• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب فِي الْمُحْرِمَةِ تُغَطِّي وَجْهَهَا
۳۴-باب: محرم عورت اپنا منہ ڈھانپے اس کے حکم کا بیان​


1833- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ۔
* تخريج: ق/المناسک ۲۳ (۲۹۳۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۰) (حسن)
(اس کے راوی’’یزید بن أبی زیاد‘‘ضعیف ہیں، لیکن اس باب میں اسماء کی حدیث سے تقویت پا کریہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی ۴۳۳)
۱۸۳۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوتے ، جب سوار ہما رے سامنے آجاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب فِي الْمُحْرِمِ يُظَلَّلُ
۳۵-باب: محرم پر سایہ کرنا کیسا ہے؟​


1834- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحِيمِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ حَدَّثَتْهُ قَالَتْ: حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، فَرَأَيْتُ أُسَامَةَ وَبِلالاً، وَأَحَدُهُمَا آخِذٌ بِخِطَامِ نَاقَةِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالآخَرُ رَافِعٌ ثَوْبَهُ لِيَسْتُرَهُ مِنَ الْحَرِّ، حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ۔
* تخريج: م/الحج ۵۱ (۱۲۹۸)، ن/الحج ۲۲۰ (۳۰۶۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۰۲) (صحیح)
۱۸۳۴- ام حصین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کیا تو میں نے اسامہ اور بلا ل رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ ان میں سے ایک نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے تھے، اور دوسرے اپنا کپڑا اٹھائے تھے تا کہ وہ آپ پر دھوپ سے سایہ کرسکیں ۱؎ یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی۔
وضاحت ۱؎ : محرم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا سر کھولے رکھے، لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ سخت دھوپ میں چھتری یا خیمہ سے فائدہ نہ اٹھائے، گاڑیوں میں سفر نہ کرے، یہ چیزیں اس کے سر سے چپکی اور متصل نہیں رہتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب الْمُحْرِمِ يَحْتَجِمُ
۳۶-باب: محرم پچھنا لگو ائے تو کیسا ہے؟​


1835- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ (دِينَارٍ) عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۱ (۱۸۳۵)، الصوم ۳۲ (۱۹۳۸)، الطب ۱۲ (۵۶۹۵)، ۱۵(۵۷۰۰)، م/الحج ۱۱ (۱۲۰۲)، ت/الحج ۲۲ (۸۳۹)، الصوم ۶۱ (۷۷۵)، ن/الحج ۹۲ (۲۸۴۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۷)، وقد أخرجہ: ق/المناسک ۸۷ (۳۰۸۱)، حم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۲۲، ۲۳۶، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۰، ۲۸۳، ۲۸۶، ۲۹۲، ۳۰۶، ۳۱۵، ۳۳۳، ۳۴۶، ۳۵۱، ۳۷۲، ۳۷۴)، دي/المناسک ۲۰(۱۸۶۰) (صحیح)
۱۸۳۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور آپ حالت احرام میں تھے۔


1836- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ احْتَجَمَ -وَهُوَ مُحْرِمٌ- فِي رَأْسِهِ مِنْ دَائٍ كَانَ بِهِ۔
* تخريج: خ/الطب ۱۵ (۵۷۰۰)، ن/ الکبری/ الطب (۷۵۹۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۶، ۲۴۹، ۲۵۹، ۲۷۲) (صحیح)
۱۸۳۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیماری کی وجہ سے جو آپ کو تھی اپنے سر میں پچھنا لگوایا اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔


1837- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِهِ.
(قَالَ أَبودَاود : سَمِعْت أَحْمَدَ قَالَ: ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، أَرْسَلَهُ، يَعْنِي عَنْ قَتَادَةَ)۔
* تخريج: ت/الشمائل ۴۹ (۳۴۸)، ن/الحج ۹۴ (۲۸۵۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۶۴، ۲۶۷) (صحیح)
۱۸۳۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔
وضاحت ۱؎ : اگر پچھنے (سینگی) لگانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ لازم ہوگا، اسی لئے بعض علماء نے سرے سے محرم کے لئے پچھنا لگوانے کو مکروہ جانا ہے، ورنہ حقیقت میں حالت احرام میں پچھنا لگوانا مکروہ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب يَكْتَحِلُ الْمُحْرِمُ
۳۷-باب: محرم سر مہ لگائے توکیسا ہے؟​


