• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ثُمَّ وَرِثَهَا
۳۱-باب: ایک شخص نے صدقہ دیا پھراس کا وارث ہوگیا تواسے لے لے​


1656- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ بُرَيْدَةَ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ: كُنْتُ تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِوَلِيدَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ وَتَرَكَتْ تِلْكَ الْوَلِيدَةَ، قَالَ: < قَدْ وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَجَعَتْ إِلَيْكِ فِي الْمِيرَاثِ >۔
* تخريج: م/الصیام ۲۷ (۱۱۴۹)، ت/الزکاۃ ۳۱ (۶۶۷)، ق/الصدقات ۳ (۲۳۹۴)، ( تحفۃ الأشراف :۱۹۸۰)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ الفرائض (۶۳۱۵، ۶۳۱۶)، حم (۵/۳۵۱، ۳۶۱)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۸۷۷، ۳۳۰۹) (صحیح)
۱۶۵۶- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا:میں نے ایک لونڈی اپنی ماں کو صدقہ میں دی تھی، اب وہ مر گئی ہیں اور وہی لونڈی چھوڑکر گئی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارا اجر پورا ہوگیا، اور وہ لونڈی تیرے پاس تر کے میں لو ٹ آئی‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِي حُقُوقِ الْمَالِ
۳۲-باب: مال کے حقوق کا بیان​


1657- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الْمَاعُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَوَرَ الدَّلْوِ وَالْقِدْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۹۲۷۳)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/التفسیر (۱۱۷۰۱)، حم ۳۸۷) (حسن)
۱۶۵۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں ہم ڈول اور دیگچی عاریۃً دینے کو ماعون ۱؎ میں شمار کرتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : عام استعمال کی ایسی چیزیں جنہیں عام طور پرلوگ ایک دوسرے سے عاریۃ لیتے رہتے ہیں۔


1658- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لا يُؤَدِّي حَقَّهُ إِلا جَعَلَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جَبْهَتُهُ وَجَنْبُهُ وَظَهْرُهُ، حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ تَعَالَى بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ؛ وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لا يُؤَدِّي حَقَّهَا إِلا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ فَيُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلافِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلا جَلْحَاءُ كُلَّمَا مَضَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولاهَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ؛ وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لا يُؤَدِّي حَقَّهَا إِلا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ فَيُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا كُلَّمَا مَضَتْ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ تَعَالَى بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۲۶۲۴)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۳ (۱۴۰۲)، والجہاد ۱۸۹ (۲۳۷۸)، وتفسر براء ۃ ۶ (۳۰۷۳)، والحیل ۳ (۹۶۵۸)، م/الزکاۃ ۶ (۹۸۷)، ن/الزکاۃ ۶ (۲۴۵۰)، ق/الزکاۃ ۲ (۱۷۸۶)، ط/الزکاۃ۱۰(۲۲)، حم (۲/۴۹۰، ۱۰۱، ۲۶۲، ۳۸۳) (صحیح)
۱۶۵۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کردے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جارہی ہوگی یا جہنم کی طرف ۔
( اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق ( زکاۃ ) ادا نہ کر تا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہوکر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدا ن میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہوگی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مارکر گز ر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لئے) لوٹائی جائے گی ( یعنی بار بار یہ عمل ہو تا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہا رے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔
( اسی طرح ) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق( زکاۃ )ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیا دہ طاقت ور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو ( روندنے کے لئے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہا رے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہوگی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف ‘‘۔


1659- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ، قَالَ: فِي قِصَّةِ الإِبِلِ بَعْدَ قَوْلِهِ: < لا يُؤَدِّي حَقَّهَا >، قَالَ: < وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۲۳۲۱) (صحیح)
۱۶۵۹- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں اونٹ کے قصے میں آپ ﷺ کے قول: ’’لا يُؤَدِّيْ حَقَّهَا‘‘کے بعد’’وَمِنْ حَقِّهَاْ حَلْبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا‘‘ کا جملہ بھی ہے (یعنی ان کے حق میں سے یہ ہے کہ جب وہ پانی پینے(گھاٹ پر) آئیں تو ان کو دوہے )، (اور دوہ کرمسافروں نیز دیگر محتاجوں کو پلائے)۔


