• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
131 - بَاب فِي مَنْ ضَمَّ الْيَتِيمَ
۱۳۱-باب: یتیم کی پرورش کی ذمہ داری لینے والے کی فضیلت کا بیان​


5150- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ- قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سَهْلٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ > وَقَرَنَ بَيْنَ أُصْبُعَيْهِ الْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۲۵ (۵۳۰۳)، الأدب ۲۴ (۶۰۰۵)، ت/ البر والصلۃ ۱۴ (۱۹۱۸)، تحفۃ الأشراف: ۴۷۱۰)، حم (۵/۳۳۳) (صحیح)
۵۱۵۰- سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ( قریب قریب) ہوں گے ''، آپ نے بیچ کی، اور انگو ٹھے سے قریب کی انگلی، کو ملا کر دکھایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
132 - بَاب فِي حَقِّ الْجِوَارِ
۱۳۲-باب: پڑوسی کے حق کا بیان​


5151- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى قُلْتُ لَيُوَرِّثَنَّهُ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۲۸ (۶۰۱۴)، م/البر والصلۃ ۴۲ (۲۶۲۴)، ت/البر والصلۃ ۲۸ (۱۹۴۲)، ق/الأدب ۴ (۳۶۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۱، ۱۲۵، ۲۳۸) (صحیح)
۵۱۵۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جبرئیل مجھے برابر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں (دل میں )کہنے لگا کہ وہ ضرور اسے وارث بنا دیں گے‘‘۔


5152- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بَشِيرٍ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ ذَبَحَ شَاةً فَقَالَ: أَهْدَيْتُمْ لِجَارِي الْيَهُودِيِّ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ>۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۲۹ (۱۹۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۰) (صحیح)
۵۱۵۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی تو (گھر والوں) سے کہا: کیا تم لوگوں نے میرے یہودی پڑوسی کو ہدیہ بھیجا ( نہ بھیجا ہو تو بھیج دو) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے :’’ جبرئیل مجھے برابر پڑوسی،کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان گذرا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے‘‘۔


5153- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يَشْكُو جَارَهُ، فَقَالَ: <اذْهَبْ فَاصْبِرْ> فَأَتَاهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا فَقَالَ: <اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَكَ فِي الطَّرِيقِ> فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِي الطَّرِيقِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَيُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْعَنُونَهُ: فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ، وَفَعَلَ، فَجَاءَ إِلَيْهِ جَارُهُ فَقَالَ لَهُ: ارْجِعْ لا تَرَى مِنِّي شَيْئًا تَكْرَهُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۴۱) (حسن صحیح)
۵۱۵۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کے پاس آیا، اپنے پڑوسی کی شکایت کررہاتھا، آپ نے فرمایا: ’’جائو صبرکرو‘‘،پھر وہ آپ کے پاس دوسری یا تیسری دفعہ آیا، تو آپ نے فرمایا:’’جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈھیر کردو‘‘، تو اس نے اپنا سامان نکال کر راستہ میں ڈال دیا، لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے اور وہ پڑ وسی کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا، لوگ ( سن کر) اس پر لعنت کر نے اور اسے بد دعا دینے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، اس پر اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا: اب آپ( گھر میں )واپس آجائے آئندہ مجھ سے کوئی ایسی بات نہ دیکھیں گے جو آپ کونا پسند ہو۔


5154- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۸۵ (۶۱۳۸)، م/الإیمان ۱۹ (۴۷)، ت/صفۃ القیامۃ ۵۰ (۲۵۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۲)، وقد أخرجہ: ق/الفتن ۱۲ (۳۹۷۱)، حم (۲/۲۶۷، ۲۶۹، ۴۳۳، ۴۶۳) (صحیح)
۵۱۵۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت (قیامت ) پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوتو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوتووہ اچھی بات کہے یا چپ رہے‘‘۔


5155- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ [بْنُ مُسَرْهَدٍ] وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ عُبَيْدٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي جَارَيْنِ بِأَيِّهِمَا أَبْدَأُ؟ قَالَ: < بِأَدْنَاهُمَا بَابًا >.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ شُعْبَةُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: طَلْحَةُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ۔
* تخريج: خ/الشفعۃ ۳ (۲۲۵۹)، الھبۃ۱۶ (۲۵۹۵)، الأدب۳۲ (۶۰۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۶۳)، وقد أخرجہ: حم ۶/۱۷۵،۱۹۳، ۲۳۹) (صحیح)
۵۱۵۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے پہلے کس کے ساتھ احسان کروں؟ آپ نے فرمایا:’’ ان دونوں میں سے جس کا دروزاہ قریب ہو اس کے ساتھ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
133- بَاب فِي حَقِّ الْمَمْلُوكِ
۱۳۳-باب: غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان​


5156- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أُمِّ مُوسَى، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام قَالَ: كَانَ آخِرُ كَلامِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ : < الصَّلاةَ الصَّلاةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ >ـ۔
* تخريج: ق/الوصایا ۱ (۲۶۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۷۸) (صحیح)
۵۱۵۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری بات( انتقال کے مو قع پر) یہ تھی کہ صلاۃ کا خیال رکھنا، صلاۃ کا خیال رکھنا، اور جو تمہاری ملکیت میں (غلام اور لو نڈی ) ہیں ان کے معاملا ت میں اللہ سے ڈرتے رہنا ۔


