28- بَاب كَيْفَ الأَذَانُ؟
۲۸-باب: اذان کس طرح دی جائے؟
499- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلاةِ طَافَ بِي -وَأَنَا نَائِمٌ- رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَاللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ فَقُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلاةِ، قَالَ: أَفَلا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟ فَقُلْتُ [لَهُ]: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنّي غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ قَالَ: وَتَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلاةَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ: < إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ > فَقُمْتُ مَعَ بِلالٍ، فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ، قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَائَهُ، وَيَقُولُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < فَلِلَّهِ الْحَمْدُ >.
قَالَ أَبودَاود: هَكَذَا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، و قَالَ فِيهِ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِيِّ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، و قَالَ مَعْمَرٌ وَيُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِيهِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَمْ يُثَنِّيَا۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۵ (۱۸۹)، ق/الأذان ۱ (۷۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۰۹)، حم (۴/۴۲)، دي/الصلاۃ ۳ (۱۲۲۴) (صحیح)
۴۹۹- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کی تیا ری کاحکم دینے کاارادہ کیا تاکہ لوگوں کو صلاۃ کی خاطرجمع ہو نے کے لئے اسے بجایا جاسکے تو ایک را ت میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ۱؎ کے ہا تھ میں نا قوس ہے، میں نے اس سے پوچھا: اللہ کے بندے! کیا اسے فروخت کروگے؟ اس نے کہا: تم اسے کیا کر و گے؟ میں نے کہا:ہم اس کے ذریعے لو گوں کو صلاۃ کے لئے بلا ئیں گے ، اس شخص نے کہا :کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: کیو ں نہیں، ضرور بتائیے، تو اس نے کہا: تم اس طرح کہو
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘ (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود برحق نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں،صلاۃ کے لئے آ ئو ، صلاۃ کے لئے آئو ، کامیابی کی طرف آئو، کا میابی کی طرف آئو، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کو ئی معبود برحق نہیں )۔
عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : پھر وہ شخص مجھ سے تھو ڑا پیچھے ہٹ گیا، زیا دہ دور نہیں گیا پھراس نے کہا: جب تم صلاۃ کے لئے کھڑے ہو تو اس طرح کہو:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ‘‘۔
پھر جب صبح ہو ئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھاتھا اسے آپ سے بیان کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہے‘‘،پھر فرمایا: ’’تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جا ئو اور جوکلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جا ئو تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند ہے‘‘ ۲؎ ۔
چنا نچہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو ا،میں انہیں اذان کے کلما ت بتا تا جا تا تھا اور وہ اسے پکا رتے جا تے تھے۔
وہ کہتے ہیں : تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم !جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح عبداللہ نے دیکھا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’الحمد للہ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں :اسی طرح زہری کی روایت ہے، جسے انہوں نے سعید بن مسیب سے، اورسعید نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،اس میں ابن اسحاق نے زہری سے یوں نقل کیا ہے:
’’الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر‘‘ (یعنی چار بار) اورمعمراور یونس نے زہری سے صرف’’الله أكبر، الله أكبر‘‘ کی روایت کی ہے، اسے انہوں نے دہرایا نہیں ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ایک فرشتہ تھا جواللہ کی طرف سے اذان سکھانے کے لئے مامور ہوا تھا۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مؤذن کابلند آواز ہونابہتر ہے۔
500- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي سُنَّةَ الأَذَانِ، قَالَ: فَمَسَحَ مُقَدَّمَ رَأْسِي، وَقَالَ: < تَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، تَرْفَعُ بِهَا صَوْتَكَ، ثُمَّ تَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ: تَخْفِضُ بِهَا صَوْتَكَ، ثُمَّ تَرْفَعُ صَوْتَكَ بِالشَّهَادَةِ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، فَإِنْ كَانَ صَلاةُ الصُّبْحِ قُلْتَ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳ (۳۷۹)، ت/الصلاۃ ۲۶ (۱۹۱)، ن/الأذان ۳ (۶۳۰)، ۴ (۶۳۱)، ق/الأذان ۲ (۷۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹)، حم (۳/ ۴۰۸، ۴۰۹)، دي/الصلاۃ ۷ (۱۲۳۲) (صحیح)