1660- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي عُمَرَ الْغُدَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَحْوَ هَذِهِ الْقِصَّةِ، فَقَالَ لَهُ -يَعْنِي لأَبِي هُرَيْرَةَ- فَمَا حَقُّ الإِبِلِ؟ قَالَ: تُعْطِي الْكَرِيمَةَ، وَتَمْنَحُ الْغَزِيرَةَ، وَتُفْقِرُ الظَّهْرَ، وَتُطْرِقُ الْفَحْلَ، وَتَسْقِي اللَّبَنَ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۲ (۲۴۴۴)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۴۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۸۳، ۴۸۹، ۴۹۰) (حسن)
(اس کے راوی’’ابوعمرالغدانی‘‘لی ن الحدیث ہیں، لیکن حدیث ماقبل ومابعد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
۱۶۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس طرح کا قصہ سنا تو راوی نے ان سے یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انہوں نے کہا:تم اچھا اونٹ اللہ کی راہ میں دو ، زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی عطیہ دو، سواری کے لئے جانور دو، جفتی کے لئے نر کو مفت دو اور لوگوں کو دودھ پلاؤ۔


1661- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ أَبُوالزُّبَيْرِ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا حَقُّ الإِبِلِ؟ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، زَادَ: < وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۸۹۹۷)، وقد أخرجہ: م/الزکاۃ ۶ (۹۸۸) (صحیح)
۱۶۶۱- عبید بن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! اونٹوں کا حق کیا ہے؟ پھر اس نے اوپر جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں اتنا اضافہ کیا ہے’’وَإِعَاْرَةُ دَلْوِهَاْ‘‘ ( اس کے تھن دودھ دوہنے کے لئے عاریۃً دینا)۔


1662- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ مِنْ كُلِّ جَادِّ عَشْرَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ بِقِنْوٍ يُعَلَّقُ فِي الْمَسْجِدِ لِلْمَسَاكِينِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۳۱۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۹، ۳۶۰) (صحیح)
۱۶۶۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ جو دس وسق کھجور توڑے تو ایک خوشہ مسکینوں کے واسطے مسجد میں لٹکا دے۔


1663- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْخُزَاعِيُّ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْهَبِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ، فَجَعَلَ يُصَرِّفُهَا يَمِينًا وَشِمَالا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لا زَادَ لَهُ > حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لا حَقَّ لأَحَدٍ [مِنَّا] فِي الْفَضْلِ۔
* تخريج: م/ اللقطۃ ۴ (۱۷۲۸)، ( تحفۃ الأشراف :۴۳۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۴) (صحیح)
۱۶۶۳- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اتنے میں ایک شخص اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر آیا اور دائیں بائیں اسے پھیرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس کوئی فاضل (ضرورت سے زائد) سواری ہو تو چا ہئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو،جس کے پاس فاضل توشہ ہو تو چاہئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس تو شہ نہ ہو، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سے فاضل چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں‘‘۔