1838- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: اشْتَكَى عُمَرُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ عَيْنَيْهِ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ: قَالَ سُفْيَانُ: وَهُوَ أَمِيرُ (الْمَوْسِمِ)، مَا يَصْنَعُ بِهِمَا؟ قَالَ: اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ رَضِي اللَّه عَنْه يُحَدِّثُ ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: م/الحج ۱۲ (۱۲۰۴)، ت/الحج ۱۰۶ (۹۵۲)، ن/الحج ۴۵ (۲۷۱۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۵۹، ۶۵، ۶۸، ۶۹)، دي/المناسک ۸۳ (۱۹۷۱) (صحیح)
۱۸۳۸- نُبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبید اللہ بن معمر کی دونوں آنکھیں دکھنے لگیں تو انہوں نے ابان بن عثمان کے پاس (پوچھنے کے لئے اپنا آدمی) بھیجا کہ وہ اپنی آنکھوں کا کیا علاج کریں؟(سفیان کہتے ہیں: ابان ان دونوں حج کے امیر تھے) تو انہوں نے کہا:ان دونوں پر ایلوا کا لیپ لگا لو، کیونکہ میں نے عثمان سے سنا ہے وہ اسے رسول اللہ ﷺ سے نقل کررہے تھے۔


1839- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا (إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ) ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۷۷) (صحیح)
۱۸۳۹- اس سند سے بھی نبیہ بن وہب سے یہی حدیث مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَاب الْمُحْرِمِ يَغْتَسِلُ
۳۸-باب: محرم غسل کرے توکیسا ہے؟​


1840- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ اخْتَلَفَا بِالأَبْوَاءِ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَهُ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، فَوَجَدَهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ وَهُوَ يُسْتَرُ بِثَوْبٍ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ: أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَسْأَلُكَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ قَالَ: فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ لإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَيْهِ: اصْبُبْ، قَالَ: فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ أَبُو أَيُّوبَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ ﷺ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۴ (۱۸۴۰)، م/الحج ۱۳ (۱۲۰۵)، ن/الحج ۲۷ (۲۶۶۶)، ق/المناسک ۲۲ (۲۹۳۴)، ط/الحج ۲ (۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۴۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۱۶، ۴۱۸، ۴۲۱)، دي/المناسک ۶ (۱۸۳۴)، (صحیح)
۱۸۴۰- عبداللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کے مابین مقام ابواء میں اختلاف ہو گیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم سر دھو سکتا ہے ، مسور نے کہا: محرم سر نہیں دھو سکتا ، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں( ابن حنین کو) ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو آپ نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان کپڑے کی آڑلئے ہوئے نہاتے پایا، ابن حنین کہتے ہیں: میں نے سلام کیا تو انہوں نے پوچھا: کو ن؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے آپ کے پاس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے معلوم کروں کہ رسول اللہ ﷺ حالت احرام میں اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے؟ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اوراسے اس قدر جھکایا کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا ، پھر ایک آدمی سے جو ان پر پانی ڈال رہا تھا، کہا: پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا ، پھر ایوب نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور بو لے ایسا ہی میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حالت احرام میں صرف پانی سے سر کا دھونا جائز ہے کسی بھی ایسی چیز سے اجتناب ضروری ہے جس سے جؤوں کے مرنے کا خوف ہو اسی طرح سر دھلتے وقت بالوں کو اتنا زور سے نہ ملے کہ وہ گرنے لگیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39-بَاب الْمُحْرِمِ يَتَزَوَّجُ
۳۹-باب: محرم شادی کرے توکیسا ہے؟​


