- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
24- بَاب فِي الإِقْرَانِ
۲۴-باب: حج قران کا بیان ۱؎
1795- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَعَبْدُالْعَزِيزِ ابْنُ صُهَيْبٍ، وَحُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُمْ سَمِعُوهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُلَبِّي بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا يَقُولُ: < لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا، لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا >۔
وضاحت ۱؎ : حج کے مہینے میں میقات سے حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے ایک ساتھ احرام باندھنے کوحج قِران کہتے ہیں۔
* تخريج: م/الحج ۳۴ (۱۲۵۱)، ن/الحج ۴۹ (۲۷۳۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۸۱، ۱۶۵۳)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۱۲۶(۲۹۸۶)، والمغازي ۶۱ (۴۳۵۳)، ت/الحج ۱۱(۸۲۱)، ق/المناسک ۱۴ (۲۹۱۷)، ۳۸ (۲۹۶۸، ۲۹۶۹)، حم (۳/۹۹، ۲۸۲)، دي/المناسک ۷۸ (۱۹۶۴) (صحیح)
۱۷۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے انہیں کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھتے سنا آپ فرما رہے تھے:’’لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا، لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا‘‘۔
1796- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَاتَ بِهَا، يَعْنِي بِذِي الُحُلَيْفَةِ، حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ رَكِبَ، حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ عَلَى الْبَيْدَاءِ حَمِدَ اللَّهُ وَسَبَّحَ وَكَبَّرَ، ثُمَّ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهِمَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَ النَّاسَ فَحَلُّوا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، وَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ سَبْعَ بَدَنَاتٍ بِيَدِهِ قِيَامًا۔
قَالَ أَبودَاود: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ يَعْنِي أَنَسًا مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ بَدَأَ بِالْحَمْدِ وَالتَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ۔
* تخريج: خ/الحج ۲۴ ، (۱۵۴۷)، ۲۵ (۱۵۴۸)، ۲۷ (۱۵۵۱)، ۱۱۹ (۱۷۱۵)، الجہاد ۱۰۴ (۲۹۵۱)، ۱۲۶ (۲۹۸۶)، م/صلاۃ المسافرین ۱ (۶۹۰)، ن/الضحایا ۱۳ (۴۳۹۲)، ویأتي ہذا الحدیث برقم (۲۷۹۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۴۷) (صحیح)
۱۷۹۶- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ ﷺ نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ( مکہ ) آئے توآپ ﷺ نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا ، یہاں تک کہ جب یوم التر ویہ ( آٹھویں ذی الحجہ ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ ﷺ نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: جو بات اس روایت میں منفرد ہے وہ یہ کہ انہوں نے (یعنی انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ آپ ﷺ نے پہلے ’’الحمدلله، سبحان الله والله أكبر‘‘ کہا پھر حج کا تلبیہ پکارا۔
وضاحت ۱؎ : اور باقی اونٹوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح (نحر) کیا، کل سو اونٹ تھے، جو ذبح کئے گئے۔
1797- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُعِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِينَ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْيَمَنِ، قَالَ: فَأَصَبْتُ مَعَهُ أَوَاقِيَ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: وَجَدْتُ فَاطِمَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَدْ لَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا، وَقَدْ نَضَحَتِ الْبَيْتَ بِنَضُوحٍ فَقَالَتْ: مَا لَكَ؟ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ أَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَحَلُّوا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهَا: إِنِّي أَهْلَلْتُ بِإِهْلالِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ لِي: <كَيْفَ صَنَعْتَ؟ > فَقَالَ: قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلالِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: <فَإِنِّي قَدْ سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ >، قَالَ: فَقَالَ لِي: <انْحَرْ مِنَ الْبُدْنِ سَبْعًا وَسِتِّينَ، أَوْ سِتًّا وَسِتِّينَ، وَأَمْسِكْ لِنَفْسِكَ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، أَوْ أَرْبَعًا وَثَلاثِينَ، وَأَمْسِكْ لِي مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ مِنْهَا بَضْعَةً>۔
* تخريج: ن/الحج ۵۲ (۲۷۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۲۶)، وقد أخرجہ: خ/المغازي ۶۱ (۴۳۵۴) (صحیح)