۵۰۰- ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے اذان کا طریقہ سکھادیجئے، تو آپ نے میرے سر کے اگلے حصہ پر(ہاتھ)پھیرا اور فرمایا: ’’کہو:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ‘‘، تم انہیں بلند آواز سے کہو، پھر کہو:
’’أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘ انہیں ہلکی آواز سے کہو، پھر انہیں کلمات شہادت
’’أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘ کو بلند آواز سے کہو ۱؎ ، پھر
’’حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ‘‘ کہو، اور اگر صبح کی اذان ہو تو
’’الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ‘‘ کہو ، پھر
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ‘‘ کہو۔
وضاحت ۱؎ : اس سے ترجیع یعنی شہادتین کو دو دو بار کہنا ثابت ہوا۔
501- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ، أَخْبَرَنِي أَبِي وَأُمُّ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ، وَفِيهِ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ فِي الأُولَى مِنَ الصُّبْحِ.
قَالَ أَبودَاود: وَحَدِيثُ مُسَدَّدٍ أَبْيَنُ، قَالَ فِيهِ: قَالَ: وَعَلَّمَنِي الإِقَامَةَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، و قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ: وَإِذَا أَقَمْتَ فَقُلْهَا مَرَّتَيْنِ: قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، أَسَمِعْتَ؟ قَالَ: فَكَانَ أَبُو مَحْذُورَةَ لا يَجُزُّ نَاصِيَتَهُ وَلا يَفْرُقُهَا لأَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم مَسَحَ عَلَيْهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹) (صحیح)
(لیکن ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے اپنی پیشانی۔۔ والی شق صحیح نہیں ہے)
۵۰۱- اس سند سے بھی ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے، اس میں فجر کی پہلی (اذان) میں
’’الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ‘‘ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: مسدد کی روایت زیا دہ واضح ہے، اس میں یہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوہری تکبیرسکھائی
’’اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘۔
عبدالرزاق کی روایت میں ہے: اور جب تم تکبیر کہو تو دوبار
’’قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ‘‘ کہو، کیا تم نے سنا؟ ۔
اس میں یہ بھی ہے کہ ابو محذو رہ اپنی پیشانی کے بال نہیں کترتے تھے اور نہ ہی اسے جدا کر تے تھے، اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ پھیراتھا۔
502- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ وَسَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ وَحَجَّاجٌ -وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ- قَالُوا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ الأَحْوَلُ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ أَنَّ ابْنَ مُحَيْرِيزٍ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَّمَهُ الأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً، وَالإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً، الأَذَانُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَالإِقَامَةُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، كَذَا فِي كِتَابِهِ فِي حَدِيثِ أَبِي مَحْذُورَةَ۔
* تخريج: انظر حديث رقم: 500، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹) (حسن صحیح)
۵۰۲- ابن محیریز کا بیان ہے کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیا ن کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کے انیس کلمات اورا قامت کے سترہ کلمات سکھا ئے، اذان کے کلما ت یہ ہیں:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘۔
اور اقامت کے کلما ت یہ ہیں:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘ ۔
ہمام بن یحییٰ کی کتا ب میں ابو محذورہ کی جو حدیث مذکو رہے، وہ اسی طرح ہے ( یعنی اقامت کے سترہ کلما ت مذکورہیں) ۔
503- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبْدِالْمَلِكِ ابْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ -يَعْنِي عَبْدَالْعَزِيزِ-، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ: أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم التَّأْذِينَ هُوَ بِنَفْسِهِ فَقَالَ: <قُلِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، [مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ ]، قَالَ: ثُمَّ ارْجِعْ فَمُدَّ [مِنْ] صَوْتِكَ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ>۔
