• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب وَقْفِ الْمَسَاجِدِ
۴-باب: مساجد کے لیے وقف کا بیان​


3636- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يُحَدِّثُ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ - رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ - وَذَاكَ أَنِّي قُلْتُ لَهُ: أَرَأَيْتَ اعْتِزَالَ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ مَا كَانَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ الأَحْنَفَ يَقُولُ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَأَنَا حَاجٌّ؛ فَبَيْنَا نَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا، نَضَعُ رِحَالَنَا، إِذْ أَتَى آتٍ؛ فَقَالَ: قَدْ اجْتَمَعَ النَّاسُ فِي الْمَسْجِدِ، فَاطَّلَعْتُ، فَإِذَا - يَعْنِي - النَّاسَ مُجْتَمِعُونَ، وَإِذَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ نَفَرٌ قُعُودٌ؛ فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ - رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ - فَلَمَّا قُمْتُ عَلَيْهِمْ! قِيلَ: هَذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَدْ جَائَ، قَالَ فَجَائَ، وَعَلَيْهِ مُلَيَّةٌ صَفْرَائُ؛ فَقُلْتُ لِصَاحِبِي: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَنْظُرَ مَا جَائَ بِهِ؛ فَقَالَ عُثْمَانُ: أَهَاهُنَا عَلِيٌّ؟ أَهَاهُنَا الزُّبَيْرُ؟ أَهَاهُنَا طَلْحَةُ؟ أَهَاهُنَا سَعْدٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِي فُلاَنٍ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ " فَابْتَعْتُهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: إِنِّي ابْتَعْتُ مِرْبَدَ بَنِي فُلاَنٍ، قَالَ: فَاجْعَلْهُ فِي مَسْجِدِنَا، وَأَجْرُهُ لَكَ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يَبْتَاعُ بِئْرَ رُومَةَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ " فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: قَدْ ابْتَعْتُ بِئْرَ رُومَةَ، قَالَ: " فَاجْعَلْهَا سِقَايَةً لِلْمُسْلِمِينَ، وَأَجْرُهَا لَكَ " قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّهُوَ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يُجَهِّزُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ " فَجَهَّزْتُهُمْ حَتَّى مَايَفْقِدُونَ عِقَالاً، وَلاَ خِطَامًا، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۱۸۴ (صحیح)
۳۶۳۶- معتمر بن سلیمان کہتے ہیں: میں نے اپنے والد حصین بن عبدالرحمن کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے اور وہ عمرو بن جاوان سے -جو ایک تمیمی شخص ہیں -روایت کرتے ہیں، اور یہ بات اس طرح ہوئی کہ میں (حصین بن عبد الرحمن) نے ان سے (یعنی عمرو بن جاوان سے) کہا: کیا تم نے احنف بن قیس کا اعتزال دیکھا ہے، کیسے ہوا؟ وہ کہتے ہیں: میں نے احنف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں مدینہ آیا (اس وقت) میں حج پر نکلا ہوا تھا، اسی اثناء میں ہم اپنی قیام گا ہوں میں اپنے کجاوے اتار اتار کر رکھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والے شخص نے آکر بتایا کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہو رہے ہیں۔ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ اکٹھا ہیں اور انہیں کے درمیان کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان میں علی بن ابی طالب، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم موجود ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہو گیا، اسی دوران یہ آواز آئی: یہ لو عثمان بن عفان بھی آ گئے، وہ آئے ان کے جسم پر ایک زرد رنگ کی چادر تھی ۱؎، میں نے اپنے پاس والے سے کہا: جیسے تم ہو ویسے رہو مجھے دیکھ لینے دو وہ (عثمان) کیا کہتے ہیں، عثمان نے کہا: کیا یہاں علی ہیں، کیا یہاں زبیر ہیں، کیا یہاں طلحہ ہیں، کیا یہاں سعد ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں (موجود ہیں) انہوں نے کہا: میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کیا تمہیں معلوم ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جو شخص خرید لے گا فلاں کا مِرْبدْ (کھلیان، کھجور سکھانے کی جگہ) اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا تو میں نے اسے خرید لیا تھا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر آپ کو بتایا تھا کہ میں نے عقلان کا مربد (کھلیان) خرید لیا ہے تو آپ نے فرمایا تھا: اسے ہماری مسجد (مسجد نبوی) میں شامل کر دو، اس کا تمہیں اجر ملے گا، لوگوں نے کہا: ہاں، (ایسا ہی ہوا تھا) (پھر) کہا: میں تم سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! کیا تم جانتے ہو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ''جو شخص رومہ کا کنواں خرید لے گا (رومہ مدینہ کی ایک جگہ کا نام ہے) اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا''۔ میں (بئر رومہ خرید کر) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور (آپ سے) کہا: میں نے بئر رومہ خرید لیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اسے مسلمانوں کے پینے کے لیے وقف کر دو، اس کا تمہیں اجر ملے گا''، لوگوں نے کہا: ہاں (ایسا ہی ہوا تھا) انہوں نے (پھر) کہا: میں تم سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! کیا تمہیں معلوم ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (جنگ تبوک کے موقع پر) فرمایا تھا: جو شخص جیش عسرۃ (تہی دست لشکر) کو (سواریوں اور سامان حرب وضرب سے) آراستہ کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا تو میں نے ان لشکریوں کو ساز وسامان کے ساتھ تیار کر دیا یہاں تک کہ انہیں عقال (اونٹوں کے پاؤں باندھنے کی رسی) اور خطام (مہار بنانے کی رسی) کی بھی ضرورت باقی نہ رہ گئی۔ لوگوں نے کہا: ہاں (آپ درست فرماتے ہیں ایسا ہی ہوا تھا) یہ سن کر انہوں نے کہا: اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔
وضاحت ۱؎: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب خوارج نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف باغیانہ کارروائیاں شروع کر دی تھیں اور ان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔


