123-بَاب التَّيَمُّمِ
۱۲۳- باب: تیمم کا بیان
317- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ (ح) وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ -الْمَعْنَى وَاحِدٌ- عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اسيْدَ بْنَ حُضَيْرٍ وَأُنَاسًا مَعَهُ فِي طَلَبِ قِلادَةٍ أَضَلَّتْهَا عَائِشَةُ، فَحَضَرَتِ الصَّلاةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءِ، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ، زَادَ ابْنُ نُفَيْلٍ، فَقَالَ لَهَا أُسَيْدُ [بْنُ حُضَيْرٍ]: يَرْحَمُكِ اللَّهُ! مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إِلا جَعَلَ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ وَلَكِ فِيهِ فَرَجًا۔
* تخريج: خ/اللباس ۵۸ (۵۸۸۲)، التفسیر ۳ (۴۵۸۳)،(تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۰،۱۷۲۰۵)، وقد أخرجہ: خ/التیمم ۲ (۳۳۴)، م/التیمم ۲۸ (۳۶۷)، ن/الطھارۃ ۱۹۴ (۳۱۱)، ق/الطھارۃ ۹۰ (۶۵۸)، ط/الطھارۃ ۲۳(۸۹)، حم (۶/۵۷، ۱۷۹)، دي/الطھارۃ ۶۵ (۷۷۳) (صحیح)
۳۱۷- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ کچھ لوگوں کو وہ ہار ڈھو نڈنے کے لئے بھیجا جسے عائشہ نے کھو دیا تھا، وہاں صلاۃ کا وقت ہو گیا تو لو گوں نے بغیر وضوصلاۃ پڑھ لی، پھروہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو تیمم کی آیت اتاری گئی۔
ابن نفیل نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! آپ کو جب بھی کو ئی ایسا معا ملہ پیش آیا جسے آپ ناگوار سمجھتی رہیں تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے اور آپ کے لئے اس میں ضرور کشا دگی پیدا کر دی ہے۔
318- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، حَدَّثَهُ عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّهُمْ تَمَسَّحُوا وَهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالصَّعِيدِ لِصَلاةِ الْفَجْرِ فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ، ثُمَّ مَسَحُوا وُجُوهَهُمْ مَسْحَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ عَادُوا فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ مَرَّةً أُخْرَى، فَمَسَحُوا بِأَيْدِيهِمْ كُلِّهَا إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالآبَاطِ مِنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ۔
* تخريج: ق/الطھارۃ ۹۰ (۵۶۵)، ۹۲ (۵۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۳)، وقد أخرجہ: ت/الطھارۃ ۱۱۰ (۱۴۴)، ن/الطھارۃ ۱۹۶ (۳۱۳)، ۱۹۹ (۳۱۷)، ۲۰۰ (۳۱۸)، ۲۰۱ (۳۱۹)، ۲۰۲ (۳۲۰)، حم (۴/۲۶۳، ۲۶۴) (صحیح)
۳۱۸- عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کر تے تھے کہ لوگوں نے فجر کی صلاۃ کے لئے پاک مٹی سے تیمم کیا، یہ لوگ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو انہوں نے مٹی پر اپنا ہا تھ مارااور منہ پر ایک دفعہ پھیر لیا، پھر دو بارہ مٹی پر ہا تھ مارا اور اپنے پورے ہاتھوں پر پھیر لیا یعنی اپنی ہتھیلیوں سے لے کر کندھو ں اور بغلوں تک ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تیمم کا طریقہ آگے حدیث نمبر (۳۲۰) میں آرہا ہے، جس میں ہاتھ کو صر ف ایک بار مٹی پر مار کر منہ اور ہتھیلی پر مسح کرنے کا بیان ہے اس حدیث کے سلسلہ میں علامہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ ابتداء میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی سمجھ اور قیاس سے ایسا کیا، لیکن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کا طریقہ بتایا تو وہ اس کو سیکھ گئے۔
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم نے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مونڈھے تک تیمم کیا، اور آپ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے لئے چہرہ اور دونوں ہتھیلی تک مسح کا حکم دیا، تو گویا زیر نظر واقعہ میں مذکور تیمم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں تھا (ملاحظہ ہو: عون المعبود ۱؍۳۵۰ و ۳۵۱)
319- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، وَعَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: قَامَ الْمُسْلِمُونَ فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ التُّرَابَ، وَلَمْ يَقْبِضُوا مِنَ التُّرَابِ شَيْئًا، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْمَنَاكِبَ وَالآبَاطَ، قَالَ ابْنُ اللَّيْثِ: إِلَى مَا فَوْقَ الْمِرْفَقَيْنِ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۳)، وقد أخرجہ: ن/الطھارۃ ۱۹۷ (۳۱۴)، حم (۴/۲۶۳، ۲۶۴) (صحیح)
۳۱۹ - اس سند سے ابن وہب سے اسی جیسی حدیث مر وی ہے، اس میں ہے کہ’’ مسلمان کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر ما را اور مٹی بالکل نہیں لی‘‘، پھرراوی نے اسی جیسی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے
’’المناكب والآباط‘‘ (کندھوں اور بغلوں ) کا ذکر نہیں کیا ‘‘۔
ابن لیث کہتے ہیں: انہوں نے اپنے ہاتھوں پر کہنیوں کے اوپر تک مسح کیا ۔
320- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَرَّسَ بِأَوَّلاتِ الْجَيْشِ وَمَعَهُ عَائِشَةُ، فَانْقَطَعَ عِقْدٌ لَهَا مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ، فَحُبِسَ النَّاسُ ابْتِغَاءَ عِقْدِهَا ذَلِكَ حَتَّى أَضَاءَ الْفَجْرُ، وَلَيْسَ مَعَ النَّاسِ مَائٌ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَائٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى رَسُولِهِ صلی اللہ علیہ وسلم رُخْصَةَ التَّطَهُّرِ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ، فَقَامَ الْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَضَرَبُوا بِأَيْدِيهِمْ إِلَى الأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَلَمْ يَقْبِضُوا مِنَ التُّرَابِ شَيْئًا فَمَسَحُوا بِهَا وُجُوهَهُمْ وَأَيْدِيَهُمْ إِلَى الْمَنَاكِبِ، وَمِنْ بِطُونِ أَيْدِيهِمْ إِلَى الآبَاطِ، زَادَ ابْنُ يَحْيَى فِي حَدِيثِهِ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فِي حَدِيثِهِ: وَلا يَعْتَبِرُ بِهَذَا النَّاسُ .
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ فِيهِ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَذَكَرَ ضَرْبَتَيْنِ كَمَا ذَكَرَ يُونُسُ، وَرَوَاهُ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ ضَرْبَتَيْنِ، وَقَالَ مَالِكٌ: عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارٍ، وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: [عَنِ الزُّهْرِيِّ] وَشَكَّ فِيهِ ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ مَرَّةً: عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَمَرَّةً قَالَ: عَنْ أَبِيهِ، وَمَرَّةً قَالَ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، اضْطَرَبَ [ابْنُ عُيَيْنَةَ] فِيهِ وَفِي سَمَاعِهِ مِنَ الزُّهْرِيِّ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمْ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الضَّرْبَتَيْنِ إِلا مَنْ سَمَّيْتُ۔
* تخريج: ن/الطہارۃ ۱۹۷ (۳۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۶۳) (صحیح)
۳۲۰- عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اولا ت الجیش ۱؎ میں رات گزارنے کے لئے ٹھہرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ، ان کا ہار جو ظفار کے مونگوں سے بنا تھا ٹوٹ کر گر گیا، چنانچہ ہار کی تلا ش کے سبب لوگ روک لئے گئے یہاں تک کہ صبح روشن ہوگئی اور لوگوں کے پاس پانی مو جو د نہیں تھا، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر ناراض ہوگئے اور کہا: ’’تم نے لوگوں کو روک رکھا ہے، حالا نکہ ان کے پاس پانی نہیں ہے‘‘، تو اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرپا ک مٹی سے طہارت حاصل کرنے کی رخصت نازل فرمائی، مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے، اپنے ہا تھ زمین پر مار کر اسے اس طرح اٹھا لیا کہ مٹی بالکل نہیں لگی، پھر اپنے چہروں اور ہا تھوں کا مونڈھوں تک اور ہتھیلیوں سے بغلوں تک مسح کیا۔
ابن یحییٰ نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ابن شہاب نے اپنی روایت میں کہا: لو گوں کے نزدیک اس فعل کا اعتبار نہیں ہے ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: نیز اسی طرح ابن اسحاق نے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کر تے ہوئے دو ضربہ ۳؎ کا ذکر کیا ہے جس طرح یو نس نے ذکر کیا ہے، نیز معمر نے بھی زہری سے دو ضربہ کی روایت کی ہے۔
مالک نے زہری سے،زہری نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے، عبید اللہ نے اپنے والد عبداللہ سے،عبد اللہ نے عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، اور اسی طرح ابواویس نے زہری سے روایت کی ہے ، اور ابن عیینہ نے اس میں شک کیا ہے: کبھی انہوں نے
’’عن عبيدالله، عن أبيه‘‘ کہا، اور کبھی
’’عن عبيدالله عن ابن عباس‘‘ یعنی کبھی عن ابیہ اور کبھی عن ابن عباس ذکر کیا۔
ابن عیینہ اس میں ۴؎ اور زہری سے اپنے سما ع میں ۵؎ مضطرب ہیں نیز زہری کے رواۃ میں سے کسی نے دو ضربہ کا ذکر نہیں کیا ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا میں نے نام لیا ہے ۶؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے ، اِسے ذات الجیش بھی کہا جاتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے پہلے اپنی رائے وقیاس سے انہوں نے ایسا کیا تھا۔
وضاحت ۳؎ : ابن حجر کے قول کے مطابق صفت تیمم کے سلسلہ میں ابوجہیم اور عمار رضی اللہ عنہما کی حدیث کو چھوڑ کر باقی ساری روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری l نے اپنی صحیح میں ’’ التيمم للوجه والكفين‘‘کے ساتھ باب باندھا ہے (ملاحظہ ہو: فتح الباری)۔
