• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83- بَاب لا يَقُولُ الْمَمْلُوكُ رَبِّي وَرَبَّتِي
۸۳-باب: غلام یا لو نڈی اپنے آقا یا مالکن کے لئے 'رَبِّ' کا لفظ استعمال نہ کریں​


4975- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ وَحَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ وَهِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ عَبْدِي وَأَمَتِي، وَلا يَقُولَنَّ الْمَمْلُوكُ رَبِّي وَرَبَّتِي، وَلْيَقُلِ الْمَالِكُ فَتَايَ وَفَتَاتِي، وَلْيَقُلِ الْمَمْلُوكُ سَيِّدِي وَسَيِّدَتِي، فَإِنَّكُمُ الْمَمْلُوكُونَ وَالرَّبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۲۹، ۱۴۴۵۹، ۱۴۵۲۳)، وقد أخرجہ: خ/العتق ۱۷ (۲۵۵۲)، م/الألفاظ من الأدب ۳ (۲۲۴۹)، حم (۲/۴۲۳، ۴۶۳، ۴۸۴، ۴۹۱، ۵۰۸) (صحیح)
۴۹۷۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سے کوئی ( اپنے غلام یا لونڈی کو) 'عَبْدِیْ' (میرا بندہ) اور 'أَمَتِیْ' ( میری بندی) نہ کہے اور نہ کوئی غلام یا لو نڈی ( اپنے آقا کو) 'رَبِّیْ' ( میرے مالک) اور 'رَبَّتِیْ' (میری مالکن) کہے بلکہ مالک یوں کہے : میرے جوان! یا میری جوان!اور غلام اور لو نڈی یوں کہیں: 'سَیِّدِیْ' (میرے آقا) اور 'سَیِّدَتِیْ' (میری مالکن) اس لئے کہ تم سب مملوک ہو اور رب صرف اللہ ہے۔


4976- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا يُونُسَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ، وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ ﷺ ، قَالَ: < وَلْيَقُلْ سَيِّدِي وَمَوْلايَ >.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۸۲) (صحیح)
۴۹۷۶- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے: لیکن اس میں انہوں نے نبی اکرمﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس میں یہ ہے فرمایا: اور چا ہیئے کہ وہ 'سَیِّدِیْ' ( میرے آقا) اور 'مَوْلَا یَ' ( میرے مولی) کہے۔


4977- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لاتَقُولُوا لِلْمُنَافِقِ: سَيِّدٌ، فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ سَيِّدًا فَقَدْ أَسْخَطْتُمْ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: ن/الیوم واللیۃ (۲۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۶، ۳۴۷) (صحیح)
۴۹۷۷-بر یدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم لوگ منا فق کو سید نہ کہو اس لئے کہ اگر وہ سیدہے (یعنی قوم کاسردار ہے یاغلام ولونڈی اور مال والاہے) تو تم نے اپنے رب کو نا راض کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ تم نے اسے 'سید' کہہ کر اس کی تعظیم کی حالانکہ وہ تعظیم کا مستحق نہیں اور اگر وہ ان معانی میں سے کسی بھی اعتبار سے 'سید' نہیں ہے تو تمہارا اُسے 'سید' کہنا کذب ونفاق ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84- بَاب لا يُقَالُ خَبُثَتْ نَفْسِي
۸۴-باب: میرا نفس خبیث ہو گیا کہنے کی ممانعت کا بیان​


4978- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لايَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: خَبُثَتْ نَفْسِي، وَلْيَقُلْ: لَقِسَتْ نَفْسِي >۔
* تخريج: خ/الأدب ۱۰۰ (۶۱۸۰)، م/الألفاظ من الأدب ۴ (۲۲۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۵۶) (صحیح)
۴۹۷۸- سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سے کوئی میرا نفس خبیث ہو گیا نہ کہے، بلکہ یوں کہے میرا جی پریشان ہو گیا ۔


4979- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: جَاشَتْ نَفْسِي وَلَكِنْ لِيَقُلْ: لَقِسَتْ نَفْسِي >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۰)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۱۰۰ (۶۱۸۰)، م/الألفاظ من الأدب ۴ (۲۲۵۰)، حم (۶/۵۱، ۲۰۹، ۲۸۱) (صحیح)
۴۹۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی یہ نہ کہے: میرے دل نے جوش ما را'' بلکہ یوں کہے: میرا جی پریشان ہو گیا۔


