• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
64- بَاب الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ
۶۴-باب: عرفات سے لوٹنے کا بیان​


1920- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ (ح) وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الأَعْمَشُ، الْمَعْنَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عَرَفَةَ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ وَرَدِيفُهُ أُسَامَةُ، وَقَالَ: < أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِإِيجَافِ الْخَيْلِ وَالإِبِلِ >، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُهَا رَافِعَةً يَدَيْهَا، عَادِيَةً، حَتَّى أَتَى جَمْعًا، زَادَ وَهْبٌ: ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ، وَقَالَ: < أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِإِيجَافِ الْخَيْلِ وَالإِبِلِ فَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ>، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُهَا رَافِعَةً يَدَيْهَا حَتَّى أَتَى مِنًى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف:۶۴۷۰)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۲۲ (۱۵۴۴)، م/الحج ۴۵ (۱۲۸۲)، ت/الحج ۷۸ (۹۱۸)، ن/الحج ۲۰۴ (۳۰۲۲)، حم (۱/۲۳۵، ۲۵۱، ۲۶۹، ۲۷۷، ۳۲۶، ۳۵۳، ۳۷۱) (صحیح)
۱۹۲۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، آپ پر اطمینان اور سکینت طاری تھی، آپ ﷺ کے ردیف اسامہ رضی اللہ عنہ تھے، آپ نے فرمایا: ’’لوگو! اطمینان و سکینت کو لازم پکڑو اس لئے کہ گھو ڑوں اور اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے‘‘۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:میں نے انہیں ( گھوڑوں اور اونٹوں کو) ہاتھ اٹھائے دوڑتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ جمع (مز دلفہ ) آئے، (وہب کی روایت میں اتنا زیادہ ہے): پھر آپ ﷺ نے اپنے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو بٹھایا اور فرمایا: ’’لوگو! گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانا نیکی نہیں ہے تم اطمینان اور سکینت کو لازم پکڑو‘‘۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھرمیں نے کسی اونٹ اور گھوڑے کو اپنے ہاتھ اٹھائے ( دو ڑتے) نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ منیٰ آئے۔


1921- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّهُ سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي كَيْفَ فَعَلْتُمْ، أَوْ صَنَعْتُمْ، عَشِيَّةَ رَدِفْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ النَّاسُ فِيهِ لِلْمُعَرَّسِ، فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَاقَتَهُ، ثُمَّ بَالَ، وَمَا قَالَ (زُهَيْرٌ): أَهْرَاقَ الْمَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وُضُوئًا لَيْسَ بِالْبَالِغِ جِدًّا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الصَّلاةُ، قَالَ: < الصَّلاةُ أَمَامَكَ >، قَالَ: فَرَكِبَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمُزْدَلِفَةَ، فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ النَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ، وَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ وَصَلَّى، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ زَادَ مُحَمَّدٌ فِي حَدِيثِهِ قَالَ : قُلْتُ : كَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ؟ قَالَ رَدِفَهُ الْفَضْلُ وَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ ۔
* تخريج: ن/ الحج ۲۰۷ (۳۰۳۳)، ق/المناسک ۵۹ (۳۰۱۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۶)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۳۵ (۱۳۹)، والحج ۹۵ (۱۶۶۶)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۰)، ت/الحج ۵۴ (۸۸۵)، ط/الحج ۶۵ (۱۹۷)، حم (۵/۲۰۰، ۲۰۲، ۲۰۸،۲۱۰)، دي/المناسک ۵۱ (۱۹۲۲) (صحیح)
۱۹۲۱- کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جس شام کو آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار ہو کر آئے تھے آپ نے کیا کیا کیا؟ وہ بولے: ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ اپنے اونٹ رات کوقیام کے لئے بٹھاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنی اونٹنی بیٹھا دی ، پھر پیشاب کیا، (زہیر نے یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا) پھر آپ ﷺ نے وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، جس میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! صلاۃ ،(پڑھی جائے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’صلاۃ آگے چل کر (پڑھیں گے) ‘‘۔
اسامہ کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آئے، وہاں آپ نے مغرب پڑھی پھر لوگوں نے اپنی سواریاں اپنے ٹھکانوں پر بٹھائیں یہاں تک کہ عشاء کی اقامت ہوئی ،آپ ﷺ نے عشاء پڑھی، پھر لوگوں نے اونٹوں سے اپنے بوجھ اتارے، (محمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ کریب کہتے ہیں) پھر میں نے پوچھا: صبح ہوئی تو آپ لوگوں نے کیسے کیا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سوار ہوئے ، اور میں پیدل قریش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چلا۔


1922- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: (ثُمَّ) أَرْدَفَ أُسَامَةَ، فَجَعَلَ يُعْنِقُ عَلَى نَاقَتِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ الإِبِلَ يَمِينًا وَشِمَالا، لا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ: < السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ > وَدَفَعَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ۔
* تخريج: ت/الحج ۵۵۴ (۸۸۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۷۲، ۷۵، ۷۶، ۸۱) (حسن )
(مگر ’’لا یلتفت‘‘ کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح لفظ ’’یلتفت‘‘ ہے جیسا کہ ترمذی میں ہے)
۱۹۲۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر(ارکان عرفات سے فراغت کے بعد) آپ ﷺ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے سوار کرلیا اور درمیانی چال سے اونٹ ہانکنے لگے ، لوگ دائیں اور بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے آپ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے :’’لوگو! اطمینان سے چلو‘‘، اورآپ ﷺ عرفات سے اس وقت لوٹے جب سورج ڈوب گیا۔


