• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71-بَاب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۷۱- باب: عضوتناسل چھونے سے وضو نہ کرنے کی رخصت کا بیان​


182- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُلازِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَجَاءَ رَجُلٌ كَأَنَّهُ بَدَوِيٌّ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! مَا تَرَى فِي مَسِّ الرَّجُلِ ذَكَرَهُ بَعْدَ مَا يَتَوَضَّأُ، فَقَالَ: < هَلْ هُوَ إِلا مُضْغَةٌ مِنْهُ >، أَوْ قَالَ: < بَضْعَةٌ مِنْهُ >۔
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَجَرِيرٌ الرَّازِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ ۔
* تخريج: ت/الطھارۃ ۶۲ (۸۵)، ن/الطھارۃ ۱۱۹ (۱۶۵)، ق/الطھارۃ ۶۴ (۴۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲، ۲۳) (صحیح)

۱۸۲- طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ،اتنے میں ایک شخص آیاوہ دیہاتی لگ رہاتھا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! وضو کرلینے کے بعد آدمی کے اپنے عضوتناسل چھو نے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تو اسی کا ایک لوتھڑا ہے‘‘، یا کہا: ’’ٹکڑا ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عضو تناسل کے چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کی دلیل ہے ، جب کہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عضو تناسل کے مس (چھونے) کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، دونوں حدیثیں صحیح ہیں ،اس لئے علماء نے ان دونوں کے درمیان تطبیق وتوفیق کی صورت یہ نکالی ہے کہ عضو تناسل پر پردہ ہوتو وضو نہیں ٹوٹے گا، اور پردہ نہ ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
طلق بن علی کی حدیث کے الفاظ ’’الرجل يمس ذكره في الصلاة‘‘ سے یہی مفہوم نکلتا ہے، دوسری صورت تطبیق کی یہ ہے کہ اگر شہوت کے ساتھ ہے تو ناقض وضو ہے بصورت دیگر نہیں ، واللہ اعلم بالصواب۔

183- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ وَقَالَ فِي الصَّلاةِ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۲۳) (صحیح)

۱۸۳- مسدد کا بیان ہے کہ ہم سے محمد بن جا بر نے بیان کیا ہے، محمد بن جابر نے قیس بن طلق سے، قیس نے اپنے والد طلق سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے ، اور اس میں ’’ في الصلاة‘‘ کا اضا فہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72-بَاب الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ
۷۲- باب: اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو (ٹوٹ جانے) کا بیان​


184- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الرَّازِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ، فَقَالَ: < تَوَضَّئُوا مِنْهَا >، وَسُئِلَ عَنْ لُحُومِ الْغَنَمِ فَقَالَ: <لاتَوَضَّئُوا مِنْهَا>، وَسُئِلَ عَنِ الصَّلاةِ فِي مَبَارِكِ الإِبِلِ، فَقَالَ: <لاتُصَلُّوا فِي مَبَارِكِ الإِبِلِ، فَإِنَّهَا مِنَ الشَّيَاطِينِ>، وَسُئِلَ عَنِ الصَّلاةِ فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ فَقَالَ: <صَلُّوا فِيهَا فَإِنَّهَا بَرَكَةٌ>۔
* تخريج: ت/الطھارۃ ۶۰ (۸۱)، ق/الطھارۃ ۶۷ (۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸۸)، ویأتی المؤلف برقم: (۴۹۳) (صحیح)

۱۸۴ - براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کے متعلق سوال کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے وضو کرو‘‘، اور بکری کے گوشت کے با رے میں پو چھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے وضو نہ کرو‘‘، آپ سے اونٹ کے باڑے (بیٹھنے کی جگہ) میں صلاۃ پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اونٹ کے بیٹھنے کی جگہ میں صلاۃ نہ پڑھو کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے‘‘، اور آپ سے بکریوں کے باڑے (رہنے کی جگہ) میں صلاۃ پڑھنے کے سلسلہ میں پوچھا گیا ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس میں صلاۃ پڑھوکیونکہ وہ برکت والی ہیں‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73-بَاب الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ اللَّحْمِ النِّيئِ وَغَسْلِهِ
۷۳- باب: کچا گوشت چھونے یا دھونے سے وضو کے حکم کا بیان​


185- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ وَأَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ -الْمَعْنَى- قَالُوا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ مَيْمُونٍ الْجُهَنِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، قَالَ هِلالٌ: لا أَعْلَمُهُ إِلا عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَالَ أَيُّوبُ وَعَمْرٌو: أُرَاهُ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ بِغُلامٍ [وَهُوَ] يَسْلُخُ شَاةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < تَنَحَّ حَتَّى أُرِيَكَ فَأَدْخَلَ يَدَهُ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ، فَدَحَسَ بِهَا حَتَّى تَوَارَتْ إِلَى الإِبِطِ، ثُمَّ مَضَى فَصَلَّى لِلنَّاسِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ >.
قَالَ أَبودَاود: زَادَ عَمْرٌو فِي حَدِيثِهِ: -يَعْنِي لَمْ يَمَسَّ مَائً-، وَقَالَ: عَنْ هِلالِ بْنِ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيِّ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ هِلالٍ عَنْ عَطَاءِ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم مُرْسَلا، لَمْ يَذْكُرْ أَبَا سَعِيدٍ ۔
* تخريج: ق/الذبائح ۶ (۳۱۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۵۸) (صحیح)

۱۸۵- ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک لڑکے کے پاس سے ہوا، وہ ایک بکری کی کھال اتار رہاتھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’تم ہٹ جاؤ، میں تمہیں(عملی طور پر کھال اتار کر) دکھاتا ہوں‘‘، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے درمیان داخل کیا ،اور اسے دبایا یہاں تک کہ آپ کا ہاتھ بغل تک چھپ گیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ،اور لوگوں کو صلاۃ پڑھائی اور(پھر سے) وضو نہیں کیا ۔
ابو داود کہتے ہیں: عمرو نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی چھوا تک نہیں، نیز عمرو نے اپنی روایت میں ’’أخبرنا هلال بن ميمون الجهني‘‘ کے بجائے ’’عن هلال بن ميمون الرملي‘‘ ( بصیغہ ٔ عنعنہ ) کہا ہے ۔
ابوداود کہتے ہیں: اور اسے عبدالواحد بن زیاد اور ابومعاویہ نے ہلال سے، ہلال نے عطاء سے، عطاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلا ًروایت کیا ہے، اور ابوسعید (صحابی) کاذکر نہیں کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74-بَاب تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الْمَيْتَةِ
۷۴- باب: مردہ کو چھو کر وضو نہ کرنے کا بیان​


186- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ بِالسُّوقِ دَاخِلا مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ وَالنَّاسُ كَنَفَتَيْهِ، فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ مَيِّتٍ فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ: < أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ؟ > وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: م/الزھد ۱ (۲۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۵)، والبخاری فی الأدب المفرد (۹۶۲) من حدیث جعفر (صحیح)

۱۸۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب کی بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے دائیں بائیں جانب ہو کر چل رہے تھے، آپ چھوٹے کان والی بکری کے ایک مر دہ بچے کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کان پکڑ کر اٹھایا ،پھر فرمایا: ’’تم میں سے کون شخص اس کو لینا چاہے گا ؟‘‘، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کے مردار کا چھونا جائز ہے، اور اس کے چھونے سے دوبارہ وضو کی حاجت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75-بَاب فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ
۷۵- باب: آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان​


187- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَكَلَ كَتِفَ شَاةٍ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۲۴ (۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۷۹)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۱۵ (۲۰۷)، ن/الطھارۃ ۱۲۳ (۱۸۴)، ق/الطہارۃ ۶۶ (۴۸۸)، ط/الطھارۃ ۵(۱۹)، حم (۱/۲۲۶) (صحیح)

۱۸۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر صلاۃ پڑھی، اور وضونہیں کیا ۔

188- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ -الْمَعْنَى- قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ أَبِي صَخْرَةَ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: ضِفْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَأَمَرَ بِجَنْبٍ فَشُوِيَ، وَأَخَذَ الشَّفْرَةَ فَجَعَلَ يَحُزُّ لِي بِهَا مِنْهُ، قَالَ: فَجَاءَ بِلالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلاةِ، قَالَ: فَأَلْقَى الشَّفْرَةَ وَقَالَ: < مَا لَهُ تَرِبَتْ يَدَاهُ؟ > وَقَامَ ليُصَلّى، زَادَ الأَنْبَارِيُّ: < وَكَانَ شَارِبِي وَفَى فَقَصَّهُ لِي عَلَى سِوَاكٍ >، أَوْ قَالَ: < أَقُصُّهُ لَكَ عَلَى سِوَاكٍ >۔
* تخريج:تفرد بہ أبو داود، ت/الشمائل (۱۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۲) (صحیح)

۱۸۸- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوا توآپ نے بکری کی ران بھوننے کا حکم دیا، وہ بھو نی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، اور میرے لئے اس میں سے گوشت کاٹنے لگے، اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صلاۃ کی خبر دی، تو آپ نے چھری رکھ دی ،اور فرمایا : ’’اِسے کیا ہوگیا؟ اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں؟‘‘، اور اٹھ کر صلاۃ پڑھنے کھڑے ہوئے ۔
انباری کی روایت میں اتنا اضافہ ہے:’’میری موچھیں بڑھ گئی تھیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کے تلے ایک مسواک رکھ کر ان کو کتر دیا‘‘، یا فرمایا: ’’میں ایک مسواک رکھ کر تمہارے یہ بال کتر دوں گا ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے اتنی جلدی پڑی تھی کہ میرے کھانے سے فارغ ہوجانے کا انتظار تک نہیں کیا۔

189- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَتِفًا، ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ بِمِسْحٍ كَانَ تَحْتَهُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى۔
* تخريج: ق/الطہارۃ ۶۶ (۴۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۱۰) (صحیح)

۱۸۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر اپنا ہاتھ اس ٹاٹ سے پوچھا جو آپ کے نیچے بچھا ہواتھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور صلاۃ پڑھی۔

190- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم انْتَهَشَ مِنْ كَتِفٍ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۹، ۳۶۱) (صحیح)

۱۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے دست کا گوشت نوچ کر کھایا پھر صلاۃ پڑھی اور (دوبارہ ) وضو نہیں کیا ۔

191- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْخَثْعَمِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: قَرَّبْتُ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم خُبْزًا وَلَحْمًا، فَأَكَلَ ثُمَّ دَعَا بِوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ بِهِ ثُمَّ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ طَعَامِهِ فَأَكَلَ ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۶۳)، وقد أخرجہ: خ/الأطعمۃ ۵۳ (۵۴۵۷)، ت/الطھارۃ ۵۹ (۸۰)، ن/الطھارۃ ۱۲۳ (۱۸۵)، ق/الطھارۃ ۶۶ (۴۸۹)، حم (۳/۳۲۲) (صحیح)

۱۹۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روٹی اور گوشت پیش کیا، تو آپ نے کھایا ،پھر وضو کے لئے پانی منگایا ،اور اس سے وضو کیا ،پھر ظہر کی صلاۃ ادا کی ،پھر اپنا بچا ہوا کھانا منگایا اور کھایا ،پھر صلاۃ کے لئے کھڑے ہوئے اور (دوبارہ ) وضونہیں کیا ۔

192- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ سَهْلٍ أَبُو عِمْرَانَ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: كَانَ آخِرَ الأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرْكُ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ.
قَالَ أَبودَاود: هَذَا اخْتِصَارٌ مِنَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ۔
* تخريج: ن/ الطہارۃ ۱۲۳ (۱۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۴۷) (صحیح)

۱۹۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری فعل یہی تھا کہ آپ آگ کی پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو نہیں کرتے تھے ۔
ابوداود کہتے ہیں : یہ پہلی حدیث کا اختصار ہے ۔

193- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي كَرِيمَةَ، -قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: ابْنُ أَبِي كَرِيمَةَ، مِنْ خِيَارِ الْمُسْلِمِينَ-، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ ثُمَامَةَ الْمُرَادِيُّ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا مِصْرَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ فِي مَسْجِدِ مِصْرَ، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ أَوْ سَادِسَ سِتَّةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي دَارِ رَجُلٍ، فَمَرَّ بِلالٌ، فَنَادَاهُ بِالصَّلاةِ، فَخَرَجْنَا، فَمَرَرْنَا بِرَجُلٍ وَبُرْمَتُهُ عَلَى النَّارِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < أَطَابَتْ بُرْمَتُكَ؟ > قَالَ: نَعَمْ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، فَتَنَاوَلَ مِنْهَا بَضْعَةً فَلَمْ يَزَلْ يَعْلُكُهَا حَتَّى أَحْرَمَ بِالصَّلاةِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۳۳) (ضعیف) (اس کاراوی’’عبید بن ثمامہ‘‘ لَیِّن الحدیث ہے)

۱۹۳ - عبید بن ثمامہ مرادی کا بیان ہے کہ صحابی رسول عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ مصر میںہمارے پاس آئے، تو میں نے ان کو مصر کی مسجد میں حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: ’’ایک آدمی کے گھر میں مجھ سمیت سات یاچھ اشخاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ موجود تھے کہ اتنے میں بلا ل رضی اللہ عنہ گزرے اور آپ کو صلاۃ کے لئے آواز دی، ہم نکلے اور راستے میں ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جس کی ہانڈی آگ پر چڑھی ہوئی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے پوچھا: ’’کیا تمہاری ہانڈی پک گئی؟‘‘، اس نے جواب دیا: ہاں، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہانڈی سے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اس کو چباتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ کے لئے تکبیر ( تحریمہ ) کہی اور میں آپ کو دیکھ رہا تھا‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76-بَاب التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ
۷۶- باب: آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو کرنے کاحکم​


194- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ، عَنِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < الْوُضُوءُ مِمَّا أَنْضَجَتِ النَّارُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۷۰)، وقد أخرجہ: م/الطہارۃ ۲۳ (۳۵۲)، ت/الطھارۃ ۵۸ (۷۹)، ن/الطھارۃ ۱۲۲ (۱۷۱، ۱۷۲، ۱۷۳، ۱۷۴)، ق/الطھارۃ ۶۵ (۴۸۵)، حم (۲/۴۵۸، ۵۰۳، ۵۲۹) (صحیح)

۱۹۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو ہے ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم پہلے تھابعد میں منسوخ ہوگیا، ناسخ احادیث پہلے گزر چکی ہیں۔

195- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ يَحْيَى [يَعْنِي] ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ فَسَقَتْهُ قَدَحًا مِنْ سَوِيقٍ، فَدَعَا بِمَاءِ فَتَمَضْمَضَ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي! أَلا تَوَضَّأُ؟ إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < تَوَضَّئُوا مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ >، أَوْ قَالَ: < مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ >.
قَالَ أَبودَاود: فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ: < يَا ابْنَ أَخِي >۔
* تخريج: ن/الطھارۃ ۱۲۲ (۱۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۲۶، ۳۲۷) (صحیح)

۱۹۵- ابو سفیان بن سعید بن مغیرہ کا بیانہے کہ وہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، توام حبیبہ نے انہیں ایک پیالہ ستو پلایا ،پھر (ابوسفیان )نے پانی منگاکر کلی کی، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! تم وضو کیوں نہیں کرتے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جنہیں آگ نے بدل ڈالا ہو‘‘، یا فرمایا : ’’جنہیں آگ نے چھوا ہو، ان چیزوں سے وضو کرو‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں : زہری کی حدیث میں لفظ: ’’يا ابن أخي‘‘ (اے میرے بھتیجے )ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77-بَاب فِي الْوُضُوءِ مِنَ اللَّبَنِ
۷۷ - باب: دودھ پی کر کلی کرنے کابیان​


196- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم شَرِبَ لَبَنًا، فَدَعَا بِمَاءِ فَتَمَضْمَضَ، ثُمَّ قَالَ: <إِنَّ لَهُ دَسَمًا >۔
* تخريج: خ/الوضوء ۵۲ (۲۱۱)، والأشربۃ ۱۲ (۵۶۰۹)، م/الطہارۃ ۲۴ (۳۵۸)، ت/الطھارۃ ۶۶ (۸۹)، ن/الطھارۃ ۱۲۵ (۱۸۷)، ق/الطھارۃ ۶۸ (۴۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۳، ۲۲۷، ۳۲۹، ۳۳۷، ۳۷۳) (صحیح)