4980- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < لا تَقُولُوا، مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ فُلانٌ، وَلَكِنْ قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شَاءَ فُلانٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۴، ۳۹۴، ۳۹۸) (صحیح)
۴۹۸۰- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تم یوں نہ کہو: جواللہ چا ہے اور فلاں چا ہے'' ۱؎ بلکہ یوں کہو: جو اللہ چا ہے پھر فلاں چا ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس جملہ میں اللہ کی مشیت کے ساتھ دوسرے کی مشیت شامل ہے جب کہ''اللہ چاہے پھر فلاں چاہے''میں ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ اللہ کے چاہنے کے بعد پھر دوسرے کے چاہنے میں کوئی قباحت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85- بَابٌ
۸۵- باب​


4981- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّ خَطِيبًا خَطَبَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشدَ وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَالَ: < قُمْ > أَوْ قَالَ: <اذْهَبْ فَبِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۰۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۵۰) (صحیح)
۴۹۸۱- عدی بن حا تم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خطیب نے نبی اکرمﷺ کے پاس خطبہ دیا، تو اس نے (خطبہ میں) کہا:''مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشدَ وَمَنْ يَعْصِهِمَا'' جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے ، وہ راہ راست پر ہے اور جو ان دونوں کی نا فرما نی کرتا ہے ...(ابھی اس نے اتنا ہی کہاتھا کہ) آپ نے فرمایا: ''کھڑے ہوجاؤ'' یا یوں فرمایا: چلے جائو تم بہت بُرے خطیب ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس خطیب کو اس لئے برا کہا کہ اس نے''مَنْ یَعْصِھِمَا'' کہہ کر اللہ اور رسول دونوں کو ایک ہی ضمیر میں جمع کردیا تھا، خطبہ میں باتوں کو تفصیل سے کہنے کا موقع ہوتا ہے، اور سامعین میں ہر سطح کے لوگ ہوتے ہیں، مقام کا تقاضا تفصیل کا تھا''، یعنی : من یعص اللہ ویعص رسولہ'' کہنے کا ، تا کہ کسی طرح کا التباس نہ رہ جاتا۔


4982- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِاللَّهِ- عَنْ خَالِدٍ -يَعْنِي الْحَذَّاءَ- عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَعَثَرَتْ دَابَّتُه، فَقُلْتُ: تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَقَالَ: < لا تَقُلْ تَعِسَ الشَّيْطَانُ؛ فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ تَعَاظَمَ حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ الْبَيْتِ، وَيَقُولُ: بِقُوَّتِي، وَلَكِنْ قُلْ: بِسْمِ اللَّهِ؛ فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ تَصَاغَرَ حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ الذُّبَابِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۵۹، ۷۱) (صحیح)
۴۹۸۲- ابو الملیح ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں نبی اکرمﷺ کے پیچھے سوار تھا ، کہ آپ کی سواری پھسل گئی ، میں نے کہا: شیطان مرے ، تو آپ نے فرمایا: '' یوں نہ کہو کہ ''شیطان مرے'' اس لئے کہ جب تم ایسا کہو گے تو وہ پھول کر گھرکے برابر ہو جائے گا، اور کہے گا: میرے زور و قوت کا اس نے اعتراف کر لیا ، بلکہ یوں کہو: اللہ کے نام سے اس لئے کہ جب تم یہ کہو گے تو وہ پچک کر اتنا چھوٹا ہوجائے گا جیسے مکھی۔