5157- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ غَلِيظٌ وَعَلَى غُلامِهِ مِثْلُهُ، قَالَ: فَقَالَ الْقَوْمُ: يَا أَبَا ذَرٍّ! لَوْكُنْتَ أَخَذْتَ الَّذِي عَلَى غُلامِكَ فَجَعَلْتَهُ مَعَ هَذَا فَكَانَتْ حُلَّةً وَكَسَوْتَ غُلامَكَ ثَوْبًا غَيْرَهُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: إِنِّي كُنْتُ سَابَبْتُ رَجُلا وَكَانَتْ أُمُّهُ أَعْجَمِيَّةً، فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، فَشَكَانِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: < يَا أَبَا ذَرٍّ! إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ > قَالَ: < إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ فَضَّلَكُمُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ، فَمَنْ لَمْ يُلائِمْكُمْ فَبِيعُوهُ، وَلا تُعَذِّبُوا خَلْقَ اللَّهِ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۲ (۳۰)، العتق ۱۵ (۲۵۴۵)، الأدب ۴۴ (۶۰۵۰)، م/الأیمان ۱۰ (۱۶۶۱)، ت/البر والصلۃ ۲۹ (۱۹۴۵)، ق/الأدب ۱۰ (۳۶۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵۸، ۱۶۱، ۱۷۳) (صحیح)
۵۱۵۷- معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے ابو ذر کو ربذہ ( مدینہ کے قریب ایک گائوں ) میں دیکھا وہ ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ان کے غلام کے بھی(جسم پر) اسی جیسی چادرتھی، معرور بن سوید کہتے ہیں: تو لوگوں نے کہا: ابوذر! اگر تم وہ ( چادر) لے لیتے جو غلام کے جسم پر ہے اور اپنی چادر سے ملا لیتے تو پورا جوڑا بن جاتا اور غلام کو اس چادر کے بدلے کوئی اور کپڑا پہننے کو دے دیتے (تو زیادہ اچھا ہوتا) اس پر ابو ذر نے کہا: میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اس کی ماں کے غیر عربی ہو نے کا اسے طعنہ دیا، اس نے میری شکایت رسول اللہ ﷺ سے کردی، تو آپ نے فرمایا:'' ابو ذر! تم میں ابھی جاہلیت ( کی بو باقی ) ہے وہ (غلام، لو نڈی) تمہارے بھائی بہن، ہیں ( کیونکہ سب آدم کی اولاد ہیں)، اللہ نے تم کو ان پر فضیلت دی ہے، ( تم کو حاکم اور ان کو محکوم بنا دیا ہے ) تو جو تمہارے موافق نہ ہو اسے بیچ دو، اور اللہ کی مخلوق کو تکلیف نہ دو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : لہٰذا میں اپنے اس عمل سے اسے تکلیف دینا نہیں چا ہتا تھا کہ وہ مجھ سے نارا ض رہے۔


5158 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْمَعْرُورِ [بْنِ سُوَيْدٍ] قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ فَإِذَا عَلَيْهِ بُرْدٌ وَعَلَى غُلامِهِ مِثْلُهُ، فَقُلْنَا: يَاأَبَاذَرٍّ! لَوْ أَخَذْتَ بُرْدَ غُلامِكَ إِلَى بُرْدِكَ فَكَانَتْ حُلَّةً وَكَسَوْتَهُ ثَوْبًا غَيْرَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدَيْهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيَكْسُهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلايُكَلِّفْهُ مَا يَغْلِبُهُ فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ، فَلْيُعِنْهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ ابْنُ نُمَيْرٍ عَنِ الأَعْمَشِ نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۰) (صحیح)
۵۱۵۸- معرور بن سوید کہتے ہیں کہ ہم ابو ذر رضی اللہ عنہ کے پاس ربذہ میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے جسم پر ایک چادر ہے اور ان کے غلام پر بھی اسی جیسی چادر ہے، تو ہم نے کہا :ابو ذر! اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے لیتے، تو آپ کا پورا جوڑا ہو جاتا، اور آپ اسے کوئی اور کپڑا دے دیتے۔ تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :'' یہ ( غلام اور لونڈی ) تمہارے بھائی ( اور بہن) ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت کیا ہے، تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو تو اس کو وہی کھلائے جو خو د کھائے اور وہی پہنائے جو خود پہنے، اور اسے ایسے کام کر نے کے لئے نہ کہے جسے وہ انجام نہ دے سکے، اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بنائے جو اس کے بس کا نہ ہو تو خود بھی اس کام میں لگ کر اس کا ہاتھ بٹائے'' ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے ابن نمیر نے اعمش سے اسی طرح روایت کیا ہے۔


5159- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ [قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ (ح) وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ غُلامًا لِي، فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِي صَوْتًا: < اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ > قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: مَرَّتَيْنِ < لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ > فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى، قَالَ: < أَمَا [إِنَّكَ] لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَعَتْكَ النَّارُ > أَوْ < لَمَسَّتْكَ النَّارُ >۔
* تخريج: م/الأیمان ۸ (۱۶۵۹)، ت/البر والصلۃ ۳۰ (۱۹۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۰، ۵/۲۷۳، ۲۷۴) (صحیح)
۵۱۵۹- ابو مسعو د انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا اتنے میں میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی : اے ابو مسعود! جان لو، اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت واختیار رکھتا ہے جتنا تم اس (غلام ) پر رکھتے ہو، یہ آواز دو مرتبہ سنائی پڑی، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ نبی اکرمﷺ تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ اللہ کی رضا کے لئے آزاد ہے،آپ نے فرمایا:'' اگر تم اسے ( آزاد ) نہ کرتے تو آگ تمہیں لپٹ جاتی یا آگ تمہیں چھو لیتی'' ۔
5160

- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنِ الأَعْمَشِ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، نَحْوَهُ، قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ غُلامًا لِي [أَسْوَدَ] بِالسَّوْطِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَمْرَ الْعَتْقِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۰۹) (صحیح)
۵۱۶۰- اس سند سے بھی اعمش سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طرح مروی ہے، اس میں یہ ہے کہ میں اپنے ایک کالے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا، اور انہوں نے آزاد کر نے کا ذکر نہیں کیا ہے۔