3637- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُصَيْنَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ، عَنْ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: خَرَجْنَا حُجَّاجًا، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَنَحْنُ نُرِيدُ الْحَجَّ، فَبَيْنَا نَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا، نَضَعُ رِحَالَنَا، إِذْ أَتَانَا آتٍ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ اجْتَمَعُوا فِي الْمَسْجِدِ، وَفَزِعُوا؛ فَانْطَلَقْنَا؛ فَإِذَا النَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَى نَفَرٍ فِي وَسَطِ الْمَسْجِدِ، وَإِذَا عَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، فَإِنَّا لَكَذَلِكَ، إِذْ جَائَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، عَلَيْهِ مُلاَئَةٌ صَفْرَائُ، قَدْ قَنَّعَ بِهَا رَأْسَهُ، فَقَالَ: أَهَاهُنَا عَلِيٌّ؟ أَهَاهُنَا طَلْحَةُ؟ أَهَاهُنَا الزُّبَيْرُ؟ أَهَاهُنَا سَعْدٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ؟ قَالَ: فَإِنِّي أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ! أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِي فُلاَنٍ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ " فَابْتَعْتُهُ بِعِشْرِينَ أَلْفًا - أَوْ بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ أَلْفًا - فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " اجْعَلْهَا فِي مَسْجِدِنَا، وَأَجْرُهُ لَكَ " قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ! قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ! أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يَبْتَاعُ بِئْرَ رُومَةَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ " فَابْتَعْتُهُ بِكَذَا وَكَذَا؛ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: قَدْ ابْتَعْتُهَا بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: " اجْعَلْهَا سِقَايَةً لِلْمُسْلِمِينَ، وَأَجْرُهَا لَكَ " قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ! أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ فِي وُجُوهِ الْقَوْمِ؛ فَقَالَ: " مَنْ جَهَّزَ هَؤُلائِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ " يَعْنِي جَيْشَ الْعُسْرَةِ؛ فَجَهَّزْتُهُمْ حَتَّى مَا يَفْقِدُونَ عِقَالاَ وَلاَخِطَامًا، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ! قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۱۸۴ (صحیح)
۳۶۳۷- احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ہم اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلے۔ مدینہ پہنچ کر ہم اپنے پڑاؤ کی جگ ہوں (خیموں) میں اپنی سواریوں سے سامان اتار اتار کر رکھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے نے آکر خبر دی کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہیں اور گھبرائے ہوئے ہیں تو ہم بھی (وہاں) چلے گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ مسجد کے بیچ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگ انہیں (چاروں طرف سے) گھیرے ہوئے ہیں، ان میں علی، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم بھی موجود تھے۔ ہم یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ اتنے میں عثمان بن عفان آ گئے، وہ اپنے اوپر ایک پیلی چادر ڈالے ہوئے تھے اور اس سے اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے۔ (آکر) کہنے لگے: کیا یہاں علی ہیں، کیا یہاں طلحہ ہیں، کیا یہاں زبیر ہیں، کیا یہاں سعد ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں (ہیں) انہوں نے کہا: میں تم لوگوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جو شخص بنی فلاں کا مربد (کھجوریں خشک کرنے کا میدان، کھلیان) خرید لے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا تو میں نے اسے بیس ہزار یا ۲۵ہزار میں خرید لیا تھا، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا۔ آپ نے فرمایا: اسے (وقف کر کے ہماری) مسجد میں شامل کر دو، اس کا تمہیں اجر ملے گا۔ ان لوگوں نے اللہ کا نام لے کر کہا: ہاں (ہمیں معلوم ہے) (پھر) انہوں نے کہا: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم جانتے ہو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ''جو شخص رومہ کا کنواں خریدے گا اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا ''، تو میں نے اسے اتنے اتنے میں خریدا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا کہ میں نے اسے اتنے داموں میں خرید لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ''اس کو عام مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وقف کر دو، اس کا تمہیں اجر ملے گا''۔ انہوں نے اللہ کا نام لے کر کہا: ہاں، (پھر) انہوں نے کہا: میں قسم دیتا ہوں تم کو اس اللہ کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! کیا تم جانتے ہو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا جو شخص ان لوگوں کو تیار کر دے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا۔ ھٰؤلاء سے مراد جیش عسرت ہے (ساز وسامان سے تہی دست لشکر) تو میں نے انہیں مسلح کر دیا اور اس طرح تیار کر دیا کہ انہیں اونٹوں کے پیر باندھنے کی رسی اور نکیل کی رسی کی بھی ضرورت باقی نہ رہ گئی تو ان لوگوں نے اللہ کا نام لے کر کہا ہاں (ایسا ہی ہوا ہے) تب عثمان نے کہا: اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔ (میں نے یہ تیری رضا کے لیے کیا ہے اور ایسا کرنے والا مجرم نہیں ہو سکتا)۔


