• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
141 - بَاب الاسْتِئْذَانِ فِي الْعَوْرَاتِ الثَّلاثِ
۱۴۱-باب: پردے کے تینوں اوقات میں اجازت طلب کر نے کا بیان​


5191- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا [ح] و حَدَّثَنَا ابْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ وَابْنُ عَبْدَةَ وَهَذَا حَدِيثُهُ، قَالا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ لَمْ يُؤْمَرْ بِهَا أَكْثَرُ النَّاسِ آيَةَ الإِذْنِ، وَإِنِّي لآمُرُ جَارِيَتِي هَذِهِ تَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عَطَائٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۶۹) (صحیح الإسناد)
۵۱۹۱- عبید اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ آیت استیذان پر اکثر لوگوں نے عمل نہیں کیا، لیکن میں نے تو اپنی لونڈی کو بھی حکم دے رکھا ہے کہ اسے بھی میرے پاس آنا ہو تو مجھ سے اجازت طلب کرے۔
ابو داود کہتے ہیں:اسی طرح عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ اس کا( استیذان کا) حکم دیتے تھے۔


5192 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ قَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاس! كَيْفَ تَرَى فِي هَذِهِ الآيَةِ الَّتِي أُمِرْنَا فِيهَا بِمَا أُمِرْنَا وَلا يَعْمَلُ بِهَا أَحَدٌ: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمِ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ: مِنْ قَبْلِ صَلاةِ الْفَجْرِ، وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ، وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ، ثَلاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ، طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ} قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ إِلَى {عَلِيمٌ حَكِيمٌ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ اللَّهَ حَلِيمٌ رَحِيمٌ بِالْمُؤْمِنِينَ يُحِبُّ السَّتْرَ، وَكَانَ النَّاسُ لَيْسَ لِبُيُوتِهِمْ سُتُورٌ وَلاحِجَالٌ، فَرُبَّمَا دَخَلَ الْخَادِمُ أَوِ الْوَلَدُ أَوْ يَتِيمَةُ الرَّجُلِ وَالرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ، فَأَمَرَهُمُ اللَّهُ بِالاسْتِئْذَانِ فِي تِلْكَ الْعَوْرَاتِ، فَجَائَهُمُ اللَّهُ بِالسُّتُورِ وَالْخَيْرِ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَعْمَلُ بِذَلِكَ بَعْدُ.
[قَالَ أَبو دَاود: حَدِيثُ عُبَيْدِاللَّهِ وَعَطَاءِ يُفْسِدُ هَذَا الْحَدِيثَ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۸۰) (حسن الإسناد)
۵۱۹۲- عکرمہ سے روایت ہے کہ عراق کے کچھ لوگوں نے کہا: ابن عباس! اس آیت کے با رے میں آپ کا کیا خیال ہے جس میں ہمیں حکم دیا گیا جو حکم دیا گیا لیکن اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، یعنی اللہ تعالی کے قول {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمِ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ: مِنْ قَبْلِ صَلاةِ الْفَجْرِ، وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ، وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ، ثَلاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ، طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ} ۱؎ قعنبی نے آیت {عَلِيمٌ حَكِيمٌ} تک پڑھی ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالی حلیم ( بر دبار) ہے اور مسلمانوں پر رحیم( مہربان) ہے، وہ پردہ پو شی کو پسند فرماتا ہے، (یہ آیت جب نازل ہوئی ہے تو ) لوگوں کے گھروں پر نا پردے تھے، اور نہ ہی چلمن (سر کیاں)، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی خدمت گار کوئی لڑکا یا کوئی یتیم بچی ایسے وقت میں آجاتی جب آدمی اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہوتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پردے کے ان اوقات میں اجازت لینے کا حکم دیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پر دے دیے اور خیر (مال) سے نوازا، اس وقت سے میں نے کسی کو اس آیت پر عمل کرتے نہیں دیکھا ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں :عبیداللہ اور عطا ء کی حدیث (جن کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے ) اس حدیث کی تضعیف کرتی ہے۔ ۳؎ یعنی یہ حدیث ان دونوں احا دیث کی ضد ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے ایمان والو ! تمہارے غلاموں اور لو نڈیوں کو اور تمہارے سیا نے لیکن نابالغ بچوں کو تین اوقات میں تمہارے پاس اجازت لے کر ہی آنا چا ہئے صلاۃِ فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جب تم کپڑے اتار کر آرام کے لئے لیٹتے ہو، بعد صلاۃِ عشاء یہ تینوں وقت پردہ پوشی کے ہیں ان تینوں اوقات کے علاوہ اوقات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم ان کے پاس جائو، اور وہ تمہارے پاس آئیں۔(النور : ۵۸)
وضاحت ۲؎ : پردے ڈال لینے اور دروازہ بند کر لینے کے بعد بالعموم اس کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور کوئی ایسے اوقات میں دوسروں کے خلوت کدوں میں جاتا نہ تھا۔
وضاحت ۳؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ان دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ اذن (اجازت) لینے کا حکم اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ نہ ہو اور عدم اذن اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
142- بَاب فِي إِفْشَاءِ السَّلامِ
۱۴۲-باب: سلام کو عام کرنے کا بیان​


