• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83-بَاب الإِفَاضَةِ فِي الْحَجِّ
۸۳-باب: طوافِ افاضہ کا بیان​


1998- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَفَاضَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ صَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى، يَعْنِي رَاجِعًا ۔
* تخريج: م/الحج ۵۸ (۱۳۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۲۴)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ الحج (۴۱۶۸)، حم (۲/۳۴) (صحیح)
۱۹۹۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کو طواف افاضہ کیا پھر منی میں ظہر ادا کی یعنی (طواف سے) لوٹ کر۔


1999- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ أُمِّهِ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ (يُحَدِّثَانِهِ جَمِيعًا ذَاكَ عَنْهَا) قَالَتْ: كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي يَصِيرُ إِلَيَّ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَسَاءَ يَوْمِ النَّحْرِ، فَصَارَ إِلَيَّ وَدَخَلَ عَلَيَّ وَهْبُ ابْنُ زَمْعَةَ وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي أُمَيَّةَ مُتَقَمِّصَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِوَهْبٍ: < هَلْ أَفَضْتَ أَبَا عَبْدِاللَّهِ؟ > قَالَ: لا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ ﷺ: < انْزِعْ عَنْكَ الْقَمِيصَ > قَالَ: فَنَزَعَهُ مِنْ رَأْسِهِ، وَنَزَعَ صَاحِبُهُ قَمِيصَهُ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَلِمَ يَارَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < إِنَّ هَذَا يَوْمٌ رُخِّصَ لَكُمْ إِذَا أَنْتُمْ رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ أَنْ تَحِلُّوا > يَعْنِي مِنْ كُلِّ مَا حُرِمْتُمْ مِنْهُ إِلا النِّسَاءَ: < فَإِذَا أَمْسَيْتُمْ قَبْلَ أَنْ تَطُوفُوا هَذَا الْبَيْتَ صِرْتُمْ حُرُمًا كَهَيْئَتِكُمْ قَبْلَ أَنْ تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطُوفُوا بِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۸۶، ۱۸۱۷۵، ۱۸۲۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۹۵، ۳۰۳) (حسن صحیح)
۱۹۹۹- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری وہ رات جس میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے یوم النحر کی شام تھی، چنانچہ آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اتنے میں وہب بن زمعہ اور ان کے ساتھ ابو امیہ کی اولاد کا ایک شخص دونوں قمیص پہنے میرے یہاں آئے، رسول اللہ ﷺ نے وہب سے پوچھا: ’’ابو عبداللہ! کیا تم نے طواف افاضہ کرلیا؟‘‘، وہ بولے: قسم اللہ کی! نہیں اللہ کے رسول، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو پھر اپنی قمیص اتار دو‘‘، چنانچہ انہوں نے اپنی قمیص اپنے سر سے اتار دی اور ان کے ساتھی نے بھی اپنے سر سے اپنی قمیص اتار دی پھر بولے: اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ وہ دن ہے کہ جب تم جمرہ کو کنکریاں مار لو تو تمہارے لئے وہ تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی جو تمہارے لئے حالت احرام میں حرام تھیں سوائے عورتوں کے، پھر جب شام کرلو اور بیت اللہ کا طواف نہ کر سکو تو تمہارا احرام باقی رہے گا، اسی طرح جیسے رمی جمرات سے پہلے تھا یہاں تک کہ تم اس کا طواف کرلو‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یوم النحر کو طواف زیارت کرنے کی تاکید ثابت ہوتی ہے،اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس دن کسی نے طواف نہیں کیا تو وہ دوبارہ احرام میں واپس لوٹ آئے گا، جب تک وہ طواف نہ کرلے وہ احرام ہی میں رہے (ملاحظہ ہو: صحیح ابن خزیمہ (كتاب المناسك، باب النهي عن الطيب واللباس إذا أمسى الحاج يوم النحر قبل أن يفيض وكل ما زجر الحاج عنه قبل رمي الجمرة يوم النحر، حدیث نمبر: ۲۹۵۸)