4983- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ (ح) و حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا سَمِعْتَ > وَقَالَ مُوسَى: < إِذَا قَالَ الرَّجُلُ هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكُهُمْ >.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ مَالِكٌ: إِذَا قَالَ ذَلِكَ تَحَزُّنًا لِمَا يَرَى فِي النَّاسِ -يَعْنِي فِي أَمْرِ دِينِهِمْ- فَلا أَرَى بِهِ بَأْسًا، وَإِذَا قَالَ ذَلِكَ عُجْبًا بِنَفْسِهِ وَتَصَاغُرًا لِلنَّاسِ فَهُوَ الْمَكْرُوهُ الَّذِي نُهِيَ عَنْهُ۔
* تخريج: م/البر والصلۃ ۴۱ (۲۶۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۲۳، ۱۲۷۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۷، ۳۴۲) (صحیح)
۴۹۸۳- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب تم سنو!(اور موسی کی روایت میں یوں ہے ، کہ جب آدمی کہے) کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو وہی ان میں سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے'' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: مالک نے کہا: جب وہ یہ بات دینی معاملات میں لوگوں کی روش دیکھ کر رنج سے کہے تو میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا ، اور جب یہ بات وہ خو د پر ناز کر کے اور لوگوں کو حقیر سمجھ کر کہے تو یہی وہ مکروہ و ناپسند یدہ چیز ہے ، جس سے روکا گیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص لوگوں کی عیب جوئی اور برائیاں برابر بیان کرتارہے، اور اپنی زبان سے لوگوں کے فساد میں مبتلا ہونے اور ان کی ہلاکت وتباہی کا ذکر کرتا رہے گا تو ایسا شخص بسبب اس گناہ کے جو اسے اپنے اس کرتوت کی وجہ سے لاحق ہو رہا ہے سب سے زیادہ ہلاکت وبربادی کا مستحق ہے، اور بسا اوقات وہ خود پسندی کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86- بَاب فِي صَلاةِ الْعَتَمَةِ
۸۶-باب: صلاۃِ عشاء کو عتمہ کہنا کیسا ہے؟​


4984- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تَغْلِبَنَّكُمُ الأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلاتِكُمْ، أَلا وَإِنَّهَا الْعِشَاءُ، وَلَكِنَّهُمْ يَعْتِمُونَ بِالإِبِلِ >۔
* تخريج: م/المساجد ۳۹ (۶۴۴)، ن/المواقیت ۲۲ (۵۴۲)، ق/الصلاۃ ۱۳ (۷۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۰، ۱۸، ۴۹، ۱۴۴) (صحیح)
۴۹۸۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' تم پر ''أعراب'' (دیہاتی لوگ) تمہاری صلاۃ کے نام کے سلسلے میں ہرگز غالب نہ آجائیں ، سنو! اس کا نام عشاء ہے ۱؎ اور وہ لوگ تو اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کے لئے تاخیر اور اندھیرا کرتے ہیں '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے اپنے قول {ومن بعد صلاة العشاء} میں عشاء سے تعبیر کیا ہے اس لئے اس کا ترک مناسب نہیں۔
وضاحت ۲ ؎ : اور اس صلاۃ کو مؤخر کرتے ہیں اسی وجہ سے اسے ''صلاة العتمة'' کہتے ہیں۔


4985- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ -قَالَ مِسْعَرٌ أُرَاهُ مِنْ خُزَاعَةَ-: لَيْتَنِي صَلَّيْتُ فَاسْتَرَحْتُ، فَكَأَنَّهُمْ عَابُوا عَلَيْهِ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَا بِلالُ، أَقِمِ الصَّلاةَ أَرِحْنَا بِهَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶۴) (صحیح)
۴۹۸۵- سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: کاش میں صلاۃ پڑھ لیتا تو مجھے سکون مل جاتا، مسعر کہتے ہیں: میراخیال ہے یہ بنو خزاعہ کا کوئی آدمی تھا، تو لوگوں نے اس پر نکیر کی کہ یہ صلاۃ کو تکلیف کی چیز سمجھتا ہے تو اس نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ہے ، آپ فرما رہے تھے :'' اے بلال صلاۃ کے لئے اقامت کہو اور ہمیں اس سے آرام و سکون پہنچاؤ''۔


4986- حَدَّثَنَا [مُحَمَّدُ] بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبِي إِلَى صِهْرٍ لَنَا مِنَ الأَنْصَارِ نَعُودُهُ، فَحَضَرَتِ الصَّلاةُ، فَقَالَ لِبَعْضِ أَهْلِهِ: يَا جَارِيَةُ ائْتُونِي بِوَضُوئٍ لَعَلِّي أُصَلِّي فَأَسْتَرِيحَ، قَالَ: فَأَنْكَرْنَا ذَلِكَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < قُمْ يَا بِلالُ، فَأَرِحْنَا بِالصَّلاةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۷۱) (صحیح)
۴۹۸۶- عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کہتے ہیں : میں اور میرے والد انصار میں سے اپنے ایک سسرالی رشتہ دار کے پاس اس کی (عیادت) بیمار پرسی کر نے کے لئے گئے ، تو صلاۃ کا وقت ہو گیا ،تو اس نے اپنے گھر کی کسی لڑ کی سے کہا: اے لڑکی! میرے لئے وضو کا پانی لے آ تا کہ میں صلاۃ پڑھ کر راحت پالوں تو اس پر ہم نے ان کی نکیر کی، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے ''اے بلال اٹھو اور ہمیں صلاۃ سے آرام پہنچائو''۔


