• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
279-بَاب مَتَى يُتِمُّ الْمُسَافِرُ
۲۷۹-باب: مسافر پوری صلاۃ کب پڑھے؟​



1229- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ -وَهَذَا لَفْظُهُ- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ؛ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَشَهِدْتُ مَعَهُ الْفَتْحَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَمَانِي عَشْرَةَ لَيْلَةً لا يُصَلِّي إِلا رَكْعَتَيْنِ، وَيَقُولُ: < يَا أَهْلَ الْبَلَدِ، صَلُّوا أَرْبَعًا فَإِنَّا [قَوْمٌ] سَفْرٌ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۷۴ (الجمعۃ ۳۹) (۵۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۰، ۴۳۱، ۴۳۲، ۴۴۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ علی بن زید بن جدعان ‘‘ضعیف ہیں )
۱۲۲۹- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ کیا اور فتح مکہ میں آپ کے ساتھ موجود رہا، آپ نے مکہ میں اٹھارہ شب قیام فرمایا، آپ ﷺ صرف دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے اور فرماتے: ’’اے مکہ والو! تم چار پڑھو، کیونکہ ہم تو مسافر ہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس قسم کی ضعیف حدیثوں سے قصر کی مدت کی تحدید درست نہیں کیونکہ ان میں اس طرح کاچنداں اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اللہ کے رسول اگر مزید ٹھہرنے کا ارادہ کرتے تو صلاۃ پوری پڑھتے اس بات کے لئے واضح ثبوت غزوہ تبوک کا وہ سفر ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے بیس دن تک قیام کیا اور برابر قصر کرتے رہے، اورغزوہ حنین میں چالیس روز تک قصر فرماتے رہے، نیزغازی کی مثال ایسے مسافر کی ہے جس کو اپنے سفر یا قیام کے بارے میں کوئی واضح بات نہ معلوم ہو۔


1230- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقَامَ سَبْعَ عَشْرَةَ بِمَكَّةَ يَقْصُرُ الصَّلاةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَمَنْ أَقَامَ سَبْعَ عَشْرَةَ قَصَرَ، وَمَنْ أَقَامَ أَكْثَرَ أَتَمَّ.
قَالَ أَبودَاود: قَالَ عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ: عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقَامَ تِسْعَ عَشْرَةَ۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۰۸۰)، المغازي ۵۲ (۴۲۹۸)، ت/الصلاۃ ۲۷۵ (الجمعۃ ۴۰) (۵۴۹)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۶ (۱۰۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۳) (شاذ)
( اس کے راوی ’’حفص بن غیاث ‘‘ گرچہ ثقات میں سے ہیں، مگر اخیر عمر میں ذرا مختلط ہوگئے تھے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ عاصم الأحول کے تمام تلامذہ کے برخلاف ’’ سترہ دن کی روایت کربیٹھے ہیں‘‘ )
۱۲۳۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سترہ دن مکہ میں مقیم رہے، اور صلاۃ قصر کرتے رہے، تو جو شخص سترہ دن قیام کرے وہ قصر کرے ،اور جو اس سے زیادہ قیام کرے وہ اتمام کرے۔
ابو داود کہتے ہیں : عباد بن منصورنے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے، اس میں ہے : آپ ﷺ انیس دن تک مقیم رہے۔


1231- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ خَمْسَ عَشْرَةَ يَقْصُرُ الصَّلاةَ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، وَسَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ إبن إِسْحَاقَ، لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ ابْنَ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: ق/ إقامۃ الصلاۃ ۷۶ (۱۰۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۴۹) (ضعیف منکر)
(کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے اور اس کے راوی ’’ ابن اسحاق ‘‘ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
۱۲۳۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فتح کے سال مکہ میں پندرہ روز قیام فرمایا، آپ ﷺ صلاۃ قصر کر تے رہے۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث عبدہ بن سلیما ن، احمد بن خالد وہبی اور سلمہ بن فضل نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے، اس میں ان لو گوں نے ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما‘‘ کا ذکر نہیں کیا ہے۔


1232- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ ابْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقَامَ بِمَكَّةَ سَبْعَ عَشْرَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۳۰۲۱، ۳۱۵) (ضعیف منکر)
(کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے، اور اس کے راوی ’’شریک‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں)
۱۲۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں سترہ دن تک مقیم رہے اور دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔


1233- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَقُلْنَا: هَلْ أَقَمْتُمْ بِهَا شَيْئًا ؟ قَالَ: أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۰۸۱)، والمغازي ۵۲ (۴۲۹۷)، م/المسافرین ۱ (۶۹۳)، ت/الصلاۃ ۲۷۵ (الجمعۃ۴۰) (۵۴۸)، ن/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۴۳۷)، ۴ (۱۴۵۱)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۶ (۱۰۷۷) ، حم (۳/۱۸۷، ۱۹۰، ۲۸۲)، دي/الصلاۃ ۱۸۰ (۱۵۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۲) (صحیح)
۱۲۳۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے، آپ (اس سفر میں) دو رکعتیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم لوگوں نے پو چھا: کیا آپ لوگ مکہ میں کچھ ٹھہرے ؟ انہوں نے جواب دیا:مکہ میں ہمارا قیام دس دن رہا ۱؎ ۔
وضاحت۱؎ : یہ حدیث حجۃ الوداع کے سفر کے بارے میں ہے ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث فتح مکہ کے بارے میں ہے۔


