• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب التَّزَوُّدِ فِي الْحَجِّ
۴-باب: سفر حج میں زاد راہ لینے کا بیان​


1730- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ -يَعْنِي أَبَامَسْعُودٍ الرَّازِيَّ- وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْمَخْرَمِيُّ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالا: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانُوا يَحُجُّونَ وَلا يَتَزَوَّدُونَ، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: كَانَ أَهْلُ الْيَمَنِ، [أَوْ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ] يَحُجُّونَ وَلايَتَزَوَّدُونَ، وَيَقُولُونَ: نَحْنُ الْمُتَوَكِّلُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى} الآيَةَ۔
* تخريج: خ/الحج ۶ (۱۵۲۳)، ن/الکبری/السیر (۸۷۹۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۶) (صحیح)
۱۷۳۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ حج کوجاتے اور زادراہ نہیں لے جاتے۔
ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اہل یمن یا اہل یمن میں سے کچھ لوگ حج کو جاتے اور زادراہ نہیں لیتے اور کہتے : ہم متوکل (اللہ پر بھروسا کرنے والے) ہیں تو اللہ نے آیت کریمہ {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى} ۱؎ ( زاد راہ ساتھ لے لواس لئے کہ بہترین زاد راہ یہ ہے کہ آدمی سوال سے بچے) نازل فرمائی۔
وضاحت ۱؎ : سورة البقرة: (۱۹۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب التِّجَارَةِ فِي الْحَجِّ
۵-باب: حج میں تجارت کرنے کا بیان​


1731- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ}، قَالَ: كَانُوا لا يَتَّجِرُونَ بِمِنًى فَأُمِرُوا بِالتِّجَارَةِ إِذَا أَفَاضُوا مِنْ عَرَفَاتٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۲۸)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۵۰ (۱۷۷۰) والبیوع ۱ (۲۰۵۰) وتفسیر القرآن ۳۴ (۲۰۹۸) (صحیح)
۱۷۳۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے راوی کہتے ہیں: انہوں نے یہ آیت {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ} ۱؎ (تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلا ش کرو) پڑھی اور بتایا کہ عرب کے لوگ منیٰ میں تجارت نہیں کرتے تھے تو انہیں عرفات سے واپسی پر منیٰ میں تجارت کا حکم دیا گیا۔
وضاحت ۱؎ : سورة البقرة: (۱۹۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَابٌ
۶- باب​


1732- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ، عن الاعمش، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مِهْرَانَ أَبِي صَفْوَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ>۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۵۰۱)، وقد أخرجہ: ق/المناسک ۱ (۲۸۸۳)، حم (۱/۲۲۵، ۳۲۳، ۳۵۵)، دي/الحج ۱ (۱۸۲۵) (حسن)
۱۷۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جوشخص حج کا ارادہ کرے تواسے جلدی انجام دے لے ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ تاخیر کی صورت میں اسے مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور وہ ایک فرض کا تارک ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7-بَاب الْكَرِيِّ
۷-باب: حج میں جانوروں کو کرایہ کے لیے لے جانے کا بیان​