۱۷۹۷- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر مقرر کرکے بھیجا، میں ان کے ساتھ تھا تو مجھے ان کے ساتھ ( وہا ں) کئی اوقیہ سونا ملا، جب آپ یمن سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اور گھر میں خو شبو بکھیر رکھی ہے ، وہ کہنے لگیں: آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام کو حکم دیا تو انہوں نے احرام کھول دیاہے، علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے فاطمہ سے کہا: میں نے وہ نیت کی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے کی ہے، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے مجھ سے پوچھا: ’’تم نے کیا نیت کی ہے؟‘‘، میں نے کہا: میں نے وہی احرام باندھا ہے جو نبی اکرم ﷺ کاہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو ہدی ساتھ لا یا ہوں اور میں نے قِران کیا ہے‘‘، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم سڑسٹھ (۶۷) ۱؎ یا چھیا سٹھ(۶۶) اونٹ (میری طرف سے) نحر کرو اور تینتیس (۳۳) یا چونتیس (۳۴) اپنے لئے روک لو، اور ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا گوشت میرے لئے رکھ لو‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ابوداود کی روایت میں اسی طرح وارد ہے جو وہم سے خالی نہیں، قیاس یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم (۶۷) یا (۶۶) اونٹ میری طرف سے نحر کرو اور باقی اپنی طرف سے کرنے کے لئے روک لو، اس معنی کے اعتبار سے علی رضی اللہ عنہ سارے اونٹوں کے نحر کرنے والے ہوں گے، حالانکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ ان میں سے اکثر کوخود رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے نحر کیا تھا، لہٰذا ’’تم نحر کرو‘‘ کے معنی یہ ہوں گے کہ انہیں نحر کے لئے تیار کرو اور انہیں منحر میں لے چلو تاکہ میں اپنے ہاتھ سے انہیں نحرکروں۔
1798- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ: أَهْلَلْتُ بِهِمَا مَعًا، فَقَالَ عُمَرُ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ ﷺ۔
* تخريج: ن/الحج ۴۹ (۲۷۲۰، ۲۷۲۱، ۲۷۲۲)، ق/المناسک ۳۸ (۲۹۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴، ۲۵، ۳۴، ۳۷، ۵۳) (صحیح)
۱۷۹۸- ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد سے کہا :میں نے (حج و عمرہ) دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں اپنے نبی کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔
1799- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ (الْمَعْنَى) قَالا: حَدَّثَنَا جَرِيرُ ابْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ: كُنْتُ رَجُلا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَأَتَيْتُ رَجُلا مِنْ عَشِيرَتِي يُقَالُ لَهُ هُذَيْمُ بْنُ ثُرْمُلَةَ، فَقُلْتُ (لَهُ): يَا هَنَاهْ، إِنِّي حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ، فَكَيْفَ لِي بِأَنْ أَجْمَعَهُمَا؟ قَالَ: اجْمَعْهُمَا وَاذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، فَأَهْلَلْتُ بِهِمَا مَعًا، فَلَمَّا أَتَيْتُ الْعُذَيْبَ لَقِيَنِي سَلْمَانُ ابْنُ رَبِيعَةَ وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا (جَمِيعًا) فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلآخَرِ: مَا هَذَا بِأَفْقَهَ مِنْ بَعِيرِهِ، قَالَ: فَكَأَنَّمَا أُلْقِيَ عَلَيَّ جَبَلٌ حَتَّى أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي كُنْتُ رَجُلا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا، وَإِنِّي أَسْلَمْتُ، وَأَنَا حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ، فَأَتَيْتُ رَجُلا مِنْ قَوْمِي فَقَالَ (لِي): اجْمَعْهُمَا وَاذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، وَإِنِّي أَهْلَلْتَ بِهِمَا مَعًا، فَقَالَ (لِي) عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه: هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ ﷺ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۶۶) (صحیح)
۱۷۹۹- ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد نے عرض کیا کہ میں ایک نصرانی بدو تھا میں نے اسلام قبول کیا تو اپنے خاندان کے ایک شخص کے پاس آیا جسے ہذیم بن ثرملہ کہا جاتا تھا میں نے اس سے کہا: ارے میاں! میں جہا د کا حریص ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حج و عمرہ میرے اوپر فرض ہیں ، تو میرے لئے کیسے ممکن ہے کہ میں دونوں کو ادا کر سکوں، اس نے کہا: دونوں کو جمع کر لو اور جو ہدی میسر ہواسے ذبح کرو، تو میں نے ان دونوں کا احرام باندھ لیا، پھر جب میں مقام عُذیب پر آیا تو میری ملاقات سلما ن بن ربیعہ اور زید بن صوحان سے ہوئی اور میں دونوں کا تلبیہ پکار رہا تھا ، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: یہ اپنے اونٹ سے زیاد ہ سمجھ دار نہیں، تو جیسے میرے اوپر پہاڑ ڈال دیا گیا ہو ، یہاں تک کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، میں نے ان سے عرض کیا: امیر المو منین! میں ایک نصرانی بدو تھا ، میں نے اسلام قبول کیا، میں جہاد کا خواہش مند ہوں لیکن دیکھ رہا ہوں کہ مجھ پر حج اورعمرہ دونوں فرض ہیں، تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی کے پاس آیا اس نے مجھے بتایا کہ تم ان دونوں کو جمع کرلو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، چنانچہ میں نے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہیں اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔
1800- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ >، قَالَ: وَهُوَ بِالْعَقِيقِ، وَقَالَ: < صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقَالَ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ: وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَا رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ: < وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ >۔
* تخريج: خ/الحج ۱۶ (۱۵۳۴)، ق/المناسک ۴۰ (۲۹۷۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴) (صحیح)
۱۸۰۰- عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’ آج رات میرے پاس میرے رب عزوجل کی جانب سے ایک آنے والا (جبریل) آیا ( آپ اس وقت وادی عقیق ۱؎ میں تھے) اور کہنے لگا: اس مبارک وادی میں صلاۃ پڑھو، اور کہا: عمرہ حج میں شامل ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں : ولید بن مسلم اور عمر بن عبدالواحد نے اس حدیث میں اوزاعی سے یہ جملہ ’’وقل عمرة في حجة‘‘ (کہو! عمر ہ حج میں ہے) نقل کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اسی طرح اس حدیث میں علی بن مبا رک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ’’وقل عمرة في حجة‘‘ کا جملہ نقل ۲؎ کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ’’عقيق‘‘: مدینہ سے چار میل کی دوری پر ایک وادی ہے، اور اب شہر میں داخل ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ جملہ احادیث میں تین طرح سے وارد ہوا ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے’’قال عمرة في حجة‘‘ ماضی کے صیغہ کے ساتھ، اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں’’قل عمرة في حجة‘‘ امر کے صیغہ کے ساتھ، اور بخاری کی روایت میں ’’وقل عمرة وحجة‘‘ہے’’عمرة‘‘ اور’’حجة‘‘کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔
1801- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، حَدَّثَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى إِذَا كَانَ بِعُسْفَانَ قَالَ لَهُ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ الْمُدْلَجِيُّ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! اقْضِ لَنَا قَضَاءَ قَوْمٍ كَأَنَّمَا وُلِدُوا الْيَوْمَ، فَقَالَ: < إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ أَدْخَلَ عَلَيْكُمْ فِي حَجِّكُمْ هَذَا عُمْرَةً، فَإِذَا قَدِمْتُمْ فَمَنْ تَطَوَّفَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَدْ حَلَّ، إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۴)، دي/المناسک ۳۸ (۱۸۹۹)، (صحیح)
۱۸۰۱- سبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم عسفان میں پہنچے تو آپ سے سراقہ بن مالک مدلجی نے کہا: اللہ کے رسول! آج ایسا بیان فرمائیے جیسے ان لوگوں کو سمجھاتے ہیں جو ابھی پیدا ہوئے ہوں ( با لکل واضح) تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالی نے تمہارے لئے عمرہ کو تمہارے حج میں داخل کر دیا ہے لہٰذا جب تم مکہ آجائو تو جو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلے تو وہ حلال ہو گیا سوائے اس کے جس کے ساتھ ہدی کا جانور ہو‘‘۔
1802- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ ابْنِ خَلادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، الْمَعْنَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ قَالَ: قَصَّرْتُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمِشْقَصٍ عَلَى الْمَرْوَةِ، أَوْ رَأَيْتُهُ يُقَصِّرُ عَنْهُ عَلَى الْمَرْوَةِ بِمِشْقَصٍ.
(قَالَ ابْنُ خَلادٍ: إِنَّ مُعَاوِيَةَ لَمْ يَذْكُرْ < أَخْبَرَهُ >)۔
* تخريج: خ/الحج ۱۲۷ (۱۷۳۰) (إلی قولہ: ’’بمشقص‘‘)، م/الحج ۳۳ (۱۲۴۶)، ن/الحج ۵۰ (۲۷۳۸)، ۱۸۳ (۲۹۹۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۶، ۹۷، ۹۸، ۱۰۲) (صحیح)
۱۸۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں نے مروہ پر نبی اکرم ﷺ کے بال تیرکی دھار سے کاٹے، ( یا یوں ہے) میں نے آپ کو دیکھا کہ مروہ پر تیر کے پیکان سے آپ کے بال کترے جارہے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری میں صرف اتنا ہے کہ’’میں نے آپ ﷺ کے بال تیر کی دھار سے کاٹے‘‘، اس جملے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا، مگر صحیح مسلم ودیگر کے الفاظ’’مروہ پر‘‘سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ قارن تھے توعمرہ کے بعد مروہ پر بال کاٹنے کا کیا مطلب؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ عمرۂ جعرانہ کا ہے نہ کہ حجۃ الوداع کا،جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے۔
1803- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (وَمَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ) وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، الْمَعْنَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ قَالَ: لَهُ أَمَا عَلِمْتَ أَنِّي قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمِشْقَصِ أَعْرَابِيٍّ، عَلَى الْمَرْوَةِ، زَادَ الْحَسَنُ (فِي حَدِيثِهِ) لِحَجَّتِهِ۔ * تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲۳) (صحیح) ( ’’لحجته‘‘ کا لفظ صحیح نہیں بلکہ منکر ہے)
۱۸۰۳- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے مروہ پر رسول اللہ ﷺ کے بال ایک اعرابی کے تیر کی پیکان سے کترے ۔
حسن کی روایت میں ’’ لحجته‘‘ (آپ کے حج میں) ہے۔
1804- حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، أَخْبَرَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرِّيِّ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: أَهَلَّ النَّبِيُّ ﷺ بِعُمْرَةٍ وَأَهَلَّ أَصْحَابُهُ بِحَجٍّ۔
* تخريج: م/الحج ۳۰ (۱۲۳۹)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۰) (صحیح)
۱۸۰۴-مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کوکہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحا بۂ کرام نے حج کا۔