5193- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلاتُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَفَلا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَمْرٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۸۱)، وقد أخرجہ: م/الإیمان ۲۲ (۵۴)، ت/الاستئذان ۱ (۲۶۸۹)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۸)، حم (۱/۱۶۵، ۲/۳۹۱) (صحیح)
۵۱۹۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے: تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اورتم(کامل) مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرنے لگو گے تو تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو: آپس میں سلام کو عام کرو''۔


5194 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ : أَيُّ الإِسْلامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: <تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۶ (۱۲)،۲۰ (۲۸)، والاستئذان ۹ (۶۲۳۶)، م/الإیمان ۱۴ (۳۹)، ن/الإیمان ۱۲ (۵۰۰۳)، ق/الأطعمۃ ۱ (۳۲۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۲۷)، وقد أخرجہ: حم(۲/۱۶۹) (صحیح)
۵۱۹۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اسلام کا کون سا طریقہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا:'' کھانا کھلانا اور ہر ایک کو سلام کرنا، تم چاہے اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
143 - بَاب كَيْفَ السَّلامُ
۱۴۳-باب: سلام کس طرح کیا جائے ؟​


5195- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي رَجَائٍ، عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < عَشْرٌ > ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَالَ: < عِشْرُونَ > ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَالَ: < ثَلاثُونَ > ۔
* تخريج: ت/الاستئذان ۳ (۲۶۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۹، ۴۴۰)، دي/الاستئذان ۱۲ (۲۶۸۲) (صحیح)
۵۱۹۵- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اوراس نے ''السلام عليكم'' کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''اس کو دس نیکیاں ملیں ''، پھر ایک اور شخص آیا، اس نے '' السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ'' کہا، آپ نے اسے جواب دیا،پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:''اس کو بیس نیکیاں ملیں''، پھر ایک اور شخص آیا اس نے ''السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ'' کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:''اسے تیس نیکیاں ملیں''۔


5196- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَظُنُّ أَنِّي سَمِعْتُ نَافِعَ ابْنَ يَزِيدَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَاهُ، زَادَ: ثُمَّ أَتَى آخَرُ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ، فَقَالَ: < أَرْبَعُونَ > قَالَ: < هَكَذَا تَكُونُ الْفَضَائِلُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۰۰) (ضعیف الإسناد)
(راوی '' ابن ابی مریم'' نے '' نافع'' سے سماع میں شک کا اظہار کیا)
۵۱۹۶- معاذ بن انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں اتنا مزید ہے کہ پھر ایک اور شخص آیااور اس نے کہاـ ''السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ '' تو آپ نے فرمایا: اسے چالیس نیکیاں ملیں گی، اور اسی طرح ( اور کلمات کے اضافے پر ) نیکیاں بڑھتی جائیں گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
144 - بَاب فِي فَضْلِ مَنْ بَدَأَ السَّلامَ
۱۴۴-باب: سلام میں پہل کرنے والے کی فضیلت کا بیان​