1923- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَأَنَا جَالِسٌ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسِيرُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حِينَ دَفَعَ؟ قَالَ: كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ -قَالَ هِشَامٌ: النَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ۔
* تخريج: خ/الحج ۹۳ (۱۶۶۶)، والجہاد ۱۳۶ (۲۹۹۹)، والمغازي ۷۷ (۴۴۱۳)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۶)، ن/الحج ۲۰۵ (۳۰۲۶)، ۲۱۴ (۳۰۵۴)، ق/المناسک ۵۸ (۳۰۱۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۴)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۵۷(۱۷۶)، حم (۵/۲۰۵، ۲۱۰)، دي/المناسک ۵۱ (۱۹۲۲) (صحیح)
۱۹۲۳- عروہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا: رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں عرفات سے لوٹتے وقت کیسے چلتے تھے ؟ فرمایا: تیز چال چلتے تھے، اور جب راستہ پا جاتے تو دوڑتے۔
ہشام کہتے ہیں:نص عنق سے بھی زیادہ تیز چال کوکہتے ہیں۔


1924- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ (مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ)، عَنْ أُسَامَةَ قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ ﷺ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الشَّمْسُ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۷) (حسن صحیح)
۱۹۲۴- اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر تھا جب سورج ڈوب گیا تو آپ ﷺ عرفات سے لوٹے۔


1925- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عَرَفَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ فَتَوَضَّأَ وَلَمْ يُسْبِغِ الْوُضُوءَ، قُلْتُ لَهُ: الصَّلاةُ، فَقَالَ: < الصَّلاةُ أَمَامَكَ >، فَرَكِبَ فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الْعِشَاءُ فَصَلاهَا، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا۔
* تخريج: خ/الوضوء ۳۵ (۱۳۹)، والحج ۹۵ (۱۶۶۶)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۰)، ن/ الحج ۲۰۶ (۳۰۲۷، ۳۰۲۸)، ت/الحج ۵۴ (۸۸۵) ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۹۹، ۲۰۸، ۲۱۰) (صحیح)
۱۹۲۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کی روایت ہے کہ انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لو ٹے جب گھاٹی میں آئے تو اُترے، پیشاب کیا اور وضو کیا لیکن بھر پور وضو نہیں کیا ، میں نے آپ سے عرض کیا: صلاۃ( کا وقت ہو گیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’صلاۃ آگے چل کر پڑھیں گے‘‘، پھرآپ سوار ہوئے جب مزدلفہ پہنچے تو اترے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا، پھر صلاۃ کی تکبیر کہی گئی تو آپ ﷺ نے مغرب پڑھی پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنے قیام گاہ میں بٹھایا پھرعشاء کی اقامت ہوئی تو آپ نے عشاء پڑھی اور درمیان میں کچھ نہیں پڑھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
65- بَاب الصَّلاةِ بِجَمْعٍ
۶۵-باب: مزدلفہ میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​

1926- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، بِالْمُزْدَلِفَةِ جَمِيعًا۔​
* تخريج: م/الحج ۴۷ (۷۰۳)، ن/ الصلاۃ ۱۸ (۴۸۲)، ۲۰ (۴۸۴، ۴۸۵)، ن/ الصلاۃ ۱۸ (۴۸۲)، ۲۰ (۴۸۴، ۴۸۵)، المواقیت ۴۹ (۶۰۷)، والأذان ۱۹ (۶۵۸)، والحج ۲۰۷ (۳۰۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۱۴)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۹۶ (۱۶۷۴)، ت/الحج ۵۶ (۸۸۸)، ق/المناسک ۶۰ (۳۰۲۰)، ط/الحج ۶۵ (۱۹۶)، حم (۲/ ۳، ۶۲، ۷۹، ۸۱) (صحیح)
۱۹۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب اورعشاء مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھی۔


1927- حَدَّثَنَا (أَحْمَدُ) بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَقَالَ: بِإِقَامَةٍ إِقَامَةِ جَمْعٍ بَيْنَهُمَا، قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ وَكِيعٌ: صَلَّى كُلَّ صَلاةٍ بِإِقَامَةٍ۔
* تخريج: خ/ الحج ۹۶ (۱۶۷۳)، ن/ الأذان ۲۰ (۶۶۱)، الحج ۲۰۷ (۳۰۳۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۹۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۶، ۱۵۷)، دی/ المناسک ۵۲ (۱۹۲۶) (صحیح)
(ہرصلاۃ کے لئے الگ الگ اقامت والی روایت ہی صحیح ہے، جیسا کہ جابر کی طویل حدیث میں گزرا)
۱۹۲۷- اس سند سے بھی زہری سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ ایک ہی اقامت سے دونوں کو جمع کیا۔
احمد کہتے ہیں: وکیع نے کہا: ہر صلاۃ الگ الگ اقامت سے پڑھی۔


