11- بَاب فِي مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاةِ أَوْ نَسِيَهَا
۱۱-باب: جو صلاۃ کے وقت سو جا ئے یا اسے بھول جا ئے تو کیا کرے؟
435- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ فَسَارَ لَيْلَةً حَتَّى إِذَا أَدْرَكَنَا الْكَرَى عَرَّسَ وَقَالَ لِبِلالٍ: < اكْلأْ لَنَا اللَّيْلَ >، قَالَ: فَغَلَبَتْ بِلالا عَيْنَاهُ، وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ فَلَمْ يَسْتَيْقِظِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَلا بِلالٌ وَلا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى [إِذَا] ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: < يَا بِلالُ >، فَقَالَ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ لَهُمُ الصَّلاةَ وَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاةَ قَالَ: < مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: {أَقِمِ الصَّلاةَ لِلذِّكْرَى} >.
قَالَ يُونُسُ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا كَذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ عَنْبَسَةُ -يَعْنِي عَنْ يُونُسَ- فِي هَذَا الْحَدِيثِ لِذِكْرِي، قَالَ أَحْمَدُ : الْكَرَى: النُّعَاسُ۔
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۰)، ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۲۶)، وقد أخرجہ: ت/التفسیر ۲۰ (۳۱۶۳)، ن/المواقیت ۵۳ (۶۱۹،۶۲۰)، ط/وقوت الصلاۃ ۶(۲۵ مرسلاً) (صحیح)
۴۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غزوہ خیبر سے لوٹے تورات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب ہمیں نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیررات میں پڑائو ڈالا ، اور بلا ل رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’( تم جاگتے رہنا) اور رات میں ہماری نگہبانی کرنا‘‘ ، ابوہریرہ کہتے ہیں کہ بلال بھی سوگئے ، وہ اپنی سواری سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیدا ر ہوئے نہ بلال رضی اللہ عنہ ، اور نہ آپ کے اصحاب میں سے کو ئی اورہی، یہاں تک کہ جب ان پر دھوپ پڑی تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبراکر بیدا ر ہوئے اور فرمایا: ’’اے بلا ل !‘‘ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،مجھے بھی اسی چیز نے گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، پھر وہ لو گ اپنی سوا ریاں ہانک کر آگے کچھ دور لے گئے ۱؎ ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھا ئی، جب صلاۃ پڑھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص کوئی صلاۃ بھول جائے تو جب بھی یا د آئے اسے پڑھ لے،اس لئے کہ اللہ تعالی فرما تا ہے: صلاۃ قائم کرو جب یا د آئے‘‘۔
یونس کہتے ہیں: ابن شہا ب اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے( یعنی
’’ للذكرى‘‘ لیکن مشہور قرأت: {
أَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِيْ} (سورۃ طہ: ۱۲) ہے ) ۔
احمد کہتے ہیں: عنبسہ نے یونس سے روایت کر تے ہو ے اس حدیث میں
’’لِذِكْرِيْ‘‘ کہا ہے۔
احمدکہتے ہیں:
’ ’كَرَىْ ‘‘ نعاس (اونگھ) کو کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : وہاں سے سواریوں کو ہانک کرلے جانے اور کچھ دورجاکر صلاۃ پڑھنے کی وجہ کیا تھی؟ اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے،اصحاب رائے کا کہنا ہے کہ ایسا اس وجہ سے کیا تھا کہ سورج اوپر چڑھ آئے اور وہ وقت ختم ہوجائے جس میں صلاۃ پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، ان کے نزدیک فوت شدہ صلاۃ بھی ان وقتوں میں پڑھنی جائز نہیں لیکن ائمہ دین: مالک،اوزاعی،شافعی،احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ کے نزدیک چھوٹی ہوئی صلاۃ کی قضا ہر وقت جائز ہے، ممنوع اوقات میں صلاۃ پڑھنے کی ممانعت نفل صلاۃ کے ساتھ خاص ہے،چنانچہ اس کی تاویل ان لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ سے ہٹ کر صلاۃ پڑھنی چاہتے تھے جہاں آپ کو غفلت ونسیان لاحق ہوا ہے،جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی صراحت آرہی ہے۔
436- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <تَحَوَّلُوا عَنْ مَكَانِكُمِ الَّذِي أَصَابَتْكُمْ فِيهِ الْغَفْلَةُ >، قَالَ: فَأَمَرَ بِلالاً فَأَذَّنَ وَأَقَامَ وَصَلَّى.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ مَالِكٌ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَالأَوْزَاعِيُّ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ وَابْنِ إِسْحَاقَ، لَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمُ الأَذَانَ فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ هَذَا، وَلَمْ يُسْنِدْهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلا الأَوْزَاعِيُّ وَأَبَانُ الْعَطَّارُ عَنْ مَعْمَرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۰۲) (صحیح)
۴۳۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ـ’’ اپنی اس جگہ سے جہاں تمہیں یہ غفلت لا حق ہو ئی ہے کوچ کر چلو‘‘، وہ کہتے ہیں: پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاتو انہوں نے اذان ۱؎ دی اور تکبیر کہی اور آپ نے صلاۃ پڑھائی ۔
ابو دا و دکہتے ہیں :اسے مالک ،سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور عبدالرزاق نے معمر اور ابن اسحاق سے روایت کیا ہے ، مگر ان میں سے کسی نے بھی زہری کی اس حدیث میں اذان ۲؎ کا ذکر نہیں کیاہے، نیز ان میں سے کسی نے اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے سوائے اوزاعی اور ابان عطار کے ، جنہوں نے اسے معمر سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت میں اذان کااضافہ ہے، یونس والی روایت میں اذان کاذکر نہیں،چھوٹی ہوئی صلاۃ کے لئے اذان دی جائے گی یانہیں اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، امام احمد کی رائے میں اذان اور اقامت دونوں کہی جائے گی ،اور یہی قول اصحاب الرای کا بھی ہے،امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ صرف تکبیر کہی جائے گی اذان نہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہی واقعہ ہشام نے حسن کے واسطے سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے اس میں بھی اذان کا ذکر ہے، اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اذان اور اقامت دونوں کا ذکر ہے(اوران دونوں کی روایتیں آگے آرہی ہیں)یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں، نیز دیگر صحابہ کرام سے بھی ایسے ہی مروی ہے، اور احادیث وروایات میں ثقہ راویوں کے اضافے اور زیادات مقبول ہو تی ہیں ۔
437- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ فِي سَفَرٍ لَهُ فَمَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَمِلْتُ مَعَهُ فَقَالَ: <انْظُرْ> فَقُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ هَذَانِ رَاكِبَانِ، هَؤُلاءِ ثَلاثَةٌ، حَتَّى صِرْنَا سَبْعَةً، فَقَالَ: <احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلاتَنَا> يَعْنِي صَلاةَ الْفَجْرِ، فَضُرِبَ عَلَى آذَانِهِمْ فَمَا أَيْقَظَهُمْ إِلا حَرُّ الشَّمْسِ، فَقَامُوا فَسَارُوا هُنَيَّةً ثُمَّ نَزَلُوا فَتَوَضَّئُوا وَأَذَّنَ بِلالٌ فَصَلَّوْا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ثُمَّ صَلَّوُا الْفَجْرَ وَرَكِبُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: قَدْ فَرَّطْنَا فِي صَلاتِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : <إِنَّهُ لاتَفْرِيطَ فِي النَّوْمِ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا سَهَا أَحَدُكُمْ عَنْ صَلاةٍ فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَذْكُرُهَا، وَمِنَ الْغَدِ لِلْوَقْتِ >۔
* تخريج: ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۹)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۵۵ (۶۸۱)، ت/الصلاۃ ۱۶ (۱۷۷)، ن/المواقیت ۵۳ (۶۱۸)، حم (۵/۳۰۵) (صحیح)
۴۳۷- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے،تو آپ ایک طرف مڑ ے،میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرف مڑگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھو،(یہ کون آرہے ہیں)؟‘‘، اس پر میں نے کہا: یہ ایک سوار ہے، یہ دو ہیں، یہ تین ہیں ،یہاں تک کہ ہم سات ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ہما ری صلاۃ کا (یعنی صلاۃ فجر کا) خیا ل رکھنا‘‘، اس کے بعد انہیں نیند آگئی اوروہ ایسے سوئے کہ انہیں سورج کی تپش ہی نے بیدار کیا، چنانچہ لوگ اٹھے اور تھوڑی دور چلے ،پھر سواری سے اترے اور وضو کیا، بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو سب نے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھیں، پھر دو رکعت فرض ادا کی، اور سوار ہو کر آپس میں کہنے لگے :ہم نے اپنی صلاۃ میں کوتاہی کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سو جا نے میں کو ئی کوتاہی اور قصور نہیں ہے، کوتاہی اور قصورتو جا گنے کی حالت میں ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی صلاۃ بھول جائے تو جس وقت یاد آئے اسے پڑھ لے اور دوسرے دن اپنے وقت پرپڑھے‘‘۔
438- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا الأسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ ابْنُ سُمَيْرٍ قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيُّ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَكَانَتِ الأَنْصَارُ تُفَقِّهُهُ، فَحَدَّثَنَا قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِيُّ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم جَيْشَ الأُمَرَاءِ -بِهَذِهِ الْقِصَّةِ-، قَالَ: فَلَمْ تُوقِظْنَا إِلا الشَّمْسُ طَالِعَةً، فَقُمْنَا وَهِلِينَ لِصَلاتِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : <رُوَيْدًا رُوَيْدًا> حَتَّى إِذَا تَعَالَتِ الشَّمْسُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيَرْكَعْهُمَا> فَقَامَ مَنْ كَانَ يَرْكَعُهُمَا وَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَرْكَعُهُمَا فَرَكَعَهُمَا، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ يُنَادَى بِالصَّلاةِ، فَنُودِيَ بِهَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّى بِنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: <أَلا إِنَّا نَحْمَدُ اللَّهَ أَنَّا لَمْ نَكُنْ فِي شَيْئٍ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا يَشْغَلُنَا عَنْ صَلاتِنَا، وَلَكِنَّ أَرْوَاحَنَا كَانَتْ بِيَدِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ، فَأَرْسَلَهَا أَنَّى شَائَ، فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ صَلاةَ الْغَدَاةِ مِنْ غَدٍ صَالِحًا فَلْيَقْضِ مَعَهَا مِثْلَهَا>۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۹) (شاذ) (اس کے راوی خالد بن سمیر وہم کے شکار ہوجاتے تھے اوراس حدیث میں ان سے کئی جگہ وہم ہوا ہے جوبقیہ احادیث سے واضح ہے)
۴۳۸- خالد بن سمیر کہتے ہیں کہ مدینہ سے عبداللہ بن ر باح انصاری جنہیں انصارِ مدینہ فقیہ کہتے تھے ہما رے پا س آ ئے اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ مجھ سے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوارتھے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر بھیجا (اورپھر یہی قصہ بیان کیا)، اس میں ہے: ’’توسورج کے نکلنے ہی نے ہمیں جگایا ،ہم گھبرائے ہوئے اپنی صلاۃ کے لئے اٹھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٹھہرو ،ٹھہرو، یہا ں تک کہ جب سورج چڑھ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے جو لو گ فجر کی دو رکعت سنت پڑھا کر تے تھے پڑھ لیں‘‘، چنانچہ جو لوگ سنت پڑھا کر تے تھے اور جو نہیں پڑھتے تھے، سبھی سنت پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے اورسبھوں نے دو رکعت سنت اداکی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ کے لئے اذان دینے کا حکم فرمایا، اذان دی گئی پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃکے لئے کھڑے ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صلاۃ پڑھا ئی، جب صلاۃ سے فا رغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کر تے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کا م میں نہیں پھنسے تھے، جس نے ہم کو صلاۃ سے بازرکھاہو ، ہما ری روحیں تو اللہ تعالی کے ہا تھ میں تھیں، جب اس نے چاہا انہیں چھو ڑا، تم میں سے جو شخص کل فجر ٹھیک وقت پر پا ئے وہ اس کے سا تھ ایسی ہی ایک اور صلاۃپڑھ لے ‘‘۔
439- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حَيْثُ شَائَ، وَرَدَّهَا حَيْثُ شَائَ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالصَّلاةِ، فَقَامُوا فَتَطَهَّرُوا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ، قَامَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّى بِالنَّاسِ ۔
* تخريج: خ/مواقیت الصلاۃ ۳۵ (۵۹۵)، ن/الإمامۃ ۴۷ (۸۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۹۶) (صحیح)