2000- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَّرَ طَوَافَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلَى اللَّيْلِ۔
* تخريج: خ/ الحج ۱۲۹ (قبیل ۱۷۳۲) تعلیقًا، ت/الحج ۸۰ (۹۲۰)، ق/المناسک ۷۷ (۳۰۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۲، ۱۷۵۹۴)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ الحج (۴۱۶۹)، حم (۱/۲۸۸) (ضعیف)
ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز صحیح احادیث کے مطابق رسول اکرم ﷺ نے طواف افاضہ دن میں زوال کے بعد کیا تھا، (ملاحظہ ہو: زاد المعاد، وصحیح ابی داود ۶؍ ۱۸۵)
۲۰۰۰- ام المومنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر ۱؎ کا طواف رات تک مؤخر کیا۔
وضاحت ۱؎ : دسویں تاریخ کے طواف کوطواف زیارہ یا طواف افاضہ کہتے ہیں۔


2001- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَرْمُلْ فِي السَّبْعِ الَّذِي أَفَاضَ فِيهِ۔
* تخريج: ق/المناسک ۷۷ (۳۰۶۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۹۱۷)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ الحج (۴۱۷۰) (صحیح)
۲۰۰۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے طواف افا ضہ کے سات پھیروں میں رمل ۱؎ نہیں کیا ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ دوران طواف دُلکی چال جسے رمل کہتے ہیں وہ صرف طواف قدوم میں مشروع ہے طواف افاضہ وغیرہ میں مشروع نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84- بَاب الْوَدَاعِ
۸۴-باب: مکہ سے نکلنے سے پہلے خانہء کعبہ کا الوداعی طواف​


2002- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < لا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ >۔
* تخريج: م/الحج ۶۷ (۱۳۲۷)، ق/المناسک ۸۲ (۳۰۷۰)، ن/ الکبری/ الحج (۴۱۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۳)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۴۴ (۱۷۵۵)، حم (۱/۲۲۲)، دي/المناسک ۸۵ (۱۹۷۴) (صحیح)
۲۰۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ ہر جانب سے ( مکہ سے) لوٹتے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی بھی مکہ سے کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف(طواف وداع) ہو‘‘ ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اسے طواف صدر یا طواف وداع کہتے ہیں، بعض اہل علم کے نزدیک یہ سنت ہے، اور بعض کے نزدیک واجب ،اگر عورت کو چلتے وقت حیض آجائے تو وہ یہ طواف چھوڑ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85- بَاب الْحَائِضِ تَخْرُجُ بَعْدَ الإِفَاضَةِ
۸۵-باب: حا ئضہ عورت طواف افاضہ کرنے کے بعد مکہ سے جاسکتی ہے​


2003- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ذَكَرَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَقِيلَ: إِنَّهَا قَدْ حَاضَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لَعَلَّهَا حَابِسَتُنَا>، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ، فَقَالَ: < فَلا إِذًا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۷۲)، وقد أخرجہ: خ/الحیض ۲۷ (۳۲۸)، والحج ۳۴ (۱۵۶۲)، والمغازي ۷۷ (۴۴۰۸)، والطلاق ۴۳ (۵۳۲۹)، والأدب ۹۳ (۶۱۵۷)، م/الحیض ۶۷ (۱۲۱۱)، ت/الحیض ۹۹ (۹۴۳)، ن/الحیض ۲۳ (۳۹۱)، ق/المناسک ۸۳ (۳۰۱۲)، ط/الحج ۷۵(۲۲۵)، حم (۶/۳۸، ۳۹، ۸۲، ۹۹، ۱۲۲، ۱۶۴، ۱۷۵، ۱۹۳، ۲۰۲، ۲۰۷)، دي/المناسک ۷۳ (۱۹۵۸) (صحیح)
۲۰۰۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ بنت حُیي رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تو لوگوں نے عرض کیا: انہیں حیض آگیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ لگتا ہے وہ ہم کو روک لیں گی‘‘، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ پھر تو کوئی بات نہیں‘‘۔