1928- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ (ح) وَحَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، الْمَعْنَى، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِإِسْنَادِ ابْنِ حَنْبَلٍ عَنْ حَمَّادٍ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ لِكُلِّ صَلاةٍ ، وَلَمْ يُنَادِ فِي الأُولَى ، وَلَمْ يُسَبِّحْ عَلَى إِثْرِ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا، قَالَ مَخْلَدٌ: لَمْ يُنَادِ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۹۲۳) (صحیح)
(اذان والا جملہ صحیحین میں نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں جابر کی روایت کے مطابق ایک اذان ثابت ہے ، نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث نمبر (۱۹۳۳) میں اذان واقامت کی تصریح ہے)
۱۹۲۸- اس سند سے بھی زہر ی سے ابن حنبل کی سند سے انہوں نے حماد سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے : ہر صلاۃ کے لئے ایک الگ اقامت کہی اور پہلی صلاۃ کے لئے اذان نہیں دی اور نہ ان دونوں میں سے کسی کے بعد نفل پڑھی۔
مخلد کہتے ہیں:ان دونوں میں سے کسی صلاۃ کے لئے اذان نہیں دی ۔


1929- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ الْمَغْرِبَ ثَلاثًا وَالْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ مَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ، مَا هَذِهِ الصَّلاةُ؟ قَالَ: صَلَّيْتُهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي هَذَا الْمَكَانِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ۔
* تخريج: ت/ الحج ۵۶ (۸۸۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۲۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸، ۳۳، ۷۸، ۱۵۲) (صحیح )
(ہرصلاۃ کے لئے الگ الگ اقامت کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے)
۱۹۲۹- عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت پڑھی، تومالک بن حارث نے ان سے کہا: یہ کون سی صلاۃ ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہ دونوں اسی جگہ ایک تکبیر سے پڑھیں۔


1930- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ -يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ- عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ مَالِكٍ قَالا: صَلَّيْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِالْمُزْدَلِفَةِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ، فَذَكَرَ مَعْنَى (حَدِيثِ) ابْنِ كَثِيرٍ۔
* تخريج: م/ الحج ۴۷ (۱۲۸۸)، ت/ الحج ۵۶ (۸۸۸)، ن/ الحج ۲۰۷ (۳۰۳۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸۰، ۲/۲، ۳، ۳۳، ۵۹، ۶۲، ۷۹، ۸۱) (صحیح)
(اس میں قاضی شریک بن عبداللہ ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت موجود ہے، اذان اور ہر صلاۃ میں اقامت کے اثبات کے ساتھ جیسے تفصیل گزری)
۱۹۳۰- سعید بن جبیراور عبداللہ بن مالک سے روایت ہے، وہ دونوں کہتے ہیں: ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب وعشا ء ایک اقامت سے پڑھیں ، پھر راوی نے ابن کثیرکی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکرکی۔


1931- حَدَّثَنَا ابْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: أَفَضْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ فَلَمَّا بَلَغْنَا جَمْعًا صَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ، ثَلاثًا وَاثْنَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ لَنَا ابْنُ عُمَرَ: هَكَذَا صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي هَذَا الْمَكَانِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۱۹۳۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۲) (صحیح)
(’’ایک اقامت‘‘والی روایت شاذ ہے، ہر صلاۃ کے لئے الگ الگ اقامت ثابت ہے)
۱۹۳۱- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ہم ( عرفات سے) ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ لوٹے ، جب ہم جمع یعنی مزدلفہ پہنچے تو آپ نے ہمیں مغرب اور عشاء ، تین رکعت مغرب کی اور دو رکعت عشاء کی ایک اقامت ۱؎ سے پڑھائی ، جب ہم صلاۃ سے فارغ ہوئے تو ابن عمرنے ہم سے کہا: اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ پڑھائی تھی ۔
وضاحت ۱؎ : اس کے برخلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اذان اور دو تکبیر سے دونوں صلاتیں ادا کیں اور یہی راجح ہے، واللہ اعلم۔


1932- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ،حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ قَالَ: رَأَيْتُ سَعِيدَ ابْنَ جُبَيْرٍ أَقَامَ بِجَمْعٍ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلاثًا ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ: شَهِدْتُ ابْنَ عُمَرَ صَنَعَ فِي هَذَا الْمَكَانِ مِثْلَ هَذَا، وَقَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا فِي هَذَا الْمَكَانِ .
* تخريج: انظر حدیث رقم (۱۹۳۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۲) (صحیح)
(اس میں بھی ایک اقامت شاذ ہے )
۱۹۳۲- سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : میں نے سعید بن جبیر کو دیکھا انہوں نے مزدلفہ میں اقامت کہی پھر مغرب تین رکعت پڑھی اور عشاء دو رکعت ، پھر آپ نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس مقام پر اسی طرح کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس مقام پر اسی طرح کرتے دیکھا۔


