• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب فِي الإِقْرَانِ
۲۴-باب: حج قران کا بیان ۱؎​


1795- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَعَبْدُالْعَزِيزِ ابْنُ صُهَيْبٍ، وَحُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُمْ سَمِعُوهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُلَبِّي بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا يَقُولُ: < لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا، لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا >۔
وضاحت ۱؎ : حج کے مہینے میں میقات سے حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے ایک ساتھ احرام باندھنے کوحج قِران کہتے ہیں۔
* تخريج: م/الحج ۳۴ (۱۲۵۱)، ن/الحج ۴۹ (۲۷۳۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۸۱، ۱۶۵۳)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۱۲۶(۲۹۸۶)، والمغازي ۶۱ (۴۳۵۳)، ت/الحج ۱۱(۸۲۱)، ق/المناسک ۱۴ (۲۹۱۷)، ۳۸ (۲۹۶۸، ۲۹۶۹)، حم (۳/۹۹، ۲۸۲)، دي/المناسک ۷۸ (۱۹۶۴) (صحیح)
۱۷۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے انہیں کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھتے سنا آپ فرما رہے تھے:’’لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا، لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا‘‘۔



1796- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَاتَ بِهَا، يَعْنِي بِذِي الُحُلَيْفَةِ، حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ رَكِبَ، حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ عَلَى الْبَيْدَاءِ حَمِدَ اللَّهُ وَسَبَّحَ وَكَبَّرَ، ثُمَّ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهِمَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَ النَّاسَ فَحَلُّوا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، وَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ سَبْعَ بَدَنَاتٍ بِيَدِهِ قِيَامًا۔
قَالَ أَبودَاود: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ يَعْنِي أَنَسًا مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ بَدَأَ بِالْحَمْدِ وَالتَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ۔
* تخريج: خ/الحج ۲۴ ، (۱۵۴۷)، ۲۵ (۱۵۴۸)، ۲۷ (۱۵۵۱)، ۱۱۹ (۱۷۱۵)، الجہاد ۱۰۴ (۲۹۵۱)، ۱۲۶ (۲۹۸۶)، م/صلاۃ المسافرین ۱ (۶۹۰)، ن/الضحایا ۱۳ (۴۳۹۲)، ویأتي ہذا الحدیث برقم (۲۷۹۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۴۷) (صحیح)
۱۷۹۶- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ ﷺ نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ( مکہ ) آئے توآپ ﷺ نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا ، یہاں تک کہ جب یوم التر ویہ ( آٹھویں ذی الحجہ ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ ﷺ نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: جو بات اس روایت میں منفرد ہے وہ یہ کہ انہوں نے (یعنی انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ آپ ﷺ نے پہلے ’’الحمدلله، سبحان الله والله أكبر‘‘ کہا پھر حج کا تلبیہ پکارا۔
وضاحت ۱؎ : اور باقی اونٹوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح (نحر) کیا، کل سو اونٹ تھے، جو ذبح کئے گئے۔


1797- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُعِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِينَ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْيَمَنِ، قَالَ: فَأَصَبْتُ مَعَهُ أَوَاقِيَ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: وَجَدْتُ فَاطِمَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَدْ لَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا، وَقَدْ نَضَحَتِ الْبَيْتَ بِنَضُوحٍ فَقَالَتْ: مَا لَكَ؟ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ أَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَحَلُّوا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهَا: إِنِّي أَهْلَلْتُ بِإِهْلالِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ لِي: <كَيْفَ صَنَعْتَ؟ > فَقَالَ: قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلالِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: <فَإِنِّي قَدْ سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ >، قَالَ: فَقَالَ لِي: <انْحَرْ مِنَ الْبُدْنِ سَبْعًا وَسِتِّينَ، أَوْ سِتًّا وَسِتِّينَ، وَأَمْسِكْ لِنَفْسِكَ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، أَوْ أَرْبَعًا وَثَلاثِينَ، وَأَمْسِكْ لِي مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ مِنْهَا بَضْعَةً>۔
* تخريج: ن/الحج ۵۲ (۲۷۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۲۶)، وقد أخرجہ: خ/المغازي ۶۱ (۴۳۵۴) (صحیح)
۱۷۹۷- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر مقرر کرکے بھیجا، میں ان کے ساتھ تھا تو مجھے ان کے ساتھ ( وہا ں) کئی اوقیہ سونا ملا، جب آپ یمن سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اور گھر میں خو شبو بکھیر رکھی ہے ، وہ کہنے لگیں: آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام کو حکم دیا تو انہوں نے احرام کھول دیاہے، علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے فاطمہ سے کہا: میں نے وہ نیت کی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے کی ہے، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے مجھ سے پوچھا: ’’تم نے کیا نیت کی ہے؟‘‘، میں نے کہا: میں نے وہی احرام باندھا ہے جو نبی اکرم ﷺ کاہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو ہدی ساتھ لا یا ہوں اور میں نے قِران کیا ہے‘‘، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم سڑسٹھ (۶۷) ۱؎ یا چھیا سٹھ(۶۶) اونٹ (میری طرف سے) نحر کرو اور تینتیس (۳۳) یا چونتیس (۳۴) اپنے لئے روک لو، اور ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا گوشت میرے لئے رکھ لو‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ابوداود کی روایت میں اسی طرح وارد ہے جو وہم سے خالی نہیں، قیاس یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم (۶۷) یا (۶۶) اونٹ میری طرف سے نحر کرو اور باقی اپنی طرف سے کرنے کے لئے روک لو، اس معنی کے اعتبار سے علی رضی اللہ عنہ سارے اونٹوں کے نحر کرنے والے ہوں گے، حالانکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ ان میں سے اکثر کوخود رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے نحر کیا تھا، لہٰذا ’’تم نحر کرو‘‘ کے معنی یہ ہوں گے کہ انہیں نحر کے لئے تیار کرو اور انہیں منحر میں لے چلو تاکہ میں اپنے ہاتھ سے انہیں نحرکروں۔


1798- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ: أَهْلَلْتُ بِهِمَا مَعًا، فَقَالَ عُمَرُ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ ﷺ۔
* تخريج: ن/الحج ۴۹ (۲۷۲۰، ۲۷۲۱، ۲۷۲۲)، ق/المناسک ۳۸ (۲۹۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴، ۲۵، ۳۴، ۳۷، ۵۳) (صحیح)
۱۷۹۸- ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد سے کہا :میں نے (حج و عمرہ) دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں اپنے نبی کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔


1799- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ (الْمَعْنَى) قَالا: حَدَّثَنَا جَرِيرُ ابْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ: كُنْتُ رَجُلا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَأَتَيْتُ رَجُلا مِنْ عَشِيرَتِي يُقَالُ لَهُ هُذَيْمُ بْنُ ثُرْمُلَةَ، فَقُلْتُ (لَهُ): يَا هَنَاهْ، إِنِّي حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ، فَكَيْفَ لِي بِأَنْ أَجْمَعَهُمَا؟ قَالَ: اجْمَعْهُمَا وَاذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، فَأَهْلَلْتُ بِهِمَا مَعًا، فَلَمَّا أَتَيْتُ الْعُذَيْبَ لَقِيَنِي سَلْمَانُ ابْنُ رَبِيعَةَ وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا (جَمِيعًا) فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلآخَرِ: مَا هَذَا بِأَفْقَهَ مِنْ بَعِيرِهِ، قَالَ: فَكَأَنَّمَا أُلْقِيَ عَلَيَّ جَبَلٌ حَتَّى أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي كُنْتُ رَجُلا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا، وَإِنِّي أَسْلَمْتُ، وَأَنَا حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ، فَأَتَيْتُ رَجُلا مِنْ قَوْمِي فَقَالَ (لِي): اجْمَعْهُمَا وَاذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، وَإِنِّي أَهْلَلْتَ بِهِمَا مَعًا، فَقَالَ (لِي) عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه: هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ ﷺ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۶۶) (صحیح)
۱۷۹۹- ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد نے عرض کیا کہ میں ایک نصرانی بدو تھا میں نے اسلام قبول کیا تو اپنے خاندان کے ایک شخص کے پاس آیا جسے ہذیم بن ثرملہ کہا جاتا تھا میں نے اس سے کہا: ارے میاں! میں جہا د کا حریص ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حج و عمرہ میرے اوپر فرض ہیں ، تو میرے لئے کیسے ممکن ہے کہ میں دونوں کو ادا کر سکوں، اس نے کہا: دونوں کو جمع کر لو اور جو ہدی میسر ہواسے ذبح کرو، تو میں نے ان دونوں کا احرام باندھ لیا، پھر جب میں مقام عُذیب پر آیا تو میری ملاقات سلما ن بن ربیعہ اور زید بن صوحان سے ہوئی اور میں دونوں کا تلبیہ پکار رہا تھا ، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: یہ اپنے اونٹ سے زیاد ہ سمجھ دار نہیں، تو جیسے میرے اوپر پہاڑ ڈال دیا گیا ہو ، یہاں تک کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، میں نے ان سے عرض کیا: امیر المو منین! میں ایک نصرانی بدو تھا ، میں نے اسلام قبول کیا، میں جہاد کا خواہش مند ہوں لیکن دیکھ رہا ہوں کہ مجھ پر حج اورعمرہ دونوں فرض ہیں، تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی کے پاس آیا اس نے مجھے بتایا کہ تم ان دونوں کو جمع کرلو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، چنانچہ میں نے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہیں اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔


1800- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ >، قَالَ: وَهُوَ بِالْعَقِيقِ، وَقَالَ: < صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقَالَ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ: وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَا رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ: < وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ >۔
* تخريج: خ/الحج ۱۶ (۱۵۳۴)، ق/المناسک ۴۰ (۲۹۷۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴) (صحیح)
۱۸۰۰- عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’ آج رات میرے پاس میرے رب عزوجل کی جانب سے ایک آنے والا (جبریل) آیا ( آپ اس وقت وادی عقیق ۱؎ میں تھے) اور کہنے لگا: اس مبارک وادی میں صلاۃ پڑھو، اور کہا: عمرہ حج میں شامل ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں : ولید بن مسلم اور عمر بن عبدالواحد نے اس حدیث میں اوزاعی سے یہ جملہ ’’وقل عمرة في حجة‘‘ (کہو! عمر ہ حج میں ہے) نقل کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اسی طرح اس حدیث میں علی بن مبا رک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ’’وقل عمرة في حجة‘‘ کا جملہ نقل ۲؎ کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ’’عقيق‘‘: مدینہ سے چار میل کی دوری پر ایک وادی ہے، اور اب شہر میں داخل ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ جملہ احادیث میں تین طرح سے وارد ہوا ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے’’قال عمرة في حجة‘‘ ماضی کے صیغہ کے ساتھ، اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں’’قل عمرة في حجة‘‘ امر کے صیغہ کے ساتھ، اور بخاری کی روایت میں ’’وقل عمرة وحجة‘‘ہے’’عمرة‘‘ اور’’حجة‘‘کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔


1801- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، حَدَّثَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى إِذَا كَانَ بِعُسْفَانَ قَالَ لَهُ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ الْمُدْلَجِيُّ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! اقْضِ لَنَا قَضَاءَ قَوْمٍ كَأَنَّمَا وُلِدُوا الْيَوْمَ، فَقَالَ: < إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ أَدْخَلَ عَلَيْكُمْ فِي حَجِّكُمْ هَذَا عُمْرَةً، فَإِذَا قَدِمْتُمْ فَمَنْ تَطَوَّفَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَدْ حَلَّ، إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۴)، دي/المناسک ۳۸ (۱۸۹۹)، (صحیح)
۱۸۰۱- سبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم عسفان میں پہنچے تو آپ سے سراقہ بن مالک مدلجی نے کہا: اللہ کے رسول! آج ایسا بیان فرمائیے جیسے ان لوگوں کو سمجھاتے ہیں جو ابھی پیدا ہوئے ہوں ( با لکل واضح) تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالی نے تمہارے لئے عمرہ کو تمہارے حج میں داخل کر دیا ہے لہٰذا جب تم مکہ آجائو تو جو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلے تو وہ حلال ہو گیا سوائے اس کے جس کے ساتھ ہدی کا جانور ہو‘‘۔


1802- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ ابْنِ خَلادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، الْمَعْنَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ قَالَ: قَصَّرْتُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمِشْقَصٍ عَلَى الْمَرْوَةِ، أَوْ رَأَيْتُهُ يُقَصِّرُ عَنْهُ عَلَى الْمَرْوَةِ بِمِشْقَصٍ.
(قَالَ ابْنُ خَلادٍ: إِنَّ مُعَاوِيَةَ لَمْ يَذْكُرْ < أَخْبَرَهُ >)۔
* تخريج: خ/الحج ۱۲۷ (۱۷۳۰) (إلی قولہ: ’’بمشقص‘‘)، م/الحج ۳۳ (۱۲۴۶)، ن/الحج ۵۰ (۲۷۳۸)، ۱۸۳ (۲۹۹۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۶، ۹۷، ۹۸، ۱۰۲) (صحیح)
۱۸۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں نے مروہ پر نبی اکرم ﷺ کے بال تیرکی دھار سے کاٹے، ( یا یوں ہے) میں نے آپ کو دیکھا کہ مروہ پر تیر کے پیکان سے آپ کے بال کترے جارہے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری میں صرف اتنا ہے کہ’’میں نے آپ ﷺ کے بال تیر کی دھار سے کاٹے‘‘، اس جملے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا، مگر صحیح مسلم ودیگر کے الفاظ’’مروہ پر‘‘سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ قارن تھے توعمرہ کے بعد مروہ پر بال کاٹنے کا کیا مطلب؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ عمرۂ جعرانہ کا ہے نہ کہ حجۃ الوداع کا،جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے۔

