ تو مر چکا ہے، اس پر انہوں نے کہا :مر جانے دو، میں نے کہا: وہ تو مسلمان ہو گیا تھا، کہا :ہو جانے دو، میں نے کہا: وہ مدینہ میں آیا تھا، کہا : آنے دو، اس سے کیا ہوتا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے بعض حضرات یہ سمجھتے تھے کہ ابن صیاد ہی وہ مسیح دجال ہے جس کے قیامت کے قریب ظہور کا وعدہ کیا گیا ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت کی بنا پر اس بات میں کوئی قطعیت نہیں ،وہ توبس ایک چھوٹا دجال ہے، نیز امام بیہقی کہتے ہیں: فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ دجال اکبر ابن صیاد نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان جھوٹے دجالوں میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی، اور جن میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے، جن لوگوں نے ابن صیاد کو وثوق کے ساتھ مسیح دجال قرار دیا ہے انہوں نے تمیم داری رضی اللہ عنہ والاواقعہ نہیں سنا ہے، کیونکہ دونوں باتیں ایک پر فٹ نہیں ہوسکتیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص نبی اکرمﷺکے عہد نبوت میں ایک قریب البلوغ لڑکا ہو،آپ سے مل چکا ہو اور آپ سے سوال وجواب کرچکا ہو، وہ آپ کے آخری عمر میں بوڑھا ہوگیا، اور سمندر کے ایک جزیرہ میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا پڑا ہو، اور نبی اکرمﷺکے متعلق پوچھ رہا ہو کہ آپ کا ظہور ہوا کہ نہیں؟!۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
16- بَاب فِي خَبَرِ ابْنِ صَائِدٍ
۱۶-باب: ابن صیاد کا بیان​


4329- حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِابْنِ صَائِدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَهُوَ غُلامٌ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ: $ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ > قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ : أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ > ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < مَا يَأْتِيكَ؟ > قَالَ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < خُلِطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ >، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنِّي قَدْ خَبَّأْتُ لَكَ خَبِيئَةً> وَخَبَّأَ لَهُ {يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ > فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنْ يَكُنْ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ > يَعْنِي الدَّجَّالَ < وَإِلا يَكُنْ [هُوَ] فَلا خَيْرَ فِي قَتْلِهِ >۔
* تخريج: خ/الجنائز ۷۹ (۱۳۵۴)، الجہاد ۱۷۸ (۳۰۵۵)، الأدب ۹۷ (۶۶۱۸)، م/الفتن ۱۹ (۲۹۳۰)، ت/الفتن ۶۳ (۲۲۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۲)، وقد أخرجہ: حم ( ۲/۱۴۸، ۱۴۹) وأعادہ المؤلف فی السنۃ (۴۷۵۷) (صحیح)
۴۳۲۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ ﷺ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟‘‘، تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا :کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ توآپ نے اس سے فرمایا:’’ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا‘‘، پھر آپ ﷺ نے اس سے کہا: ’’تیرے پاس کیا چیز آتی ہے ؟‘‘، وہ بولا: سچی اور جھوٹی باتیں آتی ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو معاملہ تیرے اوپر مشتبہ ہوگیاہے‘‘، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میں نے تیرے لئے ایک بات چھپائی ہے‘‘، اور آپ نے اپنے دل میں {يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} (سورۃ الدخان: ۱۰) والی آیت چھپالی، تو ابن صیاد نے کہا : وہ چھپی ہوئی چیز’ دُخ ‘ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہٹ جا، تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا‘‘، اس پر عمر بولے: اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئے، میں اس کی گردن ماردوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ ( دجال ) ہے تو تم اس پر قادر نہ ہو سکوگے، اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کے قتل میں کوئی بھلائی نہیں ‘‘۔


4330- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ- عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَشُكُّ أَنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صَيَّادٍ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ) (صحیح الإسناد)
۴۳۳۰- نافع سے روایت ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہما کہتے تھے : قسم اللہ کی مجھے اس میں شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہے۔