1933- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَقْبَلْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ عَرَفَاتٍ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ، فَلَمْ يَكُنْ يَفْتُرُ مِنَ التَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُزْدَلِفَةَ فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، أَوْ أَمَرَ إِنْسَانًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ ثَلاثَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا فَقَالَ: الصَّلاةُ، فَصَلَّى بِنَا الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ دَعَا بِعَشَائِهِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عِلاجُ بْنُ عَمْرٍو بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: فَقِيلَ لابْنِ عُمَرَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ هَكَذَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۷۰۹۱) (صحیح)
(اس میں دونوں صلاتوں کے لئے اذان ثابت ومحفوظ ہے، (۱۹۲۸) کی حدیث میں اذان کا انکار ہے، جو شاذ وضعیف ہے جیسا کہ گزرا، نیز اس روایت میں دوسری اقامت کی جگہ ’’الصلاۃ‘‘ کا لفظ ہے جو شاذ ہے، محفوظ دوسری مرتبہ اقامت کا لفظ ہے )
۱۹۳۳- سلیم بن اسود ابوالشعثاء محاربی کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ آیا وہ تکبیر و تہلیل سے تھکتے نہ تھے، جب ہم مزدلفہ آگئے تو انہوں نے اذان کہی اور اقامت ، یا ایک شخص کوحکم دیا کہ وہ اذان اور اقامت کہے ، پھر ہمیں مغرب تین رکعت پڑھائی، پھر ہما ری طرف متوجہ ہوئے اور کہا:عشاء پڑھ لو چنانچہ ہمیں عشاء دو رکعت پڑھائی پھر کھانا منگوایا۔
اشعث کہتے ہیں:اور مجھے علا ج بن عمر و نے میرے والد کی حدیث کے مثل حدیث کی خبر دی ہے جو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے اس بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اسی طرح صلاۃ پڑھی ہے۔


1934- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ عَبْدَالْوَاحِدِ بْنَ زَيَادٍ وَأَبَا عَوَانَةَ وَأَبَا مُعَاوِيَةَ حَدَّثُوهُمْ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عِمَارَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى صَلاةً إِلا لِوَقْتِهَا، إِلا بِجَمْعٍ، فَإِنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ، وَصَلَّى صَلاةَ الصُّبْحِ مِنَ الْغَدِ قَبْلَ وَقْتِهَا۔
* تخريج: خ/الحج ۹۹ (۱۶۸۲)، م/الحج ۴۸ (۱۲۸۹)، ن/المواقیت ۴۹ (۶۰۶)، والحج ۲۰۷ (۳۰۳۰)، ۲۱۰ (۳۰۴۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۴، ۴۲۶، ۴۳۴) (صحیح)
۱۹۳۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ وقت پر ہی صلاۃ پڑھتے دیکھا سوائے مزدلفہ کے ، مزدلفہ میں آپ ﷺ نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور دوسرے دن فجر وقت معمول سے کچھ پہلے پڑھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ترجمہ سے اس حدیث کا صحیح معنی واضح ہوگیا، بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ’’اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ غلس کے بعد اسفار میں صلاۃ پڑھتے تھے صرف اس دن غلس میں پڑھی‘‘،لیکن دیگر صحیح روایات کی روشنی میں اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ: غلس ہی میں فوراً پڑھ لی،عام حالات کی طرح تھوڑا انتظار نہیں کیا۔


1935- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : فَلَمَّا أَصْبَحَ -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ- (وَ)وَقَفَ عَلَى قُزَحَ فَقَالَ: < هَذَا قُزَحُ وَهُوَ الْمَوْقِفُ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَنَحَرْتُ هَا هُنَا، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ >۔
* تخريج: ت/الحج ۵۴ (۸۸۵)، ق/المناسک ۵۵ (۳۰۱۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۹) (حسن صحیح)
۱۹۳۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( مزدلفہ میں) جب آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے صبح کی تو آپ قزح میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’یہ قز ح ہے اور یہ موقف (ٹھہر نے کی جگہ) ہے، اور مزدلفہ پو را موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے ، میں نے یہاں نحر کیا ہے اور منیٰ پورا نحر کرنے کی جگہ ہے لہٰذا تم اپنے اپنے ٹھکانوں میں نحر کرلو‘‘۔


1936- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < وَقَفْتُ هَا هُنَا بِعَرَفَةَ وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ؛ وَوَقَفْتُ هَا هُنَا بِجَمْعٍ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَنَحَرْتُ هَا هُنَا وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ؛ فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ>۔
* تخريج: م/ الحج ۱۹ (۱۲۱۸)، ن/ الحج ۵۱ (۲۷۴۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۶)، وقد أخرجہ: دي/المناسک ۵۰ (۱۹۲۱) (صحیح)
۱۹۳۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں عرفات میں اس جگہ ٹھہرا ہوں لیکن عرفات پورا جائے وقوف ہے، میں مزدلفہ میں یہاں ٹھہرا ہوں لیکن مزدلفہ پورا جائے وقوف ہے ، میں نے یہاں پر نحر کیا اور منیٰ پورا جائے نحر ہے لہٰذا تم اپنے ٹھکانوں میں نحر کرو‘‘۔


1937- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ، وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ >۔
* تخريج: ق/ المناسک ۷۳ (۳۰۴۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۳۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۶) (حسن صحیح)
۱۹۳۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پورا عرفات جائے وقوف ہے پورا منیٰ جائے نحر ہے اور پورا مزدلفہ جائے وقوف ہے مکہ کے تمام راستے چلنے کی جگہیں ہیں اور ہر جگہ نحر درست ہے ‘‘۔