2004- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ تَحِيضُ، قَالَ: لِيَكُنْ آخِرُ عَهْدِهَا بِالْبَيْتِ، قَالَ: فَقَالَ الْحَارِثُ: كَذَلِكَ أَفْتَانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: أَرِبْتَ عَنْ يَدَيْكَ، سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْئٍ سَأَلْتَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لِكَيْ مَا أُخَالِفَ۔
* تخريج: ت/الحج ۱۰۱ (۹۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۸)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ الحج (۴۱۸۵)، حم (۳/۴۱۶) (صحیح)
(صحیح تو ہے مگر پچھلی حدیث سے منسوخ ہے، پہلے یہ حکم تھا بعد میں منسوخ ہوگیا جو ان دونوں صحابی رضی اللہ عنہما سے مخفی رہ گیا)
۲۰۰۴- حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے اس عورت کے متعلق پوچھا جو یوم النحر کو بیت اللہ کا طواف ( افا ضہ ) کر چکی ہو، پھر اسے حیض آگیا ہو ؟ انہوں نے کہا: وہ آخری طواف (طواف وداع ) کر کے جائے(یعنی: طواف وداع کا انتظار کرے) ، حارث نے کہا : اسی طرح مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھی بتایا تھا، اس پر عمر نے کہا تیرے دونوں ہاتھ گر جائیں! ۱؎ تم نے مجھ سے ایسی بات پو چھی جسے تم رسول اللہ ﷺ سے پوچھ چکے تھے تا کہ میں اس کے خلا ف بیان کروں۔
وضاحت ۱؎ : بظاہر یہ بددعا ہے لیکن حقیقت میں بددعا مقصود نہیں بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ ایسا کرکے تم نے غلط کام کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86-بَاب طَوَافِ الْوَدَاعِ
۸۶-باب: طوافِ وداع کا بیان​


2005- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَفْلَحَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: أَحْرَمْتُ مِنَ التَّنْعِيمِ بِعُمْرَةٍ، فَدَخَلْتُ، فَقَضَيْتُ عُمْرَتِي، وَانْتَظَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالأَبْطَحِ حَتَّى فَرَغْتُ، وَأَمَرَ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ، قَالَتْ: وَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ ثُمَّ خَرَجَ۔
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ( تحفۃ الأشراف:۱۷۴۴۳،۱۷۴۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۲۴) (صحیح)
۲۰۰۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے تنعیم سے عمرے کا احرام باندھا پھر میں ( مکہ ) گئی اور اپنا عمرہ پورا کیا ، رسول اللہ ﷺ نے مقام ابطح ۱؎ میں میرا انتظار کیا یہاں تک کہ میں فارغ ہوکر(آپ کے پاس واپس آگئی) تو آپ نے لوگوں کو روانگی کا حکم دیا ، آپ ﷺ خانۂ کعبہ آئے اور اس کا طواف کیا پھر روانہ ہو ئے۔
وضاحت ۱ ؎ : وہ میدان جومکہ اور منیٰ کے درمیان ہے اسے وادی محصب بھی کہتے ہیں۔


2006- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ -يَعْنِي الْحَنَفِيَّ- حَدَّثَنَا أَفْلَحُ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَهُ -تَعْنِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ- فِي النَّفْرِ الآخِرِ، فَنَزَلَ الْمُحَصَّبَ، قَالَ أَبودَاود: وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنُ بَشَّارٍ قِصَّةَ بَعْثِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَتْ : ثُمَّ جِئْتُهُ بِسَحَرٍ فَأَذَّنَ فِي أَصْحَابِهِ بِالرَّحِيلِ فَارْتَحَلَ فَمَرَّ بِالْبَيْتِ قَبْلَ صَلاةِ الصُّبْحِ فَطَافَ بِهِ حِينَ خَرَجَ ثُمَّ انْصَرَفَ مُتَوَجِّهًا إِلَى الْمَدِينَةِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۳۴، ۱۷۴۴۱) (صحیح)
۲۰۰۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آخری دن کی روانگی میں نکلی توآپ وادی محصب میں اترے، ( ابوداود کہتے ہیں: ابن بشار نے اس حدیث میں ان کے تنعیم بھیجے جا نے کا واقعہ ذکر نہیں کیا) پھرمیں صبح کو آپ ﷺ کے پاس آئی، تو آپ نے لوگوں میں روانگی کی منادی کرا دی ، پھر خود روانہ ہوئے تو فجر سے پہلے بیت اللہ سے گزرے اور نکلتے وقت اس کا طواف کیا ، پھر مدینہ کا رخ کر کے چل پڑے۔


2007- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللَّهِ ابْنُ أَبِي يَزِيدَ أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ طَارِقٍ أَخْبَرَهُ عَنْ أُمِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا جَازَ مَكَانًا مِنْ دَارِ يَعْلَى نَسِيَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ، اسْتَقْبَلَ الْبَيْتَ فَدَعَا۔
* تخريج: ن/الحج ۱۲۳ (۲۸۹۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۳۶، ۴۳۷) (ضعیف)
(اس کے راوی’’عبدالرحمن‘‘لین الحدیث ہیں)
۲۰۰۷- عبدالرحمن بن طارق اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب یعلی کے گھر کی جگہ سے آگے بڑھتے( اس جگہ کا نام عبید اللہ بھو ل گئے) تو بیت اللہ کی جا نب رخ کرتے اور دعا مانگتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نہ تویہ حدیث صحیح ہے اور نہ ہی باب سے اس کا کوئی تعلق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
87- بَاب التَّحْصِيبِ
۸۷-باب: محصب میں اترنے کا بیان​


