• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
93- بَاب مَنْ يَأْخُذُ الشَّيْئَ عَلَى الْمِزَاحِ
۹۳-باب: ہنسی مذاق میں کوئی کسی کی چیز لے لے تو کیسا ہے؟​


5003- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، [عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ] (ح) وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ [الدِّمَشْقِيُّ]، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <لايَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيهِ لاعِبًا وَلا جَادًّا > وَقَالَ سُلَيْمَانُ: < لَعِبًا وَلا جِدًّا > < وَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا > لَمْ يَقُلِ ابْنُ بَشَّارٍ: ابْنَ يَزِيدَ، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: ت/الفتن ۳ (۲۱۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۱) (حسن)
۵۰۰۳- یزیدبن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا سامان ( بلا اجازت) نہ لے نہ ہنسی میں اور نہ ہی حقیقت میں'' ۱؎ ۔
سلیما ن کی روایت میں (لا عباً ولا جادّاً کے بجائے) لعبا ولا جدا ہے ، اور جو کوئی اپنے بھائی کی لاٹھی لے تو چاہئے کہ (ضرورت پو ری کر کے) اسے لوٹا دے۔
ابن بشار نے صرف عبداللہ بن سا ئب کہا ہے ابن یزید کا اضافہ نہیں کیا ہے اور ( رسول اللہ ﷺ کو فر ما تے سنا، کہنے کے بجائے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : حقیقت میں لینے کی ممانعت کی وجہ تو ظاہر ہے کہ یہ چوری ہے اور ہنسی میں لینے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ چیز سامان والے کی ناراضگی اور اس کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔


5004- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَهُ فَأَخَذَهُ، فَفَزِعَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶۲) (صحیح)
۵۰۰۴- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ ہم سے صحابہء کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے ، ان میں سے ایک صا حب سو گئے ، کچھ لوگ اس رسی کے پاس گئے ، جو اس کے پاس تھی اور اسے لے لیا تو وہ ڈر گیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مسلمان کے لئے درست نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بطور مذاق بھی ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایذا رسانی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
94- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُتَشَدِّقِ فِي الْكَلامِ
۹۴-باب: ٹر ٹر باتیں کر نے والے کا بیان​


5005- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ [الْبَاهِلِيُّ وَكَانَ يَنْزِلُ الْعَوَقَةَ]، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ [قَالَ أَبو دَاود: هُوَ ابْنُ عَمْرٍو] قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ تَخَلُّلَ الْبَاقِرَةِ بِلِسَانِهَا >۔
* تخريج: ت/الأدب ۷۲ (۲۸۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۵، ۱۸۷) (صحیح)
۵۰۰۵- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالی دشمنی رکھتا ہے تڑتڑ بولنے والے ایسے لوگوں سے جو اپنی زبان کو ایسے پھراتے ہیں جیسے گائے(گھاس کھانے میں) چپڑ چپڑ کرتی ہے، یعنی بے سوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے بکے جاتا ہے''۔


5006- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ تَعَلَّمَ صَرْفَ الْكَلامِ لِيَسْبِيَ بِهِ قُلُوبَ الرِّجَالِ، أَوِ النَّاسِ، لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلاعَدْلً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۱۰) (ضعیف)
سند میں عبداللہ بن مسیب لین الحدیث ہیں )
۵۰۰۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو کوئی باتوں کو گھمانا اس لئے سیکھے کہ اس سے آدمیوں یا لوگوں کے دلوں کو حق بات سے پھیر کر اپنی طرف مائل کرلے ، تو اللہ قیامت کے دن اس کی نہ نفل (عبادت) قبول کرے گا اور نہ فرض''۔


5007- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ رَجُلانِ مِنَ الْمَشْرِقِ، فَخَطَبَا، فَعَجِبَ النَّاسُ -يَعْنِي لِبَيَانِهِمَا- فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا> أَوْ < إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ >۔
* تخريج: خ/النکاح ۴۷ (۵۱۴۶)، الطب ۵۱ (۵۷۶۷)، ت/البر والصلۃ ۸۱ (۲۰۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶، ۵۹، ۶۲، ۹۴، ۴/۲۶۳) (صحیح)
۵۰۰۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو آدمی ۱؎ پورب سے آئے تو ان دونوں نے خطبہ دیا ، لوگ حیرت میں پڑ گئے ، یعنی ان کے عمدہ بیان سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں ۲؎ یعنی سحر کی سی تاثیر رکھتی ہیں، راوی کو شک ہے کہ ''إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا'' کہا یا'' إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ '' کہا۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں آدمیوں کے نام زبرقان بن بدر اور عمرو بن اہتم تھے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس ان کی آمد کا واقعہ ۹ ھ کا ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ خوبی اگر حق کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو ممدوح ہوتی ہے اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو مذموم۔