1234- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ الْمُثَنَّى [وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْمُثَنَّى] قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوأُسَامَةَ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ عَلِيًّا رَضِي اللَّه عَنْه كَانَ إِذَا سَافَرَ سَارَ بَعْدَ مَا تَغْرُبُ الشَّمْسُ حَتَّى تَكَادَ أَنْ تُظْلِمَ، ثُمَّ يَنْزِلُ فَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يَدْعُو بِعَشَائِهِ فَيَتَعَشَّى، ثُمَّ يُصَلِّي الْعِشَاءَ، ثُمَّ يَرْتَحِلُ، وَيَقُولُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصْنَعُ.
قَالَ عُثْمَانُ: عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ.
سَمِعْت أَبَادَاود يَقُولُ: وَرَوَى أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ- أَنَّ أَنَسًا كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ وَيَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَصْنَعُ ذَلِكَ.
وَرِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلُهُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، ن/المواقیت ۴۴ (۵۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۵۰) (صحیح لغیرہ)
( اس کے راوی عبداللہ بن محمد بن عمر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکریہ حدیث صحیح ہے ، جن میں سے ایک انس کی اگلی حدیث بھی ہے) وحدیث أنس أخرجہ : خ/تقصیر الصلاۃ ۱۴ (۱۱۱۱، ۱۱۱۲) (مقتصرا علی الظہر والعصر فقط)، م/المسافرین ۵ (۷۰۴)، ن/المواقیت ۴۲ (۵۹۵)، (مقتصرا علی الشق الأول مثل البخاری)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۴۷، ۲۶۵) (صحیح)
۱۲۳۴ - عمربن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب سفر کر تے تو سورج ڈوبنے کے بعد بھی چلتے رہتے یہاں تک کہ اندھیرا چھا جانے کے قریب ہو جاتا، پھر آپ اترتے اور مغرب پڑھتے۔ پھر شام کا کھانا طلب کرتے اور کھا کر عشاء ادا کرتے۔ پھر کوچ فرماتے اور کہا کر تے تھے : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔
عثمان کی روایت میں’’أخبرني عبدالله بن محمد بن عمر بن علي‘‘کے بجائے ’’عن عبدالله بن محمد بن عمر بن علي‘‘ہے۔
(ابوعلی لو ٔلؤی کہتے ہیں میں نے ابو داود کو کہتے سنا کہ اسا مہ بن زید نے حفص بن عبیداللہ(بن انس بن مالک ) سے روایت کی ہے کہ انس رضی اللہ عنہ جب شفق غائب ہوجاتی تو دونوں (مغرب اورعشاء) کو جمع کرتے اور کہتے: نبی ﷺ بھی ایسا ہی کیا کر تے تھے۔
زہری نے انس رضی اللہ عنہ سے انس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
280- بَاب إِذَا أَقَامَ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ يَقْصُرُ
۲۸۰-باب: دشمن کے علاقہ میں قیام کر نے پر قصر کرنے کا بیان​


1235- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِتَبُوكَ عِشْرِينَ يَوْمًا يَقْصُرُ الصَّلاةَ.
قَالَ أَبودَاود: غَيْرُ مَعْمَرٍ [يُرْسِلُهُ] لا يُسْنِدُهُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۵) (صحیح)
۱۲۳۵- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور صلاۃ قصر کر تے رہے۔​
ابوداود کہتے ہیں: معمر کے علا وہ سبھی اسے مرسل روایت کرتے ہیں ،کوئی اسے مسند روایت نہیں کر تا ہے۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ 281-بَاب صَلاةِ الْخَوْفِ }
۲۸۱-باب: صلاۃِ خوف کے احکام ومسائل کا بیان ۱؎​

[مَنْ رَأَى أَنْ يُصَلِّي بِهِمْ وَهُمْ صَفَّانِ، فَيُكَبِّرُ بِهِمْ جَمِيعًا، ثُمَّ يَرْكَعُ بِهِمْ جَمِيعًا، ثُمَّ يَسْجُدُ الإمَامُ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، وَالآخَرُونَ قِيَامٌ يَحْرُسُونَهُمْ، فَإِذَا قَامُوا سَجَدَ الآخَرُونَ الَّذِينَ كَانُوا خَلْفَهُمْ، ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ إِلَى مَقَامِ الآخَرِينَ، وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الأَخِيرُ إِلَى مَقَامِهِمْ، ثُمَّ يَرْكَعُ الإِمَامُ وَيَرْكَعُونَ جَمِيعًا، ثُمَّ يَسْجُدُ وَيَسْجُدُ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، وَالآخَرُونَ يَحْرُسُونَهُمْ، فَإِذَا جَلَسَ الإمَامُ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ سَجَدَ الآخَرُونَ، ثُمَّ جَلَسُوا جَمِيعًا، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا. قَالَ أَبو دَاود: هَذَا قَوْلُ سُفْيَانَ]
ان لوگوں کی دلیل جن کا کہنا ہے کہ امام صلاۃ پڑھائے اور مصلیان کی دوصفیں ہوں، پھروہ سب کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہے، پھر سب کے سا تھ رکو ع کر ے۔ پھر امام اور اس کے قریب کی صف سجدہ کرے، اور دوسر ی صف کے لوگ کھڑے مصلیوں کی نگرانی کریں جب یہ لوگ سجدہ سے اٹھ کر کھڑے ہو جائیں تو دوسری صف کے لوگ سجدہ کریں ، پھر امام کے قریب والی صف پیچھے جا کردوسری صف کی جگہ کھڑی ہوجائے اور دوسری صف آگے آکر ان کی جگہ پر کھڑی ہوجائے، پھر امام رکوع کرے اور سبھی رکوع کریں پھر امام سجدہ کرے اوراس کے قریب کی صف سجدہ کرے اور دوسرے لوگ ان کی نگرانی کر یں، پھر جب امام اوراس کے قریب والی صف کے لوگ سجدہ کر کے بیٹھ جائیں تو دوسری صف کے لوگ سجدہ کر یں، پھرسب ایک ساتھ بیٹھیں اورایک ساتھ سلام پھیریں۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ سفیان کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : بطن نخلہ،عسفان ،ذی قرد اور ذات الرقاع ان چاروں جگہوں میں رسول اللہ ﷺ سے صلاۃ الخوف کی متعدد صورتیں منقول ہیں، موقع کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ سبھی صورتیں درست اور جائز ہیں بغیر اس میں پڑے کہ راجح کون ہے اور مرجوح کون؟۔


