• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
111 - بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا رَأَى الْهِلالَ
۱۱۱-باب: آدمی نیا چاند دیکھے تو کیا کہے؟​


5092- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلالَ قَالَ: < هِلالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، هِلالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، هِلالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، آمَنْتُ بِالَّذِي خَلَقَكَ > ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يَقُولُ: < الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي ذَهَبَ بِشَهْرِ كَذَا وَجَاءَ بِشَهْرِ كَذَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابو داود (ضعیف الإسناد)
(سند میں قتادہ تابعی اور نبی اکرمﷺ کے درمیان انقطاع ہے،معلوم نہیں کہ تابعی کو ساقط کیا ہے یا صحابی کو، جب کہ قتادہ مدلس بھی ہیں۔)
۵۰۹۲- قتادہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرمﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو فرماتے: ''هِلالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، هِلالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، هِلالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، آمَنْتُ بِالَّذِي خَلَقَكَ''( یہ خیرو رشد کا چاند ہے، یہ خیر ورشد کا چاند ہے، یہ خیر ورشد کا چاند ہے،میں ایمان لایا اس پر جس نے تجھے پیدا کیا ہے ) یہ تین مرتبہ فرماتے، پھر فرماتے: شکر ہے، اس اللہ کا جو فلاں مہینہ لے گیا اور فلاں مہینہ لے آیا ۔


5093- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ حُبَابٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ أَبِي هِلالٍ، عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلالَ صَرَفَ وَجْهَهُ عَنْهُ.
[قَالَ أَبو دَاود: لَيْسَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ مُسْنَدٌ صَحِيحٌ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)
(یہ روایت مرسل ہے، نیز قتادہ مدلس ہیں)
۵۰۹۳- قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو آپ اس سے اپنا منہ پھیر لیتے ۔
ابو داود کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ سے اس باب میں کوئی صحیح مسند حدیث نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
112 - بَاب مَا يَقُولُ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ؟
۱۱۲-باب: آدمی گھر سے باہر نکلے تو کیا دعا پڑھے؟​


5094- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: مَا خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ بَيْتِي قَطُّ إِلا رَفَعَ طَرْفَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: < اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ أَوْ أَزِلَّ أَوْ أُزَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ >۔
* تخريج: ت/الدعوات ۳۵ (۳۴۲۷)، ن/الاستعاذۃ ۲۹ (۵۴۸۸)، ۶۴ (۵۵۴۱)، ق/الدعاء ۱۸ (۳۸۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۰۶، ۳۱۸، ۳۲۲) (صحیح)
حدیث میں ''رفع طرفہ إلی السماء'' (آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی) کا جملہ صحیح نہیں ہے، نیز صحیحین وغیرہ میں صلاۃ میں نگاہ اٹھانے کی ممانعت آئی ہے، آسمان کی طرف صلاۃ یا صلاۃ سے باہر دونوں صورتوں میں نگاہ اٹھانا ممنوع ہے۔ ملاحظہ ہو: (الصحیحۃ ۳۱۶۳ وتراجع الالبانی ۱۳۶)
۵۰۹۴- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب بھی میرے گھر سے نکلتے تو اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے پھر فرماتے:''اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ أَوْ أَزِلَّ أَوْ أُزَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ'' (اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں گمراہ کروں، یاگمراہ کیا جاؤں، میں خود پھسلوں یا پھسلایا جاؤں، میں خود ظلم کروں یا کسی کے ظلم کا شکار بنایا جاؤں، میں خود جہالت کروں، یا مجھ سے جہا لت کی جائے۔


5095- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْخَثْعَمِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: <إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ> قَالَ: < يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ وَكُفِيتَ وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ [لَهُ] شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ؟ >.
* تخريج: ت/الدعوات ۳۴ (۳۴۲۶)، ن/في الیوم واللیلۃ (۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹) (صحیح)
۵۰۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب آدمی اپنے گھر سے نکلے پھر کہے ''بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ'' (اللہ کے نام سے نکل رہا ہوں، میرا پورا پورا توکل اللہ ہی پر ہے، تمام طاقت و قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے) تو آپ نے فرمایا: اس وقت کہا جاتا ہے ( یعنی فرشتے کہتے ہیں) :اب تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی، اور تو بچا لیا گیا، ( یہ سن کر) شیطان اس سے جدا ہوجاتا ہے، تواس سے دوسرا شیطان کہتا ہے :تیرے ہاتھ سے آدمی کیسے نکل گیا کہ اسے ہدایت دے دی گئی، اس کی جانب سے کفایت کر دی گئی اور وہ (تیری گر فت اور تیرے چنگل سے) بچا لیا گیا۔