5008- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ [الْبَهْرَانِيُّ]، أَنَّهُ قَرَأَ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ، وَحَدَّثَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ابْنُهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو ظَبْيَةَ، أَنَّ عَمْرَو ابْنَ الْعَاصِ قَالَ يَوْمًا -وَقَامَ رَجُلٌ فَأَكْثَرَ الْقَوْلَ- فَقَالَ عَمْرٌو: لَوْ قَصَدَ فِي قَوْلِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لَقَدْ رَأَيْتُ، أَوْ أُمِرْتُ، أَنْ أَتَجَوَّزَ فِي الْقَوْلِ؛ فَإِنَّ الْجَوَازَ هُوَ خَيْرٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۴۷) (حسن الإسناد)
۵۰۰۸- ابو ظبیہ کا بیان ہے کہ عمر و بن عا ص نے ایک دن کہا اور(اس سے پہلے) ایک شخص کھڑے ہو کر بے تحاشہ بولے جا رہا تھا، اس پر عمرو نے کہا: اگر وہ بات میں درمیانی روش اپناتا تو اس کے لئے بہتر ہوتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے یا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں گفتگو میں اختصار سے کام یعنی جتنی بات کافی ہو اسی پر اکتفا کروں اس لئے کہ اختصار ہی بہتر روش ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
95- بَاب مَا جَاءَ فِي الشِّعْرِ
۹۵-باب: شعر کا بیان​


5009- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا >.
قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّهُ قَالَ: وَجْهُهُ أَنْ يَمْتَلِئَ قَلْبُهُ حَتَّى يَشْغَلَهُ عَنِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ، فَإِذَا كَانَ الْقُرْآنُ وَالْعِلْمُ الْغَالِبَ فَلَيْسَ جَوْفُ هَذَا عِنْدَنَا مُمْتَلِئًا مِنَ الشِّعْرِ، وَ < إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا > قَالَ: [كَأَنَّ] الْمَعْنَى أَنْ يَبْلُغَ مِنْ بَيَانِهِ أَنْ يَمْدَحَ الإِنْسَانَ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ، ثُمَّ يَذُمَّهُ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ الآخَرِ، فَكَأَنَّهُ سَحَرَ السَّامِعِينَ بِذَلِكَ ۔
* تخريج: خ/الأدب ۹۲ (۶۱۵۵) ، م/الشعر ح ۷ (۲۲۵۷)، ت/الأدب ۷۱ (۲۸۵۱)، ق/الأدب ۱ (۳۷۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۸۸، ۳۳۱، ۳۵۵، ۳۹۱، ۴۸۰) (صحیح)
۵۰۰۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سے کسی کے لئے اپنا پیٹ پیپ سے بھر لینا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ شعر سے بھرے، ابو علی کہتے ہیں : مجھے ابو عبید سے یہ بات پہنچی کہ انہوں نے کہا: اس کی شکل ( شعر سے پیٹ بھر نے کی) یہ ہے کہ اس کا دل بھر جائے یہاں تک کہ وہ اسے قرآن ، اور اللہ کے ذکر سے غافل کردے اور جب قرآن اور علم اس پر چھایا ہوا ہو تو اس کا پیٹ ہمارے نز دیک شعر سے بھرا ہوانہیں ہے( اور آپ نے فرمایا) بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں یعنی ان میں سحر کی سی تاثیر ہوتی ہے ، وہ کہتے ہیں: اس کے معنی گو یا یہ ہیں کہ وہ اپنی تقریر میں اس مقام کو پہنچ جائے کہ وہ انسا ن کی تعریف کرے اور سچی بات( تعریف میں) کہے یہاں تک کہ دلوں کو اپنی بات کی طرف موڑلے پھر اس کی مذمت کرے اور اس میں بھی سچی بات کہے ، یہاں تک کہ دلوں کو اپنی دوسری بات جو پہلی بات کے مخالف ہو کی طرف موڑدے ،تو گویا اس نے سامعین کو اس کے ذریعہ سے مسحور کردیا۔


5010- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، عَنْ أُبَيِّ [بْنِ كَعْبٍ]، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَة >۔
* تخريج: خ/الأدب ۹ (۶۱۴۵)، ق/الأدب ۴۱ (۳۷۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲۵، ۱۲۶)، دي/الاستئذان ۶۸ (۲۷۴۶) (صحیح)
۵۰۱۰- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''بعض اشعار دانائی پر مبنی ہوتے ہیں''۔