5161- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ لائَمَكُمْ مِنْ مَمْلُوكِيكُمْ فَأَطْعِمُوهُ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَاَكْسُوهُ مِمَّا تَلْبَسُونَ، وَمَنْ لَمْ يُلائِمْكُمْ مِنْهُمْ فَبِيعُوهُ، وَلاتُعَذِّبُوا خَلْقَ اللَّهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۶۸، ۱۷۳) (صحیح)
۵۱۶۱- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو تمہارے موافق ہوں تو انہیں وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اور جو تمہارے موافق نہ ہوں، انہیں بیچ دو، اللہ کی مخلوق کو ستاؤ نہیں ۔


5162- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ بَعْضِ بَنِي رَافِعِ بْنِ مَكِيثٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ مَكِيثٍ -وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ - أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < حُسْنُ الْمَلَكَةِ يُمْنٌ، وَسُوءُ الْخُلُقِ شُؤْمٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۹،۱۸۴۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۵۰۲) (ضعیف)
(اس کے رواۃ ''عثمان جھنی'' اور بعض بنی رافع'' دونوں مجہول ہیں)
۵۱۶۲- را فع بن مکیث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے( یہ ان صحابہ میں سے تھے جو صلح حدیبیہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ شریک تھے) وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' غلام و لونڈی کے ساتھ اچھے ڈھنگ سے پیش آنا برکت ہے اور بدخلقی، نحوست ہے''۔


5163- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ زُفَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ رَافِعِ بْنِ مَكِيثٍ، عَنْ عَمِّهِ الْحَارِثِ بْنِ رَافِعٍ بْنِ مَكِيثٍ -وَكَانَ رَافِعٌ مِنْ جُهَيْنَةَ قَدْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، قَالَ: <حُسْنُ الْمَلَكَةِ يُمْنٌ وَسُوءُ الْخُلُقِ شُؤْمٌ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۹، ۱۸۴۸۰) (ضعیف)
(بقیہ ضعیف، عثمان، محمد اور حارث سب مجہول الحال ہیں)
۵۱۶۳- رافع بن مکیث سے روایت ہے،اور را فع قبیلہ جہنیہ سے تعلق رکھتے تھے اور صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' غلام و لونڈی کے ساتھ اچھا برتائو کرنا برکت اور بدخلقی نحوست ہے''۔


5164- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَهَذَا حَدِيثُ الْهَمْدَانِيِّ وَهُوَ أَتَمُّ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ، عَنِ الْعَبَّاسِ ابْنِ جُلَيْدٍ الْحَجْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَمْ نَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ، فَصَمَتَ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ الْكَلامَ، فَصَمَتَ، فَلَمَّا كَانَ فِي الثَّالِثَةِ قَالَ: <اعْفُوا عَنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۳۶)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۳۱ (۱۹۴۹) (صحیح)
۵۱۶۴- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:اللہ کے رسول ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں، آپ (سن کر) چپ رہے، پھر اس نے اپنی بات دھرائی، آپ پھر خاموش رہے، تیسری بار جب اس نے اپنی بات دھرائی تو آپ نے فرمایا :'' ہر دن ستر بار اسے معاف کرو''۔


5165- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا (ح) وحَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ [-يَعْنِي ابْنَ غَزْوَانَ-] عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ نَبِيُّ التَّوْبَةِ ﷺ قَالَ: < مَنْ قَذَفَ مَمْلُوكَهُ وَهُوَ بَرِيئٌ مِمَّا قَالَ جُلِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَدًّا > قَالَ مُؤَمَّلٌ: حَدَّثَنَا عِيسَى عَنِ الْفُضَيْلِ يَعْنِي ابْنَ غَزْوَانَ ۔
* تخريج: خ/الحدود ۴۵ (۶۸۵۸)، م/الأیمان ۹ (۱۶۶۰)، ت/البر والصلۃ ۳۰ (۱۹۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۳۱، ۴۹۹) (صحیح)
۵۱۶۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی توبہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا:''جس نے اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائی اور وہ اس الزام سے بری ہے، تو قیامت کے دن اس پر حد قذف لگائی جائے گی''۔


5166- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: كُنَّا نُزُولا فِي دَارِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَفِينَا شَيْخٌ فِيهِ حِدَّةٌ وَمَعَهُ جَارِيَةٌ [لَهُ]، فَلَطَمَ وَجْهَهَا، فَمَا رَأَيْتُ سُوَيْدًا أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ ذَاكَ الْيَوْمَ، قَالَ: عَجَزَ عَلَيْكَ إِلا حُرُّ وَجْهِهَا؟! لَقَدْ رَأَيْتُنَا سَابِعَ سَبْعَةٍ مِنْ وَلَدِ مُقَرِّنٍ وَمَا لَنَا إِلا خَادِمٌ، فَلَطَمَ أَصْغَرُنَا وَجْهَهَا، فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ ﷺ بِعِتْقِهَا۔
* تخريج: م/الأیمان ۸ (۱۶۵۸)، ت/النذور ۱۴ (۱۵۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۴۸، ۵/۴۴۸) (صحیح)
۵۱۶۶- ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سو ید بن مقرّن رضی اللہ عنہ کے گھر اترے، ہمارے ساتھ ایک تیز مزاج بوڑھا تھا اور اس کے ساتھ اس کی ایک لونڈی تھی، اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا تو میں نے سوید کو جتنا سخت غصہ ہوتے ہوئے دیکھا اتنا کبھی نہیں دیکھا تھا، انہوں نے کہا :تیرے پاس اسے آزاد کر دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، تو نے ہمیں دیکھا ہے کہ ہم مقرن کے سات بیٹوں میں سے ساتویں ہیں، ہمارے پاس صرف ایک خادم تھا، سب سے چھوٹے بھائی نے (ایک بار) اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا تو نبی اکرمﷺ نے ہمیں اس کے آزاد کر دینے کا حکم دیا۔