1664- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا غَيْلانُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ} قَالَ: كَبُرَ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه: أَنَا أُفَرِّجُ عَنْكُمْ، فَانْطَلَقَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! إِنَّهُ كَبُرَ عَلَى أَصْحَابِكَ هَذِهِ الآيَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضِ الزَّكَاةَ إِلا لِيُطَيِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ، وَإِنَّمَا فَرَضَ الْمَوَارِيثَ لِتَكُونَ لِمَنْ بَعْدَكُمْ > فَكَبَّرَ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: < أَلا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ مَا يَكْنِزُ الْمَرْءُ؟ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ: إِذَا نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، وَإِذَا أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِذَا غَابَ عَنْهَا حَفِظَتْهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۶۳۸۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’جعفر‘‘مجاہد سے روایت میں ضعیف ہیں)
۱۶۶۴- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ{ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ} نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بہت گراں گزری تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہاری اس مشکل کو میں رفع کر تا ہوں، چنانچہ وہ (نبی اکرم ﷺ کے پاس) گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ کے صحابہ پر یہ آیت بہت گراں گزری ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے زکاۃ صرف اس لئے فرض کی ہے کہ تمہارے باقی مال پاک ہوجا ئیں ( جس مال کی زکاۃ نکل جائے وہ کنز نہیں ہے) اور اللہ نے میراث کو اسی لئے مقرر کیا تا کہ بعد والوں کو ملے‘‘، اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی، پھر آپ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’کیا میں تم کو اس کی خبر نہ دوں جو مسلمان کا سب سے بہتر خزانہ ہے؟ وہ نیک عورت ہے کہ جب مرد اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خو ش کر دے اورجب وہ حکم دے تو اسے مانے اور جب وہ اس سے غائب ہو تو اس کی حفاظت کرے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب حَقِّ السَّائِلِ
۳۳-باب: سائل کے حق کا بیان​


1665- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، حَدَّثَنِي يَعْلَى بْنُ أَبِي يَحْيَى، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لِلسَّائِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلَى فَرَسٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۳۴۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۰۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’یعلی‘‘ مجہول ہیں)
۱۶۶۵- حسین بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر آئے ‘‘ ۔


1666- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ شَيْخٍ، قَالَ: رَأَيْتُ سُفْيَانَ عِنْدَهُ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهَا، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۰۷۱) (ضعیف)
(اس کی سند میں’’شیخ‘‘ایک مبہم راوی ہے)
۱۶۶۶- اس سند سے علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔


1667- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ بُجَيْدٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ بُجَيْدٍ -وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ- أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ إِنَّ الْمِسْكِينَ لَيَقُومُ عَلَى بَابِي فَمَا أَجِدُ لَهُ شَيْئًا أُعْطِيهِ إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنْ لَمْ تَجِدِي لَهُ شَيْئًا تُعْطِينَهُ إِيَّاهُ إِلا ظِلْفًا مُحْرَقًا فَادْفَعِيهِ إِلَيْهِ فِي يَدِهِ >.
* تخريج: ت/الزکاۃ ۲۹ (۶۶۵)، ن/الزکاۃ ۷۰ (۲۵۶۶) ( تحفۃ الأشراف :۱۸۳۰۵)، وقد أخرجہ: ط/صفۃ النبی ۵ (۸)، حم (۴/۷۰) (صحیح)
۱۶۶۷- ام بجید رضی اللہ عنہا یہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی، وہ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میرے دروازے پر مسکین کھڑا ہوتا ہے لیکن میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو میں اسے دوں، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نہ ملے جوتم اسے دے سکو سوائے ایک جلے ہوئے کھر کے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب الصَّدَقَةِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ
۳۴-باب: ذمّی کو صدقہ دینے کا بیان​


1668- حَدَّثَنا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي رَاغِبَةً فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: < نَعَمْ، فَصِلِي أُمَّكِ >۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۲۹ (۲۶۲۰)، والجزیۃ ۱۸ (۳۱۸۳)، والأدب ۸ (۵۹۷۸)، م/الزکاۃ ۱۴ (۱۰۰۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۴۴، ۳۴۷، ۳۵۵) (صحیح)
۱۶۶۸- اسما ء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئیں جو قریش کے دین کی طرف مائل اور اسلام سے بیزار اور مشرکہ تھیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار اور مشرکہ ہیں، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہاں، اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَا لا يَجُوزُ مَنْعُهُ
۳۵-باب: جس چیز کا روکنا جائز نہیں اس کا بیان​