۱۹۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا، پھر پانی منگاکر کلی کی اور فرمایا: ’’اس میں چکنائی ہوتی ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : لیکن ایساکرنامستحب ہے واجب نہیں ہے ،جیسا کہ اگلی حدیث میں آرہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78-بَاب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۷۸- باب: دودھ پی کر کلی نہ کرنے کا بیان​


197- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ، عَنْ مُطِيعِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شَرِبَ لَبَنًا فَلَمْ يُمَضْمِضْ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، وَصَلَّى.
قَالَ زَيْدٌ: دَلَّنِي شُعْبَةُ عَلَى هَذَا الشَّيْخِ۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۸) (حسن)

۱۹۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر نہ کلی کی اور نہ(دوبارہ) وضوکیا اور صلاۃ پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79-بَاب الْوُضُوءِ مِنَ الدَّمِ
۷۹- باب: خون نکلنے سے وضو نہ ٹوٹنے کابیان​


198- حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم -يَعْنِي فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ- فَأَصَابَ رَجُلٌ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَحَلَفَ أَنْ لا أَنْتَهِيَ حَتَّى أُهَرِيقَ دَمًا فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ، فَخَرَجَ يَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْزِلا، فَقَالَ: مَنْ رَجُلٌ يَكْلَؤُنَا؟ فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: < كُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ >، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلانِ إِلَى فَمِ الشِّعْبِ اضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِيُّ، وَقَامَ الأَنْصَارِيُّ ليُصَلّيِ، وَأَتَى الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأَى شَخْصَهُ عَرَفَ أَنَّهُ رَبِيئَةٌ لِلْقَوْمِ، فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ، فَنَزَعَهُ حَتَّى رَمَاهُ بِثَلاثَةِ أَسْهُمٍ ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْتَبَهَ صَاحِبُهُ، فَلَمَّا عَرَفَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ هَرَبَ، وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالأَنْصَارِيِّ مِنَ الدَّمِ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ! أَلا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَى، قَالَ: كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۴۳، ۳۵۹) (حسن)

۱۹۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے ،تو ایک مسلمان نے کسی مشرک کی عورت کو قتل کردیا، اس مشرک نے قسم کھائی کہ جب تک میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کا خون نہ بہا دوں باز نہیں آسکتا، چنانچہ وہ ( اسی تلاش میں ) نکلا اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چلا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے ،اور فرمایا: ’’ہماری حفاظت کون کرے گا؟‘‘، تو ایک مہاجر اور ایک انصاری اس مہم کے لئے مستعد ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’تم دونوں گھاٹی کے سرے پر رہو‘‘، جب دونوں گھاٹی کے سرے کی طرف چلے(اور وہاں پہنچے) تو مہاجر ( صحابی ) لیٹ گئے، اور انصاری کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھنے لگے، وہ مشرک آیا، جب اس نے (دور سے ) اس انصاری کے جسم کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہی قوم کا محافظ ونگہبان ہے، اس کافر نے آپ پر تیر چلایا، جوآپ کو لگا، تو آپ نے اسے نکالا، یہاں تک کہ اس نے آپ کو تین تیر مارے، پھر آپ نے رکوع اورسجدہ کیا، پھر اپنے مہاجر ساتھی کو جگایا، جب اُسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہوشیار اور چوکنا ہوگئے ہیں ،تو بھاگ گیا، جب مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا توکہا: سبحان اللہ ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے کیوں نہیں بیدار کیا؟ تو انصاری نے کہا: میں ( صلاۃ میں قرآن کی ) ایک سورہ پڑھ رہاتھا ،مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث واضح طور سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ جسم کے کسی اور مقام سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، خواہ خون اپنے نکلنے کی جگہ تک رہ جائے یا وہاں سے بہہ نکلے، یہی اکثر علماء کاقول ہے، نیزاس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ زخم کا خون زخمیوں کے لئے پاک ہے، یہ مالکیہ کامذہب ہے اور یہی صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80- بَاب فِي الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ
۸۰ - باب: نیند (سونے) سے وضو ہے یا نہیں ؟​


199- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً فَأَخَّرَهَا حَتَّى رَقَدْنَا فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: < لَيْسَ أَحَدٌ يَنْتَظِرُ الصَّلاةَ غَيْرُكُمْ >۔
* تخريج: خ/مواقیت الصلاۃ ۲۴ (۵۷۰)، م/المساجد ۳۹ (۶۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۸، ۱۲۶) (صحیح)

۱۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی تیاری میں مصروفیت کی بناء پرعشاء کی صلاۃ میں دیر کردی ، یہاں تک کہ ہم مسجد میں سوگئے،پھر جاگے پھر سوگئے ،پھر جاگے پھر سوگئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: ’’(اس وقت) تمہارے علاوہ کوئی اور صلاۃ کا انتظار نہیں کررہا ہے‘‘۔

200- حَدَّثَنَا شَاذُّ بْنُ فَيَّاضٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ؛ قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَنْتَظِرُونَ الْعِشَاءَ الآخِرَةَ حَتَّى تَخْفِقَ رُئُوسُهُمْ ثُمَّ يُصَلُّونَ وَلايَتَوَضَّئُونَ.
قَالَ أَبودَاود فِيهِ: زَادَ فِيهِ شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: كُنَّا [نَخْفِقُ] عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَرَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ بِلَفْظٍ آخَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۴)، وقد أخرجہ: م/الحیض ۳۳ (۳۷۶)، ت/الطھارۃ ۵۷ (۷۸) (صحیح)

۲۰۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب عشاء کی صلاۃ کا انتظار کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کے سر (نیند کے غلبہ سے) جھک جھک جاتے تھے، پھر وہ صلاۃ اداکرتے اور(دوبارہ) وضو نہیں کرتے ۔
ابوداود کہتے ہیں: اس میں شعبہ نے قتادہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صلاۃ کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے نیند کے غلبہ کی وجہ سے جھک جھک جاتے تھے، اوراسے ابن ابی عروبہ نے قتادہ سے دوسرے الفاظ میں روایت کیا ہے۔

201- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَدَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ [بْنُ سَلَمَةَ] عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: أُقِيمَتْ صَلاةُ الْعِشَاءِ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي حَاجَةً، فَقَامَ يُنَاجِيهِ حَتَّى نَعَسَ الْقَوْمُ- أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ- ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ، وَلَمْ يَذْكُرْ وُضُوئًا۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۳۳(۳۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۶۰، ۲۶۸) (صحیح)

۲۰۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : عشاء کی صلاۃ کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہو ا اوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول !مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے ،اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لو گوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آگئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صلاۃ پڑھا ئی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا۔

202- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِالسَّلامِ بْنِ حَرْبٍ -وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ يَحْيَى- عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَسْجُدُ، وَيَنَامُ وَيَنْفُخُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي وَلا يَتَوَضَّأُ.
قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: صَلَّيْتَ وَلَمْ تَتَوَضَّأْ وَقَدْ نِمْتَ؟ فَقَالَ: <إِنَّمَا الْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا>.
زَادَ عُثْمَانُ وَهَنَّادٌ: < فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ >.
قَالَ أَبودَاود: قَوْلُهُ: < الْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا > هُوَ حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَمْ يَرْوِهِ إِلا يَزِيدُ [أَبُوخَالِدٍ] الدَّالانِيُّ عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَى أَوَّلَهُ جَمَاعَةٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا شَيْئًا مِنْ هَذَا.
وَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَحْفُوظًا، وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : < تَنَامُ عَيْنَايَ وَلا يَنَامُ قَلْبِي >.
وَقَالَ شُعْبَةُ: إِنَّمَا سَمِعَ قَتَادَةُ مِنْ أَبِي الْعَالِيَةِ أَرْبَعَةَ أَحَادِيثَ: حَدِيثَ يُونُسَ بْنِ مَتَّى، وَحَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ فِي الصَّلاةِ، وَحَدِيثَ: < الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ >، وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ: <حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ مِنْهُمْ عُمَرُ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ >.
قَالَ أَبودَاود: وَذَكَرْتُ حَدِيثَ يَزِيدَ الدَّالانِيِّ لأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فَانْتَهَرَنِي اسْتِعْظَامًا لَهُ، وَقَالَ: مَا لِيَزِيدَ الدَّالانِيِّ يُدْخِلُ عَلَى أَصْحَابِ قَتَادَةَ؟ وَلَمْ يَعْبَأْ بِالْحَدِيثِ۔
* تخريج: ت/الطھارۃ ۵۷ (۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۶) (ضعیف)