5167- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ ابْنُ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، قَالَ: لَطَمْتُ مَوْلًى لَنَا، فَدَعَاهُ أَبِي وَدَعَانِي، فَقَالَ: اقْتَصَّ مِنْهُ، فَإِنَّا مَعْشَرَ بَنِي مُقَرِّنٍ كُنَّا سَبْعَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَيْسَ لَنَا إِلا خَادِمٌ، فَلَطَمَهَا رَجُلٌ مِنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَعْتِقُوهَا > قَالُوا: إِنَّهُ لَيْسَ لَنَا خَادِمٌ غَيْرَهَا، قَالَ: < فَلْتَخْدُمْهُمْ حَتَّى يَسْتَغْنُوا، فَإِذَا اسْتَغْنَوْا فَلْيُعْتِقُوهَا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۷) (صحیح)
۵۱۶۷- معاویہ بن سو ید بن مقرن کہتے ہیں: میں نے اپنے ایک غلام کو طمانچہ مار دیا تو ہمارے والد نے ہم دونوں کو بلایا اور اس سے کہا کہ اس سے قصاص ( بدلہ ) لو، ہم مقرن کی اولاد نبی اکرمﷺ کے زمانہ میں سات نفر تھے اور ہمارے پاس صرف ایک خادم تھا، ہم میں سے ایک نے اسے طمانچہ مار دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اسے آزاد کر دو''، لوگوں نے عرض کیا: اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی خادم نہیں ہے، آپ نے فرمایا :''اچھا جب تک یہ لوگ غنی نہ ہو جائیں تم ان کی خدمت کرتے رہو، اور جب یہ لوگ غنی ہو جائیں تو وہ لوگ اسے آزاد کر دیں''۔


5168- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَأَبُو كَامِلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ذَكْوَانَ، عَنْ زَاذَانَ، قَالَ: أَتَيْتُ ابْنَ عُمَرَ وَقَدْ أَعْتَقَ مَمْلُوكًا لَهُ فَأَخَذَ مِنَ الأَرْضِ عُودًا، أَوْ شَيْئًا، فَقَالَ: مَا لِي فِيهِ مِنَ الأَجْرِ مَا يَسْوَى هَذَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ لَطَمَ مَمْلُوكَهُ أَوْ ضَرَبَهُ فَكَفَّارَتُهُ أَنْ يُعْتِقَهُ >۔
* تخريج: م/الأیمان ۸ (۱۶۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵، ۴۵، ۶۱) (صحیح)
۵۱۶۸- زاذان کہتے ہیں کہ میں ابن عمررضی اللہ عنہما کے پاس آیا، آپ نے اپنا ایک غلام آزاد کیا تھا، آپ نے زمین سے ایک لکڑی یا کوئی (معمولی ) چیز لی اور کہا: اس میں مجھے اس لکڑی بھر بھی ثواب نہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ لگائے یا اسے مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
134 - بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَمْلُوكِ إِذَا نَصَحَ
۱۳۴-باب: مالک کے خیر خواہ غلام کے ثواب کا بیان​


5169- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا نَصَحَ لِسَيِّدِهِ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ اللَّهِ فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ >۔
* تخريج: خ/العتق ۱۶ (۲۵۴۶)، ۱۷ (۲۵۵۰)، م/الأیمان ۱۱ (۱۶۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۰، ۱۰۲، ۱۴۲) (صحیح)
۵۱۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرے تو اسے د ہرا ثواب ملے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
135 - بَاب فِيمَنْ خَبَّبَ مَمْلُوكًا عَلَى مَوْلاهُ
۱۳۵-باب: غلام کو آقا کے خلا ف ورغلانے کی مذمت کا بیان​


5170 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ خَبَّبَ زَوْجَةَ امْرِئٍ أَوْ مَمْلُوكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (۲۱۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۱۷) (صحیح)
۵۱۷۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو کسی کی بیوی یا غلام و لونڈی کو( اس کے شوہر یا مالک کے خلاف ) ورغلائے تو وہ ہم میں سے نہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
136- بَاب فِي الاسْتِئْذَانِ
۱۳۶-باب: گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرنے کا بیان​


5171- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلا اطَّلَعَ مِنْ بَعْضِ حُجَرِ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِمِشْقَصٍ، أَوْ مَشَاقِصَ، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَخْتِلُهُ لِيَطْعَنَهُ۔
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۱ (۶۲۴۲)، الدیات ۱۵ (۶۹۰۰)،۲۳ (۶۹۲۵)، م/الآداب ۹ (۲۱۵۷)، ن/القسامۃ ۴۰ (۴۸۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۸)، وقد أخرجہ: ت/الاستئذان ۱۷ (۲۷۰۸)، حم (۳ /۱۰۸، ۱۴۰، ۲۳۹، ۲۴۲) (صحیح)
۵۱۷۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے کسی ایک کمرے سے جھانکا تو آپ تیرکا ایک یا کئی پھل لے کر اس کی طرف بڑھے، گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کی آپ اس کی طرف اس طرح بڑھ رہے ہیں کہ وہ جان نہ پائے تاکہ اسے گھونپ دیں۔


5172- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنِ اطَّلَعَ فِي دَارِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ فَفَقَئُوا عَيْنَهُ فَقَدْهَدَرَتْ عَيْنُهُ >۔
* تخريج: م/الآداب ۹ (۲۵۶۳)، ن/القسامۃ ۴۱ (۴۸۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۶۶، ۴۱۴، ۵۲۷) (صحیح)
۵۱۷۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’جو کسی قوم کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے اوروہ لوگ اس کی آنکھ پھوڑ دیں تو اس کی آنکھ رائیگاں گئی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے کوئی تاوان یا بدل نہیں دیناپڑے گا۔بعضوں نے کہا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب اس نے اسے روکاہو اور وہ نہ رکاہو اور بعض علماء نے کہاہے کہ تاوان دینا پڑے گا کیونکہ کسی کے گھرمیںجھانکنا اس میں بلا اجازت داخل ہونے سے بڑا گناہ نہیں اور بلا اجازت داخل ہونے سے جب آنکھ نہیں پھوڑی جاسکتی توصرف جھانکنے سے بدرجہ اولیٰ نہیں پھوڑی جاسکتی ان لوگوں نے حدیث کو’’مبالغة في الزجر‘‘ پر محمول کیا ہے۔


