• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي الْمُحَافَظَةِ عَلَى وَقْتِ الصَّلَوَاتِ
۹ -باب: اوقاتِ صلاۃ کی حفاظت اور اہتمام کا بیان​


425- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ -يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ مُطَرِّفٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصُّنَابِحِيِّ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: < خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوئَهُنَّ وَصَلاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَائَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَائَ عَذَّبَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۰۱)، وقد أخرجہ: ن/الصلاۃ ۶ (۴۶۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۹۴ (۱۴۰۱)، حم (۵/۳۱۷) (صحیح)

۴۲۵- عبداللہ بن صنابحی نے کہا کہ ابومحمدکاکہنا ہے کہ وتر واجب ہے تو اس پر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا : ابومحمد نے غلط کہا ۱؎ ،میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے پانچ صلاۃ فرض کی ہیں، جو شخص ان کے لئے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع وسجودکو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان سے غلطی ہوئی ہے نہ کہ انہوں نے جان بوجھ کر جھوٹ کہا ہے (اوریہ ابومحمدکااجتہادی فتویٰ تھاجس کی تردید عبادہ نے اس حدیث سے کی)۔

426- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْخُزَاعِيُّ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ غَنَّامٍ، عَنْ بَعْضِ أُمَّهَاتِهِ، عَنْ أُمِّ فَرْوَةَ قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: < الصَّلاةُ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا >.
قَالَ الْخُزَاعِيُّ فِي حَدِيثِهِ: عَنْ عَمَّةٍ لَهُ يُقَالُ لَهَا أُمُّ فَرْوَةَ قَدْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم سُئِلَ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۳(۱۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۷۵، ۳۷۴، ۴۴۰) (صحیح)
(اس کے راوی قاسم مضطرب الحدیث اور عبداللہ بن عمر سیٔ الحفظ ہیں، نیز ’’بعض أمھاتہ‘‘مجہول راوی ہیں) لیکن یہ حدیث شواہد کی بنا پر اس باب میں صحیح ہے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث متفق علیہ (بخاری ومسلم) میں ہے۔
۴۲۶- اُم فروہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلاۃ کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا‘‘۔
خزاعی کی روایت میں ہے کہ انہوں نے(قاسم نے) اپنی پھوپھی (جنہیں امّ فروہ کہا جاتا تھا اور جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی)سے روایت کی ہے ،اس میں’’سئل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی بجائے’’إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم سئل‘‘ہے۔

427- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا، يَحْيَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عُمَارَةَ ابْنِ رُؤَيْبَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ فَقَالَ: أَخْبِرْنِي مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: < لا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ > قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ؟ -ثَلاثَ مَرَّاتٍ- قَالَ: نَعَمْ، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَأَنَا سَمِعْتُهُ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/المساجد ۳۷ (۶۳۴)، ن/الصلاۃ ۱۳ (۴۷۲)، ۲۱ (۴۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۶، ۲۶۱) (صحیح)

۴۲۷- عمارہ بن رویبہ کہتے ہیں کہ اہل بصرہ میں سے ایک آدمی نے ان سے پوچھا اور کہا:آپ مجھے ایسی با ت بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا ہے: ’’وہ آدمی جہنم میں داخل نہ ہوگا جس نے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے صلاۃ پڑھی‘‘، اس شخص نے کہا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ یہ جملہ اس نے تین بار کہا، انہوں نے کہا : ہاں، ہر بار وہ یہی کہتے تھے: میرے دونوں کانوں نے اسے سنا ہے اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے، پھراس شخص نے کہا: میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے فرماتے سنا ہے ۔

428- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَكَانَ فِيمَا عَلَّمَنِي: < وَحَافِظْ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ >، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ هَذِهِ سَاعَاتٌ لِي فِيهَا أَشْغَالٌ فَمُرْنِي بِأَمْرٍ جَامِعٍ إِذَا أَنَا فَعَلْتُهُ أَجْزَأَ عَنِّي، فَقَالَ: < حَافِظْ عَلَى الْعَصْرَيْنِ > وَمَا كَانَتْ مِنْ لُغَتِنَا فَقُلْتُ: وَمَا الْعَصْرَانِ؟ فَقَالَ: < صَلاةُ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَصَلاةُ قَبْلَ غُرُوبِهَا >۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۴) (صحیح)

۴۲۸- فضالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں صلاۃ پر محافظت کرو ،میں نے کہا: یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں،آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجئے کہ جب میں اس کو کروں تووہ مجھے کافی ہوجائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عصرین پر محافظت کرو‘‘، عصر ین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لئے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوصلاۃ: ایک سورج نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے (فجر اور عصر )‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کایہ مطلب نہیں ہے کہ جو بہت زیادہ مصروف ہواس کے لئے فقط دووقت کی صلاۃ کافی ہوجائے گی،بلکہ مطلب یہ ہے کہ کم سے کم ان دووقتوں کی صلاۃ کواول وقت پرپابندی سے پڑھ لیا کرے (بیہقی،عراقی)۔

429- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ وَأَبَانُ، كِلاهُمَا عَنْ خُلَيْدٍ الْعَصَرِيِّ، عَنْ أم الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < خَمْسٌ مَنْ جَائَ بِهِنَّ مَعَ إِيمَانٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ: مَنْ حَافَظَ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ عَلَى وُضُوئِهِنَّ وَرُكُوعِهِنَّ وَسُجُودِهِنَّ وَمَوَاقِيتِهِنَّ، وَصَامَ رَمَضَانَ، وَحَجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا، وَأَعْطَى الزَّكَاةَ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ، وَأَدَّى الأَمَانَةَ >، قَالُوا: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ! وَمَا أَدَائُ الأَمَانَةِ ؟ قَالَ: الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۳۰) (حسن)

۴۲۹- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچ چیزیں ہیں، جو انہیں ایمان ویقین کے ساتھ ادا کرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا: جس نے وضو کے ساتھ ان پانچوں صلاۃکی،ان کے رکوع اورسجدوں کی اور ان کے اوقات کی محافظت کی، رمضان کے صیام رکھے ،اور بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت رکھنے کی صورت میں حج کیا، خوش دلی و رضا مندی کے ساتھ زکاۃ دی، اور امانت ادا کی‘‘۔
لوگوں نے پوچھا : ابوالدرداء ! امانت ادا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے کہا: اس سے مراد جنابت کا غسل کرنا ہے ۔

430- حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ ضُبَارَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي سُلَيْكٍ الأَلْهَانِيِّ، أَخْبَرَنِي ابْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: إِنَّ أَبَا قَتَادَةَ ابْنَ رِبْعِيٍّ أَخْبَرَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّي فَرَضْتُ عَلَى أُمَّتِكَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ وَعَهِدْتُ عِنْدِي عَهْدًا أَنَّهُ مَنْ جَائَ يُحَافِظُ عَلَيْهِنَّ لِوَقْتِهِنَّ أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ فَلاعَهْدَ لَهُ عِنْدِي >۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۹۴ (۱۴۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۲) (صحیح)