1805- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنِ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَأَهْدَى وَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَبَدَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجّ، وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَكَانَ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ قَالَ لِلنَّاسِ: < مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى فَإِنَّهُ لايَحِلُّ لَهُ مِنْ شَيْئٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَهْدَى فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلْيُقَصِّرْ وَلْيَحْلِلْ ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَلْيُهْدِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا فَلْيَصُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ > وَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ: فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْئٍ، ثُمَّ خَبَّ ثَلاثَةَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشَى أَرْبَعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَانْصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا، فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ لَمْ يُحْلِلْ مِنْ شَيْئٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى قَضَى حَجَّهُ وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ، وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْئٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَفَعَلَ النَّاسُ مِثْلَ (مَا) فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ مِنَ النَّاسِ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۴ (۱۶۹۱)، م/الحج ۲۴ (۱۲۲۷)،ن/الحج ۵۰ (۲۷۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۷۸)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۲(۸۲۴)، ق/المناسک ۱۴ (۲۹۱۶)، حم (۲/۱۳۹)، دي/المناسک ۸۴ (۱۹۷۲) (صحیح) (وبدأ رسول الله ﷺ فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج)
یہ جملہ ابن قیم، ابن حجر، اور البانی کے یہاں شاذ ہے، (ملاحظہ ہو: فتح الباری، وزاد المعاد، وصحیح ابی داود ۶؍ ۶۸)
۱۸۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے ’’لبيك بعمرة‘‘ کہا پھر ’’لبيك بحجة‘‘کہا) ۱؎ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا ، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ ﷺ مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا:’’ تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لئے ( احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کر لے ، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین صیام رکھے اور سات صیام اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پا س لوٹ کر آجائے‘‘ ، اور رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا ، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال ، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں ، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا و مروہ میں سات بار سعی کی ، پھر (آپ کے لئے محرم ہو نے کی وجہ سے ) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنا حج پورا کرلیا اور یوم النحر(دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کر دیا ، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لئے حلال ہوگئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انھوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرم ﷺ کے حج کے بارے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعدد بیانات ہیں، ان کے درمیان تطبیق کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے شروع میں صرف حج کا احرام باندھا، پھر وحی آگئی توعمرہ کو بھی شامل کرلیا، اگر آپ ﷺ ہدی ساتھ لے کر نہیں گئے ہوتے تو پہلے عمرہ کرتے پھر حلال ہوکر حج کرتے (یعنی حج تمتع کرتے) جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کوحکم دیا تھا، خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ نے حج قران کیا تھا جیسا کہ دسیوں صحابہ کا بیان ہے، اس تفصیل کے مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ ’’آپ ﷺ نے پہلے عمرہ کا احرام پھر حج کا احرام باندھا‘‘ خلاف واقعہ ہے جوان کے اپنے علم کے مطابق ہے(ابتدائے امر کے مطابق ہے)، یا پھران کے بیان کی وہی تاویل ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے یعنی: یہاں تمتع سے مراد لغوی تمتع ہے نہ کہ اصطلاحی۔
1806- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا شَأْنُ النَّاسِ قَدْ حَلُّوا وَلَمْ تُحْلِلْ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِكَ؟ فَقَالَ: < إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدْتُ هَدْيِي، فَلا أُحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ (الْهَدْيَ) >۔
* تخريج: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۶)، والمغازي ۷۷ (۴۳۹۸)، واللباس ۶۹ (۵۹۱۶)، م/الحج ۲۵ (۱۲۲۹)، ن/الحج ۴۰ (۲۶۸۱)، ق/المناسک ۷۲ (۳۰۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۰۰)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۵۸ (۱۸۰)، حم (۶/۲۸۳، ۲۸۴، ۲۷۵) (صحیح)
۱۸۰۶- ام المو منین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن آپ نے اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے سر میں تلبید کی تھی اور ہدی کو قلادہ پہنا یا تھا تو میں اس وقت تک حلا ل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہدی نحر نہ کر لوں‘‘۔