3638- أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَبِالإِسْلامِ! هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، وَلَيْسَ بِهَا مَائٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ، فَقَالَ: " مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلُ فِيهَا دَلْوَهُ مَعَ دِلائِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ " فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي؛ فَجَعَلْتُ دَلْوِي فِيهَا مَعَ دِلائِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنْتُمْ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي مِنْ الشُّرْبِ مِنْهَا، حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَائِ الْبَحْرِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلامِ! هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلاَنٍ فَيَزِيدُهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ " فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي؛ فَزِدْتُهَا فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلامِ: هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى ثَبِيرٍ - ثَبِيرِ مَكَّةَ - وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا؛ فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ فَرَكَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: " اسْكُنْ ثَبِيرُ! فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ " قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، شَهِدُوا لِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ. يَعْنِي أَنِّي شَهِيدٌ۔
* تخريج: ت/المناقب ۱۹ (۳۷۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۸۵)، حم (۱/۷۴) (صحیح)
(لیکن '' ثبر'' کا واقعہ صحیح نہیں ہے)
۳۶۳۸- ثمامہ بن حزن قشیری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اس وقت عثمان رضی الله عنہ کے گھر موجود تھا جب انہوں نے اوپر سے جھانک کر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مدینہ آئے تو وہاں بئر رومہ کے سوا کہیں بھی پینے کا میٹھا پانی نہ تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ''ہے کوئی جو رومہ کا کنواں خرید کر (وقف کر کے) اپنے اور تمام مسلمانوں کے ڈولوں کو یکساں کر دے اس کے عوض اسے جنت میں اس سے بہتر ملے گا''۔ میں نے (آپ کے اس ارشاد کے بعد) اسے اپنے ذاتی مال سے خرید کر اپنا ڈول عام مسلمانوں کے ڈول کے ساتھ کر دیا (یعنی وقف کر دیا اور اپنے لیے کوئی تخصیص نہ کی) اور آج یہ حال ہے کہ تم لوگ مجھے اس کا پانی پینے نہیں دے رہے ہو، حال یہ ہے کہ میں سمندر کا (کھارا) پانی پی رہا ہوں۔ لوگوں نے کہا: ہاں، (جیسا تم کہتے ہو اسی طرح ہے) (پھر) انہوں نے کہا: میں تم سے اسلام اور اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو جیش عسرہ (ضرورت مند لشکر) کو میں نے اپنا مال صرف کر کے جنگ میں شریک ہونے کے قابل بنایا تھا۔ ان لوگوں نے کہا: ہاں، (ایسا ہی ہے) انہوں نے (پھر) کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے مسجد اپنے نمازیوں پر تنگ ہو گئی تھی، آپ نے فرمایا تھا کون ہے جو فلاں خاندان کی زمین کو خرید کر جنت میں اس سے بہتر پانے کے لیے اسے مسجد میں شامل کر کے مسجد کو مزید وسعت دے دے۔ تو میں نے اس زمین کے کئی ٹکڑے کو اپنا ذاتی مال صرف کر کے خرید لیا تھا اور مسجد میں اس کا اضافہ کر دیا تھا اور تمہارا حال آج یہ ہے کہ تم لوگ مجھے اس میں دو رکعت نماز پڑھنے تک نہیں دے رہے ہو۔ لوگوں نے کہا: ہاں (بجا فرما رہے ہیں آپ)۔ انہوں نے (پھر) کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مکہ کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی پر تھے اور آپ کے ساتھ ابو بکر و عمر بھی تھے اور میں بھی تھا، اس وقت وہ پہاڑ ہلنے لگا تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے ٹھوکر لگائی اور فرمایا: ثبیر! سکون سے رہ، کیونکہ (یہاں) تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔ لوگوں نے کہا: اللہ گواہ ہے، ہاں (آپ ٹھیک کہتے ہیں) انہوں نے کہا: اللہ اکبر، اللہ بہت بڑا ہے۔ ان لوگوں نے (میرے شہید ہونے کی) گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں شہید ہوں۔


3639- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَنَّ عُثْمَانَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ حِينَ حَصَرُوهُ؛ فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلاً سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ الْجَبَلِ حِينَ اهْتَزَّ؛ فَرَكَلَهُ بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: " اسْكُنْ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدَانِ " وَأَنَا مَعَهُ، فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلاً شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ يَقُولُ: " هَذِهِ يَدُ اللَّهِ، وَهَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ " فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلاً سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ يَقُولُ مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً فَجَهَّزْتُ نِصْفَ الْجَيْشِ مِنْ مَالِي فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ يَزِيدُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ " فَاشْتَرَيْتُهُ مِنْ مَالِي، فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ رَجُلاً شَهِدَ رُومَةَ تُبَاعُ؛ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ مَالِي؛ فَأَبَحْتُهَا لابْنِ السَّبِيلِ؛ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۸۴۲)، حم (۱/۵۹) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۶۳۹- ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے، (وہ کہتے ہیں:) جب لوگوں نے عثمان رضی الله عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو عثمان نے مکان کے اوپر سے نیچے کی طرف جھانکتے ہوئے لوگوں سے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر اس شخص سے پوچھتا ہوں جس نے پہاڑ کے ہلنے والے دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا۔ جب پہاڑ ہلا تھا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے ٹھوکر لگا کر کہا تھا: ٹھہر ارہ (سکون سے رہ) تیرے اوپر ایک نبی، صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں (کوئی اور نہیں) اس وقت میں آپ کے ساتھ تھا (یہ سن کر) بہت سے لوگوں نے ان کی بات کی تصدیق کی، انہوں نے (پھر) کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر اسی شخص سے پوچھتا ہوں جو بیعت رضوان کے موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر) فرمایا تھا: '' یہ اللہ کا ہاتھ ہے اور یہ ہاتھ عثمان کا'' ۱؎، تو بہت سے لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ پھر انہوں نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر اسی شخص سے پوچھتا ہوں جس نے جیش عسرہ (تنگ حالی سے دوچار لشکر) کے دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کون ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا ایسا خرچ جس کی (بارگاہ الٰہی میں) قبولیت یقینی ہے۔ اس وقت میں نے اپنے ذاتی مال کو خرچ کر کے آدھے لشکر کی ضروریات کو پورا کر کے میدان جنگ میں شریک ہونے کے قابل بنایا تھا تو بے شمار لوگوں نے ان کی اس بات کی تصدیق کی۔ انہوں نے (پھر) کہا: میں اس شخص سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کون ہے جو جنت میں ایک گھر کے عوض اس مسجد (نبوی) میں توسیع کرتا ہے۔ میں نے (یہ سن کر مسجد سے ملی ہوئی زمین) اپنے پیسوں سے خرید کر مسجد کو کشادہ کر دیا، تو لوگوں نے ان کی اس بات کی بھی تصدیق کی۔ انہوں نے پھر کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر اس شخص سے پوچھتا ہوں جو بئر رومہ کی فروختگی کے وقت موجود تھا میں نے اسے اپنا مال دے کر خریدا تھا اور میں نے اسے مسافروں کے لیے عام کر دیا تھا (جو بھی گزرنے والا اس کا پانی پینا چاہے پیے) لوگوں نے ان کی اس بات کی بھی تصدیق کی۔
وضاحت ۱؎: یہاں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ''اللہ کا ہاتھ'' جو ارشاد فرمایا ہے تو اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم سورۃ الفتح کی آیت (۱۵) کی طرف اشارہ فرما رہے تھے: اللہ عزوجل نے فرمایا ہے: {إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ } (الفتح: 10) بلاشبہ جو لوگ اے ہمارے نبی! (حدیبیہ میں) بیعت کر رہے تھے وہ گویا اللہ رب العزت سے بیعت کر رہے تھے، اللہ عزوجل کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں کے اوپر تھا۔


