• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تاثرات مولانا حفاظت اللہ بن عنایت اللہ السلفی -حفظہ اللہ-
(ناظم اعلی جمعیۃ اہل حدیث راجستھان)
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین، ومن تبعہ باحسان الی یوم الدین ، اما بعد:
بلا شک وشبہ امت ِ وسط میں ہمیشہ ایسی جماعت موجود رہی ہے، جس نے کتاب وسنت کی عملی تصویر کے ذریعہ حق کی شہادت پیش کی ہے، اور یہ بات اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک کہ صحیح احادیث اور غیر صحیح کی تعیین نہ ہوجائے، جس کی ذمہ داری علمائے سلف نے نبھائی،( فجزاھم اللہ احسن الجزاء)، تاکہ اہل باطل کے بے بنیاد عقائد واعمال سے مکمل اجتناب کیا جاسکے،علم حدیث سے ناواقفیت امت مسلمہ کے گمراہ ہونے میں ایک بڑا سبب رہا ہے، وقت کی اہم ضرورت تھی کہ امت کو حدیث رسول سے لگاؤ پیدا کرا کے اصل دین سے ربط وتعلق کو مضبوط کیا جائے۔
الحمد للہ اس عظیم الشان کام کی ذمہ داری ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی کی زیر نگرانی دار الدعوۃ دہلی نے اٹھائی ہے، فی الحال سنن ابی داود کا اردو ترجمہ تخریج وصحت وضعف کے حکم اور اس کی تعلیل وتوجیہ اور مختصر حواشی پر مشتمل قارئین کے پیش خدمت ہے، رب ذو الجلال سے دعا ہے کہ وہ اس عمل کو شرف ِ قبولیت بخشے، آمین۔

تاثرات جناب طارق سہراب غازی پوری -حفظہ اللہ-
(ڈبل ایم اے، بی ایڈ، ریاض سعودی عرب)
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الأمین، ومن تبعہ باحسان الی یوم الدین ، اما بعد:
معلومات میں اضافے کے لئے کتابوں کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتا ہے، لیکن دنیا وآخرت کی کامیابی اور اس سلسلہ میں صحیح معلومات کے لئے صحیح کتابوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے، دوسرے لفظوں میں بغیر صحیح کتابوں کے صحیح رہنمائی نہیں مل سکتی ہے۔
برصغیر ہند وپاک میں سینکڑوں برس سے جتنی بھی دینی کتابیں منظر عام پر نمایاں ہوئیں ان میں بیشتر کتابیں ایسی ہیں جو صحیح معنوں میں صحیح اسلام کا تعارف پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں، جس کے نتیجے میں خواہشمند اشخاص بھی بدعات وخرافات کے دائرے سے اپنے آپ کو باہر نہ لاسکے اور دوسری طرف اہل بدعت کو بدعات کی ترویج کا موقع ملتا رہا۔
میرے خیال سے زیر نظر کتاب ’’سنن ابو داود‘‘ (مترجم ومحقق ) جو پہلی بار اردو زبان میں اس اہتمام کے ساتھ شائع ہورہی ہے، اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے کے لئے کافی ہے، وقت کی ضرورت اور اس کے تقاضے کے پیش نظر مجلس علمی دار الدعوۃ نے جس اسلوب کے ساتھ اس کتاب کو پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی صاحب نے تعارف نامے میں جس طرح اپنے ادارے دار الدعوۃ کا پروجیکٹ عوامی سطح پر نمایاں کیا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ خطہ ہند سے صحیح اسلام کا تعارف کرانے میں اِس ادارے کی اپنی ایک خاص اہمیت ہوگی -ان شاء اللہ-، آج مسلم معاشرے میں بگاڑ کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ غلط قسم کی کتابوں کو پڑھ کر اسلام کی حقیقتوں سے ناآشنا ہوتے جارہے ہیں، بازار میں اسلام کے نام پر زیادہ تر کتابیں ایسی ملتی ہیں جو بدعات وخرافات والے اسلام کے لبادے میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے انہیں عقیدہ خالص اور اتباع سنت سے دور رکھے ہوئے ہیں۔
اس تقریب کی مناسبت سے میں دعا گو ہوں کہ کارکنانِ دار الدعوۃ کواللہ تعالی اس عظیم خدمت پر جزائے خیر دے، (آمین)
آخر میں میں اُن تمام لوگوں کے لئے دعا گو ہوں جو برصغیر ہند وپاک میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

* * * * *
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سوانح حیات امام ابو داود رحمۃاللہ علیہ

سوانح حیات
امام ابو داود رحمۃاللہ علیہ
( ۲۰۲ھ- ۲۷۵ھ)​
نام ونسب: سلیمان نام، ابوداود کنیت، اور نسب یہ ہے: سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیربن شداد بن عمرو بن عمران ازدی سجستانی ۔
ولادت وخاندان: ا مام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش آپ کے اپنے بیان کے مطابق ۲۰۲ ھ ؁ میں ہوئی ، قبیلہ ’’ازد‘‘ سے تعلق کی بناء پر ازدی کہلاتے ہیں ۔
سجستانی نسبت سیستان یا (سجستان)میں سکونت کی وجہ سے ہے، جوسندھ وہرات کے ما بین اور قندھار (افغانستان) کے متصل واقع ہے۔
طلب حدیث کے لئے بلاد اسلامیہ کی سیاحت : آپ نے احادیث کی روایت و تحصیل کے لئے بلاد اسلامیہ کے علمی مقامات کا سفرکیا،جن میں مصر ،شام ، حجاز( مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ )، بغداد، جزیرہ، بصرہ اورخراسان وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
کئی بار بغداد تشریف لے گئے، نیساپور، مرو،اصبہان وغیرہ کے محدثین کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے استفادہ کیا ۔
اساتذہ وشیوخ : آپ کے اساتذہ وشیوخِ حدیث تین سو(۳۰۰)سے زائد ہیں جن میں سے بعض مشاہیر درج ذیل ہیں :
احمد بن حنبل، اسحاق بن راہو یہ،
ابو ثور، یحییٰ بن معین،
ابو بکربن ابی شیبہ،
عثمان بن ابی شیبہ،
سعیدبن منصور،
سلیمان بن حرب،
سلیمان بن عبد الرحمن دمشقی،شجاع بن مخلد، محمد بن بشار بندار بصری ،
محمد بن صباح نزار دولابی ،
محمد بن منھال ،
مسددبن مسرہد،
قعنبی وغیرہ وغیرہ ۔
تلامذہ: امام ابو داود سے بہت سارے علمائے حدیث کو شرف تلمذ حاصل ہے،ان میں سے سنن کے رواۃ مندرجہ ذیل ہیں:
۱- ابوعمرو احمد بن علی بن حسن بصری ۔
۲- ابو علی محمد بن احمد بن عمرو لؤلؤی۔ (م ۳۳۳؁ھ)
۳- ابوالطیب احمد بن ابراہیم اشنانی بغدادی۔
۴- ابو سعید احمد بن محمد بن سعید بن زیاد اعرابی۔ (م ۳۴۰؁ھ)
۵- ابو بکر محمد بن عبد الرزاق بن داسہ۔(م۳۴۶؁ھ)