2008- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ (قَالَتْ): إِنَّمَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمُحَصَّبَ لِيَكُونَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ، وَلَيْسَ بِسُنَّةٍ، فَمَنْ شَاءَ نَزَلَهُ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَنْزِلْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۸۵، ۱۷۳۳۰)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۴۷ (۱۷۶۵)، م/الحج ۵۹ (۱۳۱۱)، ت/الحج ۸۲ (۹۲۳)، ق/المناسک ۸۱ (۳۰۶۷)، حم (۶/۱۹۰) (صحیح)
۲۰۰۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ محصب میں صرف اس لئے اترے تاکہ آپ کے (مکہ سے) نکلنے میں آسا نی ہو، یہ کوئی سنت نہیں ، لہٰذا جو چاہے وہاں اترے اور جو چا ہے نہ اترے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : محصب، ابطح، بطحاء، خیف کنانہ سب ہم معنی ہیں اور اس سے مراد مکہ اور منی کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادۃ قریب ہے۔ محصب میں نزول واقامت مناسک حج میں سے نہیں ، رسول اکرم ﷺ زوال کے بعد آرام فرمانے کے لئے یہاں اقامت کی تھی اور یہاں پر عصر، ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ادا فرمائیں اور چودہویں رات گذاری، لیکن چونکہ آپ ﷺ نے یہاں نزول فرمایا، تو آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا ہے، امام شافعی ، امام مالک اور جمہور اہل علم نے رسول اکر م ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے، اور اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں، نیز ظہر، عصر اور مغر ب وعشاء کی صلاۃ پڑھنی ، نیز رات کا ایک حصہ یا پوری رات سونا رسول اکر م ﷺ کی اقتدا میں مستحب ہے۔


2009- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ أَبُورَافِعٍ: لَمْ يَأْمُرْنِي (رَسُولُ اللَّهِ ﷺ) أَنْ أُنْزِلَهُ، وَلَكِنْ ضَرَبْتُ قُبَّتَهُ، فَنَزَلَهُ، قَالَ مُسَدَّدٌ: وَكَانَ عَلَى ثَقَلِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَالَ عُثْمَانُ يَعْنِي فِي الأَبْطَحِ۔
* تخريج: م/الحج ۵۹ (۱۳۱۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۶) (صحیح)
۲۰۰۹- سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے آپ ( رسول اللہ ﷺ) نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ میں وہاں(محصّب میں ) اتروں، میں نے وہاں آپ ﷺ کا خیمہ نصب کیا تھا، آپ وہا ں اترے تھے۔
مسدد کی روایت میں ہے، وہ (ابورافع) نبی اکرم ﷺ کے اسباب کے محافظ تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’’يعني في الأبطح‘‘ کا اضافہ ہے (مطلب یہ ہے کہ وہ ابطح میں محافظ تھے)۔


2010- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا؟ < فِي حَجَّتِهِ قَالَ هَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيْلٌ مَنْزِلاً؟ > ثُمَّ قَالَ: < نَحْنُ نَازِلُونَ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ، حَيْثُ قَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْكُفْرِ > يَعْنِي الْمُحَصَّبَ، وَذَلِكَ أَنْ بَنِي كِنَانَةَ، حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ أَنْ لا يُنَاكِحُوهُمْ وَلا يُبَايِعُوهُمْ وَلا يُؤْوُوهُمْ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالْخَيْفُ الْوَادِي۔
* تخريج: خ/الحج ۴۴ (۱۵۸۸)، والجھاد ۱۸۰ (۳۰۵۸)، ومناقب الأنصار ۳۹ (۴۲۸۲)، والمغازي ۴۸ (۴۲۸۲)، والتوحید ۳۱ (۷۴۷۹)، م/الحج ۸۰ (۱۳۵۱)، ق/الفرائض ۶ (۲۷۳۰)، والمناسک ۲۶ (۲۹۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴)، وقد أخرجہ: ت/الفرائض ۱۵ (۲۱۰۷)، ط/الفرائض ۱۳ (۱۰)، حم (۲/۲۳۷)، دي/الفرائض ۲۹ (۳۰۳۶) (صحیح)
۲۰۱۰- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل حج میں کہاں اتریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا عقیل نے کوئی گھر ہمارے لئے ( مکہ میں) چھوڑا ہے؟‘‘، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم خیف بنو کنانہ میں اتریں گے جہاں قریش نے کفر پر عہد کیا تھا (یعنی وادی محصب میں)‘‘ ۱؎ ، اور وہ یہ کہ بنو کنانہ نے قریش سے بنی ہاشم کے خلاف قسم کھائی تھی کہ وہ ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے، نہ خرید وفروخت، اور نہ انہیں پناہ دیں گے۔
زہری کہتے ہیں: خیف وادی کا نام ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ اس وادی میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے اترے کہ جہاں پر کفر کا دور دورہ تھا، اب وہاں اسلام کا غلبہ ہوگیا ۔


