• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِي هَدْيِ الْبَقَرِ
۱۴-باب: گائے بیل کی ہدی کا بیان​


1750- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَحَرَ عَنْ آلِ مُحَمَّدٍ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بَقَرَةً وَاحِدَةً۔
* تخريج: ق/الأضاحي ۵ (۳۱۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۲۴)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۱۵ (۱۷۰۹)، والأضاحي ۳ (۵۵۴۸)، م/الحج ۶۲ (۱۳۱۹)، ط/الحج ۵۸(۱۷۹)، حم (۶/۲۴۸) (صحیح)
۱۷۵۰- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے آل ۱؎ کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہاں آل سے مراد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں۔
وضاحت ۲؎ : ایک گائے یا اونٹ میں سات آدمی کی شرکت ہوسکتی ہے،اس حج میں آپ ﷺ کے ساتھ سات ہی ازواج مطہرات ہوں گی، یا بخاری ومسلم کے لفظ ’’ضَحَّىْ‘‘ (قربانی کی) سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے بطور ہدی نہیں بلکہ بطور قربانی ذبح کیا، توپورے گھروالوں کی طرف سے گائے ذبح کی۔


1751- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ذَبَحَ عَمَّنِ اعْتَمَرَ مِنْ نِسَائِهِ بَقَرَةً بَيْنَهُنَّ۔
* تخريج: ق/الأضاحي ۵ (۳۱۳۳)، ن/الکبری /الحج (۴۱۲۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۶) (صحیح)
۱۷۵۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ان تمام ازواج مطہرات کی طرف سے جنہوں نے عمرہ کیا تھا (حجۃ الوداع کے موقعہ پر) ایک گائے ذبح کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب فِي الإِشْعَارِ
۱۵-باب: اِشعا ر کا بیان​


1752- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، وَحَفْصُ بْنُ عُمَرَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ: قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ دَعَا بِبَدَنَةٍ فَأَشْعَرَهَا مِنْ صَفْحَةِ سَنَامِهَا الأَيْمَنِ، ثُمَّ سَلَتَ عَنْهَا الدَّمَ، وَقَلَّدَهَا بِنَعْلَيْنِ، ثُمَّ أُتِيَ بِرَاحِلَتِهِ فَلَمَّا قَعَدَ عَلَيْهَا وَاسْتَوَتْ بِهِ عَلَى الْبَيْدَائِ أَهَلَّ بِالْحَجِّ۔
* تخريج: م/الجج ۳۲ (۱۲۴۳)، ت/الحج ۶۷ (۹۰۶)، ن/الحج ۶۴ (۲۷۷۶)، ۶۷ (۲۷۸۴)، ۷۰ (۲۷۹۳)، ق/المناسک ۹۶ (۳۰۹۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۹)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۲۳ (۱۵۴۹)، حم (۱/۲۱۶، ۲۵۴، ۲۸۰، ۳۳۹، ۳۴۴، ۳۴۷، ۳۷۳)، دي/المناسک ۶۸ (۱۹۵۳) (صحیح)
۱۷۵۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی الحلیفہ میں ظہر پڑھی پھرآپ نے ہدی کا اونٹ منگایا اور اس کے کوہان کے داہنی جا نب اِشعار ۱؎ کیا، پھر اس سے خون صاف کیا اور اس کی گردن میں دو جوتیاں پہنا دیں، پھر آپ ﷺ کی سواری لائی گئی جب آپ اس پر بیٹھ گئے اور وہ مقام بیداء میں آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ ﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔
وضاحت ۱؎ : ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اسے اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے، یہ بھی ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے۔
وضاحت ۲؎ : اشعار مسنون ہے، اس کا انکار صرف امام ابوحنیفہ نے کیا ہے، وہ کہتے ہیں : ’’یہ مثلہ ہے جو درست نہیں‘‘، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ مثلہ نہیں ہے ، مثلہ ناک کان وغیرہ کاٹنے کو کہتے ہیں، اشعار فصد یا حجامت کی طرح ہے، جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔


1753- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى؛ عَنْ شُعْبَةَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَى أَبِي الْوَلِيدِ، قَالَ: ثُمَّ سَلَتَ الدَّمَ بِيَدِهِ.
قَالَ أَبودَاود : رَوَاهُ هَمَّامٌ . قَالَ: سَلَتَ الدَّمَ عَنْهَا بِأُصْبُعِهِ.
قَالَ أَبودَاود : هَذَا مِنْ سُنَنِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ الَّذِي تَفَرَّدُوا بِهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۹) (صحیح)
۱۷۵۳- اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث ابو الولید کے روایت کے مفہوم کی طرح مروی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’ثُمَّ سَلَتَ الدَّمَ بِيَدِهِ‘‘ ( آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے خون صاف کیا) ۔
ابو داود کہتے ہیں: ہمام کی روایت میں ’’سَلَتَ الدَّمَ عَنْهَا بِأصْبِعِهِِ‘‘کے الفاظ ہیں۔
ابو داود کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف اہل بصرہ کی سنن میں سے ہے جو اس میں منفرد ہیں۔


1754- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ؛ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانُ [بْنُ الْحَكَمِ] أَنَّهُمَا قَالا: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الُحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۶(۱۶۹۴)، والمغازي ۳۶ (۴۱۵۷، ۴۱۵۸)، ن/الحج ۶۲ (۲۷۷۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/ ۳۲۳، ۳۲۷، ۳۲۸، ۳۳۱) (صحیح)
۱۷۵۴- مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما اور مروان دونوں سے روایت ہے ، وہ دونوں کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے سال نکلے جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو ہدی ۱؎ کو قلادہ پہنایا اور اس کا اشعار کیا اور احرام باندھا۔
وضاحت ۱؎ : ’’ ہدی ‘‘ اس جانور کو کہتے ہیں جو حج تمتع یا حج قران میں مکہ میں ذبح کیا جاتا ہے، نیز اس جانور کو بھی ’’ ہدی ‘‘ کہتے ہیں جس کو غیر حاجی حج کے موقع سے مکہ میں ذبح کرنے کے لئے بھیجتا ہے۔


1755- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَهْدَى غَنَمًا مُقَلَّدَةً۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۶ (۱۷۰۱)، م /الحج ۶۴ (۱۳۲۱)، ت/الحج ۷۰ (۹۰۹)، ن/الحج ۶۹ (۲۷۸۹)، ق/المناسک ۹۵ (۳۰۹۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۴۴، ۱۵۹۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۱، ۴۲، ۲۰۸) (صحیح)
۱۷۵۵- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سی بکریاں قلادہ پہنا کر ہدی میں بھیجیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب تَبْدِيلِ الْهَدْيِ
۱۶-باب: ہدی تبدیل کرنے کا بیان​


1756- حَدَّثَنَا [عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ] النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحِيمِ -قَالَ أَبودَاود: أَبُو عَبْدِالرَّحِيمِ خَالِدُ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، خَالُ [مُحَمَّدٍ يَعْنِي] ابْنَ سَلَمَةَ، رَوَى عَنْهُ حَجَّاجُ ابْنُ مُحَمَّدٍ- عَنْ جَهْمِ بْنِ الْجَارُودِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَهْدَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ [بَخْتِيًّا] فَأُعْطِى بِهَا ثَلاثَ مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَهْدَيْتُ بَخِتيًا، فَأُعْطِيْتُ بِهَا ثَلاثَ مِائَةِ دِينَارٍ، أَفَأَبِيعُهَا وَأَشْتَرِي بِثَمَنِهَا بُدْنًا؟ قَالَ: < لا، انْحَرْهَا إِيَّاهَا >.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا لأَنَّهُ كَانَ أَشْعَرَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۷۴۸)، وقد أخرجہ: (حم (۲/۱۴۵) (ضعیف)
(ایک تو’’جہم‘‘لین الحدیث ہیں،دوسرے’’سالم‘‘سے ان کاسماع ثابت نہیں ہے)
۱۷۵۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک بختی اونٹ ہدی کیا پھر انہیں اس کی قیمت تین سو دینار دی گئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نے بختی اونٹ ہدی کیا اس کے بعد مجھے اس کی قیمت تین سو دینار مل رہی ہے، کیا میں اسے بیچ کر اس کی قیمت سے ( ہدی کے لئے) ایک اونٹ خرید لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’نہیں اسی کو نحر کرو‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ ممانعت (نہی ) اس لئے تھی کہ وہ اس کا اِشعار کر چکے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَنْ بَعَثَ بِهَدْيِهِ وَأَقَامَ
۱۷-باب: ہدی بھیج کرخود مقیم رہنے کا بیان​