1803- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (وَمَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ) وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، الْمَعْنَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ قَالَ: لَهُ أَمَا عَلِمْتَ أَنِّي قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمِشْقَصِ أَعْرَابِيٍّ، عَلَى الْمَرْوَةِ، زَادَ الْحَسَنُ (فِي حَدِيثِهِ) لِحَجَّتِهِ۔ * تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲۳) (صحیح) ( ’’لحجته‘‘ کا لفظ صحیح نہیں بلکہ منکر ہے)
۱۸۰۳- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے مروہ پر رسول اللہ ﷺ کے بال ایک اعرابی کے تیر کی پیکان سے کترے ۔
حسن کی روایت میں ’’ لحجته‘‘ (آپ کے حج میں) ہے۔


1804- حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، أَخْبَرَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرِّيِّ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: أَهَلَّ النَّبِيُّ ﷺ بِعُمْرَةٍ وَأَهَلَّ أَصْحَابُهُ بِحَجٍّ۔
* تخريج: م/الحج ۳۰ (۱۲۳۹)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۰) (صحیح)
۱۸۰۴-مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کوکہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحا بۂ کرام نے حج کا۔


1805- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنِ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَأَهْدَى وَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَبَدَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجّ، وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَكَانَ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ قَالَ لِلنَّاسِ: < مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى فَإِنَّهُ لايَحِلُّ لَهُ مِنْ شَيْئٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَهْدَى فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلْيُقَصِّرْ وَلْيَحْلِلْ ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَلْيُهْدِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا فَلْيَصُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ > وَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ: فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْئٍ، ثُمَّ خَبَّ ثَلاثَةَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشَى أَرْبَعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَانْصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا، فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ لَمْ يُحْلِلْ مِنْ شَيْئٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى قَضَى حَجَّهُ وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ، وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْئٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَفَعَلَ النَّاسُ مِثْلَ (مَا) فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ مِنَ النَّاسِ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۴ (۱۶۹۱)، م/الحج ۲۴ (۱۲۲۷)،ن/الحج ۵۰ (۲۷۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۷۸)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۲(۸۲۴)، ق/المناسک ۱۴ (۲۹۱۶)، حم (۲/۱۳۹)، دي/المناسک ۸۴ (۱۹۷۲) (صحیح) (وبدأ رسول الله ﷺ فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج)
یہ جملہ ابن قیم، ابن حجر، اور البانی کے یہاں شاذ ہے، (ملاحظہ ہو: فتح الباری، وزاد المعاد، وصحیح ابی داود ۶؍ ۶۸)
۱۸۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے ’’لبيك بعمرة‘‘ کہا پھر ’’لبيك بحجة‘‘کہا) ۱؎ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا ، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ ﷺ مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا:’’ تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لئے ( احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کر لے ، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین صیام رکھے اور سات صیام اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پا س لوٹ کر آجائے‘‘ ، اور رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا ، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال ، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں ، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا و مروہ میں سات بار سعی کی ، پھر (آپ کے لئے محرم ہو نے کی وجہ سے ) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنا حج پورا کرلیا اور یوم النحر(دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کر دیا ، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لئے حلال ہوگئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انھوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرم ﷺ کے حج کے بارے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعدد بیانات ہیں، ان کے درمیان تطبیق کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے شروع میں صرف حج کا احرام باندھا، پھر وحی آگئی توعمرہ کو بھی شامل کرلیا، اگر آپ ﷺ ہدی ساتھ لے کر نہیں گئے ہوتے تو پہلے عمرہ کرتے پھر حلال ہوکر حج کرتے (یعنی حج تمتع کرتے) جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کوحکم دیا تھا، خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ نے حج قران کیا تھا جیسا کہ دسیوں صحابہ کا بیان ہے، اس تفصیل کے مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ ’’آپ ﷺ نے پہلے عمرہ کا احرام پھر حج کا احرام باندھا‘‘ خلاف واقعہ ہے جوان کے اپنے علم کے مطابق ہے(ابتدائے امر کے مطابق ہے)، یا پھران کے بیان کی وہی تاویل ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے یعنی: یہاں تمتع سے مراد لغوی تمتع ہے نہ کہ اصطلاحی۔


1806- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا شَأْنُ النَّاسِ قَدْ حَلُّوا وَلَمْ تُحْلِلْ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِكَ؟ فَقَالَ: < إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدْتُ هَدْيِي، فَلا أُحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ (الْهَدْيَ) >۔
* تخريج: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۶)، والمغازي ۷۷ (۴۳۹۸)، واللباس ۶۹ (۵۹۱۶)، م/الحج ۲۵ (۱۲۲۹)، ن/الحج ۴۰ (۲۶۸۱)، ق/المناسک ۷۲ (۳۰۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۰۰)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۵۸ (۱۸۰)، حم (۶/۲۸۳، ۲۸۴، ۲۷۵) (صحیح)
۱۸۰۶- ام المو منین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن آپ نے اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے سر میں تلبید کی تھی اور ہدی کو قلادہ پہنا یا تھا تو میں اس وقت تک حلا ل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہدی نحر نہ کر لوں‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب الرَّجُلِ يُهِلُّ بِالْحَجِّ ثُمَّ يَجْعَلُهَا عُمْرَةً
۲۵-باب: آدمی حج کا احرام باندھے پھر اسے عمرہ میں بد ل دے اس کے حکم کا بیان​


1807- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ السَّرِيِّ- عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ الأَسْوَدِ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ كَانَ يَقُولُ فِيمَنْ حَجَّ ثُمَّ فَسَخَهَا بِعُمْرَةٍ: لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ إِلا لِلرَّكْبِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۲۰)، وقد أخرجہ: م/الحج ۲۳ (۱۲۲۴)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۲)، ق/المناسک ۴۲ (۲۹۸۵) (صحیح)
۱۸۰۷- سلیم بن اسود سے روایت ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ایسے شخص کے بارے میں جو حج کی نیت کرے پھر اسے عمرے سے فسخ کر دے کہا کرتے تھے : یہ صرف اسی قافلہ کے لئے( مخصوص) تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ابوذر رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال تھا نہ کہ واقعہ، جیسا کہ پچھلی حدیثوں سے واضح ہے۔