4331- حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ الدَّجَّالُ، فَقُلْتُ: تَحْلِفُ بِاللَّهِ؟! فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمْ يُنْكِرْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الاعتصام ۲۳ (۷۳۵۵)، م/الفتن ۱۹ (۲۹۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۱۹) (صحیح)
۴۳۳۱- محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے کہا : آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں ؟ تو بولے: میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات پر رسول اللہ ﷺ کے پاس قسم کھاتے سنا ہے ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس پر ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ تمیم داری رضی اللہ عنہ والے واقعہ کے رسول اللہ ﷺکے علم میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔


4332- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ مُوسَى- حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: فَقَدْنَا ابْنَ صَيَّادٍ يَوْمَ الْحَرَّةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود (صحیح الإسناد) ( راجع الفتح/ الاعتصام: ۲۳، و تحفۃ الأحوذي: ۶/۴۲۶)
۴۳۳۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن صیاد ہم کو یوم حرّہ ۱؎کو غائب ملا۔
وضاحت ۱؎ : حرہ وہ واقعہ ہے جو مدینہ منورہ میں یزید کے لشکر کے ہاتھوں پیش آیا ۔


4333- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلاثُونَ دَجَّالُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم ( ۲/۴۵۰، ۴۵۷) (صحیح)
۴۳۳۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تیس دجال ظاہر نہ ہوجائیں، وہ سب یہی کہیں گے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ‘‘۔


4334- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلاثُونَ كَذَّابًا دَجَّالا كُلُّهُمْ يَكْذِبُ عَلَى اللَّهِ وَعَلَى رَسُولِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۵۰، ۵۲۷) (حسن الإسناد)
۴۳۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تیس جھوٹے دجال ظاہر نہ ہوجائیں ،اور ان میں سے ہر ایک اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھے گا‘‘ ۔


4335- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عَبِيْدَةُ السَّلْمَانِيُّ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَتَرَى هَذَا مِنْهُمْ؟ يَعْنِي الْمُخْتَارَ، فَقَالَ عَبِيْدَةُ: أَمَا إِنَّهُ مِنَ الرُّئُوسِ۔
* تخريج:تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۹۹) (ضعیف)
۴۳۳۵- ابراہیم کہتے ہیں: عَبِیْدہ سلمانی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی، تو میں نے ان سے پوچھا :کیا آپ اسے یعنی مختار (ابن ابی عبید ثقفی) کو بھی انہیں دجالوں میں سے ایک سمجھتے ہیں تو عبیدہ کہنے لگے: وہ تو ان کا سردار ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
17- بَاب الأَمْرِ وَالنَّهْيِ
۱۷-باب: امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان​


4336- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ الرَّجُلُ يَلْقَى الرَّجُلَ فَيَقُولُ: يَا هَذَا اتَّقِ اللَّهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّهُ لا يَحِلُّ لَكَ، ثُمَّ يَلْقَاهُ مِنَ الْغَدِ فَلا يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَقَعِيدَهُ، فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ > ثُمَّ قَالَ: {لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ} إِلَى قَوْلِهِ {فَاسِقُونَ} > ثُمَّ قَالَ: < كَلَّا وَاللَّهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْرًا > ۔
* تخريج: ت/تفسیر القرآن ۶ (۳۰۴۷، ۳۰۴۸)، ق/الفتن ۲۰ (۴۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۹۱) (ضعیف)
(ابوعبیدہ اوران کے والد ابن مسعودکے درمیان انقطاع ہیں)
۴۳۳۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور جو تم کر ر ہے ہو اس سے باز آجا ؤکیونکہ یہ تمہارے لئے درست نہیں ہے، پھر دوسرے دن اس سے ملتاتو اس کے ساتھ کھانے پینے اور اس کی ہم نشینی اختیار کرنے سے یہ چیزیں (غلط کاریاں) اس کے لئے مانع نہ ہوتیں، تو جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ نے بھی بعضوں کے دل کوبعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا''، پھر آپ نے آیت کریمہ{لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ...}سے لے کر ۔۔۔اللہ تعالی کے قول { فَاسِقُونَ} ۱؎ تک کی تلاوت کی، پھر فرمایا: ''ہرگز ایسا نہیں،قسم اللہ کی! تم ضرور اچھی باتوں کاحکم دو گے، بری باتوں سے روکوگے، ظالم کے ہاتھ پکڑوگے، اور اسے حق کی طرف موڑے رکھوگے اور حق وانصاف ہی پر اسے قائم رکھوگے''،یعنی زبردستی اسے اس پر مجبورکرتے رہوگے ۔
وضاحت ۱؎ : بنی اسرائیل کے کافروں پر داود علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی (سورۃ المائدۃ:۷۸)


