110-بَاب مَنْ قَالَ إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ تَدَعُ الصَّلاةَ
۱۱۰- باب: جب مستحاضہ کو حیض آجائے تو وہ صلاۃ چھوڑدے
284- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، عَنْ بُهَيَّةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ امْرَأَةً تَسْأَلُ عَائِشَةَ عَنِ امْرَأَةٍ فَسَدَ حَيْضُهَا وَأُهْرِيقَتْ دَمًا، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ آمُرَهَا: فَلْتَنْظُرْ قَدْرَ مَا كَانَتْ تَحِيضُ فِي كُلِّ شَهْرٍ وَحَيْضُهَا مُسْتَقِيمٌ، فَلْتَعْتَدَّ بِقَدْرِ ذَلِكَ مِنَ الأَيَّامِ، ثُمَّ لِتَدَعِ الصَّلاةَ فِيهِنَّ، أَوْ بِقَدْرِهِنَّ، ثُمَّ لِتَغْتَسِلْ، ثُمَّ لِتَسْتَثْفِرْ بِثَوْبٍ، ثُمَّ لِتُصَلِّ ۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۲۶) (ضعیف) (اس کی سند میں واقع’’بہیَّہ‘‘مجہول ہیں)
۲۸۴- بہیّہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک عورت کو ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے ایک عورت کے بارے میں جس کا حیض بگڑ گیا تھا اور خو ن برابر آرہا تھا (مسئلہ) پوچھتے ہوئے سنا (ام المومنین عائشہ کہتی ہیں): تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اسے بتائوں کہ وہ دیکھ لے کہ جب اس کا حیض صحیح تھا تو اسے ہر مہینے کتنے دن حیض آتا تھا؟ پھر اسی کے بقدر ایام شمار کر کے ان میں یا انہیں کے بقدر ایام میں صلاۃ چھوڑ دے ، غسل کر ے، کپڑے کا لنگوٹ با ندھے پھر صلاۃ پڑھے ۔
285- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَقِيلٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمِصْرِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ جَحْشٍ خَتَنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَتَحْتَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، اسْتُحِيضَتْ سَبْعَ سِنِينَ، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <إِنَّ هَذِهِ لَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، وَلَكِنْ هَذَا عِرْقٌ، فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي >.
قَالَ أَبو دَاود: زَادَ الأَوْزَاعِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتِ: اسْتُحِيضَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ -وَهِيَ تَحْتَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ- سَبْعَ سِنِينَ، فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي >.
قَالَ أَبودَاود: وَلَمْ يَذْكُرْ هَذَا الْكَلامَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ غَيْرُالأَوْزَاعِيِّ، وَرَوَاهُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَاللَّيْثُ وَيُونُسُ وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ وَمَعْمَرٌ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ وَسُلَيْمَانُ ابْنُ كَثِيرٍ وَابْنُ إِسْحَاقَ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَلَمْ يَذْكُرُوا هَذَا الْكَلامَ.
قَالَ أَبودَاود: وَإِنَّمَا هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ .
قَالَ أَبودَاود: وَزَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فِيهِ أَيْضًا: < أَمَرَهَا أَنْ تَدَعَ الصَّلاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا > وَهُوَ وَهْمٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ الزُّهْرِيِّ فِيهِ شَيْئٌ يَقْرُبُ مِنَ الَّذِي زَادَ الأَوْزَاعِيُّ فِي حَدِيثِهِ۔
* تخريج: خ/الحیض ۲۷ (۳۲۷)، م/الحیض ۱۴(۳۳۴)، ن/الطہارۃ ۱۳۵ (۲۱۱)، ق/الطہارۃ ۱۱۵ (۶۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۲۲، ۱۶۵۷۲) (صحیح)
۲۸۵- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پو چھا، تو آپ نے فرمایا: ’’یہ حیض نہیں ہے بلکہ یہ رگ (کاخون ) ہے، لہٰذا غسل کر کے صلاۃ پڑ ھتی رہو‘‘ ۔