* تخريج: انظر حديث رقم: 500، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹) (صحیح)
۵۰۳- ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خو د مجھے اذان کے کلما ت سکھائے اور فرمایا:
’’کہو: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، دو دو بار‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ پھر دہراؤ اور اپنی آواز کھینچ کر یوں کہو:
أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘۔
504- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّي عَبْدَالْمَلِكِ بْنَ أَبِي مَحْذُورَةَ يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مَحْذُورَةَ يَقُولُ: أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الأَذَانَ حَرْفًا حَرْفًا: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّه، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَالَ: وَكَانَ يَقُولُ فِي الْفَجْرِ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ ۔
* تخريج: انظر حديث رقم: 500، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹) (صحیح)
۵۰۴- عبدالملک کا بیان کہ انہوں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان کے کلمات حرفاً حرفاً یوں سکھائے:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّه، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ‘‘۔
اور فرمایا: فجر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
’’الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ ‘‘ کہتے تھے۔
505- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ الإِسْكَنْدَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادٌ -يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ- عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ -يَعْنِي الْجُمَحِيَّ- عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ الْجُمَحِيِّ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَّمَهُ الأَذَانَ، يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَ أَذَانِ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ وَمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبودَاود: وَفِي حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ أَبِي مَحْذُورَةَ قُلْتُ: حَدِّثْنِي عَنْ أَذَانِ أَبِيكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَذَكَرَ فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، قَطْ.
* تخريج: انظر حديث رقم: 500، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹) (صحیح)
چار مرتبہ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے کی بات صحیح ہے۔
وَكَذَلِكَ حَدِيثُ جَعْفَرِ ابْنِ سُلَيْمَانَ عَنِ ابْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ عَنْ عَمِّهِ عَنْ جَدِّهِ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: ثُمَّ تَرْجِعُ فَتَرْفَعُ صَوْتَكَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ۔ (منکر) (شہادتین میں ترجیع ثابت ومحفوظ ہے)
۵۰۵- ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان سکھا ئی،آپ کہتے تھے:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘۔
پھرروای نے عبدالعزیز بن عبدالملک سے ابن جریح کی اذان کے ہم مثل وہم معنی حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں کہ مالک بن دینارکی حدیث میں ہے کہ نا فع بن عمر نے کہا: میں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے لڑکے سے پوچھا اور کہا: تم مجھ سے اپنے والد ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، کے متعلق بیان کرو توانہوں نے ذکر کیا اور کہا:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ صرف دوبار، اسی طرح جعفر بن سلیما ن کی حدیث ہے جو انہوں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے لڑکے سے، انہوں نے اپنے چچا سے انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے مگر اس روایت میں یہ ہے کہ پھر ترجیع کر واور بلند آواز سے
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ کہو۔
506- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى قَالَ: أُحِيلَتِ الصَّلاةُ ثَلاثَةَ أَحْوَالٍ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < لَقَدْ أَعْجَبَنِي أَنْ تَكُونَ صَلاةُ الْمُسْلِمِينَ -أَوْ [قَالَ:] الْمُؤْمِنِينَ- وَاحِدَةً، حَتَّى لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبُثَّ رِجَالاً فِي الدُّورِ يُنَادُونَ النَّاسَ بِحِينِ الصَّلاةِ، وَحَتَّى هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رِجَالا يَقُومُونَ عَلَى الآطَامِ يُنَادُونَ الْمُسْلِمِينَ بِحِينِ الصَّلاةِ، حَتَّى نَقَسُوا أَوْ كَادُوا أَنْ يَنْقُسُوا >.
قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمَّا رَجَعْتُ لِمَا رَأَيْتُ مِنِ اهْتِمَامِكَ رَأَيْتُ رَجُلا كَأَنَّ عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ أَخْضَرَيْنِ، فَقَامَ عَلَى الْمَسْجِدِ فَأَذَّنَ، ثُمَّ قَعَدَ قَعْدَةً، ثُمَّ قَامَ فَقَالَ مِثْلَهَا إِلا أَنَّهُ يَقُولُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، وَلَوْلا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: أَنْ تَقُولُوا، لَقُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ يَقْظَانَ غَيْرَ نَائِمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: < لَقَدْ أَرَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا > وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو: < لَقَدْ أَرَاكَ اللَّهُ خَيْرًا >، فَمُرْ بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَى، وَلَكِنِّي لَمَّا سُبِقْتُ اسْتَحْيَيْتُ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا، قَالَ: وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا جَاءَ يَسْأَلُ فَيُخْبَرُ بِمَا سُبِقَ مِنْ صَلاتِهِ، وَإِنَّهُمْ قَامُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَرَاكِعٍ وَقَاعِدٍ وَمُصَلٍّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: قَالَ عَمْرٌو: وَحَدَّثَنِي بِهَا حُصَيْنٌ عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى حَتَّى جَاءَ مُعَاذٌ قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ حُصَيْنٍ، فَقَالَ: لاأَرَاهُ عَلَى حَالٍ، إِلَى قَوْلِهِ: < كَذَلِكَ فَافْعَلُوا >.
قَالَ أَبودَاود: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مَرْزُوقٍ، قَالَ فَجَاءَ مُعَاذٌ فَأَشَارُوا إِلَيْهِ، قَالَ شُعْبَةُ: وَهَذِهِ سَمِعْتُهَا مِنْ حُصَيْنٍ، قَالَ: فَقَالَ مُعَاذٌ: لا أَرَاهُ عَلَى حَالٍ إِلا كُنْتُ عَلَيْهَا، قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ مُعَاذًا قَدْ سَنَّ لَكُمْ سُنَّةً، كَذَلِكَ فَافْعَلُوا.
قَالَ: وَحَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ أَمَرَهُمْ بِصِيَامِ ثَلاثَةِ [أَيَّامٍ] ثُمَّ أُنْزِلَ رَمَضَانُ، وَكَانُوا قَوْمًا لَمْ يَتَعَوَّدُوا الصِّيَامَ، وَكَانَ الصِّيَامُ عَلَيْهِمْ شَدِيدًا، فَكَانَ مَنْ لَمْ يَصُمْ أَطْعَمَ مِسْكِينًا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} فَكَانَتِ الرُّخْصَةُ لِلْمَرِيضِ وَالْمُسَافِرِ، فَأُمِرُوا بِالصِّيَامِ.
قَالَ: وَحَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا قَالَ: وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَفْطَرَ فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يَأْكُلَ، لَمْ يَأْكُلْ حَتَّى يُصْبِحَ، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ [بْنُ الْخَطَّابِ] فَأَرَادَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ نِمْتُ، فَظَنَّ أَنَّهَا تَعْتَلُّ فَأَتَاهَا، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَأَرَادَ الطَّعَامَ فَقَالُوا: حَتَّى نُسَخِّنَ لَكَ شَيْئًا، فَنَامَ، فَلَمَّا أَصْبَحُوا أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الآيَةُ: {أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ}۔
* تخريج: تفرد به ابو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۴۴، ۱۵۶۲۷، ۱۸۹۷۲)، حم (۵/۲۳۳، ۲۴۶) (صحیح)