1236- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِعُسْفَانَ، وَعَلَى الْمُشْرِكِينَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَصَلَّيْنَا الظُّهْرَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: لَقَدْ أَصَبْنَا غِرَّةً، لَقَدْ أَصَبْنَا غَفْلَةً، لَوْ كُنَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ وَهُمْ فِي الصَّلاةِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْقَصْرِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، وَالْمُشْرِكُونَ أَمَامَهُ، فَصَفَّ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَفٌّ وَصَفَّ بَعْدَ ذَلِكَ الصَّفِّ صَفٌّ آخَرُ، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَرَكَعُوا جَمِيعًا، ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ الصَّفُّ الَّذِينَ يَلُونَهُ، وَقَامَ الآخَرُونَ يَحْرُسُونَهُمْ فَلَمَّا صَلَّى هَؤُلاءِ السَّجْدَتَيْنِ وَقَامُوا سَجَدَ الآخَرُونَ الَّذِينَ كَانُوا خَلْفَهُمْ، ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ إِلَى مَقَامِ الآخَرِينَ، وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الأَخِيرُ إِلَى مَقَامِ الصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَرَكَعُوا جَمِيعًا، ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، وَقَامَ الآخَرُونَ يَحْرُسُونَهُمْ، فَلَمَّا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ سَجَدَ الآخَرُونَ، ثُمَّ جَلَسُوا جَمِيعًا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، فَصَلاهَا بِعُسْفَانَ، وَصَلاهَا يَوْمَ بَنِي سُلَيْمٍ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى أَيُّوبُ وَهِشَامٌ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ هَذَا الْمَعْنَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ دَاوُدُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ، وَكَذَلِكَ قَتَادَةُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ حِطَّانَ عَنْ أَبِي مُوسَى، فِعْلَهُ، وَكَذَلِكَ عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَكَذَلِكَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ۔
* تخريج: ن/صلاۃ الخوف (۱۵۵۰، ۱۵۵۱ )، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۵۹، ۶۰) (صحیح)
۱۲۳۶- ابو عیاش زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مقام عسفان میں تھے،اس وقت مشرکوں کے سردار خالد بن ولید تھے، ہم نے ظہر پڑھی تو مشرکین کہنے لگے: ہم سے چوک ہو گئی، ہم غفلت کا شکارہوگئے ، کاش! ہم نے دورانِ صلاۃ ان پر حملہ کر دیا ہوتا، چنانچہ ظہر اورعصرکے درمیان قصر کی آیت نازل ہوئی ۱؎ پھر جب عصر کا وقت ہوا تو رسول اللہ ﷺ قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہوئے، مشرکین آپ کے سا منے تھے، لوگوں نے آپ کے پیچھے ایک صف بنائی اور اس صف کے پیچھے ایک دوسری صف بنائی تو آپ ﷺ نے ان سب کے ساتھ بیک وقت رکوع کیا، لیکن سجدہ آپ نے اور صرف اس صف کے لوگوں نے کیا جو آپ سے قریب تر تھے اور باقی ( پچھلی صف کے )لوگ کھڑے نگرانی کرتے رہے، پھر جب یہ لوگ سجدہ کر کے کھڑے ہو گئے تو باقی دوسرے لوگوں نے جو ان کے پیچھے تھے، سجدے کئے، پھر قریب والی صف پیچھے ہٹ کر دوسری صف کی جگہ پر چلی گئی، اور دوسری صف آگے بڑھ کر پہلی صف کی جگہ پر آگئی، پھر سب نے مل کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رکوع کیا، اس کے بعد سجدہ صرف آپ اور آپ سے قریب والی صف نے کیا اور بقیہ لو گ کھڑے نگرانی کرتے رہے، جب رسول اللہ ﷺ اور قریب والی صف کے لوگ بیٹھ گئے تو بقیہ دوسروں نے سجدہ کیا، پھر سب ایک ساتھ بیٹھے اور ایک ساتھ سلام پھیرا، آپ نے عسفان میں اسی طرح صلاۃ پڑھی اور بنی سلیم سے جنگ کے روزبھی اسی طرح صلاۃ پڑھی ۔
ابوداود کہتے ہیں: ایو ب اور ہشام نے ابو الزبیر سے ابوالزبیر نے جا بر سے اسی مفہوم کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔
اسی طرح یہ حدیث داود بن حصین نے عکرمہ سے، عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔
اسی طرح یہ حدیث عبدالملک نے عطا سے، عطاء نے جا بر سے روایت کی ہے۔
اسی طرح قتا دہ نے حسن سے، حسن نے حطان سے، حطان نے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے یہی عمل نقل کیا ہے ۔
اسی طرح عکرمۃ بن خالد نے مجا ہد سے مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے ۔
اسی طرح ہشام بن عروہ نے اپنے والد عر وہ سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور یہی ثوری کا قول ہے۔
وضاحت : نسائی کی روایت میں ہے’’فنزلت، يعني صلاة الخوف‘‘دونوں روایتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ آیت قصر ہی آیت خوف ہے۔
282- بَاب مَنْ قَالَ: يَقُومُ صَفٌّ مَعَ الإِمَامِ وَصَفٌّ وِجَاهَ الْعَدُوِّ، [فَيُصَلِّي بِالَّذِينَ يَلُونَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ يَقُومُ قَائِمًا حَتَّى يُصَلِّيَ الَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً أُخْرَى، ثُمَّ يَنْصَرِفُونَ فَيَصُفُّونَ وِجَاهَ الْعَدُوِّ، وَتَجِيئُ الطَّائِفَةُ الأُخْرَى فَيُصَلِّي بِهِمْ رَكْعَةً وَيَثْبُتُ جَالِسًا، فَيُتِمُّونَ لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُسَلِّمُ بِهِمْ جَمِيعًا]
۲۸۲- باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ ایک صف امام کے سا تھ کھڑی ہو اور دوسری صف دشمن کے سامنے ہو، امام ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ہوں ، ایک رکعت پڑھائے ، پھر وہ یوں ہی کھڑا رہے یہاں تک کہ جو لوگ اس کے سا تھ ہیں دوسری رکعت پوری کرلیں۔ پھر وہ واپس جا کر دشمن کے سا منے صف بستہ ہوجائیں اور دوسری ٹکڑی آئے تو وہ امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے، اورامام یو نہی بیٹھارہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی دوسری رکعت بھی مکمل کرلیں پھر امام ان سب کے ساتھ سلام پھیرے


