23- بَاب فِي إِفْرَادِ الْحَجِّ
۲۳-باب: حج افراد کا بیان
1777- حَدَّثَنَا (عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ) الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ۔
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ت/الحج ۱۰ (۸۲۰)، ن/الحج ۴۸ (۲۷۱۶)، ق/المناسک ۳۷ (۲۹۶۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۱۷)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۱۱(۳۷)، حم (۶/۲۴۳)، دي/المناسک ۱۶ (۱۸۵۳) (صحیح الإسناد)
۱۷۷۷- ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد ۱؎ کیا۔
وضاحت ۱؎ : حج کے مہینے میں میقات سے صرف حج کی نیت سے احرام باندھنے کوافراد کہتے ہیں، نبی کریم ﷺ کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ آپ نے حج قِران کیا تھا، اس لئے کہ آپ ﷺ کے ساتھ ہدی کے جانور تھے، ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو وہ عمرہ پورا کر کے احرام کھول دیں، یعنی حج قران کو حج تمتع میں بدل دیں، دیکھئے حدیث نمبر: (۷۹۵) ۔
1778- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُوَافِينَ هِلالَ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَالَ: < مَنْ شَاءَ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ >، قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِ وُهَيْبٍ: < فَإِنِّي لَوْلا أَنِّي أَهْدَيْتُ لأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ >، وَقَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ: < وَأَمَّا أَنَا فَأُهِلُّ بِالْحَجِّ فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ > ثُمَّ اتَّفَقُوا: فَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: < مَا يُبْكِيكِ؟ > قُلْتُ: وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: < ارْفِضِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي >، قَالَ مُوسَى: < وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ >، وَقَالَ سُلَيْمَانُ: < وَاصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الْمُسْلِمُونَ فِي حَجِّهِمْ > فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ الصَّدَرِ أَمَرَ -(يَعْنِي) رَسُولَ اللَّهِ ﷺ- عَبْدَالرَّحْمَنِ فَذَهَبَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ زَادَ مُوسَى: فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مَكَانَ عُمْرَتِهَا، وَطَافَتْ بِالْبَيْتِ، فَقَضَى اللَّهُ عُمْرَتَهَا وَحَجَّهَا قَالَ هِشَامٌ: وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْئٍ مِنْ ذَلِكَ هَدْيٌ .
(قَالَ أَبو دَاود) زَادَ مُوسَى فِي حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ: فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْبَطْحَاءِ طَهُرَتْ عَائِشَةُ، رَضِي اللَّه عَنْهَا۔
* تخريج: حدیث سلیمان بن حرب عن حماد بن زید قد أخرجہ: ن/الحج ۱۸۵ (۲۹۹۳)، ۱۸۶ (۲۹۹۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۶۳، ۱۶۸۸۲)، وحدیث موسی بن اسماعیل عن حماد بن سلمۃ وموسی بن اسماعیل عن وہیب، قد تفرد بہما أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۹۵) ، وقد أخرجہ: خ/الحیض ۱ (۲۹۴)، ۷ (۳۰۵)، ۱۵(۳۱۶)، ۱۶ (۳۱۷)، ۱۸ (۳۱۹)، الحج/۳۱ (۱۵۵۶)، ۳۳ (۱۵۶۰)، ۳۴ (۱۵۶۲)، ۷۷ (۱۶۳۸)، ۱۱۵ (۱۷۰۹)، ۱۲۴ (۱۷۲۰)، ۱۴۵ (۱۷۵۷)، العمرۃ ۷ (۱۷۸۶)، ۹ (۱۷۸۸)، الجھاد ۱۰۵ (۲۹۵۲)، المغازي ۷۷ (۴۳۹۵)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/الطھارۃ ۱۸۳ (۲۹۱) ق/الحج ۳۶ (۲۹۶۳) (صحیح)
۱۷۷۸- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی الحجہ کا چاند نکلنے کو ہوا تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جو حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھے ‘‘۔
موسیٰ نے وہیب والی روایت میں کہا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اگر میں ہدی نہ لے چلتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا ‘‘۔
اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے: ’’رہا میں تو میں حج کا احرام باندھتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ ہدی ہے‘‘ ۔
آگے دونوں راوی متفق ہیں (ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں عمرے کا احرام باندھنے والوں میں تھی، آپ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ مجھے حیض آگیا، آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے ، میں رو رہی تھی، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کیوں رو رہی ہو؟‘‘، میں نے عرض کیا: میری خواہش یہ ہورہی ہے کہ میں اس سال نہ نکلتی ( تو بہتر ہوتا)، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنا عمرہ چھوڑ دو، سر کھول لو اور کنگھی کرلو‘‘۔