5011- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِكَلامٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكَماً >۔
* تخريج: ت/الأدب ۶۹ (۲۸۴۵)، ق/الأدب ۴۱ (۳۷۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۹، ۳۰۹، ۳۱۳، ۳۲۷، ۳۳۲) (صحیح)
۵۰۱۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور باتیں کرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''بعض بیان جادو ہوتے ہیں اور بعض اشعار'حُکْم' ۱؎ (یعنی حکمت) پر مبنی ہوتے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : یہاں 'حُکْم''حِکْمَتْ' کے معنی میں ہے جیسا کہ آیت کریمہ''وآتیناہ الحُکْمَ صبیّاً'' میں ہے۔


5012- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُوتُمَيْلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ النَّحْوِيُّ -عَبْدُاللَّهِ بْنُ ثَابِتٍ- قَالَ: حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلا، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا، وَإِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالا > فَقَالَ صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ: صَدَقَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ : أَمَّا قَوْلُهُ: < إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا > فَالرَّجُلُ يَكُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَهُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: < إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلا > فَيَتَكَلَّفُ الْعَالِمُ إِلَى عِلْمِهِ مَا لايَعْلَمُ فَيُجَهِّلُهُ ذَلِكَ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: < إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا > فَهِيَ هَذِهِ الْمَوَاعِظُ وَالأَمْثَالُ الَّتِي يَتَّعِظُ بِهَا النَّاسُ، وَأَمَّا قَوْلُهُ < إِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالا > فَعَرْضُكَ كَلامَكَ وَحَدِيثَكَ عَلَى مَنْ لَيْسَ مِنْ شَأْنِهِ وَلا يُرِيدُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۷۹، ۱۸۸۱۷) (ضعیف)
(سند میں عبداللہ بن ثابت ابوجعفرمجہول اورصخربن عبداللہ لین الحدیث ہیں)
۵۰۱۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ''بعض بیان یعنی گفتگو، خطبہ اور تقریر جادو ہوتی ہیں( یعنی ان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے)، بعض علم جہالت ہوتے ہیں ، بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں ، اور بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں''۔
تو صعصہ بن صوحان بولے: اللہ کے نبی اکرمﷺ نے سچ کہا، رہا آپ کا فرمانا بعض بیان جادو ہو تے ہیں ، تو وہ یہ کہ آدمی پر دوسرے کا حق ہوتا ہے ، لیکن وہ دلائل ( پیش کرنے) میں صا ب حق سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے ، چنانچہ وہ اپنی دلیل بہتر طور سے پیش کر کے اس کے حق کو مار لے جاتا ہے ۔
اور رہا آپ کا قول ''بعض علم جہل ہوتا ہے''، تو وہ اس طرح کہ عالم بعض ایسی باتیں بھی اپنے علم میں ملانے کی کوشش کرتا ہے ، جو اس کے علم میں نہیں چنانچہ یہ چیز اسے جاہل بنا دیتی ہے ۔
اور رہا آپ کا قول''بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں'' ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسی نصیحتیں اور مثالیں ہوتی ہیں ،جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ، رہا آپ کا قول کہ'' بعض باتیں بو جھ ہوتی ہیں'' تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بات یا اپنی گفتگو ایسے شخص پر پیش کرو جو اس کا اہل نہ ہو یا وہ اس کا خواہاں نہ ہو۔


5013- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ [قَالَ:] مَرَّ عُمَرُ بِحَسَّانَ وَهُوَ يُنْشِدُ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: [قَدْ] كُنْتُ أُنْشِدُ [وَ] فِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ ۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۱۲)، م/فضائل الصحابہ ۳۴ (۲۴۸۵)، ن/المساجد ۲۴ (۷۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۲) (صحیح)
۵۰۱۳- سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گز رے ، وہ مسجد میں شعرپڑھ رہے تھے تو عمر نے انہیں گھور کر دیکھا، تو انہوں نے کہا:میں شعرپڑھتا تھا حالانکہ اس (مسجد ) میں آپ سے بہتر شخص ( نبی اکرم ﷺ ) موجود ہوتے تھے۔


5014- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، بِمَعْنَاهُ، زَادَ: فَخَشِيَ أَنْ يَرْمِيَهُ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَجَازَه۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۲) (صحیح)
۵۰۱۴- اس سند سے ابو ہریرہ سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے'' تو وہ(عمر) ڈرے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اجازت کو بطور دلیل پیش نہ کردیں چنانچہ انہوں نے انہیں(مسجد میں شعر پڑھنے کی) اجازت دے دی''۔


5015- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمِصِّيصِيُّ [لُوَيْنٌ]، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، وَهِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ فَيَقُومُ عَلَيْهِ يَهْجُو مَنْ قَالَ فِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ >۔
* تخريج: ت/الأدب ۶۹ (۲۸۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۲۰، ۱۶۳۵۱)، وقد أخرجہ: م/فضائل الصحابہ ۳۴ (۲۴۸۵)، حم (۶/۷۲) (حسن)
۵۰۱۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حسان رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر رکھتے ، وہ اس پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کی ہجو کرتے جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں بے ادبی کرتے تھے، تو (ایک با ر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''یقینا روح القدس( جبرئیل ) حسان کے ساتھ ہوتے ہیں جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دفاع کرتے ہیں''۔


