129- بَاب فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ
۱۲۹-باب: ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک کر نے کا بیان
5137- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدَهُ إِلا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ >۔
* تخريج: م/العتق ۶ (۱۵۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۶۰)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۸ (۱۹۰۷)، ق/الأدب ۱ (۳۶۵۹)، حم (۲/۲۳۰، ۳۷۶، ۴۴۵) (صحیح)
۵۱۳۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بیٹا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے غلام پائے پھر اسے خرید کر آزاد کردے''۔
5138- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِي الْحَارِثُ، عَنْ حَمْزَةَ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ، وَكُنْتُ أُحِبُّهَا، وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا، فَقَالَ لِي: طَلِّقْهَا، فَأَبَيْتُ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < طَلِّقْهَا >۔
* تخريج: ت/الطلاق ۱۳ (۱۱۸۹)، ق/الطلاق ۳۶ (۲۰۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۰، ۴۲، ۵۳، ۱۷۵) (صحیح)
۵۱۳۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمر کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی اکرمﷺ کے پاس گئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:'' تم اسے طلاق دے دو''۔
5139- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: < أُمَّكَ، ثُمَّ أُمَّكَ، ثُمَّ أُمَّكَ، ثُمَّ أَبَاكَ، ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ > وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَسْأَلُ رَجُلٌ مَوْلاهُ مِنْ فَضْلٍ هُوَ عِنْدَهُ فَيَمْنَعُهُ إِيَّاهُ إِلا دُعِيَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَضْلُهُ الَّذِي مَنَعَهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: الأَقْرَعُ الَّذِي ذَهَبَ شَعْرُ رَأْسِهِ مِنَ السُّمِّ]۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۱ (۱۸۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳، ۵) (حسن صحیح)
۵۱۳۹- معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ! میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا:'' اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر جو قریبی رشتہ دار ہوں ان کے ساتھ، پھر جو اس کے بعد قریب ہوں''۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اپنے غلام سے وہ مال مانگے، جو اس کی حاجت سے زیادہ ہو اور وہ اُسے نہ دے تو قیامت کے دن اس کا وہ فاضل مال جس کے دینے سے اس نے انکار کیا ایک گنجے سانپ کی صورت میں اس کے سامنے لا یا جائے گا''۔
ابو داود کہتے ہیں: اقر ع سے وہ سانپ مراد ہے جس کے سر کے بال زہر کی تیزی کے سبب جھڑ گئے ہوں۔
5140- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مُرَّةَ، حَدَّثَنَا كُلَيْبُ بْنُ مَنْفَعَةَ عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: < أُمَّكَ، وَأَبَاكَ، وَأُخْتَكَ، وَأَخَاكَ، وَمَوْلاكَ الَّذِي يَلِي ذَاكَ، حَقٌّ وَاجِبٌ وَرَحِمٌ مَوْصُولَةٌ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۶۵) (ضعیف)
(اس کی سند میں کلیب کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور ابن حجر نے مقبول لکھا ہے، اصل حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، چاہے اس حدیث کی سند پر ضعف کا حکم ہی لگا دیا جائے، جیسا کہ شیخ ناصر نے کیا ہے) ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود، الارواء (۸۳۷)
۵۱۴۰- بکر بن حارث (کلیب کے دادا) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا:اللہ کے رسول ! میں کس کے ساتھ حسن سلو ک کروں؟ آپ نے فرمایا:'' اپنی ماں، اور اپنے باپ، اور اپنی بہن اور اپنے بھائی کے ساتھ، اور ان کے بعد اپنے غلام کے ساتھ، یہ ایک واجب حق ہے، اور ایک جوڑنے والی ( رحم ) قرابت داری ہے ''۔
5141- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا(ح) وحَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ > قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: < يَلْعَنُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَلْعَنُ أَبَاهُ، وَيَلْعَنُ أُمَّهُ فَيَلْعَنُ أُمَّهُ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۴ (۵۹۷۳)، م/الإیمان ۳۸ (۹۰)، ت/البر والصلۃ ۴ (۱۹۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۴، ۱۹۵، ۲۱۴، ۲۱۶) (صحیح)