۴۳۹- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں یوں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے تمہا ری روحوں کو جب تک چاہا روکے رکھا، اور جب چا ہا انہیں چھوڑ دیا ، تم اٹھو اور صلاۃ کے لئے اذان دو‘‘،چنانچہ سب اٹھے اورسب نے وضو کیا یہاں تک کہ جب سورج چڑھ گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اورآپ نے لو گوں کو صلاۃ پڑھائی ۔
440- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ حِينَ ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى بِهِمْ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۹۶) (صحیح)
۴۴۰- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں ، اس میں ہے: ’’تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیاجس وقت سورج چڑھ گیا پھر انہیں صلاۃ پڑھا ئی ‘‘۔
441- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ -وَهُوَ الطَّيَالِسِيُّ- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ- عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ أَنْ تُؤَخِّرَ صَلاةً حَتَّى يَدْخُلَ وَقْتُ أُخْرَى >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۶ (۱۷۷)، ن/المواقیت ۵۳(۶۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۵) (صحیح)
۴۴۱- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوجانے میں کوتاہی نہیں ہے، بلکہ کوتا ہی یہ ہے کہ تم جاگتے ہوئے کسی صلاۃ میں اس قدر دیر کر د و کہ دوسری صلاۃ کا وقت آجا ئے ‘‘۔
442- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لا كَفَّارَةَ لَهَا إِلا ذَلِكَ >۔
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۴)، ت/الصلاۃ ۱۷ (۱۷۸)، ن/المواقیت ۵۱ (۶۱۴)، ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۰)، وقد أخرجہ: خ/المواقیت ۳۷ (۵۹۷)، حم (۳/۱۰۰، ۲۴۳، ۲۶۶، ۲۶۹، ۲۸۲)، دي/الصلاۃ ۲۶ (۱۲۶۵) (صحیح)
۴۴۲- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کوئی صلاۃ بھول جا ئے توجب یاد آئے اسے پڑھ لے ، یہی اس کا کفا رہ ہے اس کے علاوہ اس کا کو ئی اور کفا رہ نہیں ‘‘ ۔
443- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ فِي مَسِيرٍ لَهُ فَنَامُوا عَنْ صَلاةِ الْفَجْرِ، فَاسْتَيْقَظُوا بِحَرِّ الشَّمْسِ، فَارْتَفَعُوا قَلِيلا حَتَّى اسْتَقَلَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، ثُمَّ أَقَامَ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۱۵)، وقد أخرجہ: خ/التیمم ۶ (۳۴۴)، م/المساجد ۵۵ (۶۸۲) (کلا ھما من غیر طریق الحسن)، حم (۴/۴۳۱، ۴۴۱، ۴۴۴) (صحیح)
۴۴۳- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کہ لو گ صلاۃ فجر میں سوئے رہ گئے ، سورج کی گرمی سے وہ بیدا ر ہوئے تو تھو ڑی دور چلے یہاں تک کہ سورج چڑ ھ گیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا،تو اس نے اذان دی تو آپ نے فجر (کی فرض صلاۃ) سے پہلے دو رکعت سنت پڑھی، پھر (مؤذن نے) تکبیر کہی اور آپ نے فجر پڑھائی۔
444- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ -وَهَذَا لَفْظُ عَبَّاسٍ- أَنَّ عَبْدَاللَّهِ ابْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُمْ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ -يَعْنِي الْقِتْبَانِيَّ- أَنَّ كُلَيْبَ بْنَ صُبْحٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ الزِّبْرِقَانَ حَدَّثَهُ، عَنْ عَمِّهِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَنَامَ عَنِ الصُّبْحِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: < تَنَحَّوْا عَنْ هَذَا الْمَكَانِ >، قَالَ: ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَذَّنَ، ثُمَّ تَوَضَّئُوا وَصَلَّوْا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الصَّلاةَ، فَصَلَّى بِهِمْ صَلاةَ الصُّبْحِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۱، ۱۳۹) (صحیح)
۴۴۴- عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے،آپ فجر میں سوئے رہ گئے، یہاں تک کہ سورج نکل آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدا ر ہوئے اور فرمایا: ’’اس جگہ سے کوچ کر چلو‘‘،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی پھرلوگوں نے وضو کیا اور فجر کی دو نوں سنتیں پڑھیں ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا،انہوں نے صلاۃ کے لئے تکبیر کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فجر پڑھا ئی۔
445- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ-، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ (ح) وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرٌ -يَعْنِي الْحَلَبِيَّ-، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ-، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ ذِي مِخْبَرٍ الْحَبَشِيِّ -وَكَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم - فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ -يَعْنِي النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم - وُضُوئًا لَمْ يَلْثَ مِنْهُ التُّرَابُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالا فَأَذَّنَ، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ غَيْرَ عَجِلٍ، ثُمَّ قَالَ لِبِلالٍ: <أَقِمِ الصَّلاةَ> ثُمَّ صَلَّى الْفَرْضَ وَهُوَ غَيْرُ عَجِلٍ، قَالَ: عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ صُلَيْحٍ: حَدَّثَنِي ذُو مِخْبَرٍ رَجُلٌ مِنَ الْحَبَشَةِ، و قَالَ عُبَيْدٌ: يَزِيدُ بْنُ صَالِحٍ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۸)، وقد أخرجہ: (۴/۹۰) (صحیح)
۴۴۵- ذی مخبر حبشی رضی اللہ عنہ (خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس واقعے میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اتنے پانی سے) وضو کیا کہ مٹی اس سے بھیگ نہیں سکی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انہوں نے اذان دی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آہستہ آہستہ ٹھہرٹھہر کر اطمینان سے دو رکعتیں ادا کیں، پھر بلا ل رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’صلاۃ کے لئے تکبیر کہو‘‘ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض صلاۃ کو ٹھہر ٹھہر کر اطمینا ن سے ادا کیا۔
حجا ج کی روایت میں
’’عن يزيد بن صليح حدثني ذو مخبر رجلٌ من الحبشة‘‘ہے اور عبید کی روایت میں
’’يزيد بن صليح‘‘کے بجائے
’’يزيد بن صالح‘‘ہے۔
446- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ حَرِيزٍ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ-، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ صُلَيْحٍ، عَنْ ذِي مِخْبَرٍ ابْنِ أَخِي النَّجَاشِيِّ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَأَذَّنَ وَهُوَ غَيْرُ عَجِلٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۸) (شاذ)
(ولید بن مسلم مدلس ہیں اوردیگر رواۃ کی مخالفت کرتے ہوے اذان کی بابت بھی
’’وھو غیر عجل‘‘ بڑھادیاہے)
۴۴۶- اس سند سے بھی ذی مخبر سے یہی حدیث مر وی ہے اس میں ہے: انہوں نے بغیر جلد بازی کے ٹھہر ٹھہر کر اذان دی۔
447- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَلْقَمَةَ سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <مَنْ يَكْلَؤُنَا؟>، فَقَالَ بِلالٌ: أَنَا، فَنَامُوا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: <افْعَلُوا كَمَا كُنْتُمْ تَفْعَلُونَ>، قَالَ: فَفَعَلْنَا، قَالَ: <فَكَذَلِكَ فَافْعَلُوا لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِيَ>۔
* تخريج: ن/المواقیت ۵۴ (۶۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۶، ۳۹۱، ۴۶۴) (صحیح)
۴۴۷- عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :ہم صلح حدیبیہ کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے، آپ نے فرمایا: ’’رات میں ہماری نگرانی کون کر ے گا ؟‘‘،بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، پھر لو گ سو ئے رہے یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدا ر ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم ویسے ہی کرو جیسے کیا کرتے تھے‘‘۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنا نچہ ہم لوگوں نے ویسے ہی کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو کو ئی سو جائے یا( صلاۃ پڑھنی) بھول جائے تووہ اسی طرح کرے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جس طرح وقت پر اداکی جانے والی صلاۃمیں کیاجاتاہے اسی طرح اس کی قضا صلاۃمیں کرے ،پس فجرکی قضا صلاۃ میں بھی قراء ت جہری ہوگی۔