1757- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ؛ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَتَلْتُ قَلائِدَ بُدْنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِيَدِي، ثُمَّ أَشْعَرَهَا وَقَلَّدَهَا، ثُمَّ بَعَثَ بِهَا إِلَى الْبَيْتِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ، فَمَا حَرُمَ عَلَيْهِ شَيْئٌ كَانَ لَهُ حِلا۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۶ (۱۶۹۶)، ۱۰۷(۱۶۹۸)، ۱۰۸ (۱۶۹۹)، ۱۰۹ (۱۷۰۰)، ۱۱۰ (۱۷۰۱)، والوکالۃ ۱۴ (۲۳۱۷)، والأضاحي ۱۵ (۵۵۶۶)، م/الحج ۶۴ (۱۳۲۱)، ن/الحج ۶۲ (۲۷۷۴)، ۶۸ (۲۷۸۵)، ق/المناسک ۹۴ (۳۰۹۴)، ۹۶ (۳۰۹۸)، وانظر أیضا حدیث رقم : (۱۷۵۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۳۳)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۶۹ (۹۰۸)، ط/الحج ۱۵(۵۱)، حم (۶/۳۵، ۳۶، ۷۸، ۸۵، ۹۱، ۱۰۲، ۱۲۷، ۱۷۴، ۱۸۰، ۱۸۵، ۱۹۱، ۲۰۰) (صحیح)
۱۷۵۷- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے لئے قلادے بٹے پھر آپ نے انہیں اِشعار کیا اور قلا دہ ۱؎ پہنایا پھر انہیں بیت اللہ کی طرف بھیج دیا اور خود مکہ میں مقیم رہے اور کوئی چیز جو آپ ﷺ کے لئے حلال تھی آپ پر حرام نہیں ہوئی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ یا رسی وغیرہ لٹکانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ ان جانوروں کواللہ کے گھر کے لئے خاص جان کر ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقیم کے لئے بھی ہدی بھیجنا درست ہے اور صرف ہدی بھیج دینے سے وہ محرم نہیں ہوگا، اور نہ اس پر کوئی چیز حرام ہوگی جو محرم پر ہوتی ہے، جب تک کہ وہ احرام کی نیت کرکے احرام پہن کر خود حج کو نہ جائے، اور بعض لوگوں کی رائے ہے کہ وہ بھی مثل محرم کے ہوگا اس کے لئے بھی ان تمام چیزوں سے اس وقت تک بچنا ضروری ہوگا جب تک کہ ہدی قربان نہ کردی جائے، لیکن صحیح جمہور کا مذہب ہی ہے، جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔


1758- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ [الْهَمَدَانِيُّ] وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ حَدَّثَهُمْ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُهْدِي مِنَ الْمَدِينَةِ فَأَفْتِلُ قَلائِدَ هَدْيِهِ ثُمَّ لا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ۔
* تخريج: خ/الحج (۱۶۹۸)، م/الحج ۶۴ (۱۳۲۱)، ن/الحج ۶۵ (۲۷۷۷)، ق/الحج ۹۴ (۳۰۹۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۲، ۱۷۹۲۳)، وقد أخرجہ: (۶/۶۲) (صحیح)
۱۷۵۸- عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے ہدی بھیجتے تو میں آپ کی ہدی کے قلادے بٹتی اس کے بعد آپ کسی چیز سے اجتناب نہیں کرتے جس سے محرم اجتناب کرتا ہے۔


1759- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَعَنْ إِبْرَاهِيمَ، زَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهُمَا جَمِيعًا، وَلَمْ يَحْفَظْ حَدِيثَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ هَذَا، وَلا حَدِيثَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ هَذَا، قَالا: قَالَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْهَدْيِ فَأَنَا فَتَلْتُ قَلائِدَهَا بِيَدِي مِنْ عِهْنٍ كَانَ عِنْدَنَا، ثُمَّ أَصْبَحَ فِينَا حَلالا يَأْتِي مَا يَأْتِي الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِهِ۔
* تخريج: خ/الحج (۱۷۰۵)، م/الحج ۶۴ (۱۳۲۱)، ن/الحج ۶۵ (۲۷۷۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۱۸، ۱۷۴۶۶) (صحیح)
۱۷۵۹- ام المو منین (عا ئشہ) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدی روانہ کئے تو میں نے اپنے ہاتھ سے اس اون سے ان کے قلادے بٹے جو ہمارے پاس تھی پھر آپ ﷺ نے حلال ہو کر ہم میں صبح کی آپ نے وہ تمام کام کئے جو ایک حلال (غیرمُحرم) آدمی اپنی بیوی سے کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب فِي رُكُوبِ الْبُدْنِ
۱۸-باب: ہدی کے اونٹوں پر سوار ہونے کا بیان​


1760- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَى رَجُلا يَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ: < ارْكَبْهَا > قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، فَقَالَ: <ارْكَبْهَا وَيْلَكَ > فِي الثَّانِيَةِ، أَوْ [فِي] الثَّالِثَةِ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۳ (۱۶۸۹)، والوصایا ۱۲ (۲۷۵۵)، والأدب ۹۵ (۶۱۶۰)، م/الحج ۶۵ (۱۳۲۲)، ن/الحج ۷۴ (۲۸۰۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۰۱)، وقد أخرجہ: ق/المناسک ۱۰۰ (۳۱۰۳)، ط/الحج ۴۵ (۱۳۹)، حم (۲/۲۵۴، ۲۷۸، ۳۱۲، ۴۶۴، ۴۷۴، ۴۷۸) (صحیح)
۱۷۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہدی کا اونٹ ہانک کر لے جا رہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس پر سوار ہو جاؤ‘‘، وہ بو لا: یہ ہدی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس پر سوار ہوجاؤ، تمہارا برا ہو‘‘ ۱؎ ، یہ آپ ﷺ نے دوسری یا تیسری بار میں فرمایا۔
وضاحت ۱؎ : یہ آپ ﷺ نے بطور زجر وتوبیخ کے فرمایا، کیوں کہ سواری کی اجازت آپ ﷺ پہلے دے چکے تھے، اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ ہدی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدی کے جانور پر سواری درست ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ بوقت ضرورت و حاجت جائز ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ جب جی چاہے سوار ہوسکتا ہے، خواہ حاجت ہو یا نہ ہو، اور بعض نے سوار ہونے کو واجب کہا ہے، کیوں کہ اس میں زمانہ ٔ جاہلیت کے طریقہ کی مخالفت ہے، وہ لوگ ایسے جانوروں کی ان کے درجہ سے زیادہ قدرو منزلت کرتے تھے۔


1761- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ عَنْ رُكُوبِ الْهَدْيِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < ارْكَبْهَا بِالْمَعْرُوفِ؛ إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا، حَتَّى تَجِدَ ظَهْرًا >۔
* تخريج: م/الحج ۶۵ (۱۳۲۴)، ن/الحج ۷۶ (۲۸۰۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۷، ۳۲۴، ۳۲۵، ۳۴۸) (صحیح)
۱۷۶۱- ابوزبیرکہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے ہدی پر سوار ہونے کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے، جب تم اس کے لئے مجبور کردئے جاؤ تو اس پر سوار ہو جائو بھلائی کے ساتھ یہاں تک کہ تمہیں کوئی دوسری سواری مل جائے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے امام ابوحنیفہ کے مذہب کی تائید ہوتی ہے، جنہوں نے سوار ہونے کے لئے حاجت و ضرورت کی قید لگائی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب فِي الْهَدْيِ إِذَا عَطِبَ قَبْلَ أَنْ يَبْلُغَ
۱۹-باب: ہدی کا جانوراپنے مقام (مکہ) پر پہنچنے سے پہلے ہلاک ہوجائے توکیا کیا جائے؟​