علامہ البانی دو ضربہ والی روایات کو واہی اور معلول کہتے ہیں ، اس لئے دو ضربہ کی ضرورت ہی نہیں صرف ایک ضربہ کافی ہے (ارواء الغلیل)۔
وضاحت ۴؎ : یعنی کبھی تو انہوں نے
’’عن أبيه‘‘ کہا اور کبھی اسے ساقط کرکے اس کی جگہ
’’عن ابن عباس‘‘ کہا ۔
وضاحت ۵؎ : کبھی انہوں نے اسے زہری سے بلاواسطہ روایت کیا ہے اور کبھی اپنے اور زہری کے درمیان عمروبن دینار کاواسطہ بڑھادیا۔
وضاحت ۶؎ : وہ نام یہ ہیں : یونس ، ابن اسحاق اور معمر، زہری کے رواۃ میں صرف انہیں تینوں نے ضربتین کے لفظ کا ذکر کیا ہے، رہے زہری سے روایت کرنے والے باقی لوگ جیسے صالح بن کیسان ، لیث بن سعد، عمروبن دینار، مالک ، ابن ابی ذئب وغیرہم تو ان میں سے کسی نے ضربتین کا ذکر نہیں کیا ہے۔
321- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا بَيْنَ عَبْدِاللَّهِ وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: يَاأَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، أَمَا كَانَ يَتَيَمَّمُ؟ فَقَالَ: لا، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الآيَةِ الَّتِي فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَائًا فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا}؟ فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذَا لأَوْشَكُوا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا بِالصَّعِيدِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: وَإِنَّمَا كَرِهْتُمْ هَذَا لِهَذَا؟ قَالَ نَعَمْ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدَ الْمَاءَ فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَتَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: < إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَصْنَعَ هَكَذَا >، فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى الأَرْضِ فَنَفَضَهَا، ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ، وَبِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ، عَلَى الْكَفَّيْنِ، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُاللَّهِ: أَفَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ؟.
* تخريج: خ/التیمم ۷ (۳۴۵، ۳۴۶)، ۸ (۳۴۷)، م/الحیض ۲۸ (۳۶۸)، ت/الطہارۃ ۱۱۰ (۱۴۴ مختصراً)، ن/الطھارۃ ۲۰۳ (۳۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۶۴) (صحیح)
۳۲۱ - ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھا ہو اتھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ا بو عبدالرحمن ! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیا ل ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہوجائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر تا رہے؟ عبد اللہ بن مسعو د نے کہا:تیمم نہ کرے، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے۔
ابو مو سیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ سورہ مائدہ کی اس آیت:
{فَلَمْ تَجِدُوا مَائًا فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا} (سورۃ النساء: ۴۳ ) ’’پانی نہ پائو تو پا ک مٹی سے تیمم کرو‘‘ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعو دنے کہا: اگرتیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں۔
اس پر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے اسی وجہ سے ا سے ناپسندکیا ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے عما ر رضی اللہ عنہ کی بات (جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لئے بھیجا تومیں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تومیں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں توبس اس طرح کرلینا کا فی تھا‘‘، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہا تھ زمین پر مارا،پھر اسے جھاڑا، پھراپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟ !۔
322- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ فَجَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّا نَكُونُ بِالْمَكَانِ الشَّهْرَ وَالشَّهْرَيْنِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَكُنْ أُصَلِّي حَتَّى أَجِدَ الْمَاءَ، قَالَ: فَقَالَ عَمَّارٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! أَمَا تَذْكُرُ إِذْ كُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ فِي الإِبِلِ فَأَصَابَتْنَا جَنَابَةٌ، فَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: < إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ هَكَذَا >، وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ إِلَى الأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَهُمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى نِصْفِ الذِّرَاعِ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا عَمَّارُ! اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! إِنْ شِئْتَ وَاللَّهِ لَمْ أَذْكُرْهُ أَبَدًا، فَقَالَ عُمَرُ: كَلا وَاللَّهِ لَنُوَلِّيَنَّكَ مِنْ ذَلِكَ مَا تَوَلَّيْتَ ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف:: ۱۰۳۶۲) (صحیح)