4987- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْسِبُ أَحَدًا إِلا إِلَى الدِّينِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۸۸) (ضعیف الإسناد)
۴۹۸۷- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دین کے علاوہ کسی اور معاملے کی طرف کسی کی نسبت کرتے نہیں دیکھا ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : امام منذری کہتے ہیں کہ شاید ابو داود نے اس باب میں اس حدیث کو اس لیے داخل کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ لوگوں کو صرف دین کی طرف منسوب کرتے تھے، تا کہ اس حدیث کے ذریعہ سے لوگوں کو اس بات کی طرف رہنمائی کریں کہ کتاب وسنت میں وارد الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے ، اور لوگوں کو جاہلی الفاظ وعبارات کے استعمال سے روکیں جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے لفظ عتمہ کی جگہ عشاء کا استعمال کیا اور یہ حدیث منقطع ہے ،زیدبن اسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا ہے ۔(عون المعبود ۱۳/۲۲۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
87- بَاب مَا رُوِيَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۸۷-باب: الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان​


4988- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَرَسًا لأَبِي طَلْحَةَ، فَقَالَ: < مَا رَأَيْنَا شَيْئًا > أَوْ < مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَعٍ، وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا >۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۳۳ (۲۶۲۷)، م/الفضائل ۱۱ (۲۳۰۷)، ت/الجہاد ۱۴ (۱۶۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۸)، وقد أخرجہ: ق/الجہاد ۹ (۲۷۷۲)، حم (۳، ۱۷۰، ۱۸۰، ۲۷۴، ۲۹۱) (صحیح)
۴۹۸۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا ، رسول اللہ ﷺ ابو طلحہ کے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے ،(واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی ، یا ہم نے کوئی خو ف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گویا کسی چیز کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، اگرچہ ان دونوں میں کلی طور پر اشتراک نہ ہو صرف جزوی اشتراک ہو، جیسا کہ آپ ﷺ نے گھوڑے کو محض سبک رفتاری میں اشتراک کی وجہ سے بحر(سمندر) سے تشبیہ دی ،اسی طرح صلاۃ عشاء کو ' عتمہ' سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ، کیونکہ یہ ' عتمہ' یعنی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے،اس استدلال سے محض تکلف ظاہر ہوتا ہے، اس باب میں زیادہ موزوں اور واضح استدلال ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس کی تخریج بخاری،مسلم اور ترمذی نے کی ہے، اور جس میں یہ الفاظ وارد ہیں : ''وَلَوْ يَعْلَمُوْنَ مَاْ فِيْ العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لأَتَوْهُمَاْ وَلَوْ حَبْوًا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
88- بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي الْكَذِبِ
۸۸-باب: جھوٹ بولنے کی شناعت کا بیان​


4989- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، أَخْبَرَنَا الأَعْمَشُ (ح) وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ؛ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَاللَّهِ كَذَّابًا؛ وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا >۔
* تخريج: م/البروالصلۃ ۲۹ (۲۶۰۷)، القدر ۱ (۲۶۴۳)، ت/البر ۴۶ (۱۹۷۱)، (تحفۃ الأشراف:۹۲۶۱)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۶۹ (۶۰۹۴)، ق/المقدمۃ ۷ (۴۶)، ط/الکلام ۷ (۱۶)، حم ۱(۳۸۴، ۴۰۵)، دي/الرقاق ۷ (۲۷۵۷) (صحیح)
۴۹۸۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اوربرائی جہنم میں لے جاتی ہے ،آدمی جھوٹ بو لتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نز دیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اورسچ بو لنے کو لازم کر لو اس لئے کہ سچ بھلائی اورنیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے ،آدمی سچ بو لتا ہے اورسچ بو لنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔


4990- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ [بْنُ مُسَرْهَدٍ]، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ >۔
* تخريج: ت/الزہد ۱۰ (۲۳۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲، ۵، ۷)، دي/الاستئذان ۶۶ (۲۷۴۴) (حسن)
۴۹۹۰- معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: تباہی ہے اس کے لئے جو بولتا ہے توجھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کوہنسائے، تباہی ہے اس کے لئے ، تباہی ہے اس کے لئے۔


4991- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ مَوَالِي عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرِ ابْنِ رَبِيعَةَ الْعَدَوِيِّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: دَعَتْنِي أُمِّي يَوْمًا وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَاعِدٌ فِي بَيْتِنَا، فَقَالَتْ: هَا تَعَالَ أُعْطِيكَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيهِ؟ > قَالَتْ: أُعْطِيهِ تَمْرًا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كِذْبَةٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۴۷) (حسن)
۴۹۹۱- عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میری ماں نے مجھے بلا یا اور رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر بیٹھے ہوئے تھے ، وہ بولیں : سنو یہاں آئو ، میں تمہیں کچھ دوں گی ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا: تم نے اسے کیا دینے کا ارا دہ کیا ہے؟ وہ بولیں، میں اسے کھجور دوں گی تو رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا: سنو ، اگر تم اسے کوئی چیز نہیں دیتی ، تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ جب ماں کے لئے بچہ کو اپنی کسی ضرورت کے لئے جھوٹ بول کر پکارنا صحیح نہیں تو بھلا کسی بڑے کے ساتھ جھوٹی بات کیونکر کی جاسکتی ہے، گویا ازراہ ہنسی ہی کیوں نہ ہو وہ حرام ہے۔


4992- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ ابْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ ابْنُ حُسَيْنٍ فِي حَدِيثِهِ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَلَمْ يَذْكُرْ حَفْصٌ أَبَا هُرَيْرَةَ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَلَمْ يُسْنِدْهُ إِلا هَذَا الشَّيْخُ، يَعْنِي عَلِيَّ بْنَ حَفْصٍ الْمَدَائِنِيَّ]۔
* تخريج: م/المقدمۃ ۳ (۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۶۸، ۱۸۵۸۰) (صحیح)
۴۹۹۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کے گنہگار ہو نے کے لئے کا فی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق ) بیان کرے ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:حفص نے ابو ہریرہ کا ذکرنہیں کیا،ابو داود کہتے ہیں: اسے صرف اسی شیخ یعنی علی بن حفص المدائنی نے ہی مسند کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
89- بَاب فِي حُسْنِ الظَّنِّ
۸۹-باب: حسنِ ظن کا بیان​


4993- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) و حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ مُهَنَّا أَبِي شِبْلٍ، قَالَ أَبو دَاود، وَلَمْ أَفْهَمْهُ مِنْهُ جَيِّدًا، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ شُتَيْرٍ، قَالَ نَصْرٌ: ابْنُ نَهَّارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ نَصْرٌ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ >.
[قَالَ أَبو دَاود: مُهَنَّا ثِقَةٌ بَصْرِيٌّ] ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۴، ۴۰۷، ۴۹۱) (ضعیف)
۴۹۹۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے''۔


4994- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ صَفِيَّةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُعْتَكِفًا، فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلا، فَحَدَّثْتُهُ وَقُمْتُ، فَانْقَلَبْتُ، فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي، -وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ- فَمَرَّ رَجُلانِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ ﷺ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ > قَالا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ!! قَالَ: < إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، فَخَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا > أَوْ قَالَ < شَرًّا >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۴۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۰۱) (صحیح)
۴۹۹۴- ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے ، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جا نے لگی ، آپ مجھے پہنچانے کے لئے میرے ساتھ اٹھے اور اس وقت وہ اسا مہ بن زید رضی اللہ عنہ کے گھر میں رہتی تھیں ، اتنے میں ا نصا ر کے دو آدمی گز رے انہوں نے جب نبی اکرمﷺ کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے ، آپ نے فرمایا : ''تم دونوں ٹہرو ، یہ صفیہ بنت حیی ہیں'' ، ان دونوں نے کہا: سبحا ن اللہ، اللہ کے رسول! ( یعنی کیا ہم آپ کے سلسلہ میں بد گما نی کر سکتے ہیں) آپ نے فرمایا: '' شیطان آدمی میں اسی طرح پھرتا ہے ، جیسے خون(رگوں میں) پھر تا ہے ، تو مجھے اندیشہ ہوا کہ تمہارے دل میں کچھ ڈال نہ دے ،یا یوں کہا: کوئی بری بات نہ ڈال دے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں میری نسبت سے ان دونوں کے دل میں کوئی بات ایسی پیدا ہوگئی جوان کے کفر وارتداد کا سبب بن گئی تو یہ دونوں تباہ وبرباد ہوجائیں گے،اس لئے ان پر شفقت کرتے ہوئے آپ نے ظن وشک والے امر کی وضاحت کردی تاکہ یہ دونوں صحیح وسلامت رہیں کیونکہ آپ کو اپنی ذات کے بارے میں کوئی خوف نہیں تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
90- بَاب فِي الْعِدَةِ
۹۰-باب: وعدہ کا بیان​