۵۱۴۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''( بڑے گناہوں) میں سے ایک بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت بھیجے''، عرض کیا گیا:اللہ کے رسول! آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیج سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ایک شخص کسی شخص کے باپ پر لعنت بھیجتا ہے، تو وہ شخص ( جواب میں) اس کے باپ پر لعنت بھیجتا ہے،یا ایک شخص کسی شخص کی ماں پر لعنت بھیجتا ہے تو وہ اس کے جواب میں اس کی ماں پر لعنت بھیجتا ہے ''، (اس طرح وہ گویا خو د ہی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجتا ہے)۔
5142- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، الْمَعْنَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدٍ مَوْلَى بَنِي سَاعِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ جَائَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْئٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ قَالَ: < نَعَمِ، الصَّلاةُ عَلَيْهِمَا، وَالاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لاتُوصَلُ إِلا بِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا >۔
* تخريج: ق/الأدب ۲ (۳۶۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۹۷) (ضعیف)
(اس کے راوی '' علی بن عبید'' لین الحدیث ہیں )
۵۱۴۲- ابو اسید مالک بن ربیعہ سا عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کیا:اللہ کے رسول! میرے ماں باپ کے مرجانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہے، ان کے لئے دعا اور استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت و اقرار کو نافذ کرنا، جو رشتے انہیں کی وجہ سے جڑتے ہیں، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی خاطر مدارات کرنا (ان حسن سلوک کی یہ مختلف صورتیں ہیں) ۔
5143- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْمَرْءِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ >۔
* تخريج: م/البر والصلۃ ۴ (۲۵۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۶۲)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۵ (۱۹۰۳) (صحیح)
۵۱۴۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے''۔
5144- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ بْنِ ثَوْبَانَ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ ثَوْبَانَ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ أَخْبَرَهُ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْسِمُ لَحْمًا بِالْجِعِرَّانَةِ، قَالَ أَبُو الطُّفَيْلِ: وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلاَمٌ أَحْمِلُ عَظْمَ الْجَزُورِ، إِذْ أَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ حَتَّى دَنَتْ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَبَسَطَ لَهَا رِدَائَهُ، فَجَلَسَتْ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَنْ هِيَ؟ فَقَالُوا: [هَذِهِ] أُمُّهُ الَّتِي أَرْضَعَتْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۵۳) (ضعیف الإسناد)
(اس میں راوی '' جعفر'' لین الحدیث، اور '' عمارہ'' مجہول الحال ہیں)
۵۱۴۴- ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جعرانہ میں گوشت تقسیم کرتے دیکھا، ان دنوں میں لڑ کا تھا، اور اونٹ کی ہڈیاں ڈھورہا تھا، کہ اتنے میں ایک عورت آئی، یہاں تک کہ وہ نبی اکرمﷺ سے قر یب ہوگئی، آپ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی، جس پر وہ بیٹھ گئی، ابو طفیل کہتے ہیں: میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: یہ آپ کی رضاعی ماں ہیں، جنہوں نے آپ کو دودھ پلایا ہے۔
5145- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ جَالِسًا فَأَقْبَلَ أَبُوهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَوَضَعَ لَهُ بَعْضَ ثَوْبِهِ، فَقَعَدَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ أُمُّهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَوَضَعَ لَهَا شِقَّ ثَوْبِهِ مِنْ جَانِبِهِ الآخَرِ، فَجَلَسَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ أَخُوهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَقَامَ [لَهُ] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۱) (ضعیف الإسناد)
(اس کی سند میں اخیر سے کم سے کم دو راوی ساقط ہیں، '' عمر بن سائب'' تبع تابعی ہیں)
۵۱۴۵- عمر بن سائب کا بیان ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ اتنے میں آپ کے رضاعی باپ آئے، آپ نے ان کے لئے اپنے کپڑے کا ایک کونہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئے، پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں آپ نے ان کے لئے اپنے کپڑے کا دوسرا کنارہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئیں، پھرآپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ کھڑے ہوگئے اور انہیں اپنے سامنے بٹھا یا۔