5016- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ} فَنَسَخَ مِنْ ذَلِكَ وَاسْتَثْنَى فَقَالَ: {إِلا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۶۸) (حسن الإسناد)
۵۰۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ} ۱؎ میں سے وہ لوگ مخصوص و مستثنیٰ ہیں جن کو اللہ تعالی نے{إِلا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا} ۲؎ میں بیان کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بھٹکے ہوئے ہوں،(الشعراء : ۲۲۴)
وضاحت ۲؎ : سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا،(الشعراء : ۲۲۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
96- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّؤْيَا
۹۶-باب: خواب کا بیان​


5017- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ زُفَرَ ابْنِ صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاةِ الْغَدَاةِ يَقُولُ: < هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمُ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا > وَيَقُولُ: < إِنَّهُ لَيْسَ يَبْقَى بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّةِ إِلا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۰۰، ۱۳۵۰۸)، وقد أخرجہ: ط/ الرؤیا ۱ (۲)، حم (۲/۳۲۵) (صحیح الإسناد)
۵۰۱۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صلاۃِ فجر سے(سلام پھیر کر) پلٹتے تو پوچھتے:''کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرماتے: میرے بعد نیک خواب کے سوا نبوت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میری موت کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور مستقبل کی جو باتیں وحی سے معلوم ہوتی تھیں اب صرف سچّے خواب ہی کے ذریعہ جانی جاسکتی ہیں۔


5018- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْئٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّةِ >۔
* تخريج: خ/ التعبیر ۲ (۶۹۸۷)، م/ الرؤیا ۲ (۲۲۶۴)، ت/ الرؤیا ۱ (۲۲۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۸۵، ۵/۳۱۶، ۳۱۹)، دی/ الرؤیا ۱ (۲۱۸۲) (صحیح)
۵۰۱۸- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مومن کا خواب صحیح اور سچ ہوتا ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی نبوت کی کامل مدت کل تیئس سال ہے اس میں سے شروع کے چھ مہینے جو مکہ کا ابتدائی دور ہے اس میں آپ کے پاس وحی(بحالت خواب نازل ہوتی تھی اور یہ مدت کل نبوی مدت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے گویا سچّا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔


5019- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ أَنْ تَكْذِبَ وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا، وَالرُّؤْيَا ثَلاثٌ: فَالرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ بُشْرَى مِنَ اللَّهِ، وَالرُّؤْيَا تَحْزِينٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَرُؤْيَا مِمَّا يُحَدِّثُ بِهِ الْمَرْءُ نَفْسَهُ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ فَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ وَلا يُحَدِّثْ بِهَا النَّاسَ > قَالَ: < وَأُحِبُّ الْقَيْدَ وَأَكْرَهُ الْغُلَّ، وَالْقَيْدُ: ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ >.
قَالَ أَبو دَاود: إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ [يَعْنِي] إِذَا اقْتَرَبَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ [يَعْنِي] يَسْتَوِيَانِ ۔
* تخريج: م/الرؤیا (۲۲۶۳)، ت/الرؤیا ۱ (۲۲۷۰)، دي/الرؤیا ۶ (۲۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۴۴)، وقد أخرجہ: خ/التعبیر ۲۶ (۷۰۷۱) (صحیح)
۵۰۱۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب زمانہ قریب ہو جائے گا ، تو مومن کا خواب جھوٹا نہ ہوگا، اور ان میں سب سے زیادہ سچا خواب اسی کا ہوگا ، جو ان میں گفتگو میں سب سے سچا ہو گا ، خواب تین طرح کے ہوتے ہیں : بہتر اور اچھے خواب اللہ کی جانب سے خوش خبری ہوتے ہیں اور کچھ خواب شیطا ن کی طرف سے تکلیف ورنج کا باعث ہوتے ہیں، اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں لہٰذا جب تم میں سے کوئی (خواب میں) ناپسندیدہ بات دیکھے تو چاہئے کہ اٹھ کر صلاۃ پڑھ لے اور اسے لوگوں سے بیان نہ کرے ، فرمایا: میں قید (پیر میں بیڑی پہننے) کو ( خواب میں) پسند کرتا ہوں اور غل( گردن میں طوق ) کو نا پسند کرتا ہوں ۱؎ اور قید ( پیر میں بیڑی ہونے) کا مطلب دین میں ثابت قدم ہونا ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں: ''جب زمانہ قریب ہوجائے گا '' کا مطلب یہ ہے کہ جب رات اور دن قریب قریب یعنی برابر ہوجائیں۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس میں قرض دار رہنے یا کسی کے مظالم کا شکار بننے اور محکوم علیہ ہونے کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔


5020- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءِ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ عُدُسٍ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ، مَا لَمْ تُعَبَّرْ، فَإِذَا عُبِّرَتْ وَقَعَتْ > قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: < وَلا تَقُصَّهَا إِلا عَلَى وَادٍّ أَوْ ذِي رَأْيٍ >۔
* تخريج: ت/الرؤیا ۶ (۲۲۷۸)، ق/الرؤیا ۶ (۳۹۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳) دي/الرؤیا ۱۱ (۲۱۹۴) (صحیح)
۵۰۲۰- ابو رزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خواب پرندے کے پیر پر ہو تا ہے ۱؎ جب تک اس کی تعبیر نہ بیان کردی جائے، اور جب اس کی تعبیر بیان کردی جاتی ہے تو وہ وا قع ہو جاتا ہے''۔
میرا خیال ہے آپ نے فرمایا: ''اور اسے اپنے دوست یا کسی صاحب عقل کے سوا کسی اور سے بیان نہ کرے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تعبیر بیان کئے جانے تک اس خواب کے لئے جائے قرار اور ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔


5021- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ زُهَيْرًا يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الرُّؤْيَا مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ؛ فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَنْفُثْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ لِيَتَعَوَّذْ مِنْ شَرِّهَا؛ فَإِنَّهَا لا تَضُرُّهُ >۔
* تخريج: خ/ الطب ۳۹ (۵۷۴۷)، التعبیر ۳ (۶۹۸۴)، ۱۰ (۶۹۹۵)، ۱۴ (۷۰۰۵)، ۴۶ (۷۰۴۴)، م/الرؤیا ح ۱ (۲۶۶۱)، ت/الرؤیا ۵ (۲۲۷۷)، ق/الرؤیا ۳ (۳۹۰۹)، ط/الرؤیا ۱ (۴)، حم (۵/۲۹۶، ۳۰۳، ۳۰۴، ۳۰۵، ۳۰۹)، دي/الرؤیا ۵ (۲۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳۵) (صحیح)
۵۰۲۱- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خیالات شیطان کی طرف سے ، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ( خواب میں) ایسی چیز دیکھے جسے وہ نا پسند کرتا ہے ، تو اپنے بائیں جانب تین بار تھوکے، پھر اس کے شر سے پناہ طلب کرے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا''۔


5022- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الْهَمْدَانِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ [الثَّقَفِيُّ]، قَالا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يَكْرَهُهَا فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ وَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ثَلاثًا، وَيَتَحَوَّلُ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِي كَانَ عَلَيْه >۔
* تخريج: م/الرؤیا ح ۲ (۲۲۶۲)، ق/تعبیرالرؤیا ۴ (۲۹۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۰) (صحیح)
۵۰۲۲- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب تم میں سے کوئی خواب دیکھے جسے وہ نا پسند کرتا ہو تو اپنی بائیں جانب تین بار تھو کے تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرے ، اور اپنے اس پہلو کو بدل دے جس پر وہ تھا''۔


5023- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَيَرَانِي فِي الْيَقَظَةِ > أَوْ: < لَكَأَنَّمَا رَآنِي فِي الْيَقَظَةِ، وَلا يَتَمَثَّلُ الشَّيْطَانُ بِي >۔
* تخريج: خ/العلم ۳۸ (۱۱۰)، الأدب ۱۰۹ (۶۱۹۷)، التعبیر ۱۰ (۶۹۹۳)، م/الرؤیا ۱ (۲۲۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۱۰)، وقد أخرجہ: ق/تعبیر الرؤیا ۲ (۳۹۰۱)، حم (۱ /۲۳۱، ۳۴۲، ۴۱۰، ۴۱۱، ۴۲۵، ۴۶۳) (صحیح)
۵۰۲۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ مجھے جاگتے ہوئے بھی عنقریب دیکھے گا، یا یوں کہا کہ گویا اس نے مجھے جاگتے ہوئے دیکھا، اور شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا ۔