2011- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو -يَعْنِي الأَوْزَاعِيَّ- عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ حِينَ أَرَادَ أَنْ يَنْفِرَ مِنْ مِنًى: < نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا >، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَوَّلَهُ، وَلا ذَكَرَ: < الْخَيْفَ الْوَادِي >۔
* تخريج: خ/ الحج ۴۵ (۱۵۹۰)، م/الحج ۵۹ (۱۳۱۴)، ن/ الکبری/ الحج (۴۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۲۳۷، ۵۴۰) (صحیح)
۲۰۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب منیٰ سے کوچ کرنے کا قصد کیا تو فرمایا:’’ ہم وہاں کل اتریں گے‘‘۔
پھر راوی نے ویسا ہی بیان کیا، اس روایت میں نہ تو حدیث کے شروع کے الفاظ ہیں، اور نہ ہی یہ ذکر ہے کہ خیف وادی کا نام ہے۔


2012- حَدَّثَنَا مُوسَى أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ وَأَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَهْجَعُ هَجْعَةً بِالْبَطْحَاءِ، ثُمَّ يَدْخُلُ مَكَّةَ وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۶۵۸، ۷۵۹۰)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۴۸(۱۷۶۷)، م/الحج ۵۹ (۱۲۷۵)، ت/الحج ۸۱ (۹۲۱)، ق/المناسک ۸۱ (۳۰۶۸)، حم (۲/۲۸، ۱۳۸) (صحیح)
۲۰۱۲- نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بطحا میں نیند کی ایک جھپکی لے لیتے پھر مکہ میں داخل ہوتے اور بتاتے کہ رسول اللہ ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔


2013- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَأَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْبَطْحَاءِ، ثُمَّ هَجَعَ بِهَا هَجْعَةً، ثُمَّ دَخَلَ مَكَّةَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۶۵۸، ۷۵۹۰) (صحیح)
۲۰۱۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر ،عصر ، مغرب اور عشاء بطحاء میں پڑھی پھر ایک نیند سوئے ، پھر مکہ میں داخل ہوئے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
88- بَاب فِيمَنْ قَدَّمَ شَيْئًا قَبْلَ شَيْئٍ فِي حَجِّهِ
۸۸-باب: کسی نے حج میں کوئی کام آگے یا پیچھے کرلیا تو اس کے حکم کا بیان​


2014- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى يَسْأَلُونَهُ، فَجَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اذْبَحْ وَلا حَرَجَ > وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: <ارْمِ وَلا حَرَجَ >، قَالَ: فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْئٍ قُدِّمَ أَوْ أُخِّرَ إِلا قَالَ: < اصْنَعْ وَلا حَرَجَ >۔
* تخريج: خ/العلم ۲۳ (۸۳)، الحج ۱۳۱ (۱۷۳۶)، الأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۵)، م/الحج ۵۷ (۱۳۰۶)، ت/الحج ۷۶ (۹۱۶)، ن/ الکبری/ الحج (۴۱۰۶)، ق/المناسک ۷۴ (۳۰۵۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۹۰۶)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۸۱ (۲۴۲)، حم (۲/۱۵۹، ۱۶۰، ۱۹۲، ۲۰۲، ۲۱۰، ۲۱۷)، دي/المناسک ۶۵ (۱۹۴۸) (صحیح)
۲۰۱۴- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الو داع میں منیٰ میں ٹھہرے ، لوگ آپ سے سوالات کر رہے تھے ، آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور بولا :اللہ کے رسول! مجھے معلوم نہ تھا میں نے ذبح کرنے سے پہلے سرمنڈالیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ذبح کر لو کوئی حرج نہیں''، پھر ایک اور شخص آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم نہ تھا میں نے رمی کرنے سے پہلے نحرکرلیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''رمی کرلو ،کوئی حرج نہیں'' ، اس طرح جتنی چیزوں کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا گیا جو آگے پیچھے ہوگئیں تھیں آپ نے فرمایا: ''کرڈالو ، کوئی حرج نہیں''۔


