- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
64- بَاب الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ
۶۴-باب: عرفات سے لوٹنے کا بیان
1920- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ (ح) وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الأَعْمَشُ، الْمَعْنَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عَرَفَةَ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ وَرَدِيفُهُ أُسَامَةُ، وَقَالَ: < أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِإِيجَافِ الْخَيْلِ وَالإِبِلِ >، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُهَا رَافِعَةً يَدَيْهَا، عَادِيَةً، حَتَّى أَتَى جَمْعًا، زَادَ وَهْبٌ: ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ، وَقَالَ: < أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِإِيجَافِ الْخَيْلِ وَالإِبِلِ فَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ>، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُهَا رَافِعَةً يَدَيْهَا حَتَّى أَتَى مِنًى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف:۶۴۷۰)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۲۲ (۱۵۴۴)، م/الحج ۴۵ (۱۲۸۲)، ت/الحج ۷۸ (۹۱۸)، ن/الحج ۲۰۴ (۳۰۲۲)، حم (۱/۲۳۵، ۲۵۱، ۲۶۹، ۲۷۷، ۳۲۶، ۳۵۳، ۳۷۱) (صحیح)
۱۹۲۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، آپ پر اطمینان اور سکینت طاری تھی، آپ ﷺ کے ردیف اسامہ رضی اللہ عنہ تھے، آپ نے فرمایا: ’’لوگو! اطمینان و سکینت کو لازم پکڑو اس لئے کہ گھو ڑوں اور اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے‘‘۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:میں نے انہیں ( گھوڑوں اور اونٹوں کو) ہاتھ اٹھائے دوڑتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ جمع (مز دلفہ ) آئے، (وہب کی روایت میں اتنا زیادہ ہے): پھر آپ ﷺ نے اپنے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو بٹھایا اور فرمایا: ’’لوگو! گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانا نیکی نہیں ہے تم اطمینان اور سکینت کو لازم پکڑو‘‘۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھرمیں نے کسی اونٹ اور گھوڑے کو اپنے ہاتھ اٹھائے ( دو ڑتے) نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ منیٰ آئے۔
1921- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّهُ سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي كَيْفَ فَعَلْتُمْ، أَوْ صَنَعْتُمْ، عَشِيَّةَ رَدِفْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ النَّاسُ فِيهِ لِلْمُعَرَّسِ، فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَاقَتَهُ، ثُمَّ بَالَ، وَمَا قَالَ (زُهَيْرٌ): أَهْرَاقَ الْمَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وُضُوئًا لَيْسَ بِالْبَالِغِ جِدًّا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الصَّلاةُ، قَالَ: < الصَّلاةُ أَمَامَكَ >، قَالَ: فَرَكِبَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمُزْدَلِفَةَ، فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ النَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ، وَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ وَصَلَّى، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ زَادَ مُحَمَّدٌ فِي حَدِيثِهِ قَالَ : قُلْتُ : كَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ؟ قَالَ رَدِفَهُ الْفَضْلُ وَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ ۔
* تخريج: ن/ الحج ۲۰۷ (۳۰۳۳)، ق/المناسک ۵۹ (۳۰۱۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۶)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۳۵ (۱۳۹)، والحج ۹۵ (۱۶۶۶)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۰)، ت/الحج ۵۴ (۸۸۵)، ط/الحج ۶۵ (۱۹۷)، حم (۵/۲۰۰، ۲۰۲، ۲۰۸،۲۱۰)، دي/المناسک ۵۱ (۱۹۲۲) (صحیح)
۱۹۲۱- کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جس شام کو آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار ہو کر آئے تھے آپ نے کیا کیا کیا؟ وہ بولے: ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ اپنے اونٹ رات کوقیام کے لئے بٹھاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنی اونٹنی بیٹھا دی ، پھر پیشاب کیا، (زہیر نے یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا) پھر آپ ﷺ نے وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، جس میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! صلاۃ ،(پڑھی جائے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’صلاۃ آگے چل کر (پڑھیں گے) ‘‘۔