1762- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَاجِيَةَ الأَسْلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ مَعَهُ بِهَدْيٍ فَقَالَ: < إِنْ عَطِبَ مِنْهَا شَيْئٌ فَانْحَرْهُ؛ ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَهُ فِي دَمِهِ؛ ثُمَّ خَلِّ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ >۔
* تخريج: ت/الحج ۷۱ (۹۱۰)، ن/الکبری /الأطعمۃ (۶۶۳۹)، ق/المناسک ۱۰۱ (۳۱۰۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۸۱)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۴۷(۱۴۸)، حم (۴/۳۳۴)، دي/المناسک ۶۶ (۱۹۵۰) (صحیح)
۱۷۶۲- ناجیہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہدی بھیجا اور فرمایا: ’’اگر ان میں سے کوئی مرنے لگے تو اس کو نحر کرلینا پھراس کی جوتی اسی کے خون میں رنگ کر اسے لوگوں کے واسطے چھوڑ دینا‘‘۔


1763- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، وَهَذَا حَدِيثُ مُسَدَّدٍ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فُلانًا الأَسْلَمِيَّ، وَبَعَثَ مَعَهُ بِثَمَانِ عَشْرَةَ بَدَنَةً، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ أُزْحِفَ عَلَيَّ مِنْهَا شَيْئٌ؟ قَالَ: < تَنْحَرُهَا ثُمَّ تَصْبُغُ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ اضْرِبْهَا عَلَى صَفْحَتِهَا، وَلا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ > أَوْ قَالَ: < مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ >.
[قَالَ أَبودَاود: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ قَوْلُهُ: < وَلا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلا أَحَدٌ مِنْ رُفْقَتِكَ >]، وَقَالَ فِي حَدِيثِ عَبْدِالْوَارِثِ: < [ثُمَّ] اجْعَلْهُ عَلَى صَفْحَتِهَا > مَكَانَ <اضْرِبْهَا >.
[قَالَ أَبودَاود: سَمِعْت أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: إِذَا أَقَمْتَ الإِسْنَادَ وَالْمَعْنَى، كَفَاكَ ]۔
* تخريج: م/الحج ۶۶ (۱۳۲۵)، ن/الکبری /الحج (۴۱۳۶)، وانظر أیضا ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۵۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۷، ۲۴۴، ۲۷۹) (صحیح)
۱۷۶۳- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں اسلمی کو ہدی کے اٹھارہ اونٹ دے کر بھیجا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کوئی( چلنے سے) عاجز ہو جائے تو آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے نحر کر دینا پھراس کے جوتے کو اسی کے خون میں رنگ کر اس کی گردن کے ایک جانب چھاپ لگا دینا اور اس میں سے کچھ مت کھانا ۱؎ اور نہ ہی تمہارے ساتھ والوں میں سے کوئی کھائے ، یا آپ ﷺ نے یوں فرمایا: ’’من أهل رفقتك‘‘ ( یعنی تمہارے رفقاء میں سے کوئی نہ کھائے)۔
ابو داود کہتے ہیں: عبدالوارث کی حدیث میں’’اضْرِبْهَا‘‘کے بجائے ’’ ثمَّ اجْعَلْهُ عَلَى صَفْحَتِهَا ‘‘ ہے۔
ابوداود کہتے ہیں: میں نے ابو سلمہ کو کہتے سنا :جب تم نے سند اور معنی درست کرلیا تو تمہیں کافی ہے۔
وضاحت ۱؎ : تاکہ یہ الزام نہ آئے کہ ہدی کے جانور کوکھانا چاہتا تھا، اس لئے نحر (ذبح) کرڈالا۔


1764- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَيَعْلَى ابْنَا عُبَيْدٍ قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: لَمَّا نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بُدْنَهُ، فَنَحَرَ ثَلاثِينَ بِيَدِهِ، وَأَمَرَنِي فَنَحَرْتُ سَائِرَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۱) (منکر)
(یہ روایت صحیح مسلم کی روایت کے خلاف ہے جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے (۶۳) اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کئے، باقی علی رضی اللہ عنہ نے کئے)
۱۷۶۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہدی کے اونٹوں کا نحر کیا تو اپنے ہاتھ سے تیس (۳۰) اونٹ نحر کئے پھر مجھے حکم دیا تو باقی سارے میں نے نحر کئے۔


1765- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، وَهَذَا لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُحَيٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ قُرْطٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِنَّ أَعْظَمَ الأَيَّامِ عِنْدَاللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ > قَالَ عِيسَى: قَالَ ثَوْرٌ]: وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي، وَقَالَ: وَقُرِّبَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَدَنَاتٌ خَمْسٌ، أَوْ سِتٌّ، فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ، فَلَمَّا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا، قَالَ: فَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ خَفِيَّةٍ لَمْ أَفْهَمْهَا، فَقُلْتُ: مَا قَالَ؟ قَالَ: < مَنْ شَاءَ اقْتَطَعَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۸۹۷۷)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/الحج (۴۰۹۸)، حم (۴/۳۵۰) (صحیح)
۱۷۶۵- عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے پھر یوم القر ہے ۱؎ ‘‘، اس دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں ، تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھنے لگی کہ آپ نحر کی ابتدا اس سے کریں جب وہ گرگئیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکا تو میں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چاہے اس میں سے گو شت کاٹ لے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : عیسیٰ کہتے ہیں: ثور نے کہا: وہ دوسرا دن ہے،یعنی گیارہویں ذی الحجہ کا دن۔


1766- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الأَزْدِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ غُرْفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيِّ قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَأُتِيَ بِالْبُدْنِ، فَقَالَ: < ادْعُوا لِي أَبَا حَسَنٍ > فَدُعِيَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه، فَقَالَ [لَهُ]: <خُذْ بِأَسْفَلِ الْحَرْبَةِ> وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِأَعْلاهَا، ثُمَّ طَعَنَا بِهَا [فِي] الْبُدْنِ، فَلَمَّا فَرَغَ رَكِبَ بَغْلَتَهُ، وَأَرْدَفَ عَلِيًّا رَضِي اللَّه عَنْه۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۱۹) (ضعیف)
(اس کے راوی’’عبداللہ بن حارث کندی ازدی‘‘لین الحدیث ہیں)
۱۷۶۶- عرفہ بن حارث کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا ، ہدی کے اونٹ لائے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ابو الحسن (علی کی کنیت ہے )کو بلاؤ‘‘، چنانچہ آپ کے پا س علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر لایا گیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تم برچھی کا نچلا سرا پکڑو‘‘ ، اور رسول اللہ ﷺ نے اوپر کا سرا پکڑا پھر اونٹوں کو نحر کیا جب فارغ ہو گئے تو اپنے خچر پر سوار ہوئے اور علی کو اپنے پیچھے سوار کرلیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب كَيْفَ تُنْحَرُ الْبُدْنُ؟
۲۰-باب: اونٹ کیسے نحر کئے جا ئیں؟​


1767- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَابِطٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَصْحَابَهُ كَانُوا يَنْحَرُونَ الْبَدَنَةَ مَعْقُولَةَ الْيُسْرَى، قَائِمَةً عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۲۸۶۸) (صحیح)
۱۷۶۷- جابر سے روایت ہے(ابن جریج کہتے ہیں: نیز مجھے عبدالرحمن بن سابط نے(مرسلا) خبر دی ہے) کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کا بایاں پائوں باندھ کر اور باقی پیروں پر کھڑا کر کے اسے نحر کرتے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اونٹ کو سینہ پرمار کرذبح کرتے ہیں اس لیے نحرکا لفظ استعمال ہوا ۔


1768- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِمِنًى، فَمَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَنْحَرُ بَدَنَتَهُ وَهِيَ بَارِكَةٌ، فَقَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ ﷺ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۱۸ (۱۷۱۳)، م/الحج ۶۳ (۱۳۲۰)، ن/الکبری/ الحج (۴۱۳۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۷۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳، ۸۶، ۱۳۹) دي/المناسک ۷۰ (۱۹۵۵) (صحیح)
۱۷۶۸- یونس کہتے ہیں مجھے زیاد بن جبیرنے خبر دی ہے ،وہ کہتے ہیں: میں منیٰ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ان کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو اپنا اونٹ بٹھا کر نحر کر رہا تھا انہوں نے کہا: کھڑا کر کے ( بایاں پیر) باندھ کر نحر کرو، یہی محمد ﷺ کا طریقہ تھا۔