4995- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ، عَنْ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < إِذَا وَعَدَ الرَّجُلُ أَخَاهُ وَمِنْ نِيَّتِهِ أَنْ يَفِيَ [لَهُ] فَلَمْ يَفِ وَلَمْ يَجِئْ لِلْمِيعَادِ فَلا إِثْمَ عَلَيْه >۔
* تخريج: ت/الإیمان ۱۴ (۲۶۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۳) (ضعیف)
(سند میں ابووقاص مجہول راوی ہیں)
۴۹۹۵- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جب آدمی اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اسے پورا کرے گا ، پھر وہ اسے پورانہ کرسکے اور وعدے پر نہ آسکے تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘۔


4996- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى [بْنِ فَارِسٍ] النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي الْحَمْسَائِ، قَالَ: بَايَعْتُ النَّبِيَّ ﷺ بِبَيْعٍ قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ، وَبَقِيَتْ لَهُ بَقِيَّةٌ، فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِيَهُ بِهَا فِي مَكَانِهِ، فَنَسِيتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلاثٍ، فَجِئْتُ فَإِذَا هُوَ فِي مَكَانِهِ، فَقَالَ: < يَا فَتًى، لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ، أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلاثٍ أَنْتَظِرُكَ >.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: هَذَا عِنْدَنَا عَبْدُالْكَرِيمِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ.
[قَالَ أَبو دَاود: هَكَذَا بَلَغَنِي عَنْ عَلِىِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ.
قَالَ أَبو دَاود: بَلَغَنِي أَنَّ بِشْرَ بْنَ السَّرِيِّ رَوَاهُ عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ]۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۴۵) (ضعیف الإسناد)
۴۹۹۶- عبداللہ بن ابو حمساء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے نبی اکرمﷺ سے ایک چیز خریدی اور اس کی کچھ قیمت میرے ذمے رہ گئی تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ اسے لا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا ، پھر مجھے تین( دن ) کے بعد یاد آیا تو میں آیا ، دیکھا کہ آپ اسی جگہ موجود ہیں،آپ نے فرمایا: ’’ اے جوان! تو نے مجھے زحمت میں ڈال دیا ، اسی جگہ تین دن سے میں تیرا انتظار کر رہا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
91- بَاب فِي الْمُتَشَبِّعِ بِمَا لَمْ يُعْطَ
۹۱-باب: ایسی چیزوں کے پاس میں ہونے کا بیان جوآدمی کے پاس نہ ہو جھوٹ کا لبادہ اوڑھنا ہے​


4997- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَةً -تَعْنِي ضَرَّةً- هَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ لَهَا بِمَا لَمْ يُعْطِ زَوْجِي، قَالَ: < الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلابِسِ ثَوْبَيْ زُور >۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۰۷ (۵۲۱۹)، م/اللباس ۳۵ (۲۱۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۴۵،۳۴۶، ۳۵۳) (صحیح)
۴۹۹۷- اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میری ایک پڑوسن یعنی سوکن ہے ، تو کیا مجھ پر گناہ ہوگا اگر میں اسے جلا نے کے لئے کہوں کہ میرے شوہر نے مجھے یہ یہ چیزیں دی ہیں جو اس نے نہیں دی ہیں، آپ نے فرمایا: ''جلانے کے لئے ایسی چیزوں کا ذکر کرنے والا جو اسے نہیں دی گئیں اسی طرح ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو لبادے پہن لئے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
92- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمِزَاحِ
۹۲-باب: ہنسی مذاق (مزاح) کا بیان​