۴۳۰- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کا ارشاد ہے: میں نے آپ کی امت پر پانچ (وقت کی )صلاۃ فرض کی ہیں اور میری طرف سے یہ وعدہ ہے کہ جو ان کے وقتوں پران کی محافظت کرتے ہوئے میرے پاس آئے گا ، میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جس نے ان کی محافظت نہیں کی ، میرا اس سے کو ئی وعدہ نہیں‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب إِذَا أَخَّرَ الإِمَامُ الصَّلاةَ عَنِ الْوَقْتِ
۱۰-باب: جب امام صلاۃ کو دیر سے پڑھے تو کیا کرناچاہئے ؟​


431- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ -يَعْنِي الْجَوْنِيَّ- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < يَا أَبَا ذَرٍّ! كَيْفَ أَنْتَ إِذَا كَانَتْ عَلَيْكَ أُمَرَائُ يُمِيتُونَ الصَّلاةَ؟> أَوْ قَالَ: <يُؤَخِّرُونَ الصَّلاةَ >، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: < صَلِّ الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتَهَا مَعَهُمْ فَصَلِّهَا فَإِنَّهَا لَكَ نَافِلَةٌ >۔
* تخريج: م/المساجد ۴۱ (۶۴۸)، ت/الصلاۃ ۱۵ (۱۷۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۰ (۱۲۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۵۰)، وقد أخرجہ: ن/الإمامۃ ۲ (۷۸۰)، ۵۵ (۸۶۰)، حم (۵/۱۶۸، ۱۶۹)، دي/الصلاۃ ۲۵ (۱۲۶۴) (صحیح)

۴۳۱- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’ابوذر !تم اس وقت کیا کروگے جب تمہا رے اوپر ایسے حاکم وسردار ہوں گے جو صلاۃ کو مار ڈالیں گے؟‘‘، یافرمایا: ’’صلاۃ کو تاخیر سے پڑ ھیں گے‘‘، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس سلسلے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم صلاۃ وقت پر پڑھ لو ،پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی صلاۃ پا ئو تو (دوبارہ) پڑھ لیا کرو ۱؎ ، یہ تمہا رے لئے نفل ہو گی ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : بظاہر حدیث عام ہے ساری صلاتیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجر کی ہو یا عصر کی یا مغرب کی، اور بعض لوگوں نے اس حدیث کوظہر اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب کو دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہوجائے گی۔

432- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ [دُحَيْمٌ] الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي، حَسَّانُ -[يَعْنِي ابْنَ عَطِيَّةَ]- عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الأَوْدِيِّ [قَالَ:] قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْيَمَنَ رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَيْنَا، قَالَ: فَسَمِعْتُ تَكْبِيرَهُ مَعَ الْفَجْرِ رَجُلٌ أَجَشُّ الصَّوْتِ، قَالَ: فَأُلْقِيَتْ عَلَيْهِ مَحَبَّتِي، فَمَا فَارَقْتُهُ حَتَّى دَفَنْتُهُ بِالشَّامِ مَيِّتًا، ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَى أَفْقَهِ النَّاسِ بَعْدَهُ، فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَلَزِمْتُهُ حَتَّى مَاتَ، فَقَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < كَيْفَ بِكُمْ إِذَا أَتَتْ عَلَيْكُمْ أُمَرَائُ يُصَلُّونَ الصَّلاةَ لِغَيْرِ مِيقَاتِهَا؟ >، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < صَلِّ الصَّلاةَ لِمِيقَاتِهَا، وَاجْعَلْ صَلاتَكَ مَعَهُمْ سُبْحَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۸۷)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۵ (۵۳۴)، ن/الإمامۃ ۲ (۷۸۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۰ (۱۲۵۵)، حم (۱/۳۷۹، ۴۵۵، ۴۵۹) (حسن صحیح)

۴۳۲- عمرو بن میمو ن اودی کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد بن کرہما رے پاس یمن آئے، میں نے فجر میں ان کی تکبیر سنی،وہ ایک بھاری آواز والے آدمی تھے، مجھ کو ان سے محبت ہو گئی، میں نے ان کا ساتھ نہیں چھو ڑا یہاں تک کہ میں نے ان کو شام میں دفن کیا،پھر میں نے غور کیا کہ ان کے بعد لوگوں میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ (تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں) چنا نچہ میں عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، انہوں نے مجھ سے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’تم اس وقت کیا کروگے جب تمہارے اوپر ایسے حکمراں مسلط ہوں گے جو صلاۃ کو وقت پر نہ پڑھیں گے؟‘‘، تو میں نے کہا : اللہ کے رسول! جب ایسا وقت مجھے پائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’صلاۃ کو اول وقت میں پڑھ لیا کرنا اور ان کے سا تھ اپنی صلاۃ کو نفل بنا لینا ۱؎ ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں: ایک تویہ کہ صلاۃ اوّل وقت میں پڑھنا افضل ہے، دوسرے یہ کہ جماعت کے لئے اسے مؤخر کرنا جائز نہیں، تیسرے یہ کہ جوصلاۃ پڑھ چکا ہو اس کااسی دن اعادہ (دہرانا) جائز ہے بشرطیکہ اس اعادہ کا کوئی سبب ہو، ایک ہی صلاۃ کوایک ہی دن میں دوبارہ پڑھنے کی جو ممانعت آئی ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ اس کا کوئی سبب نہ ہو، چوتھے یہ کہ پہلی صلاۃ فرض ہوگی اور دوسری جو اس نے امام کے ساتھ پڑھی ہے نفل ہوگی۔

433- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى، عَنِ ابْنِ أُخْتِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ -الْمَعْنَى- عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى الْحِمْصِيِّ، عَنْ أَبِي أُبَيٍّ ابْنِ امْرَأَةِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < إِنَّهَا سَتَكُونُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي أُمَرَائُ تَشْغَلُهُمْ أَشْيَائُ عَنِ الصَّلاةِ لِوَقْتِهَا حَتَّى يَذْهَبَ وَقْتُهَا، فَصَلُّوا الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا >، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُصَلِّي مَعَهُمْ؟ قَالَ: < نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ >، وَقَالَ سُفْيَانُ: إِنْ أَدْرَكْتُهَا مَعَهُمْ [أ] أُصَلِّي مَعَهُمْ؟ قَالَ: < نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ >۔
* تخريج: ق/الصلاۃ ۱۵۱ (۱۲۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۵، ۳۲۹) (صحیح)

۴۳۳- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد تمہارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جنہیں وقت پر صلاۃ پڑھنے سے بہت سی چیز یں غافل کر دیں گی یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہو جا ئے گا، لہٰذا تم وقت پر صلاۃ پڑھ لیا کر نا‘‘، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں اگر تم چاہو‘‘۔
سفیان نے ( اپنی روایت میں ) یوں کہا ہے: ’’اگر میں صلاۃ ان کے سا تھ پا ئوں تو ان کے ساتھ (بھی)پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تم ان کے ساتھ(بھی) پڑھ لو اگر تم چاہو‘‘ ۔
434- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ -يَعْنِي الزَّعْفَرَانِيَّ- حَدَّثَنِي صَالِحُ ابْنُ عُبَيْدٍ؛ عنْ قَبِيصَةَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < يَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَائُ مِنْ بَعْدِي يُؤَخِّرُونَ الصَّلاةَ، فَهِيَ لَكُمْ وَهِيَ عَلَيْهِمْ، فَصَلُّوا مَعَهُمْ مَا صَلَّوُا الْقِبْلَةَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۷۰) (صحیح)