5096- حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ ابْنُ عَوْفٍ: وَرَأَيْتُ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، عَنْ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا وَلَجَ الرَّجُلُ [بَيْتَهُ] فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا، وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ عَلَى أَهْلِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۵۸) (ضعیف)
(تراجع الألباني ۱۴۴)
۵۰۹۶- ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تو کہے ''اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا، وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا'' (اے اللہ! ہم تجھ سے اندرجانے اور گھر سے باہر آنے کی بہتری مانگتے ہیں، ہم اللہ کا نام لے کراندر جاتے ہیں اور اللہ ہی کا نام لے کر با ہر نکلتے ہیں اور اللہ ہی پر جو ہمارا رب ہے بھر وسہ کرتے ہیں) پھر اپنے گھر والوں کو سلام کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
113 - بَاب مَا يَقُولُ إِذَا هَاجَتِ الرِّيحُ؟
۱۱۳-باب: جب آندھی آئے تو کیا پڑھے؟​


5097- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ وَسَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ شَبِيبٍ- قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الرِّيحُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ -قَالَ سَلَمَةُ: فَرَوْحُ اللَّهِ- تَأْتِي بِالرَّحْمَةِ، وَتَأْتِي بِالْعَذَابِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَلاتَسُبُّوهَا، وَسَلُوا اللَّهَ خَيْرَهَا، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا >۔
* تخريج: ق/الأدب ۲۹ (۳۷۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۰، ۲۶۷، ۴۰۹، ۴۳۶، ۵۱۸) (صحیح)
۵۰۹۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ریح (ہوا) اللہ کی رحمت میں سے ہے(سلمہ کی روایت میں 'مِن رَوْحِ اللهِ' ہے)، کبھی وہ رحمت لے کر آتی ہے، اور کبھی عذاب لے کر آتی ہے، تو جب تم اسے دیکھو تو اسے برا مت کہو، اللہ سے اس کی بھلائی ما نگو، اور اس کے شر سے اللہ کی پنا ہ چاہو۔


5098- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَطُّ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ، وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! النَّاسُ، إِذَا رَأَوُا الْغَيْمَ فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَتْ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ: < يَا عَائِشَةُ! مَا يُؤَمِّنُنِي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ؟ قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ، [وَ] قَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوا: {هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا}>۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۵ (۳۲۰۶)، تفسیر سورۃ الأحقاف (۴۸۲۹)، الأدب ۶۸ (۶۰۹۳)، م/الاستسقاء ۳ (۸۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۳۶)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر القرآن ۴۶ (۴۸۲۸)، ق/الدعاء ۲۱ (۶۰۹۲)، حم (۶/۱۹۰) (صحیح)
۵۰۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کو ے کو دیکھ سکوں، آپ تو صر فتبسم فرماتے ( ہلکا سا مسکر اتے) تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا ( آپ تر دد اورتشویش میں مبتلا ہو جاتے)تو(ایک بار) میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہو تے ہیں کہ با رش ہو گی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری( گھبرا ہٹ اور پر یشانی)جھلکتی ہے ( اس کی وجہ کیا ہے؟)آپ نے فرمایا:'' اے عائشہ! مجھے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ ایک قوم ( قوم عا د)ہوا کے عذاب سے دو چار ہو چکی ہے، اور ایک قوم نے (بدلی کا) عذاب دیکھا،تووہ کہنے لگی {هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا} ۱؎ :یہ بادل توہم پر بر سے گا (وہ برسا تو لیکن، با رش پتھروں کی ہوئی، سب ہلا ک کردیے گئے)۔
وضاحت ۱؎ : قوم ثمود کی طرف اشارہ ہے، مدائن صالح (سعودی عرب) میں اس قوم کے آثار موجود ہیں۔