1808- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- أَخْبَرَنِي رَبِيعَةُ، بْنُ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ بِلالِ، بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَسْخُ الْحَجِّ لَنَا خَاصَّةٌ أَوْ لِمَنْ بَعْدَنَا؟ قَالَ: < (بَلْ) لَكُمْ خَاصَّةٌ >۔
* تخريج: ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۰)، ق/المناسک ۴۲ (۲۹۸۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۰۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۹)، دي/المناسک ۳۷ (۱۸۹۷) (ضعیف)
(اس کے راوی’’حارث‘‘لین الحدیث ہیں، اوران کی یہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے، اس لئے منکر ہے)
۱۸۰۸- بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حج کا(عمرے کے ذریعے) فسخ کر نا ہمارے لئے خا ص ہے یا ہما رے بعد والوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ بلکہ یہ تمہا رے لئے خاص ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب الرَّجُلِ يَحُجُّ عَنْ غَيْرِهِ
۲۶-باب: حج بدل کا بیان​


1809- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَجَائَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لايَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: < نَعَمْ > وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ۔
* تخريج: خ/الحج ۱ (۱۵۱۳)، وجزاء الصید ۲۳ (۱۸۵۴)، ۲۴ (۱۸۵۵)، والمغازي ۷۷ (۴۳۹۹)، والاستئذان ۲ (۶۲۲۸)، م/الحج ۷۱ (۱۳۳۴)، ن/الحج ۸ (۲۶۳۴)، ۹ (۲۶۳۶)، ۱۲ (۲۶۴۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۶۷۰، ۶۵۲۲)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۸۵ (۹۲۸)، ق/المناسک ۱۰ (۲۹۰۹)، ط/الحج۳۰ (۹۷)، حم (۱/۲۱۹، ۲۵۱، ۳۲۹، ۳۴۶، ۳۵۹)، دي/الحج ۲۳ (۱۸۷۳) (صحیح)
۱۸۰۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس فتویٰ پوچھنے آئی توفضل اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ فضل کا منہ اس عورت کی طرف سے دوسری طرف پھیرنے لگے ۱؎ ، اس نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اللہ تعالی کے اپنے بندوں پر (عائد کردہ) فریضہ حج نے میرے والد کو اس حالت میں پا یا ہے کہ وہ بو ڑھے ہو چکے ہیں، اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔
وضاحت ۱؎ : فضل بن عباس رضی اللہ عنہما خوبصورت اور جوان تھے اور وہ عورت بھی حسین تھی، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ان کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔


1810- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَمُسْلِمُ (بْنُ إِبْرَاهِيمَ)، بِمَعْنَاهُ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ حَفْصٌ فِي حَدِيثِهِ: رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، أَنْهِ قَال: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلا الْعُمْرَةَ وَلا الظَّعْنَ، قَالَ: < احْجُجْ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ >۔
* تخريج: ت/الحج ۸۷ (۹۳۰)، ن/الحج ۲ (۲۶۲۲)، ۱۰ (۲۶۳۸)، ق/المناسک ۱۰ (۲۹۰۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰، ۱۱، ۱۲) (صحیح)
۱۸۱۰- ابو رزین رضی اللہ عنہ - بنی عامر کے ایک فرد- کہتے ہیں :میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی اور نہ سواری پر سوار ہونے کی، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اپنے والد کی جانب سے حج اور عمرہ کرو‘‘۔


1811- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ (الطَّالَقَانِيُّ) وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَ إِسْحَاقُ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ رَجُلا يَقُولُ: لَبَّيْكَ عَنْ شُبْرُمَةَ، قَالَ: < مَنْ شُبْرُمَةُ؟ > قَالَ: أَخٌ لِي، أَوْ قَرِيبٌ لِي، قَالَ: <حَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ> قَالَ: لا، قَالَ: < حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ >۔
* تخريج: ق/المناسک ۹ (۲۹۰۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۵۶۴) (صحیح )
۱۸۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو کہتے سنا: ’’لبيك عن شبرمة‘‘ (حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے) آپ ﷺ نے دریافت کیا: ’’شبرمہ کون ہے؟‘‘، اس نے کہا: میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : ’’تم نے اپنا حج کرلیا ہے؟‘‘، اس نے جواب دیا: نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے اپنا حج کرو پھر(آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کر نا‘‘ ۔
وضاحت ۱؎ : بعض علماء کے نزدیک حج بدل (دوسرے کی طرف سے حج کرنا) درست ہے، خواہ اپنی طرف سے حج نہ کرسکا ہو، بعض ائمہ کے نزدیک اگر وہ اپنی طرف سے حج نہیں کرسکا ہے تو دوسرے کی طرف سے حج بدل درست نہ ہوگا، اور یہی صحیح مذہب ہے، اس لئے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس شخص کو جو ’’لبيك عن شبرمة ‘‘ کہہ رہا تھا حکم دیا: ’’حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة‘‘: ’’پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب كَيْفَ التَّلْبِيَةُ؟
۲۷-باب: تلبیہ (لبیک کہنے) کا بیان​


1812- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ تَلْبِيَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: < لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لا شَرِيكَ لَكَ > قَالَ : وَكَانَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِي تَلْبِيَتِهِ: < لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ >۔
* تخريج: خ/الحج ۲۶ (۱۵۴۹)، واللباس ۶۹(۵۹۵۱)، م/الحج ۳ (۱۱۸۴)، ن/الحج ۵۴ (۲۷۴۸، ۲۷۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۴۴)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۳ (۸۲۵)، ق/المناسک ۱۵ (۲۹۱۸)، ط/الحج ۹(۲۸)، حم (۲/۳، ۲۸، ۲۸، ۳۴، ۴۱، ۴۳، ۴۷، ۴۸، ۵۳، ۷۶، ۷۷، ۷۹، ۱۳۱)، دي/المناسک ۱۳ (۱۸۴۹) (صحیح)
۱۸۱۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا:’’لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاشَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لا شَرِيكَ لَكَ‘‘(حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد وستائش، نعمتیں اور فرماروائی تیری ہی ہے تیرا ان میں کوئی شریک نہیں)۔
راوی کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر تلبیہ میں اتنا مزید کہتے’’لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ‘‘(حاضر ہوں تیری خدمت میں، حاضر ہوں، حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خیر تیرے ہاتھ میں ہے، تیری ہی طرف رغبت اور عمل ہے)۔