۶- ابو الحسن علی بن الحسن بن العبدالانصاری۔ (م ۳۲۸؁ھ)
۷- ابو عیسی اسحاق بن موسی بن سعید الرملی الورّاق۔ (م ۳۲۰؁ھ)
۸- ابوا سامہ محمد بن عبد الملک بن یزید الرواس۔
۹- ابو سالم محمد بن سعید الجلودی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آپ کی دوسری کتابوں کے رواۃ میں: ۱۰- ابوعبد اللہ محمد بن احمد بصری، ۱۱- ابوبکر احمد بن سلیمان النجاد، ۱۲-اسماعیل بن محمد الصفار، ۱۳-ابوعبید محمد بن علی الآجری، اور دوسرے مشہور علماء میں آپ کے صاحبزادہ: ۱۴- ابوبکر، ۱۵- ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق الا سفرائینی، ۱۶- حرب بن اسماعیل کرمانی، ۱۷-زکریا الساجی، ۱۸- ابو بکر محمد بن خلال، ۱۹- اور احمد بن یسین ہروی وغیرہ بھی آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں، صحاح ستہ کے مصنفین میں سے: ۲۰- امام ترمذی، ۲۱- اور امام نسائی کوبھی آپ سے تلمذ حاصل ہے ۔
آپ کے شیخ امام احمد نے بھی آپ سے حدیث عتیرہ روایت کی ہے۔
حفظ وضبط: امام صاحب کو حفاظ حدیث میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔
ابو حاتم کا بیان ہے:’’وہ حفظ کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے ‘‘۔(تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵)
محمدبن مخلد فرماتے ہیں: ’’ابو داود ایک لاکھ حدیث کا پورا مذاکرہ کیا کرتے تھے، اور جب آپ نے سنن مرتب کی تو تمام اہل زمانہ نے آپ کے حفظ اورسبقتِ علمی کا اعتراف کیا‘‘۔(تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جمہور علمائے اسلام کو ان کے کمال حفظ کااعتراف ہے‘‘۔
جرح و تعدیل: علل حدیث میں آپ کو ملکہ ٔراسخہ عطاہو اتھا، جیسا کہ ممتاز علماء نے اس فن میں آپ کی مہارت کا اعتراف کیا ہے ۔
آپ کی قوتِ تمییز،اور نقدو نظر پر اساطین فن کا اتفاق ہے ۔
احمد بن محمد بن یسین الہروی فرماتے ہیں: ’’ ابو داود حدیث نبوی ، اور علم و علل اسانید کے حفاظ میں سے ہیں، عبادت پاکدامنی ، صلاح اور ورع وتقوی میں اعلی مرتبہ پر فائز ہیں‘‘(السیر ۱۳؍ ۲۱۱،تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵)
ابوحاتم بن حبان کا ارشادہے: ’’ابو داود فقہ، علم، حفظ، عبادت، ورع وتقوی، اور پختگی ومہارت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک امام تھے،آپ نے احادیث کی جمع وترتیب اور تصنیف وتالیف کا کام کیا، اور سنن کا دفاع کیا‘‘ (السیر ۱۳؍ ۲۱۲، تہذیب التہذیب ۴؍ ۱۷۲)۔
حافظ ابن مندہ کا بیان ہے:’’احادیث کی تخریج، معلول وثابت، اورغلط وصحیح میں تمییز کرنے والے چار آدمی ہیں: بخاری ، مسلم، ان کے بعد ابو داود اورنسائی‘‘۔ ( شروط ابن مندہ ، السیر ۱۳؍ ۲۱۲، تہذیب الکمال ۱۱؍۳۶۵)۔