5099- حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَأَى نَاشِئًا فِي أُفُقِ السَّمَاءِ تَرَكَ الْعَمَلَ وَإِنْ كَانَ فِي صَلاةٍ، ثُمَّ يَقُولُ: < اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا > فَإِنْ مُطِرَ قَالَ: < اللَّهُمَّ صَيِّبًا هَنِيئًا >۔
* تخريج: ق/الدعاء ۲۱ (۳۸۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۴۶)، وقد أخرجہ: ن/ الاستسقاء ۱۵ (۱۵۲۲) (صحیح)
۵۰۹۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب آسمان کے گو شے سے بدلی اٹھتے دیکھتے تو کام (دھام ) سب چھوڑ دیتے یہاں تک کہ صلاۃ میں ہو تے تواُسے بھی چھوڑ دیتے، اور یوں دعا فرماتے:''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا'' (اے اللہ! میں اس کے شر سے تیری پنا ہ ما نگتا ہوں) پھر اگر بارش ہو نے لگتی، تو آپ فرماتے:''اللَّهُمَّ صَيِّبًا هَنِيئًا'' ( اے اللہ! اس با رش کو زوردار اور خوشگوار و با برکت بنا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
114 - بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَطَرِ
۱۱۴-باب: بارش کا بیان​


5100- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَمُسَدَّدٌ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَطَرٌ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَحَسَرَ ثَوْبَهُ عَنْهُ حَتَّى أَصَابَهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ قَالَ: < لأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ >۔
* تخريج: م/صلاۃ الأستسقاء ۲ (۸۹۸)، ن/الکبري (۱۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۳۳، ۲۶۷) (صحیح)
۵۱۰۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ بارش ہو نے لگی، آپ باہر نکلے اور اپنے کپڑے اتار لئے یہاں تک کہ بارش کے قطرات آپ کے بدن پر پڑنے لگے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا:'' اس لئے کہ یہ ابھی ابھی اپنے رب کے پاس سے آرہی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے رب عزوجل کا بلندی پرہونا ثابت ہے جب کہ قرآن واحادیث اور عقائد سلف صالحین سے قطعیت کے ساتھ معلوم ہے، اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بدن پر بارش کا گرنا برکت کا باعث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
115- بَاب مَا جَاءَ فِي الدِّيكِ وَالْبَهَائِمِ
۱۱۵-باب: مرغ اور چوپایوں کا بیان​


5101- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بنِْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَسُبُّوا الدِّيكَ فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلاةِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۴ /۱۱۵، ۵/۱۹۳) (صحیح)
۵۱۰۱- زید بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مرغ کو بر ا بھلا نہ کہو، کیونکہ وہ صلاۃِ فجر کے لئے جگاتا ہے''۔


5102- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَسَلُوا اللَّهَ تَعَالَى مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهَا رَأَتْ شَيْطَانًا >۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۳)، م/الذکر والدعاء ۲۰ (۲۷۲۹)، ت/الدعوات ۵۷ (۳۴۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۶، ۳۲۱، ۳۶۴) (صحیح)
۵۱۰۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ وہ فرشتہ دیکھ کر آواز لگا تا ہے اور جب تم گدھے کو ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے''۔


5103- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا سَمِعْتُمْ نُبَاحَ الْكِلابِ وَنَهِيقَ الْحُمُرِ بِاللَّيْلِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ فَإِنَّهُنَّ يَرَيْنَ مَا لا تَرَوْنَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۶) (صحیح)
۵۱۰۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم رات میں کتوں کا بھونکنا اور گدھوں کا رینکنا سنو تو اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں تم نہیں دیکھتے''۔