1237- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى بِأَصْحَابِهِ فِي خَوْفٍ، فَجَعَلَهُمْ خَلْفَهُ صَفَّيْنِ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ يَلُونَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ قَامَ، فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ خَلْفَهُمْ رَكْعَةً، ثُمَّ تَقَدَّمُوا وَتَأَخَّرَ الَّذِينَ كَانُوا قُدَّامَهُمْ، فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ ﷺ رَكْعَةً، ثُمَّ قَعَدَ حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ تَخَلَّفُوا رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ۔
* تخريج: خ/المغازي ۳۲ (۴۱۳۱)، م/المسافرین ۵۷ (۸۴۱و۸۴۲)، ت/الصلاۃ ۲۸۱ (الجمعۃ ۴۶) (۵۶۶)، ن/صلاۃ الخوف (۱۵۳۷)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۱ (۱۲۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۵)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۱ (۲)، حم (۳/۴۴۸)، دي/الصلاۃ ۱۸۵(۱۵۶۳) (صحیح)
۱۲۳۷- سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ ٔکرام کے ساتھ حالت خوف میں صلاۃ ادا کی تو اپنے پیچھے دو صفیں بنا ئیں پھر جو آپ سے قریب تھے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہوگئے اوربرابر کھڑے رہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے جوپہلی صف کے پیچھے تھے، ایک رکعت ادا کی، پھر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور جو لوگ دشمن کے سامنے تھے، آپ کے پیچھے آگئے، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھرآپ بیٹھے رہے یہاں تک کہ جولوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے ایک رکعت اور پڑھی پھر آپ نے سلام پھیرا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
283- بَاب مَنْ قَالَ إِذَا صَلَّى رَكْعَةً وَثَبَتَ قَائِمًا أَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً ثُمَّ سَلَّمُوا ثُمَّ انْصَرَفُوا فَكَانُوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ وَاخْتَلَفَ فِي السَّلامِ
۲۸۳- باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ایک رکعت پڑھ کرکھڑا رہے اورلوگ خود سے اپنی دوسری رکعت پوری کر کے سلام پھیر دیں ،پھر لو ٹ کر دشمن کے سامنے جائیں، سابقہ صورت اور اس صورت میں صرف سلام میں اختلاف ہے​


1238- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَمَّنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلاةَ الْخَوْفِ أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ، وَطَائِفَةً وِجَاهَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّتِي مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا، وَأَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ انْصَرَفُوا، وَصَفُّوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، وَجَائَتِ الطَّائِفَةُ الأُخْرَى، فَصَلَّى بِهِمُ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ مِنْ صَلاتِهِ، ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا، وَأَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ.
قَالَ مَالِكٌ : وَحَدِيثُ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۵) (صحیح)
۱۲۳۸- صالح بن خوات ایک ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں، جس نے ذات ا لرقاع کے غزوہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃِ خوف ادا کی وہ کہتے ہیں: ایک جماعت آپ کے ساتھ صف میں کھڑی ہوئی اور دوسری دشمن کے سامنے، آپ ﷺ نے اپنے ساتھ والی جماعت کے ساتھ ایک رکعت ادا کی پھر کھڑے رہے اور ان لوگوں نے (اس دوران میں) اپنی صلاۃ پوری کرلی (یعنی دوسری رکعت بھی پڑھ لی) پھر وہ واپس دشمن کے سا منے صف بستہ ہو گئے اور دوسری جماعت آئی تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ اپنی رکعت ادا کی پھربیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنی دوسری رکعت پوری کی، پھرآپ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔
مالک کہتے ہیں: یزید بن رومان کی حدیث میری مسمو عات میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔


1239- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ ابْنِ خَوَّاتٍ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ الأَنْصَارِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ صَلاةَ الْخَوْفِ: أَنْ يَقُومَ الإِمَامُ وَطَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَطَائِفَةٌ مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، فَيَرْكَعُ الإِمَامُ رَكْعَةً، وَيَسْجُدُ بِالَّذِينَ مَعَهُ، ثُمَّ يَقُومُ فَإِذَا اسْتَوَى قَائِمًا ثَبَتَ قَائِمًا، وَأَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمُ الرَّكْعَةَ الْبَاقِيَةَ، ثُمَّ سَلَّمُوا وَانْصَرَفُوا وَالإِمَامُ قَائِمٌ، فَكَانُوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يُقْبِلُ الآخَرُونَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، فَيُكَبِّرُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ فَيَرْكَعُ بِهِمْ وَيَسْجُدُ بِهِمْ، ثُمَّ يُسَلِّمُ، فَيَقُومُونَ فَيَرْكَعُونَ لأَنْفُسِهِمُ الرَّكْعَةَ الْبَاقِيَةَ، ثُمَّ يُسَلِّمُونَ.
قَالَ أَبودَاود: وَأَمَّا رِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ نَحْوَ رِوَايَةِ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ إِلا أَنَّهُ خَالَفَهُ فِي السَّلامِ، وَرِوَايَةُ عُبَيْدِاللَّهِ نَحْوَ رِوَايَةِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: وَيَثْبُتُ قَائِمًا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۵)
(صحیح) (یہ حدیث موقوف ہے اوراس سے پہلے والی مرفوع ہے،پہلی میں جوصورت مذکور ہے وہی زیادہ صحیح ہے،یعنی دوسری جماعت کا امام کے ساتھ سلام پھیرنا)
۱۲۳۹- صالح بن خوّات انصاری کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ صلاۃ خو ف اس طرح ہو گی کہ امام (صلاۃ کے لئے) کھڑا ہو گا اور اس کے ساتھیوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ ہوگی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی ہو گی، امام اور جو اس کے ساتھ ہوں گے رکوع اور سجدہ کریں گے پھرامام کھڑا ہو گا، جب پورے طور سے سیدھا کھڑا ہو جائے گا تو یونہی کھڑا رہے گا یہاں تک کہ لوگ اپنی باقی (دوسری) رکعت بھی ادا کرلیں گے، پھر وہ لوگ سلام پھیر کر واپس چلے جائیں گے اورامام کھڑا رہے گا، اب یہ دشمن کے سامنے ہوں گے اور جن لوگوں نے صلاۃ نہیں پڑھی ہے، وہ آئیں گے اور امام کے پیچھے تکبیر (تحریمہ) کہیں گے پھر وہ ان کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرکے اپنی دوسری رکعت پوری کرے گا پھر سلام پھیر دے گا، اس کے بعد یہ لوگ کھڑے ہوکر اپنی باقی رکعت ادا کریں گے پھر سلام پھیریں گے ۔
ابو داود کہتے ہیں: رہی قاسم سے مروی یحییٰ بن سعید کی روایت تو وہ یزید بن رومان کی روایت ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ انہوں نے سلام میں اختلا ف کیا ہے اور عبید اللہ کی روایت یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح ہے اس میں ہے کہ ’’(امام) کھڑا رہے گا ۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
284-بَابٌ مَنْ قَالَ: يُكَبِّرُونَ جَمِيعًا، وَإِنْ كَانُوا مُسْتَدْبِرِي الْقِبْلَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي بِمَنْ مَعَهُ رَكْعَةً ثُمَّ يَأْتُونَ مَصَافَّ أَصْحَابِهِمْ، وَيَجِيئُ الآخَرُونَ فَيَرْكَعُونَ لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً ثُمَّ يُصَلِّي بِهِمْ رَكْعَةً ثُمَّ تُقْبِلُ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ فَيُصَلُّونَ لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً وَالإِمَامُ قَاعِدٌ ثُمَّ يُسَلِّمُ بِهِمْ كُلِّهِمْ جَمِيعًا
۲۸۴-باب: ان لوگوں کی دلیل جوکہتے ہیں کہ سارے لوگ ایک ساتھ تکبیر (تحریمہ) کہیں گرچہ ان کی پیٹھ قبلہ کی طرف ہو پھر امام اپنے ساتھ کے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائے اوریہ لوگ اپنے ساتھیوں(جو دشمن کے سامنے ہیں ) کی جگہ پر چلے جائیں، اور دوسرا گروہ امام کے پیچھے آجائے اور خود سے ایک رکعت پڑھے پھر امام انہیں ایک رکعت پڑھائے پھر وہ گروہ آئے جو دشمن کے مقابل میں تھا (اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکا تھا)خود سے ایک رکعت ادا کرے اور امام بیٹھا رہے پھر اکٹھا سب کے ساتھ سلام پھیرے​




