32- بَاب فِي حُقُوقِ الْمَالِ
۳۲-باب: مال کے حقوق کا بیان
1657- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الْمَاعُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَوَرَ الدَّلْوِ وَالْقِدْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۹۲۷۳)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/التفسیر (۱۱۷۰۱)، حم ۳۸۷) (حسن)
۱۶۵۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں ہم ڈول اور دیگچی عاریۃً دینے کو ماعون ۱؎ میں شمار کرتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : عام استعمال کی ایسی چیزیں جنہیں عام طور پرلوگ ایک دوسرے سے عاریۃ لیتے رہتے ہیں۔
1658- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لا يُؤَدِّي حَقَّهُ إِلا جَعَلَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جَبْهَتُهُ وَجَنْبُهُ وَظَهْرُهُ، حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ تَعَالَى بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ؛ وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لا يُؤَدِّي حَقَّهَا إِلا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ فَيُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلافِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلا جَلْحَاءُ كُلَّمَا مَضَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولاهَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ؛ وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لا يُؤَدِّي حَقَّهَا إِلا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ فَيُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا كُلَّمَا مَضَتْ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ تَعَالَى بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۲۶۲۴)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۳ (۱۴۰۲)، والجہاد ۱۸۹ (۲۳۷۸)، وتفسر براء ۃ ۶ (۳۰۷۳)، والحیل ۳ (۹۶۵۸)، م/الزکاۃ ۶ (۹۸۷)، ن/الزکاۃ ۶ (۲۴۵۰)، ق/الزکاۃ ۲ (۱۷۸۶)، ط/الزکاۃ۱۰(۲۲)، حم (۲/۴۹۰، ۱۰۱، ۲۶۲، ۳۸۳) (صحیح)
۱۶۵۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کردے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جارہی ہوگی یا جہنم کی طرف ۔
( اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق ( زکاۃ ) ادا نہ کر تا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہوکر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدا ن میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہوگی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مارکر گز ر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لئے) لوٹائی جائے گی ( یعنی بار بار یہ عمل ہو تا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہا رے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔
( اسی طرح ) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق( زکاۃ )ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیا دہ طاقت ور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو ( روندنے کے لئے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہا رے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہوگی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف ‘‘۔
1659- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ، قَالَ: فِي قِصَّةِ الإِبِلِ بَعْدَ قَوْلِهِ: < لا يُؤَدِّي حَقَّهَا >، قَالَ: < وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۲۳۲۱) (صحیح)
۱۶۵۹- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں اونٹ کے قصے میں آپ ﷺ کے قول:
’’لا يُؤَدِّيْ حَقَّهَا‘‘کے بعد
’’وَمِنْ حَقِّهَاْ حَلْبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا‘‘ کا جملہ بھی ہے (یعنی ان کے حق میں سے یہ ہے کہ جب وہ پانی پینے(گھاٹ پر) آئیں تو ان کو دوہے )، (اور دوہ کرمسافروں نیز دیگر محتاجوں کو پلائے)۔
1660- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي عُمَرَ الْغُدَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَحْوَ هَذِهِ الْقِصَّةِ، فَقَالَ لَهُ -يَعْنِي لأَبِي هُرَيْرَةَ- فَمَا حَقُّ الإِبِلِ؟ قَالَ: تُعْطِي الْكَرِيمَةَ، وَتَمْنَحُ الْغَزِيرَةَ، وَتُفْقِرُ الظَّهْرَ، وَتُطْرِقُ الْفَحْلَ، وَتَسْقِي اللَّبَنَ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۲ (۲۴۴۴)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۴۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۸۳، ۴۸۹، ۴۹۰) (حسن)
(اس کے راوی’’ابوعمرالغدانی‘‘لی ن الحدیث ہیں، لیکن حدیث ماقبل ومابعد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
۱۶۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس طرح کا قصہ سنا تو راوی نے ان سے یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انہوں نے کہا:تم اچھا اونٹ اللہ کی راہ میں دو ، زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی عطیہ دو، سواری کے لئے جانور دو، جفتی کے لئے نر کو مفت دو اور لوگوں کو دودھ پلاؤ۔
1661- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ أَبُوالزُّبَيْرِ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا حَقُّ الإِبِلِ؟ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، زَادَ: < وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۸۹۹۷)، وقد أخرجہ: م/الزکاۃ ۶ (۹۸۸) (صحیح)
۱۶۶۱- عبید بن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! اونٹوں کا حق کیا ہے؟ پھر اس نے اوپر جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں اتنا اضافہ کیا ہے
’’وَإِعَاْرَةُ دَلْوِهَاْ‘‘ ( اس کے تھن دودھ دوہنے کے لئے عاریۃً دینا)۔
1662- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ مِنْ كُلِّ جَادِّ عَشْرَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ بِقِنْوٍ يُعَلَّقُ فِي الْمَسْجِدِ لِلْمَسَاكِينِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۳۱۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۹، ۳۶۰) (صحیح)
۱۶۶۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ جو دس وسق کھجور توڑے تو ایک خوشہ مسکینوں کے واسطے مسجد میں لٹکا دے۔
1663- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْخُزَاعِيُّ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْهَبِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ، فَجَعَلَ يُصَرِّفُهَا يَمِينًا وَشِمَالا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لا زَادَ لَهُ > حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لا حَقَّ لأَحَدٍ [مِنَّا] فِي الْفَضْلِ۔
* تخريج: م/ اللقطۃ ۴ (۱۷۲۸)، ( تحفۃ الأشراف :۴۳۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۴) (صحیح)
۱۶۶۳- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اتنے میں ایک شخص اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر آیا اور دائیں بائیں اسے پھیرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس کوئی فاضل (ضرورت سے زائد) سواری ہو تو چا ہئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو،جس کے پاس فاضل توشہ ہو تو چاہئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس تو شہ نہ ہو، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سے فاضل چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں‘‘۔
1664- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا غَيْلانُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ} قَالَ: كَبُرَ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه: أَنَا أُفَرِّجُ عَنْكُمْ، فَانْطَلَقَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! إِنَّهُ كَبُرَ عَلَى أَصْحَابِكَ هَذِهِ الآيَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضِ الزَّكَاةَ إِلا لِيُطَيِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ، وَإِنَّمَا فَرَضَ الْمَوَارِيثَ لِتَكُونَ لِمَنْ بَعْدَكُمْ > فَكَبَّرَ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: < أَلا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ مَا يَكْنِزُ الْمَرْءُ؟ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ: إِذَا نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، وَإِذَا أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِذَا غَابَ عَنْهَا حَفِظَتْهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۶۳۸۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’جعفر‘‘مجاہد سے روایت میں ضعیف ہیں)
۱۶۶۴- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ
{ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ} نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بہت گراں گزری تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہاری اس مشکل کو میں رفع کر تا ہوں، چنانچہ وہ (نبی اکرم ﷺ کے پاس) گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ کے صحابہ پر یہ آیت بہت گراں گزری ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے زکاۃ صرف اس لئے فرض کی ہے کہ تمہارے باقی مال پاک ہوجا ئیں ( جس مال کی زکاۃ نکل جائے وہ کنز نہیں ہے) اور اللہ نے میراث کو اسی لئے مقرر کیا تا کہ بعد والوں کو ملے‘‘، اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی، پھر آپ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’کیا میں تم کو اس کی خبر نہ دوں جو مسلمان کا سب سے بہتر خزانہ ہے؟ وہ نیک عورت ہے کہ جب مرد اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خو ش کر دے اورجب وہ حکم دے تو اسے مانے اور جب وہ اس سے غائب ہو تو اس کی حفاظت کرے‘‘۔