301- بَاب صَلاةِ الضُّحَى
۳۰۱-باب: صلاۃ الضحیٰ( چاشت کی صلاۃ) کا بیان
1285- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ [الْمَعْنَى]، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلامَى مِنِ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ: تَسْلِيمُهُ عَلَى مَنْ لَقِيَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُهُ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيُهُ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُهُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ، وَبُضْعَةُ أَهْلِهِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِءُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ رَكْعَتَانِ مِنَ الضُّحَى >.
قَالَ أَبودَاود: وَحَدِيثُ عَبَّادٍ أَتَمُّ، وَلَمْ يَذْكُرْ مُسَدَّدٌ الأَمْرَ وَالنَّهْيَ، زَادَ فِي حَدِيثِهِ، وَقَالَ: كَذَا وَكَذَا، وَزَادَ ابْنُ مَنِيعٍ فِي حَدِيثِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَحَدُنَا يَقْضِي شَهْوَتَهُ، وَتَكُونُ لَهُ صَدَقَةٌ؟ قَالَ: < أَرَأَيْتَ لَوْ وَضَعَهَا فِي غَيْرِ حِلِّهَا أَلَمْ يَكُنْ يَأْثَمُ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۳ (۷۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۶۷، ۱۶۸) (صحیح)
۱۲۸۵- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ابن آدم کے ہر جو ڑ پرصبح ہوتے ہی(بطو ر شکرانے کے) ایک صدقہ ہوتا ہے، اب اگر وہ کسی ملنے والے کو سلام کرے تو یہ ایک صدقہ ہے،کسی کو بھلائی کا حکم دے تو یہ بھی صدقہ ہے، برائی سے روکے یہ بھی صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیو ی سے صحبت کرے تو یہ بھی صدقہ ہے البتہ ان سب کے بجائے اگر دورکعت صلاۃ چاشت کے وقت پڑھ لے تو یہ ان سب کی طرف سے کافی ہے‘‘ ۱ ؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: عباد کی روایت زیا دہ کا مل ہے اور مسدد نے امر و نہی کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ فلاں اور فلاں چیز بھی صدقہ ہے اور ابن منیع کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! ہم میں سے ایک شخص اپنی (بیوی سے)شہوت پوری کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے؟ آپ نے فرمایا:’’(کیوں نہیں ) اگروہ کسی حرام جگہ میں شہوت پوری کر تا تو کیا وہ گنہ گار نہ ہوتا؟‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : صلاۃ الضحیٰ کی رکعتوںکی تعدادکے سلسلہ میںروایتوں میں اختلاف ہے،دو،چار،آٹھ اور بارہ تک کاذکر ہے اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ روایتوں کے اختلاف کوگنجائش پر محمول کیاجائے، اور جتنی جس کو توفیق ملے پڑھے، اس فرق کے ساتھ کہ آٹھ رکعت تک کاذکر فعلی حدیثوں میں ہے اور بارہ کاذکر قولی حدیث میں ہے، بعض نے اسے بدعت کہاہے،لیکن بدعت کہنا غلط ہے، متعدد احادیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے(مصنف ابن ابی شیبہ۲/۴۰۵)
اکثر علما کے نزدیک چاشت اور اشراق کی صلاۃ ایک ہی ہے، جو سورج کے ایک یا دو نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنے پر پڑھی جاتی ہے، اور بعض لوگوں نے کہاہے کہ چاشت کی صلاۃ اشراق کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جب حرام جگہ سے شہوت پوری کرنے پر گنہ گار ہوگا توحلال جگہ سے پوری کرنے پر اجر وثواب کا مستحق کیوں نہ ہوگا ۔
1286- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ الدُّؤَلِيِّ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلامَى مِنْ أَحَدِكُمْ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ، فَلَهُ بِكُلِّ صَلاةٍ صَدَقَةٌ، وَصِيَامٍ صَدَقَةٌ، وَحَجٍّ صَدَقَةٌ، وَتَسْبِيحٍ صَدَقَةٌ، وَتَكْبِيرٍ صَدَقَةٌ، وَتَحْمِيدٍ صَدَقَةٌ، فَعَدَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ هَذِهِ الأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ، ثُمَّ قَالَ: < يُجْزِءُ أَحَدَكُمْ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَا الضُّحَى >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۲۸) (صحیح)