۵۰۶- ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ صلاۃ تین حالتوں سے گزری، ہما رے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے یہ با ت بھلی معلوم ہو ئی کہ سارے مسلمان یا سارے مومن مل کر ایک ساتھ صلاۃ پڑھا کریں، اور ایک جماعت ہو اکرے، یہاں تک کہ میں نے قصد کیا کہ لو گوں کو بھیج دیا کروں کہ وہ صلاۃ کے وقت لوگوں کے گھروں اور محلو ں میں جاکر پکا ر آیا کریں کہ صلاۃ کا وقت ہو چکا ہے۔
پھر میں نے قصد کیا کہ کچھ لو گوں کو حکم دوں کہ وہ ٹیلوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو صلاۃ کے وقت سے با خبر کریں، یہاں تک کہ لوگ ناقوس بجا نے لگے یا قریب تھا کہ بجا نے لگ جا ئیں‘‘، اتنے میں ایک انصاری (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ )آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میں آپ کے پاس سے گیا تو میں اسی فکر میں تھا، جس میں آپ تھے کہ اچانک میں نے (خواب میں) ایک شخص ( فرشتہ )کو دیکھا، گو یا وہ سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہو ئے ہے، وہ مسجد پر کھڑا ہو ا، اور اذان دی، پھر تھوڑی دیر بیٹھا پھر کھڑا ہوا اور جو کلمات اذان میں کہے تھے، وہی اس نے پھر دہرائے، البتہ:
’’قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ‘‘ کا اس میں اضافہ کیا ۔
اگرمجھے اندیشہ نہ ہو تا کہ لو گ مجھے جھو ٹا کہیں گے( اور ابن مثنی کی روایت میں ہے کہ تم (لوگ )جھوٹا کہوگے) تو میں یہ کہتا کہ میں بیدار تھا، سو نہیں رہا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عز وجل نے تمہیں بہتر خواب دکھا یاہے‘‘ (یہ ابن مثنی کی روایت میں ہے اور عمرو بن مر زوق کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہتر خواب دکھایاہے)، (پھر فرمایا): ’’تم بلال سے کہو کہ وہ اذان دیں‘‘۔
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ (آکر)کہنے لگے: میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے جیسے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے، لیکن چو نکہ میں پیچھے رہ گیا، اس لئے شرم سے نہیں کہہ سکا۔
ابن ابی لیلی کہتے ہیں: ہم سے ہمارے صحابۂ کرام نے بیان کیاکہ جب کو ئی شخص (صلاۃ با جماعت ادا کر نے کے لئے مسجد میں آتا اوردیکھتا کہ صلاۃ با جماعت ہو رہی ہے)توا ما م کے ساتھ صلاۃ پڑھنے والوں سے پو چھتا کہ کتنی رکعتیں ہوچکی ہیں، وہ مصلی اشارے سے پڑھی ہوئی رکعتیں بتا دیتا اور حال یہ ہوتا کہ لو گ جماعت میں قیام یا رکوع یا قعدے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ پڑھ رہے ہوتے۔
ابن مثنیٰ کہتے ہیں کہ عمرو نے کہا:حصین نے ابن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے مجھ سے یہی حدیث بیان کی ہے اس میں ہے: ’’یہاں تک کہ معاذ رضی اللہ عنہ آئے‘‘۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے بھی یہ حدیث حصین سے سنی ہے اس میں ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حالت میں دیکھوںگاویسے ہی کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معاذ نے تمہارے واسطے ایک سنت مقرر کردی ہے تم ایسے ہی کیا کرو‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں : پھر میں عمر و بن مرزوق کی حدیث کے سیاق کی طرف پلٹتا ہوں، ابن ابی لیلی کہتے ہیں: معاذ رضی اللہ عنہ آئے تو لوگوں نے ان کو اشارہ سے بتلایا، شعبہ کہتے ہیں: اس جملے کو میں نے حصین سے سنا ہے ، ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: تو معاذ نے کہا: میں جس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں گا وہی کروں گا، وہ کہتے ہیں:تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معا ذ نے تمہا رے لئے ایک سنت جاری کردی ہے لہذا تم بھی معا ذ کی طرح کرو‘‘، (یعنی جتنی صلاۃ امام کے ساتھ پاؤ اسے پڑھ لو، بقیہ بعد میں پوری کر لو)۔
