80-بَاب الْعُمْرَةِ
۸۰-باب: عمرے کا بیان
1986- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، وَيَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۲ (۱۷۷۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۳۴۵) (صحیح)
۱۹۸۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے عمرہ کیا۔
1987- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيّ،ِ عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَعْمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَائِشَةَ فِي ذِي الْحِجَّةِ إِلا لِيَقْطَعَ بِذَلِكَ أَمْرَ أَهْلِ الشِّرْكِ؛ فَإِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ قُرَيْشٍ وَمَنْ دَانَ دِينَهُمْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِذَا عَفَا الْوَبَرْ، وَبَرَأَ الدَّبَرْ وَدَخَلَ صَفَرْ، فَقَدْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَكَانُوا يُحَرِّمُونَ الْعُمْرَةَ حَتَّى يَنْسَلِخَ ذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۵۷۲۲)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۴)، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۲)، م/الحج ۳۱ (۱۲۴۰)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۶)، ۱۰۸ (۲۸۷۰)، حم (۱/۲۵۲، ۲۶۱) (حسن)
۱۹۸۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ذی الحجہ میں عمرہ صرف اس لئے کرایا کہ مشرکین کا خیال ختم ہو جائے اس لئے کہ قریش کے لوگ نیز وہ لوگ جو ان کے دین پر چلتے تھے، کہتے تھے: جب اونٹ کے بال بڑھ جائیں اور پیٹھ کا زخم ٹھیک ہو جائے اور صفر کا مہینہ آجائے تو عمرہ کرنے والے کا عمرہ درست ہو گیا، چنانچہ وہ ذی الحجہ اور محرم ( اشہرحرم) کے ختم ہو نے تک عمرہ کرنا حرام سمجھتے تھے۔
1988- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَخْبَرَنِي رَسُولُ مَرْوَانَ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَى أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ: كَانَ أَبُو مَعْقَلٍ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَتْ أُمُّ مَعْقَلٍ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ عَلَيَّ حَجَّةً فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ حَتَّى دَخَلا عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ عَلَيَّ حَجَّةً، وَإِنَّ لأَبِي مَعْقَلٍ بَكْرًا، قَالَ أَبُو مَعْقَلٍ: صَدَقَتْ جَعَلْتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ > فَأَعْطَاهَا الْبَكْرَ، فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي امْرَأَةٌ قَدْ كَبِرْتُ وَسَقِمْتُ فَهَلْ مِنْ عَمَلٍ يُجْزِءُ عَنِّي مِنْ حَجَّتِي؟ قَالَ: < عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تُجْزِءُ حَجَّةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۹)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۹۵ (۹۳۹)، ن/ الکبری/ الحج (۴۲۲۷)، ق/المناسک ۴۵ (۲۹۹۳)، حم (۶/۴۰۵، ۴۰۶) (حسن)
(اس کے راوی’’ابراہیم‘‘حافظہ کے کمزور ہیں مگر حدیث نمبر (۱۹۹۰) سے اس کو تقویت مل رہی ہے، نیز رمضان میں عمرہ کے ثواب سے متعلق جملہ کے شواہد صحیحین میں بھی ہیں، ہاں عورت کا قول
’’إني امرأة ... من حجتي؟‘‘ صحیح نہیں ہے)
۱۹۸۸- ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے مر وان کے قاصد (جسے ام معقل رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا گیا تھا) نے خبر دی ہے کہ ام معقل کا بیان ہے کہ ابو معقل رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کو نکلنے والے تھے جب وہ آئے تو ام معقل رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: آپ کو معلوم ہے کہ مجھ پر حج واجب ۱؎ ہے، چناچہ دونوں ( ام معقل اور ابو معقل رضی اللہ عنہما ) چلے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ام معقل نے کہا: اللہ کے رسول! ابو معقل کے پاس ایک اونٹ ہے اور مجھ پر حج واجب ہے؟! ابو معقل نے کہا: یہ سچ کہتی ہے، میں نے اس اونٹ کو اللہ کی راہ میں دے دیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’یہ اونٹ اسے دے دو کہ وہ اس پر سوار ہوکر حج کر لے، یہ بھی اللہ کی راہ ہی میں ہے‘‘ ، ابومعقل نے ام معقل کو اونٹ دے دیا ،پھر وہ کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں عمر رسیدہ اور بیمار عورت ہوں ۲؎ کوئی ایسا کام ہے جو حج کی جگہ میرے لئے کافی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنا (میرے ساتھ) حج کرنے کی جگہ میں کافی ہے‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا لیکن میرے لئے رسول اللہ ﷺ کی معیت مقدر نہیں تھی اور میں نہیں جا سکی۔
وضاحت ۲؎ : اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ میں حج کب کرسکوں گی۔
وضاحت ۳؎ : یعنی رمضان میں عمرہ کا ثواب میرے ساتھ حج کے ثواب کے برابر ہے