موسیٰ کی روایت میں ہے : ’’اور حج کا احرام باندھ لو‘‘، اور سلیمان کی روایت میں ہے:’’ اور وہ تمام کام کرو جو مسلمان اپنے حج میں کرتے ہیں‘‘۔
تو جب طواف زیارت کی رات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے عبد الرحمن کو حکم دیا چنانچہ وہ انہیں مقام تنعیم لے کرگئے ۔
موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمر ے کے عوض (جو ان سے چھوٹ گیا تھا) دوسرے عمرے کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا ، اس طرح اللہ نے ان کے عمرے اور حج دونوں کو پورا کردیا ۔
ہشام کہتے ہیں:اور اس میں ان پر اس سے کوئی ہدی لازم نہیں ہوئی ۔
ابو داود کہتے ہیں : موسی نے حماد بن سلمہ کی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب بطحاء ۱؎ کی رات آئی تو عا ئشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہوگئیں۔
وضاحت ۱؎ : بطحاء سے مراد منیٰ ہے، یعنی قیام منیٰ کے ایام کی کسی رات میں وہ پاک ہو گئیں، علامہ عینی کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا حیض تین ذی الحجہ بروز سنیچر مقام سرف میں شروع ہوا تھا، اور دسویں ذی الحجہ کو سنیچر کے روز پاک ہوئیں۔
1779- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ (عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ) عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يُحِلُّوا حَتَّى كَانَ يَوْمَ النَّحْرِ.
* تخريج: خ/البخاری ۳۴ (۱۵۶۲)، المغازی ۷۸ (۴۴۰۸)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/الحج ۴۸ (۲۷۱۷)، ق/ الحج ۳۷ (۲۹۶۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶، ۱۰۴، ۱۰۷، ۲۴۳) (صحیح)
۱۷۷۹- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ہم میں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا ، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا ، رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا ، چنانچہ جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انھوں نے یوم النحر( یعنی دسویں ذی الحجہ) تک احرام نہیں کھولا۔
1780- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ زَادَ: < فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَأَحَلَّ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۹) (صحیح)
۱۷۸۰- اس سند سے بھی ابوالاسود سے اسی طریق سے اسی کے مثل مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: ’’رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا توان لوگوں نے(عمرہ کر کے) احرام کھول دیا‘‘۔
1781- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ: ثُمَّ لايَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا > فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَلابَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < انْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَدَعِي الْعُمْرَةَ >، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَعَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ: < هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ > قَالَتْ: فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حَلُّوا، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى لِحَجِّهِمْ، وَأَمَّا الَّذِينَ كَانُوا جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ وَمَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، نَحْوَهُ لَمْ يَذْكُرُوا طَوَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِعُمْرَةٍ وَطَوَافَ الَّذِينَ جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ ۔
* تخريج: خ/ الحج ۳۱ (۱۵۵۶)، ۷۷ (۱۶۳۸)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/ الحج ۵۸ (۲۷۶۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۱)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۷۴ (۲۲۳)، حم (۶/۳۵، ۱۷۷) (صحیح)
۱۷۸۱- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ہم نے عمر ے کا احرام باندھا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس کے ساتھ ہدی ہو تو وہ عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے پھر وہ حلال نہیں ہوگا جب تک کہ ان دونوں سے ایک ساتھ حلال نہ ہوجائے‘‘، چنانچہ میں مکہ آئی، میں حائضہ تھی، میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، لہٰذا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:’’ اپنا سر کھول لو، کنگھی کرلو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرے کو ترک کر دو‘‘، میں نے ایسا ہی کیا ، جب میں نے حج ادا کرلیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے (میرے بھائی) عبدالرحمن