4998- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْمِلْنِي، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <إِنَّا حَامِلُوكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ> قَالَ: وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < وَهَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إِلا النُّوقُ >۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۵۷ (۱۹۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۶۷) (صحیح)
۴۹۹۸- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا:اللہ کے رسول! مجھے سواری عطا فرما دیجئے نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہم تو تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کرائیں گے'' ، وہ بولا : میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: آخر ہر اونٹ اونٹنی ہی کا بچہ تو ہوتا ہے۔


4999- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَسَمِعَ صَوْتَ عَائِشَةَ عَالِيًا، فَلَمَّا دَخَلَ تَنَاوَلَهَا لِيَلْطِمَهَا، وَقَالَ: أَلا أَرَاكِ تَرْفَعِينَ صَوْتَكِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَحْجِزُهُ، وَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُغْضَبًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ حِينَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ: <كَيْفَ رَأَيْتِنِي أَنْقَذْتُكِ مِنَ الرَّجُلِ>؟ قَالَ: فَمَكَثَ أَبُو بَكْرٍ أَيَّامًا، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَوَجَدَهُمَا قَدِ اصْطَلَحَا، فَقَالَ لَهُمَا: أَدْخِلانِي فِي سِلْمِكُمَا كَمَا أَدْخَلْتُمَانِي فِي حَرْبِكُمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < قَدْ فَعَلْنَا، قَدْ فَعَلْنَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۷۲، ۲۷۵) (ضعیف الإسناد)
۴۹۹۹-نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو سنا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اونچی آواز میں بول رہی ہیں ،تو وہ جب اندر آئے تو انہوں نے انہیں طمانچہ مارنے کے لئے پکڑا اور بو لے : سنو! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی آواز رسول اللہ ﷺ پر بلند کرتی ہو ، تو نبی اکرمﷺ انہیں روکنے لگے اور ابوبکرغصے میں باہر نکل گئے ، تو جب ابو بکر با ہر چلے گئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' دیکھا تو نے میں نے تجھے اس شخص سے کیسے بچایا پھر ابو بکر کچھ دنوں تک رکے رہے ( یعنی ان کے گھر نہیں گئے) اس کے بعد ایک بار پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی تو ان دونوں کو پایا کہ دونوں میں صلح ہو گئی ہے ، تو وہ دونوں سے بولے: آپ لوگ مجھے اپنی صلح میں بھی شامل کر لیجئے جس طرح مجھے اپنی لڑائی میں شامل کیا تھا ، تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' ہم نے شریک کیا، ہم نے شریک کیا''۔


5000- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْعَلاءِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَسَلَّمْتُ فَرَدَّ وَقَالَ: <ادْخُلْ> فَقُلْتُ: أَكُلِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < كُلُّكَ > فَدَخَلْتُ ۔
* تخريج: خ/الجزیۃ ۱۵ (۳۱۷۶)، ق/الفتن ۴۲ (۴۰۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۰۳، ۱۰۹۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲) (صحیح)
۵۰۰۰- عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ، آپ چمڑے کے ایک خیمے میں قیام پذیر تھے ، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا ، اور فرمایا: اندر آجاؤ ،تو میں نے کہا کہ پورے طور سے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:''پورے طور سے ''چنانچہ میں اندر چلا گیا ۔


5001- حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاتِكَةِ قَالَ: إِنَّمَا قَالَ: (أَدْخُلُ كُلِّي) مِنْ صِغَرِ الْقُبَّةِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۱۸، ۱۹۰۰۳) (ضعیف الإسناد)
۵۰۰۱- عثمان بن ابی عا تکہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو یہ پوچھا کہ کیا پورے طور پر اندر آجاؤں تو اس وجہ سے کہ خیمہ چھوٹا تھا۔


5002- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا ذَا الأُذُنَيْنِ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۴۶ (۱۹۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۷، ۱۲۷، ۲۴۲، ۲۶۰) (صحیح)
۵۰۰۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اے دو کانوں والے!''۔
 
Top