1938- حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لا يُفِيضُونَ حَتَّى يَرَوُا الشَّمْسَ عَلَى ثَبِيرٍ، فَخَالَفَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ فَدَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۰ (۱۶۸۴)، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۸)، ت/الحج ۶۰ (۸۹۶)، ن/الحج ۲۱۳ (۳۰۵۰)، ق/المناسک ۶۱ (۳۰۲۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴، ۲۹، ۳۹، ۴۲، ۵۰، ۵۲)، دي/المناسک ۵۵ (۱۹۳۲) (صحیح)
۱۹۳۸- عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگ مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ سورج کو ثبیر ۱؎ پر نہ دیکھ لیتے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے ہی (مزدلفہ سے) چل پڑے۔
وضاحت ۱؎ : ’’ثبير‘‘: مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
66- بَاب التَّعْجِيلِ مِنْ جَمْعٍ
۶۶-باب: مزدلفہ سے منیٰ جلدی واپس لوٹ جانے کا بیان​


1939- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: أَنَا مِمَّنْ قَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ فِي ضَعْفَةِ أَهْلِهِ۔
* تخريج: خ/الحج ۹۸ (۱۶۷۸)، وجزاء الصید ۲۵ (۱۸۵۶)، م/الحج ۴۹ (۱۲۹۳)، ن/الحج ۲۰۸ (۳۰۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۶۴)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۵۸ (۲۹۲، ۸۹۳)، ق/المناسک ۶۲ (۳۰۲۵)، حم (۱/۲۲۱، ۲۲۲، ۲۴۵، ۲۷۲، ۳۳۴، ۳۴۶) (صحیح)
۱۹۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر کے لوگوں میں سے کمزور جان کر مزدلفہ کی رات کو پہلے بھیج دیا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ روانہ کردینا جائز ہے، تا کہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہوجائیں، لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں، جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے۔


1940- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ أُغَيْلِمَةَ بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ عَلَى حُمُرَاتٍ فَجَعَلَ يَلْطَخُ أَفْخَاذَنَا وَيَقُولُ: < أُبَيْنِيَّ لا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ >.
قَالَ أَبودَاود : اللَّطْخُ : الضَّرْبُ اللَّيِّنُ۔
* تخريج: ن/الحج ۲۲۲ (۳۰۶۶)، ق/ المناسک ۶۲ (۳۰۲۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۳۹۶)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۵۸ (۸۹۳)، حم (۱/۲۳۴، ۳۱۱، ۳۴۳) (صحیح)
۱۹۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو گدھوں پر سوار کر کے مزدلفہ کی رات پہلے ہی روانہ کر دیا تھا، آپ ﷺ ہما ری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے :’’ اے میرے چھوٹے بچو! جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب طلوع نہ ہو جائے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: لطخ کے معنی آہستہ ما رنے کے ہیں۔


1941- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا حَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، عَنْ حَبِيبِ (ابْنِ أَبِي ثَابِتٍ) عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُقَدِّمُ ضُعَفَاءَ أَهْلِهِ بِغَلَسٍ وَيَأْمُرُهُمْ، يَعْنِي لا يَرْمُونَ الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔
* تخريج: ن/ الحج ۲۲۲ (۳۰۶۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۸۸۸) (صحیح)
۱۹۴۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھرکے کمزور اور ضعیف لوگوں کو اندھیرے ہی میں منیٰ روانہ کر دیتے تھے اور انہیں حکم دیتے تھے کہ کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب نہ نکل آئے۔


1942- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ- عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَرْسَلَ النَّبِيُّ ﷺ بِأُمِّ سَلَمَةَ لَيْلَةَ النَّحْرِ فَرَمَتِ الْجَمْرَةَ قَبْلَ الْفَجْرِ، ثُمَّ مَضَتْ فَأَفَاضَتْ، وَكَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ (تَعْنِي) عِنْدَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف:۱۶۹۶۱) (ضعیف)
(اس میں ضحاک ضعیف الحفظ ہیں، اور سند ومتن میں اضطراب ہے، ثقات کے روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲؍ ۱۷۷)
۱۹۴۲- امّ المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام سلمہ کو نحر کی رات ( دسویں رات) کو ( منیٰ کی طرف) راونہ فرما دیا انہوں نے فجر سے پہلے کنکریاں مار لیں پھر مکہ جا کر طواف افاضہ کیا، اور یہ وہ دن تھا جس دن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس رہا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا۔


1943- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَطَائٌ، أَخْبَرَنِي مُخْبِرٌ، عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا رَمَتِ الْجَمْرَةَ، قُلْتُ: إِنَّا رَمَيْنَا الْجَمْرَةَ بِلَيْلٍ، قَالَتْ: إِنَّا كُنَّا نَصْنَعُ هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: ن/الحج ۲۱۴ (۳۰۵۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۷)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۹۸ (۱۶۷۹)، م/الحج ۴۹ (۱۲۹۱)، ط/الحج ۵۶ (۱۷۲)، حم (۶/۳۴۷، ۳۵۱) (صحیح)
۱۹۴۳- اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے جمرہ کو کنکریاں ماریں، مخبر(راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ہم نے رات ہی کو جمرے کو کنکریاں مار لیں ،انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایسا ہی کیا کرتے تھے۔


1944- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ، وَأَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ۔
* تخريج: ن/ الحج ۲۰۴ (۳۰۲۴)، ق/ المناسک ۶۱ (۳۰۲۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۷۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۱، ۳۳۲، ۳۶۷، ۳۹۱)، دي/المناسک ۵۹ (۱۹۴۰) (صحیح)
۱۹۴۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مزدلفہ سے اطمینان و سکون کے سا تھ لوٹے اور لوگوں کوحکم دیا کہ اتنی چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں جو ہاتھ کی دونوں انگلیوں کے سروں کے درمیان آسکیں اور وادی محسر میں آپ نے اپنی سواری کو تیز کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67- بَاب يَوْمِ الْحَجِّ الأَكْبَرِ
۶۷-باب: حج اکبر کا دن کون سا ہے؟​