بن ابی بکرکے ساتھ مقام تنعیم بھیجا (تو میں وہاں سے احرام باندھ کر آئی اور) میں نے عمرہ ادا کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ تمہارے عمرے کی جگہ پر ہے‘‘، ام المومنین عائشہ کہتی ہیں: چنانچہ جنہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھران لوگوں نے احرام کھول دیا، پھرجب منیٰ سے لوٹ کر آئے تو حج کا ایک اور طواف کیا، اور رہے وہ لوگ جنہوں نے حج وعمرہ دونوں کو جمع کیا تھا تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: اسے ابراہیم بن سعد اورمعمرنے ابن شہاب سے اسی طرح روایت کیا ہے انہوں نے ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے عمرہ کے طواف کا احرام باندھا، اور ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ذکر نہیں کیا۔
وضاحت ۱؎ : اسی طرح حج افراد کا احرام باندھنے والوں نے بھی ایک ہی طواف کیا، واضح رہے کہ مفرد ہویا متمتع یا قارن سب کے لئے طوافِ زیارت فرض ہے، اور متمتع پر صفا و مروہ کی دوسعی واجب ہے، جب کہ قارن کے لئے صرف ایک سعی کافی ہے، خواہ طواف قدوم (یاعمرہ ) کے وقت کرلے یا طواف زیارت کے بعد، یہی مسئلہ مفرد حاجی کے لئے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوں میں ’’سعی‘‘ کے لئے بھی ’’ طواف ‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے۔
1782- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: < مَا يُبْكِيكِ يَا عَائِشَةُ؟ > فَقُلْتُ: حِضْتُ لَيْتَنِي لَمْ أَكُنْ حَجَجْتُ، فَقَالَ: < سُبْحَانَ اللَّهِ!! إِنَّمَا ذَلِكَ شَيْئٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ >، فَقَالَ: < انْسُكِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا غَيْرَ أَنْ لا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ >، فَلَمَّا دَخَلْنَا مَكَّةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ شَاءَ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ >، قَالَتْ: وَذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْبَطْحَاءِ، وَطَهُرَتْ عَائِشَةُ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتَرْجِعُ صَوَاحِبِي بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ أَنَا بِالْحَجِّ؟ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَذَهَبَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ فَلَبَّتْ بِالْعُمْرَةِ۔
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۱۹) (صحیح)
(لیکن یہ جملہ
’’من شاء أن يجعلها...الخ‘‘ صحیح نہیں ہے جواس روایت میں ہے، صحیح جملہ یوں ہے
’’اجعلوها عمرة‘‘یعنی حکم دیا کہ عمرہ بنا ڈالو)
۱۷۸۲- ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا یہاں تک کہ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آگیا، رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی، آپ نے پوچھا:’’ عا ئشہ ! تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘، میں نے کہا: مجھے حیض آگیا کاش میں نے( امسال ) حج کا ارادہ نہ کیا ہوتا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کی ذات پاک ہے، یہ تو بس ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے واسطے لکھ دی ہے‘‘، پھر فرمایا:’’ تم حج کے تمام مناسک ادا کرو البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ ۱؎ کرو‘‘ پھر جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو اسے عمرہ بنانا چاہے تو وہ اسے عمرہ بنا لے ۲؎ سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ ہدی ہو‘‘،ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں: اور رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر ( دسویں ذی الحجہ ) کو اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے گائے ذبح کی ۔
جب بطحاء کی رات ہوئی اور عائشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پا ک ہوگئیں تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میرے ساتھ والیاں حج و عمرہ دونوں کر کے لوٹیں گی اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟! تو رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا وہ انہیں لے کر مقام تنعیم گئے پھرام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ نے وہاں سے عمرہ کا تلبیہ پڑھا۔
وضاحت ۱؎ : طواف ایک ایسی عبادت ہے جس میں طہارت شرط ہے اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو طواف سے روک دیا، طواف کے علاوہ حائضہ حج کے تمام ارکان ادا کرے گی۔
وضاحت ۲؎ : جیسا کہ مذکور ہوا یہ جملہ جو اس روایت میں ہے صحیح نہیں ہے،صحیح جملہ یوں ہے: ’’تم اپنے حج کوعمرہ بنا ڈالو سوائے اس شخص۔۔۔الخ‘‘