1841- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ -أَخِي بَنِي عَبْدِالدَّارِ- أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِاللَّهِ أَرْسَلَ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ يَسْأَلُهُ، وَأَبَانُ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْحَاجِّ، وَهُمَا مُحْرِمَانِ: إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أُنْكِحَ طَلْحَةَ بْنَ عُمَرَ ابْنَةَ شَيْبَةَ بْنِ جُبَيْرٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ تَحْضُرَ ذَلِكَ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ أَبَانُ، وَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ أَبِي عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لايَنْكِحُ الْمُحْرِمُ وَلا يُنْكِحُ > ۔
* تخريج: م/النکاح ۵ (۱۴۰۹)، ت/الحج ۲۳ (۸۴۰)، ن/الحج ۹۱ (۲۸۴۵)، والنکاح ۳۸ (۳۲۷۷)، ق/النکاح ۴۵ (۱۹۶۶)، الحج ۲۲ (۲۹۳۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۷۶)، وقد أخرجہ: ط/ الحج ۲۲ (۷۰)، حم (۱/۵۷، ۶۴، ۶۹، ۷۳)، دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۴) (صحیح)
۱۸۴۱- نبیہ بن وہب جو بنی عبدالدار کے فرد ہیں سے روایت ہے کہ عمر بن عبیداللہ نے انہیں ابان بن عثمان بن عفان کے پاس بھیجا، ابان اس وقت امیر الحج تھے، وہ دونوں محرم تھے، وہ ان سے پو چھ رہے تھے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں طلحہ بن عمر کا شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے نکاح کر دوں ، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اس میں شریک رہو ، ابان نے اس پر انکار کیا اور کہا کہ میں نے اپنے والد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:’’ محرم نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے‘‘۔


1842- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ مَطَرٍ ويَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نُبَيْهِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ذَكَرَ مِثْلَهُ زَادَ وَلا يَخْطُبُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۷۶) (صحیح)
۱۸۴۲- اس سند سے بھی عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا پھر راوی نے اسی کے مثل ذکر کیا البتہ اس میں انہوں نے’’ولا يخطب‘‘ (نہ شادی کا پیغام دے) کے لفظ کا اضافہ کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : احرام کی حالت میں نہ تو محرم خود اپنا نکاح کرسکتا ہے نہ ہی دوسرے کا نکاح کراسکتا ہے، عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس سلسلے میں قانون کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں کسی اور بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، رہا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ بیان (جو حدیث نمبر: ۱۸۴۴ میں آرہا ہے) کہ آپ ﷺ نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالتِ احرام میں نکاح کیا تو یہ ان کا وہم ہے (دیکھئے نمبر: ۱۸۴۵) ، خود ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہ اور ان کا نکاح کرانے والے ابورافع رضی اللہ عنہ کا بیان اس کے برعکس ہے کہ یہ نکاح مقامِ سرف میں حلال رہنے کی حالت میں ہوا، تو صاحب معاملہ کا بیان زیادہ معتبر ہوتا ہے، دراصل ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مکہ نہ جا کر صرف ہدی (منی میں ذبح کیا جانے والا جانور) بھیج دینے کو بھی احرام سمجھا، حالاں کہ یہ احرام نہیں ہوتا، اور یہ نکاح اس حالت میں ہو رہا تھا کہ آپ ﷺ نے اشعار کرکے ہدی بھیج دی اور گھر رہ گئے، اور بقول عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ نے اپنے اوپر احرام کی کوئی بات لاگو نہیں کی۔


1843- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ ابْنِ أَخِي مَيْمُونَةَ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَنَحْنُ حَلالانِ بِسَرِفَ۔
* تخريج: م/النکاح ۵ (۱۴۱۱)، ت/الحج ۲۴ (۸۴۵)، ن/ الکبری/ النکاح (۵۴۰۴)، ق/النکاح ۴۵ (۱۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۳۲، ۳۳۳، ۳۳۵)، دي/ المناسک ۲۱ (۱۸۶۵) (صحیح)
۱۸۴۳- ام المومنین میمو نہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا، اور ہم اس وقت مقام سرف میں حلال تھے ( یعنی احرام نہیں باندھے تھے)۔


1844- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۲ (۱۸۳۷)، والمغازي ۴۳ (۴۲۵۸)، والنکاح ۳۰ (۵۱۱۴)، ت/الحج ۲۴ (۸۴۳)، (تحفۃ الأشراف:۵۹۹۰)، وقد أخرجہ: م/النکاح ۵ (۱۴۱۰)، ن/الحج ۹۰ (۲۸۴۳، ۲۸۴۴)، والنکاح ۳۷ (۳۲۷۳)، ق/النکاح ۴۵ (۱۹۶۵)، حم (۱/۲۲، ۲۴۵، ۳۵۴، ۳۶۰، ۳۸۳)، دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۳) (صحیح)
۱۸۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المومنین میمو نہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکا ح کیا۔