4337- حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ،حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ الْحَنَّاطُ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِنَحْوِهِ، زَادَ: < أَوْ لَيَضْرِبَنَّ اللَّهُ بِقُلُوبِ بَعْضِكُمْ عَلَى بَعْضٍ، ثُمَّ لَيَلْعَنَنَّكُمْ كَمَا لَعَنَهُمْ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الْمُحَارِبِيُّ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَالِمٍ الأَفْطَسِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَاهُ خَالِدٌ الطَّحَّانُ عَنِ الْعَلاءِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۴) (ضعیف)
۴۳۳۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں یہ اضافہ ہے: ''اللہ تم میں سے بعض کے دلوں کو بعض کے دلوں سے ملا دے گا ،پھر تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان پر لعنت کی ہے'' ۔


4338- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ(ح) وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، الْمَعْنَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ أَنْ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَئُونَ هَذِهِ الآيَةَ وَتَضَعُونَهَا عَلَى غَيْرِ مَوَاضِعِهَا: {عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لايَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} قَالَ عَنْ خَالِدٍ، وَإِنَّا سَمِعْنَا النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ > و قَالَ عَمْرٌو عَنْ هُشَيْمٍ: وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي ثُمَّ يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيِّرُوا ثُمَّ لايُغَيِّرُوا إِلا يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ كَمَا قَالَ خَالِدٌ أَبُو أُسَامَةَ وَجَمَاعَةٌ، وَقَالَ شُعْبَةُ فِيهِ: < مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي هُمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَعْمَلُهُ >۔
* تخريج: ت/الفتن ۸ (۲۱۶۸)، تفسیر القرآن سورۃ المائدۃ ۱۹ (۳۰۵۷)، ق/الفتن ۲۰ (۴۰۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۵)، وقد أخرجہ: حم ( ۱/۲، ۵، ۷ ،۹) (صحیح)
۴۳۳۸- قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: لوگو!تم آیت کریمہ {عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لايَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} ۱؎ پڑھتے ہو اور اسے اس کے اصل معنی سے پھیر کر دوسرے معنی پر محمول کردیتے ہو۔
وھب کی روایت جسے انہوں نے خالد سے روایت کیا ہے، میں ہے: ہم نے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے، آپ فرمارہے تھے: ''لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں، اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لے'' ۔
اور عمرو کی حدیث میں جسے انہوں نے ہشیم سے روایت کی ہے مذکور ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''جس قوم میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں، پھر وہ اسے روکنے پر قادر ہو اور نہ روکے تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب میں گرفتار کرلے'' ۔
ابو داود کہتے ہیں:اور اسے ابو اسامہ اور ایک جماعت نے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے خالد نے کیاہے ۔
شعبہ کہتے ہیں:اس میں یہ بات بھی ہے کہ ایسی کوئی قوم نہیں جس میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں اور زیادہ تر افراد گناہ کے کام میں ملوث ہوں اور ان پر عذاب نہ آئے ۔
وضاحت ۱؎ : اے ایمان والو اپنی فکر کرو جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا (سورۃ المائدۃ: ۱۰۵)


4339- حَدَّثَنَا مُسَّدَدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، [أَظُنُّهُ] عَنِ ابْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُونُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيِّرُوا عَلَيْهِ فَلا يُغَيِّرُوا إِلا أَصَابَهُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوتُوا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۴۲)، وقد أخرجہ: ق/الفتن ۲۰ (۴۰۰۹) (حسن)
۴۳۳۹- جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''جو آدمی کسی ایسی قوم میں ہوجس میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں اور وہ اسے روکنے پر قدرت رکھتا ہو اور نہ روکے تو اللہ اسے مرنے سے پہلے ضرور کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے ''۔