ورع و تقوی:مسلم بن قاسم آپ کے ورع وتقوی کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آپ ثقہ اور زاہد تھے، حدیث کے ماہر تھے، اپنے وقت کے اس فن کے امام تھے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اور حافظ ابو بکر الخلال فرماتے ہیں : ’’امام ابو داود اپنے عہد کے متفوق امام ہیں، آپ کے زمانہ میں آپ سے بڑھ کر کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جو علوم کی تخریج کی معرفت، ا ورمواضع حدیث کی بصیرت میں آپ سے بڑا ہو،آپ ورع وتقوی میں فائق وبرتر تھے‘‘۔( تہذیب الکمال ۱۱؍ ۳۶۴)
اسی طرح ابو حاتم بن حبان اور احمد بن محمد بن یسین الہروی وغیرہ نے بھی آپ کے ورع وتقوی کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا ہے۔
امام کے ورع وتقویٰ کے لئے یہ مثال ہی کافی ہے کہ آپ اپنی ایک آستین کشادہ اور دوسری تنگ رکھا کرتے تھے، جب آپ سے دریافت کیا گیا تو فرما یا : ’’ایک آستین تو اس لئے کشادہ رکھتا ہوں کہ اس میں اپنی کتاب کے کچھ اجزاء رکھ لوں، اور دوسری کا کشادہ رکھنا غیر ضروری ہے‘‘ ۔ (السیر ۱۳؍ ۲۱۷)
آپ کا یہ فعل ورع وتقوی کے ساتھ احتیاط فی الحدیث یا احتیاط فی الروایت کی بھی غمازی کرتا ہے ۔
فن حدیث میں تبحر و کمال:حدیث میں جلالت علم کا اعتراف کرتے ہوئے امام حاکم فرماتے ہیں:’’ ابو داود اپنے وقت کے اہل حدیث کے بلا مقابلہ امام تھے‘‘۔(السیر ۱۳؍ ۲۱۲)
اور علّان بن عبدالصمد نے یہ رائے قائم کی ہے کہ آپ میدان حدیث کے شہسوار تھے۔( السیر ۱۳؍۲۱۲)
حافظ محمد بن اسحاق الصاغانی، اور ابراہیم الحربی حدیث میں آپ کی مہارت تامہ کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’اُلِين لأبي داود الحديث كما اُلِين لداود الحديد‘‘ یعنی ابو داود کے لئے حدیث ویسے ہی نرم اور آسان بنادی گئی جیسے داود علیہ السلام کے لئے لوہا نرم کر دیا گیا۔ (السیر۱۳؍۲۱۲ و۲۱۳،تہذیب التہذیب ۴؍ ۱۷۲)
موسی بن ہارون فرماتے ہیں کہ ابو داود دنیا میں حدیث کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے اور آخرت میں جنت میں رہنے کے لئے۔ (السیر ۱۳؍۲۱۲)
نیز فرمایا کہ میں نے ابو داود سے افضل آدمی نہیں دیکھا۔ (السیر ۱۳؍ ۲۱۳)
فقہی ذوق وبصیرت: امام ابو داود کو جس طرح حدیث میں امامت کا درجہ ملا ہے اسی طرح آپ کو فقہ واجتہاد میں بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی، فقہی بصیرت اور عمیق نظر رکھنے کے سبب بعض علماء نے تو آپ کو فقہ و اجتہاد میں امام بخاری کے بعد دوسرا درجہ دیا ہے ،اورلکھا ہے کہ امام بخاری کے بعد امام ابواود کا مرتبہ سب سے بلند ہے ، اور پھر جملہ اصحاب تراجم وطبقات نے آپ کے اس وصف کا تذکرہ کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آپ کے اس ذوق او ربصیرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگ سکتاہے کہ آپ نے اپنی کتاب ’’ کتاب السنن ‘‘ کو صرف احکام ومسائل کی جمع وترتیب تک ہی محدود رکھا ۔
امام ابو حاتم آپ کو امام فقہ قراردیتے ہیں۔