2015- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ، عَنْ أُسَامَةَ ابْنِ شَرِيكٍ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَاجًّا، فَكَانَ النَّاسُ يَأْتُونَهُ، فَمَنْ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَعَيْتُ قَبْلَ أَنْ أَطُوفَ، أَوْ قَدَّمْتُ شَيْئًا، أَوْ أَخَّرْتُ شَيْئًا، فَكَانَ يَقُولُ: < لا حَرَجَ لا حَرَجَ إِلا عَلَى رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَهُوَ ظَالِمٌ، فَذَلِكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۲۸) (صحیح)
۲۰۱۵- اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کے لئے نکلا، لوگ آپ کے پاس آتے تھے جب کوئی کہتا : اللہ کے رسول! میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی یا میں نے ایک چیز کو مقدم کر دیا یا مؤخر کر دیا تو آپ ﷺ فرماتے: ''کوئی حرج نہیں ، کوئی حرج نہیں، حر ج صرف اس پر ہے جس نے کسی مسلمان کی جان یا عزت وآبرو پامال کی اور وہ ظالم ہو، ایسا ہی شخص ہے جو حرج میں پڑ گیا اور ہلاک ہوا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
89- بَاب فِي مَكَّةَ
۸۹-باب: مکہ میں صلاۃ کا بیان​


2016- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وِدَاعَةَ، عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ يُصَلِّي مِمَّا يَلِي بَابَ بَنِي سَهْمٍ وَالنَّاسُ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا سُتْرَةٌ، قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَةِ سُتْرَةٌ، قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنَا عَنْهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا كُثَيْرٌ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَيْسَ مِنْ أَبِي سَمِعْتُهُ، وَلَكِنْ مِنْ بَعْضِ أَهْلِي عَنْ جَدِّي۔
* تخريج: ن/القبلۃ ۹ (۷۵۹)، والحج ۱۶۲ (۲۹۶۲)، ق/المناسک ۳۳ (۲۹۵۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''بعض أہلہ'' مبہم مجہول ہیں)
۲۰۱۶- مطلب بن ابی وداعہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو باب بنی سہم کے پاس صلاۃ پڑھتے دیکھا، لوگ آپ ﷺ کے سامنے سے گزر رہے تھے بیچ میں کوئی سترہ نہ تھا ۱؎ ۔
سفیان کے الفاظ یوں ہیں: ان کے اور کعبہ کے درمیان کوئی سترہ نہ تھا۔
سفیان کہتے ہیں: ابن جریج نے ان کے بارے میں ہمیں بتایا کہ کثیر نے اپنے والد سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میں نے اسے اپنے والد سے نہیں سنا ، بلکہ گھر کے کسی فرد سے سنا اور انہوں نے میرے دادا سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ضعیف ہے، اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا، سترہ کے بارے میں وارد تمام احادیث مطلق اور عام ہیں، ان میں کسی جگہ کی کوئی قید نہیں خواہ صحراء ہو ،یا مسجد حتی کہ حرمین شریفین کی مساجد بھی اس حکم سے مستثنی نہیں ہیں، اس لئے ہر جگہ سترہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
90-بَابٌ تَحْرِيْمُ حرم مَكَّةَ
۹۰-باب: حرم مکہ کی حرمت کا بیان​