1989- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عِيسَى بْنِ مَعْقَلِ بْنِ أُمِّ مَعْقَلٍ الأَسَدِيِّ أَسَدِ خُزَيْمَةَ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ: لَمَّا حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ، فَجَعَلَهُ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَصَابَنَا مَرَضٌ، وَهَلَكَ أَبُومَعْقِلٍ، وَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ حَجِّهِ جِئْتُهُ فَقَالَ: < يَا أُمَّ مَعْقِلٍ، مَا مَنَعَكِ أَنْ تَخْرُجِي مَعَنَا؟ > قَالَتْ: لَقَدْ تَهَيَّأْنَا فَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ، وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ هُوَ الَّذِي نَحُجُّ عَلَيْهِ، فَأَوْصَى بِهِ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: < فَهَلا خَرَجْتِ عَلَيْهِ فَإِنَّ الْحَجَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَمَّا إِذْ فَاتَتْكِ هَذِهِ الْحَجَّةُ مَعَنَا فَاعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهَا كَحَجَّةٍ > فَكَانَتْ تَقُولُ: الْحَجُّ حَجَّةٌ، وَالْعُمْرَةُ عُمْرَةٌ، وَقَدْ قَالَ هَذَا لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَا أَدْرِي أَلِيَ خَاصَّةً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۵۷، ۱۸۳۶۱) (صحیح لغیرہ)
(اس کے راوی’’محمد بن اسحاق‘‘مدلس ہیں اور روایت
’’عنعنہ‘‘ سے، نیز’’عیسیٰ‘‘لین الحدیث ہیں، لیکن’’رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے‘‘کے ٹکڑے کے شواہد صحیحین اور دیگر مصادر میں ہیں ، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، ہاں: آخری ٹکڑا :
’’فكانت تقول إلخ‘‘ کا شاہد نہیں ہے، اس لئے ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۶؍ ۲۳۰)
۱۹۸۹- ام معقل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کیا تو ہمارے پاس ایک اونٹ تھا لیکن ابومعقل رضی اللہ عنہ نے اسے اللہ کی راہ میں دے دیا تھا ہم بیمار پڑگئے، اور ابو معقل رضی اللہ عنہ چل بسے ، نبی اکرم ﷺ حج کو تشریف لے گئے، جب اپنے حج سے واپس ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ام معقل! کس چیز نے تمہیں ہمارے ساتھ ( حج کے لئے ) نکلنے سے روک دیا؟ ‘‘، وہ بولیں : ہم نے تیاری تو کی تھی لیکن اتنے میں ابومعقل کی وفات ہوگئی، ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر ہم حج کیا کرتے تھے ، ابو معقل رضی اللہ عنہ نے اسے اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسی اونٹ پر سوار ہوکر کیوں نہیں نکلیں؟ حج بھی تو اللہ کی راہ میں ہے ، لیکن اب تو ہمارے ساتھ تمہارا حج جاتا رہا تم رمضان میں عمرہ کر لو ، اس لئے کہ یہ بھی حج کی طرح ہے‘‘، ام معقل رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں حج حج ہے اور عمرہ عمرہ ۱؎ ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہی فرمایا اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ حکم میرے لئے خا ص تھا (یا سب کے لئے ہے)۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دونوں ایک مرتبہ میں نہیں ہے۔
1990- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَحَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ عَامِرٍ الأَحْوَلِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْحَجَّ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ لِزَوْجِهَا، أَحِجَّنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (عَلَى جَمَلِكَ)، فَقَالَ: مَا عِنْدِي مَا أُحِجُّكِ عَلَيْهِ، قَالَتْ: أَحِجَّنِي عَلَى جَمَلِكَ فُلانٍ، قَالَ: ذَاكَ حَبِيسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي تَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، وَإِنَّهَا سَأَلَتْنِي الْحَجَّ مَعَكَ، قَالَتْ: أَحِجَّنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقُلْتُ: مَا عِنْدِي مَا أُحِجُّكِ عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَحِجَّنِي عَلَى جَمَلِكَ فُلانٍ، فَقُلْتُ ذَاكَ حَبِيسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ: < أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَحْجَجْتَهَا عَلَيْهِ كَانَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ > قَالَ: وَإِنَّهَا أَمَرَتْنِي أَنْ أَسْأَلَكَ مَا يَعْدِلُ حَجَّةً مَعَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَقْرِئْهَا السَّلامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ وَبَرَكَاتِهِ، وَأَخْبِرْهَا أَنَّهَا تَعْدِلُ حَجَّةً مَعِي > يَعْنِي عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود ( تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۴)، وقد أخرجہ: (خ/العمرۃ ۴(۱۷۸۲)، م/الحج ۳۶ (۲۲۱) بدون ذکر : ’’أن الحج في سبیل اللہ‘‘۔ (حسن صحیح)
۱۹۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا ارادہ کیا، ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا: مجھے بھی اپنے اونٹ پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرائیں، انہوں نے کہا: میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کرائوں، وہ کہنے لگی: مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کرائو، تو انہوں نے کہا: وہ اونٹ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میری بیوی آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے آپ کے ساتھ حج کرنے کی مجھ سے خواہش کی ہے، اور کہا ہے : مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرائیں، میں نے اس سے کہا: میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کرائوں ،اس نے کہا: مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کرائیں، میں نے اس سے کہا: وہ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سنو اگر تم اسے اس اونٹ پر حج کرا دیتے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں ہوتا‘‘۔