5024- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ صَوَّرَ صُورَةً عَذَّبَهُ اللَّهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَنْفُخَ فِيهَا وَلَيْسَ بِنَافِخٍ، وَمَنْ تَحَلَّمَ كُلِّفَ أَنْ يَعْقِدَ شَعِيرَةً، وَمَنِ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ يَفِرُّونَ بِهِ مِنْهُ صُبَّ فِي أُذُنِهِ الآنُكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج: خ/التعبیر ۴۵ (۷۰۴۲)، ت/اللباس ۱۹ (۱۷۵۱)، الرؤیا ۸ (۲۲۸۳)، ن/الزینۃ من المجتبی ۵۹ (۵۳۶۱)، ق/الرؤیا ۸ (۳۹۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۶، ۲۴۱، ۱۴۶، ۳۵۰ ، ۳۵۹، ۳۶۰) (صحیح)
۵۰۲۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جو کوئی تصویر بنائے گا، اس کی وجہ سے اسے (اللہ) قیامت کے دن عذاب دے گا یہاں تک کہ وہ اس میں جان ڈال دے، اور وہ اس میں جان نہیں ڈال سکتا،اور جو جھوٹا خواب بنا کر بیان کرے گا اسے قیامت کے دن مکلف کیا جائے گا کہ وہ جو میں گرہ لگا ئے ۱؎ اور جو ایسے لوگوں کی بات سنے گا جو اسے سنانا نہیں چاہتے ہیں ، تو اس کے کان میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا''۔
وضاحت ۱؎ : اور وہ یہ نہیں کرسکے گا کیونکہ جَو میں گرہ لگانا ممکن نہیں۔


5025- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ كَأَنَّا فِي دَارِ عُقْبَةَ بْنِ رَافِعٍ، وَأُتِينَا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابٍ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ الرِّفْعَةَ لَنَا فِي الدُّنْيَا، وَالْعَاقِبَةَ فِي الآخِرَةِ، وَأَنَّ دِينَنَا قَدْ طَابَ >۔
* تخريج: م/الرؤیا ۴ (۲۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۸۶) (صحیح)
۵۰۲۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں نے آج رات دیکھا جیسے ہم عقبہ بن را فع کے گھر میں ہوں، اور ہمارے پاس ابن طاب ۱؎ کی رطب تازہ (کھجوریں )لائی گئیں ، تو میں نے یہ تعبیر کی کہ دنیامیں بلند ی ہمارے واسطے ہے اور آخرت کی عاقبت ۲؎ بھی اور ہمارا دین سب سے عمدہ اور اچھا ہوگیا ''۔
وضاحت ۱؎ : ابن طاب ایک قسم کی کھجورہے ، اس سے دین کی عمدگی اور پاکی نکلی رافع کے لفظ سے دنیا میں رفعت اور بلندی ۔
وضاحت ۲؎ : اورعقبہ عاقبت کی بھلائی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
97- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّثَاؤُبِ
۹۷-باب: جمائی لینے کا بیان​


5026- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنِ ابْنِ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا تَثَائَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيُمْسِكْ عَلَى فِيهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ >۔
* تخريج: م/الزہد ۹ (۲۹۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱، ۳۷، ۹۳، ۹۶)، دي/الصلاۃ ۱۰۶ (۱۴۲۲) (صحیح)
۵۰۲۶- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنے منہ کو بند کر لے ، اس لئے کہ شیطان (منہ میں) داخل ہوجاتا ہے''۔


5027- حَدَّثَنَا ابْنُ الْعَلاءِ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلٍ، نَحْوَهُ، قَالَ: < فِي الصَّلاةِ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۱۹) (صحیح)
۵۰۲۷- سہیل سے بھی اسی طرح مروی ہے ، اس میں یہ ہے'' (جب جمائی) صلاۃ میں ہوتو جہاں تک ہو سکے منہ بند رکھے''۔


5028- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ [الْمَقْبُرِيِّ] عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا تَثَائَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ، وَلا يَقُلْ هَاهْ هَاهْ؛ فَإِنَّمَا ذَلِكُمْ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ >۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۹)، الأدب ۱۲۵ (۶۲۲۳)، ۱۲۶ (۶۲۶۲)، ت/الصلاۃ ۶ ۱۵ (۳۷۰)، الأدب ۷ (۲۷۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۲۲)، وقد أخرجہ: م/الزہد والرقاق ۹ (۲۹۹۵)، حم (۲ /۲۶۵، ۴۲۸، ۵۱۷) (صحیح)
۵۰۲۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالی چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو نا پسند، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے ، تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے رہے، اور ہاہ ہاہ نہ کہے، اس لئے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ، وہ اس پر ہنستا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
98- بَاب فِي الْعُطَاسِ
۹۸-باب: چھینک کا بیان​


5029- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا عَطَسَ وَضَعَ يَدَهُ، أَوْ ثَوْبَهُ، عَلَى فِيهِ، وَخَفَضَ، أَوْ غَضَّ بِهَا صَوْتَهُ، شَكَّ يَحْيَى۔
* تخريج: ت/الأدب ۶ (۲۷۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۳۹) (حسن صحیح)
۵۰۲۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور آہستہ آواز سے چھینکتے ۔


