80- بَاب فِي الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ
۸۰ - باب: نیند (سونے) سے وضو ہے یا نہیں ؟
199- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً فَأَخَّرَهَا حَتَّى رَقَدْنَا فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: < لَيْسَ أَحَدٌ يَنْتَظِرُ الصَّلاةَ غَيْرُكُمْ >۔
* تخريج: خ/مواقیت الصلاۃ ۲۴ (۵۷۰)، م/المساجد ۳۹ (۶۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۸، ۱۲۶) (صحیح)
۱۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی تیاری میں مصروفیت کی بناء پرعشاء کی صلاۃ میں دیر کردی ، یہاں تک کہ ہم مسجد میں سوگئے،پھر جاگے پھر سوگئے ،پھر جاگے پھر سوگئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: ’’(اس وقت) تمہارے علاوہ کوئی اور صلاۃ کا انتظار نہیں کررہا ہے‘‘۔
200- حَدَّثَنَا شَاذُّ بْنُ فَيَّاضٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ؛ قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَنْتَظِرُونَ الْعِشَاءَ الآخِرَةَ حَتَّى تَخْفِقَ رُئُوسُهُمْ ثُمَّ يُصَلُّونَ وَلايَتَوَضَّئُونَ.
قَالَ أَبودَاود فِيهِ: زَادَ فِيهِ شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: كُنَّا [نَخْفِقُ] عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَرَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ بِلَفْظٍ آخَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۴)، وقد أخرجہ: م/الحیض ۳۳ (۳۷۶)، ت/الطھارۃ ۵۷ (۷۸) (صحیح)
۲۰۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب عشاء کی صلاۃ کا انتظار کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کے سر (نیند کے غلبہ سے) جھک جھک جاتے تھے، پھر وہ صلاۃ اداکرتے اور(دوبارہ) وضو نہیں کرتے ۔
ابوداود کہتے ہیں: اس میں شعبہ نے قتادہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صلاۃ کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے نیند کے غلبہ کی وجہ سے جھک جھک جاتے تھے، اوراسے ابن ابی عروبہ نے قتادہ سے دوسرے الفاظ میں روایت کیا ہے۔
201- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَدَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ [بْنُ سَلَمَةَ] عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: أُقِيمَتْ صَلاةُ الْعِشَاءِ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي حَاجَةً، فَقَامَ يُنَاجِيهِ حَتَّى نَعَسَ الْقَوْمُ- أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ- ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ، وَلَمْ يَذْكُرْ وُضُوئًا۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۳۳(۳۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۶۰، ۲۶۸) (صحیح)
۲۰۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : عشاء کی صلاۃ کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہو ا اوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول !مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے ،اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لو گوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آگئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صلاۃ پڑھا ئی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا۔
202- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِالسَّلامِ بْنِ حَرْبٍ -وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ يَحْيَى- عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَسْجُدُ، وَيَنَامُ وَيَنْفُخُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي وَلا يَتَوَضَّأُ.
قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: صَلَّيْتَ وَلَمْ تَتَوَضَّأْ وَقَدْ نِمْتَ؟ فَقَالَ: <إِنَّمَا الْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا>.
زَادَ عُثْمَانُ وَهَنَّادٌ: < فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ >.
قَالَ أَبودَاود: قَوْلُهُ: < الْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا > هُوَ حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَمْ يَرْوِهِ إِلا يَزِيدُ [أَبُوخَالِدٍ] الدَّالانِيُّ عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَى أَوَّلَهُ جَمَاعَةٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا شَيْئًا مِنْ هَذَا.
وَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَحْفُوظًا، وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : < تَنَامُ عَيْنَايَ وَلا يَنَامُ قَلْبِي >.
وَقَالَ شُعْبَةُ: إِنَّمَا سَمِعَ قَتَادَةُ مِنْ أَبِي الْعَالِيَةِ أَرْبَعَةَ أَحَادِيثَ: حَدِيثَ يُونُسَ بْنِ مَتَّى، وَحَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ فِي الصَّلاةِ، وَحَدِيثَ: < الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ >، وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ: <حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ مِنْهُمْ عُمَرُ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ >.