1769- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ -يَعْنِي ابْنَ عُيَيْنَةَ- عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَقْسِمَ جُلُودَهَا وَجِلالَهَا، وَأَمَرَنِي أَنْ لاأُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا شَيْئًا، وَقَالَ: < نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا >۔
* تخريج: خ/الحج ۱۲۰ (۱۷۱۶)، ۱۲۱(۱۷۱۷)، م/الحج ۶۱ (۱۳۱۷)، ن/ الکبری/ الحج (۴۱۴۶، ۴۱۴۷)، ق/المناسک ۹۷ (۳۰۹۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۷۹، ۱۲۳، ۱۳۲، ۱۴۳، ۱۵۴، ۱۵۹)، دي/المناسک ۸۹ (۱۹۸۳) (صحیح)
۱۷۶۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے ہدی کے اونٹوں کے پاس کھڑا ہوکر ان کی کھالیں اور جھولیں تقسیم کروں اور مجھے حکم دیا کہ اس میں سے قصاب کو کچھ بھی نہ دوں اور فرمایا: اسے ہم اپنے پاس سے (اجرت) دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب فِي وَقْتِ الإِحْرَامِ
۲۱-باب: احرام کے وقت کا بیان​


1770- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ -يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ- حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي خُصَيْفُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْجَزَرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ : قُلْتُ لِعَبْدِاللَّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ! عَجِبْتُ لاخْتِلافِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي إِهْلالِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حِينَ أَوْجَبَ، فَقَالَ: إِنِّي لأَعْلَمُ النَّاسِ بِذَلِكَ، إِنَّهَا إِنَّمَا كَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَجَّةً وَاحِدَةً، فَمِنْ هُنَاكَ اخْتَلَفُوا، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَاجًّا، فَلَمَّا صَلَّى فِي مَسْجِدِهِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْهِ أَوْجَبَ فِي مَجْلِسِهِ، فَأَهَلَّ بِالْحَجِّ حِينَ فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ، فَسَمِعَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ فَحَفِظْتُهُ عَنْهُ، ثُمَّ رَكِبَ فَلَمَّا اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ، وَذَلِكَ أَنَّ النَّاسَ إِنَّمَا كَانُوا يَأْتُونَ أَرْسَالا فَسَمِعُوهُ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ يُهِلُّ، فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَلَمَّا عَلا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ حِينَ عَلا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أَوْجَبَ فِي مُصَلاهُ وَأَهَلَّ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ وَأَهَلَّ حِينَ عَلا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ سَعِيدٌ: فَمَنْ أَخَذَ بِقَوْلِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَهَلَّ فِي مُصَلاهُ إِذَا فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۵۵۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۰) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ’’خصیف‘‘ کا حافظہ کمزورتھا،مگرحدیث میں مذکور تفصیل صحیح ہے)
۱۷۷۰- سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوا لعباس ! مجھے تعجب ہے کہ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کے احرام باندھنے کے سلسلے میں اختلا ف رکھتے ہیں کہ آپ نے احرام کب باندھا؟ تو انہوں نے کہا: اس بات کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں ، چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی حج کیا تھا اسی وجہ سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے، رسول اللہ ﷺ حج کی نیت کر کے مدینہ سے نکلے، جب ذی الحلیفہ کی اپنی مسجد میں آپ نے اپنی دو رکعتیں ادا کیں تو اسی مجلس میں آپ ﷺ نے احرام باندھا اور دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا ، لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے اس کو یاد رکھا، پھرآپ ﷺ سوار ہوئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی توآپ نے تلبیہ پڑھا، بعض لوگوں نے اس وقت آپ ﷺ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے پایا ، اور یہ اس وجہ سے کہ لوگ الگ الگ ٹکڑیوں میں آپ کے پاس آتے تھے، تو جب آپ ﷺ کی اونٹنی آپ کو لے کراٹھی تو انہوں نے آپ کو تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا: آپ نے تلبیہ اس وقت کہا ہے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لیکر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ چلے، جب مقام بیداء کی اونچائی پر چڑھے تو تلبیہ کہا تو بعض لوگوں نے اس وقت اسے سنا تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اسی وقت تلبیہ کہا ہے جب آپ بیداء کی اونچائی پر چڑھے حالاں کہ اللہ کی قسم آپ نے وہیں تلبیہ کہا تھا جہاں آپ نے صلاۃ پڑھی تھی، پھر آپ ﷺ نے اس وقت تلبیہ کہا جب اونٹی آپ کو لے کر سیدھی ہوئی اور پھر آپ نے بیداء کی اونچائی چڑھتے وقت تلبیہ کہا ۔
سعید کہتے ہیں: جس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کو لیا تو اس نے اس جگہ پر جہاں اس نے صلاۃ پڑھی اپنی دونوں رکعتوں سے فارغ ہو نے کے بعد تلبیہ کہا۔


1771- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَيْدَاؤُكُمْ هَذِهِ الَّتِي تَكْذِبُونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيهَا، مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ، يَعْنِي مَسْجِدَ ذِي الْحُلَيْفَةِ۔
* تخريج: خ/الحج ۲ (۱۵۱۵)، ۲۰ (۱۵۴۱)، والجھاد ۵۳ (۲۸۶۵)، م/الحج ۳، ۴ (۱۱۸۶)، ت/الحج ۸ (۸۱۸)، ن/الحج ۵۶ (۲۷۵۸)، وانظر أیضا ما بعدہ، ( تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۰)، وقد أخرجہ: ق/المناسک ۱۴ (۲۹۱۶)، ط/الحج ۹ (۳۰)، حم (۲/۱۰، ۱۷، ۱۸، ۲۹، ۳۶، ۳۷، ۶۶، ۱۵۴)، دي/المناسک ۸۲ (۱۹۷۰) (صحیح)
۱۷۷۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہی وہ بیداء کا مقام ہے جس کے بارے میں تم لوگ رسول اللہ ﷺ سے غلط بیان کرتے ہو کہ آپ نے تو مسجد یعنی ذی الحلیفہ کی مسجد کے پاس ہی سے تلبیہ کہا تھا۔


1772- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ ! رَأَيْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِكَ يَصْنَعُهَا، قَالَ: مَا هُنَّ يَا ابْنَ جُرَيْجٍ ؟ قَالَ: رَأَيْتُكَ لا تَمَسُّ مِنَ الأَرْكَانِ إِلا الْيَمَانِيَّيْنِ، وَرَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَرَأَيْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَيْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوُا الْهِلالَ وَلَمْ تُهِلَّ أَنْتَ حَتَّى كَانَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَمَّا الأَرْكَانُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَمَسُّ إِلا الْيَمَانِيَّيْنِ وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِيَّةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعْرٌ وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا، وَأَمَّا الصُّفْرَةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَصْبُغُ بِهَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا، وَأَمَّا الإِهْلالُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُهِلُّ حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ رَاحِلَتُهُ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۳۰ (۱۶۶)، والحج ۲۸ (۱۵۵۲) (مختصرا) ۵۹ (۱۶۰۹) (مختصرا)، واللباس ۳۷ (۵۸۵۱)، م/الحج ۵ (۱۱۸۷)، ت/الشمائل ۱۰ (۷۴)، ن/الطھارۃ ۹۵ (۱۱۷)، ق/اللباس ۳۴ (۳۶۲۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۳۱۶)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۹(۳۱)، حم (۲/۱۷، ۲۶،۱۱۰) (صحیح)
۱۷۷۲- عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ابو عبدالرحمن ! میں نے آپ کو چار کام ایسے کرتے دیکھا ہے جنہیں میں نے آپ کے اصحاب میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا ہے؟ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہیں ابن جریج؟ وہ بولے: میں نے دیکھا کہ آپ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہیں، اور دیکھا کہ آپ ایسی جوتیاں پہنتے ہیں جن کے چمڑے میں بال نہیں ہوتے، اور دیکھا آپ زرد خضاب لگاتے ہیں، اور دیکھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیا لیکن آپ نے یوم التر ویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کے آنے تک احرام نہیں باندھا ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رہی رکن یمانی اور حجر اسود کی بات تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو صرف انہیں دو کو چھوتے دیکھا ہے، اور رہی بغیر بال کی جوتیوں کی بات تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسی جوتیاں پہنتے دیکھی ہیں جن میں بال نہیں تھے اورآپ ان میں وضو کرتے تھے، لہٰذا میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں ،اور رہی زرد خضاب کی بات تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو زرد رنگ کا خضاب لگاتے دیکھا ہے ، لہٰذا میں بھی اسی کو پسند کرتا ہوں ، اور احرام کے بارے میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت تک لبیک پکارتے نہیں دیکھا جب تک کہ آپ کی سواری آپ کولے کر چلنے کے لئے کھڑی نہ ہو جاتی۔