امام ابواسحاق شیرازی نے اصحاب صحاح ستہ میں سے صرف امام ابوداود ہی کو طبقاتِ فقہاء میں شمارکیا ہے ،اور یہ امتیاز آپ کو اسی فقہی بصیرت اور فقہی ذوق کی بدولت حاصل ہوا ہے۔
فقہی مذہب: ابواسحاق شیرازی نے امام صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی نسبت حنابلہ کی طرف کردی ہے، نیز طبقات حنابلہ میں آپ کا ذکرہے ، اوربعض نے آپ کو شافعی المذہب لکھ دیا،لیکن یہ محض درسی نسبت ہے،اور یہ غلط فہمی غالبا امام احمدبن حنبل اور امام شافعی کے اکثر وبیشتر مسائل میں موافقت کے سبب ہوئی ہے، نواب صدیق حسن حافظ ابن حزم سے نقل فرماتے ہیں کہ ’’ان اہل علم کے بعد بخاری،مسلم، ابو داود اور نسائی آئے، ان میں سے کسی نے اپنے سے پہلے کے امام کے قول کی تقلید نہیں کی، بلکہ ہر ایک نے تقلید سے منع کیا اور اس پر نکیر کی‘‘۔
حافظ ذہبی آپ کے تبحرعلمی اور فقہ وحدیث میں امامت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ابو داود حدیث اور فنون حدیث میںامامت کے ساتھ کبار فقہاء میں سے ہیں، آپ کی کتاب السنن اس پر دلالت کرتی ہے، آپ اصحاب امام احمد کے منتخب لوگوں میں سے ہیں، امام احمد کے مجلس کی ایک مدت تک پابندی کی، اور اصول وفروع کے دقیق مسائل پر آپ سے سوالات کئے، آپ اتباع سنت اور سنت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے باب میں، اور دشوار گزار کلام ومسائل میں غور وخوض نہ کرنے میں سلف کے مذہب پر تھے۔ (السیر ۱۳؍۲۱۵)
اسی طرح علامہ طاہر الجزائری کے بیان سے بھی امام ابو داود کے کسی دوسرے امام کے مقلد ہو نے کی نفی اور تردید ہو تی ہے، فرماتے ہیں:’’أما البخاري وأبو داود فإمامان في الفقه وكانا من أهل الاجتهاد‘‘ (تو یہ دونوں بخاری اور ابوداود فقہ کے امام ہیں، اور دونوں اہل اجتہاد میں سے ہیں‘‘۔
وفات: امام صاحب کی وفات (۱۶) شوال بروزجمعہ ۲۷۵؁ھ (۷۳)برس کی عمر میں ہوئی،رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ
اولاد: اولاد میں صرف ایک صاحبزادے محدث ابو بکر عبداللہ کا ذکرملتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تصانیف​
ا مام صاحب نے اپنی زندگی دین حنیف کی خدمت میں وقف کررکھی تھی اس سلسلہ میں آپ نے زیادہ ترتصنیف وتالیف کا کام انجام دیا، آپ کی تالیفات میں سے جن کا ہمیں علم ہو سکا ہے وہ درج ذیل ہیں:
۱- « كتاب السنن » (مطبوع)
۲- « المراسيل » (مطبوع): یہ کتاب فقہی ابواب پر مرتب ہے،اس میں چھ سو مرسل روایات کا ذکر ہے، اورامام ابوداود نے اس کو اپنی سنن کا اٹھارہواں جزء بتایا ہے،لیکن الگ سے مطبوع ہے۔
۳- « مسائل أبي داود للإمام أحمد »: یہ بھی فقہی ترتیب پر ہے،علامہ رشید رضا نے اسے سن ۱۳۵۳؁ ھ میں اپنی تحقیق سے شائع فرمایا ۔
۴- « رسالة أبي داود لأهل مكة في وصف سننه » (مطبوع): یہ رسالہ امام موصوف نے اپنی سنن سے متعلق تصنیف فرمایا، جو متعدد بار شائع ہو چکا ہے، ڈاکٹر محمد لطفی الصباغ نے اسے اپنی تحقیق سے ۱۳۹۴؁ھ میں شائع کیا ۔