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: ہما رے صحا بۂ کرام نے ہم سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لا ئے توآپ نے انہیں (ہر ماہ ) تین دن صیام رکھنے کا حکم دیا، پھر رمضان کے صیام نازل کئے گئے، وہ لو گ صیام رکھنے کے عا دی نہ تھے، اور صیام رکھنا ان پر گراں گزرتا تھا، چنا نچہ جو صیام نہ رکھتا وہ اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا، پھر یہ آیت:
{فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} ۱؎ نازل ہوئی تو رخصت عام نہ رہی، بلکہ صرف مریض اور مسافر کے لئے مخصوص ہوگئی، باقی سب لوگوں کو صیام رکھنے کا حکم ہوا۔
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: ہما رے اصحاب نے ہم سے حدیث بیان کی کہ اوائل اسلام میں جب کو ئی آدمی صیام افطار کر کے سو جاتا اور کھا نا نہ کھا تا تو پھر اگلے دن تک اس کے لئے کھا نا درست نہ ہو تا، ایک بار عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے صحبت کا ارادہ کیا تو بیوی نے کہا : میں کھا نے سے پہلے سو گئی تھی، عمر سمجھے کہ وہ بہا نہ کررہی ہیں، چنا نچہ انہوں نے اپنی بیو ی سے صحبت کرلی، اسی طرح ایک روز ایک انصاری آئے اورانہوں نے کھا نا چا ہا، ان کے گھر والوں نے کہا: ذراٹھہرئیے ہم کھا نا گر م کرلیں، اسی دوران وہ سوگئے، جب صبح ہو ئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریہ آیت اتری:
{أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ} ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’تو جو تم میں سے یہ مہینہ (رمضان) پائے وہ اس کے صیام رکھے‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۸۵)
وضاحت ۲؎ : ’’تمہا رے لئے روزوں کی رات میں اپنی عورتوں سے جماع کر نا حلا ل کردیا گیا ہے‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۸۷)
507- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي دَاوُدَ (ح) وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ابْنُ هَارُونَ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: أُحِيلَتِ الصَّلاةُ ثَلاثَةَ أَحْوَالٍ، وَأُحِيلَ الصِّيَامُ ثَلاثَةَ أَحْوَالٍ، وَسَاقَ نَصْرٌ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَاقْتَصَّ ابْنُ الْمُثَنَّى مِنْهُ قِصَّةَ صَلاتِهِمْ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَطْ، قَالَ: الْحَالُ الثَّالِثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَصَلَّى -يَعْنِي نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ- ثَلاثَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الآيَةَ: {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ} فَوَجَّهَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى الْكَعْبَةِ، وَتَمَّ حَدِيثُهُ، وَسَمَّى نَصْرٌ صَاحِبَ الرُّؤْيَا قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ زَيْدٍ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، وَقَالَ فِيهِ: فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ مَرَّتَيْنِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ مَرَّتَيْنِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، ثُمَّ أَمْهَلَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَامَ فَقَالَ مِثْلَهَا، إِلا أَنَّهُ قَالَ: زَادَ بَعْدَ مَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < لَقِّنْهَا بِلالاً > فَأَذَّنَ بِهَا بِلالٌ .