5173- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- عَنْ كَثِيرٍ، عَنِ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < إِذَا دَخَلَ الْبَصَرُ فَلا إِذْنَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۶۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ کثیر بن زید‘‘ ضعیف ہیں)
۵۱۷۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’ جب نگاہ اندر پہنچ گئی تو پھر اجازت کا کوئی مطلب ہی نہیں‘‘۔


5174- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ(ح)وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ هُزَيْلٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ، قَالَ عُثْمَانُ: سَعْدٌ، فَوَقَفَ عَلَى بَابِ النَّبِيِّ ﷺ يَسْتَأْذِنُ، فَقَامَ عَلَى الْبَابِ [قَالَ عُثْمَانُ]: مُسْتَقْبِلَ الْبَابِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < هَكَذَا -عَنْكَ- أَوْ هَكَذَا؛ فَإِنَّمَا الاسْتِئْذَانُ مِنَ النَّظَرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۴۶) (صحیح)
۵۱۷۴- ہزیل کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، (عثمان کی روایت میں ہے کہ وہ سعد بن ابی وقاص تھے) تو وہ نبی اکرمﷺ کے دروازے پر اجازت طلب کر نے کے لئے رکے اور دروازے پر یا دروازے کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو گئے، تو نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:تمہیں اس طرح کھڑا ہونا چاہئے یا اس طرح؟(یعنی دروازہ سے ہٹ کر ) کیونکہ اجازت کا مقصود نظر ہی کی اجازت ہے۔


5175- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ سَعْدٍ، نَحْوَهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۴۶) (صحیح)
۵۱۷۵- سعد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
137 - بَاب كَيْفَ الاسْتِئْذَانُ
۱۳۷-باب: گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت کس طرح طلب کی جائے؟​


5176- حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ (ح) وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ أَخْبَرَهُ، عَنْ كَلَدَةَ بْنِ حَنْبَلٍ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ بَعَثَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِلَبَنٍ وَجَدَايَةٍ وَضَغَابِيسَ، وَالنَّبِيُّ ﷺ بِأَعْلَى مَكَّةَ، فَدَخَلْتُ وَلَمْ أُسَلِّمْ، فَقَالَ: < ارْجِعْ فَقُلِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ > وَذَلِكَ بَعْدَمَا أَسْلَمَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ، قَالَ عَمْرٌو: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ صَفْوَانَ بِهَذَا أَجْمَعَ عَنْ كَلَدَةَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ: أُمَيَّةُ بْنُ صَفْوَانَ، وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُهُ مِنْ كَلَدَةَ [بْنِ حَنْبَلٍ] و قَالَ يَحْيَى أَيْضًا: عَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّ كَلَدَةَ بْنَ الْحَنْبَلِ أَخْبَرَهُ۔
* تخريج: ت/الاستئذان ۱۸ (۲۷۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۴) (صحیح)
۵۱۷۶- کلدہ بن حنبل سے روایت ہے کہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دودھ، ہرن کا بچہ اور چھوٹی چھوٹی ککڑیاں دے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، اس وقت آپ مکہ کے اونچائی والے حصہ میں تھے، میں آپ کے پاس گیا، اور آپ کو سلام نہیں کیا تو آپ نے فرمایا: لوٹ کر ( باہر) جاؤ اور(پھر سے آکر)السلام علیکم کہو، یہ واقعہ صفوان بن امیہ کے اسلام قبول کر لینے کے بعد کا ہے۔


5177- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ مَنْ بَنِي عَامِرٍ [أَنَّهُ] اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ فِي بَيْتٍ، فَقَالَ: أَلِجُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِخَادِمِهِ: < اخْرُجْ إِلَى هَذَا فَعَلِّمْهُ الاسْتِئْذَانَ، فَقُلْ لَهُ: قُلِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ > فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ ، فَدَخَلَ ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۷۲، ۱۸۶۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶۹) (صحیح)
۵۱۷۷- ربعی کہتے ہیں کہ بنو عامر کے ایک شخص نے ہم سے بیان کیا کہ اس نے نبی اکرمﷺ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی آپ گھر میں تھے توکہا: ''أألج'' (کیا میں اندرآجائوں ) نبی اکرمﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا:'' تم اس شخص کے پاس جاؤ اور اسے اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ اور اس سے کہو ''السلام عليكم'' کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا: ''السلام عليكم'' کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ تو نبی اکرمﷺ نے اسے اجازت دے دی، اور وہ اندر آگیا۔


5178- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: حُدِّثْتُ أَنَّ رَجُلا مَنْ بَنِي عَامِرٍ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَاهُ .
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ عَنْ مَنْصُورٍ [عَنْ رِبْعِيٍّ] [وَلَمْ يَقُلْ] عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۷۲، ۱۸۶۳۰) (صحیح)
۵۱۷۸- ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے نبی اکرمﷺ سے اجازت مانگی، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسی طرح ہم سے مسدد نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ہے انہوں نے منصور سے اور منصور نے ربعی سے روایت کیا ہے، انہوں نے عن رجل من بنی عامر نہیں کہا ہے۔