1773- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا، وَصَلَّى الْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ بَاتَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ حَتَّى أَصْبَحَ، فَلَمَّا رَكِبَ رَاحِلَتَهُ وَاسْتَوَتْ بِهِ أَهَلَّ۔
* تخريج: خ/الحج ۲۴ (۱۵۴۶)، م/المسافرین ۱ (۶۹۰)، ن/الصلاۃ ۱۱ (۳۷۸، ۴۷۰)، ت/الصلاۃ ۲۷۴ (۵۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۳۷، ۳۷۸) (صحیح)
۱۷۷۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ظہر چار رکعت اور ذی الحلیفہ میں عصر دو رکعت ادا کی ، پھر ذی الحلیفہ میں رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہوگئی ، جب آپ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھے اور وہ آپ کو لے کر سیدھی ہوگئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا ۔


1774- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ،عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ؛ فَلَمَّا عَلا عَلَى جَبَلِ الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ۔
* تخريج: ن/الحج ۲۵ (۲۶۶۳)، ۵۶ (۲۷۵۶)، ۱۴۳ (۲۹۳۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۰۷)، دي/الحج ۱۲ (۱۸۴۸) (صحیح لغیرہ)
( اس حدیث کے روای حسن بصری ہیں جو مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس کی اصل سابقہ حدیث نمبر : (۱۷۷۳) ہے، اس سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۷۷۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھی، پھر اپنی سواری پربیٹھے جب بیداء کے پہاڑ پر چڑھے تو تلبیہ پڑھا۔


1775- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ -يَعْنِي ابْنَ جَرِيرٍ- قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ (مُحَمَّدَ) بْنَ إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَتْ: قَالَ سَعْدُ (بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ): كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ إِذَا أَخَذَ طَرِيقَ الْفُرْعِ أَهَلَّ إِذَا اسْتَقَلَّتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، وَإِذَا أَخَذَ طَرِيقَ أُحُدٍ أَهَلَّ إِذَا أَشْرَفَ عَلَى جَبَلِ الْبَيْدَاءِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۹۵۶) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ابن اسحاق‘‘مدلس ہیں اور’’عنعنہ‘‘سے روایت کئے ہوئے ہیں)
۱۷۷۵- عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ جب فرع کا راستہ ( جو مکہ کو جاتا ہے) اختیار کرتے تو جب آپ ﷺ کی سواری آپ کولے کر سیدھی ہو جاتی تو آپ تلبیہ پڑھتے اور جب آپ احد کا راستہ اختیار کرتے تو بیداء کی پہاڑی پر چڑھتے وقت تلبیہ پڑھتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب الاشْتِرَاطِ فِي الْحَجِّ
۲۲-باب: حج میں شرط لگانے کا بیان​


1776- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ هِلالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ أَشْتَرِطُ؟ قَالَ: < نَعَمْ > قَالَتْ: فَكَيْفَ أَقُولُ؟ قَالَ: < قُولِي: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، وَمَحِلِّي مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ حَبَسْتَنِي >۔
* تخريج: ت/الحج ۱۷ (۹۴۱)، ن/الحج ۶۰ (۲۷۶۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۷۵۴، ۶۲۱۴، ۶۲۳۲)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۵ (۱۲۰۸)، ق/المناسک ۲۴ (۲۹۳۶)، حم (۱/۳۳۷، ۳۵۲)، دي/المناسک ۱۵ (۱۸۵۲) (حسن صحیح)
۱۷۷۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں : اللہ کے رسول! میں حج میں شرط لگانا چاہتی ہوں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں،(لگا سکتی ہو)‘‘، انہوں نے کہا: تو میں کیسے کہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کہو! ’’لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، وَمَحِلِّي مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ حَبَسْتَنِي‘‘ (حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں، اور میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے رو ک دے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب فِي إِفْرَادِ الْحَجِّ
۲۳-باب: حج افراد کا بیان​


1777- حَدَّثَنَا (عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ) الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ۔
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ت/الحج ۱۰ (۸۲۰)، ن/الحج ۴۸ (۲۷۱۶)، ق/المناسک ۳۷ (۲۹۶۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۱۷)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۱۱(۳۷)، حم (۶/۲۴۳)، دي/المناسک ۱۶ (۱۸۵۳) (صحیح الإسناد)
۱۷۷۷- ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد ۱؎ کیا۔
وضاحت ۱؎ : حج کے مہینے میں میقات سے صرف حج کی نیت سے احرام باندھنے کوافراد کہتے ہیں، نبی کریم ﷺ کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ آپ نے حج قِران کیا تھا، اس لئے کہ آپ ﷺ کے ساتھ ہدی کے جانور تھے، ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو وہ عمرہ پورا کر کے احرام کھول دیں، یعنی حج قران کو حج تمتع میں بدل دیں، دیکھئے حدیث نمبر: (۷۹۵) ۔