ابو داو دکہتے ہیں: اس حدیث میں او زاعی نے زہری سے، زہری نے عروہ ا ور عمرہ سے اور انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یوں اضافہ کیا ہے کہ: ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، اور وہ عبدا لرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیاکہ جب حیض آجائے تو صلاۃ چھو ڑ دو، اور جب ختم ہو جائے تو غسل کر کے صلاۃپڑھو۔
ابوداود کہتے ہیں کہ اوزاعی کے علاوہ زہری کے کسی اور شاگر د نے یہ بات ذکر نہیں کی ہے،اسے زہری سے عمر و بن حارث، لیث، یونس، ابن ابی ذئب ،معمر، ابرا ہیم بن سعد، سلیمان بن کثیر، ابن اسحاق اور سفیان بن عیینہ نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے یہ بات ذکر نہیں کی ہے۔
ا بو داود کہتے ہیں کہ یہ صرف ہشام بن عروہ کی حدیث کے الفاظ ہیں جسے انہوں نے اپنے والد سے اور عروہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں کہ ابن عیینہ نے اس میں یہ بھی اضا فہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حیض کے دنوں میں صلاۃ چھوڑ دینے کا حکم دیا، یہ ابن عیینہ کا وہم ہے ۱؎ ، البتہ محمد بن عمرو کی حدیث میں جسے انہوں نے زہری سے نقل کیا ہے کچھ ایسی چیز ہے، جو اوز اعی کے اضافہ کے قریب قریب ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو داود کا یہ قول حدیث نمبر ۲۸۱ میں گزر چکا ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث کو مختلف رواۃ نے متعدد طریقے اور الفاظ سے روایت کیا ہے اس سے اصل مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مستحاضہ حیض کے دنوں میں صلاۃ نہیں پڑھے گی اور ان مخصوص ایام کے گزرجانے کے بعد وہ غسل کرکے ہرصلاۃ کے لئے نیا وضوکر ے اور شرم گاہ پرلنگوٹ کس کر صلاۃ پڑھا کرے گی، یاپھر دو دو صلاۃ کے لئے ایک بار وضو کرے گی۔
286- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا [مُحَمَّدُ] بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدٍ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، أَنَّهَا كَانَتْ تُسْتَحَاضُ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : < إِذَا كَانَ دَمُ الْحَيْضَةِ: فَإِنَّهُ أَسْوَدُ يُعْرَفُ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَمْسِكِي عَنِ الصَّلاةِ، فَإِذَا كَانَ الآخَرُ فَتَوَضَّئِي وَصَلِّي، فَإِنَّمَا هُوَ عِرْقٌ >.
قَالَ أَبودَاود: وَقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ مِنْ كِتَابِهِ هَكَذَا، ثُمَّ حَدَّثَنَا بِهِ بَعْدُ حِفْظًا، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ تُسْتَحَاضُ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
قَالَ أَبودَاود: وَقَدْ رَوَى أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ قَالَ: إِذَا رَأَتِ الدَّمَ الْبَحْرَانِيَّ فَلا تُصَلِّي، وَإِذَا رَأَتِ الطُّهْرَ وَلَوْ سَاعَةً فَلْتَغْتَسِلْ وَتُصَلِّي، وقَالَ مَكْحُولٌ: إِنَّ النِّسَاءَ لا تَخْفَى عَلَيْهِنَّ الْحَيْضَةُ، إِنَّ دَمَهَا أَسْوَدُ غَلِيظٌ، فَإِذَا ذَهَبَ ذَلِكَ وَصَارَتْ صُفْرَةً رَقِيقَةً فَإِنَّهَا مُسْتَحَاضَةٌ فَلْتَغْتَسِلْ وَلْتُصَلِّ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: < إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ تَرَكَتِ الصَّلاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتِ اغْتَسَلَتْ وَصَلَّتْ > وَرَوَى سُمَيٌّ وَغَيْرُهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: < تَجْلِسُ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا > وَكَذَلِكَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَى يُونُسُ عَنِ الْحَسَنِ: < الْحَائِضُ إِذَا مَدَّ بِهَا الدَّمُ، تُمْسِكُ بَعْدَ حَيْضَتِهَا يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ فَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ >.
وقَالَ التَّيْمِيُّ عَنْ قَتَادَةَ: < إِذَا زَادَ عَلَى أَيَّامِ حَيْضِهَا خَمْسَةُ أَيَّامٍ فَلْتُصَلِّ >، وقَالَ التَّيْمِيُّ: فَجَعَلْتُ أَنْقُصُ حَتَّى بَلَغَتْ يَوْمَيْنِ، فَقَالَ: < إِذَا كَانَ يَوْمَيْنِ فَهُوَ مِنْ حَيْضِهَا >.