(مگر
’’إلى نصف الذراعين‘‘ کالفظ صحیح نہیں ہے، یہ شاذہے اور صحیحین میں ہے بھی نہیں)
۳۲۲- عبدالرحمن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : بسا اوقات ہم کسی جگہ ماہ دوماہ ٹھہرے رہتے ہیں (جہاں پانی موجود نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہو جا تے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟) عمر نے کہا: جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب تک مجھے پانی نہ ملے میں صلاۃ نہیں پڑھ سکتا ، وہ کہتے ہیں : اس پرعمار رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المومنین ! کیا آپ کو یا د نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹوں میں تھے (اونٹ چراتے تھے) اور ہمیں جنابت لا حق ہو گئی، بہرحال میں تو مٹی (زمین) پر لوٹا، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں بس اس طرح کر لینا کا فی تھا‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھران پر پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا، اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عما ر ! اللہ سے ڈرو ۱؎ ، انہوں نے کہا: امیرالمو منین ! اگر آپ چاہیں تو قسم اللہ کی میں اسے کبھی ذکر نہ کروں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، قسم اللہ کی ہم تمہاری بات کا تمہیں اختیار دیتے ہیں، یعنی معاملہ تم پر چھوڑتے ہیں تم اسے بیان کرنا چاہو تو کرو۔
وضاحت ۱؎ : اس بے اطمینانی کی وجہ یہ تھی کہ عمر رضی اللہ عنہ خود اس قضیہ میں عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے لیکن انہیں اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے یاد ہی نہیں آرہا تھا۔
323- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: <يَا عَمَّارُ! إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا>، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدَيْهِ الأَرْضَ، ثُمَّ ضَرَبَ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ وَالذِّرَاعَيْنِ إِلَى نِصْفِ السَّاعِدَيْنِ، وَلَمْ يَبْلُغِ الْمِرْفَقَيْنِ، ضَرْبَةً وَاحِدَةً.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ وَكِيعٌ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، وَرَوَاهُ جَرِيرٌ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَلَمَةَ [بْنِ كُهَيْلٍ] عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، يَعْنِي عَنْ أَبِيهِ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۲) (صحیح) (
’’الذراعين...‘‘کا جملہ صحیح نہیں ہے)
۳۲۳- ابن ابزی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے اس حدیث میں یہ روایت کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عمار ! تمہیں اس طرح کر لینا کافی تھا‘‘، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہا تھوں کو زمین پرایک بار ما راپھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر دونوں کلائیوں کے نصف تک پھیرا اور کہنیوں تک نہیں پہنچے۔
ابو داود کہتے ہیں : اِسے وکیع نے اعمش سے، انہوں نے سلمہ بن کہیل سے اورسلمہ نے عبدالرحمن بن ابزی سے روایت کیا ہے، نیز اسے جریر نے اعمش سے،اعمش نے سلمہ بن کہیل سے، سلمہ نے سعید بن عبدالرحمن بن ابزی سے اورسعید نے اپنے والد سے روایت کیا ہے ۔
324- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ فَقَالَ: <إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ > وَضَرَبَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِيَدِهِ إِلَى الأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَ فِيهَا، وَمَسَحَ بِهَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ، شَكَّ سَلَمَةُ، وَقَالَ: لا أَدْرِي فِيهِ: إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ يَعْنِي، أَوْ إِلَى الْكَفَّيْنِ ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۳۸، ۱۰۳۶۲) (صحیح)
(شک والا جملہ صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر: ۳۲۶)
۳۲۴- اس سندسے بھی عبدالرحمن بن ابزی سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے یہی قصہ مروی ہے ، اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں بس اتنا کر لینا کا فی تھا‘‘، اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہا تھ زمین پر ما را، پھر اس میں پھونک ما رکر اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیر لیا، سلمہ کو شک ہے، وہ کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ اس میں
