- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
141 - بَاب الاسْتِئْذَانِ فِي الْعَوْرَاتِ الثَّلاثِ
۱۴۱-باب: پردے کے تینوں اوقات میں اجازت طلب کر نے کا بیان
5191- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا [ح] و حَدَّثَنَا ابْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ وَابْنُ عَبْدَةَ وَهَذَا حَدِيثُهُ، قَالا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ لَمْ يُؤْمَرْ بِهَا أَكْثَرُ النَّاسِ آيَةَ الإِذْنِ، وَإِنِّي لآمُرُ جَارِيَتِي هَذِهِ تَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عَطَائٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۶۹) (صحیح الإسناد)
۵۱۹۱- عبید اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ آیت استیذان پر اکثر لوگوں نے عمل نہیں کیا، لیکن میں نے تو اپنی لونڈی کو بھی حکم دے رکھا ہے کہ اسے بھی میرے پاس آنا ہو تو مجھ سے اجازت طلب کرے۔
ابو داود کہتے ہیں:اسی طرح عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ اس کا( استیذان کا) حکم دیتے تھے۔
5192 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ قَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاس! كَيْفَ تَرَى فِي هَذِهِ الآيَةِ الَّتِي أُمِرْنَا فِيهَا بِمَا أُمِرْنَا وَلا يَعْمَلُ بِهَا أَحَدٌ: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمِ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ: مِنْ قَبْلِ صَلاةِ الْفَجْرِ، وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ، وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ، ثَلاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ، طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ} قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ إِلَى {عَلِيمٌ حَكِيمٌ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ اللَّهَ حَلِيمٌ رَحِيمٌ بِالْمُؤْمِنِينَ يُحِبُّ السَّتْرَ، وَكَانَ النَّاسُ لَيْسَ لِبُيُوتِهِمْ سُتُورٌ وَلاحِجَالٌ، فَرُبَّمَا دَخَلَ الْخَادِمُ أَوِ الْوَلَدُ أَوْ يَتِيمَةُ الرَّجُلِ وَالرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ، فَأَمَرَهُمُ اللَّهُ بِالاسْتِئْذَانِ فِي تِلْكَ الْعَوْرَاتِ، فَجَائَهُمُ اللَّهُ بِالسُّتُورِ وَالْخَيْرِ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَعْمَلُ بِذَلِكَ بَعْدُ.
[قَالَ أَبو دَاود: حَدِيثُ عُبَيْدِاللَّهِ وَعَطَاءِ يُفْسِدُ هَذَا الْحَدِيثَ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۸۰) (حسن الإسناد)
۵۱۹۲- عکرمہ سے روایت ہے کہ عراق کے کچھ لوگوں نے کہا: ابن عباس! اس آیت کے با رے میں آپ کا کیا خیال ہے جس میں ہمیں حکم دیا گیا جو حکم دیا گیا لیکن اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، یعنی اللہ تعالی کے قول {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمِ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ: مِنْ قَبْلِ صَلاةِ الْفَجْرِ، وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ، وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ، ثَلاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ، طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ} ۱؎ قعنبی نے آیت {عَلِيمٌ حَكِيمٌ} تک پڑھی ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالی حلیم ( بر دبار) ہے اور مسلمانوں پر رحیم( مہربان) ہے، وہ پردہ پو شی کو پسند فرماتا ہے، (یہ آیت جب نازل ہوئی ہے تو ) لوگوں کے گھروں پر نا پردے تھے، اور نہ ہی چلمن (سر کیاں)، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی خدمت گار کوئی لڑکا یا کوئی یتیم بچی ایسے وقت میں آجاتی جب آدمی اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہوتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پردے کے ان اوقات میں اجازت لینے کا حکم دیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پر دے دیے اور خیر (مال) سے نوازا، اس وقت سے میں نے کسی کو اس آیت پر عمل کرتے نہیں دیکھا ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں :عبیداللہ اور عطا ء کی حدیث (جن کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے ) اس حدیث کی تضعیف کرتی ہے۔ ۳؎ یعنی یہ حدیث ان دونوں احا دیث کی ضد ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے ایمان والو ! تمہارے غلاموں اور لو نڈیوں کو اور تمہارے سیا نے لیکن نابالغ بچوں کو تین اوقات میں تمہارے پاس اجازت لے کر ہی آنا چا ہئے صلاۃِ فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جب تم کپڑے اتار کر آرام کے لئے لیٹتے ہو، بعد صلاۃِ عشاء یہ تینوں وقت پردہ پوشی کے ہیں ان تینوں اوقات کے علاوہ اوقات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم ان کے پاس جائو، اور وہ تمہارے پاس آئیں۔(النور : ۵۸)
وضاحت ۲؎ : پردے ڈال لینے اور دروازہ بند کر لینے کے بعد بالعموم اس کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور کوئی ایسے اوقات میں دوسروں کے خلوت کدوں میں جاتا نہ تھا۔
وضاحت ۳؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ان دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ اذن (اجازت) لینے کا حکم اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ نہ ہو اور عدم اذن اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ ہو۔