1945- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ -يَعْنِي ابْنَ الْغَازِ- حَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَقَفَ يَوْمَ النَّحْرِ بَيْنَ الْجَمَرَاتِ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي حَجَّ، فَقَالَ: < أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ >،قَالُوا: يَوْمُ النَّحْرِ، قَالَ: < هَذَا يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ >۔
* تخريج: خ/ الحج ۱۳۲ (۱۷۴۲ تعلیقًا)، ق/المناسک ۷۶ (۳۰۵۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۵۱۴) (صحیح)
۱۹۴۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نحر کے روز ( دسویں ذی الحجہ کو ) حجۃ الوداع میں جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور لوگوں سے پوچھا :’’ یہ کون سا دن ہے؟‘‘، لوگوں نے جواب دیا : یوم النحر، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہی حج اکبرکا دن ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قرآن مجید میںجو یوم الحج الا ٔکبر آیا ہے اس سے مراد یوم نحر ہی ہے، حج کو حج اکبر کہا جاتا ہے اور عمرہ کو حج اصغر، اور وہ جو عوام میں مشہور ہے کہ ’’جمعہ کے دن یوم عرفہ پڑے تو حج اکبر ہے‘‘ تو یہ بات بے دلیل اور بے اصل ہے۔


1946- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: بَعَثَنِي أَبُوبَكْرٍ فِيمَنْ يُؤَذِّنُ يَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًى أَنْ لا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَيَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ، وَالْحَجُّ الأَكْبَرُ الْحَجُّ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۰ (۳۶۹)، والحج ۶۷ (۱۶۲۲)، خ/الجزیۃ ۱۶ (۳۱۷۷)، والمغازي ۶۶ (۴۳۶۳)، وتفسیر البرائۃ ۲ (۴۶۵۶)، ۳ (۴۶۵۵)، وتفسیر البرائۃ ۴ (۴۶۵۷)، م/الحج ۷۸ (۱۳۴۷)، ن/الحج ۱۶۱ (۲۹۶۰)، حم (۲/۲۹۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۶۲۴) (صحیح)
۱۹۴۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یو م النحرکو منیٰ ان لوگوں میں بھیجا جو پکار رہے تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف کرے گا، اورحج ا کبر کا دن یوم النحر ہے اور حج اکبر سے مراد حج ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68-بَاب الأَشْهُرِ الْحُرُمِ
۶۸-باب: حرمت والے مہینوں کا بیان​


1947- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ فِي حَجَّتِهِ، فَقَالَ: < إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ: ثَلاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقِعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۰۰)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۳۲(۱۷۴۲)، وبدء الخلق ۲ (۳۱۹۷)، والمغازي ۷۷ (۴۴۰۳)، وتفسیر سورۃ التوبۃ ۸ (۴۶۶۲)، والأضاحي ۵ (۵۵۵۰)، والتوحید ۲۴ (۷۴۴۷)، م/القسامۃ ۱۰ (۱۶۷۹)، ن/ الکبری/ المحاربہ/ (۳۵۹۵)، حم (۵/۳۷)، دي/المناسک ۷۲ (۱۹۵۷) (صحیح)
۱۹۴۷- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حج میں خطبہ دیا توفرمایا: ’’زمانہ پلٹ کر ویسے ہی ہو گیا جیسے اس دن تھا جب اللہ نے آسمان اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی ، سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ، ان میں سے چار مہینے حرام ہیں: تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب ہے ۱؎ جو جما دی الآخرہ اور شعبان کے بیچ میں ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : رجب کی نسبت قبیلہ مضر کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ یہ رجب کی حرمت کے سلسلہ میں زیادہ سخت تھے، اور دیگر عرب قبائل کے مقابلہ میں اس کی حرمت کا پاس ولحاظ زیادہ رکھتے تھے۔


1948- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَيَّاضٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبودَاود: (و) سَمَّاهُ ابْنُ عَوْنٍ، فَقَالَ: (عَنْ) عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ (عَنْ أَبِي بَكْرَةَ) فِي هَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸۶) (صحیح)
۱۹۴۸- اس سند سے بھی ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: ابن عون نے اس حدیث میں ان کا نام لیا ہے اور یوں کہا ہے’’عن عبدالرحمن بن أبي بكرة عن أبي بكرة‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69-بَاب مَنْ لَمْ يُدْرِكْ عَرَفَةَ
۶۹-باب: جسے عرفات کا وقوف نہ مل سکے اس کے حکم کا بیان​


