- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
170- بَاب رَدِّ السَّلامِ فِي الصَّلاةِ
۱۷۰-باب: صلاۃ میں سلام کا جواب دینا
۱۷۰-باب: صلاۃ میں سلام کا جواب دینا
923- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَهُوَ فِي الصَّلاةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، وَقَالَ: < إِنَّ فِي الصَّلاةِ لَشُغْلا >۔
* تخريج: خ/العمل في الصلاۃ ۳ (۱۲۰۱)، ۱۵ (۱۲۱۶)، مناقب الأنصار ۳۷ (۳۸۷۵)، م/المساجد ۷ (۵۳۸)، ن الکبری / السھو ۹۹ (۵۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۱۸)، وقد أخرجہ: ق/إقامۃ الصلاۃ ۵۹ (۱۰۱۹)، حم (۱/ ۱۷۶، ۱۷۷، ۴۰۹، ۴۱۵، ۴۳۵، ۴۶۲) (صحیح)
۹۲۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کر تے اس حال میں کہ آپ صلاۃ میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہما رے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجا شی (با دشاہ حبشہ ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جو اب نہیں دیااور فرمایا: ’’صلاۃ(خود) ایک شغل ہے ‘‘۔
924- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلاةِ وَنَأْمُرُ بِحَاجَتِنَا، فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَهُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلامَ فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلاةَ قَالَ: < إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ قَدْ أَحْدَثَ [مِنْ أَمْرِهِ] أَنْ لا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلاةِ > فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلامَ۔
* تخريج: ن / الکبری/ السہو ۱۱۳ (۵۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۷)، ۴۳۵، ۴۶۳) (حسن صحیح)
۹۲۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( پہلے ) ہم صلاۃمیں سلام کیا کر تے تھے اور کام کا ج کی باتیں کر لیتے تھے، تو (ایک بار )میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے، میں نے آ پ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا تو مجھے پر انی اور نئی با توں کی فکر دامن گیر ہوگئی ۱؎ ، جب آپ صلاۃ پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی جو چا ہتا ہے، نیا حکم نازل کر تا ہے، اب اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ صلاۃ میں با تیں نہ کرو‘‘، پھر آپ نے میرے سلام کا جواب دیا ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں سوچنے لگا کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہوئی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ہوں ۔
925- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ أَنَّهُ قَالَ: مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ إِشَارَةً، قَالَ: وَلا أَعْلَمُهُ إِلا قَالَ: إِشَارَةً بِأُصْبُعِهِ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۵۹ (۳۶۷)، ن/السھو ۶ (۱۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۶)، وقد أخرجہ: ق/إقامۃ الصلاۃ ۵۹ (۱۰۱۹)، حم (۴/۳۳۲)، دي/الصلاۃ ۹۴ (۱۴۰۱) (صحیح)
۹۲۵- صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیاتو آپ نے اشا رہ سے سلام کا جواب دیا۔
نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ’’إِشَارَةً بِأُصْبُعِهِ‘‘ کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔
926- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى بَنِى الْمُصْطَلَقِ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ، فَكَلَّمْتُهُ فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا: ثُمَّ كَلَّمْتُهُ فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَنَا أَسْمَعُهُ يَقْرَأُ وَيُومِئُ بِرَأْسِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: < مَا فَعَلْتَ فِي الَّذِي أَرْسَلْتُكَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ إِلا أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي >۔
* تخريج: م/المساجد ۷ (۵۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۱۸)، وقد أخرجہ: ن/السھو ۶ (۱۱۹۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۵۹ (۱۰۱۸)، حم (۳/۳۱۲، ۳۳۴، ۳۳۸، ۳۸۰، ۲۹۶)، ویأتي برقم : (۱۲۲۷) (صحیح)