1240- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمُقْرِءُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ وَابْنُ لَهِيعَةَ، قَالا: أَخْبَرَنَا أَبُو الأَسْوَدِ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، يُحَدِّثُ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ: هَلْ صَلَّيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الْخَوْفِ؟ قَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ: نَعَمْ، قَالَ مَرْوَانُ: مَتَى؟ فَقَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ: عَامَ غَزْوَةِ نَجْدٍ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى صَلاةِ الْعَصْرِ، فَقَامَتْ مَعَهُ طَائِفَةٌ، وَطَائِفَةٌ أُخْرَى مُقَابِلَ الْعَدُوِّ، وَظُهُورُهُمْ إِلَى الْقِبْلَةِ، فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَكَبَّرُوا جَمِيعًا: الَّذِينَ مَعَهُ، وَالَّذِينَ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ، ثُمَّ رَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَكْعَةً وَاحِدَةً، وَرَكَعَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي مَعَهُ، ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي تَلِيهِ، وَالآخَرُونَ قِيَامٌ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَقَامَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي مَعَهُ، فَذَهَبُوا إِلَى الْعَدُوِّ، فَقَابَلُوهُمْ، وَأَقْبَلَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ، فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَائِمٌ كَمَا هُوَ، ثُمَّ قَامُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَكْعَةً أُخْرَى وَرَكَعُوا مَعَهُ، وَسَجَدَ وَسَجَدُوا مَعَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ، فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَاعِدٌ وَمَنْ [كَانَ] مَعَهُ، ثُمَّ كَانَ السَّلامُ، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَسَلَّمُوا جَمِيعًا، فَكَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ رَكْعَتَانِ، وَلِكُلِّ رَجُلٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ ۔
* تخريج: ن/الخوف ۱۸(۱۵۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۰) (صحیح)
۱۲۴۰- مروان بن حکم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃِ خوف پڑھی ہے؟ ابوہریرہ نے جواب دیا: ہاں، مروان نے پو چھا : کب ؟ ابوہریرہ نے کہا: جس سال غزوۂ نجد پیش آیا، رسول اللہ ﷺ عصر کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے تھی اور ان کی پیٹھیں قبلہ کی طرف تھیں، رسول اللہ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی توآپ کے ساتھ والے لوگوں نے اور ان لوگوں نے بھی جو دشمن کے سامنے کھڑے تھے (سبھوں نے) تکبیر تحریمہ کہی، پھررسول اللہ ﷺ نے رکوع کیا اورآپ کے ساتھ کھڑی جماعت نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا اورا ٓپ کے قریب والی جماعت نے بھی سجدہ کیا، اور دوسرے لوگ دشمن کے بالمقابل کھڑے رہے، پھر رسول اللہ ﷺ اٹھے اور وہ جما عت بھی اٹھی جو آپ کے ساتھ تھی اور جاکر دشمن کے سامنے کھڑی ہوگئی، پھر وہ جماعت، جو دشمن کے سامنے کھڑی تھی (امام کے پیچھے) آگئی اور اس نے رکوع اورسجدہ کیا، اور رسول اللہ ﷺ اسی طرح کھڑے رہے جیسے تھے، پھر جب وہ جماعت (سجدہ سے) اٹھ کھڑی ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی، اور ان لوگوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا پھر جو جماعت دشمن کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی آگئی اور اس نے رکوع اور سجدہ کیا،اور رسول اللہ ﷺ اوروہ لوگ جو پہلے سے آپ کے ساتھ موجود تھے بیٹھے رہے، پھر سلام پھیرا گیا تو رسول اللہ ﷺ اورسبھی لوگوں نے مل کر سلام پھیرا اس طرح رسول اللہ ﷺ کی دورکعتیں ہوئیں اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک کی ایک ایک رکعت ۔


1241- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى نَجْدٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ مِنْ [نَخْلٍ لَقِيَ] جَمْعًا مِنْ غَطَفَانَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَلَفْظُهُ عَلَى غَيْرِ لَفْظِ حَيْوَةَ، وَقَالَ فِيهِ: حِينَ رَكَعَ بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ، قَالَ: فَلَمَّا قَامُوا مَشَوُا الْقَهْقَرَى إِلَى مَصَافِّ أَصْحَابِهِمْ، وَلَمْ يَذْكُرِ اسْتِدْبَارَ الْقِبْلَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۶۴) (صحیح)
۱۲۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب ہم ذات الرقاع میں تھے تو غطفان کے کچھ لوگ ملے، پھرانہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی لیکن اس کے الفا ظ حیوۃ کے الفاظ سے مختلف ہیں اس میں ’’حين ركع بمن معه وسجد‘‘کے الفاظ ہیں، نیز اس میں ہے ’’فلمَّا قاموا مشوا القهقرى إلى مصاف أصحابهم‘‘ (یعنی جب وہ اٹھے تو الٹے پائوں پھرے اوراپنے سا تھیوں کی صف میں آکھڑے ہوئے)، اس میں انہوں نے استدبارقبلہ(قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے )کا ذکر نہیں کیا ہے ۔