1949- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ يَعْمَرَ الدِّيلِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ بِعَرَفَةَ فَجَاءَ نَاسٌ، أَوْ نَفَرٌ، مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، فَأَمَرُوا رَجُلا، فَنَادَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ: كَيْفَ الْحَجُّ؟ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ (رَجُلا) فَنَادَى: < الْحَجُّ الْحَجُّ يَوْمُ عَرَفَةَ، مَنْ جَاءَ قَبْلَ صَلاةِ الصُّبْحِ مِنْ لَيْلَةِ جَمْعٍ فَتَمَّ حَجُّهُ، أَيَّامُ مِنًى ثَلاثَةٌ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ >، قَالَ: ثُمَّ أَرْدَفَ رَجُلا خَلْفَهُ، فَجَعَلَ يُنَادِي بِذَلِكَ .
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مِهْرَانُ، عَنْ سُفْيَانَ قَالَ: < الْحَجُّ الْحَجُّ >، مَرَّتَيْنِ، وَرَوَاهُ يَحْيَى ابْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ سُفْيَانَ قَالَ: < الْحَجُّ > مَرَّةً۔
* تخريج: ت/الحج ۵۷ (۸۸۹)، ن/الحج ۲۰۳ (۳۰۱۹)، ۲۱۱ (۳۰۴۷)، ق/المناسک ۵۷ (۳۰۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۰۹، ۳۱۰، ۳۳۵)، دي/المناسک ۵۴ (۱۹۲۹) (صحیح)
۱۹۴۹- عبدالر حمن بن یعمردیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ، آپ عرفات میں تھے ، اتنے میں نجد والوں میں سے کچھ لوگ آئے، ان لوگوں نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے آواز دی: اللہ کے رسول !حج کیوں کر ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کوحکم دیا تو اس نے پکار کر کہا: ’’حج عرفات میں وقوف ہے ۱؎ جو شخص مزدلفہ کی رات کو فجر سے پہلے (عرفات میں) آجائے تو اس کا حج پورا ہو گیا ، منیٰ کے دن تین ہیں (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ)،جو شخص دو ہی دن کے بعد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرے دن بھی رکا رہے اس پرکوئی گناہ نہیں‘‘ ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنے پیچھے بٹھا لیا وہ یہی پکارتا جاتا تھا۔
ابو داود کہتے ہیں: اور اسی طرح مہران نے سفیان سے ’’الحج الحج‘‘ دو بار نقل کیا ہے اور یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان سے ’’الحج‘‘ ایک ہی بار نقل کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہو جاتا ہے۔


1950- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ مُضَرِّسٍ الطَّائِيُّ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بِالْمَوْقِفِ يَعْنِي بِجَمْعٍ، قُلْتُ: جِئْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مِنْ جَبَلِ طَيِّئٍ، أَكْلَلْتُ مَطِيَّتِي، وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي، وَاللَّهِ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلا وَقَفْتُ عَلَيْهِ، فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَدْرَكَ مَعَنَا هَذِهِ الصَّلاةَ وَأَتَى عَرَفَاتَ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلا أَوْ نَهَارًا فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ وَقَضَى تَفَثَهُ >۔
* تخريج: ت/الحج ۵۷ (۸۹۱)، ن/الحج ۲۱۱ (۳۰۴۲، ۳۰۴۳، ۳۰۴۴)، ق/المناسک ۵۷ (۳۰۱۶)، ( تحفۃ الأشراف:۹۹۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵، ۲۶۱، ۲۶۲)، دي/المناسک ۵۴ (۱۹۳۰) (صحیح)
۱۹۵۰- عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ موقف یعنی مزدلفہ میں تھے ، میں نے عرض کیا : میں طی کے پہاڑوں سے آرہا ہوں، میں نے اپنی اونٹنی کو تھکا مارا، اور خو د کو بھی تھکا دیا ، اللہ کی قسم راستے میں کوئی ایسا ٹیکرہ نہیں آیا جس پر میں ٹھہرا نہ ہوں، تو میرا حج درست ہوا یا نہیں؟! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو ہمارے سا تھ اس صلاۃ کو پا لے اور اس سے پہلے رات یا دن کو عرفات میں ٹھہر چکا ہو تو اس کا حج پو را ۱؎ ہو گیا، اس نے اپنا میل کچیل دور کرلیا ‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت (۹) ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے، ان دونوں وقتوں کے بیچ اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج ادا ہوجائے گا۔
وضاحت ۲؎ : نسائی کی ایک روایت میں ہے ’’فقد قضى تفثه وتم حجه‘‘، یعنی حالت احرام میں پراگندہ رہنے کی مدت اس نے پوری کرلی، اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کر سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب النُّزُولِ بِمِنًى
۷۰-باب: منیٰ میں اترنے کا بیان​


1951- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ حُمَيْدٍ الأَعْرَجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ ﷺ النَّاسَ بِمِنًى، وَنَزَّلَهُمْ مَنَازِلَهُمْ، فَقَالَ: <لِيَنْزِلِ الْمُهَاجِرُونَ هَا هُنَا -وَأَشَارَ إِلَى مَيْمَنَةِ الْقِبْلَةِ- وَالأَنْصَارُ هَا هُنَا -وَأَشَارَ إِلَى مَيْسَرَةِ الْقِبْلَةِ- ثُمَّ لِيَنْزِلِ النَّاسُ حَوْلَهُمْ >.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶۱) (صحیح)
۱۹۵۱- عبدا لر حمن بن معاذ سے روایت ہے، وہ رسول ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے منیٰ میں لوگوں سے خطاب کیا ، اور انہیں ان کے ٹھکانوں میں اتارا ، آپ نے فرمایا: ’’مہا جرین یہاں اتریں -اور قبلہ کے دائیں جانب اشارہ کیا- اور انصار یہاں اتریں - اور قبلے کے بائیں جانب اشارہ کیا- پھر باقی لوگ ان کے اردگرد اتریں‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71-بَاب أَيِّ يَوْمٍ يَخْطُبُ بِمِنًى
۷۱-باب: منیٰ میں خطبہ کس دن ہو؟​