1813- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرَ التَّلْبِيَةَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: وَالنَّاسُ يَزِيدُونَ: < ذَا الْمَعَارِجِ > وَنَحْوَهُ مِنَ الْكَلامِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ يَسْمَعُ فَلايَقُولُ لَهُمْ شَيْئًا۔
* تخريج: ق/المناسک ۱۵ (۲۹۱۹) (کلاھما بدون قولہ : ’’والناس یزیدون ۔۔۔الخ)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۴)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۹(۱۵۴۰) (في سیاق حجۃ النبي ﷺ الطویل ) (صحیح)
۱۸۱۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا ، پھر انہوں نے تلبیہ کا اسی طرح ذکر کیا جیسے ابن عمر کی حدیث میں ہے اور کہا: لوگ (اپنی طرف سے اللہ کی تعریف میں) ’’ذا المعارج‘‘ اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے لیکن آپ ان سے کچھ نہیں فرماتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ کی یہ خاموشی اور سکوت تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافہ کے جواز کی دلیل ہے، اگرچہ افضل وہی ہے جو آپ ﷺ سے مرفوعاً ثابت ہے اور جس پر آپ ﷺ نے مداومت کی ہے۔


1814- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ خَلادِ بْنِ السَّائِبِ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَتَانِي جِبْرِيلُ ﷺ فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي وَمَنْ مَعِي أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالإِهْلالِ >، أَوْ قَالَ: <بِالتَّلْبِيَةِ> يُرِيدُ أَحَدَهُمَا۔
* تخريج: ت/الحج ۱۵ (۸۲۹)، ن/الحج ۵۵ (۲۷۵۴)، ق/المناسک ۱۶ (۲۹۲۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۸)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۱۰ (۳۴)، حم (۴/۵۵، ۵۶)، دي/المناسک ۱۴ (۱۸۵۰) (صحیح)
۱۸۱۴- سا ئب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے پاس جبرئیل آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحا بہ ۱؎ اور ساتھ والوں کو اہلال یا فرمایا تلبیہ میں آواز بلند کرنے کا حکم دوں‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے پتہ چلا کہ مردوں کے لئے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے، ’’أصحابي‘‘ کی قید سے اس حکم سے عورتیں خارج ہوگئی ہیں ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ بلند آواز سے تلبیہ نہ پکاریں۔
وضاحت ۲؎ : اہلال اور تلبیہ دونوں ایک ہی معنی میں ہے، راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے اہلال کہا یا تلبیہ، مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے آپ ﷺ نے کوئی ایک ہی لفظ کہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَتَى يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ ؟
۲۸-باب: لبیک پکارنا کب بند کرے؟​


1815- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَبَّى حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ۔
* تخريج: خ/الحج ۲۲ (۱۵۴۳)، ۹۳(۱۶۷۰)، ۱۰۱(۱۶۸۵)، م/الحج ۴۵ (۱۲۸۰)، ت/الحج ۷۸ (۹۱۸)، ن/الحج ۲۱۶ (۳۰۵۷)، ۲۲۸ (۳۰۸۱)، ۲۲۹ (۳۰۸۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۵۰)، وقد أخرجہ: ق/المناسک ۶۹ (۳۰۴۰)، حم (۱/۲۱۰، ۲۱۱، ۲۱۲، ۲۱۳، ۲۱۴)، دي/المناسک ۶۰(۱۹۴۳) (صحیح)
۱۸۱۵- فضل بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ پکارا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’حتى رمى جمرة العقبة‘‘سے احمد اور اسحاق نے استدلال کیا ہے کہ تلبیہ کہنا جمرہ عقبہ کی رمی پوری کرلینے کے بعد موقوف کیا جائے گا، لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں’’لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة‘‘کے الفاظ آئے ہیں جس سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کی پہلی کنکری کے ساتھ ہی تلبیہ بند کر دیا جائے گا۔


1816- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: غَدَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ مِنَّا الْمُلَبِّي وَمِنَّا الْمُكَبِّرُ۔
* تخريج: م/الحج ۴۶ (۱۲۸۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۲۷۱)، وقد أخرجہ: ن/الحج ۱۹۱ (۳۰۰۱)، حم (۲/۲۲)، دي/المناسک ۴۸ (۱۹۱۸) (صحیح)
۱۸۱۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم صبح کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کی طرف نکلے ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے اور کچھ ’’الله أكبر‘‘ کہہ رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَتَى يَقْطَعُ الْمُعْتَمِرُ التَّلْبِيَةَ ؟
۲۹-باب: عمرہ کرنے والا تلبیہ کب بند کرے؟​


1817- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < يُلَبِّي الْمُعْتَمِرُ حَتَّى يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ عَبْدُالْمَلِكِ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَهَمَّامٌ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا۔
* تخريج: ت/الحج ۷۹ (۹۱۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۹۱۲) موقوفًا، و (۵۹۵۸) (ضعیف)
(اس کے راوی’’محمد بن أبی لیلی‘‘ ضعیف ہیں)
۱۸۱۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’عمرہ کرنے والا حجر اسود کا استلا م کرنے تک لبیک پکارے‘‘ ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں : اسے عبدالملک بن ابی سلیمان اور ہمام نے عطاء سے، عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقو فاً روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث سندا ضعیف ہے، مگر بہت سارے علماء کا یہی قول ہے، بعض لوگ کہتے ہیں: مکہ کے مکانات پر نظر پڑتے ہی تلبیہ بند کردے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ خانۂ کعبہ پرنظر پڑتے ہی تلبیہ بند کردے،اور یہ دعا پڑھے: ’’اللهم أنت السلام ومنك السلام...الخ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب الْمُحْرِمِ يُؤَدِّبُ غُلامَهُ
۳۰-باب: محرم اپنے غلام کو جرم پر سزا دے تو کیسا ہے؟​