1669- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ مَنْظُورٍ -رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا بُهَيْسَةُ؛ عَنْ أَبِيهَا قَالَتِ: اسْتَأْذَنَ أَبِي النَّبِيَّ ﷺ فَدَخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَمِيصِهِ فَجَعَلَ يُقَبِّلُ وَيَلْتَزِمُ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الشَّيْئُ الَّذِي لا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ: < الْمَاءُ > قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! مَا الشَّيْئُ الَّذِي لايَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ:[< الْمِلْحُ > قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الشَّيْئُ الَّذِي لا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ:] <أَنْ تَفْعَلَ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ویأتي برقم : (۳۴۷۶)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۶۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/ ۸۰، ۸۱)، دي/البیوع ۷۰ (۲۶۵۵) (ضعیف)
(اس کے رواۃ’’سیار‘‘اوران کے والد لین الحدیث ہیں اوربہیسہ مجہول ہیں)
۱۶۶۹- بہیسہ اپنے والد (عمیر ) کہتی ہیں کہ میرے والد نے نبی اکرم ﷺ سے ( آپ کے پاس آنے کی) اجازت طلب کی، (اجازت دے دی تو وہ آئے ) اور وہ آپ ﷺ کے اور آپ کی قمیص کے درمیان داخل ہو گئے ( یعنی آپ کی قمیص اٹھالی) اور آپ ﷺ کے بدن مبارک کو چومنے اور آپ سے لپٹنے لگے، پھرانہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سی شی ٔ ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’پانی‘‘، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی! وہ کون سی شی ٔ ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نمک‘‘،انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! وہ کون سی شی ٔ ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جتنی نیکی کرو اتنی ہی وہ تمہا رے لئے بہتر ہے ( یعنی پانی نمک تو مت روکو اس کے علاوہ اگر ممکن ہو تو دوسری چیزیں بھی نہ روکو)‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب الْمَسْأَلَةِ فِي الْمَسَاجِدِ
۳۶-باب: مسجد کے اندر سوال کرنے کا بیان​


1670- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < هَلْ مِنْكُمْ أَحَدٌ أَطْعَمَ الْيَوْمَ مِسْكِينًا؟ > فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا أَنَا بِسَائِلٍ يَسْأَلُ، فَوَجَدْتُ كِسْرَةَ خُبْزٍ فِي يَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَأَخَذْتُهَا مِنْهُ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۹۶۹۰) (صحیح) تراجع الألباني (141)
(قصہ کے تذکرے کے بغیر ابوہریرہ کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے،ورنہ اس سند میں مبارک مدلس راوی ہیں اوربذریعہ ’’عن‘‘روایت کئے ہوئے ہیں)
۱۶۷۰- عبدالر حمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے ایسا کوئی ہے جس نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلا یا ہو؟‘‘، ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بھکاری مانگ رہا ہے، میں نے عبدالرحمن کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا پایا توان سے اُسے لے کر میں نے بھکاری کو دے دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب كَرَاهِيَةِ الْمَسْأَلَةِ بِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى
۳۷-باب: اللہ کے نام پر مانگنے کی کر اہت کا بیان​


1671- حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الْقِلَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُعَاذٍ التَّمِيمِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يُسْأَلُ بِوَجْهِ اللَّهِ إِلا الْجَنَّةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۳۰۴۰) (ضعیف)
(اس کے راوی’’سلیمان‘‘ضعیف ہیں)
۱۶۷۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نام پر سوائے جنت کے کوئی چیز نہ مانگی جائے ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَاب عَطِيَّةِ مَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ
۳۸-باب: جو شخص اللہ کے نام پر ما نگے اسے دینے کا بیان​