۴۳۴- قبیصہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد تم پر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جو صلاۃ تا خیر سے پڑھیں گے،یہ تمہا رے لئے مفید ہوگی ،اور ان کے حق میں غیر مفید، لہٰذاتم ان کے ساتھ صلاۃ پڑ ھتے رہنا جب تک وہ قبلہ رخ ہوکر پڑھیں ۱؎ ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : قبلہ رخ وہی صلاۃپڑھتاہے جومسلمان ہوتاہے،مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ صلاۃ پڑھتے اور اسے قائم کرتے رہیں وہ مسلمان ہیں، نیک کاموں میں ان کی اطاعت واجب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِي مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاةِ أَوْ نَسِيَهَا
۱۱-باب: جو صلاۃ کے وقت سو جا ئے یا اسے بھول جا ئے تو کیا کرے؟​


435- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ فَسَارَ لَيْلَةً حَتَّى إِذَا أَدْرَكَنَا الْكَرَى عَرَّسَ وَقَالَ لِبِلالٍ: < اكْلأْ لَنَا اللَّيْلَ >، قَالَ: فَغَلَبَتْ بِلالا عَيْنَاهُ، وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ فَلَمْ يَسْتَيْقِظِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَلا بِلالٌ وَلا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى [إِذَا] ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: < يَا بِلالُ >، فَقَالَ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ لَهُمُ الصَّلاةَ وَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاةَ قَالَ: < مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: {أَقِمِ الصَّلاةَ لِلذِّكْرَى} >.
قَالَ يُونُسُ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا كَذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ عَنْبَسَةُ -يَعْنِي عَنْ يُونُسَ- فِي هَذَا الْحَدِيثِ لِذِكْرِي، قَالَ أَحْمَدُ : الْكَرَى: النُّعَاسُ۔
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۰)، ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۲۶)، وقد أخرجہ: ت/التفسیر ۲۰ (۳۱۶۳)، ن/المواقیت ۵۳ (۶۱۹،۶۲۰)، ط/وقوت الصلاۃ ۶(۲۵ مرسلاً) (صحیح)

۴۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غزوہ خیبر سے لوٹے تورات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب ہمیں نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیررات میں پڑائو ڈالا ، اور بلا ل رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’( تم جاگتے رہنا) اور رات میں ہماری نگہبانی کرنا‘‘ ، ابوہریرہ کہتے ہیں کہ بلال بھی سوگئے ، وہ اپنی سواری سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیدا ر ہوئے نہ بلال رضی اللہ عنہ ، اور نہ آپ کے اصحاب میں سے کو ئی اورہی، یہاں تک کہ جب ان پر دھوپ پڑی تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبراکر بیدا ر ہوئے اور فرمایا: ’’اے بلا ل !‘‘ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،مجھے بھی اسی چیز نے گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، پھر وہ لو گ اپنی سوا ریاں ہانک کر آگے کچھ دور لے گئے ۱؎ ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھا ئی، جب صلاۃ پڑھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص کوئی صلاۃ بھول جائے تو جب بھی یا د آئے اسے پڑھ لے،اس لئے کہ اللہ تعالی فرما تا ہے: صلاۃ قائم کرو جب یا د آئے‘‘۔
یونس کہتے ہیں: ابن شہا ب اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے( یعنی ’’ للذكرى‘‘ لیکن مشہور قرأت: {أَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِيْ} (سورۃ طہ: ۱۲) ہے ) ۔
احمد کہتے ہیں: عنبسہ نے یونس سے روایت کر تے ہو ے اس حدیث میں ’’لِذِكْرِيْ‘‘ کہا ہے۔
احمدکہتے ہیں: ’ ’كَرَىْ ‘‘ نعاس (اونگھ) کو کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : وہاں سے سواریوں کو ہانک کرلے جانے اور کچھ دورجاکر صلاۃ پڑھنے کی وجہ کیا تھی؟ اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے،اصحاب رائے کا کہنا ہے کہ ایسا اس وجہ سے کیا تھا کہ سورج اوپر چڑھ آئے اور وہ وقت ختم ہوجائے جس میں صلاۃ پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، ان کے نزدیک فوت شدہ صلاۃ بھی ان وقتوں میں پڑھنی جائز نہیں لیکن ائمہ دین: مالک،اوزاعی،شافعی،احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ کے نزدیک چھوٹی ہوئی صلاۃ کی قضا ہر وقت جائز ہے، ممنوع اوقات میں صلاۃ پڑھنے کی ممانعت نفل صلاۃ کے ساتھ خاص ہے،چنانچہ اس کی تاویل ان لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ سے ہٹ کر صلاۃ پڑھنی چاہتے تھے جہاں آپ کو غفلت ونسیان لاحق ہوا ہے،جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی صراحت آرہی ہے۔

436- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <تَحَوَّلُوا عَنْ مَكَانِكُمِ الَّذِي أَصَابَتْكُمْ فِيهِ الْغَفْلَةُ >، قَالَ: فَأَمَرَ بِلالاً فَأَذَّنَ وَأَقَامَ وَصَلَّى.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ مَالِكٌ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَالأَوْزَاعِيُّ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ وَابْنِ إِسْحَاقَ، لَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمُ الأَذَانَ فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ هَذَا، وَلَمْ يُسْنِدْهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلا الأَوْزَاعِيُّ وَأَبَانُ الْعَطَّارُ عَنْ مَعْمَرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۰۲) (صحیح)

۴۳۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ـ’’ اپنی اس جگہ سے جہاں تمہیں یہ غفلت لا حق ہو ئی ہے کوچ کر چلو‘‘، وہ کہتے ہیں: پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاتو انہوں نے اذان ۱؎ دی اور تکبیر کہی اور آپ نے صلاۃ پڑھائی ۔
ابو دا و دکہتے ہیں :اسے مالک ،سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور عبدالرزاق نے معمر اور ابن اسحاق سے روایت کیا ہے ، مگر ان میں سے کسی نے بھی زہری کی اس حدیث میں اذان ۲؎ کا ذکر نہیں کیاہے، نیز ان میں سے کسی نے اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے سوائے اوزاعی اور ابان عطار کے ، جنہوں نے اسے معمر سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت میں اذان کااضافہ ہے، یونس والی روایت میں اذان کاذکر نہیں،چھوٹی ہوئی صلاۃ کے لئے اذان دی جائے گی یانہیں اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، امام احمد کی رائے میں اذان اور اقامت دونوں کہی جائے گی ،اور یہی قول اصحاب الرای کا بھی ہے،امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ صرف تکبیر کہی جائے گی اذان نہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہی واقعہ ہشام نے حسن کے واسطے سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے اس میں بھی اذان کا ذکر ہے، اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اذان اور اقامت دونوں کا ذکر ہے(اوران دونوں کی روایتیں آگے آرہی ہیں)یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں، نیز دیگر صحابہ کرام سے بھی ایسے ہی مروی ہے، اور احادیث وروایات میں ثقہ راویوں کے اضافے اور زیادات مقبول ہو تی ہیں ۔

437- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ فِي سَفَرٍ لَهُ فَمَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَمِلْتُ مَعَهُ فَقَالَ: <انْظُرْ> فَقُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ هَذَانِ رَاكِبَانِ، هَؤُلاءِ ثَلاثَةٌ، حَتَّى صِرْنَا سَبْعَةً، فَقَالَ: <احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلاتَنَا> يَعْنِي صَلاةَ الْفَجْرِ، فَضُرِبَ عَلَى آذَانِهِمْ فَمَا أَيْقَظَهُمْ إِلا حَرُّ الشَّمْسِ، فَقَامُوا فَسَارُوا هُنَيَّةً ثُمَّ نَزَلُوا فَتَوَضَّئُوا وَأَذَّنَ بِلالٌ فَصَلَّوْا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ثُمَّ صَلَّوُا الْفَجْرَ وَرَكِبُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: قَدْ فَرَّطْنَا فِي صَلاتِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : <إِنَّهُ لاتَفْرِيطَ فِي النَّوْمِ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا سَهَا أَحَدُكُمْ عَنْ صَلاةٍ فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَذْكُرُهَا، وَمِنَ الْغَدِ لِلْوَقْتِ >۔
* تخريج: ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۹)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۵۵ (۶۸۱)، ت/الصلاۃ ۱۶ (۱۷۷)، ن/المواقیت ۵۳ (۶۱۸)، حم (۵/۳۰۵) (صحیح)

۴۳۷- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے،تو آپ ایک طرف مڑ ے،میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرف مڑگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھو،(یہ کون آرہے ہیں)؟‘‘، اس پر میں نے کہا: یہ ایک سوار ہے، یہ دو ہیں، یہ تین ہیں ،یہاں تک کہ ہم سات ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ہما ری صلاۃ کا (یعنی صلاۃ فجر کا) خیا ل رکھنا‘‘، اس کے بعد انہیں نیند آگئی اوروہ ایسے سوئے کہ انہیں سورج کی تپش ہی نے بیدار کیا، چنانچہ لوگ اٹھے اور تھوڑی دور چلے ،پھر سواری سے اترے اور وضو کیا، بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو سب نے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھیں، پھر دو رکعت فرض ادا کی، اور سوار ہو کر آپس میں کہنے لگے :ہم نے اپنی صلاۃ میں کوتاہی کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سو جا نے میں کو ئی کوتاہی اور قصور نہیں ہے، کوتاہی اور قصورتو جا گنے کی حالت میں ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی صلاۃ بھول جائے تو جس وقت یاد آئے اسے پڑھ لے اور دوسرے دن اپنے وقت پرپڑھے‘‘۔

438- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا الأسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ ابْنُ سُمَيْرٍ قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيُّ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَكَانَتِ الأَنْصَارُ تُفَقِّهُهُ، فَحَدَّثَنَا قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِيُّ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم جَيْشَ الأُمَرَاءِ -بِهَذِهِ الْقِصَّةِ-، قَالَ: فَلَمْ تُوقِظْنَا إِلا الشَّمْسُ طَالِعَةً، فَقُمْنَا وَهِلِينَ لِصَلاتِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : <رُوَيْدًا رُوَيْدًا> حَتَّى إِذَا تَعَالَتِ الشَّمْسُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيَرْكَعْهُمَا> فَقَامَ مَنْ كَانَ يَرْكَعُهُمَا وَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَرْكَعُهُمَا فَرَكَعَهُمَا، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ يُنَادَى بِالصَّلاةِ، فَنُودِيَ بِهَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّى بِنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: <أَلا إِنَّا نَحْمَدُ اللَّهَ أَنَّا لَمْ نَكُنْ فِي شَيْئٍ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا يَشْغَلُنَا عَنْ صَلاتِنَا، وَلَكِنَّ أَرْوَاحَنَا كَانَتْ بِيَدِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ، فَأَرْسَلَهَا أَنَّى شَائَ، فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ صَلاةَ الْغَدَاةِ مِنْ غَدٍ صَالِحًا فَلْيَقْضِ مَعَهَا مِثْلَهَا>۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۹) (شاذ)
(اس کے راوی خالد بن سمیر وہم کے شکار ہوجاتے تھے اوراس حدیث میں ان سے کئی جگہ وہم ہوا ہے جوبقیہ احادیث سے واضح ہے)
۴۳۸- خالد بن سمیر کہتے ہیں کہ مدینہ سے عبداللہ بن ر باح انصاری جنہیں انصارِ مدینہ فقیہ کہتے تھے ہما رے پا س آ ئے اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ مجھ سے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوارتھے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر بھیجا (اورپھر یہی قصہ بیان کیا)، اس میں ہے: ’’توسورج کے نکلنے ہی نے ہمیں جگایا ،ہم گھبرائے ہوئے اپنی صلاۃ کے لئے اٹھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٹھہرو ،ٹھہرو، یہا ں تک کہ جب سورج چڑھ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے جو لو گ فجر کی دو رکعت سنت پڑھا کر تے تھے پڑھ لیں‘‘، چنانچہ جو لوگ سنت پڑھا کر تے تھے اور جو نہیں پڑھتے تھے، سبھی سنت پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے اورسبھوں نے دو رکعت سنت اداکی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ کے لئے اذان دینے کا حکم فرمایا، اذان دی گئی پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃکے لئے کھڑے ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صلاۃ پڑھا ئی، جب صلاۃ سے فا رغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کر تے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کا م میں نہیں پھنسے تھے، جس نے ہم کو صلاۃ سے بازرکھاہو ، ہما ری روحیں تو اللہ تعالی کے ہا تھ میں تھیں، جب اس نے چاہا انہیں چھو ڑا، تم میں سے جو شخص کل فجر ٹھیک وقت پر پا ئے وہ اس کے سا تھ ایسی ہی ایک اور صلاۃپڑھ لے ‘‘۔

439- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حَيْثُ شَائَ، وَرَدَّهَا حَيْثُ شَائَ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالصَّلاةِ، فَقَامُوا فَتَطَهَّرُوا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ، قَامَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّى بِالنَّاسِ ۔
* تخريج: خ/مواقیت الصلاۃ ۳۵ (۵۹۵)، ن/الإمامۃ ۴۷ (۸۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۹۶) (صحیح)

۴۳۹- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں یوں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے تمہا ری روحوں کو جب تک چاہا روکے رکھا، اور جب چا ہا انہیں چھوڑ دیا ، تم اٹھو اور صلاۃ کے لئے اذان دو‘‘،چنانچہ سب اٹھے اورسب نے وضو کیا یہاں تک کہ جب سورج چڑھ گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اورآپ نے لو گوں کو صلاۃ پڑھائی ۔

440- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ حِينَ ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى بِهِمْ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۹۶) (صحیح)

۴۴۰- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں ، اس میں ہے: ’’تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیاجس وقت سورج چڑھ گیا پھر انہیں صلاۃ پڑھا ئی ‘‘۔
441- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ -وَهُوَ الطَّيَالِسِيُّ- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ- عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ أَنْ تُؤَخِّرَ صَلاةً حَتَّى يَدْخُلَ وَقْتُ أُخْرَى >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۶ (۱۷۷)، ن/المواقیت ۵۳(۶۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۵) (صحیح)

۴۴۱- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوجانے میں کوتاہی نہیں ہے، بلکہ کوتا ہی یہ ہے کہ تم جاگتے ہوئے کسی صلاۃ میں اس قدر دیر کر د و کہ دوسری صلاۃ کا وقت آجا ئے ‘‘۔

442- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لا كَفَّارَةَ لَهَا إِلا ذَلِكَ >۔
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۴)، ت/الصلاۃ ۱۷ (۱۷۸)، ن/المواقیت ۵۱ (۶۱۴)، ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۰)، وقد أخرجہ: خ/المواقیت ۳۷ (۵۹۷)، حم (۳/۱۰۰، ۲۴۳، ۲۶۶، ۲۶۹، ۲۸۲)، دي/الصلاۃ ۲۶ (۱۲۶۵) (صحیح)

۴۴۲- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کوئی صلاۃ بھول جا ئے توجب یاد آئے اسے پڑھ لے ، یہی اس کا کفا رہ ہے اس کے علاوہ اس کا کو ئی اور کفا رہ نہیں ‘‘ ۔

443- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ فِي مَسِيرٍ لَهُ فَنَامُوا عَنْ صَلاةِ الْفَجْرِ، فَاسْتَيْقَظُوا بِحَرِّ الشَّمْسِ، فَارْتَفَعُوا قَلِيلا حَتَّى اسْتَقَلَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، ثُمَّ أَقَامَ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۱۵)، وقد أخرجہ: خ/التیمم ۶ (۳۴۴)، م/المساجد ۵۵ (۶۸۲) (کلا ھما من غیر طریق الحسن)، حم (۴/۴۳۱، ۴۴۱، ۴۴۴) (صحیح)

۴۴۳- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کہ لو گ صلاۃ فجر میں سوئے رہ گئے ، سورج کی گرمی سے وہ بیدا ر ہوئے تو تھو ڑی دور چلے یہاں تک کہ سورج چڑ ھ گیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا،تو اس نے اذان دی تو آپ نے فجر (کی فرض صلاۃ) سے پہلے دو رکعت سنت پڑھی، پھر (مؤذن نے) تکبیر کہی اور آپ نے فجر پڑھائی۔

444- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ -وَهَذَا لَفْظُ عَبَّاسٍ- أَنَّ عَبْدَاللَّهِ ابْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُمْ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ -يَعْنِي الْقِتْبَانِيَّ- أَنَّ كُلَيْبَ بْنَ صُبْحٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ الزِّبْرِقَانَ حَدَّثَهُ، عَنْ عَمِّهِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَنَامَ عَنِ الصُّبْحِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: < تَنَحَّوْا عَنْ هَذَا الْمَكَانِ >، قَالَ: ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَذَّنَ، ثُمَّ تَوَضَّئُوا وَصَلَّوْا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الصَّلاةَ، فَصَلَّى بِهِمْ صَلاةَ الصُّبْحِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۱، ۱۳۹) (صحیح)

۴۴۴- عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے،آپ فجر میں سوئے رہ گئے، یہاں تک کہ سورج نکل آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدا ر ہوئے اور فرمایا: ’’اس جگہ سے کوچ کر چلو‘‘،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی پھرلوگوں نے وضو کیا اور فجر کی دو نوں سنتیں پڑھیں ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا،انہوں نے صلاۃ کے لئے تکبیر کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فجر پڑھا ئی۔

445- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ-، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ (ح) وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرٌ -يَعْنِي الْحَلَبِيَّ-، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ-، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ ذِي مِخْبَرٍ الْحَبَشِيِّ -وَكَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم - فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ -يَعْنِي النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم - وُضُوئًا لَمْ يَلْثَ مِنْهُ التُّرَابُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالا فَأَذَّنَ، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ غَيْرَ عَجِلٍ، ثُمَّ قَالَ لِبِلالٍ: <أَقِمِ الصَّلاةَ> ثُمَّ صَلَّى الْفَرْضَ وَهُوَ غَيْرُ عَجِلٍ، قَالَ: عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ صُلَيْحٍ: حَدَّثَنِي ذُو مِخْبَرٍ رَجُلٌ مِنَ الْحَبَشَةِ، و قَالَ عُبَيْدٌ: يَزِيدُ بْنُ صَالِحٍ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۸)، وقد أخرجہ: (۴/۹۰) (صحیح)

۴۴۵- ذی مخبر حبشی رضی اللہ عنہ (خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس واقعے میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اتنے پانی سے) وضو کیا کہ مٹی اس سے بھیگ نہیں سکی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انہوں نے اذان دی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آہستہ آہستہ ٹھہرٹھہر کر اطمینان سے دو رکعتیں ادا کیں، پھر بلا ل رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’صلاۃ کے لئے تکبیر کہو‘‘ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض صلاۃ کو ٹھہر ٹھہر کر اطمینا ن سے ادا کیا۔
حجا ج کی روایت میں’’عن يزيد بن صليح حدثني ذو مخبر رجلٌ من الحبشة‘‘ہے اور عبید کی روایت میں ’’يزيد بن صليح‘‘کے بجائے ’’يزيد بن صالح‘‘ہے۔

446- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ حَرِيزٍ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ-، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ صُلَيْحٍ، عَنْ ذِي مِخْبَرٍ ابْنِ أَخِي النَّجَاشِيِّ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَأَذَّنَ وَهُوَ غَيْرُ عَجِلٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۸) (شاذ)

(ولید بن مسلم مدلس ہیں اوردیگر رواۃ کی مخالفت کرتے ہوے اذان کی بابت بھی ’’وھو غیر عجل‘‘ بڑھادیاہے)
۴۴۶- اس سند سے بھی ذی مخبر سے یہی حدیث مر وی ہے اس میں ہے: انہوں نے بغیر جلد بازی کے ٹھہر ٹھہر کر اذان دی۔

447- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَلْقَمَةَ سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <مَنْ يَكْلَؤُنَا؟>، فَقَالَ بِلالٌ: أَنَا، فَنَامُوا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: <افْعَلُوا كَمَا كُنْتُمْ تَفْعَلُونَ>، قَالَ: فَفَعَلْنَا، قَالَ: <فَكَذَلِكَ فَافْعَلُوا لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِيَ>۔
* تخريج: ن/المواقیت ۵۴ (۶۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۶، ۳۹۱، ۴۶۴) (صحیح)