۹۲۶- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنی مصطلق کے پاس بھیجا،میں (وہاں سے ) لوٹ کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پرصلاۃ پڑھ رہے تھے، میں نے آپ سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہا تھ سے اس طرح سے اشارہ کیا، میں نے پھر آپ سے با ت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہا تھ سے اس طرح اشارہ کیا یعنی خاموش رہنے کا حکم دیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرأت کر تے سن رہا تھا اور آپ اپنے سرسے اشا رہ فرما رہے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ سے فا رغ ہوئے تو پو چھا: ’’میں نیتم کو جس کام کے لئے بھیجا تھا اس سلسلے میں تم نے کیا کیا ؟، میں نے تم سے با ت اس لئے نہیں کی کہ میں صلاۃ پڑھ رہا تھا‘‘۔
927- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ، قَالَ: فَجَائَتْهُ الأَنْصَارُ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ لِبِلالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي؟ قَالَ: يَقُولُ هَكَذَا، وَبَسَطَ كَفَّهُ، وَبَسَطَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كَفَّهُ، وَجَعَلَ بَطْنَهُ أَسْفَلَ وَجَعَلَ ظَهْرَهُ إِلَى فَوْقٍ۔
* تخريج: ت/ الصلاۃ ۱۵۵ (۳۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۸، ۸۵۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۲) (حسن صحیح)
۹۲۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ پڑھنے کے لئے قبا گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت صلاۃ میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصا ر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت صلاۃ میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جو اب دیتے ہو ئے دیکھا ؟بلال رضی اللہ عنہ کہا :آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کررہے تھے، اوربلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلاکر اس کو نیچے اوراس کی پشت کو اوپرکر کے بتا یا۔
928- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < لا غِرَارَ فِي صَلاةٍ وَلاتَسْلِيمٍ >، قَالَ أَحْمَدُ: يَعْنِي -فِيمَا أَرَى- أَنْ لا تُسَلِّمَ وَلا يُسَلَّمَ، عَلَيْكَ وَيُغَرِّرُ الرَّجُلُ بِصَلاتِهِ فَيَنْصَرِفُ وَهُوَ فِيهَا شَاكٌّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۶۱) (صحیح)
۹۲۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ صلاۃ میں نقصان اور کمی نہیں ہے اور نہ سلام میں ہے ۱؎ ‘‘ ، احمد کہتے ہیں: جہا ں تک میں سمجھتا ہوں مطلب یہ ہے کہ (صلاۃ میں ) نہ توتم کسی کو سلام کرو اور نہ تمہیں کو ئی سلام کرے اور صلاۃ میں نقصان یہ ہے کہ آدمی صلاۃ سے اس حال میں پلٹے کہ وہ اس میں شک کر نے والا ہو۔
وضاحت ۱؎ : سلام میں نقص نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ تم سلام کا مکمل جواب دو اس میں کوئی کمی نہ کرو یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ہی پر اکتفا نہ کرو بلکہ ’’وبرکاتہ‘‘ بھی کہو،ایسے ہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ہی نہ کہو بلکہ ورحمۃ اللہ بھی کہو، اور صلاۃ میں نقص کا ایک مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدے پورے طور سے ادا نہ کئے جائیں، دوسرا مطلب یہ ہے کہ صلاۃ میں اگر شک ہوجائے کہ تین رکعت ہوئی یا چار تو تین کو جو یقین ہے چھوڑ کر چار کو اختیار نہ کیا جائے ۔
929- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أُرَاهُ رَفَعَهُ، قَالَ: < لا غِرَارَ فِي تَسْلِيمٍ وَلاصَلاةٍ >.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ عَلَى لَفْظِ ابْنِ مَهْدِيٍّ وَلَمْ يَرْفَعْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۶۱) (صحیح)
۹۲۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہ سلام میں نقص ہے اور نہ صلاۃ میں ‘‘۔
معاویہ بن ہشام کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ سفیان نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث ا بن فضیل نے ابن مہدی کی طرح ’’لا غِرَارَ فِي تَسْلِيمٍ وَلا صَلاةٍ‘‘ کے لفظ کے ساتھ روایت کی ہے اور اس کو مر فوع نہیں کہا ہے (بلکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول بتایا ہے)۔