5030- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ وَخُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خَمْسٌ تَجِبُ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ: رَدُّ السَّلامِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَازَةِ >۔
* تخريج: خ/الجنائز ۲ (۱۲۴۰ تعلیقًا)، م/السلام ۳ (۲۱۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۱، ۳۷۲، ۴۱۲، ۵۴۰) (صحیح)
۵۰۳۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پانچ چیز یں ہر مسلمان پر اپنے بھائی کے لئے واجب ہیں ، سلام کا جواب دینا ، چھینکنے والے کا جواب دینا، دعوت قبول کر نا ، مریض کی عیادت کر نا اور جنازے کے ساتھ جانا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
99- بَاب مَا جَاءَ فِي تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ
۹۹-باب: چھینکنے والے کا جواب کیسے دے؟​


5031- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ سَالِمٌ: وَعَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ مِمَّا قُلْتُ لَكَ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنَّكَ لَمْ تَذْكُرْ أُمِّي بِخَيْرٍ وَلا بِشَرٍّ؟ قَالَ: إِنَّمَا قُلْتُ لَكَ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، إِنَّا بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : $ وَعَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ # ثُمَّ قَالَ: <إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ > قَالَ: فَذَكَرَ بَعْضَ الْمَحَامِدِ، < وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ عِنْدَهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَرُدَّ -يَعْنِي عَلَيْهِمْ- يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ >۔
* تخريج: ت/الأدب ۳ (۲۷۴۰)، النسائی في الکبری ۱۰۰۵۳، وعمل الیوم واللیلۃ ۸۶ (۲۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷) (ضعیف)
(سند میں ہلال بن یساف اورسالم بن عبید کے درمیان ایک راوی ساقط ہے ، اور عمل الیوم واللیلۃ (۲۲۹) سے ظاہر ہوتا ہے کہ دور اوی ساقط ہیں اوردونوں مبہم ہیں، مؤلف کی آگے آنے والی روایت (۵۰۳۲) سے ایک راوی ''خالد بن عرفجہ '' کا ساقط ہونا ظاہر ہوتا ہے ،انہی اختلافات کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے )
۵۰۳۱- ہلا ل بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سالم بن عبید کے ساتھ تھے کہ ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا ''السَّلامُ عَلَيْكُمْ'' ( تم پر سلامتی ہو) تو سالم نے کہا:''عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ'' ( تم پر بھی اور تمہاری ماں پر بھی) پھر تھوڑی دیر کے بعد بولے : شاید جوبات میں نے تم سے کہی تمہیں ناگوار لگی ، اس نے کہا: میری خواہش تھی کہ آپ میری ماں کا ذکر نہ کرتے ، نہ خیر کے ساتھ نہ شرکے ساتھ ، وہ بولے ، میں نے تم سے اسی طرح کہا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کہا، اسی دوران کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اچانک لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: ''السَّلامُ عَلَيْكُمْ'' ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ'' ، پھر آپ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو ''الْحَمْدُ لِلَّهِ'' کہے اللہ کی تعریف کرے پھر آپ نے حمد کے بعض کلمات کا تذکرہ کیا (جو چھینک آنے والا کہے) اور چاہئے کہ وہ جو اس کے پاس ہو ''يَرْحَمُكَ اللَّهُ'' ( اللہ تم پر رحم کرے) کہے، اور چاہئے کہ وہ (چھینکنے والا) ان کو پھر جواب دے، '' يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ'' (اللہ ہماری اور آپ کی مغفرت فرمائے)۔


5032- حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ -يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ- عَنْ أَبِي بِشْرٍ وَرْقَاءَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَرْفَجَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ الأَشْجَعِيِّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ ، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۶) (ضعیف)
۵۰۳۲- اس سند سے سالم بن عبید اشجعی سے یہی حدیث نبی اکرمﷺ سے مرفوعا مروی ہے ۔


5033- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَلْيَقُلْ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَيَقُولُ هُوَ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۱۲۶ (۶۲۲۴)، ن/الیوم واللیلۃ (۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۵۳) (صحیح)
۵۰۳۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو چاہئے کہ وہ کہے : ''الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ '' (ہرحالت میں تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں) اور چاہئے کہ اس کا بھائی یا اس کا ساتھی کہے: ''يَرْحَمُكَ اللَّهُ'' ( اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اب وہ پھر کہے: ''يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ'' ( اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہیں ٹھیک رکھے) (اور تمہاری حالت درست فرمادے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
100- بَاب كَمْ مَرَّةً يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ
۱۰۰-باب: چھینکنے والے کا جواب کتنی بار دیا جائے؟​


5034- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: شَمِّتْ أَخَاكَ ثَلاثًا، فَمَا زَادَ فَهُوَ زُكَامٌ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۵۱) (حسن)
۵۰۳۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:تین بار اپنے بھائی کی چھینک کا جواب دو اور جو اس سے زیادہ ہو تو وہ زکام ہے۔