3640- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوعَبْدِالرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السَّلَمِيِّ قَالَ: لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ فِي دَارِهِ اجْتَمَعَ النَّاسُ حَوْلَ دَارِهِ، قَالَ: فَأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: خ/الوصایا ۳۳ (۲۷۷۸) تعلیقًا ت/المناقب ۱۹ (۳۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۱۴) (صحیح)
۳۶۴۰- ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ جب عثمان رضی الله عنہ کا ان کے گھر میں محاصرہ کر دیا گیا اور لوگ ان کے گھر کے چاروں طرف اکٹھا ہو گئے تو انہوں نے اوپر سے جھانک کر انہیں دیکھا، اور عبدالرحمن نے (اوپر گزری ہوئی) پوری حدیث بیان کی۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

30-كِتَابُ الْوَصَايَا
۳۰-کتاب: وصیت کے احکام ومسائل


1-الْكَرَاهِيَةُ فِي تَأْخِيرِ الْوَصِيَّةِ
۱- باب: وصیت میں تاخیر مکروہ اور نا پسندیدہ کام ہے​


3641- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: " أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَى الْفَقْرَ، وَتَأْمُلُ الْبَقَائَ، وَلاتُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ قُلْتَ: لِفُلانٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلانٍ ".
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۵۴۳ (صحیح)
۳۶۴۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ اجر وثواب میں سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''تمہارا اس وقت صدقہ کرنا جب تندرست اور صحت مند ہو، تمہیں مال جمع کرنے کی حرص ہو، محتاج ہو جانے کا ڈر ہو اور تمہیں لمبی مدت تک زندہ رہنے کی امید ہو اور صدقہ کرنے میں جان نکلنے کے وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان حلق میں اٹکنے لگے تو کہو: فلاں کو اتنا دے دو، حالانکہ اب تو وہ فلاں ہی کاہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی مرتے وقت صدقہ دینے میں زیادہ ثواب نہیں ہے۔


3642- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَيُّكُمْ مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ؟ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا مِنَّا مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ مَالُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِ وَارِثِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اعْلَمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ مَالُكَ مَا قَدَّمْتَ وَمَالُ وَارِثِكَ مَا أَخَّرْتَ ".
* تخريج: خ/الرقاق ۱۲ (۶۴۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۹۲)، حم (۱/۳۸۲) (صحیح)
۳۶۴۲- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں کون شخص ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پسند ہے؟ '' لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر شخص کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''سمجھو اس بات کو، تم میں سے ہر شخص کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ عزیز ومحبوب ہے، تمہارا مال تو وہ ہے جوتم نے (مرنے سے پہلے اپنی آخرت میں کام آنے کے لیے) آگے بھیج دیا اور تمہارے وارث کا مال وہ ہے جو تم نے (مرنے کے بعد) اپنے پیچھے چھوڑ دیا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اپنی زندگی ہی میں کسی کو دے دلا دینا زیادہ بہتر ہے۔


3643- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: { أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمْ الْمَقَابِرَ } قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي؟ وَإِنَّمَا مَالُكَ مَا أَكَلْتَ؛ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ؛ فَأَبْلَيْتَ، أَوْ تَصَدَّقْتَ؛ فَأَمْضَيْتَ۔
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۵۸)، ت/الحج ۳۱ (۲۳۴۲)، تفسیر اتکاتر ۴۹ (۳۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۴۶)، حم (۴/۲۴، ۲۶) (صحیح)
۳۶۴۳- شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: { أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمْ الْمَقَابِرَ } (کثرت وزیادتی) کی چاہت نے تمہیں غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے) آپ نے فرمایا: ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال کہتا ہے؟ (لیکن حقیقت میں) تمہارا مال تو صرف وہ ہے جوتم نے کھا (پی) کر ختم کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ اور پرانا کر دیا یا صدقہ کر کے اسے آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔


3644-أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ سَمِعَ أَبَا حَبِيبَةَ الطَّائِيَّ، قَالَ: أَوْصَى رَجُلٌ بِدَنَانِيرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَسُئِلَ أَبُوالدَّرْدَائِ؛ فَحَدَّثَ عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَثَلُ الَّذِي يُعْتِقُ، أَوْ يَتَصَدَّقُ عِنْدَ مَوْتِهِ مَثَلُ الَّذِي يُهْدِي بَعْدَمَا يَشْبَعُ "۔
* تخريج: د/العتق ۱۵ (۳۹۶۸)، مختصراً ت/الوصایا ۷ (۲۱۲۳) مطولا، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۷۰)، حم (۵/۱۹۶، ۱۹۷و۶/۴۴۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابو حبیبہ'' لین الحدیث ہیں)
۳۶۴۴- ابو حبیبہ طائی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کچھ دینار اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی۔ تو ابو الدرداء رضی الله عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا: ''جو شخص اپنی موت کے وقت غلام آزاد کرتا ہے یا صدقہ وخیرات دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص پیٹ بھر کھا لینے کے بعد (بچا ہوا) کسی کو ہدیہ دے دے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: تو جیسے اس ہدیہ کا کوئی خاص ثواب اور اہمیت نہیں ہے ایسے ہی مرتے وقت غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، دے تو اس وقت دے جب خود کو بھی اس کی احتیاج اور ضرورت ہو۔