2017- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ- عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِيهِمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: <إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، ثُمَّ هِيَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ: لا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلاتَحِلُّ لُقْطَتُهَا إِلا لِمُنْشِدٍ >، فَقَالَ عَبَّاسٌ، أَوْ قَالَ: قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِلا الإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِلا الإِذْخِرَ >.
قَالَ أَبودَاود : وَزَادَ(نَا) فِيهِ ابْنُ الْمُصَفَّى عَنِ الْوَلِيدِ: فَقَامَ أَبُو شَاهٍ -رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ- فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُبُوا لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اكْتُبُوا لأَبِي شَاهٍ >، قُلْتُ لِلأَوْزَاعِيِّ، مَا قَوْلُهُ: < اكْتُبُوا لأَبِي شَاهٍ >؟ قَالَ: هَذِهِ الْخُطْبَةُ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/اللقطۃ ۷ (۲۴۳۴)، م/الحج ۸۲ (۱۳۵۵)، ت/الدیات ۱۳ (۱۴۰۵)، ن/القسامۃ ۲۴ (۴۷۸۹، ۴۷۹۰، ۴۷۹۱)، ق/الدیات ۳ (۲۶۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۸)، دي/البیوع ۶۰ (۲۶۴۲)، ویأتی ہذا الحدیث فی العلم (۳۶۴۹، ۳۶۵۰) وفی الدیات (۴۵۰۵) (صحیح)
۲۰۱۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ فتح کرادیا ، تو آپ لوگوں میں کھڑے ہوئے ، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ''اللہ نے ہی مکہ سے ہا تھیوں کو روکا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنین کا اقتدار قائم کیا، میرے لئے دن کی صرف ایک گھڑی حلال کی گئی اور پھر اب قیامت تک کے لئے حرام کر دی گئی، نہ وہاں (مکہ) کا درخت کاٹا جائے، نہ اس کا شکار بِدکایا جائے، اور نہ وہاں کا لقطہ ( پڑی ہوئی چیز) کسی کے لئے حلال ہے، بجز اس کے جو اس کی تشہیر کرے''، اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! سوائے اذخر کے ۱؎ ( یعنی اس کا کاٹنا درست ہونا چاہئے ) اس لئے کہ وہ ہماری قبروں اور گھروں میں استعمال ہوتی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سوائے اذخر کے ''۔
ابو داود کہتے ہیں: ابن مصفّی نے ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے: تو اہل یمن کے ایک شخص ابوشاہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے لکھ کردے دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ابو شاہ کو لکھ کر دے دو''، ( ولید کہتے ہیں) میں نے اوزاعی سے پوچھا: ''اكْتُبُوْا لأبي شَاهٍ'' سے کیا مراد ہے ، وہ بولے :یہی خطبہ ہے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔
وضاحت ۱؎ : یہ ایک خوشبو دار گھاس ہے۔


2018- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: < وَلا يُخْتَلَى خَلاهَا >۔
* تخريج: خ/ جزاء الصید ۹ (۱۸۳۴)، الجہاد ۱(۲۷۸۳) م/الحج ۸۲ (۱۳۵۳)، ت/ السیر ۳۳ (۱۵۹۰)، ن/ الکبری/ الحج (۳۸۵۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۶، ۲۵۹، ۳۱۵، ۳۵۵) ویأتی ہذا الحدیث فی الجہاد (۲۴۸۰) (صحیح)
۲۰۱۸- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی واقعہ مروی ہے، اس میں اتنا زائد ہے ''لا يُخْتَلَى خَلاهَا'' (اور اس کے پودے نہ کاٹے جائیں)۔


2019- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَلا نَبْنِي لَكَ بِمِنًى بَيْتًا، أَوْ بِنَائً، يُظِلُّكَ مِنَ الشَّمْسِ؟ فَقَالَ: < لا، إِنَّمَا هُوَ مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ إِلَيْهِ >۔
* تخريج: ت/الحج ۵۱ (۸۸۱)، ق/المناسک ۵۲ (۳۰۰۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۸۷، ۲۰۶)، دي/المناسک ۸۷ (۱۹۸۰) (ضعیف)
(یوسف کی والدہ مُسَیکہ مجہول ہیں)
۲۰۱۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے لئے منیٰ میں ایک گھر یا عمارت نہ بنا دیں جو آپ کو دھوپ سے سایہ دے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں یہ(منیٰ) اس کی جائے قیام ۱؎ ہے جو یہاں پہلے پہنچ جائے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی منیٰ کا میدان وقف ہے حاجیوں کے لئے وہ کسی کی خاص ملکیت نہیں ہے اگر کوئی وہاں پہلے پہنچے اور کسی جگہ اترجائے تو دوسرا اس کو اٹھا نہیں سکتا چونکہ مکان بنانے میں ایک جگہ پر اپنا قبضہ اور حق جما لینا ہے اس لئے آپ نے اس سے منع فرمایا۔