1783- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (وَ)لاَ نَرَى إِلا أَنَّهُ الْحَجّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يُحِلَّ، فَأَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ۔
* تخريج: خ/ الحج ۳۴ (۱۵۶۱)، م/ الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/ الکبری، الحج (۳۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۸۹، ۱۹۱، ۱۹۲، ۲۱۰) (صحیح)
۱۷۸۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم ( مکہ ) آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جو اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہو وہ حلال ۱؎ ہو جائے، چنانچہ وہ تمام لوگ حلال ہو گئے جو ہدی لے کر نہیں آئے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنا احرام کھول دے۔
1784- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ (الذُّهَلِيّ)ُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَااسْتَدْبَرْتُ لَمَّا سُقْتُ الْهَدْيَ > قَالَ مُحَمَّدٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: < وَلَحَلَلْتُ مَعَ الَّذِينَ أَحَلُّوا مِنَ الْعُمْرَةِ > قَالَ: أَرَادَ أَنْ يَكُونَ أَمْرُ النَّاسِ وَاحِدًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۴۷) (صحیح)
۱۷۸۴- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اگر مجھے پہلے یہ بات معلوم ہوگئی ہوتی جواب معلوم ہوئی ہے تو میں ہدی نہ لاتا‘‘، محمد بن یحییٰ ذہلی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے کہا: ’’اور میں ان لوگوں کے ساتھ حلال ہو جاتا جو عمرہ کے بعد حلال ہو گئے ‘‘، آپ ﷺ نے چاہا کہ سب لوگوں کا معاملہ یکساں ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے تو وہ طواف اور سعی کرکے احرام کھول دیں، نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں لوگوں کی آسانی کے لئے ایسا حکم فرمایا تاکہ اس سے مشرکین کی مخالفت ہو، بعض لوگوں کو اس میں تردد ہوا تو آپ ﷺ ان پر ناراض ہوئے، اس حدیث کی بنا پر بعض ائمہ کے یہاں حج تمتع ہی واجب اور افضل ہے، (ملاحظہ ہو: زاد المعاد) ۔
1785- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ مُهِلَّةً بِعُمْرَةٍ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ بِسَرِفَ عَرَكَتْ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟ فَقَالَ: <الْحِلُّ كُلُّهُ > فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ، وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ، وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا، وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلا أَرْبَعُ لَيَالٍ، ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى عَائِشَةَ فَوَجَدَهَا تَبْكِي، فَقَالَ: < مَا شَأْنُكِ؟ > قَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ، وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أَحْلُلْ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الآنَ، فَقَالَ: < إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاغْتَسِلِي ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ > فَفَعَلَتْ وَوَقَفَتِ الْمَوَاقِفَ حَتَّى إِذَا طَهُرَتْ طَافَتْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ قَالَ: < قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا > قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حِينَ حَجَجْتُ، قَالَ: < فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَالرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ >، وَذَلِكَ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ۔
* تخريج: م/الحج ۱۶ (۱۲۱۰)، ۱۷ (۱۲۱۳)، ن/الحج ۵۸ (۲۷۶۴)، ق/المناسک ۱۲ (۲۹۱۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۸)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۴۱(۱۲۶)، حم (۳/۳۹۴)، دي/المناسک ۱۱ (۱۸۴۵) (صحیح)
۱۷۸۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج افراد کا احرام باندھ کر آئے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا عمرے کا احرام باندھ کرآئیں ، جب وہ مقام سرف میں پہنچیں تو انہیں حیض آگیا یہاں تک کہ جب ہم لوگ مکہ پہنچے تو ہم نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جن کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دیں، ہم نے کہا: کیا کیا چیزیں حلال ہوں گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہر چیز حلال ہے‘‘، چنانچہ ہم نے عورتوں سے صحبت کی ، خو شبو لگائی، اپنے کپڑے پہنے حالاں کہ عرفہ میں صرف چار راتیں باقی تھیں، پھر ہم نے یوم الترویہ( آٹھویں ذی الحجہ) کو احرام باندھا، پھر رسول اللہ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہیں روتے پایا، پوچھا:’’ کیا بات ہے؟