وسئلَ ابْنُ سِيرِينَ عَنْهُ فَقَالَ: النِّسَاءُ أَعْلَمُ بِذَلِكَ۔
* تخريج: ن/الطہارۃ ۱۳۵ (۲۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۱۹،۱۶۶۲۶) (حسن)
۲۸۶- فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ’’حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے جو پہچان لیا جاتا ہے ،جب یہ خون آئے تو صلاۃ سے رک جاؤ ، اور جب اس کے علاوہ خون ہو تو وضو کرو اور صلاۃ پڑھو، کیونکہ یہ رگ ( کا خون) ہے ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: ابن مثنی کا بیان ہے کہ ابن ابی عدی نے اسے ہم سے اپنی کتاب سے اسی طرح بیان کی ہے پھر اس کے بعد انہوں نے ہم سے اِسے زبا نی بھی بیان کیا ، وہ کہتے ہیں:ہم سے محمد بن عمرو نے بیان کیا ہے ، انہوں نے زہری سے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آتا تھا ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی ۔
ابو داود کہتے ہیں:انس بن سیرین نے مستحاضہ کے سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب وہ گاڑھا کالا خون دیکھے تو صلاۃ نہ پڑھے اور جب پاکی دیکھے (یعنی کالا خون کا آنا بند ہوجائے) خواہ تھوڑی ہی دیر سہی، تو غسل کر ے اور صلاۃ پڑھے ۔
اور مکحول نے کہا ہے کہ عورتوں سے حیض کا خون پوشیدہ نہیں ہو تا، اس کا خون کالا اور گاڑھا ہوتا ہے ،جب یہ ختم ہوجائے اور زرد اور پتلا ہوجائے ،تو وہ (عورت) مستحاضہ ہے، اب اسے غسل کرکے صلاۃ پڑھنی چاہئے۔
ابو داود کہتے ہیں: مستحاضہ کے بارے میں حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے قعقاع بن حکیم سے، قعقاع نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ جب حیض آئے تو صلاۃ ترک کر دے، اور جب حیض آنا بند ہو جائے تو غسل کر کے صلاۃ پڑھے۔
سمیّ وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ وہ ایام حیض میں بیٹھی رہے ( یعنی صلاۃ سے رکی رہے )۔
ایسے ہی اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید سے اوریحییٰ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے ۔
ابوداود کہتے ہیں:اور یونس نے حسن سے روایت کی ہے کہ حائضہ عورت کا خون جب زیادہ دن تک جاری رہے تو وہ اپنے حیض کے بعد ایک یا دو دن صلاۃ سے رکی رہے ،پھر وہ مستحاضہ ہو گی۔
تیمی قتا دہ سے روایت کر تے ہیں کہ جب اس کے حیض کے دنوں سے پانچ دن زیادہ گزر جا ئیں، تو اب وہ صلاۃ پڑھے۔
تیمی کا بیان ہے کہ میں اس میں سے کم کر تے کرتے دودن تک آگیا : جب دودن زیادہ ہوں تووہ حیض کے ہی ہیں۔
ابن سیرین سے جب اس کے بارے میں دریا فت کیا گیا تو انہوں نے کہا: عورتیں اسے زیادہ جا نتی ہیں۔
287- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَغَيْرُهُ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ ابْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً فَمَا تَرَى فِيهَا قَدْ مَنَعَتْنِي الصَّلاةَ وَالصَّوْمَ ؟ فَقَالَ: < أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ >، قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: < فَاتَّخِذِي ثَوْبًا >، فَقَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ أَيَّهُمَا فَعَلْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ مِنَ الآخَرِ، وَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ >، قَالَ لَهَا: < إِنَّمَا هَذِهِ رَكْضَةٌ مِنْ رَكَضَاتِ الشَّيْطَانِ فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، حَتَّى إِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ فَصَلِّي ثَلاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا، وَصُومِي، فَإِنَّ ذَلِكَ يَجْزِيكِ، وَكَذَلِكَ فَافْعَلِي فِي كُلِّ شَهْرٍ، كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ، مِيقَاتُ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، وَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِيَ الْعَصْرَ، فَتَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصّلاتَيْنِ: الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَتُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ، فَافْعَلِي، وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الْفَجْرِ فَافْعَلِي، وَصُومِي إِنْ قَدِرْتِ عَلَى ذَلِكَ >.
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < وَهَذَا أَعْجَبُ الأَمْرَيْنِ إِلَيَّ >.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ عَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ عَنِ ابْنِ عَقِيلٍ قَالَ: فَقَالَتْ حَمْنَةُ: فَقُلْتُ: هَذَا أَعْجَبُ الأَمْرَيْنِ إِلَيَّ، لَمْ يَجْعَلْهُ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم جَعَلَهُ كَلامَ حَمْنَةَ .