1818- حَدَّثَنَا (أَحْمَدُ) بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ، (حَدَّثَنَا) (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حُجَّاجًا، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَنَزَلْنَا، فَجَلَسَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي وَكَانَتْ زِمَالَةُ أَبِي (بَكْرٍ)، وَزِمَالَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَاحِدَةً مَعَ غُلامٍ لأَبِي بَكْرٍ، فَجَلَسَ أَبُو بَكْرٍ يَنْتَظِرُ أَنْ يَطْلُعَ عَلَيْهِ، فَطَلَعَ وَلَيْسَ مَعَهُ بَعِيرُهُ، قَالَ: أَيْنَ بَعِيرُكَ؟ قَالَ أَضْلَلْتُهُ الْبَارِحَةَ، قَالَ: فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ بَعِيرٌ وَاحِدٌ تُضِلُّهُ؟ قَالَ: فَطَفِقَ يَضْرِبُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَبَسَّمُ، وَيَقُولُ: <انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ مَا يَصْنَعُ > قَالَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ: فَمَا يَزِيدُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى أَنْ يَقُولَ: < انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ مَا يَصْنَعُ > وَيَتَبَسَّمُ۔
* تخريج: ق/المناسک ۲۱ (۲۹۳۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۱۵) (حسن)
۱۸۱۸- اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کو نکلے، جب ہم مقام عرج میں پہنچے تو رسول اللہ ﷺ اترے، ہم بھی اترے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں، اور میں اپنے والد کے پہلو میں بیٹھی ۔
اس سفر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ ﷺ دونوں کے سامان اٹھانے کا اونٹ ایک ہی تھا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام کے پاس تھا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ غلام آئے جب وہ آیا تو اس کے ساتھ اونٹ نہ تھا ، انہوں نے پوچھا: تیرا اونٹ کہاں ہے؟ اس نے جوا ب دیا کل رات وہ گم ہو گیا ، ابوبکر بولے: ایک ہی اونٹ تھا اور وہ بھی تو نے گم کر دیا ، پھر وہ اسے مارنے لگے اور رسول اللہ ﷺ مسکرا رہے تھے اور فرما رہے تھے:’’ دیکھو اس محرم کو کیا کررہا ہے؟‘‘ ( ابن ابی رزمہ نے کہا)’’ رسول اللہ ﷺ اس سے زیادہ کچھ نہیں فرمارہے تھے کہ دیکھو اس محرم کو کیا کر رہا ہے اور آپ مسکرا رہے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31-بَاب الرَّجُلِ يُحْرِمُ فِي ثِيَابِهِ
۳۱-باب: آدمی سِلے ہوئے کپڑے میں احرام باندھ لے تواس کے حکم کا بیان​


1819- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَائً، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى ابْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَيْهِ أَثَرُ خَلُوقٍ، أَوْ قَالَ صُفْرَةٍ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي عُمْرَتِي؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى النَّبِيِّ ﷺ (الْوَحْيَ)، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ قَالَ: <أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْعُمْرَةِ؟ > قَالَ: < اغْسِلْ عَنْكَ أَثَرَ الْخَلُوقِ -أَوْ قَالَ: أَثَرَ الصُّفْرَةِ- وَاخْلَعِ الْجُبَّةَ عَنْكَ، وَاصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَاصَنَعْتَ فِي حَجَّتِكَ >۔
* تخريج: خ/الحج ۱۷ (۱۵۳۶) والعمرۃ ۱۰(۱۷۸۹)، وجزاء الصید ۱۹(۱۸۴۷)، والمغازي ۵۶ (۴۳۲۹)، وفضائل القرآن ۲ (۴۹۸۵)، م/الحج ۱ (۱۱۸۰)، ت/الحج ۲۰(۸۳۶)، ن/الحج ۲۹ (۲۶۶۹)، ۴۴ (۲۷۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۲، ۲۲۴) (صحیح)
۱۸۱۹- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ،اور آپ جعرانہ میں تھے، اس کے بدن پر خوشبو یا زردی کا نشان تھا اور وہ جبہ پہنے ہوئے تھا ، پوچھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کس طرح عمرہ کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اتنے میں اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل کی، جب وحی اتر چکی تو آپ نے فرمایا:’’ عمرے کے بارے میں پو چھنے والا کہاں ہے؟ ‘‘ فرمایا: ’’خلوق کا نشان، یا زردی کا نشان دھو ڈالو، جبہ اتار دو، اور عمرے میں وہ سب کر و جو حج میں کرتے ہو ‘‘۔


1820- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ وَهُشيْمٌ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى عَنْ أَبِيهِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ فِيهِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ اخْلَعْ جُبَّتَكَ ، فَخَلَعَهَا مِنْ رَأْسِهِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ت/الحج ۲۰ (۸۳۵) ن/الکبری/ فضائل القرآن (۷۹۸۱)، (من ۱۸۲۰ حتی ۱۸۲۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۶، ۱۱۸۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۴) (صحیح)
(حدیث میں واقع یہ لفظ ’’من رأسه‘‘ منکر ہے) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۶؍ ۸۴)
۱۸۲۰- اس سند سے بھی یعلی سے یہی قصہ مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ اس سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنا جبہ اتار دو‘‘، چنانچہ اس نے اپنے سر کی طرف سے اسے اتار دیا ،اور پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔


1821- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمَدَانِيُّ الرَّمْلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ يَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ، عَنْ أَبِيهِ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ فِيهِ: فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَنْزِعَهَا نَزْعًا، وَيَغْتَسِلَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۱۸۱۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۶) (صحیح )
۱۸۲۱- اس سند سے بھی یعلی بن منیہ ۱؎ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں :’’فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَنْزِعَهَا نَزْعًا، وَيَغْتَسِلَ - مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا -‘‘ (یعنی رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے اتار دے اور غسل کرے دو بار یا تین بار-آپ نے فرمایا-) پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : منیہ یعلیٰ کی والدہ ہیں ان کے والد کا نام امیّہ ہے۔


1822- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرِمٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى ابْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ بِالْجِعْرَانَةِ وَقَدْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ، وَهُوَ مُصَفِّرٌ لِحْيَتَهُ وَرَأْسَهُ، وَسَاقَ (هَذَا) الْحَدِيثَ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۸۱۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۶) (صحیح)
۱۸۲۲- یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جعرانہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اس نے عمرہ کا احرام اور جبہ پہنے ہو ئے تھا، اور اس کی دا ڑھی و سر کے بال زرد تھے، اور راوی نے یہی حدیث بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ
۳۲-باب: محرم کون کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟​