1845- حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: وَهِمَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي تَزْوِيجِ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف:۵۹۹۰) (صحیح)
۱۸۴۵- سعید بن مسیب کہتے ہیں : ام المومنین میمو نہ رضی اللہ عنہا سے ( نبی اکرم ﷺ کے) حالت احرام میں نکاح کے سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ
۴۰-باب: محرم کون کون سا جا نور قتل کر سکتا ہے؟​


1846- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَمَّا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ، فَقَالَ: < خَمْسٌ لا جُنَاحَ فِي قَتْلِهِنَّ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْغُرَابُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ >۔
* تخريج: م/الحج ۹ (۱۱۹۹)، ن/الحج ۸۸ (۲۸۳۸)، ق/المناسک ۹۱ (۳۰۸۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۸۲۵)، وقد أخرجہ: خ/جزاء الصید ۷ (۱۸۲۶)، وبدء الخلق ۱۶ (۳۳۱۵)، ط/الحج ۲۸(۸۸، ۸۹)، حم (۲/۸، ۳۲، ۳۷، ۴۸، ۵۰، ۵۲، ۵۴، ۵۷، ۶۵، ۷۷)، دي/ المناسک ۱۹ (۱۸۵۷) (صحیح)
۱۸۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ محرم کون کون سا جانور قتل کرسکتا ہے؟ توآپ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ جانور ہیں جنہیں حل اور حرم دونوں جگہوں میں مارنے میں کوئی حرج نہیں: بچھو، چوہیا، چیل، کوّا اور کاٹ کھانے والا کتا‘‘۔


1847- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ابْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < خَمْسٌ قَتْلُهُنَّ حَلالٌ فِي الْحَرَمِ: الْحَيَّةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۶۶) (حسن صحیح)
۱۸۴۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں بھی مارنا حلال ہے: سانپ ، بچھو، کوا، چیل، چوہیا، اور کاٹ کھانے والا کتا ‘‘۔


1848- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ [مُحَمَّدِ] حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْبَجَلِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَمَّا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ، قَالَ: < الْحَيَّةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْفُوَيْسِقَةُ، وَيَرْمِي الْغُرَابَ وَلا يَقْتُلُهُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالسَّبُعُ الْعَادِي >۔
* تخريج: ت/الحج ۲۱ (۸۳۸)، ق/المناسک ۹۱ (۳۰۸۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۴۱۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۰۴، ۳/۳، ۳۲، ۷۹) (ضعیف) وقولہ: ’’یرمي الغراب ولا یقتلہ‘‘ منکر
(یزید ضعیف ہیں)
۱۸۴۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: محرم کون کون سا جانور مار سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’سانپ، بچھو ،چو ہیا کو(مار سکتا ہے) اور کوے کو بھگا دے، اسے مارے نہیں، اورکاٹ کھانے والے کتے، چیل اور حملہ کرنے والے درندے کو(مار سکتا ہے)‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب لَحْمِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ
۴۱-باب: محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا کیسا ہے؟​