1733- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْعَلاءُ بْنُ الْمُسَيِّبِ حَدَّثَنَا أَبُوأُمَامَةَ التَّيْمِيُّ قَالَ: كُنْتُ رَجُلا أُكَرِّي فِي هَذَا الْوَجْهِ؛ وَكَانَ نَاسٌ يَقُولُونَ [لِي]: إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَجٌّ، فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ إِنِّي رَجُلٌ أُكَرِّي فِي هَذَا الْوَجْهِ، وَإِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ [لِي]: إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَجٌّ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَلَيْسَ تُحْرِمُ وَتُلَبِّي، وَتَطُوفُ بِالْبَيْتِ، وَتُفِيضُ مِنْ عَرَفَاتٍ، وَتَرْمِي الْجِمَارَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ لَكَ حَجًّا، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَسَأَلَهُ عَنْ مِثْلِ مَا سَأَلْتَنِي عَنْهُ، فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ يُجِبْهُ، حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ}، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَقَرَأَ عَلَيْهِ هَذِهِ الآيَةَ، وَقَالَ: < لَكَ حَجٌّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵۵) (صحیح)
۱۷۳۳- ابو امامہ تیمی کہتے ہیں کہ میں لوگوں کوسفر حج میں کرائے پرجانور دیتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ تمہارا حج نہیں ہوتا، تو میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور ان سے عرض کیا: ابو عبدالرحمن! میں حج میں لوگوں کو جانور کراے پر دیتا ہوں اور لوگ مجھ سے کہتے ہیں تمہارا حج نہیں ہو تا، توابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم احرام نہیں باندھتے؟ تلبیہ نہیں کہتے؟ بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے؟ عرفات جاکر نہیں لوٹتے؟ رمی جمار نہیں کرتے ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، تو انہوں نے کہا: تمہارا حج درست ہے، ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ سے اسی طرح کا سوال کیا جو تم نے مجھ سے کیا تو آپ ﷺ نے سکوت فرمایا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آیت کریمہ {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ}(تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں کہ تم اپنے رب کا فضل ڈھونڈو)نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا بھیجا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی اورفرما یا: ’’تمہارا حج درست ہے‘‘۔


1734- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ؛ عَنْ [عَبْدِاللَّهِ] بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّاسَ فِي أَوَّلِ الْحَجِّ كَانُوا يَتَبَايَعُونَ بِمِنًى، وَعَرَفَةَ، وَسُوقِ ذِي الْمَجَازِ، وَمَوَاسِمِ الْحَجِّ، فَخَافُوا الْبَيْعَ وَهُمْ حُرُمٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ} [فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ] قَالَ: فَحَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَؤُهَا فِي الْمُصْحَفِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۵۸۷۲) (صحیح)
۱۷۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ شروع شروع میں منیٰ، عرفہ اور ذوالمجاز کے بازاروں اور حج کے موسم میں خرید و فروخت کیا کرتے تھے پھر انہیں حالت احرام میں خرید و فرخت کرنے میں تامل ہوا ، تو اللہ نے {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ}( تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) نازل کیا یعنی حج کے موسم میں۔
عطا کہتے ہیں: مجھ سے عبید بن عمیر نے بیان کیا کہ وہ ( ابن عباس) اسے ’’فِيْ مَوَاْسِمِ الحَجِّ‘‘ اپنے مصحف میں پڑھا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’فِيْ مَوَاسِمِ الحْجِّ‘‘ کا لفظ اس روایت کے مطابق ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مصحف میں اس آیت کا ٹکڑا تھا، مگر یہ قراء ت شاذ ہے۔


1735- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ كَلامًا مَعْنَاهُ أَنَّهُ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّاسَ فِي أَوَّلِ مَا كَانَ الْحَجُّ كَانُوا يَبِيعُونَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَى قَوْلِهِ مَوَاسِمِ الْحَجِّ۔
* تخريج: انظرما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۵۸۷۲) (صحیح)
(اس سند میں واقع ’’عبید مولی ابن عباس‘‘ مجہول ہیں جبکہ پہلی سند میں واقع ’’عبید‘‘ لیثی ہیں اور ثقہ ہیں)
۱۷۳۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ حج کے ابتدائی زمانے میں خرید وفروخت کرتے تھے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی روایت ان کے قول’’مواسم الحج‘‘ تک ذکر کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي الصَّبِيِّ يَحُجُّ
۸-باب: نابالغ بچوں کے حج کا بیان​