1778- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُوَافِينَ هِلالَ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَالَ: < مَنْ شَاءَ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ >، قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِ وُهَيْبٍ: < فَإِنِّي لَوْلا أَنِّي أَهْدَيْتُ لأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ >، وَقَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ: < وَأَمَّا أَنَا فَأُهِلُّ بِالْحَجِّ فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ > ثُمَّ اتَّفَقُوا: فَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: < مَا يُبْكِيكِ؟ > قُلْتُ: وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: < ارْفِضِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي >، قَالَ مُوسَى: < وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ >، وَقَالَ سُلَيْمَانُ: < وَاصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الْمُسْلِمُونَ فِي حَجِّهِمْ > فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ الصَّدَرِ أَمَرَ -(يَعْنِي) رَسُولَ اللَّهِ ﷺ- عَبْدَالرَّحْمَنِ فَذَهَبَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ زَادَ مُوسَى: فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مَكَانَ عُمْرَتِهَا، وَطَافَتْ بِالْبَيْتِ، فَقَضَى اللَّهُ عُمْرَتَهَا وَحَجَّهَا قَالَ هِشَامٌ: وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْئٍ مِنْ ذَلِكَ هَدْيٌ .
(قَالَ أَبو دَاود) زَادَ مُوسَى فِي حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ: فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْبَطْحَاءِ طَهُرَتْ عَائِشَةُ، رَضِي اللَّه عَنْهَا۔
* تخريج: حدیث سلیمان بن حرب عن حماد بن زید قد أخرجہ: ن/الحج ۱۸۵ (۲۹۹۳)، ۱۸۶ (۲۹۹۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۶۳، ۱۶۸۸۲)، وحدیث موسی بن اسماعیل عن حماد بن سلمۃ وموسی بن اسماعیل عن وہیب، قد تفرد بہما أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۹۵) ، وقد أخرجہ: خ/الحیض ۱ (۲۹۴)، ۷ (۳۰۵)، ۱۵(۳۱۶)، ۱۶ (۳۱۷)، ۱۸ (۳۱۹)، الحج/۳۱ (۱۵۵۶)، ۳۳ (۱۵۶۰)، ۳۴ (۱۵۶۲)، ۷۷ (۱۶۳۸)، ۱۱۵ (۱۷۰۹)، ۱۲۴ (۱۷۲۰)، ۱۴۵ (۱۷۵۷)، العمرۃ ۷ (۱۷۸۶)، ۹ (۱۷۸۸)، الجھاد ۱۰۵ (۲۹۵۲)، المغازي ۷۷ (۴۳۹۵)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/الطھارۃ ۱۸۳ (۲۹۱) ق/الحج ۳۶ (۲۹۶۳) (صحیح)
۱۷۷۸- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی الحجہ کا چاند نکلنے کو ہوا تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جو حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھے ‘‘۔
موسیٰ نے وہیب والی روایت میں کہا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اگر میں ہدی نہ لے چلتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا ‘‘۔
اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے: ’’رہا میں تو میں حج کا احرام باندھتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ ہدی ہے‘‘ ۔
آگے دونوں راوی متفق ہیں (ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں عمرے کا احرام باندھنے والوں میں تھی، آپ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ مجھے حیض آگیا، آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے ، میں رو رہی تھی، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کیوں رو رہی ہو؟‘‘، میں نے عرض کیا: میری خواہش یہ ہورہی ہے کہ میں اس سال نہ نکلتی ( تو بہتر ہوتا)، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنا عمرہ چھوڑ دو، سر کھول لو اور کنگھی کرلو‘‘۔
موسیٰ کی روایت میں ہے : ’’اور حج کا احرام باندھ لو‘‘، اور سلیمان کی روایت میں ہے:’’ اور وہ تمام کام کرو جو مسلمان اپنے حج میں کرتے ہیں‘‘۔
تو جب طواف زیارت کی رات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے عبد الرحمن کو حکم دیا چنانچہ وہ انہیں مقام تنعیم لے کرگئے ۔
موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمر ے کے عوض (جو ان سے چھوٹ گیا تھا) دوسرے عمرے کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا ، اس طرح اللہ نے ان کے عمرے اور حج دونوں کو پورا کردیا ۔
ہشام کہتے ہیں:اور اس میں ان پر اس سے کوئی ہدی لازم نہیں ہوئی ۔
ابو داود کہتے ہیں : موسی نے حماد بن سلمہ کی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب بطحاء ۱؎ کی رات آئی تو عا ئشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہوگئیں۔
وضاحت ۱؎ : بطحاء سے مراد منیٰ ہے، یعنی قیام منیٰ کے ایام کی کسی رات میں وہ پاک ہو گئیں، علامہ عینی کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا حیض تین ذی الحجہ بروز سنیچر مقام سرف میں شروع ہوا تھا، اور دسویں ذی الحجہ کو سنیچر کے روز پاک ہوئیں۔


1779- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ (عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ) عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يُحِلُّوا حَتَّى كَانَ يَوْمَ النَّحْرِ.
* تخريج: خ/البخاری ۳۴ (۱۵۶۲)، المغازی ۷۸ (۴۴۰۸)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/الحج ۴۸ (۲۷۱۷)، ق/ الحج ۳۷ (۲۹۶۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶، ۱۰۴، ۱۰۷، ۲۴۳) (صحیح)
۱۷۷۹- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ہم میں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا ، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا ، رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا ، چنانچہ جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انھوں نے یوم النحر( یعنی دسویں ذی الحجہ) تک احرام نہیں کھولا۔


1780- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ زَادَ: < فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَأَحَلَّ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۹) (صحیح)
۱۷۸۰- اس سند سے بھی ابوالاسود سے اسی طریق سے اسی کے مثل مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: ’’رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا توان لوگوں نے(عمرہ کر کے) احرام کھول دیا‘‘۔


1781- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ: ثُمَّ لايَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا > فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَلابَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < انْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَدَعِي الْعُمْرَةَ >، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَعَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ: < هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ > قَالَتْ: فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حَلُّوا، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى لِحَجِّهِمْ، وَأَمَّا الَّذِينَ كَانُوا جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ وَمَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، نَحْوَهُ لَمْ يَذْكُرُوا طَوَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِعُمْرَةٍ وَطَوَافَ الَّذِينَ جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ ۔
* تخريج: خ/ الحج ۳۱ (۱۵۵۶)، ۷۷ (۱۶۳۸)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/ الحج ۵۸ (۲۷۶۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۱)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۷۴ (۲۲۳)، حم (۶/۳۵، ۱۷۷) (صحیح)
۱۷۸۱- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ہم نے عمر ے کا احرام باندھا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس کے ساتھ ہدی ہو تو وہ عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے پھر وہ حلال نہیں ہوگا جب تک کہ ان دونوں سے ایک ساتھ حلال نہ ہوجائے‘‘، چنانچہ میں مکہ آئی، میں حائضہ تھی، میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، لہٰذا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:’’ اپنا سر کھول لو، کنگھی کرلو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرے کو ترک کر دو‘‘، میں نے ایسا ہی کیا ، جب میں نے حج ادا کرلیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے (میرے بھائی) عبدالرحمن بن ابی بکرکے ساتھ مقام تنعیم بھیجا (تو میں وہاں سے احرام باندھ کر آئی اور) میں نے عمرہ ادا کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ تمہارے عمرے کی جگہ پر ہے‘‘، ام المومنین عائشہ کہتی ہیں: چنانچہ جنہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھران لوگوں نے احرام کھول دیا، پھرجب منیٰ سے لوٹ کر آئے تو حج کا ایک اور طواف کیا، اور رہے وہ لوگ جنہوں نے حج وعمرہ دونوں کو جمع کیا تھا تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: اسے ابراہیم بن سعد اورمعمرنے ابن شہاب سے اسی طرح روایت کیا ہے انہوں نے ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے عمرہ کے طواف کا احرام باندھا، اور ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ذکر نہیں کیا۔
وضاحت ۱؎ : اسی طرح حج افراد کا احرام باندھنے والوں نے بھی ایک ہی طواف کیا، واضح رہے کہ مفرد ہویا متمتع یا قارن سب کے لئے طوافِ زیارت فرض ہے، اور متمتع پر صفا و مروہ کی دوسعی واجب ہے، جب کہ قارن کے لئے صرف ایک سعی کافی ہے، خواہ طواف قدوم (یاعمرہ ) کے وقت کرلے یا طواف زیارت کے بعد، یہی مسئلہ مفرد حاجی کے لئے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوں میں ’’سعی‘‘ کے لئے بھی ’’ طواف ‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے۔


1782- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: < مَا يُبْكِيكِ يَا عَائِشَةُ؟ > فَقُلْتُ: حِضْتُ لَيْتَنِي لَمْ أَكُنْ حَجَجْتُ، فَقَالَ: < سُبْحَانَ اللَّهِ!! إِنَّمَا ذَلِكَ شَيْئٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ >، فَقَالَ: < انْسُكِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا غَيْرَ أَنْ لا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ >، فَلَمَّا دَخَلْنَا مَكَّةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ شَاءَ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ >، قَالَتْ: وَذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْبَطْحَاءِ، وَطَهُرَتْ عَائِشَةُ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتَرْجِعُ صَوَاحِبِي بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ أَنَا بِالْحَجِّ؟ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَذَهَبَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ فَلَبَّتْ بِالْعُمْرَةِ۔
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۱۹) (صحیح)
(لیکن یہ جملہ’’من شاء أن يجعلها...الخ‘‘ صحیح نہیں ہے جواس روایت میں ہے، صحیح جملہ یوں ہے’’اجعلوها عمرة‘‘یعنی حکم دیا کہ عمرہ بنا ڈالو)
۱۷۸۲- ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا یہاں تک کہ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آگیا، رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی، آپ نے پوچھا:’’ عا ئشہ ! تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘، میں نے کہا: مجھے حیض آگیا کاش میں نے( امسال ) حج کا ارادہ نہ کیا ہوتا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کی ذات پاک ہے، یہ تو بس ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے واسطے لکھ دی ہے‘‘، پھر فرمایا:’’ تم حج کے تمام مناسک ادا کرو البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ ۱؎ کرو‘‘ پھر جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو اسے عمرہ بنانا چاہے تو وہ اسے عمرہ بنا لے ۲؎ سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ ہدی ہو‘‘،ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں: اور رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر ( دسویں ذی الحجہ ) کو اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے گائے ذبح کی ۔
جب بطحاء کی رات ہوئی اور عائشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پا ک ہوگئیں تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میرے ساتھ والیاں حج و عمرہ دونوں کر کے لوٹیں گی اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟! تو رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا وہ انہیں لے کر مقام تنعیم گئے پھرام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ نے وہاں سے عمرہ کا تلبیہ پڑھا۔
وضاحت ۱؎ : طواف ایک ایسی عبادت ہے جس میں طہارت شرط ہے اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو طواف سے روک دیا، طواف کے علاوہ حائضہ حج کے تمام ارکان ادا کرے گی۔
وضاحت ۲؎ : جیسا کہ مذکور ہوا یہ جملہ جو اس روایت میں ہے صحیح نہیں ہے،صحیح جملہ یوں ہے: ’’تم اپنے حج کوعمرہ بنا ڈالو سوائے اس شخص۔۔۔الخ‘‘