5197- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى [بْنِ فَارِسٍ] الذُّهْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ الْحِمْصِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللَّهِ مَنْ بَدَأَهُمْ بِالسَّلامِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۲۶)، وقد أخرجہ: ت/الاستئذان ۶ (۲۶۹۴)، حم (۵/۲۵۴، ۲۶۱، ۲۶۴) (صحیح)
۵۱۹۷- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اللہ کے نزدیک سب سے بہتر شخص وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
145- بَاب مَنْ أَوْلَى بِالسَّلامِ
۱۴۵-باب: سلام میں پہل کسے کرنا چاہئے؟​


5198- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّةٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۹۴)، وقد أخرجہ: خ/الاستئذان ۴ (۶۲۳۱)، م/السلام ۱ (۲۱۶۰)، ت/الاستئذان ۱۴ (۲۷۰۳)، حم (۲/۳۱۴) (صحیح)
۵۱۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' چھوٹا بڑے کو سلام کرے گا، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو'' ۔


5199- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ [بْنِ عَرَبِيٍّ] أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، أَنَّ ثَابِتًا مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي > ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ ۔
* تخريج: خ/ الاستئذان ۵ (۶۲۳۲)، ۶ (۶۲۳۳)، م/ السلام ۱ (۲۱۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۵، ۵۱۰) (صحیح)
۵۱۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سوار پیدل چلنے والے کوسلام کرے گا'' ، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
146 - بَاب فِي الرَّجُلِ يُفَارِقُ الرَّجُلَ ثُمَّ يَلْقَاهُ أَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ
۱۴۶-باب: کیا (مل کر ) جدا ہوجانے والا دوبارہ ملنے پر سلام کرے ؟​


5200- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ [أَيْضًا].
قَالَ مُعَاوِيَةُ: و حَدَّثَنِي عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ بُخْتٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِثْلَهُ سَوَائٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۹۳، ۱۵۴۶۰) (صحیح)
۵۲۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے، پھر اگر ان دونوں کے درمیان درخت، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور وہ اس سے ملے ( ان کا آمنا سامنا ہو) تو وہ پھر اسے سلام کرے۔
معاویہ کہتے ہیں: مجھ سے عبدالوہاب بن بخت نے بیان کیا ہے انہوں نے ابوالزناد سے، ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے ہو بہو اسی کے مثل روایت کیا ہے ۔


5201- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ، أَيَدْخُلُ عُمَرُ؟ .
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۴) (صحیح)
۵۲۰۱- عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے اور آپ اپنے ایک کمرے میں تھے، اور کہا: اللہ کے رسول !''السلام عليكم'' کیا عمر اندر آسکتا ہے؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کی باب سے مناسبت واضح نہیں ہے ممکن ہے کہ اس کی توجیہ اس طرح کی جائے کہ مؤلف اس باب کے ذریعہ تسلیم کی چار صورتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے ملے اور سلام کرے پھر دونوں جداہوجائیں اور پھر دوبارہ ملیں تو کیا کریں، اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ وہ جب بھی ملیں تو سلام کریں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے ملے اور اسے سلام کرے پھر وہ اس سے جدا ہوجائے، پھر وہ اس کے گھر پر اس سے ملنے آئے تو اس کے لئے مناسب ہے کہ دوبارہ اسے سلام کرے یہ سلام سلام لقاء نہیں سلام استیٔذان ہوگا۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے اس کے گھر ملنے آیااوراس نے اسے سلام استیٔذان کیا لیکن اسے اجازت نہیں ملی اور وہ لوٹ گیا، پھر وہ کچھ دیر کے بعد دوبارہ گھر پر ملنے آیا تو مناسب ہے کہ وہ دوبارہ سلام استیٔذان کرے۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے اس کے گھر پر ملنے آیا اور سلام استیٔذان کیا لیکن اسے اجازت نہیں ملی اور وہ لوٹ گیا پھر دوبارہ آیا اور سلام استیٔذان کیا اور اسے اجازت مل گئی تو اندر جا کر وہ پھر سلام کرے اور یہ سلام سلام لقاء ہوگا، دوسری، تیسری اور چوتھی صورت پر مؤلف نے عمر رضی اللہ عنہ کی اسی روایت سے استدلال کیا ہے۔ ابو داود نے اسے مختصراً ذکر کیا ہے اور امام بخاری نے اسے کتاب النکاح اور کتاب المظالم میں مطوّلاً ذکر کیا ہے جس سے اس روایت کی باب سے مناسبت واضح ہو جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
147 - بَاب فِي السَّلامِ عَلَى الصِّبْيَانِ
۱۴۷-باب: بچوں کو سلام کرنے کا بیان​