5104- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ [بْنُ سَعِيدٍ]، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلالٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ (ح) وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُمَرَ ابْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ [وَغَيْرِهِ] قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَقِلُّوا الْخُرُوجَ بَعْدَ هَدْأَةِ الرِّجْلِ؛ فَإِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى دَوَابَّ يَبُثُّهُنَّ فِي الأَرْضِ > قَالَ ابْنُ مَرْوَانَ: <فِي تِلْكَ السَّاعَةِ> وَقَالَ: < فَإِنَّ لِلَّهِ خَلْقًا > ثُمَّ ذَكَرَ نُبَاحَ الْكَلْبِ وَالْحَمِيرَ نَحْوَهُ، وَزَادَ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ ابْنُ الْهَادِ: وَحَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ الْحَاجِبُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، مِثْلَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۳۸، ۲۲۵۵، ۲۲۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۵) (صحیح)
۵۱۰۴- علی بن عمر بن حسین بن علی اور ان کے علاوہ ایک اورشخص سے روایت ہے،وہ دونوں(مرسلاً) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (رات میں )آمدورفت بند ہوجانے(اور سنّاٹا چھا جانے) کے بعد گھر سے کم نکلا کرو، کیونکہ اللہ کے کچھ چوپائے ہیں جنہیں اللہ چھوڑ دیتا ہے، ( وہ رات میں آزاد پھر تے ہیں اور نقصان پہنچا سکتے ہیں) (ابن مروان کی روایت میں ''فِي تِلْكَ السَّاعَةِ'' کے الفاظ ہیں اور اس میں ''فَإِنَّ لِلَّهِ تعالى دَوَابَّ ''کے بجائے''فَإِنَّ لِلَّهِ خَلْقًا''ہے)، پھر راوی نے کتّے کے بھو نکنے اور گدھے کے رینکنے کا اسی طرح ذکر کیا ہے، اور اپنی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ ابن الہاد کہتے ہیں:مجھ سے شر حبیل بن حاجب نے بیان کیا ہے انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور جابرنے رسول اللہ ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
116 - بَاب فِي الصَّبِيِّ يُولَدُ فَيُؤَذَّنُ فِي أُذُنِهِ
۱۱۶-باب: بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان دینا کیسا ہے؟​


5105- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلاةِ۔
* تخريج: ت/الأضاحی ۱۷ (۱۵۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹، ۳۹۱، ۳۹۲) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عاصم'' ضعیف ہیں)
۵۱۰۵- ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے صلاۃ کے لئے اذان دی جاتی ہے۔


5106- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ (ح) وحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيَدْعُو لَهُمْ بِالْبَرَكَةِ، زَادَ يُوسُفُ: وَيُحَنِّكُهُمْ، وَلَمْ يَذْكُرْ بِالْبَرَكَةِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۵۴، ۱۷۲۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۶) (صحیح)
۵۱۰۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بچے لائے جاتے تھے تو آپ ان کے لئے برکت کی دعا فرماتے تھے،( یوسف کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ ان کی تحنیک فرماتے یعنی کھجور چبا کر ان کے منہ میں دیتے تھے، البتّہ انہوں نے برکت کی دعا فرمانے کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تبرک کے لئے ضروری ہے کہ شخصیت متبرک ہو، رسول معصوم سے تحنیک کا فائدہ برکت کے یقینی طورپر حصول کی توقع تھی، بعدمیں دوسری شخصیات سے تبرک اور تبریک کی بات خوش خیالی ہے، تحنیک کے اس واقعہ سے استدلال صحیح نہیں ہے، لیکن اگر تحنیک کا عمل حصول تبرک کے علاوہ دوسرے فوائد کے لئے کیاجائے تو اور بات ہے ایک تو یہی کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت کی اتباع کے جذبہ سے، دوسرے طب وصحت کے قواعد وضوابط کے نقطہ ٔ نظر سے وغیرہ وغیرہ۔ واللہ اعلم۔


5107- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ حُمَيْدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <هَلْ رُئِيَ> أَوْ كَلِمَةً غَيْرَهَا، <فِيكُمُ الْمُغَرِّبُونَ؟> قُلْتُ: وَمَاالْمُغَرِّبُونَ؟ قَالَ: < الَّذِينَ يَشْتَرِكُ فِيهِمُ الْجِنُّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۷۸) (ضعیف الإسناد)
(اس کی راویہ '' ام حمید''مجہول ہیں)
۵۱۰۷- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:'' کیا تم میں مغرّ بون دیکھے گئے ہیں، آپ نے'' دیکھے گئے ہیں ''کہا یا اسی طرح کا کوئی اور لفظ کہا، میں نے پوچھا: مغر ّبوں کو ن ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ لوگ جن میں جنوں کی شرکت ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ شرکت چاہے اللہ کی یاد سے غفلت اور شیطا ن کی اتباع کی وجہ سے ہویا زنا کی اولاد ہو نے کی وجہ سے ہو، یا شیاطین کی صحبت سے پیدا ہوئے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
117 - بَاب فِي الرَّجُلِ يَسْتَعِيذُ مِنَ الرَّجُلِ
۱۱۷-باب: آدمی آدمی سے اللہ کا نام لے کر پناہ مانگے تو کیسا ہے؟​