1783- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (وَ)لاَ نَرَى إِلا أَنَّهُ الْحَجّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يُحِلَّ، فَأَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ۔
* تخريج: خ/ الحج ۳۴ (۱۵۶۱)، م/ الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/ الکبری، الحج (۳۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۸۹، ۱۹۱، ۱۹۲، ۲۱۰) (صحیح)
۱۷۸۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم ( مکہ ) آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جو اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہو وہ حلال ۱؎ ہو جائے، چنانچہ وہ تمام لوگ حلال ہو گئے جو ہدی لے کر نہیں آئے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنا احرام کھول دے۔


1784- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ (الذُّهَلِيّ)ُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَااسْتَدْبَرْتُ لَمَّا سُقْتُ الْهَدْيَ > قَالَ مُحَمَّدٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: < وَلَحَلَلْتُ مَعَ الَّذِينَ أَحَلُّوا مِنَ الْعُمْرَةِ > قَالَ: أَرَادَ أَنْ يَكُونَ أَمْرُ النَّاسِ وَاحِدًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۴۷) (صحیح)
۱۷۸۴- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اگر مجھے پہلے یہ بات معلوم ہوگئی ہوتی جواب معلوم ہوئی ہے تو میں ہدی نہ لاتا‘‘، محمد بن یحییٰ ذہلی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے کہا: ’’اور میں ان لوگوں کے ساتھ حلال ہو جاتا جو عمرہ کے بعد حلال ہو گئے ‘‘، آپ ﷺ نے چاہا کہ سب لوگوں کا معاملہ یکساں ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے تو وہ طواف اور سعی کرکے احرام کھول دیں، نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں لوگوں کی آسانی کے لئے ایسا حکم فرمایا تاکہ اس سے مشرکین کی مخالفت ہو، بعض لوگوں کو اس میں تردد ہوا تو آپ ﷺ ان پر ناراض ہوئے، اس حدیث کی بنا پر بعض ائمہ کے یہاں حج تمتع ہی واجب اور افضل ہے، (ملاحظہ ہو: زاد المعاد) ۔


1785- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ مُهِلَّةً بِعُمْرَةٍ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ بِسَرِفَ عَرَكَتْ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟ فَقَالَ: <الْحِلُّ كُلُّهُ > فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ، وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ، وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا، وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلا أَرْبَعُ لَيَالٍ، ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى عَائِشَةَ فَوَجَدَهَا تَبْكِي، فَقَالَ: < مَا شَأْنُكِ؟ > قَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ، وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أَحْلُلْ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الآنَ، فَقَالَ: < إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاغْتَسِلِي ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ > فَفَعَلَتْ وَوَقَفَتِ الْمَوَاقِفَ حَتَّى إِذَا طَهُرَتْ طَافَتْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ قَالَ: < قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا > قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حِينَ حَجَجْتُ، قَالَ: < فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَالرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ >، وَذَلِكَ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ۔
* تخريج: م/الحج ۱۶ (۱۲۱۰)، ۱۷ (۱۲۱۳)، ن/الحج ۵۸ (۲۷۶۴)، ق/المناسک ۱۲ (۲۹۱۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۸)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۴۱(۱۲۶)، حم (۳/۳۹۴)، دي/المناسک ۱۱ (۱۸۴۵) (صحیح)
۱۷۸۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج افراد کا احرام باندھ کر آئے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا عمرے کا احرام باندھ کرآئیں ، جب وہ مقام سرف میں پہنچیں تو انہیں حیض آگیا یہاں تک کہ جب ہم لوگ مکہ پہنچے تو ہم نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جن کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دیں، ہم نے کہا: کیا کیا چیزیں حلال ہوں گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہر چیز حلال ہے‘‘، چنانچہ ہم نے عورتوں سے صحبت کی ، خو شبو لگائی، اپنے کپڑے پہنے حالاں کہ عرفہ میں صرف چار راتیں باقی تھیں، پھر ہم نے یوم الترویہ( آٹھویں ذی الحجہ) کو احرام باندھا، پھر رسول اللہ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہیں روتے پایا، پوچھا:’’ کیا بات ہے؟‘‘، وہ بولیں : مجھے حیض آگیا لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن میں نے نہیں کھولا اور نہ میں بیت اللہ کا طواف ہی کرسکی ہوں، اب لوگ حج کے لئے جا رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ (حیض) ایسی چیز ہے جسے اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لئے لکھ دیا ہے لہٰذا تم غسل کر لو پھر حج کا احرام باندھ لو‘‘، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور سارے ارکان ادا کئے جب حیض سے پاک ہوگئیں تو بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کی سعی کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اب تم حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہوگئیں‘‘‘، وہ بولیں: اللہ کے رسول! میرے دل میں خیال آتا ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف (قدوم ) نہیں کرسکی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ عبدالرحمن ! انہیں لے جائو، اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ‘‘، یہ واقعہ حصبہ ۱؎ کی رات کا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ذی الحجہ کی چودہویں رات کو، جس رات کو محصب میں اترتے ہیں یا تیرہویں رات کو اگر بارہویں تاریخ کو منیٰ سے واپسی ہو، محصب: ایّام تشریق کے بعد منیٰ سے لوٹتے وقت راستے میں مکہ سے قریب ایک مقام کا نام ہے۔


1786- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا قَالَ: (دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى عَائِشَةَ) بِبَعْضِ هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَال عِنْدَ قَوْلِهِ: < وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ > ثُمَّ حُجِّي وَاصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لاتَطُوفِي بِالْبَيْتِ وَلا تُصَلِّي۔
* تخريج: م/ الحج ۱۷ (۱۲۱۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۸۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۹) (صحیح )
۱۷۸۶- ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے آگے اسی قصہ کا کچھ حصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ اپنے قول’’وَاَهِلِّيْ بِالْحَجِِّ‘‘( یعنی حج کا احرام باندھ لو ) کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:’’ پھر حج کرو اور وہ تمام کام کرو جو ایک حاجی کرتا ہے البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور صلاۃ نہ پڑھنا‘‘۔


1787- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ خَالِصًا لايُخَالِطُهُ شَيْئٌ، فَقَدِمْنَا مَكَّةَ لأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَطُفْنَا وَسَعَيْنَا، ثُمَّ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُحِلَّ وَقَالَ: < لَوْلا هَدْيِي لَحَلَلْتُ > ثُمَّ قَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ مُتْعَتَنَا هَذِهِ (أَ)لِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلأَبَدِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < بَلْ هِيَ لِلأَبَدِ> قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ يُحَدِّثُ بِهَذَا فَلَمْ أَحْفَظْهُ، حَتَّى لَقِيتُ ابْنَ جُرَيْجٍ فَأَثْبَتَهُ لِي۔
* تخريج: ق/الحج ۴۱ (۲۹۸۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۴۲۶، ۲۴۵۹)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۶)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۰۷) (صحیح)
۱۷۸۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کوشامل نہیں کیا ، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف ک یا ، سعی کی، پھر رسول اللہ ﷺنے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا:’’ اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا ‘‘، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ ( حج کا متعہ ) اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے‘‘ ۱؎ ۔
اوزاعی کہتے ہیں: میں نےعطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یا د نہیں کرسکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے امام احمد کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے وہ طواف اورسعی کرکے احرام کھول سکتا ہے، یعنی حج کو عمرہ میں تبدیل کرسکتا ہے۔