1849- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ( الطَّوِيلِ) عَنْ إِسْحَاقَ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ الْحَارِثُ خَلِيفَةَ عُثْمَانَ عَلَى الطَّائِفِ، فَصَنَعَ لِعُثْمَانَ طَعَامًا فِيهِ مِنَ الْحَجَلِ وَالْيَعَاقِيبِ وَلَحْمِ الْوَحْشِ، قَالَ: فَبَعَثَ إِلَى عَلِيِّ (بْنِ أَبِي طَالِبٍ) فَجَائَهُ الرَّسُولُ وَهُوَ يَخْبِطُ لأَبَاعِرَ لَهُ، فَجَائَهُ وَهُوَ يَنْفُضُ الْخَبَطَ عَنْ يَدِهِ، فَقَالُوا لَهُ: كُلْ، فَقَالَ: أَطْعِمُوهُ قَوْمًا حَلالاً فَأَنَا حُرُمٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه: أَنْشُدُ اللَّهَ مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ أَشْجَعَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَهْدَى إِلَيْهِ رِجْلَ حِمَارٍ وَحْشٍ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۰۰، ۱۰۳) (صحیح)
۱۸۴۹- عبداللہ بن حارث سے روایت ہے ( حارث طائف میں عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ تھے) وہ کہتے ہیں: حارث نے عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے کھانا تیار کیا ، اس میں چکور ۱؎ ، نرچکور اورنیل گائے کا گوشت تھا، وہ کہتے ہیں: انہوں نے علی کو بلا بھیجا چنانچہ قاصد ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹوں کے لئے چارہ تیار کر ر ہے ہیں، اور اپنے ہاتھ سے چارا جھاڑ رہے تھے جب وہ آئے تو لوگوں نے ان سے کہا : کھاؤ، تو وہ کہنے لگے: لوگوں کو کھلائو جو حلال ہوں ( احرام نہ باندھے ہوں) میں تو محرم ہوں تو انھوں نے کہا: میں قبیلہ اشجع کے ان لوگوں سے جو اس وقت یہاں موجود ہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے نیل گائے کا پائوں ہدیہ بھیجا تو آپ نے کھانے سے انکار کیا کیونکہ آپ حالت احرام میں تھے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تیتر کے قسم کا ایک پہاڑی خوبصورت وخوش آواز پرندہ ہے، یہ چاندنی رات میں خوب چہچہاتا ہے اس لئے اسے چاند کا عاشق کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : محرم کے لئے خشکی کا شکار کرنا یا کھانا دونوں ممنوع ہے، اسی طرح اگر کسی غیر محرم آدمی نے خشکی کا شکار خاص کر محرم کے لئے کیا ہو تو بھی محرم کو اس کا کھانا ممنوع ہے، البتہ اگر حلال آدمی نے شکار اپنے لئے کیا ہو اور کسی محرم نے اس میں اشارہ کنایہ تک سے بھی تعاون نہیں کیا ہو ، پھر اس میں سے کسی محرم کو ہدیہ پیش کیا ہو تو ایسے شکار کا کھانا جائز ہے، اس باب میں جتنی بھی روایات آئی ہیں ان سب کا یہی خلاصہ ہے، اور اس لحاظ سے ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔


1850- حَدَّثَنَا( أَبُو سَلَمَةَ) مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: يَا زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ! هَلْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أُهْدِيَ إِلَيْهِ عَضُدُ صَيْدٍ فَلَمْ يَقْبَلْهُ، وَقَالَ: < إِنَّا حُرُمٌ؟ > قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: ن/الحج ۷۹ (۲۸۲۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۶۷۷)، وقد أخرجہ: م/الحج ۸ (۱۱۹۵)، حم (۴/۳۶۷، ۳۶۹، ۳۷۱) (صحیح)
۱۸۵۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا: زیدبن ارقم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کوشکار کا دست ہدیہ دیا گیا تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا، اور فرمایا: ’’ہم احرام باندھے ہو ئے ہیں؟!‘‘، انہوں نے جواب دیا : ہاں (معلوم ہے)۔


1851- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ -يَعْنِي الإِسْكَنْدَرَانِيَّ (الْقَارِيَّ)- عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلالٌ، مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ >.
ٍ قَالَ أَبودَاود: إِذَا تَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ يُنْظَرُ بِمَا أَخَذَ بِهِ أَصْحَابُهُ۔
* تخريج: ت/الحج ۲۵ (۸۴۶)، ن/الحج ۸۱ (۲۸۳۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۰۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۲، ۳۸۷، ۳۸۹) (ضعیف)
(عمرو بن أبی عمرو اور مطلب میں کلام ہے لیکن اگلی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہورہی ہے)
۱۸۵۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے سنا: ’’خشکی کا شکار تمہارے لئے اس وقت حلال ہے جب تم خود اس کا شکار نہ کرو اور نہ تمہارے لئے اس کا شکار کیا جائے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: جب دو روایتیں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کس کے موافق ہے ۔