3645- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْئٌ يُوصَى فِيهِ، أَنْ يَبِيتَ لَيْلَتَيْنِ، إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۰۸۵) (صحیح)
۳۶۴۵- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان کے لئے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ضروری ہو مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی گزارے جس میں اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ''۔


3646- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْئٌ يُوصَى فِيهِ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "۔
* تخريج: خ/الوصایا ۱ (۲۷۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۸۲)، ط/الوصایا ۱ (۱)، حم (۲/۱۱۳) (صحیح)
۳۶۴۶- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان شخص کو جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے بارے میں اسے وصیت کرنی ہو یہ حق نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو''۔


3647- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَوْلَهُ۔
* تخريج: تفردبہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۵۱)، حم (۲/۱۰) (صحیح)
۳۶۴۷- اس سند سے یہ ابن عمر سے موقوفاً روایت ہے۔ (یعنی ابن عمر رضی الله عنہما کا قول)


3648- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: فَإِنَّ سَالِمًا أَخْبَرَنِي عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَمُرُّ عَلَيْهِ ثَلاَثُ لَيَالٍ، إِلاَّ وَعِنْدَهُ وَصِيَّتُهُ " قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ: مَا مَرَّتْ عَلَيَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ إِلاَّ وَعِنْدِي وَصِيَّتِي۔
* تخريج: م/الوصایا ۱ (۱۶۲۷م)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۰۰) (صحیح)
۳۶۴۸- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کی تین راتیں بھی ایسی گذریں کہ اس کے اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے اس وقت سے ہمیشہ میری وصیت میرے پاس رہتی ہے۔


3649- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْوَزِيرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْئٌ يُوصَى فِيهِ؛ فَيَبِيتُ ثَلاثَ لَيَالٍ، إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ مَكْتُوبَةٌ "۔
* تخريج: م/الوصایا ۱ (۱۶۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۹۶) (صحیح)
۳۶۴۹- عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں وصیت کرنی ضروری ہو پھر بھی وہ تین راتیں بھی اس طرح گزار ے کہ اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجب حق ہو جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض اور امانت وغیرہ تو ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ وصیت کرے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-هَلْ أَوْصَى النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟
۲-باب: کیا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟​


3650- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا طَلْحَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لاَ، قُلْتُ: كَيْفَ كَتَبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةَ؟ قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ۔
* تخريج: خ/الوصایا ۱ (۲۷۴۰)، المغازي ۸۳ (۴۴۶۰)، فضائل القرآن ۱۸ (۵۰۲۲)، م/الوصایا ۵ (۱۶۳۴)، ت/الوصایا ۴ (۲۱۱۹)، ق/الوصایا ۱ (۲۶۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۰)، حم (۴/۳۵۴، ۳۵۵، ۳۸۱)، دي/الوصیۃ ۳ (۳۲۲۴) (صحیح)
۳۶۵۰- طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ کہا: نہیں ۱؎، میں نے کہا: پھر مسلمانوں پر وصیت کیسے فرض کر دی؟ کہا: آپ نے اللہ کی کتاب سے وصیت کو ضروری قرار دیا ہے ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی دنیا کے متعلق کوئی وصیت نہیں کی کیونکہ آپ نے ایسا کوئی مال چھوڑا ہی نہیں تھا جس میں وصیت کرنے کی ضرورت پیش آتی، رہی مطلق وصیت تو آپ نے کئی باتوں کی وصیت فرمائی ہے۔
وضاحت ۲؎: اشارہ ہے آیت کریمہ: {كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِي} کی طرف، یعنی اس آیت کی بنا پر آپ نے وصیت کو فرض قرار دیا۔


3651- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا، وَلاَ دِرْهَمًا، وَلاَ شَاةً، وَلاَ بَعِيرًا، وَلاَ أَوْصَى بِشَيْئٍ۔
* تخريج: م/الوصایا ۶ (۱۶۳۵)، د/الوصایا ۱ (۲۸۶۳)، ق/الوصایا ۱ (۲۶۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۱۰)، حم (۶/۴۴)، ویأتي فیما یلي (صحیح)
۳۶۵۱- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (موت کے وقت) نہ دینار چھوڑا، نہ درہم، نہ بکری چھوڑی، نہ اونٹ اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی۔


3652- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُصْعَبٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْهَمًا، وَلاَ دِينَارًا، وَلاَشَاةً، وَلاَ بَعِيرًا، وَمَا أَوْصَى۔
* تخريج: انطر ما قبلہ (صحیح)
۳۶۵۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نہ دینار چھوڑا، نہ درہم، نہ بکری چھوڑی، نہ اونٹ اور نہ ہی وصیت فرمائی۔


3653- أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْهُذَيْلِ وَأَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْهَمًا، وَلاَ دِينَارًا، وَلاَ شَاةً، وَلاَ بَعِيرًا، وَلاَأَوْصَى، لَمْ يَذْكُرْ جَعْفَرٌ دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۶۷) (صحیح)
۳۶۵۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نہ درہم چھوڑا، نہ دینار، نہ بکری چھوڑی اور نہ اونٹ اور نہ ہی وصیت فرمائی۔ (اس روایت کے دونوں راویوں میں سے ایک راوی جعفر بن محمد بن ہذیل نے اپنی روایت میں دینار اور درہم کا ذکر نہیں کیا ہے۔


3654- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: يَقُولُونَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَقَدْ دَعَا بِالطَّسْتِ لِيَبُولَ فِيهَا؛ فَانْخَنَثَتْ نَفْسُهُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَشْعُرُ؛ فَإِلَى مَنْ أَوْصَى؟۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۳ (صحیح)
۳۶۵۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے علی کو وصیت کی (اس وقت آپ کی حالت اتنی خراب تھی کہ) آپ نے پیشاب کرنے کے لیے طشت منگوایا کہ اتنے میں آپ کا جسم لڑھک گیا (روح پرواز کر گئی) اور میں نہ جان سکی تو آپ نے کس کو وصیت کی؟ ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کی روح پرواز کر گئی، اس وقت تک میں وہاں موجود تھی پھر آخر کون ہے جسے وصی بنایا گیا؟ البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے کتاب وسنت سے متعلق وصیت انتقال سے کچھ روز پہلے کی ہو اور یہ وصیت کسی کے ساتھ خاص نہیں ہو سکتی بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔


3655- أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَارِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ عِنْدَهُ أَحَدٌ غَيْرِي، قَالَتْ: وَدَعَا بِالطَّسْتِ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۳ (صحیح)
۳۶۵۵- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے وقت میرے سوا آپ کے پاس کوئی اور نہ تھا اس وقت آپ نے (پیشاب کے لیے) طشت منگا رکھا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ
۳-باب: تہائی مال کی وصیت کرنے کا بیان​


3656- أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرِضْتُ مَرَضًا أَشْفَيْتُ مِنْهُ؛ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي؛ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي مَالاَ كَثِيرًا، وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَتِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي، قَالَ: لاَقُلْتُ: فَالشَّطْرَ، قَالَ: لاَ، قُلْتُ: فَالثُّلُثَ، قَالَ: الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ لَهُمْ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً، يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۶ (۱۲۹۵) مطولا، مناقب الأنصار ۴۹ (۳۹۳۶)، المغازي ۷۷ (۴۳۹۵)، النفقات ۱ (۵۳۵۴)، المرضی۱۳ (۵۶۵۹)، ۱۶ (۵۶۶۸)، الدعوات ۴۳ (۶۳۷۳)، الفرائض ۶ (۶۷۳۳)، م/ الوصایا ۲ (۲۱۱۶)، د/الوصایا ۲ (۲۸۶۴)، ت/الجنائز ۶ (۹۷۵)، الوصایا ۱ (۲۱۱۷)، ق/الوصایا ۵ (۲۷۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۰)، ط/الوصایا۳ (۴)، حم (۱/۱۶۸، ۱۷۲، ۱۷۶، ۱۷۹)، دي/الوصایا ۷ (۳۲۳۹) (صحیح)
۳۶۵۶- سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا ایسا بیمار کہ مرنے کے قریب آلگا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے اور ایک بیٹی کے علاوہ میرا کوئی وارث نہیں، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے جواب دیا: نہیں۔ میں نے کہا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: تو ایک تہائی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں ایک تہائی، حالاں کہ یہ بھی زیادہ ہی ہے '' تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھر یں ''۔


3657- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ وَأَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ - وَاللَّفْظُ لأَحْمَدَ - قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: جَائَنِي النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَنَا بِمَكَّةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: لاَ! قُلْتُ: فَالشَّطْرَ؟ قَالَ: لاَ! قُلْتُ: فَالثُّلُثَ؟ قَالَ: الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً، يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، يَتَكَفَّفُونَ فِي أَيْدِيهِمْ۔
* تخريج: خ/الوصایا ۲ (۲۷۴۲) مطولا، النفقات ۱ (۵۳۵۴) مطولا، م/الوصایا ۲ (۱۶۲۸م)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۸۰)، حم (۱/۱۷۲، ۱۷۳) (صحیح)
۳۶۵۷- سعد بن ابی وقاس رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے اور میں ان دنوں مکے میں تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا: آدھے مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ نے فرمایا: '' ہاں، ایک تہائی دے دو، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں تنگدست چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور لوگوں سے جو ان کے ہاتھ میں ہے مانگتے پھریں ''۔


3658- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ وَهُوَ بِمَكَّةَ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّذِي هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَائَ، أَوْ يَرْحَمُ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَائَ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ إِلا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، قَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: لاَ، قُلْتُ: النِّصْفَ؟ قَالَ: لاَ، قُلْتُ: فَالثُّلُثَ؟ قَالَ: الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً، يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۶۵۸- سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (وہ مکہ میں بیمار پڑے تو) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لاتے تھے، وہ اس سرزمین میں جہاں سے وہ ہجرت کر کے جا چکے تھے مرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی: سعد بن عفراء پر اللہ کی رحمت نازل ہو، (سعد کی صرف ایک بیٹی تھی)، سعد رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں دینے کی) وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں '' میں نے کہا: آدھے مال کی، اللہ کی راہ میں وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں '' میں نے کہا: تو ایک تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''تہائی کی وصیت کر دو، ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج اور پریشان حال بنا کر اس دنیا سے جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ''۔


3659- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ آلِ سَعْدٍ قَالَ: مَرِضَ سَعْدٌ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: لاَ! وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۹۵۰)، (حم ۱/۷۲) (صحیح)
۳۶۵۹- سعد بن ابراہیم کہتے ہیں: آل سعد میں سے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ سعد بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس تشریف لائے، تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں دینے) وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں ''، اور انہوں نے پوری حدیث بیان کی۔


3660- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ اشْتَكَى بِمَكَّةَ؛ فَجَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ بَكَى، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمُوتُ بِالأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا، قَالَ: لاَ، إِنْ شَائَ اللَّهُ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: لاَ، قَالَ: يَعْنِي بِثُلُثَيْهِ، قَالَ: لاَ، قَالَ: فَنِصْفَهُ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَثُلُثَهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ بَنِيكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۸۷۶)، حم (۱/۱۸۴) (صحیح)
۳۶۶۰- سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ مکہ میں بیمار پڑے تو (ان کی بیمار پرسی کے لیے) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، وہ آپ کو دیکھ کر رو پڑے، کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی سرزمین میں مر رہا ہوں جہاں سے ہجرت کر کے جا چکا ہوں، آپ نے فرمایا: نہیں، ان شاء اللہ (تم یہاں نہیں مرو گے)۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں! انہوں نے کہا: دو تہائی کی دے دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں ''، انہوں نے کہا: آدھا دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں '' انہوں نے کہا: تو تہائی کی وصیت کر دوں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اچھا ایک تہائی کی وصیت کر دو، ایک تہائی بھی زیادہ ہے''۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمہارا اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ''۔