۵- « الرواة من الإخوة والأخوات »: ڈاکٹر باسم بن فیصل الجوابرہ نے اپنی تحقیق سے اس کو ۱۴۰۸؁ھ میں شائع کیا ۔
۶- « سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود في الجرح والتعديل » : ڈاکٹر محمد علی العمری نے اس کے تیسرے جزء کی اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ میں تحقیق کرکے شائع کیا ، بعد میں چوتھے اور پانچویں جزء کی تحقیق واشاعت کی ،اس کتاب کا پہلا اور دوسرا جزء مفقود ہے۔
۷- « سؤالات أبي داود للإمام أحمد في جرح الرواة وتعديلهم »: ڈاکٹر زیاد محمد منصور نے اسے ۱۴۱۴؁ھ میں تحقیق کر کے شائع کیا۔
۸- « الزهد »: تحقیق ضیاء الحسن السلفی (مطبوع بالدار السلفیہ بمبئی) ۔
۹- « المسائل التي حلف عليها الإمام أحمد »: (تاريخ التراث العربي، تأليف فواد سزكين ۱؍۲۹۵، مخطوط بالمکتبہ الظاہریہ)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آپ کی درج ذیل کتابیں مفقود کے حکم میں ہیں:
۱۰- « الناسخ والمنسوخ »: ( ملاحظہ ہو: سیر اعلام النبلاء للذہبی۱۳؍۲۰۹، تہذیب التہذیب لابن حجر ۴؍۱۷۰، تقریب التہذیب لابن حجر ۷۶)
۱۱- « كتاب القدر »: ( ملاحظہ ہو: سیر اعلام النبلاء للذہبی۱۳؍۲۰۹، تقریب التہذیب لابن حجر ۷۶)
۱۲- « البعث والنشور »: (ملاحظہ ہو :کشف الظنون تالیف حاجی خلیفہ ملا کاتب چلپی۲؍۱۴۰۲)
۱۳- « دلائل النبوة »: ( ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب لابن حجر۴؍۱۷۰، ہدیۃالعارفین تالیف اسماعیل پاشابغدادی ۱؍۳۹۵)
۱۴- « التفرد في السنن »: ( ملاحظہ ہو: تقریب التہذیب لابن حجر ۷۶،ہدیۃالعارفین تالیف اسماعیل پاشابغدادی ۱؍ ۳۹۰)
۱۵- « مسند مالك بن أنس »: (التہذیب ۴؍ ۱۷۰)۔
۱۶- « فضائل الأنصار »: (التقریب ۷۶)۔
۱۷- « أ صحاب الشعبي » : (سوالات الأجری ۱۸۱)۔
۱۸- « كتاب الكنى »: (الاصابۃ لابن حجر۳؍ ۴۳۷)۔
۱۹- « ابتداء الوحي »: ( تہذیب التہذیب ۱؍۶)
۲۰- « أخبار الخوارج »: ( تہذیب التہذیب ۱؍۶)
۲۱- « كتاب الدعاء »: ( تہذیب التہذیب ۱؍۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سنن ابی داود کے مشہور نسخے
امام صاحب سے ’’سنن‘‘ کو روایت کرنے والے یوں تو نو تلامذہ ہیں ، ذیل میں (كما تقدم) چند مشہور نسخوں کا تذکرہ مقصود ہے:
۱- نسخہ لؤلؤی : یہ نسخہ ہندوستان اور بلاد مشرق میں مروج ہے ،او ر’’سنن ابی داود‘‘سے عندالا طلاق یہی مفہوم ہوتا ہے ، لؤلؤی نے امام صاحب سے ۲۷۵؁ھ میں اسے روایت کیا ، اوریہ روایت اصح الروایات مانی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ امام صاحب سے آخری وقت میں املاء کیا گیا،اور اسی پر آپ کا انتقال ہوا، گویا یہ آخری نسخہ ہے۔
۲- نسخہ ابن داسہ: اس میں نسخہ لؤلؤی کے ساتھ قدرے یکسانیت پائی جاتی ہے،محض تقدیم وتاخیرکا اختلاف ہے ، اور یہ نسخہ بلاد مغرب میں زیادہ مشہور ہے ،علامہ خطابی (مولف معالم السنن) کے پاس یہی ابن داسہ کا نسخہ تھا ۔