1672- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ >۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۷۲ (۲۵۶۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۳۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۸، ۹۵، ۹۹، ۱۷۲) (صحیح)
۱۶۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو اللہ کے نا م پر پنا ہ مانگے اسے پناہ دو ، جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو، جو تمہیں دعوت دے اسے قبول کرو، اور جو تمہا رے ساتھ بھلائی کرے تم اس کا بدلہ دو ، اگر تم بدلہ دینے کے لئے کچھ نہ پائو تو اس کے حق میں اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک کہ تم یہ نہ سمجھ لو کہ تم اسے بدلہ دے چکے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب الرَّجُلِ يَخْرُجُ مِنْ مَالِهِ
۳۹-باب: اگر آدمی اپنا پو را مال صدقہ کر دے تو کیسا ہے؟​

1673- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ جَائَ[هُ] رَجُلٌ بِمِثْلِ بَيْضَةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَبْتُ هَذِهِ مِنْ مَعْدِنٍ، فَخُذْهَا فَهِيَ صَدَقَةٌ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ قِبَلِ رُكْنِهِ الأَيْمَنِ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ قِبَلِ رُكْنِهِ الأَيْسَرِ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ خَلْفِهِ، فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَحَذَفَهُ بِهَا، فَلَوْ أَصَابَتْهُ لأَوْجَعَتْهُ أَوْ لَعَقَرَتْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَأْتِي أَحَدُكُمْ بِمَا يَمْلِكُ فَيَقُولُ هَذِهِ صَدَقَةٌ، ثُمَّ يَقْعُدُ يَسْتَكِفُّ النَّاسَ، خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۳۰۹۷)، وقد أخرجہ: دي/الزکاۃ ۲۵ (۱۷۰۰) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ابن اسحاق‘‘مدلس ہیں،اور بذریعہ’’عن‘‘روایت کئے ہوئے ہیں)
۱۶۷۳- جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ ایک شخص انڈہ کے برابر سونا لے کرا ٓیا اور بولا : اللہ کے رسول! مجھے یہ ایک کان میں سے ملا ہے، آپ اسے لے لیجئے، یہ صدقہ ہے اور اس کے علاوہ میں کسی اور چیز کا مالک نہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا، وہ پھر آپ ﷺ کے پاس آپ کی دائیں جانب سے آیا اور ایسا ہی کہا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا ، پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آپ کی با ئیں جانب سے آیا ، رسول اللہ ﷺ نے پھر اس سے منہ پھیر لیا، پھر وہ آپ ﷺ کے پیچھے سے آیا آپ نے اسے لے کر پھینک دیا ، اگر وہ اسے لگ جاتا تو اس کو چوٹ پہنچاتا یا زخمی کر دیتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں ایک اپنا سارا مال لے کر چلا آتا ہے اور کہتا ہے: یہ صدقہ ہے، پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا تا ہے، بہترین صدقہ وہ ہے جس کا مالک صدقہ دے کرما ل دار رہے‘‘۔


1674- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: < خُذْ عَنَّا مَالَكَ، لا حَاجَةَ لَنَا بِهِ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۳۰۹۷) (ضعیف)
۱۶۷۴- اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: ’’خُذْ عَنَّا مَالَكَ، لا حَاجَةَ لَنَا بِهِ‘‘ (اپنا مال ہم سے لے لو ہمیں اس کی ضرورت نہیں)۔


1675- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ: دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ فَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَطْرَحُوا ثِيَابًا فَطَرَحُوا فَأَمَرَ لَهُ بِثَوْبَيْنِ ثُمَّ حَثَّ عَلَى الصَّدَقَةِ فَجَاءَ فَطَرَحَ أَحَدَ الثَّوْبَيْنِ فَصَاحَ بِهِ وَقَالَ خُذْ ثَوْبَكَ۔
* تخريج: ن/الجمعۃ ۲۶ (۴۰۹)، والزکاۃ ۵۵ (۲۵۳۷)، (تحفۃ الأشراف:۴۲۷۴)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۲۵۰ (الجمعۃ ۱۵) (۵۱۱)،حم (۳/۲۵) (حسن)
۱۶۷۵- ابو سعید خد ری رضی اللہ عنہ کہتیے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ کپڑے ( بطور صدقہ) ڈال دیں،انہوں نے ڈال دیا، پھر آپ ﷺ نے اس شخص کے لئے ان میں سے دو کپڑوں ( کے دیئے جانے ) کا حکم دیا، پھر آ ٓپ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ پر ابھارا تو وہ شخص دو میں سے ایک کپڑا ڈالنے لگا، آپ نے اسے دانٹا اور فرمایا: ’’اپنے کپڑے ۱؎ لے لو‘‘۔
وضاحت ۱؎ : رسول اللہ ﷺنے اس آدمی کا صدقہ قبول نہیں کیا کیونکہ اس کو صرف دو کپڑے ملے تھے اور وہ اس کی ضرورت سے زائد نہیں تھے۔