5202- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ- عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى غِلْمَانٍ يَلْعَبُونَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۱)، وقد أخرجہ: خ/الاستئذان ۱۵ (۶۲۴۷)، م/السلام ۵ (۲۱۶۸)، ت/الاستئذان ۸ (۲۶۹۶)، ق/الأدب ۱۴ (۳۷۰۰)، حم (۳/۱۶۹)، دي/الاستئذان ۸ (۲۶۷۸) (صحیح)
۵۲۰۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کچھ ایسے بچوں کے پاس آئے جو کھیل رہے تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا۔


5203 - حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا خَالِدٌ -يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ- حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: انْتَهَى إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا غُلامٌ فِي الْغِلْمَانِ، فَسَلَّمَ عَلَيْنَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَأَرْسَلَنِي بِرِسَالَةٍ، وَقَعَدَ فِي ظِلِّ جِدَارٍ، أَوْ قَالَ: إِلَى جِدَارٍ، حَتَّى رَجَعْتُ إِلَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۹) (صحیح)
۵۲۰۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور میں ابھی ایک بچہ تھا،آپ نے ہمیں سلام کیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی کسی ضرورت سے مجھے بھیجا اور میرے لوٹ کر آنے تک ایک دیوار کے سائے میں بیٹھے رہے، یا کہا : ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے رہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
148 - بَاب فِي السَّلامِ عَلَى النِّسَاءِ
۱۴۸-باب: عورتوں کو سلام کرنے کا بیان​


5204- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، سَمِعَهُ مِنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ يَقُولُ: أَخْبَرَتْهُ أَسْمَاءُ ابْنَةُ يَزِيدَ: مَرَّ عَلَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ فِي نِسْوَةٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْنَا۔
* تخريج: ت/الاستئذان ۹ (۲۶۹۷)، ق/ الآداب ۱۴ (۳۷۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۵۲، ۴۵۷)، دي/الاستئذان ۹ (۲۶۷۹) (صحیح)
۵۲۰۴- شہربن حوشب کہتے ہیں کہ انہیں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ ہم عورتوں کے پاس سے نبی اکرم ﷺ گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگرعورتوں کی جماعت ہے تو انہیں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عورت اگر اکیلی ہے اور سلام کرنے والا اس کے لئے محرم نہیں ہے تو (فتنہ کے خدشہ نہ ہونے کی صورت میں) سلام نہ کرنا بہتر ہے، تاکہ فتنہ وغیرہ سے محفوظ رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
149 - بَاب فِي السَّلامِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ
۱۴۹-باب: اہل ذمہ ( معاہد کافروں ) کو سلام کرنے کا بیان​