5179- حدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ رَجُلٍ مَنْ بَنِي عَامِرٍ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ فَقُلْتُ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟.
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۷۲، ۱۸۶۳۰) (صحیح)
۵۱۷۹- بنو عامر کے ایک شخص سے روایت ہے کہ اس نے نبی اکرمﷺ سے اجازت طلب کی، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے:'' میں نے اسے سن لیا تو میں نے کہا ـ: ''السلام عليكم'' کیا میں اندر آسکتا ہوں؟''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
138 - بَاب كَمْ مَرَّةً يُسَلِّمُ الرَّجُلُ فِي الاسْتِئْذَانِ
۱۳۸-باب: گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینے کے لئے آدمی کتنی بار سلام کرے؟​


5180- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الأَنْصَارِ، فَجَاءَ أَبُو مُوسَى فَزِعًا، فَقُلْنَا لَهُ: مَا أَفْزَعَكَ؟ قَالَ: أَمَرَنِي عُمَرُ أَنْ آتِيَهُ، فَأَتَيْتُهُ، فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، فَرَجَعْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي؟ قُلْتُ: قَدْ جِئْتُ فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ > قَالَ: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذَا بِالْبَيِّنَةِ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لا يَقُومُ مَعَكَ إِلا أَصْغَرُ الْقَوْمِ، قَالَ: فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ مَعَهُ فَشَهِدَ لَهُ۔
* تخريج: خ/البیوع ۹ (۲۰۶۲)، الاستئذان ۱۳ (۶۲۴۵)، م/الآداب ۷ (۲۱۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۷۰)، وقد أخرجہ: ت/الاستئذان ۳ (۲۶۹۰)، ق/الأدب ۱۷ (۳۷۰۶)، ط/الاستئذان ۱ (۳)، حم (۴/۳۹۸)، دي /الاستئذان ۱ (۲۶۷۱) (صحیح)
۵۱۸۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجالس میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے آئے، تو ہم نے ان سے کہا:کس چیز نے آپ کو گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا تھا، میں ان کے پاس آیا، اور تین بار ان سے اند ر آنے کی اجات طلب کی، مگر مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ گیا (دو بارہ ملاقات پر) انہوں نے کہا: تم میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں تو آپ کے پاس گیا تھا، تین بار اجازت مانگی، پھر مجھے اجازت نہ دی گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی تین بار اندر آنے کی اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ لوٹ جائے(یہ سن کر) عمرنے کہا: تم اس بات کے لئے گواہ پیش کرو،اس پر ابوسعید نے کہا:(اس کی گواہی کے لئے تو) تمہارے ساتھ قوم کا ایک معمولی شخص ہی جا سکتا ہے، پھر ابو سعید ہی اٹھ کر ابوموسیٰ کے ساتھ گئے اور گواہی دی۔


5181- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ فَاسْتَأْذَنَ ثَلاثًا، فَقَالَ: يَسْتَأْذِنُ أَبُو مُوسَى، يَسْتَأْذِنُ الأَشْعَرِيُّ، يَسْتَأْذِنُ عَبْدُاللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَرَجَعَ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ عُمَرُ: مَا رَدَّكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَسْتَأْذِنُ أَحَدُكُمْ ثَلاثًا، فَإِنْ أُذِنَ لَهُ، وَإِلا فَلْيَرْجِعْ > قَالَ: ائْتِنِي بِبَيِّنَةٍ عَلَى هَذَا، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: هَذَا أُبَيٌّ، فَقَالَ أُبَيٌّ: يَاعُمَرُ! لا تَكُنْ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ عُمَرُ: لا أَكُونُ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: م/ الآداب ۷ (۲۱۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۸) (حسن الإسناد)
(اس کے راوی ''طلحہ'' سے غلطی ہوجایا کرتی تھی، ویسے پچھلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے)
۵۱۸۱- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے اندر آ نے کی اجازت تین مرتبہ مانگی: ابو مو سی اجازت کا طلب گار ہے، اشعری اجازت مانگ رہا ہے، عبداللہ بن قیس اجازت مانگ رہا ہے ۱؎ انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے بلانے کے لئے بھیجا( جب وہ آئے تو پوچھا: لوٹ کیوں گئے ؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:تم میں سے ہر کوئی تین بار اجا زت مانگے، اگر اسے اجازت دے دی جائے (تو اند ر چلا جائے) اور اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جائے، عمر نے کہا: اس بات کے لئے گواہ پیش کرو، وہ گئے اور( ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لے کر) واپس آئے اور کہا یہ ابی (گواہ) ہیں ۱؎ ، ابی نے کہا:اے عمر! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے لئے باعث عذاب نہ بنو تو عمر نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے لئے باعث اذیت نہیں ہو سکتا۔
وضاحت ۱؎ : ابوموسیٰ اشعری کا نام عبداللہ بن قیس ہے، آپ نے نام سے، کنیت سے، قبیلہ کی طرف نسبت سے، تینوں طریقوں سے اجازت مانگی۔
وضاحت ۲؎ : اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ شاہد ابوسعید تھے اور اس میں ہے ابی بن کعب تھے دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ ابوسعید خدری نے پہلے گواہی دی اس کے بعد ابی بن کعب آئے اور انہوں نے بھی گواہی دی۔


5182- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَائٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ فِيهِ: فَانْطَلَقَ بِأَبِي سَعِيدٍ، فَشَهِدَ لَهُ، فَقَالَ: أَخَفِيَ عَلَيَّ هَذَا مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ أَلْهَانِي السَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَلَكِنْ سَلِّمْ مَا شِئْتَ وَلا تَسْتَأْذِنْ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۵۱۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۴۶) (صحیح)
(لیکن آخری ٹکڑا '' جتنی بار چاہو...'' صحیح نہیں ہے، اور یہ صحیحین میں ہے بھی نہیں)
۵۱۸۲- عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی، پھر راوی نے یہی قصہ بیان کیا، اس میں ہے یہاں تک کہ ابو مو سیٰ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے، اور انہوں نے گواہی دی، عمر نے کہا رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مجھ سے پو شیدہ رہ گئی، بازاروں کی خرید وفروخت اور تجارت کے معاملا ت نے اس حدیث کی آگاہی سے مجھے غافل و محروم کر دیا، (اب تمہارے لئے اجازت ہے) سلام جتنی بار چاہو کرو، اندر آنے کے لئے اجازت طلب کر نے کی حاجت نہیں ہے۔