5108- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ [الْجُشَمِيُّ]، قَالا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ نَصْرٌ: ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَهِيكٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ >.
قَالَ عُبَيْدُاللَّهِ: < مَنْ سَأَلَكُمْ بِاللَّهِ >.
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۹، ۲۵۰) (حسن صحیح)
۵۱۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جو شخص اللہ کے واسطے سے پنا ہ مانگے اسے پناہ دو، اور جو شخص لوجہ اللہ ( اللہ کی رضا و خوشنو دی کا حوالہ دے کر) سوال کرے تو اس کو دو''۔
عبیداللہ کی روایت میں ''من سألكم لوجه الله '' کے بجائے ''من سألكم بالله'' ہے۔


5109- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ( ح) وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، الْمَعْنَى، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنِ اسْتَعَاذَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ > وَقَالَ سَهْلٌ وَعُثْمَانُ: < وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ > ثُمَّ اتَّفَقُوا: < وَمَنْ آتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ > قَالَ مُسَدَّدٌ وَعُثْمَانُ: < فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَادْعُوا [اللَّهَ] لَهُ حَتَّى تَعْلَمُوا أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۶۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۹۱) (صحیح)
۵۱۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص تم سے اللہ کے واسطے سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دو، اور جو شخص تم سے اللہ کے نام پر سوال کرے تو اسے دو، جو تمہیں مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرو، جو شخص تم پر احسان کرے تو تم اس کے احسان کا بدلہ چکاؤ، اور اگر بدلہ چکانے کی کوئی چیز نہ پا سکو تو اس کے لئے اتنی دعا کرو جس سے تم یہ سمجھو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
118 - بَاب فِي رَدِّ الْوَسْوَسَةِ
۱۱۸-باب: وسوسہ دور کرنے کا بیان​


5110- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ -يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ- قَالَ: [و] حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ: مَا شَيْئٌ أَجِدُهُ فِي صَدْرِي، قَالَ: مَا هُوَ؟ قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَتَكَلَّمُ بِهِ، قَالَ: فَقَالَ لِي: أَشَيْئٌ مِنْ شَكٍّ؟ قَالَ: وَضَحِكَ، قَالَ: مَا نَجَا مِنْ ذَلِكَ أَحَدٌ، قَالَ: حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَئُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ} الآيَةَ، قَالَ: فَقَالَ لِي: إِذَا وَجَدْتَ فِي نَفْسِكَ شَيْئًا فَقُلْ: {هُوَالأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ، وَهُوَ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيمٌ }۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۷۷) (حسن الإسناد)
۵۱۱۰- ابو زمیل کہتے ہیں: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میرے دل میں کیسی کھٹک ہو رہی ہے؟ انہوں نے کہا: کیا ہوا؟ میں نے کہا: قسم اللہ کی! میں اس کے متعلق کچھ نہ کہوں گا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا کوئی شک کی چیز ہے، یہ کہہ کر ہنسے اور بولے: اس سے تو کوئی نہیں بچا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزّوجلّ نے یہ آیت نازل فرمائی {فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَئُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ} ۱؎ پھر انہوں نے مجھ سے کہا: جب تم اپنے دل میں اسقسم کا وسوسہ پائو تو {هُوَالأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ، وَهُوَ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيمٌ} ۲؎ پڑھ لیا کرو۔
وضاحت ۱؎ : اگر تجھے اس کلام میں شک ہے جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے تو ان لوگوں سے پو چھ لے جو تم سے پہلے اتاری ہوئی کتاب (توراۃ و انجیل) پڑھتے ہیں،(یونس : ۹۴)
وضاحت ۲؎ : وہی اوّل ہے اور وہی آخر وہی ظاہر ہے اور وہی باطن اور وہ ہرچیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔(الحدید : ۳)