1736- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالرَّوْحَاءِ فَلَقِيَ رَكْبًا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، قَالَ: < مَنِ الْقَوْمُ؟ > فَقَالُوا: الْمُسْلِمُونَ، فَقَالُوا: فَمَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَفَزِعَتِ امْرَأَةٌ فَأَخَذَتْ بِعَضُدِ صَبِيٍّ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ مِحَفَّتِهَا، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلْ لِهَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: < نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ >۔
* تخريج: م/الحج ۷۲ (۱۳۳۶)، ن/المناسک ۱۵ (۲۶۴۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۳۳۶)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۸۱ (۲۴۴)، حم (۱/۲۴۴، ۲۸۸، ۳۴۳، ۳۴۴) (صحیح)
۱۷۳۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مقام روحاء میں تھے کہ آپ کو کچھ سوار ملے، آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا اور پوچھا :’’ کون لوگ ہو؟‘‘، انہوں نے جواب دیا: ہم مسلمان ہیں، پھر ان لوگوں نے پوچھا:آپ کون ہو؟ لوگوں نے انہیں بتایا کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں توایک عورت گھبرا گئی پھر اس نے اپنے بچے کا بازو پکڑا اور اسے اپنے محفے ۱؎ سے نکالا اور بولی: اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہو جائے گا ۲؎ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اور اجر تمہارے لئے ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ہودج کی طرح عورتوں کی سواری پر ایک سیٹ ہوتی ہے جسے محفّہ کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نابالغ کاحج صحیح ہے چونکہ اس کا ولی اس کی جانب سے کم سنی کی وجہ سے اعمال حج ادا کرتا ہے، اس لئے وہ ثواب کا مستحق ہوگا، واضح رہے اس سے حج کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی، بلکہ بلوغت کے بعد استطاعت کی صورت میں اس پر حج فرض ہے، اور بچپن کا حج اس کے لئے نفل ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب [فِي] الْمَوَاقِيتِ
۹-باب: میقات کا بیان​


1737- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ، وَبَلَغَنِي أَنَّهُ وَقَّتَ لأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ.
* تخريج: خ/الحج ۸ (۱۵۲۵)، م/الحج ۲ (۱۱۸۲)، ت/الحج ۱۷ (۸۳۱)، ن/المناسک ۱۷ (۲۶۵۲)، ق/المناسک ۱۳ (۲۹۱۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۶)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۸ (۲۲)، حم (۲/۴۸، ۵۵، ۶۵)، دي/المناسک ۵ (۱۸۳۱) (صحیح)
۱۷۳۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ ، اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل نجد کے لئے قرن کو میقات ۱ ؎ مقرر کیا، اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ ﷺ نے اہل یمن کے لئے یلملم ۲؎ کو میقات مقرر کیا۔
وضاحت ۱؎ : میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی نیت کرتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : یلملم ایک پہاڑ ہے جو مکہ سے دو دن کے فاصلہ پر واقع ہے۔


1738- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرِو [بْنِ دِينَارٍ]، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنِ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ قَالا: وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، بِمَعْنَاهُ، وَقَالَ أَحَدُهُمَا: وَلأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، وَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَلَمْلَمَ، قَالَ: < فَهُنَّ لَهُمْ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ مِمَّنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ > -قَالَ ابْنُ طَاوُسٍ:- < مِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ، قَالَ: وَكَذَلِكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا >.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۸ (۱۸۴۵)، م/الحج ۲ (۱۱۸۳)، ن/الحج ۲۰ (۲۶۵۵)، ۲۳ (۲۶۵۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۸، ۱۸۸۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۸، ۲۴۹) (صحیح)
۱۷۳۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میقات مقرر کیا پھر ان دونوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، ان دونوں (راویوں میں سے) میں سے ایک نے کہا :’’اہل یمن کے لئے یلملم‘‘، اور دوسرے نے کہا : ’’ألملم‘‘، اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ ان لوگوں کی میقاتیں ہیں اور ان کے علاوہ لوگوں کی بھی جو ان جگہوں سے گزر کر آئیں اور حج و عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں، اور جو لوگ ان کے اندر رہتے ہوں‘‘۔
ابن طائوس(اپنی روایت میں) کہتے ہیں: ان کی میقات وہ ہے جہاں سے وہ سفر شروع کریں یہاں تک کہ اہل مکہ مکہ ہی ۱؎ سے احرام باندھیں گے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ حاجی یا معتمر اگر مکہ یا مذکورہ مواقیت کے اندر رہتا ہو تو اس کا حکم عام لوگوں سے مختلف ہے اس کے لئے میقات پرجانا ضروری نہیں بلکہ اپنے گھر سے نکلتے وقت ہی احرام باندھ لینا اس کے لئے کافی ہوگا۔