اس نے کہا: اس نے مجھے یہ بھی آپ سے دریافت کرنے کے لئے کہا ہے کہ کون سی چیز آپ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے سلام کہو اور بتائو کہ رمضان میں عمرہ کرلینا میرے ساتھ حج کرلینے کے برابر ہے‘‘۔
1991- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اعْتَمَرَ عُمْرَتَيْنِ: عُمْرَةً فِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَعُمْرَةً فِي شَوَّالٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۹) (صحیح)
۱۹۹۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو عمرے کئے : ایک ذی قعدہ میں اور دوسرا شوال میں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کے عمرے کی مجموعی تعداد کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ایک سال کے اندر آپ ﷺ نے دوعمرے کئے : ایک ذی قعدہ میں اور ایک شوال میں، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ایک سال کے اندر دوعمرہ نبی اکرم ﷺ نے کبھی نہیں کیا ہے، اور حج کے ساتھ والے عمرے کوچھوڑ کر آپ ﷺ کے سارے عمرے ذی قعدہ میں ہوئے ہیں، پھر امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا
’’عمرۃ فی شوّال‘‘ کہنا ان کا وہم ہے، اور اگر اسے محفوظ مان لیا جائے تواس کی تاویل یہ ہوگی اس عمرہ سے مراد عمرۂ جعرّانہ ہے جو اگرچہ ذی قعدہ ہی میں ہوا ہے، لیکن مکہ سے حنین کے لئے آپ شوّال ہی میں نکلے تھے، اور واپسی پر جعرانہ سے احرام باندھ کر یہ عمرہ کیا تھا تو نکلنے کا لحاظ کرکے انہوں نے اس کی نسبت شوّال کی طرف کردی ہے۔
1992- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ: كَمِ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ؟ فَقَالَ: مَرَّتَيْنِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدِ اعْتَمَرَ ثَلاثًا سِوَى الَّتِي قَرَنَهَا بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۴، ۱۷۵۷۴) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ابواسحاق‘‘مدلس ہیں اور
’’عنعنہ‘‘ سے روایت ہے، مگر اس میں مذکور عمروں کی تعداد صحیح ہے)
۱۹۹۲- مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے عمرے کئے؟ انہوں نے جواب دیا: دو بار ۱؎، اس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمرے کے علاوہ جو آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ ملایا تھا تین عمرے کئے ہیں۔
وضاحت ۱ ؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرۂ حدیبیہ کواور اسی طرح حج کے ساتھ والے عمرہ کو شمار نہیں کیا۔
1993- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ وَقُتَيْبَةُ، قَالا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالثَّانِيَةَ حِينَ تَوَاطَئُوا عَلَى عُمْرَةٍ (مِنْ) قَابِلٍ، وَالثَّالِثَةَ مِنَ الْجِعْرَانَةِ، وَالرَّابِعَةَ الَّتِي قَرَنَ مَعَ حَجَّتِهِ۔
* تخريج: ت/الحج ۷ (۸۱۶)، ق/المناسک ۵۰ (۳۰۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۶، ۳۲۱)، دي/المناسک ۳۹ (۱۹۰۰) (صحیح)
۱۹۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے: ایک عمرہ حدیبیہ کا، دوسرا وہ عمرہ جسے آئندہ سال کرنے پر اتفاق کیا تھا، تیسرا عمرہ جعرانہ ۱؎ کا، اور چوتھا وہ جسے آپ ﷺ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا تھا۔
وضاحت ۱؎ :
’’جعرانة‘‘: طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے، نبی اکرم ﷺ نے غزوئہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔
1994- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَهُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ كُلَّهُنَّ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، إِلا الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ .
قَالَ أَبودَاود: أَتْقَنْتُ مِنْ هَا هُنَا مِنْ هُدْبَةَ، وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي الْوَلِيدِ وَلَمْ أَضْبِطْهُ: (عُمْرَةً) زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، أَوْ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَعُمْرَةً مِنَ الْجِعْرَانَةِ، حَيْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَعُمْرَةً مَعَ حَجَّتِهِ۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۳ (۱۷۷۸)، م/الحج ۳۵ (۱۲۵۳)، ت/الحج ۶ (۸۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۵۶)، دي/المناسک ۳ (۱۸۲۸) (صحیح)
۱۹۹۴- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمر ے کئے اور وہ تما م ذی قعدہ میں تھے سوائے اس کے جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا تھا۔
ابو داود کہتے ہیں:یہاں سے آگے کے الفاظ میں نے ابوالولید سے بھی سنے لیکن انہیں یاد نہیں رکھ سکا، البتہ ہدبہ کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں کہ: ایک حدیبیہ کے زمانے کا، یا حدیبیہ کا عمرہ ، دوسرا ذی قعدہ میں قضا کا عمرہ ، تیسرا عمرہ ذی قعدہ میں جعرانہ کا جب آپ ﷺ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایا، اور چوتھا وہ عمرہ جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا۔