5111- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَائَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا الشَّيْئَ نُعْظِمُ أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهِ، أَوِ الْكَلامَ بِهِ، مَا نُحِبُّ أَنَّ لَنَا وَأَنَّا تَكَلَّمْنَا بِهِ، قَالَ: < أَوَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟ > قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: < ذَاكَ صَرِيحُ الإِيمَانِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۵۷)، وقد أخرجہ: م/الإیمان ۶۰ (۱۳۲)، حم (۲/۴۴۱) (صحیح)
۵۱۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحا بہ میں سے کچھ لوگ آئے، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسو سے پاتے ہیں، جن کو بیان کرنا ہم پر بہت گراں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اندر ایسے وسوسے پیدا ہوں اور ہم ان کو بیان کر یں، آپ نے فرمایا:'' کیا تمہیں ایسے وسو سے ہوتے ہیں؟''، انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا:''یہ تو عین ایمان ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عین ایمان یہی ہے جو تمہیں ان باتوں کو قبول کرنے اور ان کی تصدیق کرنے سے روک رہا ہے جنہیں شیطان تمہارے دلوں میں ڈالتا ہے یہاں تک کہ وہ وسوسہ ہو جاتا ہے اور تمہارے دلوں میں جم نہیں پاتا، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خود یہ وسوسہ ہی عین ایمان ہے۔وسوسہ تو شیطان کی وجہ سے وجود میں آتا ہے پھر یہ ایمان صریح کیسے ہوسکتا ہے۔


5112- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ، قَالا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَحَدَنَا يَجِدُ فِي نَفْسِهِ، يُعَرِّضُ بِالشَّيْئِ، لأَنْ يَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، فَقَالَ: < اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ كَيْدَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ > قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ: < رَدَّ أَمْرَهُ > مَكَانَ < رَدَّ كَيْدَهُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۲، ۳۴۰) (صحیح)
۵۱۱۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے، کہ اس کو بیان کر نے سے راکھ ہو جانا یا جل کر کوئلہ ہو جا نا بہتر معلوم ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے مکر کو وسوسہ بنا دیا ( اور وسوسہ مومن کو نقصان نہیں پہنچاتا) ۔
ابن قدا مہ نے اپنی روایت میں ''رد كيده '' کی جگہ ''رد أمره'' کہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
119 - بَاب فِي الرَّجُلِ يَنْتَمِي إِلَى غَيْر مَوَالِيهِ
۱۱۹-باب: غلام اپنے آقا کو چھوڑ کر اپنی نسبت کسی اورسے کرے تو کیسا ہے؟​