1242- قَالَ أَبودَاود: وَأَمَّا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدٍ فَحَدَّثَنَا، قَالَ حَدَّثَنِي عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحاَقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَتْ كَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَكَبَّرَتِ الطَّائِفَةُ الَّذِينَ صَفُّوا مَعَهُ ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعُوا ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوا ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوا ثُمَّ مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسًا ثُمَّ سَجَدُوا لأَنْفُسِهِمُ الثَّانِيَةَ ثُمَّ قَامُوا فَنَكَصُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ يَمْشُونَ الْقَهْقَرَى حَتَّى قَامُوا مِنْ وَرَائِهِمْ وَجَائَتِ الطَّائِفَةُ الأُخْرَى فَقَامُوا فَكَبَّرُوا ثُمَّ رَكَعُوا لأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَسَجَدُوا مَعَهُ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَسَجَدُوا لأَنْفُسِهِمُ الثَّانِيَةَ ثُمَّ قَامَتِ الطَّائِفَتَانِ جَمِيعًا فَصَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَرَكَعَ فَرَكَعُوا ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوا جَمِيعًا ثُمَّ عَادَ فَسَجَدَ الثَّانِيَةَ وَسَجَدُوا مَعَهُ سَرِيعًا كَأَسْرَعِ الإِسْرَاعِ جَاهِدًا لا يَأْلُونَ سِرَاعًا ثُمَّ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَسَلَّمُوا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ شَارَكَهُ النَّاسُ فِي الصَّلاةِ كُلِّهَا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷۵) (حسن)
۱۲۴۲- عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی واقعہ بیان کیا اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی اور اس جماعت نے بھی جو آپ کے ساتھ صف میں کھڑی تھی تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا توان لوگوں نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی اٹھایا، اس کے بعد آپ بیٹھے رہے اور وہ لوگ دوسرا سجدہ خود سے کر کے کھڑے ہوئے اورایٹریوں کے بل پیچھے چلتے ہوئے الٹے پاؤں لوٹے، یہاں تک کہ ان کے پیچھے جا کھڑے ہوئے، اور دوسری جماعت آکر کھڑی ہوئی، اس نے تکبیر کہی پھر خود سے رکوع کیا اب رسول اللہ ﷺ نے اپنا دوسرا سجدہ کیا اورآپ کے ساتھ ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ تو اٹھ کھڑے ہوئے اوران لوگوں نے اپنا دوسرا سجدہ کیا، پھر دونوں جماعتیں ایک ساتھ کھڑی ہوئیں اور دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، آپ نے رکوع کیا (ان سب نے بھی رکوع کیا)، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان سب نے بھی ایک ساتھ سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسر اسجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی سجدہ کیا، اور جلدی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی، پھر رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، اور لوگوں نے بھی سلام پھیرا، پھر آپ صلاۃ سے فارغ ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اس طرح لوگوں نے پوری صلاۃ میں آپ کے سا تھ شر کت کر لی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
285-بَاب مَنْ قَالَ: يُصَلِّي بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً ثُمَّ يُسَلِّمُ فَيَقُومُ كُلُّ صَفٍّ فَيُصَلُّونَ لأنْفُسِهِمْ رَكْعَةً
۲۸۵-باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر ٹکڑی کوایک رکعت پڑھائے پھروہ سلام پھیر دے اس کے بعد ہر صف کے لوگ کھڑے ہوں اورخود سے اپنی اپنی ایک رکعت ادا کریں​


1243- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ ؛ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى بِإِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةً، وَالطَّائِفَةُ الأُخْرَى مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَقَامُوا فِي مَقَامِ أُولَئِكَ، وَجَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً أُخْرَى، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَامَ هَؤُلاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ، وَقَامَ هَؤُلاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ نَافِعٌ وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَكَذَلِكَ قَوْلُ مَسْرُوقٍ وَيُوسُفُ بْنُ مِهْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ رَوَى يُونُسُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّهُ فَعَلَهُ۔
* تخريج: خ/الخوف ۱ (۹۴۲)، المغازي ۳۱ (۴۱۳۳)، م/المسافرین ۵۷ (۸۳۹)، ت/الصلاۃ ۲۸۱ (الجمعۃ ۴۶) (۵۶۴)، ن/الخوف ۱۸ (۱۵۳۹)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۱ (۱۲۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۷) (صحیح)
۱۲۴۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہو گئی اور وہ جماعت (نبی اکرم ﷺ کے پیچھے) آگئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑ ے ہوئے اور اپنی رکعت پو ری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے ) کھڑے ہوئے اورانہوں نے اپنی رکعت پوری کی ۔
ابو داود کہتے ہیں : اسی طرح یہ حدیث نا فع اور خالد بن معدان نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے ۔
اوریہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اورانہوں نے ابو مو سی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
286- بَاب مَنْ قَالَ: يُصَلِّي بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً ثُمَّ يُسَلِّمُ فَيَقُومُ الَّذِينَ خَلْفَهُ فَيُصَلُّونَ رَكْعَةً ثُمَّ يَجِيئُ الآخَرُونَ إِلَى مَقَامِ هَؤُلاءِ فَيُصَلُّونَ رَكْعَةً
۲۸۶-باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر جماعت کوا یک ایک رکعت پڑھائے پھر سلام پھیر دے، پھر جو لوگ امام کے پیچھے ہیں وہ کھڑے ہوں اوردوسری رکعت ادا کریں پھر دوسرے گروہ کے لوگ پہلے کی جگہ آکر دوسر ی رکعت ادا کریں​