قَالَ أَبودَاود: وَذَكَرْتُ حَدِيثَ يَزِيدَ الدَّالانِيِّ لأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فَانْتَهَرَنِي اسْتِعْظَامًا لَهُ، وَقَالَ: مَا لِيَزِيدَ الدَّالانِيِّ يُدْخِلُ عَلَى أَصْحَابِ قَتَادَةَ؟ وَلَمْ يَعْبَأْ بِالْحَدِيثِ۔
* تخريج: ت/الطھارۃ ۵۷ (۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۶) (ضعیف)
(مؤلف نے سبب ضعف بیان کردیاہے)
۲۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر تے اور(سجدہ میں) سو جا تے، اور خراٹے لینے لگتے تھے، پھراٹھتے اور صلاۃ پڑھتے، اور وضو نہیں کر تے تھے، ( ایک بار ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ نے نما ز پڑھی اور وضو نہیں کیا، حالا نکہ آپ سو گئے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وضو تو اس شخص پر ( لا زم آتا ) ہے جو لیٹ کر سو ئے ‘‘۔
عثمان اور ہناد نے
’’فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ‘‘ (کیو نکہ جب کوئی چت لیٹ کر سوتا ہے تو اس کے اعضاء اور جوڑڈھیلے ہوجاتے ہیں)کا اضافہ کیا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ ٹکڑا: ’’وضو اس شخص پر لا زم ہے جوچت لیٹ کر سوئے‘‘ منکر ہے، اسے صرف یزیدابوخالد دالا نی نے قتا دہ سے روا یت کیا ہے، اور حدیث کے ابتدائی حصہ کو ایک جماعت نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، ان لوگوں نے اس میں سے کچھ ذکر نہیں کیا ہے۔
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ( غفلت ) کی نیند سے محفوظ تھے۔
اور ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: ’’میری دونوں آنکھیں سو تی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا‘‘۔
اورشعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف چا ر حدیثیں سنی ہیں: ایک یو نس بن متی کی ، دوسری ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جو صلاۃ کے باب میں مروی ہے، تیسری حدیث
’’الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ‘‘ہے، اور چوتھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث:
’’حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ مِنْهُمْ عُمَرُ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ‘‘ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے یزید دالانی کی روایت کا احمد بن حنبل سے ذکر کیا ، تو انہوں نے مجھے اِسے بڑی بات سمجھتے ہوئے ڈانٹا: اور کہا یز ید دالانی کو کیا ہے؟ وہ قتادہ کے شاگردوں کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیتے ہیں جنہیں ان لوگوں نے روایت نہیں کی ہیں،امام احمدنے (دالانی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے) اس حدیث کی پر واہ نہیں کی۔
203- حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحِمْصِيُّ فِي آخَرِينَ قَالُوا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ الْوَضِينِ بْنِ عَطَاءِ، عَنْ مَحْفُوظِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَائِذٍ؛ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < وِكَاءُ السَّهِ الْعَيْنَانِ فَمَنْ نَامَ فَلْيَتَوَضَّأْ >۔
* تخريج: ق/الطھارۃ ۶۲ (۴۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۱۱، ۴/۹۷) (حسن)
۲۰۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سرین کا بندھن دونوں آنکھیں (بیداری) ہیں، پس جو سو جائے وہ وضو کرے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور علماء کے نزدیک گہری نیند وضو کی ناقض یعنی توڑ دینے والی ہے، اور ہلکی نیند وضو نہیں توڑتی، کتب ِ احکام میں قلیل وکثیر (ہلکی اور گہری نیند) کی تحدید میں قدرے تفصیل بھی مذکور ہے، صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ نیند پاخانہ اور پیشاب کی طرح ناقض وضو ہے، جبکہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے سوجاتے، پھر بلاوضو جدید صلاۃ ادا کرتے تھے، اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ ہلکی نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا۔