قَالَ أَبودَاود: وَعَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ رَافِضِيٌّ رَجُلُ سُوءِ، وَلَكِنَّهُ كَانَ صَدُوقًا فِي الْحَدِيثِ، وَثَابِتُ ابْنُ الْمِقْدَامِ رَجُلٌ ثِقَةٌ وَذَكَرَهُ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ .
[قَالَ أَبودَاود : سَمِعْت أَحْمَدَ يَقُولُ: حَدِيثُ ابْنِ عَقِيلٍ فِي نَفْسِي مِنْهُ شَيْئٌ۔
* تخريج: ت/الطھارۃ ۹۵ (۱۲۸)، ق/الطھارۃ ۱۱۵ (۶۲۲، ۶۲۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۳۹، دي/الطھارۃ ۸۳ (۸۱۲) (حسن)
۲۸۷- حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے استحاضہ کا خون کثرت سے آتا تھا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ سے مسئلہ پوچھنے، اور آپ کو اس کی خبردینے آئی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے گھر پایا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے بہت زیادہ خون آتا ہے، اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ اس نے مجھے صلاۃ اور صیام سے روک دیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں (شر م گا ہ پر ) روئی رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں،کیونکہ اس سے خون بند ہو جائے گا‘‘،حمنہ نے کہا: وہ اس سے بھی زیا دہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لنگوٹ باندھ کر اس کے نیچے کپڑا رکھ لو‘‘، انہوں نے کہا: وہ اس سے بھی زیادہ ہے، بہت تیزی سے نکلتا ہے، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں، ان دونوں میں سے جس کو بھی تم اختیار کرلو وہ تمہارے لئے کافی ہے، اور اگر تمہارے اندر دونوں پرعمل کرنے کی طاقت ہو توتم اِسے زیادہ جانتی ہو‘‘، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’یہ تو شیطان کی لات ہے، لہٰذاتم ( ہر ماہ) اپنے آپ کو چھ یا سات دن تک حائضہ سمجھو، پھر غسل کرو، اور جب تم اپنے آپ کو پاک و صاف سمجھ لو تو تیئس یا چوبیس روز صلاۃ ادا کرو اور صیام رکھو، یہ تمہارے لئے کافی ہے، اور جس طرح عورتیں حیض وطہر کے اوقات میں کر تی ہیں اسی طرح ہر ماہ تم بھی کر لیا کرو، اور اگرتم ظہر کی صلاۃ مؤخر کرنے اور عصر کی صلاۃ جلدی پڑھنے پر قادر ہو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو جمع کر لو اور مغرب کو مؤخر کرو ، اورعشاء میں جلدی کر و اور غسل کرکے دونوں صلاۃ کو ایک ساتھ ادا کرو، اور ایک صلاۃ فجر کے لئے غسل کرلیا کرو، تو اسی طرح کر و، اور صیام رکھو، اگر تم اس پر قادر ہو‘‘،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دونوں باتوں میں سے یہ دوسری با ت مجھے زیادہ پسند ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے عمر و بن ثابت نے ابن عقیل سے روایت کیا ہے ، اس میں ہے کہ حمنہ رضی اللہ عنہا نے کہا : یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے، انہوں نے اِسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں بلکہ حمنہ رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا۔
ابو داود کہتے ہیں: عمرو بن ثابت رافضی برا آدمی ہے، لیکن حدیث میں صدوق ہے- اور ثابت بن مقدام ثقہ آدمی ہیں- ۱؎ ، اس کا ذکر انہوں نے یحییٰ بن معین کے واسطے سے کیا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا : ابن عقیل کی حدیث کے با رے میں میرے دل میں بے اطمینانی ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ثابت بن مقدام کا تذکرہ مؤلف نے برسبیل تذکرہ عمروبن ثابت بن ابی المقدام کی وجہ سے کردیاہے،ورنہ یہاں کسی سندمیں ان کا نام نہیں آیاہے،عمروبن ثابت کوحافظ ابن حجر نے’’ضعیف‘‘قراردیاہے۔
وضاحت ۲؎ : لیکن بتصریح ترمذی امام بخاری نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے حتی کہ امام احمد نے بھی اس کی تحسین کی ہے،حافظ ابن القیم نے اس پر مفصل بحث کی ہے، اس کی تائید حدیث نمبر: (۳۹۴) سے بھی ہورہی ہے۔