(مؤلف نے سبب ضعف بیان کردیاہے)
۲۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر تے اور(سجدہ میں) سو جا تے، اور خراٹے لینے لگتے تھے، پھراٹھتے اور صلاۃ پڑھتے، اور وضو نہیں کر تے تھے، ( ایک بار ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ نے نما ز پڑھی اور وضو نہیں کیا، حالا نکہ آپ سو گئے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وضو تو اس شخص پر ( لا زم آتا ) ہے جو لیٹ کر سو ئے ‘‘۔
عثمان اور ہناد نے’’فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ‘‘ (کیو نکہ جب کوئی چت لیٹ کر سوتا ہے تو اس کے اعضاء اور جوڑڈھیلے ہوجاتے ہیں)کا اضافہ کیا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ ٹکڑا: ’’وضو اس شخص پر لا زم ہے جوچت لیٹ کر سوئے‘‘ منکر ہے، اسے صرف یزیدابوخالد دالا نی نے قتا دہ سے روا یت کیا ہے، اور حدیث کے ابتدائی حصہ کو ایک جماعت نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، ان لوگوں نے اس میں سے کچھ ذکر نہیں کیا ہے۔
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ( غفلت ) کی نیند سے محفوظ تھے۔
اور ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: ’’میری دونوں آنکھیں سو تی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا‘‘۔
اورشعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف چا ر حدیثیں سنی ہیں: ایک یو نس بن متی کی ، دوسری ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جو صلاۃ کے باب میں مروی ہے، تیسری حدیث ’’الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ‘‘ہے، اور چوتھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث: ’’حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ مِنْهُمْ عُمَرُ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ‘‘ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے یزید دالانی کی روایت کا احمد بن حنبل سے ذکر کیا ، تو انہوں نے مجھے اِسے بڑی بات سمجھتے ہوئے ڈانٹا: اور کہا یز ید دالانی کو کیا ہے؟ وہ قتادہ کے شاگردوں کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیتے ہیں جنہیں ان لوگوں نے روایت نہیں کی ہیں،امام احمدنے (دالانی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے) اس حدیث کی پر واہ نہیں کی۔

203- حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحِمْصِيُّ فِي آخَرِينَ قَالُوا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ الْوَضِينِ بْنِ عَطَاءِ، عَنْ مَحْفُوظِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَائِذٍ؛ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < وِكَاءُ السَّهِ الْعَيْنَانِ فَمَنْ نَامَ فَلْيَتَوَضَّأْ >۔
* تخريج: ق/الطھارۃ ۶۲ (۴۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۱۱، ۴/۹۷) (حسن)

۲۰۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سرین کا بندھن دونوں آنکھیں (بیداری) ہیں، پس جو سو جائے وہ وضو کرے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور علماء کے نزدیک گہری نیند وضو کی ناقض یعنی توڑ دینے والی ہے، اور ہلکی نیند وضو نہیں توڑتی، کتب ِ احکام میں قلیل وکثیر (ہلکی اور گہری نیند) کی تحدید میں قدرے تفصیل بھی مذکور ہے، صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ نیند پاخانہ اور پیشاب کی طرح ناقض وضو ہے، جبکہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے سوجاتے، پھر بلاوضو جدید صلاۃ ادا کرتے تھے، اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ ہلکی نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
 
Top