1739- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ بَهْرَامَ الْمَدَائِنِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَافِىُّ بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ أَفْلَحَ -يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ- عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَقَّتَ لأَهْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ۔
* تخريج: ن/الحج ۱۹ (۲۶۵۴)، ۲۲ (۲۶۵۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۳۸) (صحیح)
۱۷۳۹- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لئے ذات عر ق ۱؎ کو میقات مقرر کیا ۔
وضاحت ۱؎ : سنن ترمذی کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اہل عراق کے لئے ذات عرق کو میقات عمر رضی اللہ عنہ نے متعین کیا تھا، لیکن یہ روایت ضعیف ہے، علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث نہیں معلوم تھی، آپ نے اپنے اجتہاد سے یہ میقات مقرر کی جو نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی میقات کے عین مطابق ہوگئی۔


1740- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ [مُحَمَّدِ بْنِ] حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لأَهْلِ الْمَشْرِقِ الْعَقِيقَ۔
* تخريج: ت/الحج ۱۷ (۸۳۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۴۳) (ضعیف)
(اس کے راوی’’یزید‘‘ضعیف ہیں، نیز ’’محمد بن علی‘‘ کا اپنے دادا’’ابن عباس‘‘ سے سماع نہیں ہے)
۱۷۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لئے عقیق کو میقات مقرر کیا۔


1741- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يُحَنَّسَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ جَدَّتِهِ حُكَيْمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الأَقْصَى إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ > أَوْ <وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ > شَكَّ عَبْدُاللَّهِ أَيَّتُهُمَا قَالَ.
[قَالَ أَبودَاود: يَرْحَمُ اللَّهُ وَكِيعًا! أَحْرَمَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، يَعْنِي إِلَى مَكَّةَ]۔
* تخريج: ق/المناسک ۴۹ (۳۰۰۱، ۳۰۰۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۹۹) (ضعیف)
(اس کی راویہ’’حکیمہ‘‘لین الحدیث ہیں،نیزیہ حدیث تمام صحیح روایات کے مخالف ہے)
۱۷۴۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے ہوئے سنا :’’ جو مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام تک حج اور عمرہ کا احرام باندھے تو اس کے اگلے اور پچھلے گنا ہ معاف کر دیئے جائیں گے، یا اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی‘‘، راوی عبداللہ کو شک ہے کہ انہوں نے دونوں میں سے کیا کہا۔
ابو داودکہتے ہیں: اللہ وکیع پر رحم فرمائے کہ انہوں نے بیت المقدس سے مکہ تک کے لئے احرام باندھا ۔


1742- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عُتْبَةُ ابْنُ عَبْدِالْمَلِكِ السَّهْمِيُّ، حَدَّثَنِي زُرَارَةُ بْنُ كُرِيْمٍ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ عَمْرٍو السَّهْمِيَّ حَدَّثَهُ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ بِمِنًى أَوْ بِعَرَفَاتٍ، وَقَدْ أَطَافَ بِهِ النَّاسُ، قَالَ: فَتَجِيئُ الأَعْرَابُ فَإِذَا رَأَوْا وَجْهَهُ قَالُوا: هَذَا وَجْهٌ مُبَارَكٌ، قَالَ: وَوَقَّتَ ذَاتَ عِرْقٍ لأَهْلِ الْعِرَاقِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸۵) (حسن)
۱۷۴۲- حا رث بن عمرو سہمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ،آپ منیٰ میں تھے یا عرفات میں، اور لوگوں نے آپ ﷺ کو گھیر رکھا تھا، تو اعراب (دیہاتی) آتے اور جب آپ کا چہرہ دیکھتے تو کہتے یہ برکت والا چہرہ ہے، آپ ﷺ نے اہل عراق کے لئے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب الْحَائِضِ تُهِلُّ بِالْحَجِّ
۱۰-باب: حا ئضہ عورت حج کا تلبیہ پکارے اور احرام باندھ لے​