وقَالَ فِي الصَّوْمِ: قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَصُومُ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَيَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: { كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ} إِلَى قَوْلِهِ: {طَعَامُ مِسْكِينٍ} فَمَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يُفْطِرَ وَيُطْعِمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا أَجْزَأَهُ ذَلِكَ وَهَذَا حَوْلٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ} إِلَى: {أَيَّامٍ أُخَرَ} فَثَبَتَ الصِّيَامُ عَلَى مَنْ شَهِدَ الشَّهْرَ، وَعَلَى الْمُسَافِرِ أَنْ يَقْضِيَ، وَثَبَتَ الطَّعَامُ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ اللَّذَيْنِ لايَسْتَطِيعَانِ الصَّوْمَ، وَجَاءَ صِرْمَةُ وَقَدْ عَمِلَ يَوْمَهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ ۔
* تخريج: تفرد به ابو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۴۴، ۱۵۶۲۷، ۱۸۹۷۲) (صحیح)
۵۰۷- معا ذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صلاۃ میں تین تبدیلیاں ہوئیں، اسی طرح روزوں میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں، پھر نصر نے پو ری لمبی حدیث بیان کی اور ابن مثنیٰ نے صرف بیت المقدس کی طرف صلاۃ پڑھنے کا واقعہ بیان کیا۔
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تیسری حالت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لا ئے ،آپ نے بیت المقدس کی طرف (رخ کرکے) تیرہ مہینے تک صلاۃ پڑھی، پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نا زل فرمائی:
{قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ} ۱؎ تواللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔
ابن مثنیٰ کی حدیث یہاں مکمل ہو گئی اور نصرنے خواب دیکھنے والے کا نام ذکر کیا، وہ کہتے ہیں: انصار کے ایک شخص عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آئے۔
اس میں یوں ہے کہ: ’’ پھر انہوں نے قبلہ کی طرف رخ کیا اورکہا:
’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ‘‘ دوبار،
’’حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ‘‘ دوبار،
’’اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘، یہ کہنے کے بعد تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح ( تکبیر ) کہی، مگر اس میں انہوں نے:
’’حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ‘‘ کے بعد
’’قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ‘‘ کا اضافہ کیا‘‘۔
راوی کہتے ہیں :پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’تم بلا ل کویہ الفاظ سکھلا دو‘‘،چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ اذان دی۔
اورمعاذ رضی اللہ عنہ نے صیام کے بارے میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین صیام رکھا کر تے تھے اور عاشوراء (دسویں محرم) کا صیام بھی رکھتے تھے، پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:
{يَاْ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمنوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ ۔۔۔} اللہ تعالیٰ کے قول:
{طَعَامُ مِسْكِينٍ} تک ۲؎ ، تو اب جو چاہتا صیام رکھتا، اورجو چاہتا نہ رکھتا ،اور ہر صیام کے بدلے ایک مسکین کو کھا نا کھلا دیتا، ایک سال تک یہی حکم رہا، پھر اللہ تعالی نے یہ حکم نا زل فرمایا:
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ۔۔۔} اپنے قول:
{أَيَّاْمٍ أُخَر}تک۳؎ ، پھر صیام ہر اس شخص پر فرض ہو گیا جو ماہ رمضان کو پا ئے، اور مسافر پر قضا کرنا، اور بو ڑھے مرد اورعورت کے لئے جن کو صیام رکھنے کی طاقت نہ ہو فدیہ دینا با قی رہا۔
پھر صرمہ رضی اللہ عنہ آئے،انہوں نے دن بھر کام کیا تھا ... اور راوی نے پو ری حدیث بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : ’’ہم آپ کا چہرہ باربارآسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، تواب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیررہے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں توآپ اپناچہرہ مسجد حرام کی طرف پھیرلیں، اور مسلمانو!تم جہاں کہیں بھی ر ہو صلاۃ کے وقت اپنا رخ اسی کی طرف پھیرے رکھو‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۴۴)
وضاحت ۲؎ : ’’اے ایما ن والو! تم پر صیام فرض کردیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا ،تا کہ تم تقویٰ اختیارکرو، یہ گنتی کے چند ہی دن ہیں، لیکن تم میں سے جوشخص بیمار ہو یا سفرمیں ہوتووہ اور دنوں میں گنتی پوری کرے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کا کھانا دیں‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۸۴)
وضاحت ۳؎ : ’’ماہ رمضان ہی ہے جس میں قرآن نا زل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدا یت ہے، اور جس میں ہدا یت کی اور حق وباطل میں تمیز کی واضح نشانیاں ہیں،لہٰذاجو تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے صوم رکھے، اور جو کو ئی بیما ر یا مسافر ہو وہ اور دنوں سے گنتی پوری کرے‘‘، (سورۃ البقرۃ:۱۸۴-۱۸۵)