1852- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ التَّيْمِيِّ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ، وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ قَالَ: فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ، فَأَبَوْا، فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ، فَأَبَوْا، فَأَخَذَهُ ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَأَبَى بَعْضُهُمْ، فَلَمَّا أَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: < إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ تَعَالَى >۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۲ (۱۸۲۱)، ۵ (۱۸۲۴)، والھبۃ ۳ (۲۵۷۰)، والجہاد ۴۶ (۲۸۵۴)، ۸۸ (۲۹۱۴)، والأطعمۃ ۱۹ (۵۴۰۷)، والذبائح ۱۰ (۵۴۹۰)، ۱۱ (۵۴۹۱)، م/الحج ۸ (۱۱۹۶)، ت/الحج ۲۵ (۸۴۷)، ن/الحج ۷۸ (۲۸۱۸)، ق/المناسک ۹۳ (۳۰۹۳)، ( تحفۃ الأشراف:۱۲۱۳۱)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۲۴(۷۶)، حم (۵/۳۰۰، ۳۰۷)، دي/المناسک ۲۲ (۱۸۶۷) (صحیح)
۱۸۵۲- ابو قتا دہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، مکہ کا راستہ طے کرنے کے بعد اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے وہ پیچھے رہ گئے ، انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا ، پھر اچانک انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا تو اپنے گھوڑے پرسوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا ، انہوں نے انکار کیا، پھر ان سے برچھا مانگا تو انہوں نے پھر انکار کیا ، پھر انہوں نے نیزہ خود لیا اور نیل گائے پر حملہ کرکے اسے مار ڈالا تو رسول اللہ ﷺ کے بعض ساتھیوں نے اس میں سے کھایا اور بعض نے انکار کیا ، جب وہ رسول اللہ ﷺ سے جا کر ملے تو آپ سے اس بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہیں کھلایا‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب فِي الْجَرَادِ لِلْمُحْرِمِ
۴۲-باب: محرم کے لئے ٹڈی کا شکار جائز ہے​


1853- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ جَابَانَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْجَرَادُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۷۵، ۱۹۲۳۸) (ضعیف)
(اس کے راوی’’میمون‘‘لین الحدیث ہیں)
۱۸۵۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ٹڈیاں سمندر کے شکار میں سے ہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس طرح سمندر کا شکار محرم کے لئے جائز ہے اسی طرح ٹڈی کا شکار بھی جائز ہے (مگر یہ حدیث ضعیف ہے)۔


1854- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ حَبِيبٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَصَبْنَا صِرْمًا مِنْ جَرَادٍ فَكَانَ رَجُلٌ (مِنَّا) يَضْرِبُ بِسَوْطِهِ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَذَا لا يَصْلُحُ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: < إِنَّمَا هُوَ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ > ۔
سَمِعْت أَبَا دَاود يَقُولُ: أَبُو الْمُهَزِّمِ ضَعِيفٌ، وَالْحَدِيثَانِ جَمِيعًا وَهْمٌ۔
* تخريج: ت/الحج ۲۷ (۸۵۰)، ق/الصید ۹ (۳۲۲۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۶، ۳۶۴، ۳۷۴، ۴۰۷) (ضعیف جدا)
(اس کے راوی ابو المہزم ضعیف ہیں)
۱۸۵۴- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں ٹڈیوں کا ایک جھنڈ ملا ، ہم میں سے ایک شخص انہیں اپنے کوڑے سے مار رہا تھا، اور وہ احرام باندھے ہو ئے تھا تو اس سے کہا گیا کہ یہ درست نہیں، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ تو سمندر کے شکار میں سے ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو مہزم ضعیف ہیں اور دونوں روایتیں راوی کا وہم ہیں۔


1855- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ جَابَانَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: الْجَرَادُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۷۵، ۱۹۲۳۸) (ضعیف)
(اس کے راوی’’میمون‘‘ضعیف ہیں)
۱۸۵۵- کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ٹڈیاں سمندر کے شکار میں سے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب فِي الْفِدْيَةِ
۴۳-باب: محرم کے فدیہ کا بیان​


1856- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ الطَّحَّانِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِهِ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَقَالَ: < قَدْ آذَاكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ؟ > قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < احْلِقْ ثُمَّ اذْبَحْ شَاةً نُسُكًا أَوْ صُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ ثَلاثَةَ آصُعٍ مِنْ تَمْرٍ عَلَى سِتَّةِ مَسَاكِينَ >۔
* تخريج: خ/المحصر ۵ (۱۸۱۴)، ۶ (۱۸۱۵)، ۷ (۱۸۱۶)، ۸ (۱۸۱۷)، والمغازي ۳۵ (۴۱۵۹)، وتفسیر البقرۃ ۳۲ (۴۵۱۷)، والمرضی ۱۶ (۵۶۶۵)، والطب ۱۶ (۵۷۰۳)، وکفارات الأیمان ۱ (۶۸۰۸)، م/الحج۱۰ (۱۲۰۱)، ت/الحج ۱۰۷(۹۵۳)، ن/الحج ۹۶ (۲۸۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۴)، وقد أخرجہ: ق/المناسک ۸۶ (۳۰۷۹)، ط/الحج ۷۸ (۲۳۷)، حم (۴/ ۲۴۲، ۲۴۳، ۲۴۴) (صحیح)
۱۸۵۶- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟‘‘، کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے صیام رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث آیت کریمہ {فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ} (سورۃ بقرۃ: ۱۹۶) کی تفسیر ہے۔