1676- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ خَيْرَ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، أَوْ تُصُدِّقَ بِهِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۲۳۵۶)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۱۸ (۱۴۲۶)، والنفقات ۲ (۵۳۵۵)، م/الزکاۃ ۳۵ (۱۰۴۲)، ت/الزکاۃ ۳۸ (۶۸۰)، ن/الزکاۃ ۵۳ (۲۵۳۵)، حم (۲/۲۳۰، ۲۴۳، ۲۷۸، ۲۸۸، ۳۱۹، ۳۶۲، ۳۹۴، ۴۳۴) (صحیح)
۱۶۷۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہترین صدقہ وہ ہے جو آدمی کو مال دار باقی رکھے یا (یوں فرمایا) وہ صدقہ ہے جسے دینے کے بعد مالک مال دار رہے اور صدقہ پہلے اسے دو جس کی تم کفالت کرتے ہو ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۴۰-باب: سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت کا بیان​


1677- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: < جُهْدُ الْمُقِلِّ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۴۸۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۵۸) (صحیح)
۱۶۷۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کم مال والے کا تکلیف اٹھا کر دینا اور پہلے ان لوگوں کو دو جن کا تم خر چ اٹھاتے ہو‘‘۔


1678- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهَذَا حَدِيثُهُ، قَالا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه يَقُولُ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا أَنْ نَتَصَدَّقَ، فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالا عِنْدِي، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَاْ أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ؟ > قُلْتُ: مِثْلَهُ، قَالَ: وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ؟ > قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قُلْتُ: لا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْئٍ أَبَدًا۔
* تخريج: ت/المناقب ۱۶ (۳۶۷۵)، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۳۹۰)، وقد أخرجہ: دي/الزکاۃ ۲۶ (۱۷۰۱) (حسن)
۱۶۷۸- اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی، میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جاسکوں گا تو آج کا دن ہو گا، چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’اپنے گھر والوں کے لئے تم نے کیا چھوڑا ہے؟‘‘، میں نے کہا: اسی قدر یعنی آدھا مال ، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارامال لے کرحاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا :’’اپنے گھر والوں کے لئے تم نے کیا چھوڑا ہے؟‘‘، انہوں نے کہا میں ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں ۱؎ ، تب میں نے( دل میں) کہا: میں آپ سے کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں بڑھ سکوں گا۔
وضاحت ۱؎ : گذشتہ باب کی حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سارا مال اللہ کی راہ میں دینے سے اللہ کے رسول نے روکا ہے، جب کہ باب کی اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری دولت اللہ کی راہ میں دے دی، اور یہ بات آپ کی فضیلت وبزرگی کا باعث بھی بنی، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ممانعت کاحکم ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے اعتماد اور توکل میں کمزوری ہو،اور وہ مال دینے کے بعد مفلسی سے گھبرائیں اور ندامت وشرمندگی محسوس کریں، لیکن اس کے برخلاف اگر کسی شخص کے اندر ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا جذبہ، اللہ کی ذات پر اعتماد وتوکل ہو تواس کے لئے اس کام میں کوئی حرج نہیں بلکہ باعث خیروبرکت ہوگا، ان شاء اللہ ۔
 
Top