۴۴۷- عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :ہم صلح حدیبیہ کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے، آپ نے فرمایا: ’’رات میں ہماری نگرانی کون کر ے گا ؟‘‘،بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، پھر لو گ سو ئے رہے یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدا ر ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم ویسے ہی کرو جیسے کیا کرتے تھے‘‘۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنا نچہ ہم لوگوں نے ویسے ہی کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو کو ئی سو جائے یا( صلاۃ پڑھنی) بھول جائے تووہ اسی طرح کرے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جس طرح وقت پر اداکی جانے والی صلاۃمیں کیاجاتاہے اسی طرح اس کی قضا صلاۃمیں کرے ،پس فجرکی قضا صلاۃ میں بھی قراء ت جہری ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ
۱۲-باب: مسا جد کی تعمیر کابیان​


448- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي فَزَارَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ>.
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۴)، وقد أخرجہ: ق/المساجد والجماعات ۲ (۷۴۰) (صحیح)

۴۴۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے مسجدوں کے بلند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے‘‘۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : تم مسجدیں اسی طرح سجاؤگے جس طرح یہو دونصا ریٰ سجاتے تھے ۔

449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَنَسٍ وَقَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: <لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ>۔
* تخريج: ن/المساجد ۲ (۶۹۰)، ق/المساجد ۲ (۷۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۳۴، ۱۷۵، ۲۳۰) (صحیح)

۴۴۹- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر ومباہات نہ کرنے لگیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک دوسرے پر فخر کرے گا کہ میری مسجد بلند، عمدہ اور مزین ہے، ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے زیادہ مسجدوں کی آرائش وزیبائش اور زیادہ روشنی شرعا ممنوع اور نا پسندیدہ ہے، مسجد کی اصل زینت اور آرائش یہ ہے کہ وہاں پنچ وقتہ اذان و اقامت اور سنت کے مطابق صلاۃ اپنے وقت پرہو۔

450- حَدَّثَنَا رَجَائُ بْنُ الْمُرَجَّى، حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الدَّلالُ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَبَّبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عِيَاضٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَجْعَلَ مَسْجِدَ الطَّائِفِ حَيْثُ كَانَ طَوَاغِيتُهُمْ۔
* تخريج: ق/المساجد والجماعات ۳ (۷۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۹) (ضعیف)

(اس کے راوی ابن عیاض لین الحدیث ہیں)
۴۵۰- عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طائف کی مسجد ایسی جگہ بنانے کا حکم دیا، جہاں طائف والوں کے بت تھے ۔

451- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، وَهُوَ أَتَمُّ، قَالا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمَسْجِدَ كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَبْنِيًّا بِاللَّبِنِ وَالْجَرِيدِ، قَالَ مُجَاهِدٌ: وَعُمُدُهُ مِنْ خَشَبِ النَّخْلِ، فَلَمْ يَزِدْ فِيهِ أَبُو بَكْرٍ شَيْئًا، وَزَادَ فِيهِ عُمَرُ وَبَنَاهُ عَلَى بِنَائِهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِاللَّبِنِ وَالْجَرِيدِ، وَأَعَادَ عُمُدَهُ، قَالَ مُجَاهِدٌ: عُمُدَهُ خَشَبًا، وَغَيَّرَهُ عُثْمَانُ فَزَادَ فِيهِ زِيَادَةً كَثِيرَةً، وَبَنَى جِدَارَهُ بِالْحِجَارَةِ الْمَنْقُوشَةِ وَالْقَصَّةِ وَجَعَلَ عُمُدَهُ مِنْ حِجَارَةٍ مَنْقُوشَةٍ وَسَقْفَهُ بِالسَّاجِ، قَالَ مُجَاهِدٌ: وَسَقَّفَهُ السَّاجَ .
قَالَ أَبودَاود: الْقَصَّةُ الْجِصُّ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۶۲ (۴۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۳۰) (صحیح)

۴۵۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نے میں مسجد نبوی کچی اینٹوںاور کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی، مجا ہد کہتے ہیں: اس کے ستون کھجو ر کی لکڑی کے تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا، البتہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس میںاضا فہ کیا، اور اس کی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا ئی ہو ئی بنیا دوں کے مطا بق کچی اینٹوں اور کھجو ر کی شاخوں سے کی اور اس کے ستون بھی نئی لکڑی کے لگائے، مجا ہدکی روایت میں’’عُمُدَهُ خَشَبًا‘‘کے الفاظ ہیں، پھرعثما ن رضی اللہ عنہ نے اس کی عمارت میں تبدیلی کی اور اس میں بہت سارے اضافے کئے، اس کی دیواریں منقش پتھروں اورگچ(چونا) سے بنوائیں، اس کے ستون منقش پتھروں کے بنوائے اور اس کی چھت سا گوان کی لکڑی کی بنوائی۔
مجا ہدکی روایت میں’’وسقفه بالساج‘‘کے بجائے’’وسقَّفه بالساج‘‘ہے۔
ابو دا ودکہتے ہیں: حدیث میں مذکور (قصة) کے معنی گچ کے ہیں۔

452- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ مَسْجِدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَتْ سَوَارِيهِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ جُذُوعِ النَّخْلِ، أَعْلاهُ مُظَلَّلٌ بِجَرِيدِ النَّخْلِ، ثُمَّ إِنَّهَا نَخِرَتْ فِي خِلافَةِ أَبِي بَكْرٍ فَبَنَاهَا بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَبِجَرِيدِ النَّخْلِ، ثُمَّ إِنَّهَا نَخِرَتْ فِي خِلافَةِ عُثْمَانَ فَبَنَاهَا بِالآجُرِّ فَلَمْ تَزَلْ ثَابِتَةً حَتَّى الآنَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۳۵) (ضعیف)
(اس کے ایک راوی’’عطیہ عوفی‘‘ضعیف ہیں)
۴۵۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے، اس کے اوپر کھجو ر کی شاخوں سے سا یہ کر دیا گیا تھا، پھر وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلا فت میں بو سیدہ ہو گئی تو انہوں نے اس کو کھجو ر کے تنوں اور اس کی ٹہنیوں سے بنوایا، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کی خلا فت میں وہ بھی بو سیدہ ہو گئی توانہوں نے اسے پکی اینٹوں سے بنوادیا، جو اب تک باقی ہے ۔

453- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِينَ سُيُوفَهُمْ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفُهُ وَمَلأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلاةُ، وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَإِنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَأَرْسَلَ إِلَى بَنِي النَّجَّارِ فَقَالَ: < يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا > فَقَالُوا: وَاللَّهِ لا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ، قَالَ أَنَسٌ: وَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ: كَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَتْ فِيهِ خِرَبٌ، وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ، وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ، وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ، وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً، وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ، وَالنَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَعَهُمْ [وَهُوَ] يَقُولُ:
اللَّهُمَّ لا خَيْرَ إِلا خَيْرَ الآخِرَهْ

فَانْصُرِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ
* تخريج: خ/الصلاۃ ۴۸ (۴۲۸)، وفضائل المدینۃ ۱ (۱۸۶۸)، وفضائل الأنصار ۴۶ (۳۹۰۶)، م/المساجد ۱ (۵۲۴)، ن/المساجد ۱۲ (۷۰۳)، ق/المساجد ۳ (۷۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۱)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۴۲ (۳۵۰)، حم (۳/۱۱۸، ۱۲۳، ۲۱۲، ۲۴۴) (صحیح)