5183- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْقَاهِرِ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ابْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَقَالَ [عُمَرُ] لأَبِي مُوسَى: إِنِّي لَمْ أَتَّهِمْكَ، وَلَكِنَّ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ شَدِيدٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۵۱۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۸۴) (صحیح الإسناد)
۵۱۸۳- اس سند سے بھی ابو مو سی رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسی سے کہا: میں تم پر (جھوٹی حدیث بیان کر نے کا)اتہام نہیں لگا تا، لیکن رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کر نے کا معا ملہ سخت ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: حدیث کو روایت کرنے میں بڑی احتیاط اور ہوشیاری لازم ہے، ایسا نہ ہو کہ بھول چوک ہو جائے یا غلط فہمی سے الفاظ بدلنے میں مطلب کچھ کا کچھ ہوجائے۔


5184- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَعَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مَنْ عُلَمَائِهِمْ فِي هَذَا، فَقَالَ عُمَرُ لأَبِي مُوسَى: أَمَا إِنِّي لَمْ أَتَّهِمْكَ، وَلَكِنْ خَشِيتُ أَنْ يَتَقَوَّلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۵۱۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۷۰) (صحیح الإسناد)
۵۱۸۴- ربیعہ بن ابو عبد الرحمن اور دوسرے بہت سے علماء سے اس سلسلہ میں مروی ہے۔عمر رضی اللہ عنہ نے ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے تمہیں جھوٹا نہیں سمجھا لیکن میں ڈرا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے منسوب کر کے جھوٹی حدیثیں نہ بیان کرنے لگیں۔


5185- حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَبُو مَرْوَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى - الْمَعْنَى - قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: زَارَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي مَنْزِلِنَا فَقَالَ: < السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ > فَرَدَّ سَعْدٌ رَدًّا خَفِيًّا، قَالَ قَيْسٌ: فَقُلْتُ: أَلا تَأْذَنُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: ذَرْهُ يُكْثِرُ عَلَيْنَا مِنَ السَّلامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ > فَرَدَّ سَعْدُ رَدًّا خَفِيًّا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ > ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي كُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِيمَكَ وَأَرُدُّ عَلَيْكَ رَدًّا خَفِيًّا لِتُكْثِرَ عَلَيْنَا مِنَ السَّلامِ، قَالَ: فَانْصَرَفَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَأَمَرَ لَهُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ نَاوَلَهُ مِلْحَفَةً مَصْبُوغَةً بِزَعْفَرَانٍ، أَوْ وَرْسٍ، فَاشْتَمَلَ بِهَا، ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ: < اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ > قَالَ: ثُمَّ أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمَّا أَرَادَ الانْصِرَافَ قَرَّبَ لَهُ سَعْدٌ حِمَارًا قَدْ وَطَّأَ عَلَيْهِ بِقَطِيفَةٍ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا قَيْسُ! اصْحَبْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ : قَالَ قَيْسٌ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ارْكَبْ > فَأَبَيْتُ، ثُمَّ قَالَ: < إِمَّا أَنْ تَرْكَبَ وَإِمَّا أَنْ تَنْصَرِفَ > قَالَ: فَانْصَرَفْتُ.
قَالَ هِشَامٌ أَبُو مَرْوَانَ : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ وَابْنُ سَمَاعَةَ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ مُرْسَلا [وَ] لَمْ يَذْكُرَا قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۹۶)، وقد أخرجہ: ق/الطھارۃ ۵۹ (۴۶۶)، اللباس۲۲ (۳۶۰۴)، حم (۳/۴۲۱، ۶/۷) (ضعیف الإسناد)
۵۱۸۵- قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر ملا قات کے لئے تشریف لائے ( باہر رک کر) السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا، سعد رضی اللہ عنہ نے دھیرے سے سلام کا جواب دیا، قیس کہتے ہیں: میں نے (سعد سے) کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کو اندر تشریف لا نے کی اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ سعد نے کہا چھوڑو ( جلدی نہ کرو) ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ کو سلامتی کی دعا زیادہ کر لینے دو، رسول اللہ ﷺ نے پھر السلام علیکم رحمۃ اللہ کہا، سعد نے پھر دھیرے سے سلام کا جواب دیا، پھر تیسری بار رسول اللہ ﷺ نے کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ ( اور جواب نہ سن کر ) لوٹ پڑے، تو سعد نے لپک کر آپ کا پیچھا کیا اور آپ کو پالیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول!ہم آپ کا سلام سنتے تھے، اور دھیرے سے آپ کے سلام کا جواب دیتے تھے، خواہش یہ تھی کہ اس طرح آپ کی سلامتی کی دعا ہمیں زیادہ حاصل ہو جائے تب رسول اللہ ﷺ سعد کے ساتھ لوٹ آئے، اور اپنے گھر والوں کو رسول اللہ ﷺ کے غسل کے لئے ( پانی وغیرہ کی فراہمی و تیاری )کا حکم دیا، تو آپ نے غسل فرمایا، پھرسعد نے رسول اللہ ﷺ کو زعفران یاورس میں رنگی ہوئی ایک چادر دی جسے آپ نے لپیٹ لیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، آپ دعا فرمارہے تھے: ''اے اللہ! سعد بن عبادہ کی اولاد پر اپنی برکت و رحمت نازل فرما''، پھر آپ نے کھانا کھایا، اور جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو سعد نے ایک گدھا پیش کیا جس پر چادر ڈال دی گئی تھی، رسول اللہ ﷺ اس پر سوار ہو گئے، تو سعد نے کہا: اے قیس! تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا، قیس کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:''تم بھی سوار ہو جاؤ''، تو میں نے انکار کیا، آپ نے فرمایا:'' سوار ہو جاؤ ورنہ واپس جاؤ ''۔ قیس کہتے ہیں: میں لوٹ آیا ۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے عمر بن عبدالواحد اور ابن سماعۃ نے اوزاعی سے مرسلاً روایت کیا ہے اور ان دونوں نے اس میں قیس بن سعد کا ذکر نہیں کیا ہے۔