‘‘، وہ بولیں : مجھے حیض آگیا لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن میں نے نہیں کھولا اور نہ میں بیت اللہ کا طواف ہی کرسکی ہوں، اب لوگ حج کے لئے جا رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ (حیض) ایسی چیز ہے جسے اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لئے لکھ دیا ہے لہٰذا تم غسل کر لو پھر حج کا احرام باندھ لو‘‘، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور سارے ارکان ادا کئے جب حیض سے پاک ہوگئیں تو بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کی سعی کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اب تم حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہوگئیں‘‘‘، وہ بولیں: اللہ کے رسول! میرے دل میں خیال آتا ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف (قدوم ) نہیں کرسکی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ عبدالرحمن ! انہیں لے جائو، اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ‘‘، یہ واقعہ حصبہ ۱؎ کی رات کا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ذی الحجہ کی چودہویں رات کو، جس رات کو محصب میں اترتے ہیں یا تیرہویں رات کو اگر بارہویں تاریخ کو منیٰ سے واپسی ہو، محصب: ایّام تشریق کے بعد منیٰ سے لوٹتے وقت راستے میں مکہ سے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
1786- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا قَالَ: (دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى عَائِشَةَ) بِبَعْضِ هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَال عِنْدَ قَوْلِهِ: < وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ > ثُمَّ حُجِّي وَاصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لاتَطُوفِي بِالْبَيْتِ وَلا تُصَلِّي۔
* تخريج: م/ الحج ۱۷ (۱۲۱۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۸۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۹) (صحیح )
۱۷۸۶- ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے آگے اسی قصہ کا کچھ حصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ اپنے قول
’’وَاَهِلِّيْ بِالْحَجِِّ‘‘( یعنی حج کا احرام باندھ لو ) کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:’’ پھر حج کرو اور وہ تمام کام کرو جو ایک حاجی کرتا ہے البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور صلاۃ نہ پڑھنا‘‘۔
1787- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ خَالِصًا لايُخَالِطُهُ شَيْئٌ، فَقَدِمْنَا مَكَّةَ لأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَطُفْنَا وَسَعَيْنَا، ثُمَّ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُحِلَّ وَقَالَ: < لَوْلا هَدْيِي لَحَلَلْتُ > ثُمَّ قَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ مُتْعَتَنَا هَذِهِ (أَ)لِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلأَبَدِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < بَلْ هِيَ لِلأَبَدِ> قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ يُحَدِّثُ بِهَذَا فَلَمْ أَحْفَظْهُ، حَتَّى لَقِيتُ ابْنَ جُرَيْجٍ فَأَثْبَتَهُ لِي۔
* تخريج: ق/الحج ۴۱ (۲۹۸۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۴۲۶، ۲۴۵۹)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۶)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۰۷) (صحیح)
۱۷۸۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کوشامل نہیں کیا ، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف ک یا ، سعی کی، پھر رسول اللہ ﷺنے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا:’’ اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا ‘‘، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ ( حج کا متعہ ) اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے‘‘ ۱؎ ۔
اوزاعی کہتے ہیں: میں نےعطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یا د نہیں کرسکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے امام احمد کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے وہ طواف اورسعی کرکے احرام کھول سکتا ہے، یعنی حج کو عمرہ میں تبدیل کرسکتا ہے۔
1788- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ (أَبِي رَبَاحٍ)، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابُهُ لأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَمَّا طَافُوا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اجْعَلُوهَا عُمْرَةً إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيَ > فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ قَدِمُوا فَطَافُوا بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۲۴۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۲) (صحیح)