2020- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَى بْنِ ثَوْبَانَ، أَخْبَرَنِي عُمَارَةُ بْنُ ثَوْبَانَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ بَاذَانَ، قَالَ: أَتَيْتُ يَعْلَى بْنَ أُمَيَّةَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < احْتِكَارُ الطَّعَامِ فِي الْحَرَمِ إِلْحَادٌ فِيهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۴۸) (ضعیف)
(اس کے رواۃ''جعفر،عمارۃ اور موسی''سب ضعیف ہیں)
۲۰۲۰- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''حرم میں غلہ روک کر رکھنا اس میں الحاد (کج روی) ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
91- بَاب فِي نَبِيذِ السِّقَايَةِ
۹۱-باب: حاجیوں کے لیے نبیذ کی سبیل لگانے کا بیان​


2021- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لابْنِ عَبَّاسٍ: مَا بَالُ أَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ يَسْقُونَ النَّبِيذَ وَبَنُو عَمِّهِمْ يَسْقُونَ اللَّبَنَ وَالْعَسَلَ وَالسَّوِيقَ؟ أَبُخْلٌ بِهِمْ أَمْ حَاجَةٌ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا بِنَا مِنْ بُخْلٍ وَلا بِنَا مِنْ حَاجَةٍ، وَلَكِنْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَخَلْفَهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِشَرَابٍ، فَأُتِيَ بِنَبِيذٍ، فَشَرِبَ مِنْهُ، وَدَفَعَ فَضْلَهُ إِلَى أُسَامَةَ (بْنِ زَيْدٍ) فَشَرِبَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَحْسَنْتُمْ، وَأَجْمَلْتُمْ، كَذَلِكَ فَافْعَلُوا > فَنَحْنُ هَكَذَا لا نُرِيدُ أَنْ نُغَيِّرَ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: م/الحج ۶۰ (۱۳۱۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۵، ۲۹۲، ۳۳۶، ۳۶۹، ۳۷۳) (صحیح)
۲۰۲۱- بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ اس گھر کے لوگ نبیذ (کھجور کا شربت) پلا تے ہیں اورآپ کے چچا کے بیٹے ( قریش ) دودھ، شہد اور ستو پلاتے ہیں؟ کیا یہ لوگ بخیل یا محتاج ہیں؟ ابن عباس نے کہا: نہ ہم بخیل ہیں اور نہ محتاج، بلکہ رسول اللہ ﷺ ایک روز اپنی سواری پر بیٹھ کر آئے، آپ ﷺ کے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے، آپ ﷺ نے پینے کو کچھ مانگا تو نبیذ پیش کیا گیا، آپ نے اس میں سے پیا اور باقی ماندہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا، تو انہوں نے بھی اس میں سے پیا ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم نے اچھا کیا اور خو ب کیا ایسے ہی کیا کرو''، تو ہم اسی کو اختیار کئے ہوئے ہیں جسے رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا، اسے ہم بدلنا نہیں چاہتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
92-بَاب الإِقَامَةِ بِمَكَّةَ
۹۲-باب: مکہ میں اقامت کی مدت کا بیان​


2022- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ- عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ يَسْأَلُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ: هَلْ سَمِعْتَ فِي الإِقَامَةِ بِمَكَّةَ شَيْئًا؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لِلْمُهَاجِرِينَ إِقَامَةٌ بَعْدَ الصَّدْرِ ثَلاثًا >۔
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۴۷ (۳۹۳۳)، م/الحج ۸۱ (۱۳۵۲)، ت/الحج ۱۰۳ (۹۴۹)، ن/تقصیر الصلاۃ ۳ (۱۴۵۵)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۶ (۱۰۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۳۹، ۵/۵۲)، دي/الصلاۃ ۱۸ (۱۲۴۷) (صحیح)
۲۰۲۲- عبدالرحمن بن حمید سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو سائب بن یزید سے پو چھتے سنا : کیا آپ نے مکہ میں رہائش اختیار کرنے کے سلسلے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے ابن حضرمی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''مہاجرین کے لئے حج کے احکام سے فراغت کے بعد تین دن تک مکہ میں ٹھہرنے ۱؎ کی اجازت ہے''۔
وضاحت: ۱؎ تاکہ وہ اس دوران اپنی ضرورتیں پوری کرلیں اس سے زیادہ انہیں رکنے کی اجازت نہیں کیونکہ وہ اللہ کے لئے اس شہرکو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
 
Top