1823- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ: مَا يَتْرُكُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟ فَقَالَ: < لا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ، وَلاالْبُرْنُسَ، وَلا السَّرَاوِيلَ، وَلا الْعِمَامَةَ، وَلا ثَوْبًا مَسَّهُ وَرْسٌ وَلا زَعْفَرَانٌ، وَلا الْخُفَّيْنِ، إِلا لِمَنْ لايَجِدُ النَّعْلَيْنِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسِ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ >۔
* تخريج: خ/العلم ۵۳ (۱۳۴)، والصلاۃ ۹ (۳۶۶)، والحج ۲۱ (۱۵۴۲)، وجزاء الصید ۱۳ (۱۸۳۸)، ۱۵(۱۸۴۲)، واللباس ۸ (۵۷۹۴)، ۱۳ (۵۸۰۳)، ۱۵ (۵۸۰۶)، م/الحج ۱ (۱۱۷۷)، ن/الحج ۲۸ (۲۶۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۷، ۸۳۲۵)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۸ (۸۳۳)، ق/المناسک ۱۹ (۲۹۲۹)، ط/الحج ۳(۸)، ۴ (۹)، حم (۲/۴، ۸، ۲۲، ۲۹، ۳۲، ۳۴، ۴۱، ۵۴، ۵۶، ۵۹، ۶۳، ۶۵، ۷۷، ۱۱۹)، دي/المناسک ۹ (۱۸۳۹) (صحیح)
۱۸۲۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ آپ نے فرمایا:’’ نہ کرتا پہنے، نہ ٹوپی، نہ پائجامہ، نہ عمامہ(پگڑی) ، نہ کوئی ایسا کپڑا جس میں ورس ۱؎ یا زعفران لگا ہو، اور نہ ہی موزے، سوائے اس شخص کے جسے جوتے میسر نہ ہوں، توجسے جوتے میسر نہ ہوں وہ موزے ہی پہن لے، انہیں کاٹ ڈالے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہوجائیں‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایک قسم کی خوشبو دار گھاس ہے جس سے کپڑے وغیرہ رنگے جاتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : امام احمد کے نزدیک خف (چمڑے کا موزہ) کاٹنا ضروری نہیں ، دیگر ائمہ کے نزدیک کاٹنا ضروری ہے، دلیل ان کی یہی حدیث ہے، اور امام احمد کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث ہے جس میں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے، جب کہ وہ میدان عرفات کے موقع کی حدیث ہے، یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کی ناسخ ہے، اور ورس اور زعفران سے منع اس لئے کیا گیا کہ اس میں خوشبو ہوتی ہے، یہی حکم ہر اس رنگ کا ہے جس میں خوشبو ہو۔


1824- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِمَعْنَاهُ۔
* تخريج: خ/ الحج ۱۸ (۱۵۳۹)، م/الحج ۱ (۱۱۷۷)، ن/ الحج ۳۰ (۲۶۷۰)، ق/ المناسک ۱۹ (۲۹۲۹)، (۲۹۳۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۵)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۳ (۸)، حم (۲/۶۳)، دی/ المناسک ۹ (۱۸۳۹) (صحیح)
۱۸۲۴- اس سند سے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔


1825- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِمَعْنَاهُ، (وَ) زَادَ: < وَلا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ، وَلا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ >.
قَالَ أَبودَاود: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ، عَلَى مَا قَالَ اللَّيْثُ، وَرَوَاهُ مُوسَى بْنُ طَارِقٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، مَوْقُوفًا عَلَى ابْنِ عُمَرَ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَمَالِكٌ وَأَيُّوبُ مَوْقُوفًا، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: < الْمُحْرِمَةُ لا تَنْتَقِبُ وَلا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ >.
قَالَ أَبودَاود: إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَيْسَ لَهُ كَبِيرُ حَدِيثٍ۔
* تخريج: خ/ الصید ۱۳ (۱۸۳۸)، ن/الحج ۳۳ (۲۶۷۴)، ت/الحج ۱۸ (۸۳۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۲۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۱۹) (صحیح)
۱۸۲۵- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے ، راوی نے البتہ اتنا اضافہ کیا ہے کہ محرم عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: حاتم بن اسماعیل اور یحییٰ بن ایوب نے اس حدیث کو مو سی بن عقبہ سے، اورموسیٰ نے نا فع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے لیث نے کہا ہے، اوراسے موسی بن طارق نے موسی بن عقبہ سے ابن عمرپر موقوفاً روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے عبید اللہ بن عمر اور مالک اور ایوب نے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، اور ابراہیم بن سعید المدینی نے نافع سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیاہے کہ ’’ محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: ابراہیم بن سعید المدینی ایک شیخ ہیں جن کا تعلق اہل مدینہ سے ہے ان سے زیادہ احا دیث مروی نہیں، یعنی وہ قلیل الحدیث ہیں۔
وضاحت ۱؎ : احرام کی حالت میں عورتوں کو اپنے چہرے پر’’ نقاب ‘‘ لگانا منع ہے، مگر حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا، برصغیر ہندوپاک کے موجودہ برقعوں کا ’’ نقاب‘‘ چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرنے کے وقت چہرے پر لٹکا لیا کرتی تھیں (دیکھئے حدیث نمبر: ۱۸۳۳)، اس لئے اس نقاب کو بوقت ضرورت عورتیں چہرے پر لٹکا سکتی ہیں، اور چوں کہ اس وقت حج میں ہر وقت اجنبی (غیر محرم) مردوں کا سامنا پڑتا ہے، اس لئے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پر لٹکائے رکھ سکتی ہیں۔


1826- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْمُحْرِمَةُ لا تَنْتَقِبُ وَلا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۷۴۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۱) (صحیح)
۱۸۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:’’ محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ‘‘۔


1827- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: فَإِنَّ نَافِعًا مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ حَدَّثَنِي، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى النِّسَاءَ فِي إِحْرَامِهِنَّ عَنِ الْقُفَّازَيْنِ وَالنِّقَابِ وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ، وَلْتَلْبَسْ بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَحَبَّتْ مِنْ أَلْوَانِ الثِّيَابِ مُعَصْفَرًا أَوْ خَزًّا أَوْ حُلِيًّا أَوْ سَرَاوِيلَ أَوْ قَمِيصًا أَوْ خُفًّا.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا (الْحَدِيثَ) عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ (عَنْ نَافِعٍ) عَبْدَةُ (بْنُ سُلَيْمَانَ) وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ إِلَى قَوْلِهِ: < وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ > وَلَمْ يَذْكُرَا مَا بَعْدَهُ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۳ (۱۸۳۸تعلیقاً)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۴۰۵)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۸ (۸۳۳)، حم (۲/۲۲، ۳۲، ۱۱۹) (حسن صحیح)
۱۸۲۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے عو رتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننے، نقاب اوڑھنے، اور ایسے کپڑے پہننے سے جن میں ورس یا زعفران لگا ہو منع فرمایا ، البتہ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہنے جیسے زرد رنگ والے کپڑے، یا ریشمی کپڑے ، یا زیور، یا پائجامہ، یا قمیص ، یا کرتا، یا موزہ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کوعبدہ بن سلیمان اور محمد بن سلمہ نے ابن اسحاق سے ابن اسحاق نے نافع سے حدیث ’’وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ‘‘ تک روایت کیا ہے اور اس کے بعد کا ذکر ان دونوں نے نہیں کیا ہے۔