1857- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ (لَهُ): < إِنْ شِئْتَ فَانْسُكْ نَسِيكَةً، وَإِنْ شِئْتَ فَصُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَطْعِمْ ثَلاثَةَ آصُعٍ مِنْ تَمْرٍ لِسِتَّةِ مَسَاكِينَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۴) (صحیح)
۱۸۵۷- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا: ’’اگر تم چا ہو تو ایک بکری ذبح کردو اور اگر چاہو تو تین دن کے صیام رکھو، اور اگر چاہو تو تین صاع کھجور چھ مسکینوں کو کھلا دو‘‘۔


1858- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ (ح) وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْمُثَنَّى، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِهِ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَذَكَرَ الْقِصَّةَ، فَقَالَ: < أَمَعَكَ دَمٌ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَصُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ تَصَدَّقْ بِثَلاثَةِ آصُعٍ مِنْ تَمْرٍ عَلَى سِتَّةِ مَسَاكِينَ بَيْنَ كُلِّ مِسْكِينَيْنِ صَاعٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۱، ۲۴۳) (صحیح)
۱۸۵۸- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے ، پھر انہوں نے یہی قصہ بیان کیا ، آپ ﷺ نے پوچھا : ’’کیا تمہارے ساتھ دم دینے کا جانور ہے؟‘‘، انہوں نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو تو تین دن کے صیام رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ،اس طرح کہ ہر دو مسکین کو ایک صاع مل جائے‘‘۔


1859- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ أَخْبَرَهُ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ -وَكَانَ قَدْ أَصَابَهُ فِي رَأْسِهِ أَذًى فَحَلَقَ- فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُهْدِيَ هَدْيًا بَقَرَةً.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۸۵۶، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۴) (ضعیف) (وقولہ : ’’بقرۃ‘‘ منکر)
(اس کا ایک راوی مجہول ہے)
۱۸۵۹- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور انہیں سر میں(جوؤوں کی وجہ سے) تکلیف پہنچی تھی تو انہوں نے سرمنڈوا دیا تھا)، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایک گائے قربان کرنے کا حکم دیا ۔


1860- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي أَبَانُ -يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ- عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: أَصَابَنِي هَوَامُّ فِي رَأْسِي، وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، حَتَّى تَخَوَّفْتُ عَلَى بَصَرِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِيَّ: {فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ} الآيَةَ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ لِي: <احْلِقْ رَأْسَكَ وَصُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ فَرَقًا مِنْ زَبِيبٍ، أَوِ انْسُكْ شَاةً > فَحَلَقْتُ رَأْسِي ثُمَّ نَسَكْتُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۸۵۶، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۴) (حسن)
(لیکن ’’منقی‘‘ کا ذکر منکر ہے صحیح روایت ’’کھجور‘‘ کی ہے)
۱۸۶۰- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال میرے سر میں جوئیں پڑ گئیں، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا یہاں تک کہ مجھے اپنی بینائی جانے کا خوف ہوا تو اللہ تعالی نے میرے سلسلے میں{فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ} کی آیت نازل فرمائی، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا:’’تم اپنا سر منڈوالو اور تین دن کے صیام رکھو، یا چھ مسکینوں کو ایک فر ق ۱؎ منقّٰی کھلاؤ، یا پھر ایک بکری ذبح کرو‘‘؛ چنانچہ میں نے اپنا سر منڈوایا پھر ایک بکری کی قربانی دے دی۔
وضاحت ۱؎ : ’’فرق‘‘: ایک پیمانہ ہے جس میں چار صاع کی گنجائش ہوتی ہے۔


1861- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ بْنِ مَالِكٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، زَادَ: <أَيُّ ذَلِكَ فَعَلْتَ أَجْزَأَ عَنْكَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۸۵۶، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۴) (صحیح)
۱۸۶۱- اس سند سے بھی کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے ’’أَيُّ ذَلِكَ فَعَلْتَ أَجْزَأَ عَنْكَ‘‘ ( اس میں سے تو جو بھی کر لوگے تمہارے لئے کافی ہے)۔
 
Top