۴۵۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لا ئے توآپ شہر کے بالائی حصہ میں ایک محلہ میں اترے، جسے بنی عمرو بن عوف کا محلہ کہا جاتا تھا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چو دہ دن تک قیام پذیر رہے، پھر آپ نے بنونجا ر کے لوگوں کو بلوایا تو وہ اپنی تلوار یں لٹکا ئے آئے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں،آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوارہیں، اور بنو نجا ر کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرد گرد ہیں یہاں تک کہ آپ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے مکان کے صحن میں اترے،جس جگہ صلاۃ کا وقت آجاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ پڑھ لیتے تھے، بکر یوں کے باڑے میں بھی صلاۃ پڑھ لیتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنا نے کا حکم فرمایا اوربنو نجا ر کے لو گوں کو بلوایا،( وہ آئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’اے بنو نجا ر! تم مجھ سے اپنے اس با غ کی قیمت لے لو‘‘، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم !ہم اس کی قیمت اللہ ہی سے چاہتے ہیں۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس باغ میں جو چیزیں تھیں وہ میں تمہیں بتا تا ہوں: اس میں مشرکوں کی قبریں تھیں، ویران جگہیں، کھنڈرات اورکھجو ر کے درخت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ، مشرکوں کی قبریں کھود کرپھینک دی گئیں،ویران جگہیں اور کھنڈر ہموار کر دیئے گئے، کھجور کے درخت کا ٹ ڈالے گئے، ان کی لکڑیاں مسجد کے قبلے کی طرف قطار سے لگادی گئیں اور اس کے دروازے کی چوکھٹ کے دونوں بازو پتھروں سے بنائے گئے، لوگ پتھر اٹھاتے جاتے تھے اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے اور فرماتے تھے:
اللَّهُمَّ لا خَيْرَ إِلا خَيْرَ الآخِرَةِ
فَانْصُرِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

اے اللہ! بھلائی تو دراصل آخرت کی بھلا ئی ہے
تو تو انصار و مہا جرین کی مدد فرما

454- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ مَوْضِعُ الْمَسْجِدِ حَائِطًا لِبَنِي النَّجَّارِ فِيهِ حَرْثٌ وَنَخْلٌ وَقُبُورُ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <ثَامِنُونِي بِهِ> فَقَالُوا: لا نَبْغِي بِهِ ثَمَنًا، فَقُطِعَ النَّخْلُ، وَسُوِّيَ الْحَرْثُ، وَنُبِشَ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: < فَاغْفِرْ > مَكَانَ < فَانْصُرْ > قَالَ مُوسَى: وَحَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بِنَحْوِهِ، وَكَانَ عَبْدُالْوَارِثِ يَقُولُ: خَرِبٌ، وَزَعَمَ عَبْدُالْوَارِثِ أَنَّهُ أَفَادَ حَمَّادًا هَذَا الْحَدِيثَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۱) (صحیح)

۴۵۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی جگہ پر قبیلہ بنو نجا ر کا ایک با غ تھا، اس میں کچھ کھیت ،کچھ کھجو ر کے درخت اور مشرکوں کی قبریں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’مجھ سے اس کی قیمت لے لو‘‘، انہوں نے کہا : ہم اس کی قیمت نہیں چاہتے،تو کھجورکے درخت کا ٹے گئے،کھیت برابرکئے گئے اور مشرکین کی قبریں کھدوائی گئیں، پھرراوی نے پو ری حدیث بیان کی، مگر اس حدیث میں لفظ ’’فانصر‘‘ کی جگہ لفظ ’’فاغفر‘‘ہے (یعنی اے اللہ! تو انصار ومہا جرین کو بخش دے)۔
مو سیٰ نے کہا: ہم سے عبدالوارث نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور عبدالوارث ’’حرث‘‘ کے بجائے ’’خرب‘‘ (ویرانے) کی روایت کرتے ہیں، عبدالوارث کاکہنا ہے کہ انہوں نے ہی حماد سے یہ حدیث بیان کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ
۱۳-باب: گھراور محلہ میں مساجد بنا نے کا بیان​


455- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ۔
* تخريج: ق/المساجد والجماعات ۹ (۷۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۹۱)، وقد أخرجہ: ت/الجمعۃ ۶۴ (۵۹۴)، حم (۵/۱۲، ۲۷۱) (صحیح)

۴۵۵- امّ المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھراور محلہ میں مسجدیں بنا نے،انہیں پا ک صاف رکھنے اور خوشبو سے بسا نے کا حکم د یا ہے ۔

456- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ــ يَعْنِي ابْنَ حَسَّانَ ــ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ابْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ أَبِيهِ سَمُرَةَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى ابْنِهِ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَأْمُرُنَا بِالْمَسَاجِدِ أَنْ نَصْنَعَهَا فِي دِيَارِنَا وَنُصْلِحَ صَنْعَتَهَا وَنُطَهِّرَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، حم (۵/۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۶) (صحیح)

۴۵۶- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے( سلیمان) کو لکھا : حمد وصلاۃ کے بعد معلوم ہو نا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھروں اور محلو ں میں مسجد یں بنا نے اورانہیں درست ا ورپا ک و صاف رکھنے کا حکم دیتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِي السُّرُجِ فِي الْمَسَاجِدِ
۱۴-باب: مساجد میں چراغ جلا نے کا بیان​


457- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ، عَنْ مَيْمُونَةَ مَوْلاةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ: <ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ -وَكَانَتِ الْبِلادُ إِذْ ذَاكَ حَرْبًا- فَإِنْ لَمْ تَأْتُوهُ وَتُصَلُّوا فِيهِ فَابْعَثُوا بِزَيْتٍ يُسْرَجُ فِي قَنَادِيلِهِ >۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۹۶ (۱۴۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۶۳) (ضعیف)
(زیاد اور میمونہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن ابن ماجہ کی سند میں یہ واسطہ عثمان بن أبی سودۃ ہے، اس حدیث کی تصحیح بوصیری نے کی ہے، اور نووی نے تحسین کی ہے، البانی نے صحیح أبی داود (۶۸) میں اس کی تصحیح کی ہے، اور اخیر خبر میں نکارت کا ذکر کیا ہے، ناشر نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ البانی صاحب نے بعد میں صحیح أبی داود سے ضعیف أبی داود میں منتقل کردیا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اس پر اپنے فیصلے کو تبدیل کریں، جبکہ آخری حدیث میں ذہبی سے نکارت کی وجہ بیان کردی ہے، کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، تو حجاز سے اس کو وہاں بھیجنے کا کیا مطلب، اور یہ کہ یہ تیل نصارے کے لئے وہ بھیجیں کہ وہ صلیب وتمثال پر اس کو جلائیں، یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے )
۴۵۷- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کر دہ لو نڈی میمو نہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ بیت المقدس کے سلسلے میں ہمیں حکم دیجئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم وہاں جا ئواور اس میں صلاۃ پڑھو‘‘، اس زما نے میں ان شہروں میں لڑائی پھیلی ہو ئی تھی، (پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) ’’اگر تم وہاں نہ جا سکو اور صلاۃ نہ پڑھ سکو تو تیل ہی بھیج دوکہ اس کی قندیلوں میں جلایا جاسکے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب فِي حصى الْمَسجد
۱۵-باب: مسجد کی کنکریوں کا بیان​


458- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ تَمَّامِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سُلَيْمٍ الْبَاهِلِيُّ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ، سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْحَصَى الَّذِي فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مُطِرْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ فَأَصْبَحَتِ الأَرْضُ مُبْتَلَّةً؛ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَأْتِي بِالْحَصَى فِي ثَوْبِهِ فَيَبْسُطُهُ تَحْتَهُ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلاةَ قَالَ: < مَاْ أَحْسَنَ هَذَا! >.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۹۴) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ابوالولید‘‘مجہول ہیں)
۴۵۸- ابو الولید سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مسجد کی کنکریوں کے متعلق پو چھاتوانہوں نے کہا: ایک رات بارش ہو ئی، زمین گیلی ہو گئی تولوگ اپنے کپڑوں میں کنکریاں لالا کر اپنے نیچے بچھا نے لگے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ پڑھ چکے تو فرمایا:’’ کتنا اچھا کام ہے یہ ‘‘۔

459- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ قَالا: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا أَخْرَجَ الْحَصَى مِنَ الْمَسْجِدِ يُنَاشِدُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۳۷) (صحیح)

۴۵۹- ابو صالح کہتے ہیں کہ کہاجاتا تھا: جب آدمی کنکریوں کو مسجد سے نکا لتا ہے تووہ اسے قسم دلاتی ہیں(کہ ہمیں نہ نکالو) ۔

460- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي الصَّاغَانِيَّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُوبَدْر: أُرَاهُ قَدْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: <إِنَّ الْحَصَاةَ لَتُنَاشِدُ الَّذِي يُخْرِجُهَا مِنَ الْمَسْجِدِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۳۷) (ضعیف)
(اس میں ’’قاضی شریک‘‘ضعیف راوی ہیں)
۴۶۰- ابو بدر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کنکری اس شخص کو قسم دلاتی ہے جو اس کو مسجد سے نکا لتا ہے‘‘ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب فِي كَنْسِ الْمَسْجِدِ
۱۶-باب: مسجد میں جھا ڑودینے کا بیان​


461- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالْحَكَمِ الْخَزَّازُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّى الْقَذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوتِيَهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا>۔
* تخريج: ت/فضائل القرآن ۱۹ (۲۹۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۲) (ضعیف)

(ابن جریج اور مطلب دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، دونوں کے مابین انقطاع ہے، نیز مطلب اور انس کے درمیان انقطاع ہے مطلب کا کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۱؍۱۶۴)۔
۴۶۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ پر میری امت کے ثواب پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ تنکابھی جسے آدمی مسجد سے نکا لتا ہے، اورمجھ پر میری امت کے گنا ہ پیش کئے گئے تو میں نے دیکھا کہ اس سے بڑاکوئی گناہ نہیں کہ کسی کو قرآن کی کو ئی سورت یا آیت یا د ہو پھر وہ اسے بھلا دے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب فِي اعْتِزَالِ النِّسَاءِ فِي الْمَسَاجِدِ عَنِ الرِّجَالِ
۱۷-باب: مساجد میں عورتیں مردوں سے الگ تھلگ رہیں​


462- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < لَوْ تَرَكْنَا هَذَا الْبَابَ لِلنِّسَاءِ > قَالَ نَافِعٌ: فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ ابْنُ عُمَرَ حَتَّى مَاتَ،وَقَالَ غَيْرُ عَبْدِالْوَارِثِ: قَالَ عُمَرُ، وَهُوَ أَصَحُّ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۸۸)، ویأتی ہذا الحدیث عند المؤلف برقم (۵۷۱) (صحیح)

۴۶۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگرہم اس دروازے کوعورتوں کے لئے چھوڑ دیں (تو بہتر ہے) ‘‘ ۱؎ ۔
نا فع کہتے ہیں: تو ابن عمر رضی اللہ عنہما تا حیا ت ا س دروازے سے مسجد میں داخل نہیں ہوئے ۔
عبدالوارث کے علا وہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے) یہ عمر رضی اللہ عنہ کاقول ہے اور یہی زیا دہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس سے مسجد میں آنے جانے میں عورتوں کامردوں سے اختلاط اور میل جول نہیں ہوگا۔

463- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه بِمَعْنَاهُ، وَهُوَ أَصَحُّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۸۸) (صحیح)

۴۶۳- نا فع سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی اور یہی زیادہ صحیح ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کااپنا قول ہے،یہی صحیح روایت ہے۔

464- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ -يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ- حَدَّثَنَا بَكْرٌ -يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ- عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَنْهَى أَنْ يُدْخَلَ مِنْ بَابِ النِّسَاءِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۸۸) (صحیح)

۴۶۴- نا فع سے روایت ہے کہ عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ (مردوں کو) عورتوں کے دروازہ سے داخل ہونے سے منع کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب فِيمَا يَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ
۱۸-باب: آدمی جب مسجد میں داخل ہو تو کیا کہے؟​


465- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ- عَنْ رَبِيعَةَ ابْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ، أَوْ أَبَا أُسَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، ثُمَّ لِيَقُلِ: اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ، فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۰ (۷۱۳)، ن/المساجد ۳۶ (۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۹۶)، وقد أخرجہ: ق/المساجد والجماعات ۱۳ (۷۷۲)، حم (۵/ ۴۲۵) دي/الصلاۃ ۱۱۵ (۱۴۳۴)، والاستئذان ۵۶ (۷۷۲)
(صحیح)

۴۶۵- ابو حمید یا ابواسید انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کو ئی شخص مسجد میں داخل ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر یہ دعا پڑھے:’’اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ‘‘( اے اللہ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے) پھر جب نکلے تو یہ کہے:’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ‘‘( اے اللہ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں)‘‘۔

466- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ بِشْرِ بْنِ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، قَالَ: لَقِيتُ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ فَقُلْتُ لَهُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ حَدَّثْتَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ قَالَ: <أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ> قَالَ: أَقَطْ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ، قَالَ الشَّيْطَانُ: حُفِظَ مِنِّي سَائِرَ الْيَوْمِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۹۰) (صحیح)

۴۶۶- حیوہ بن شریح کہتے ہیں کہ میں عقبہ بن مسلم سے ملا تومیں نے ان سے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں تشریف لے جا تے تو فرما تے: ’’أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ، وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ، مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‘‘ (میں اللہ عظیم کی ، اس کی ذات کریم کی اوراس کی قدیم بادشاہت کی مردود شیطان سے پناہ چا ہتا ہوں) توعقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: جب مسجد میں داخل ہو نے والا آدمی یہ کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے: اب وہ میرے شر سے دن بھرکے لئے محفوظ کرلیا گیا۔
 
Top