3661- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِي؛ فَقَالَ: " أَوْصَيْتَ؟ " قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " بِكَمْ؟ " قُلْتُ: بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: "فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ؟ " قُلْتُ: هُمْ أَغْنِيَائُ، قَالَ: " أَوْصِ بِالْعُشْرِ "؛ فَمَا زَالَ يَقُولُ وَأَقُولُ، حَتَّى قَالَ: " أَوْصِ بِالثُّلُثِ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، أَوْ كَبِيرٌ "۔
* تخريج: ت/الجنائز ۶ (۹۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۸)، حم (۱/۱۷۴) (ضعیف)
(مولف کی یہ سند عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر پچھلی سند صحیح ہے)
۳۶۶۱- سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری بیماری میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے پاس بیمار پرسی کرنے آئے۔ آپ نے فرمایا: ''تم نے وصیت کر دی؟ ''میں نے کہا: ہاں کر دی، آپ نے کہا: ''کتنی؟ ''میں نے کہا: اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔ آپ نے پوچھا: '' اپنی اولاد کیلئے کیا چھوڑا؟ '' میں نے کہا: وہ سب مالدار و بے نیاز ہیں، آپ نے فرمایا: '' دسویں حصے کی وصیت کرو''، پھر برابر آپ یہی کہتے رہے اور میں بھی کہتا رہا ۱؎ آپ نے کہا: '' اچھا تہائی کی وصیت کر لو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے''۔
وضاحت ۱؎: یعنی میں نے کل مال میں سے دو تہائی کہا، آپ نے کہا: نہیں، میں نے آدھا کہا، آپ نے کہا: نہیں، میں نے کہا: تہائی؟۔


3662- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَهُ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: لا! قَالَ: فَالشَّطْرَ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَالثُّلُثَ؟ قَالَ: " الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، أَوْ كَبِيرٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۹۰۶)، حم (۱/۱۷۲) (صحیح)
۳۶۶۲- سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی بیماری میں ان کی عیادت کی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے کہا: نہیں! کہا: آدھے کی کر دوں؟ آپ نے کہا: نہیں! کہا: تہائی کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''ایک تہائی کی کر دو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے''۔


3663- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْفَحَّامُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى سَعْدًا يَعُودُهُ؛ فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَأُوصِي بِالنِّصْفِ، قَالَ: لاَ، قَالَ: فَأُوصِي بِالثُّلُثِ! قَالَ: " نَعَمْ، الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، أَوْ كَبِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ فُقَرَائَ يَتَكَفَّفُونَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۳۴) (صحیح)
۳۶۶۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کی عیادت کے لیے ان کے پاس آئے، سعد رضی الله عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصے اللہ کی راہ میں دے دینے کا حکم (یعنی اجازت) دے دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ''نہیں! ''، انہوں نے کہا: تو پھر ایک تہائی کی وصیت کر دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ''ہاں، ایک تہائی ہو سکتا ہے، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے، (آپ نے مزید فرمایا) اگر تم اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر (اس دنیا سے) جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں فقیر بنا کر جاؤ کہ وہ (دوسروں کے سامنے) ہاتھ پھیلاتے پھریں ''۔


3664- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَى الرُّبُعِ، لأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، أَوْ كَبِيرٌ"۔
* تخريج: خ/الوصایا ۳ (۲۷۴۳)، م/الوصایا ۱ (۱۶۲۹)، ق/الوصایا ۵ (۲۷۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۷۶)، حم (۱/۲۳۰، ۲۳۳) (صحیح)
۳۶۶۴- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ لوگ اگر وصیت کو ایک چوتھائی تک کم کریں (تو مناسب ہے) کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے۔


3665- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ لِي وَلَدٌ، إِلاَّ ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ "، قَالَ: فَأُوصِي بِنِصْفِهِ، قَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ "، قَالَ: فَأُوصِي بِثُلُثِهِ؟ قَالَ: " الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۹۲۷)، حم (۱/۱۷۲، ۱۷۳)، دي/الوصیۃ ۷ (۳۲۳۸) (صحیح)
۳۶۶۵- سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ ۱؎ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت وہ بیمار تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) میری کوئی اولاد (نرینہ) نہیں ہے، صرف ایک بچی ہے۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں ''، انہوں نے کہا: آدھے کی وصیت کر دوں؟ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں ''، انہوں نے کہا: تو میں ایک تہائی مال کی وصیت کرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ''ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے''۔
وضاحت ۱؎: سعد بن مالک ہی سعد بن ابی وقاص ہیں، والد کا نام مالک اور کنیت ابو سعد ہے۔