’’إلى المرفقين‘‘ ہے یا
’’إلى الكفين‘‘ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہنیوں تک پھیرا، یا پہونچوں تک)۔
325- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ -يَعْنِي الأَعْوَرَ-، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: ثُمَّ نَفَخَ فِيهَا، وَمَسَحَ بِهَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ أَوْ [إِلَى] الذِّرَاعَيْنِ، قَالَ شُعْبَةُ: كَانَ سَلَمَةُ يَقُولُ: الْكَفَّيْنِ وَالْوَجْهَ وَالذِّرَاعَيْنِ، فَقَالَ لَهُ مَنْصُورٌ ذَاتَ يَوْمٍ: انْظُرْ مَا تَقُولَ فَإِنَّهُ لا يَذْكُرُ الذِّرَاعَيْنِ غَيْرُكَ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۲) (صحیح)
(
’’المرفقين والذراعين‘‘ والا جملہ صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ۳۲۶)
۳۲۵- حجاج اعور کہتے ہیں کہ شعبہ نے اسی سند سے یہی حدیث بیان کی ہے، اس میں ہے : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں پھونک ماری اوراپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پرکہنیوں یا ذراعین ۱؎ تک پھیرا۔
شعبہ کا بیان ہے کہ سلمہ کہتے تھے: دونوں ہتھیلیوں ، چہرے اور ذراعین پر پھیرا، تو ایک دن منصور نے ان سے کہا: جوکہہ رہے ہو خوب دیکھ بھال کر کہو، کیونکہ تمہارے علاوہ ذراعین کو اور کو ئی ذکر نہیں کرتا۔
وضاحت ۱؎ : ذراع کا اطلاق بیچ کی انگلی کے سرے سے لے کر کہنی تک کے حصہ پر ہوتا ہے، یعنی مرفق اور ذراع دونوں ’’کہنی‘‘ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
326- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَكَمُ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمَّارٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَقَالَ -يَعْنِي النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم -: <إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْكَ إِلَى الأَرْضِ فَتَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَكَ وَكَفَّيْكَ >، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ أَبِي مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّارًا يَخْطُبُ بِمِثْلِهِ إِلا أَنَّهُ قَالَ: لَمْ يَنْفُخْ، وَذَكَرَ حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنِ الْحَكَمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: ضَرَبَ بِكَفَّيْهِ إِلَى الأَرْضِ وَنَفَخَ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۲) (صحیح)
۳۲۶- اس طریق سے عبدالرحمن بن ابزیٰ سے بواسطہ عمار رضی اللہ عنہ اس حدیث میں مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ آپ نے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صرف اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مار کر انہیں اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیر لینا تمہارے لئے کافی تھا‘‘،پھر را وی نے پو ری حدیث بیان کی ۔
ابو داود کہتے ہیں: اِسے شعبہ نے حصین سے ،حصین نے ابو مالک سے روایت کیا ہے، اس میں ہے: میں نے عما ر رضی اللہ عنہ کو اسی طرح خطبہ میں بیان کرتے ہو ئے سنا ہے مگر اس میں انہوں نے کہا :’’ پھونک نہیں ماری‘‘، اور حسین بن محمد نے شعبہ سے اور انہوں نے حکم سے روایت کی ہے ، اس میں انہوں نے کہاہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو مارا اور اس میں پھونک ماری۔
327- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ التَّيَمُّمِ، فَأَمَرَنِي ضَرْبَةً وَاحِدَةً لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۲) (صحیح)
۳۲۷- عما ر بن یا سر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمم کے متعلق دریا فت کیا تو آپ نے مجھے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لئے ایک ضربہ ۱؎ کا حکم دیا ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک بار مٹی پر ہاتھ مار کر چہرہ اور دونوں ہتھیلی پر پھیرا جائے۔
328- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ: سُئِلَ قَتَادَةُ عَنِ التَّيَمُّمِ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُحَدِّثٌ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ >۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۲) (منکر) (اس کی سند میں’’محدث‘‘ایک مبہم راوی ہے)
۳۲۸- موسیٰ بن اسماعیل کہتے ہیں : ہم سے ابان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: قتادہ سے سفر میں تیمم کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے ایک محدث نے بیان کیا ہے ، اس نے شعبی سے شعبی نے عبدالرحمن بن ابزی سے ابزی نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہنیوں تک (مسح کرے)‘‘۔