۳- نسخہ رملی : یہ نسخہ ابو عیسی الرملی نے ۳۱۷؁ھ میں بیان کیا ۔
۴- نسخہ ابن الأعرابی: دوسرے متداول نسخوں کے مقابل میں یہ نسخہ نامکمل ہے ،چنانچہ علامہ خطابی لکھتے ہیں: ابن الاعرابی کی روایت میں کتاب الفتن والملاحم والحروف والخاتم مکمل، اور کتاب اللباس نصف کے قریب ساقط ہے، اسی طرح کتاب الوضو، کتاب الصلاۃ او رکتاب النکاح کے بہت سارے اوراق بھی ان سے فوت ہو گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سنن ابی داود کی شروح ومختصرات
سنن ابی داود کی افادیت کے سبب ہر زمانہ کے علماء نے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے، اور اس کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی توضیح وتشریح اورمختصرات وحواشی لکھنے میں خاص طورپردلچسپی لی ہے،ذیل میںان شروح ومختصرات کاتعارف پیش ہے:
۱- « معالم السنن »: یہ شرح مشہور محدث امام ابوسلیمان احمدبن محمدخطابی (م۳۸۸؁ھ) کی ہے،سب سے متقدم ہے، اسے مطبعہ علمیہ حلب نے ۱۳۵۱؁ھ میںچار جلدوں میںشائع کیا ہے۔
۲- « شرح الإمام النووي » (م۶۷۶ھ) نا تمام (ملاحظہ ہو:المنہاج السوی فی ترجمۃ الامام النووی للسیوطی۷۴) ۔
۳- « شرح الحافظ مسعود بن أحمد بن مسعود الحارثي البغدادي » (م۷۱۱ھ) ابن رجب نے فرمایا کہ موصوف نے سنن ابودادو کے بعض حصوں کی شرح لکھی (الذیل علی طبقا ت الحنابلہ ۲؍۳۶۳)۔
۴- « شرح قطب الدين »: یہ شیخ قطب الدین ابوبکر احمد بن دعین یمنی شافعی (م۷۵۲؁ھ) کی ہے، اور چار مبسوط جلدوں پر مشتمل ہے لیکن نا تمام ہے (کشف الظنون ۲ ؍۱۰۰۵)۔
۵- « شرح الحافظ المغلطائي بن قليج الحنفي » (م ۷۶۲ھ) ناتمام (کشف الظنون ۲ ؍۱۰۰۵)۔
۶- « شرح الحافظ أحمد بن محمد بن إبراهيم المقدسي » ( م۷۶۵ھ) ( الدررالکامنہ لابن حجر ۱؍۲۴۲)۔
۷- « السنن بعجالة العالم » :علامہ خطابی کی معالم کا اختصار ہے، جسے شہاب الدین ابومحمود احمدبن مقدسی (م۷۶۸ھ) نے مرتب کیا، بعض نے اس کا نام عجالۃ العالم من کتاب المعالم ذکر کیا ہے، اور یہ چار جلدوں میں ہے۔
۸- « شرح ابن الملقن » : یہ شیخ سراج الدین عمر بن علی بن ملقن شافعی (م ۸۰۴؁ھ) کی شرح ہے، جو زوائد علی الصحیحین احادیث کی شرح پر مشتمل اور دو جلدوں میں ہے (الضوء اللامع للحافظ السخاوی ۶؍۱۰۲)۔
۹- « شرح الحافظ أبي زرعة العراقي »: یہ شیخ ولی الدین بن ابی زرعۃ العراقی (م ۸۲۶؁ ھ) کی شرح ہے، لیکن ناتمام ہے (الضوء اللامع للحافظ السخاوی ۶؍۱۰۲)۔
اس کی معلومات اور افادیت کا اندازہ اس سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ یہ ابتداء سے سجدہ سہو تک سات جلدوں میں ہے، اورایک جلدمیں صیام، حج اور جہاد وغیرہ ابواب کی شرح ہے، اور اگر یہ شرح مکمل ہوجاتی تو چالیس جلدوں پر مشتمل ہوتی ۔