اسامہ کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آئے، وہاں آپ نے مغرب پڑھی پھر لوگوں نے اپنی سواریاں اپنے ٹھکانوں پر بٹھائیں یہاں تک کہ عشاء کی اقامت ہوئی ،آپ ﷺ نے عشاء پڑھی، پھر لوگوں نے اونٹوں سے اپنے بوجھ اتارے، (محمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ کریب کہتے ہیں) پھر میں نے پوچھا: صبح ہوئی تو آپ لوگوں نے کیسے کیا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سوار ہوئے ، اور میں پیدل قریش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چلا۔
1922- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: (ثُمَّ) أَرْدَفَ أُسَامَةَ، فَجَعَلَ يُعْنِقُ عَلَى نَاقَتِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ الإِبِلَ يَمِينًا وَشِمَالا، لا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ: < السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ > وَدَفَعَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ۔
* تخريج: ت/الحج ۵۵۴ (۸۸۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۷۲، ۷۵، ۷۶، ۸۱) (حسن )
(مگر ’’لا یلتفت‘‘ کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح لفظ ’’یلتفت‘‘ ہے جیسا کہ ترمذی میں ہے)
۱۹۲۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر(ارکان عرفات سے فراغت کے بعد) آپ ﷺ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے سوار کرلیا اور درمیانی چال سے اونٹ ہانکنے لگے ، لوگ دائیں اور بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے آپ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے :’’لوگو! اطمینان سے چلو‘‘، اورآپ ﷺ عرفات سے اس وقت لوٹے جب سورج ڈوب گیا۔
1923- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَأَنَا جَالِسٌ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسِيرُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حِينَ دَفَعَ؟ قَالَ: كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ -قَالَ هِشَامٌ: النَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ۔
* تخريج: خ/الحج ۹۳ (۱۶۶۶)، والجہاد ۱۳۶ (۲۹۹۹)، والمغازي ۷۷ (۴۴۱۳)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۶)، ن/الحج ۲۰۵ (۳۰۲۶)، ۲۱۴ (۳۰۵۴)، ق/المناسک ۵۸ (۳۰۱۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۴)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۵۷(۱۷۶)، حم (۵/۲۰۵، ۲۱۰)، دي/المناسک ۵۱ (۱۹۲۲) (صحیح)
۱۹۲۳- عروہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا: رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں عرفات سے لوٹتے وقت کیسے چلتے تھے ؟ فرمایا: تیز چال چلتے تھے، اور جب راستہ پا جاتے تو دوڑتے۔
ہشام کہتے ہیں:نص عنق سے بھی زیادہ تیز چال کوکہتے ہیں۔
1924- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ (مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ)، عَنْ أُسَامَةَ قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ ﷺ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الشَّمْسُ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۷) (حسن صحیح)
۱۹۲۴- اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر تھا جب سورج ڈوب گیا تو آپ ﷺ عرفات سے لوٹے۔
1925- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عَرَفَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ فَتَوَضَّأَ وَلَمْ يُسْبِغِ الْوُضُوءَ، قُلْتُ لَهُ: الصَّلاةُ، فَقَالَ: < الصَّلاةُ أَمَامَكَ >، فَرَكِبَ فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الْعِشَاءُ فَصَلاهَا، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا۔
* تخريج: خ/الوضوء ۳۵ (۱۳۹)، والحج ۹۵ (۱۶۶۶)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۰)، ن/ الحج ۲۰۶ (۳۰۲۷، ۳۰۲۸)، ت/الحج ۵۴ (۸۸۵) ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۹۹، ۲۰۸، ۲۱۰) (صحیح)
۱۹۲۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کی روایت ہے کہ انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لو ٹے جب گھاٹی میں آئے تو اُترے، پیشاب کیا اور وضو کیا لیکن بھر پور وضو نہیں کیا ، میں نے آپ سے عرض کیا: صلاۃ( کا وقت ہو گیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’صلاۃ آگے چل کر پڑھیں گے‘‘، پھرآپ سوار ہوئے جب مزدلفہ پہنچے تو اترے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا، پھر صلاۃ کی تکبیر کہی گئی تو آپ ﷺ نے مغرب پڑھی پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنے قیام گاہ میں بٹھایا پھرعشاء کی اقامت ہوئی تو آپ نے عشاء پڑھی اور درمیان میں کچھ نہیں پڑھا۔