1743- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: نُفِسَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ بِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ بِالشَّجَرَةِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبَا بَكْرٍ أَنْ تَغْتَسِلَ فَتُهِلَّ۔
* تخريج: م/الحج ۱۶ (۱۲۰۹)، ق/المناسک ۱۲ (۲۹۱۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۰۲)، وقد أخرجہ: ن/الحیض ۲۴ (۲۱۵)، والحج ۵۷ (۲۷۶۲)، ط/الحج ۴۱(۱۲۷، ۱۲۸)، دي/المناسک ۱۱ (۱۸۴۵)، ۳۴ (۱۸۹۲) (صحیح)
۱۷۴۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ( ابوبکررضی اللہ عنہ کی بیوی) کو مقام شجرہ میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی (ولا دت کی ) وجہ سے نفاس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ( اسماء سے کہو کہ) وہ غسل کرلے پھر تلبیہ پکارے۔


1744- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو مَعْمَرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ وَمُجَاهِدٍ وَعَطَائٍ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < الْحَائِضُ وَالنُّفَسَاءُ إِذَا أَتَتَا عَلَى الْوَقْتِ تَغْتَسِلانِ وَتُحْرِمَانِ وَتَقْضِيَانِ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا غَيْرَ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ >.
قَالَ أَبُو مَعْمَرٍ فِي حَدِيثِهِ: حَتَّى تَطْهُرَ، وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنُ عِيسَى عِكْرِمَةَ وَمُجَاهِدًا، قَالَ: عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ عِيسَى: < كُلَّهَا >، قَالَ: < الْمَنَاسِكَ إِلا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ >۔
* تخريج: ت/الحج ۱۰۰ (۹۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۶۳) (صحیح)
۱۷۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’حائضہ اور نفاس والی عورتیں جب میقات پر آجائیں توغسل کریں، احرام باندھیں اور حج کے تمام مناسک ادا کریں سوائے بیت اللہ کے طواف کے‘‘ ۱؎ ۔
ابومعمر نے اپنی حدیث میں’’حَتَّى تَطْهُرَ ‘‘( یہاں تک کہ پاک ہوجائیں) کا اضافہ کیا۔
ابن عیسی نے عکرمہ اور مجاہد کا ذکر نہیں کیا، بلکہ یوں کہا : ’’عن عطاء عن ابن عباس‘‘ اور ابن عیسی نے ’’كُلَّهَا‘‘ کا لفظ بھی نقل نہیں کیا بلکہ صرف’’المناسك إلا الطواف بالبيتِ‘‘ (مناسک پورے کریں بجز خانہ کعبہ کے طواف کے) کہا۔
وضاحت ۱؎ : حیض اور نفاس والی عورت حیض یا نفاس سے پاک ہونے کے بعد طواف قدوم اور طواف عمرہ کرے گی، طواف میں جو تاخیر ہوگی اس سے اس کے حج میں کوئی نقض واقع نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب الطِّيبِ عِنْدَ الإِحْرَامِ
۱۱-باب: احرام کے وقت خوشبو لگانے کا بیان​


1745- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لإِحْرَامِهِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ، وَلإِحْلالِهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ۔
* تخريج: خ/الغسل ۱۲(۲۶۷)، ۱۴ (۲۷۰)، والحج ۱۸ (۱۵۳۹)، ۱۴۳ (۱۷۵۴)، واللباس ۷۳ (۵۹۲۲)، ۷۴ (۵۹۲۳)، ۷۹ (۵۹۲۸)، ۸۱ (۵۹۳۰)، م/الحج ۷ (۱۱۸۹)، ن/الحج ۴۱ (۲۶۸۶)، ق/المناسک ۱۸ (۲۹۲۶)، ط/الحج ۷ (۱۷)، حم ۶/۹۸، ۱۰۶، ۱۳۰، ۱۶۲، ۱۸۱، ۱۸۶، ۱۹۲، دي/المناسک ۱۰ (۱۸۴۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۱۸، ۱۷۵۱۸)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۷۷ (۹۱۷) (صحیح)
۱۷۴۵- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو جب آپ احرام باندھتے تو احرام باندھنے سے پہلے اور احرام کھولنے کے بعد اس سے پہلے کہ آپ طواف کریں خوشبو لگایا کرتی تھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حالت احرام میں کسی قسم کی خوشبو کا استعمال درست نہیں، لیکن اگر یہی خوشبو احرام باندھتے وقت لگائی جائے تو مستحب ہے ، چاہے یہ خوشبو بدن یا کپڑے میں احرام کے بعد بھی باقی رہے۔