1244- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: صَلَّى [بِنَا] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الْخَوْفِ، فَقَامُوا صَفًّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَصَفٌّ مُسْتَقْبِلَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَكْعَةً، ثُمَّ جَاءَ الآخَرُونَ فَقَامُوا مَقَامَهُمْ،وَاسْتَقْبَلَ هَؤُلاءِ الْعَدُوَّ، فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ ﷺ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَامَ هَؤُلاءِ فَصَلَّوْا لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً ثُمَّ سَلَّمُوا ثُمَّ ذَهَبُوا، فَقَامُوا مَقَامَ أُولَئِكَ مُسْتَقْبِلِي الْعَدُوِّ، وَرَجَعَ أُولَئِكَ إِلَى مَقَامِهِمْ فَصَلَّوْا لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً ثُمَّ سَلَّمُوا ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۵، ۳۷۶، ۴۰۹) (ضعیف)
(’’ابوعبیدہ ‘‘ کا اپنے والد ’’ابن مسعودرضی اللہ عنہ ‘‘ سے سماع نہیں ہے )
۱۲۴۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صلاۃِ خوف پڑھائی تو ایک صف رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اور دوسری صف دشمن کے مقابل کھڑی ہوئی، آپ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی پھر دوسری جماعت آئی اور ان کی جگہ کھڑی ہوئی اور یہ جماعت دشمن کے سامنے چلی گئی، اب نبی اکرم ﷺ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیر دیا، پھر یہ جماعت کھڑی ہوئی، اس نے دوسری رکعت ادا کر کے سلام پھیرا اور جا کر ان کی جگہ کھڑی ہو گئی، جو دشمن کے سا منے تھے، اب وہ لوگ ان کی جگہ آگئے اورانہوں نے اپنی دوسری رکعت اداکی پھرسلام پھیرا۔


1245- حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ -يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ- عَنْ شَرِيكٍ؛ عَنْ خُصَيْفٍ -بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ-، قَالَ: فَكَبَّرَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ وَكَبَّرَ الصَّفَّانِ جَمِيعًا.
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۰۷) (ضعیف)
1245/م- قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ بِهَذَا الْمَعْنَى عَنْ خُصَيْفٍ، وَصَلَّى عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ هَكَذَا إِلا أَنَّ الطَّائِفَةَ الَّتِي صَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً ثُمَّ سَلَّمَ مَضَوْا إِلَى مَقَامِ أَصْحَابِهِمْ، وَجَاءَ هَؤُلاءِ فَصَلَّوْا لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى مَقَامِ أُولَئِكَ فَصَلَّوْا لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً.
[قَالَ أَبودَاود]: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّهُمْ غَزَوْا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، كَابُلَ فَصَلَّى بِنَا صَلاةَ الْخَوْفِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۰۷) (ضعیف)
(عبد الصمد اور ان کے والد حبیب دونوں مجہول راوی ہیں )
۱۲۴۵- اس طریق سے بھی خصیف سے سابقہ سند سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے،اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تکبیر (تحریمہ) کہی اور دونوں صف کے سارے لوگوں نے بھی۔
ابو داود کہتے ہیں: ثوری نے بھی خصیف سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اور عبدالرحمن بن سمرہ نے اسی طرح یہ صلاۃ ادا کی، البتہ اتنا فر ق ضرور تھا کہ وہ گروہ جس کے سا تھ آپ نے ایک رکعت پڑھی اور سلام پھیر دیا ، اپنے ساتھیوں کی جگہ واپس چلا گیا اور ان لوگوں نے آکر خود سے ایک رکعت پوری کی۔ پھر وہ ان کی جگہ واپس چلے گئے اوراس گروہ نے آکر اپنی باقی ماندہ رکعت خود سے اداکی ۔

۱۲۴۵/م- ابو داود کہتے ہیں:ہم سے یہ حدیث مسلم بن ابراہیم نے بیان کی،مسلم کہتے ہیں:ہم سے عبدالصمد بن حبیب نے بیان کی،عبدالصمد کہتے ہیں: میرے والد نے مجھے بتا یا کہ لوگوں نے عبدالرحمن بن سمرہ کے ساتھ کابل کا جہا د کیا توانہوں نے ہمیں صلاۃِ خوف پڑھائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
287- بَاب مَنْ قَالَ يُصَلِّي بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً وَلا يَقْضُونَ
۲۸۷- باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر جماعت کو ایک رکعت پڑھا ئے گااور لوگ دوسری رکعت پوری نہیں کریں گے​



1246- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي الأَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنِ الأَسْوَدِ ابْنِ هِلال، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ زَهْدَمٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِطَبَرِسْتَانَ فَقَامَ فَقَالَ: أَيُّكُمْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الْخَوْفِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا، فَصَلَّى بِهَؤُلاءِ رَكْعَةً وَبِهَؤُلاءِ رَكْعَةً وَلَمْ يَقْضُوا.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَا رَوَاهُ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ وَمُجَاهِدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَيَزِيدُ الْفَقِيرُ وَأَبُو مُوسَى. [قَالَ أَبودَاود: رَجُلٌ مِنَ التَّابِعِينَ لَيْسَ بِالأَشْعَرِيِّ] جَمِيعًا عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ [عَنْ شُعْبَةَ] فِي حَدِيثِ يَزِيدَ الْفَقِيرِ: إِنَّهُمْ قَضَوْا رَكْعَةً أُخْرَى، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: فَكَانَتْ لِلْقَوْمِ رَكْعَةً [رَكْعَةً] وَلِلنَّبِيِّ ﷺ رَكْعَتَيْنِ ۔
* تخريج: ن/صلاۃ الخوف (۱۵۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۵، ۳۹۹) (ضعیف)
۱۲۴۶- ثعلبہ بن زہدم کہتے ہیں کہ ہم لوگ سعید بن عاص کے ساتھ طبرستان میں تھے، وہ کھڑے ہوئے اور پوچھا : تم میں کس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ خوف ادا کی ہے؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے (پھرحذیفہ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی، اور دوسرے کو ایک رکعت) اور ان لوگوں نے( دوسری رکعت کی) قضا نہیں کی۔
ابو داود کہتے ہیں :اوراسی طرح اسے عبیداللہ بن عبداللہ اور مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے اور عبداللہ بن شفیق نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اورابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے ، اور یزید فقیر اور ابو موسی نے جابر رضی اللہ عنہ سے اورجابر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں : ابو موسیٰ تابعی ہیں، ابوموسیٰ اشعری نہیں ہیں۔
یزید الفقیر کی روایت میں بعض راویوں نے شعبہ سے یوں روایت کی ہے کہ انہوں نے دوسری رکعت قضا کی تھی۔
اسی طرح اسے سماک حنفی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اورابن عمرنے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
نیز اسی طرح اسے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ، اس میں ہے : لوگوں کی ایک ایک رکعت ہوئی اور نبی اکرم ﷺ کی دورکعتیں ہوئیں۔