5035- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لا أَعْلَمُهُ إِلا أَنَّهُ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ مُوسَى بْنِ قَيْسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۵۱) (حسن)
۵۰۳۵-سعید بن ابی سعید ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث کومرفوعاً روایت کرتے ہیں۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے ابونعیم نے مو سی بن قیس سے ، موسیٰ نے محمد بن عجلا ن سے ، ابن عجلان نے سعید سے ، سعید نے ابوہریرہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے۔


5036- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حُمَيْدَةَ أَوْ عُبَيْدَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهَا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < تُشَمِّتُ الْعَاطِسَ ثَلاثًا، فَإِنْ شِئْتَ أَنْ تُشَمِّتَهُ فَشَمِّتْهُ، وَإِنْ شِئْتَ فَكُفَّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۴۶)، وقد أخرجہ: ت/الأدب ۵ (۲۷۴۴) (ضعیف)
(سند میں راوی یزید بن عبدالرحمن کثیر الخطاء اورحمیدہ یا عبیدہ بنت عبید مجہول راوی ہیں )
۵۰۳۶- عبید بن رفا عہ زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''چھینکنے والے کا جواب تین بار دو اس کے بعد اگر جواب دینا چاہو تو دو، اور نہ دینا چاہو تو نہ دو۔


5037- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ ابْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلا عَطَسَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ: <يَرْحَمُكَ اللَّهُ> ثُمَّ عَطَسَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <الرَّجُلُ مَزْكُومٌ >۔
* تخريج: م/الزہد ۹ (۲۹۹۳)، ت/الأدب ۵ (۲۷۴۳)، ق/الأدب ۲۰ (۳۷۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۳)، وقد أخرجہ: دي/الاستئذان ۳۲ (۲۷۰۳) (صحیح)
۵۰۳۷-سلمہ بن الاکو ع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کو نبی اکرمﷺ کے پاس چھینک آئی تو آپ نے اس سے فرمایا: ''يَرْحَمُكَ اللَّهُ'' ( اللہ تم پر رحم فرمائے) اسے پھر چھینک آئی تو آپ نے فرمایا: ''آدمی کو زکام ہوا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
101- بَاب كَيْفَ يُشَمَّتُ الذِّمِّيُّ
۱۰۱-باب: ذمی کی چھینک کا جواب کیسے دیا جائے؟​


5038- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ الدَّيْلَمِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَتِ الْيَهُودُ تَعَاطَسُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ رَجَاءَ أَنْ يَقُولَ لَهَا يَرْحَمُكُمُ اللَّهُ فَكَانَ يَقُولُ: < يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ >۔
* تخريج: ت/الأدب ۳ (۲۷۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۰، ۴۱۱) (صحیح)
۵۰۳۸- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس یہود جان بوجھ کر اس امید میں چھینکا کرتے کہ آپ ان کے لئے ''يَرْحَمُكُمُ اللَّهُ'' ( تم پر اللہ کی رحمت ہو) کہہ دیں، لیکن آپ فرماتے: اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
102- بَاب فِيمَنْ يَعْطِسُ وَلا يَحْمَدُ اللَّهَ
۱۰۲-باب: چھینکنے والا ''الحمدلله'' نہ کہے تو اس کا جواب دینا کیسا ہے؟​


5039- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ [ح]، و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلانِ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَتَرَكَ الآخَرَ، قَالَ: فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلانِ عَطَسَا فَشَمَّتَّ أَحَدَهُمَا، قَالَ أَحْمَدُ: أَوْ فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَتَرَكْتَ الآخَرَ، فَقَالَ: < إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ، وَإِنَّ هَذَا لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۱۲۳(۶۲۲۱)، م/الزہد ۹ (۲۹۹۱)، ت/الأدب ۴ (۲۷۴۲)، ق/الأدب ۲۰ (۳۷۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۰، ۱۱۷، ۱۷۶) (صحیح)
۵۰۳۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو لوگوں کو نبی اکرمﷺ کے پاس چھینک آئی تو آپ نے ان میں سے ایک کی چھینک کا جواب دیا اور دوسرے کو نہ دیا ، تو آپ سے پوچھا گیا :اللہ کے رسول! دو لوگوں کو چھینک آئی ، تو آپ نے ان میں سے ایک کو جواب دیا؟۔
احمد کی روایت میں اس طرح ہے: کیا آپ نے ان دونوں میں سے ایک کو جواب دیا ،دوسرے کو نہیں دیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: در اصل اُس نے 'الْحَمْدُ لِلَّهِ' کہاتھا اور اس نے 'الْحَمْدُ لِلَّهِ' نہیں کہاتھا۔



* * * * *​
 
Top