5186- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ [بْنُ الْوَلِيدِ]، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أَتَى بَابَ قَوْمٍ لَمْ يَسْتَقْبِلِ الْبَابَ مِنْ تِلْقَاءِ وَجْهِهِ، وَلَكِنْ مِنْ رُكْنِهِ الأَيْمَنِ أَوِ الأَيْسَرِ، وَيَقُولُ: < السَّلامُ عَلَيْكُمُ، السَّلامُ عَلَيْكُمْ > وَذَلِكَ أَنَّ الدُّورَ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا يَوْمَئِذٍ سُتُورٌ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۸۹) (صحیح)
۵۱۸۶- عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کے دروازے پر آتے تو دروازہ کے سامنے منہ کر کے نہ کھڑے ہو تے بلکہ دروازے کے چوکھٹ کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، اور کہتے: ''السلام عليكم، السلام عليكم '' یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھروں میں دروازوں پر پردے نہیں تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
139- بَاب الرَّجُلِ يَسْتَأْذِنُ بِالدَّقِّ
۱۳۹-باب: گھرمیں داخل ہو نے کے لیے دروازہ کھٹکھٹا کر اجازت لینے کا بیان​


5187- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي دَيْنِ أَبِيهِ، فَدَقَقْتُ الْبَابَ، فَقَالَ: < مَنْ هَذَا؟ > قُلْتُ: أَنَا، قَالَ: < أَنَا أَنَا > كَأَنَّهُ كَرِهَهُ۔
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۷ (۶۲۵۰)، م/الآداب ۸ (۲۱۵۵)، ت/الاستئذان ۱۸ (۲۷۱۱)، ق/الأدب ۱۷ (۳۷۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۸، ۳۲۰، ۳۶۳)، دي/الاستئذان ۲ (۲۶۷۲) (صحیح)
۵۱۸۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے قرضے کے سلسلے میں گفتگو کر نے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا،آپ نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے کہا:’’میں ہوں‘‘، آپ نے فرمایا :’’ میں، میں‘‘ (کیا؟) گویا کہ آپ نے( اس طرح غیر واضح جواب دینے) کو برا جانا۔


5188- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ -يَعْنِي الْمَقَابِرِيَّ- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى دَخَلْتُ حَائِطًا، فَقَالَ لِي: < أَمْسِكِ الْبَابَ > فَضُرِبَ الْبَابُ فَقُلْتُ: < مَنْ هَذَا؟ > وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
قَالَ أَبو دَاود: يَعْنِي حَدِيثَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ [قَالَ فِيهِ]: فَدَقَّ الْبَابَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۸) (حسن)
ٍ ۵۱۸۸- نا فع بن عبدالحارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ ایک ( باغ کی ) چہار دیواری میں داخل ہوا، آپ نے مجھ سے فرمایا:’’ دروازہ بند کئے رہنا‘‘، پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے پوچھا: کون ہے ؟ اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: یعنی ابو موسیٰ اشعری کی حدیث بیان کی ۱؎اس میں ’’ ضرب الباب‘‘ کے بجائے’’ فدق الباب‘‘ کے الفاظ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مؤلف کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جسے مسلم نے اپنی صحیح میں عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل میں روایت کیا ہے (آپ ﷺ ایک باغ میں گئے، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو دربان بنایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، عمر رضی اللہ عنہ آئے پھر عثمان آئے،… پھر بیئر اریس نامی کنویں پر آپ بیٹھ گئے الی آخرہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
140 - بَاب فِي الرَّجُلِ يُدْعَى أَيَكُونُ ذَلِكَ إِذْنَهُ؟
۱۴۰-باب: آدمی کو بلایا جائے تو کیا بلایا جانا اس کے لیے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت ہے؟​


5189- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِيبٍ وَهِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < رَسُولُ الرَّجُلِ إِلَى الرَّجُلِ إِذْنُهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۶۲) (صحیح)
۵۱۸۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''کسی آدمی کو بلا بھیجنا، ہی اس کی جانب سے اس کے لئے اجازت ہے''۔


5190 - حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ فَجَاءَ مَعَ الرَّسُولِ فَإِنَّ ذَلِكَ لَهُ إِذْنٌ >.
قَالَ أَبُو عَلِىٍّ الْلُّؤْلُؤِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ يَقُولُ: قَتَادَةُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي رَافِعٍ [شَيْئًا]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۳۳) (صحیح لغیرہ)
(قتادہ ابورافع کے درمیان سند میں انقطاع ہے لیکن پچھلی سند سے یہ روایت صحیح ہے)
۵۱۹۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب کوئی آدمی کھانے کے لئے بلایا جائے اور وہ بلانے والا آنے والے کے ساتھ ہی آجائے تو یہ اس کے لئے اجازت ہے''(پھر اسے اجازت لینے کی ضرورت نہیں)۔
ابو علی لؤ لؤی کہتے ہیں:میں نے ابو داود کو کہتے سنا: کہ قتادہ نے ابو را فع سے کچھ نہیں سنا ہے۔
 
Top