1788- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ (أَبِي رَبَاحٍ)، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابُهُ لأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَمَّا طَافُوا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اجْعَلُوهَا عُمْرَةً إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيَ > فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ قَدِمُوا فَطَافُوا بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۲۴۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۲) (صحیح)
۱۷۸۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ٔ کرام ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد (مکہ) آئے، جب انھوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تم سب اسے عمرہ بنا لو سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو‘‘، پھر جب یوم التر ویہ ( آٹھواں ذی الحجہ) ہوا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا، جب یوم النحر (دسواں ذی الحجہ) ہوا تو وہ لوگ (مکہ) آئے اور انھوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ پہلی سعی کافی تھی البتہ جو شخص حج سے پہلے سعی نہ کرسکا ہو اس کو طواف زیارت کے بعد سعی کرنا ضروری ہوگا۔


1789- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ -يَعْنِي الْمُعَلِّمَ- عَنْ عَطَائٍ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَهَلَّ هُوَ وَأَصْحَابُهُ بِالْحَجِّ، وَلَيْسَ مَعَ أَحَدٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ هَدْيٌ، إِلا النَّبِيَّ ﷺ وَطَلْحَةَ وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ (وَ)مَعَهُ الْهَدْيُ فَقَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً: يَطُوفُوا، ثُمَّ يُقَصِّرُوا، وَيُحِلُّوا، إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، فَقَالُوا: أَنَنْطَلِقُ إِلَى مِنًى وَذُكُورُنَا تَقْطُرُ؟ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَاأَهْدَيْتُ وَلَوْلا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لأَحْلَلْتُ >۔
* تخريج: خ/الحج ۸۱ (۱۶۵۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۴۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۵) (صحیح)
۱۷۸۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحا بۂ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم ﷺ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے باندھا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کرلیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا : کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا:’’ اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لا تا ، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تومیں بھی احرام کھول دیتا‘‘۔


1790- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < هَذِهِ عُمْرَةٌ اسْتَمْتَعْنَا بِهَا، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ هَدْيٌ ، فَلْيُحِلَّ الْحِلَّ كُلَّهُ، وَقَدْ دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ #.
قَالَ أَبو دَاود : هَذَا مُنْكَرٌ ، إِنَّمَا هُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: م/الحج ۳۱ (۱۲۴۱)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۳۸۷)، وقد أخرجہ: خ/تقصیرالصلاۃ ۳ (۱۰۸۵)، والحج/۲۳ (۱۵۴۵)، ۳۴ (۱۵۶۴)، والشرکۃ ۱۵ (۲۵۰۵)، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۲)، ت/الحج ۸۹ (۹۳۲)، حم (۱/۲۳۶، ۲۵۳، ۲۵۹، ۳۴۱)، دي/المناسک ۳۸ (۱۸۹۸) (صحیح)
۱۷۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پو ری طرح سے حلال ہوجائے ، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لئے داخل ہو گیا ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ(مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم ﷺ کا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوداود کا یہ قول صحیح نہیں ہے،اس کوکئی راویوں نے مرفوعا روایت کیا ہے جن میں امام احمد بن حنبل بھی ہیں(منذری)۔


1791- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا النَّهَّاسُ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِذَا أَهَلَّ الرَّجُلُ بِالْحَجِّ ثُمَّ قَدِمَ مَكَّةَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَدْحَلَّ، وَهِيَ عُمْرَةٌ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ (عَنْ رَجُلٍ) عَنْ عَطَائٍ: < دَخَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ خَالِصًا، فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ ﷺ عُمْرَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۵۹۶۵) (صحیح)
۱۷۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’ جب آدمی حج کا احرام باندھ کرمکہ آئے اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلے تو وہ حلال ہوگیا اور یہ عمرہ ہے ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے ابن جر یج نے ایک شخص سے انہوں نے عطا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحا بہ خالص حج کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہو ئے تو نبی کریم ﷺ نے اسے عمرہ سے بدل دیا۔


1792- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ شَوْكَرٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ (قَالَ ابْنُ مَنِيعٍ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، الْمَعْنَى) عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَهَلَّ النَّبِيُّ ﷺ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمَ طَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. وَقَالَ ابْنُ شَوْكَرٍ: وَلَمْ يُقَصِّرْ، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَلَمْ يُحِلَّ مِنْ أَجْلِ الْهَدْيِ، وَأَمَرَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَطُوفَ، وَأَنْ يَسْعَى وَيُقَصِّرَ ثُمَّ يُحِلَّ، -زَادَ ابْنُ مَنِيعٍ فِي حَدِيثِهِ :- أَوْ يَحْلِقَ ثُمَّ يُحِلَّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۲۹)، وقد أخرجہ: (حم ۱/۲۴۱، ۳۳۸) (صحیح)
۱۷۹۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حج کا احرام باندھا جب آپ ( مکہ) آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی (ابن شوکر کی روایت میں ہے کہ) آپ ﷺ نے بال نہیں کتروائے (پھر ابن شوکر اور ابن منیع دونوں کی روایتیں متفق ہیں کہ) آپ ﷺ نے ہدی کی وجہ سے احرام نہیں کھولا، اور حکم دیا کہ جو ہدی لے کر نہ آیا ہو طواف اور سعی کر لے اور بال کتروالے پھر احرام کھول دے ، (ابن منیع کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے): یاسر منڈوالے پھر احرام کھول دے۔


1793- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُوعِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمسَيِّبِ أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه، فَشَهِدَ عِنْدَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ يَنْهَى عَنِ الْعُمْرَةِ قَبْلَ الْحَجِّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۸۲) (ضعیف)
(سعید بن مسیب کاسماع عمر فاروق سے ثابت نہیں،نیز یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)
۱۷۹۳- سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابۂ کرام میں سے ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے ان کے پاس گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو مرض الموت میں حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ۔


1794- حَدَّثَنَا مُوسَى أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي شَيْخٍ الْهُنَائِيِّ -خَيْوَانَ بْنِ خَلْدَةَ مِمَّنْ قَرَأَ عَلَى أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ- أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ قَالَ لأَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ كَذَا وَكَذَا، وَ(عَنْ) رُكُوبِ جُلُودِ النُّمُورِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُقْرَنَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ؟ فَقَالُوا: أَمَّا هَذَا فَلا، فَقَالَ: أَمَا إِنَّهَا مَعَهُنَّ، وَلَكِنَّكُمْ نَسِيتُمْ۔
* تخريج: ن/الحج ۵۰ مختصراً (۲۷۳۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۲، ۹۵، ۹۸، ۹۹)، (ضعیف)
(اس کی سند میں اضطراب ہے، نیزصحیح روایات کے خلاف ہے)
۱۷۹۴- ابوشیخ ہنائی خیوان بن خلدہ ( جو اہل بصرہ میں سے ہیں اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے صحابۂ کرام سے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں فلاں چیز سے روکا ہے اور چیتوں کی کھال پر سوار ہو نے سے منع فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، پھر معاویہ نے پوچھا: تو کیا یہ بھی معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے ( قران ) حج اور عمرہ دونوں کو ملانے سے منع فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا: رہی یہ بات تو ہم اسے نہیں جانتے، تو انہوں نے کہا: یہ بھی انہی (ممنوعات) میں سے ہے لیکن تم لوگ بھول گئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قران بعض علماء کے نزدیک افضل ہے، پھر تمتع، پھر افراد، اور بعض کے نزدیک افراد سب سے افضل ہے، پھر قران پھر تمتع، اور صحیح قول یہ ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے، امام ابن قیم اور علامہ البانی کے بقول تمتع کے سوا حج کی دونوں قسمیں (یعنی افراد اور قران) منسوخ ہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ’’ جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہوتی تو میں بھی ہدی کے جانور لے کر نہیں آتا، (تاکہ میں بھی اپنے حج کو عمرہ بنا دیتا)‘‘، تو اب امت کے لئے یہ پیغام ملا کہ آئندہ کوئی ہدی لے کر آئے ہی نہیں۔
 
Top