4340- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ >، وَقَطَعَ هَنَّادٌ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ [وَفَّاهُ ابْنُ الْعَلاءِ] < فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ [بِلِسَانِهِ] فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم :(۱۱۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۸۵) (صحیح)
۴۳۴۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' جو کوئی منکر دیکھے، اور اپنے ہاتھ سے اسے روک سکتا ہو تو چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے ، اگر وہ ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اپنی زبان سے بھی نہ روک سکے تو اپنے دل میں اسے بُرا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ''۔


4341- حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ اللَّخْمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ فَقُلْتُ: يَا أَبَا ثَعْلَبَةَ، كَيْفَ تَقُولُ فِي هَذِهِ الآيَةِ: { عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ }؟ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا، سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < بَلِ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ، حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًى مُتَّبَعًا وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً، وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ فَعَلَيْكَ -يَعْنِي بِنَفْسِكَ- وَدَعْ عَنْكَ الْعَوَامَّ؛ فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامَ [الصَّبْرِ] الصَّبْرُ فِيهِ مِثْلُ قَبْضٍ عَلَى الْجَمْرِ، لِلْعَامِلِ فِيهِمْ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِهِ > وَزَادَنِي غَيْرُهُ قَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْهُمْ؟ قَالَ: < أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْكُمْ >۔
* تخريج: ت/تفسیر القرآن سورۃ المائدۃ ۱۸ (۳۰۵۸)، ق/الفتن ۲۱ (۴۰۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۸۱) (ضعیف)
اس کے رواۃ '' عمر اور ابوامیہ شعبانی '' لین الحدیث ہیں، لیکن '' ایام صبر'' کاٹکڑا ثابت ہے)
۴۳۴۱- ابو امیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ابو ثعلبہ! آپ آیت کریمہ {عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ} کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! تم نے اس کے متعلق ایک جانکار شخص سے سوال کیا ہے، میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا (کہ کیا اس آیت کی رو سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ضرورت باقی نہیں رہی؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں، بلکہ تم بھلی بات کا حکم دو، اور بری بات سے روکو، یہاں تک کہ تم یہ نہ دیکھ لو کہ بخیلی کی تابعداری ہو رہی ہو اور خواہش نفس کی پیروی کی جاتی ہو اور دنیا کو ترجیح دیا جاتا ہو اور ہر صاحب رائے کااپنی رائے میں مگن ہونا دیکھ لو، تو اس وقت تم اپنی ذات کو لازم پکڑنا اور عوام کو چھوڑدینا کیونکہ اس کے بعدصبر کے دن ہوں گے ان میں صبر کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے چنگاری ہاتھ میں لینا، ان دنوں میں عمل کرنے والے کو پچاس آدمیوں کے برابر جو اسی جیسا عمل کرتے ہوں ثواب ملے گا''، اور ان کے علاوہ نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ''صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ''نے عرض کیا :اللہ کے رسول! کیا یہ ثواب ایسے پچاس شخصوں کا ہوگا جو انہیں میں سے ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں بلکہ تم میں سے پچاس شخصوں کا ''۔


4342- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ أَبِي حَازِمٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ > أَوْ < يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ زَمَانٌ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً تَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ، وَاخْتَلَفُوا فَكَانُوا هَكَذَا > وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَقَالُوا: [وَ] كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < تَأْخُذُونَ مَاتَعْرِفُونَ، وَتَذَرُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى أَمْرِ خَاصَّتِكُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَامَّتِكُمْ >.
[قَالَ أَبو دَاود: هَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ]۔
* تخريج: ق/الفتن ۱۰ (۳۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۹۳)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۸۸ (۴۸۰)، حم (۲/۲۱۲) (صحیح)
۴۳۴۲- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہوگا؟''، یا آپ نے یوں فرمایا: ''عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ چھَن اٹھیں گے، اچھے لوگ سب مرجائیں گے، اور کوڑا کرکٹ یعنی بُرے لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کے عہدو پیمان اور ان کی امانتوں کامعاملہ بگڑ چکا ہوگا(یعنی لوگ بد عہدی اور امانتوں میں خیانت کریں گے)، آپس میں اختلاف کریں گے اور اس طرح ہوجائیں گے'' ، آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اس وقت ہم کیا کریں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' جو بات تمہیں بھلی لگے اسے اختیار کرو،اور جو بری لگے اسے چھوڑ دو، اور خاص کر اپنی فکر کرو، عام لوگوں کی فکر چھوڑدو''۔
ابو داود کہتے ہیں : اسی طرح عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اس سند کے علاوہ سے بھی مروی ہے ۔