5205- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي إِلَى الشَّامِ، فَجَعَلُوا يَمُرُّونَ بِصَوَامِعَ فِيهَا نَصَارَى فَيُسَلِّمُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ أَبِي: لاتَبْدَئُوهُمْ بِالسَّلامِ؛ فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لاتَبْدَئُوهُمْ بِالسَّلامِ، وَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِ الطَّرِيقِ >۔
* تخريج: م/السلام ۴ (۲۱۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۸۲)، وقد أخرجہ: ت/الاستئذان ۱۲ (۲۷۰۰)، حم (۲/۳۴۶، ۴۵۹) (صحیح)
۵۲۰۵- سہیل بن ابوصالح کہتے ہیں کہ:میں اپنے والد کے ساتھ شام گیا تو وہاں لوگوں ( یعنی قافلے والوں) کا گزر نصاریٰ کے گرجا گھروں کے پاس سے ہونے لگا تو لوگ انہیں ( اور ان کے پجاریوں کو ) سلام کرنے لگے تو میرے والد نے کہا: تم انہیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے، آپ نے فرمایا ہے:'' انہیں ( یعنی یہود ونصاریٰ کو ) سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تم انہیں راستے میں ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو''، (یعنی ان پر اپنا دباؤ ڈالے رکھو وہ کونے کنارے سے ہو کر چلیں )۔


5206- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدُهُمْ فَإِنَّمَا يَقُولُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ فِيهِ: < وَعَلَيْكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۲۲)، وقد أخرجہ: خ/الاستئذان ۲۳ (۲۶۵۷)، واستتابۃ المرتدین ۴ (۶۹۲۸)، م/السلام ۴ (۲۱۶۴)، ت/السیر ۴۱ (۱۶۰۳)، ط/السلام ۲ (۳)، حم (۲/۱۹)، دي/الاستئذان ۷ (۲۶۷۷) (صحیح)
۵۲۰۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے اور وہ ''السَّامُ عَلَيْكُمْ'' (تمہارے لئے ہلاکت ہو ) کہے تو تم اس کے جواب میں '' وعليكم'' کہہ دیا کرو'' (یعنی تمہارے اوپر موت و ہلاکت آئے )۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے مالک نے عبداللہ بن دینار سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور ثوری نے بھی عبداللہ بن دینار سے ''وعَلَيْكُمْ'' ہی کا لفظ روایت کیا ہے ۔


5207- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ قَالُوا لِلنَّبِيِّ ﷺ : إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْنَا فَكَيْفَ نَرُدُّ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: <قُولُوا: وَعَلَيْكُمْ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ رِوَايَةُ عَائِشَةَ وَأَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي بَصْرَةَ يَعْنِي الْغِفَارِيَّ۔
* تخريج: م/السلام ۴ (۲۱۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۰)، وقد أخرجہ: خ/الاستئذان ۲۲ (۶۲۵۷)، استتابۃ المرتدین ۴ (۶۹۲۶)، ت/تفسیرالقرآن ۵۸ (۳۳۰۱)، ق/الأدب ۱۳ (۳۶۹۷)، ن/الیوم واللیلۃ (۳۸۶، ۳۸۷)، حم (۳ /۹۹، ۲۱۲، ۲۱۸، ۲۲۲، ۲۷۳، ۲۷۷، ۳۰۹) (صحیح)
۵۲۰۷- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کے اصحاب نے آپ سے عرض کیا:اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) ہم کو سلام کرتے ہیں ہم انہیں کس طرح جواب دیں؟ آپ نے فرمایا:'' تم لوگ ''وعليكم'' کہہ دیا کرو''، ابو داود کہتے ہیں : ایسے ہی عائشہ، ابوعبدالرحمن جہنی اور ابوبصرہ غفاری کی روایتیں بھی ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
150 - بَاب فِي السَّلامِ إِذَا قَامَ مِنَ الْمَجْلِسِ
۱۵۰-باب: مجلس سے اٹھ کر جاتے وقت سلام کرنے کا بیان​


5208- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا بِشْرٌ -يَعْنِيَانِ ابْنَ الْمُفَضَّلِ- عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، قَالَ مُسَدَّدٌ: سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ فَلْيُسَلِّمْ، فَلَيْسَتِ الأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الآخِرَةِ >۔
* تخريج: ت/الاستئذان ۱۵ (۲۷۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۰، ۴۳۹) (حسن)
۵۲۰۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، اور پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو بھی سلام کرے، کیونکہ پہلا دوسرے سے زیادہ حقدار نہیں ہے'' (بلکہ دونوں کی یکساں اہمیت وضرورت ہے، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے) ۔
 
Top