1746- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الْمِسْكِ فِي مَفْرِقِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ مُحْرِمٌ۔
* تخريج: م/الحج ۷ (۱۱۹۰)، ن/الحج ۴۱ (۲۶۹۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۸، ۱۸۶، ۲۱۲، ۱۹۱، ۲۲۴، ۲۲۸، ۲۴۵) (صحیح)
۱۷۴۶- ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں اور آپ احرام باندھے ہوئے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب التَّلْبِيدِ
۱۲-باب: سرکے بال کی تلبید (یعنی گوند وغیرہ سے جما لینے) کا بیان​


1747- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ؛ عَنْ سَالِمٍ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِاللَّهِ- عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُهِلُّ مُلَبِّدًا۔
* تخريج: خ/الحج ۱۹ (۱۵۴۰)، واللباس ۶۹ (۵۹۱۴)، م/الحج ۳ (۱۱۸۴)، ن/المناسک ۴۰ (۲۶۸۴)، ق/المناسک ۷۲ (۳۰۴۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۹۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۱، ۱۳۱) (صحیح)
۱۷۴۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو تلبیہ پڑھتے سنا اور آپ اپنے سرکی تلبید ۱؎ کئے ہوئے تھے۔
وضاحت ۱؎ : ’’تلبيد‘‘: بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لینے کو تلبید کہتے ہیں، تاکہ وہ گرد وغبار نیز بکھرنے سے محفوظ رہیں۔


1748- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ؛ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَبَّدَ رَأْسَهُ بِالْعَسَلِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۸۴۱۴) (ضعیف)
(ابن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
۱۷۴۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر کے بال شہد سے جمائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب [فِي] الْهَدْيِ
۱۳-باب: ہدی کا بیان​


1749- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ [(ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَقَ]، الْمَعْنَى، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي نَجِيحٍ- حَدَّثَنِي مُجَاهِدٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَهْدَى عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي هَدَايَا رَسُولِ اللَّهِ ﷺ جَمَلا كَانَ لأَبِي جَهْلٍ فِي رَأْسِهِ بُرَةُ فِضَّةٍ، قَالَ ابْنُ مِنْهَالٍ: بُرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، زَادَ النُّفَيْلِيُّ: يَغِيظُ بِذَلِكَ الْمُشْرِكِينَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۰۶)، وقد أخرجہ: ق/المناسک ۹۸ (۳۱۰۰) حم (۱/۲۶۱، ۲۷۳) (حسن) بلفظ: ’’فضة‘‘
۱۷۴۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال ہدی ۱؎ کے لئے جو اونٹ بھیجا ان میں ایک اونٹ ابو جہل کا ۲؎ تھا، اس کے سر میں چاندی کا چھلا پڑا تھا، ابن منہال کی روایت میں ہے کہ’’ سونے کا چھلا تھا‘‘، نفیلی کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ’’ اس سے آپ ﷺ مشرکین کو غصہ دلارہے تھے‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’هدي‘‘: حج میں ذبح کے لئے لے جانے والے جانور کو کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ اونٹ رسول اللہ ﷺ کو جنگ میں بطور غنیمت ملا تھا۔
وضاحت ۳؎ : تاکہ یہ تأثر دیا جائے کہ مشرکین کے سردار کا اونٹ مسلمانوں کے قبضے میں ہے۔
 
Top