1828- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ وَجَدَ الْقُرَّ فَقَالَ: أَلْقِ عَلَيَّ ثَوْبًا يَا نَافِعُ، فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهِ بُرْنُسًا، فَقَالَ: تُلْقِي عَلَيَّ هَذَا وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَلْبَسَهُ الْمُحْرِمُ؟!
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۷۵۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۱، ۱۴۸) (صحیح)
۱۸۲۸- نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سردی محسوس کی تو انہوں نے کہا: نافع! میرے اوپر کپڑا ڈال دو، میں نے ان پر برنس ڈال دی ، تو انہوں نے کہا: تم میرے اوپر یہ ڈال رہے ہو حالا نکہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کو اس کے پہننے سے منع فرمایا ہے۔


1829- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لا يَجِدُ الإِزَارَ، وَالْخُفُّ لِمَنْ لا يَجِدُ النَّعْلَيْنِ >.
قَالَ أَبودَاود : هَذَا حَدِيثُ أَهْلِ مَكَّةَ: وَمَرْجِعُهُ إِلَى الْبَصْرَةِ إِلَى جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَالَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ مِنْهُ ذِكْرُ السَّرَاوِيلِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْقَطْعَ فِي الْخُفِّ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۵ (۱۸۴۱)، ۱۶ (۱۸۴۳)، واللباس ۱۴ (۵۸۰۴)، ۳۷ (۳۸۵۳)، م/الحج ۱ (۱۱۷۸)، ت/الحج۱۹ (۸۳۴)، ن/الحج ۳۲ (۲۶۷۲، ۲۶۷۳)، ۳۷ (۲۶۸۰)، والزینۃ ۱۰۰ (۵۳۲۷)، ق/المناسک ۲۰ (۲۹۳۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۲۸، ۲۷۹، ۳۳۷)، دي/المناسک ۹ (۱۸۴۰) (صحیح)
۱۸۲۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا : ’’پاجامہ وہ پہنے جسے ازار نہ ملے اور موزے وہ پہنے جسے جوتے نہ مل سکیں‘‘۔
(ابو داود کہتے ہیں یہ اہل مکہ کی حدیث ہے ۱؎ اس کا مر جع بصرہ میں جابر بن زید ہیں ۲؎ اورجس چیز کے ساتھ وہ منفرد ہیں وہ سراویل کا ذکر ہے اور اس میں موزے کے سلسلہ میں کا ٹنے کا ذکر نہیں)۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ سلیمان بن حرب مکّی ہیں اور مصنف نے انہیں سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ اس سند کا محور جن پر یہ سند گھومتی ہے جابر بن زید ہیں اور وہ بصری ہیں۔


1830- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْجُنَيْدِ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُوأُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِي اللَّه عَنْهَا حَدَّثَتْهَا قَالَتْ: كُنَّا نَخْرُجُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى مَكَّةَ فَنُضَمِّدُ جِبَاهَنَا بِالسُّكِّ الْمُطَيَّبِ عِنْدَ الإِحْرَامِ فَإِذَا عَرِقَتْ إِحْدَانَا سَالَ عَلَى وَجْهِهَا فَيَرَاهُ النَّبِيُّ ﷺ فَلا (يَنْهَاهَا)۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۹) (صحیح)
۱۸۳۰- عائشہ بنت طلحہ کا بیان ہے کہ ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے سا تھ مکہ کی طرف نکلتے تو ہم اپنی پیشانی پر خو شبو کا لیپ لگاتے تھے جب پسینہ آتا تو وہ خو شبو ہم میں سے کسی کے منہ پر بہہ کر آجاتی رسول اللہ ﷺ اس کو دیکھتے لیکن منع نہ کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ خوشبو احرام سے پہلے کی ہوتی تھی اس لئے منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔


1831- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: ذَكَرْتُ لابْنِ شِهَابٍ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- كَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ -يَعْنِي يَقْطَعُ الْخُفَّيْنِ لِلْمَرْأَةِ الْمُحْرِمَةِ- ثُمَّ حَدَّثَتْهُ صَفِيَّةُ بِنْتُ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ كَانَ رَخَّصَ لِلنِّسَاءِ فِي الْخُفَّيْنِ، فَتَرَكَ ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹، ۳۵، ۶/۳۵) (حسن)
(محمد بن اسحاق کی یہ روایت معنعن نہیں ہے بلکہ اسے انہوں نے زہری سے بالمشافہہ اخذ کیا ہے، اس لئے حسن ہے)
۱۸۳۱- محمد بن اسحاق کہتے ہیں: میں نے ابن شہاب سے ذکرکیا توانہوں نے کہا: مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسا ہی کرتے تھے یعنی محرم عورت کے موزوں کو کاٹ دیتے ۱؎ ، پھر ان سے صفیہ بنت ابی عبید نے بیان کیا کہ ان سے ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں کے سلسلے میں عورتوں کو رخصت دی ہے تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔
وضاحت ۱؎ : اس باب کی پہلی روایت کے عموم سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ سمجھا تھا کہ یہ حکم مرد اورعورت دونوں کوشامل ہے اسی لئے وہ محرم عورت کے موزوں کو کاٹ دیتے تھے، بعد میں جب انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت سنی تو اپنے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب الْمُحْرِمِ يَحْمِلُ السِّلاحَ
۳۳-باب: محرم ہتھیار ساتھ رکھے اس کے حکم کا بیان​


1832- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يَقُولُ: لَمَّا صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَهْلَ الْحُدَيْبِيَةِ صَالَحَهُمْ عَلَى أَنْ لايَدْخُلُوهَا إِلا بِجُلْبَانِ السِّلاحِ فَسَأَلْتُهُ: مَا جُلْبَانُ السِّلاحِ ؟ قَالَ: الْقِرَابُ بِمَا فِيهِ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۷ (۱۸۴۴)، والصلح ۶ (۲۶۹۸)، والجزیۃ ۱۹ (۳۱۸۴)، والمغازي ۴۳ (۴۲۵۱)، م/الجہاد ۳۴ (۱۷۸۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹، ۴/۲۸۹، ۲۹۱)، دي/السیر ۶۴ (۲۵۴۹) (صحیح)
۱۸۳۲- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ والوں سے صلح کی تو آپ نے ان سے اس شرط پر مصالحت کی کہ مسلمان مکہ میں جلبان السلاح کے ساتھ ہی داخل ہوں گے ۱؎ تو میں نے ان سے پوچھا: ’’جُلْبَاْنُ السِّلاحِ‘‘ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : ’’جلبان السلاح ‘‘ میان کا نام ہے اس چیز سمیت جو اس میں ہو۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کی تلواریں میان کے اندر ہی رہیں گی۔
 
Top