1247- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَرَضَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ ﷺ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ، وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً۔
* تخريج: م/المسافرین ۱ (۶۸۷)، ن/الصلاۃ ۳ (۴۵۷)، وتقصیر الصلاۃ ۱ (۲۵۴، ۳۵۵)، والخوف ۱ (۱۵۳۳)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۳ (۱۰۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۷، ۲۴۳) (صحیح)
۱۲۴۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ نے نبی اکرم ﷺ کی زبان سے تم پر حضر میں چاررکعتیں فرض کی ہیں اور سفر میں دورکعتیں ، اور خوف میں ایک رکعت ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
288- بَاب مَنْ قَالَ: يُصَلِّي بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ
۲۸۸- باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر جماعت کو دو دو رکعتیں پڑھائے

1248- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ ﷺ فِي خَوْفٍ الظُّهْرَ فَصَفَّ بَعْضُهُمْ خَلْفَهُ وَبَعْضُهُمْ بِإِزَاءِ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى [بِهِمْ] رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، فَانْطَلَقَ الَّذِينَ صَلَّوْا مَعَهُ فَوَقَفُوا مَوْقِفَ أَصْحَابِهِمْ، ثُمَّ جَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّوْا خَلْفَهُ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَرْبَعًا، وَلأَصْحَابِهِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَبِذَلِكَ كَانَ يُفْتِي الْحَسَنُ.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ فِي الْمَغْرِبِ: يَكُونُ لِلإِمَامِ سِتُّ رَكَعَاتٍ، وَلِلْقَوْمِ ثَلاثٌ ثَلاثٌ.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَكَذَلِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: ن/الخوف۱۸ (۱۵۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۹، ۴۹) (صحیح)
۱۲۴۸- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خوف کی حالت میں ظہر ادا کی تو بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی اور بعض دشمن کے سامنے رہے، آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، تو جو لوگ آپ کے ساتھ صلاۃ میں تھے، وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کر کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ یہاں آگئے پھر آپ کے پیچھے انہوں نے صلاۃ پڑھی توآپ نے انہیں بھی دورکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا، اس طرح رسول اللہ ﷺ کی چار رکعتیں اورصحابہ ٔ کرام کی دو دو رکعتیں ہوئیں، اورحسن بصری اسی کا فتویٰ دیا کر تے تھے ۔
ابو داود کہتے ہیں : اور اسی طرح مغرب میں امام کی چھ، اوردیگر لوگوں کی تین تین رکعتیں ہوں گی ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ سے، ابوسلمہ نے جا بررضی اللہ عنہ سے اور جابر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور اسی طرح سلیما ن یشکری نے ’’عن جابر عن النبي ﷺ ‘‘ کہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
289- بَاب صَلاةِ الطَّالِبِ
۲۸۹- باب: تعاقب کرنے والے کی صلاۃ کا بیان​



1249- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى خَالِدِ ابْنِ سُفْيَانَ الْهُذَلِيِّ، وَكَانَ نَحْوَ عُرَنَةَ وَعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ وَحَضَرَتْ صَلاةُ الْعَصْرِ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ مَا إِنْ أُؤَخِّرِ الصَّلاةَ، فَانْطَلَقْتُ أَمْشِي وَأَنَا أُصَلِّي أُومِئُ إِيمَائً نَحْوَهُ، فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْهُ قَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ، بَلَغَنِي أَنَّكَ تَجْمَعُ لِهَذَا الرَّجُلِ، فَجِئْتُكَ فِي ذَاكَ، قَالَ: إِنِّي لَفِي ذَاكَ، فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، حَتَّى إِذَا أَمْكَنَنِي عَلَوْتُهُ بِسَيْفِي حَتَّى بَرَدَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۹۶) (حسن)
(اس کے راوی ’’ابن عبد اللہ بن انیس ‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن اس حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ (۹۸۲)اورابن حبان(۵۹۱)نے کی ہے،اورابن حجرنے حسن کہا ہے (فتح الباری۲/۴۳۷)، البانی نے بھی اسے صحیح ابی داودمیں رکھاہے۔(۱۱۳۵/م)نیز ملاحظہ ہو: (الصحیحۃ ۳۲۹۳)
۱۲۴۹- عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے خالد بن سفیا ن ہذلی کی طرف بھیجا اور وہ عرنہ وعرفات کی جانب تھا تو فرمایا:’’ جائوا ور اسے قتل کردو‘‘، عبداللہ کہتے ہیں: میں نے اسے دیکھ لیا عصر کا وقت ہوگیا تھا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا اگر میں رک کر صلاۃ میں لگتا ہوں تو اس کے اور میرے درمیان فا صلہ ہو جائے گا، چنانچہ میں اشاروں سے صلاۃ پڑھتے ہوئے مسلسل اس کی جانب چلتا رہا، جب میں اس کے قریب پہنچا توا س نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: عرب کا ایک شخص، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس شخص (یعنی محمد ﷺ سے مقابلے) کے لئے تم (لوگوں کو) جمع کر رہے ہو ۱؎ تومیں اسی سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں، اس نے کہا : ہاں میں اسی کوشش میں ہوں، چنانچہ میں تھوڑی دیر اس کے ساتھ چلتا رہا، جب مجھے مناسب موقع مل گیا تو میں نے اس پرتلوا رسے وار کردیا اور وہ ٹھنڈا ہو گیا۔
وضاحت : یہ ذومعنی کلام ہے لیکن اللہ کا دشمن خالد بن سفیان ہذلی، عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے اس توریہ کوسمجھ نہیں سکا۔


* * * * *​
 
Top