۱۷۸۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ٔ کرام ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد (مکہ) آئے، جب انھوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تم سب اسے عمرہ بنا لو سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو‘‘، پھر جب یوم التر ویہ ( آٹھواں ذی الحجہ) ہوا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا، جب یوم النحر (دسواں ذی الحجہ) ہوا تو وہ لوگ (مکہ) آئے اور انھوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ پہلی سعی کافی تھی البتہ جو شخص حج سے پہلے سعی نہ کرسکا ہو اس کو طواف زیارت کے بعد سعی کرنا ضروری ہوگا۔
1789- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ -يَعْنِي الْمُعَلِّمَ- عَنْ عَطَائٍ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَهَلَّ هُوَ وَأَصْحَابُهُ بِالْحَجِّ، وَلَيْسَ مَعَ أَحَدٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ هَدْيٌ، إِلا النَّبِيَّ ﷺ وَطَلْحَةَ وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ (وَ)مَعَهُ الْهَدْيُ فَقَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً: يَطُوفُوا، ثُمَّ يُقَصِّرُوا، وَيُحِلُّوا، إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، فَقَالُوا: أَنَنْطَلِقُ إِلَى مِنًى وَذُكُورُنَا تَقْطُرُ؟ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَاأَهْدَيْتُ وَلَوْلا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لأَحْلَلْتُ >۔
* تخريج: خ/الحج ۸۱ (۱۶۵۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۴۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۵) (صحیح)
۱۷۸۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحا بۂ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم ﷺ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے باندھا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کرلیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا : کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا:’’ اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لا تا ، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تومیں بھی احرام کھول دیتا‘‘۔
1790- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < هَذِهِ عُمْرَةٌ اسْتَمْتَعْنَا بِهَا، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ هَدْيٌ ، فَلْيُحِلَّ الْحِلَّ كُلَّهُ، وَقَدْ دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ #.
قَالَ أَبو دَاود : هَذَا مُنْكَرٌ ، إِنَّمَا هُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: م/الحج ۳۱ (۱۲۴۱)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۳۸۷)، وقد أخرجہ: خ/تقصیرالصلاۃ ۳ (۱۰۸۵)، والحج/۲۳ (۱۵۴۵)، ۳۴ (۱۵۶۴)، والشرکۃ ۱۵ (۲۵۰۵)، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۲)، ت/الحج ۸۹ (۹۳۲)، حم (۱/۲۳۶، ۲۵۳، ۲۵۹، ۳۴۱)، دي/المناسک ۳۸ (۱۸۹۸) (صحیح)
۱۷۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پو ری طرح سے حلال ہوجائے ، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لئے داخل ہو گیا ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ(مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم ﷺ کا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوداود کا یہ قول صحیح نہیں ہے،اس کوکئی راویوں نے مرفوعا روایت کیا ہے جن میں امام احمد بن حنبل بھی ہیں(منذری)۔
1791- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا النَّهَّاسُ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِذَا أَهَلَّ الرَّجُلُ بِالْحَجِّ ثُمَّ قَدِمَ مَكَّةَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَدْحَلَّ، وَهِيَ عُمْرَةٌ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ (عَنْ رَجُلٍ) عَنْ عَطَائٍ: < دَخَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ خَالِصًا، فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ ﷺ عُمْرَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۵۹۶۵) (صحیح)
۱۷۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’ جب آدمی حج کا احرام باندھ کرمکہ آئے اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلے تو وہ حلال ہوگیا اور یہ عمرہ ہے ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے ابن جر یج نے ایک شخص سے انہوں نے عطا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحا بہ خالص حج کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہو ئے تو نبی کریم ﷺ نے اسے عمرہ سے بدل دیا۔