4343 - حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هِلالِ بْنِ خَبَّابٍ أَبِي الْعَلاءِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ ذَكَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ: < إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَكَانُوا هَكَذَا > وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: كَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِكَ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ؟ قَالَ: < الْزَمْ بَيْتَكَ، وَامْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ، وَدَعْ مَا تُنْكِرُ، وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ، وَدَعْ عَنْكَ أَمْرَ الْعَامَّةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۲) (حسن صحیح)
۴۳۴۳- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فتنہ کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کے عہد فاسد ہوگئے ہوں، اور ان سے امانتداریاں کم ہوگئیں ہوں''، اور آپ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا کہ ان کا حال اس طرح ہوگیا ہو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :یہ سن کر میں آپ کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا، اور میں نے عرض کیا :اللہ مجھے آپ پر قربان فرمائے! ایسے وقت میں میں کیا کروں ؟آپ ﷺ نے فرمایا:''اپنے گھر کو لازم پکڑنا، اور اپنی زبان پر قابو رکھنا، اور جو چیز بھلی لگے اسے اختیار کرنا، اور جو بری ہو اسے چھوڑدینا، اور صرف اپنی فکر کرنا عام لوگوں کی فکر چھوڑ دینا ''۔


4344- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ -يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ- أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ> أَوْ < أَمِيرٍ جَائِرٍ >۔
* تخريج: ت/الفتن ۱۲ (۲۱۷۴)، ق/الفتن ۲۰ (۴۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۳۴) (صحیح)
۴۳۴۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنی ہے ''۔


4345- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ الْمُوصِلِيُّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ، عَنِ الْعُرْسِ [ابْنِ عَمِيرَةَ الْكِنْدِيِّ]، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِذَا عُمِلَتِ الْخَطِيئَةُ فِي الأَرْضِ كَانَ مَنْ شَهِدَهَا فَكَرِهَهَا > وَقَالَ مَرَّةً: < أَنْكَرَهَا> <كَانَ كَمَنْ غَابَ عَنْهَا، وَمَنْ غَابَ عَنْهَا فَرَضِيَهَا كَانَ كَمَنْ شَهِدَهَا> ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۴) (حسن)
۴۳۴۵- عرس بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب زمین پر گناہ کے کام کئے جاتے ہوں تو جو شخص وہاں حاضر رہا اور اسے ناپسند کیا یا برا جانا اس کی مثال اس شخص کے مانند ہے جس نے اسے دیکھا ہی نہ ہو، اور جو شخص وہاں حاضر نہ تھا لیکن اسے پسند کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وہاں حاضر تھا''، (یعنی اسے بھی گناہ سے رضامندی کے باعث گناہ ملے گا)۔


4346- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ مُغِيرَةَ ابْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ، قَالَ: < مَنْ شَهِدَهَا فَكَرِهَهَا كَانَ كَمَنْ غَابَ عَنْهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۴، ۱۹۰۰۶) (حسن)
۴۳۴۶- عدی بن عدی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''جس نے اس کو دیکھا اور ناپسند کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اسے دیکھا ہی نہیں ''۔


4347- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَحَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَهَذَا لَفْظُهُ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: و قَالَ سُلَيْمَانُ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لَنْ يَهْلَكَ النَّاسُ حَتَّى يَعْذِرُوا، أَوْ يُعْذِرُوا، مِنْ أَنْفُسِهِمْ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۸۰)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۲۶۰، ۵/۲۹۳) (صحیح)
۴۳۴۷- ابوالبختری کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے، اور سلیمان کی روایت میں ہے کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہوں گے جب تک ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے یا وہ خود اپنا عذر زائل نہ کرلیں ''۔
 
Top