۱۰- « شرح المحدث ابن رسلان الشافعي » : یہ احمد بن حسین بن رسلان الشافعی (م۸۴۴؁ھ) کی مبسوط اورمفصل شرح ہے، اس کی تحقیق کلیۃ اصول الدین،جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ کے طلبہ نے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالہ کے لئے کی ہے، جن میں ڈاکٹرسہیل حسن عبدالغفار استاذحدیث انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد بھی ہیں (اور زیر نظر ترجمہ میں سنن ا بو داود سے متعلق معلومات موصوف کے مقدمۂ تحقیق سے مأخوذ ہے )، انہیں محققین فضلاء میں ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العمیر، اور ڈاکٹر محمد الخضیر ہیں، جنہوں نے اس کتاب کی تحقیق وتخریج اور دراسہ کا کام کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۱۱- « شرح الحافظ محمود بن أحمد العيني » (م ۸۵۵؁ ھ) (تاریخ التراث العربی فواد سزکین ۱؍۳۸۴)۔
۱۲- « مرقاة الصعود إلى سنن أبي داود » : تالیف علامہ جلال الدین سیوطی (م ۹۱۱ھ) یہ مختصر شرح ہے (مطبوع)۔
۱۳- « شرح ابن عبدالهادي السندي » : یہ شرح ابو الحسن محمد بن عبدالہادی السندی (م ۱۱۳۸؁ ھ) کی ہے، جس کا نام ’’فتح الودود علی سنن ابی داود‘‘ ہے، (تاریخ التراث العربی فؤاد سزکین ۱؍۳۸۴)۔
۱۴- « شرح ابن بهاء الدين المرجاني » (م۱۳۰۶؁ ھ) اس کا نام ’’عون الودود علی سنن ابی داود‘‘ ہے، (الاعلام ۳؍۱۷۸ و معجم المؤلفین ۴؍۴۹)۔
۱۵- « غاية المقصود في شرح سنن أبي داود » : تالیف علامہ شمس الحق عظیم آبادی (م۱۳۲۳؁ھ) اس کی پہلی جلد ۱۳۰۴؁ھ میںطبع ہوئی تھی، دوبارہ ۱۴۱۴؁ھ میں حدیث اکادمی فیصل آباد ودار الطحاوی ریاض سے تین جلدوں میں شائع ہوئی، جس میں آخری حدیث (۳۹۷) نمبر کی ہے، اور اس سے آگے کا مسود ہ اب تک مفقود ہے۔
۱۶- « عون المعبود » : تالیف علامہ شمس الحق العظیم آبادی: یہ چارضخیم جلدوں میں دہلی سے ۱۳۲۳؁ھ میں طبع ہوئی تھی، بیروت اور پاکستان سے اس کے فوٹو شائع ہورہے تھے، نئے ٹائپ میں اس وقت مطبوع اور اہل علم کے یہاں رائج ہے۔
۱۷- « بذل المجهود في حل سنن أبي داود » : تالیف محدث خلیل بن احمد السہارنفوری(م ۱۳۴۶؁ھ) (طبعۃ مصورۃ عن الطبعۃالہندیۃ دار الکتب العلمیۃ فی بیروت)۔
۱۸- « المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود » : تالیف شیخ محمود بن محمد خطاب السبکی م۱۳۵۲؁ھ یہ نا مکمل تھی،لیکن بعد میں ان کے بیٹے امین السبکی نے مکمل کیا اور اس کا نام ’’فتح الملک المعبود تکملۃ المنہل العذب المورود‘‘رکھا، اور یہ بھی نا تمام ہے، (یہ کتاب ۱۳۵۱؁ھ میں دس حصوں میں طبع ہوئی )۔
۱۹- « عون الودود على سنن أبي داود » : تالیف شیح محمد بن نور الدین الہزاروی (م ۱۳۶۶؁ھ) یہ ۱۳۱۸؁ھ لکھنؤ میں طبع ہوئی، (جہود مخلصۃ فی خدمۃ السنۃ المطہرۃ ص ۲۱۶ )۔
۲۰- « الدر المنضود شرح سنن أبي داود »: تالیف شیخ محمد یاسین الفادانی (م ۱۳۱۰؁ھ) یہ بیس جلدوں میں مخطوطۃ کی شکل میں موجود ہے (الامام ابو دادو السجستانی للشیخ صالح البراک ص ۷۳)۔
 
Top