1792- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ شَوْكَرٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ (قَالَ ابْنُ مَنِيعٍ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، الْمَعْنَى) عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَهَلَّ النَّبِيُّ ﷺ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمَ طَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. وَقَالَ ابْنُ شَوْكَرٍ: وَلَمْ يُقَصِّرْ، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَلَمْ يُحِلَّ مِنْ أَجْلِ الْهَدْيِ، وَأَمَرَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَطُوفَ، وَأَنْ يَسْعَى وَيُقَصِّرَ ثُمَّ يُحِلَّ، -زَادَ ابْنُ مَنِيعٍ فِي حَدِيثِهِ :- أَوْ يَحْلِقَ ثُمَّ يُحِلَّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۲۹)، وقد أخرجہ: (حم ۱/۲۴۱، ۳۳۸) (صحیح)
۱۷۹۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حج کا احرام باندھا جب آپ ( مکہ) آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی (ابن شوکر کی روایت میں ہے کہ) آپ ﷺ نے بال نہیں کتروائے (پھر ابن شوکر اور ابن منیع دونوں کی روایتیں متفق ہیں کہ) آپ ﷺ نے ہدی کی وجہ سے احرام نہیں کھولا، اور حکم دیا کہ جو ہدی لے کر نہ آیا ہو طواف اور سعی کر لے اور بال کتروالے پھر احرام کھول دے ، (ابن منیع کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے): یاسر منڈوالے پھر احرام کھول دے۔
1793- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُوعِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمسَيِّبِ أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه، فَشَهِدَ عِنْدَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ يَنْهَى عَنِ الْعُمْرَةِ قَبْلَ الْحَجِّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۸۲) (ضعیف)
(سعید بن مسیب کاسماع عمر فاروق سے ثابت نہیں،نیز یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)
۱۷۹۳- سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابۂ کرام میں سے ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے ان کے پاس گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو مرض الموت میں حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ۔
1794- حَدَّثَنَا مُوسَى أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي شَيْخٍ الْهُنَائِيِّ -خَيْوَانَ بْنِ خَلْدَةَ مِمَّنْ قَرَأَ عَلَى أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ- أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ قَالَ لأَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ كَذَا وَكَذَا، وَ(عَنْ) رُكُوبِ جُلُودِ النُّمُورِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُقْرَنَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ؟ فَقَالُوا: أَمَّا هَذَا فَلا، فَقَالَ: أَمَا إِنَّهَا مَعَهُنَّ، وَلَكِنَّكُمْ نَسِيتُمْ۔
* تخريج: ن/الحج ۵۰ مختصراً (۲۷۳۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۲، ۹۵، ۹۸، ۹۹)، (ضعیف)
(اس کی سند میں اضطراب ہے، نیزصحیح روایات کے خلاف ہے)
۱۷۹۴- ابوشیخ ہنائی خیوان بن خلدہ ( جو اہل بصرہ میں سے ہیں اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے صحابۂ کرام سے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں فلاں چیز سے روکا ہے اور چیتوں کی کھال پر سوار ہو نے سے منع فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، پھر معاویہ نے پوچھا: تو کیا یہ بھی معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے ( قران ) حج اور عمرہ دونوں کو ملانے سے منع فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا: رہی یہ بات تو ہم اسے نہیں جانتے، تو انہوں نے کہا: یہ بھی انہی (ممنوعات) میں سے ہے لیکن تم لوگ بھول گئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قران بعض علماء کے نزدیک افضل ہے، پھر تمتع، پھر افراد، اور بعض کے نزدیک افراد سب سے افضل ہے، پھر قران پھر تمتع، اور صحیح قول یہ ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے، امام ابن قیم اور علامہ البانی کے بقول تمتع کے سوا حج کی دونوں قسمیں (یعنی افراد اور قران) منسوخ ہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ’’ جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہوتی تو میں بھی ہدی کے جانور لے کر نہیں آتا، (تاکہ میں بھی اپنے حج کو عمرہ بنا دیتا)‘‘، تو اب امت کے لئے یہ پیغام ملا کہ آئندہ کوئی ہدی لے کر آئے ہی نہیں۔