1952- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلَيْنِ مِنْ بَنِي بَكْرٍ قَالا: رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُ بَيْنَ أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَنَحْنُ عِنْدَ رَاحِلَتِهِ، وَهِيَ خُطْبَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الَّتِي خَطَبَ بِمِنًى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۷۰) (صحیح)
۱۹۵۲- بنی بکر کے دو آدمی کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ ایام تشریق کے بیچ والے دن ( بارہویں ذی الحجہ کو) خطبہ دے رہے تھے اور ہم آپ کی اونٹنی کے پاس تھے، یہ وہی خطبہ تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں دیا ۔


1953- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُصَيْنٍ، حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي سَرَّاءُ بِنْتُ نَبْهَانَ، وَكَانَتْ رَبَّةُ بَيْتٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ الرُّئُوسِ؟ فَقَالَ: < أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ > قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < أَلَيْسَ أَوْسَطَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ >.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ قَالَ عَمُّ أَبِي حُرَّةَ الرَّقَاشِيِّ: إِنَّهُ خَطَبَ أَوْسَطَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو دواد، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹۱) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ربیعہ‘‘لین الحدیث ہیں)
۱۹۵۳- ربیعہ بن عبدالرحمن بن حصین کہتے ہیں مجھ سے میری دادی سراء بنت نبہان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور وہ جاہلیت میں گھر کی مالکہ تھیں (جس میں اصنام ہوتے تھے)، وہ کہتی ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے یوم الرؤس ۱؎ (ایام تشریق کے دوسرے دن بارہویں ذی الحجہ) کو خطاب کیا اور پوچھا: ’’یہ کون سا دن ہے؟‘‘، ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیا دہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ ایام تشریق کا بیچ والا دن نہیں ہے‘‘۔
امام ابو داود کہتے ہیں: ابوحرّہ رقاشی کے چچا سے بھی اسی طرح روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایام تشریق کے بیچ والے دن خطبہ دیا۔
وضاحت ۱؎ : بارہویں ذی الحجہ کویوم الرؤوس کہا جاتا تھا کیونکہ لوگ اپنی قربانی کے جانوروں کے سراسی دن کھاتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب مَنْ قَالَ خَطَبَ يَوْمَ النَّحْرِ
۷۲-باب: نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کو خطبہ دیا اس قائلین کی دلیل کا بیان​


1954- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي الْهِرْمَاسُ بْنُ زِيَادٍ الْبَاهِلِيُّ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَخْطُبُ النَّاسَ عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَاءِ يَوْمَ الأَضْحَى بِمِنًى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۶)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ الحج (۴۰۹۵)، حم (۳/۴۸۵) (حسن)
۱۹۵۴- ہرماس بن زیاد باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ، آپ اپنی اونٹنی عضباء پر عیدالاضحی کے دن منیٰ میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔


1955- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيَّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ الْكَلاعِيُّ،سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمِنًى يَوْمَ النَّحْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۷) (صحیح)
۱۹۵۵- سلیم بن عامر کلاعی کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے منیٰ میں یوم النحرکو رسول اللہ ﷺ کاخطبہ سنا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہرماس بن زیاد اور ابو امامہ رضی اللہ عنہما وغیرہ کی روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یوم النحر کو خطبہ مشروع ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یوم النحر کو خطبہ نہیں، اور یہ احادیث عام موعظت ونصیحت کے قبیل سے ہیں نہ کہ یہ خطبہ ہے جو حج کے شعائر میں سے ہے، ان روایات سے ان کے اس قول کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان احادیث کے رواۃ نے اسے خطبہ کا نام دیا ہے جیسے عرفات کے خطبہ کو خطبہ کہا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب مَنْ قَالَ خَطَبَ يَوْمَ النَّحْرِ
۷۲-باب: نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کو خطبہ دیا اس قائلین کی دلیل کا بیان​


1954- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي الْهِرْمَاسُ بْنُ زِيَادٍ الْبَاهِلِيُّ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَخْطُبُ النَّاسَ عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَاءِ يَوْمَ الأَضْحَى بِمِنًى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۶)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ الحج (۴۰۹۵)، حم (۳/۴۸۵) (حسن)
۱۹۵۴- ہرماس بن زیاد باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ، آپ اپنی اونٹنی عضباء پر عیدالاضحی کے دن منیٰ میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔


1955- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيَّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ الْكَلاعِيُّ،سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمِنًى يَوْمَ النَّحْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۷) (صحیح)
۱۹۵۵- سلیم بن عامر کلاعی کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے منیٰ میں یوم النحرکو رسول اللہ ﷺ کاخطبہ سنا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہرماس بن زیاد اور ابو امامہ رضی اللہ عنہما وغیرہ کی روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یوم النحر کو خطبہ مشروع ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یوم النحر کو خطبہ نہیں، اور یہ احادیث عام موعظت ونصیحت کے قبیل سے ہیں نہ کہ یہ خطبہ ہے جو حج کے شعائر میں سے ہے، ان روایات سے ان کے اس قول کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان احادیث کے رواۃ نے اسے خطبہ کا نام دیا ہے جیسے عرفات کے خطبہ کو خطبہ کہا گیا ہے۔
 
Top