۱۲۸۶- ابو الاسود دُؤَلیِ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابو ذررضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ نے کہا: ہرروز صبح ہوتے ہی تم میں سے ہر شخص کے جوڑ پر ایک صدقہ ہے، تو اس کے لئے ہر صلاۃ کے بدلہ ایک صدقہ( کاثواب) ہے، ہر روزہ کے بدلہ ایک صدقہ (کاثواب) ہے، ہر حج ایک صدقہ ہے، اور ہرتسبیح ایک صدقہ ہے، ہر تکبیر ایک صدقہ ہے، اور ہر تحمید ایک صدقہ ہے، اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان نیک اعمال کا شمار کیا پھر فرمایا:’’ان سب سے تمہیں بس چاشت کی دو رکعتیں کافی ہیں‘‘۔
1287- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانَ ابْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ قَعَدَ فِي مُصَلاهُ حِينَ يَنْصَرِفُ مِنْ صَلاةِ الصُّبْحِ حَتَّى يُسَبِّحَ رَكْعَتَيِ الضُّحَى لا يَقُولُ إِلا خَيْرًا غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ، وَإِنْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۹) (ضعیف)
(اس کے راوی
’’زبَّان ‘‘ ضعیف ہیں)
۱۲۸۷- معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جوشخص فجر کے بعد چاشت کے وقت تک اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے صلاۃ پڑھی ہے پھر چاشت کی دو رکعتیں پڑھے اس دوران سوائے خیر کے کوئی اور بات زبان سے نہ نکا لے تو اس کی تمام خطائیں معاف کر دی جا ئیں گی وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔
1288- حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < صَلاةٌ فِي إِثْرِ صَلاةٍ لا لَغْوَ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۳) (حسن)
۱۲۸۸- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایک صلاۃ کے بعد دوسری صلاۃ کی ادائیگی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی بیہودہ اور فضول کام نہ کرنا ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھا جا تا ہے‘‘۔
1289- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ أَبِي شَجَرَةَ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَقُولُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، لا تُعْجِزْنِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ فِي أَوَّلِ نَهَارِكَ أَكْفِكَ آخِرَهُ >۔
* تخريج: تفردبہ ابوداود، ن/ الکبری الصلاۃ ۶۰ (۴۶۶، ۴۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۸۶، ۲۸۷)، دي/الصلاۃ ۱۵۰ (۱۴۹۲) (صحیح)
۱۲۸۹- نعیم بن ہمّا ر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم! اپنے دن کے شروع کی چا ر رکعتیں ۱؎ ترک نہ کرکہ میں دن کے آخرتک تجھ کو کافی ہوں گا یعنی تیرا محافظ رہوں گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : علماء نے ان رکعتوں کوصلاۃ الضحیٰ پر محمول کیا ہے۔
1290- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاضُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ الْفَتْحِ صَلَّى سُبْحَةَ الضُّحَى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُسَلِّمُ مِنْ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى يَوْمَ الْفَتْحِ سُبْحَةَ الضُّحَى، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: إِنَّ أُمَّ هَانِئٍ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَلَمْ يَذْكُرْ سُبْحَةَ الضُّحَى، بِمَعْنَاهُ۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۲ (۱۳۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۱۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’عیاض‘‘ ضعیف ہیں، لیکن دوسری سندوں سے ام ہانی کی ’’صلاۃ الضحیٰ‘‘ کی حدیث صحیح ہے ، دیکھئے اگلی حدیث)
۱۲۹۰- ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے روزچاشت کی صلاۃ آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پرسلام پھیرتے تھے ۔
احمد بن صالح کی روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے روز چاشت کی صلاۃ پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔
ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی ٔ کہتی ہیں:رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لا ئے، اس میں انہوں نے چاشت کی صلاۃ کا ذکر نہیں کیا ہے، با قی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔
1291- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: مَا أَخْبَرَنَا أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا ذَكَرَتْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ اغْتَسَلَ فِي بَيْتِهَا وَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، فَلَمْ يَرَهُ أَحَدٌ صَلاهُنَّ بَعْدُ۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۲ (۱۱۰۳)، والتھجد ۳۱ (۱۱۷۶)، والجزیۃ ۹ (۳۱۷۱)، والغازي ۵۰ (۴۲۹۲)، والآدب ۹۴ (۶۱۵۱)، م/المسافرین ۱۳ (۳۳۶)، ت/الصلاۃ ۱۵ (۴۷۴)، ن/الطہارۃ ۱۴۳ (۲۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۰۷)، وقد أخرجہ: الحیض ۱۶ (۳۳۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸۷ (۱۳۲۳)، ط/قصر الصلاۃ ۸ (۲۸)، حم (۶/۳۴۱، ۳۴۲، ۳۴۳، ۴۲۳)، دي/الصلاۃ ۱۵۱ (۱۴۹۳) (صحیح)
۱۲۹۱ - ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کو چا شت کی صلاۃ پڑھتے دیکھا ہے سوائے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے، انہوں نے یہ بات ذکر کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے روز ان کے گھر میں غسل فرمایا اور آٹھ رکعتیں ادا کیں، پھر اس کے بعد کسی نے آپ کو یہ صلاۃ پڑھتے نہیں دیکھا۔
1292- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي الضُّحَى؟ فَقَالَتْ: لا، إِلا أَنْ يَجِيئَ مِنْ مَغِيبِهِ، قُلْتُ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرِنُ بَيْنَ السُّورَتَيْنِ؟ قَالَتْ: مِنَ الْمُفَصَّلِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۳ (۷۱۷)، ن/الصیام ۱۹ (۲۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۷۱، ۲۰۴ ، ۲۱۸) (صحیح)
۱۲۹۲- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا: کیا رسول اللہ ﷺ چا شت کی صلاۃ پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا : نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔
میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ ﷺ دوسورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے) ۱؎ ۔
وضاحت : ’’سورۃ الحجرات‘‘ سے ’’سورۃ الناس‘‘ تک کی سورتیں مفصل کہلاتی ہیں۔
1293- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: مَا سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سُبْحَةَ الضُّحَى قَطُّ، وَإِنِّي لأُسَبِّحُهَا، وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ۔
* تخريج: خ/التھجد ۵ (۱۱۲۸)، م/المسافرین ۱۳ (۷۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۰)، وقد أخرجہ: ط/قصر الصلاۃ ۸ (۲۹)، حم (۶/۸۵، ۸۶، ۱۶۷، ۱۶۹، ۲۲۳)، دي/الصلاۃ ۱۵۲ (۱۴۹) (صحیح)
۱۲۹۳- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی صلاۃ کبھی نہیں پڑھی ، لیکن میں اسے پڑھتی ہوں، رسول اللہ ﷺ بسا اوقات ایک عمل کو چاہتے ہوئے بھی اسے محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہو جائے۔
1294- حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ وَأَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالا: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ؛ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: نَعَمْ كَثِيرًا، فَكَانَ لايَقُومُ مِنْ مُصَلاهُ الَّذِي صَلَّى فِيهِ الْغَدَاةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ قَامَ ﷺ ۔
* تخريج: م/المساجد ۵۲ (۶۷۰)، والفضائل ۱۷ (۲۳۲۲)، ن/السھو ۹۹ (۱۳۵۹، ۱۳۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۵۵)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۲۹۵ (۵۸۵)، حم (۵/۹۱، ۹۷، ۱۰۰، ۰۱ ۱، ۱۰۵، ۱۰۷) (صحیح)
۱۲۹۴- سماک کہتے ہیں: میں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ رسول اللہ ﷺ کی مجالست( ہم نشینی) کرتے تھے؟ آپ نے کہا : ہاں اکثر (آپ کی مجلسوں میں رہتا تھا)، آپ ﷺ جس جگہ صلاۃِ فجر ادا کرتے، وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک سورج نکل نہ آتا، جب سورج نکل آتا تو آپ (صلاۃ اشراق کے لئے) کھڑے ہوتے ۔