5113- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ ، أَنَّهُ قَالَ: <مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ > قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ .
قَالَ عَاصِمٌ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا عُثْمَانَ، لَقَدْ شَهِدَ عِنْدَكَ رَجُلانِ أَيُّمَا رَجُلَيْنِ، فَقَالَ: أَمَّا أَحَدُهُمَا فَأَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ فِي الإِسْلامِ، يَعْنِي سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ، وَالآخَرُ قَدِمَ مِنَ الطَّائِفِ فِي بِضْعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلا عَلَى أَقْدَامِهِمْ، فَذَكَرَ فَضْلا.
قَالَ النُّفَيْلِيُّ حَيْثُ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ: وَاللَّهِ إِنَّهُ عِنْدِي أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، يَعْنِي قَوْلَهُ حَدَّثَنَا وَحَدَّثَنِي.
قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَقُولُ: لَيْسَ لِحَدِيثِ أَهْلِ الْكُوفَةِ نُورٌ، قَالَ: وَمَا رَأَيْتُ مِثْلَ أَهْلِ الْبَصْرَةِ كَانُوا تَعَلَّمُوهُ مِنْ شُعْبَةَ.
* تخريج: خ/المغازي ۵۶ (۴۳۲۶)، م/الإیمان ۲۷ (۶۳)، ق/الحدود ۳۶ (۲۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۹، ۱۷۴، ۱۷۹، ۵/۳۸، ۴۶)، دي/السیر ۸۳ (۲۵۷۲)، الفرائض ۲ (۲۹۰۲) (صحیح)
۵۱۱۳- سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے محمدﷺ سے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے، آپ نے فرمایا:’’ جو شخص جان بوجھ کر، اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے تو جنت اس پر حرام ہے‘‘۔
عثمان کہتے ہیں: میں سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا، تو انہوں نے بھی کہا: میرے کانوں نے محمد ﷺ سے سنا، اور میرے دل نے ا سے یا درکھا، عا صم کہتے ہیں :اس پر میں نے کہا: ابوعثمان تمہارے پاس دو آدمیوں نے اس بات کی گواہی دی، لیکن یہ دونوں صاحب کو ن ہیں؟ ان کی صفا ت و خصوصیا ت کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا :ایک وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں یا اسلام میں سب سے پہلے تیر چلایا یعنی سعد بن مالک رضی اللہ عنہ اور دوسرے وہ ہیں جو طائف سے بیس سے زائد آدمیوں کے ساتھ پیدل چل کر آئے پھر ان کی فضیلت بیان کی۔
نفیلی نے یہ حدیث بیان کی تو کہا:قسم اللہ کی! یہ حدیث میرے لئے شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے، یعنی ان کا حدثنا وحدثني کہنا ( مجھے بہت پسند ہے) ۔
ابو علی کہتے ہیں: میں نے ابو داود سے سنا ہے، وہ کہتے تھے : میں نے احمد کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل کو فہ کی حدیث میں کوئی نو رنہیں ہو تا (کیونکہ وہ اسا نید کو صحیح طریقہ پر بیان نہیں کرتے، اور اخبار وتحدیث کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے )اور کہا : میں نے اہل بصرہ جیسے اچھے لوگ بھی نہیں دیکھے انہوں نے شعبہ سے حدیث حاصل کی ( اور شعبہ کا طریقہ اسناد کو اچھی طرح بتا دینے کا تھا)۔


5114- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ تَوَلَّى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدْلٌ وَلا صَرْفٌ >۔
* تخريج: م/العتق ۴ (۱۵۰۸)، الحج ۸۵ (۱۳۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۸، ۴۱۷) (صحیح)
۵۱۱۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مولیٰ ( آقا ) کی اجازت ۱؎کے بغیر کسی قوم کواپنا مولی(آقا) بنائے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام ہی لوگوں کی لعنت ہے، قیا مت کے دن نہ اس کا کوئی فر ض قبول ہو گا اور نہ ہی کوئی نفل قبول ہو گی۔
وضاحت ۱؎ : ’’من غير إذن مواليه‘‘ کی قید زیادہ تقبیح کے لئے ہے اگر موالی اس کی اجازت دیں تو بھی غیر کواپنا مولیٰ بنانا حرام ہے۔


5115- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ وَنَحْنُ بِبَيْرُوتَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ الْمُتَتَابِعَةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۱) (صحیح)
۵۱۱۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فر ما تے ہوئے سنا: جو شخص اپنے کو اپنے والد کے سوا کسی اور کا بیٹا بتا ئے یا اپنے مو لی(آقا) کے بجائے کسی اور کو اپنا آقا بنائے تو اس پر پیہم قیامت تک اللہ کی لعنت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
120 - بَاب فِي التَّفَاخُرِ بِالأَحْسَابِ
۱۲۰-باب: حسب و نسب پر فخر کرنے کا بیان​


5116- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَي (ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، وَهَذَا حَدِيثُهُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالآبَاءِ، مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، أَنْتُمْ بَنُو آدَمَ، وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ، لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ، إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الْجِعْلانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتِنَ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۷۵ (۳۹۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۳۳) (حسن)
۵۱۱۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت و غرور کو ختم کردیا اور باپ دادا کا نام لے کر فخر کر نے سے روک دیا، (اب دو قسم کے لوگ ہیں) ایک متقی و پرہیزگار مومن، دوسرا بدبخت فاجر، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں ۱؎ ، لوگوں کو اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ ان کے آباء جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں( اس لئے کہ وہ کافر تھے، اور کوئلے پر فخر کر نے کے کیا معنی) اگر انہوں نے اپنے آباء پر فخر کرنا نہ چھوڑا تواللہ کے نزدیک اس گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے ، جو اپنی ناک سے گندگی کو ڈھکیل کرلے جاتا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اصلاً تم سب ایک ہو پھر ایک دوسرے پر فخر کرنا کیسا۔
 
Top