3666- أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ، وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا، فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقُلْتُ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ دَيْنًا كَثِيرًا، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَائُ، قَالَ: اذْهَبْ؛ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ؛ فَفَعَلْتُ، ثُمَّ دَعَوْتُهُ؛ فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّمَا أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ؛ فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " ادْعُ أَصْحَابَكَ " فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي وَأَنَا رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، لَمْ تَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً۔
* تخريج: خ/البیوع ۵۱ (۲۱۲۷)، الاستقراض ۸ (۲۳۹۵)، ۱۸ (۲۴۰۵)، الہبۃ ۲۱ (۲۶۰۱)، الوصایا ۳۶ (۲۷۸۱)، المناقب ۲۵ (۳۵۸۰)، المغازي ۱۸ (۴۰۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۴۴)، ویأتی فیما یلي: ۳۶۶۷، ۳۶۶۸ و۳۶۷۰ (صحیح)
۳۶۶۶- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ ان کے والد ۱؎ اپنے پیچھے چھ بیٹیاں اور قرض چھوڑ کر جنگ احد میں شہید ہو گئے، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا تومیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد جنگ احد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو (وہاں موجود) دیکھیں (تاکہ مجھ سے وصول کرنے کے سلسلے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: ''جاؤ اور ہر ڈھیر الگ الگ کر دو''، تو میں نے (ایسا ہی) کیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو بلا یا، جب ان لوگوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا تو اس گھڑی گویا وہ لوگ مجھ پر اور بھی زیادہ غصہ ہو گئے ۲؎ جب آپ نے ان لوگوں کی حرکتیں جو وہ کر رہے تھے دیکھیں تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے ارد گرد تین چکر لگائے پھر اسی ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: ''اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ جب وہ لوگ آ گئے تو آپ انہیں برابر (ان کے مطالبے کے بقدر) ناپ ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کرا دی اور میں اس پر راضی وخوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کر دی اور ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی۔
وضاحت ۱؎: یعنی عبد اللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی الله عنہ۔
وضاحت ۲؎: یعنی اپنا اپنا مطالبہ لے کر شور برپا کرنے لگے کہ ہمیں دو، ہمارا حساب پہلے چکتا کرو وغیرہ وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب قَضَائِ الدَّيْنِ قَبْلَ الْمِيرَاثِ وَذِكْرِ اخْتِلافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ جَابِرٍ فِيهِ
۴-باب: میراث کی تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی کا بیان اور اس سلسلہ میں جابر رضی الله عنہ کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف الفاظ کا ذکر​


3667- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلاَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ - وَهُوَ الأَزْرَقُ - قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ، وَعَلَيْهِ دَيْنٌ؛ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، وَلَمْ يَتْرُكْ إِلاَّ مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ، وَلاَ يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ مَا عَلَيْهِ مِنْ الدَّيْنِ، دُونَ سِنِينَ؛ فَانْطَلِقْ مَعِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! لِكَيْ لايُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَّامُ؛ فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدُورُ بَيْدَرًا، بَيْدَرًا؛ فَسَلَّمَ حَوْلَهُ، وَدَعَا لَهُ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، وَدَعَا الْغُرَّامَ فَأَوْفَاهُمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَخَذُوا۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۶۷- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا، میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا اور کھجوروں کے باغ کی آمدنی کے سوا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور کئی سالوں کی باغ کی آمدنی کے بغیر یہ قرض ادا نہ ہو سکے گا، اللہ کے رسول! میرے ساتھ چلئے تاکہ قرض خواہ لوگ مجھے برا بھلا نہ کہیں، چنانچہ آپ کھجور کی ایک ایک ڈھیر کے ارد گرد گھومے اور اس کے آس پاس سلام کیا اس کے لیے دعا فرمائی اور پھر اسی پر بیٹھ گئے اور قرض خواہوں کو بلایا اور انہیں (ان کا حق) پورا پورا دیا اور جتنا وہ لے گئے اتنا ہی بچ رہا۔


3668- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ، قَالَ: وَتَرَكَ دَيْنًا؛ فَاسْتَشْفَعْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى غُرَمَائِهِ: أَنْ يَضَعُوا مِنْ دَيْنِهِ شَيْئًا؛ فَطَلَبَ إِلَيْهِمْ؛ فَأَبَوْا؛ فَقَالَ لِي النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اذْهَبْ؛ فَصَنِّفْ تَمْرَكَ أَصْنَافًا: الْعَجْوَةَ عَلَى حِدَةٍ، وَعِذْقَ ابْنِ زَيْدٍ عَلَى حِدَةٍ، وَأَصْنَافَهُ، ثُمَّ ابْعَثْ إِلَيَّ "، قَالَ: فَفَعَلْتُ؛ فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَجَلَسَ فِي أَعْلاَهُ، أَوْ فِي أَوْسَطِهِ، ثُمَّ قَالَ: " كِلْ لِلْقَوْمِ، قَالَ: فَكِلْتُ لَهُمْ، حَتَّى أَوْفَيْتُهُمْ، ثُمَّ بَقِيَ تَمْرِي كَأَنْ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيْئٌ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۶۶۶ (صحیح)
۳۶۶۸- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی الله عنہ انتقال فرما کر گئے اور (اپنے ذمہ لوگوں کا) قرض چھوڑ گئے تو میں نے ان کے قرض خواہوں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ قرض میں کچھ کمی کر دینے کی سفارش کرائی تو آپ نے ان سے کم کرانے کی گزارش کی، لیکن وہ نہ مانے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ''جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کو الگ الگ کر دو، عجوہ کو علیحدہ رکھو اور عذق بن زید اور دوسری قسموں کو الگ الگ کرے کے رکھو۔ پھر مجھے بلاؤ، تو میں نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لے آئے اور سب سے اونچی والی ڈھیر پر یا بیچ والی ڈھیر پر بیٹھ گئے، پھر آپ نے فرمایا: '' لوگوں کو ناپ ناپ کر دو''، جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: تو میں انہیں ناپ ناپ کر دینے لگا یہاں تک کہ میں نے سبھی کو پورا پورا دے دیا پھر بھی میری کھجوریں بچی رہیں، ایسا لگتا تھا کہ میری کھجوروں میں کچھ بھی کمی نہیں آئی ہے۔


3669- أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَرَمِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَانَ لِيَهُودِيٍّ عَلَى أَبِي تَمْرٌ؛ فَقُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ حَدِيقَتَيْنِ، وَتَمْرُ الْيَهُودِيِّ يَسْتَوْعِبُ مَا فِي الْحَدِيقَتَيْنِ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ أَنْ تَأْخُذَ الْعَامَ نِصْفَهُ وَتُؤَخِّرَ نِصْفَهُ؟ " فَأَبَى الْيَهُودِيُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلْ لَكَ أَنْ تَأْخُذَ الْجِدَادَ فَآذِنِّي" فَآذَنْتُهُ فَجَائَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ؛ فَجَعَلَ يُجَدُّ وَيُكَالُ مِنْ أَسْفَلِ النَّخْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِالْبَرَكَةِ، حَتَّى وَفَيْنَاهُ جَمِيعَ حَقِّهِ مِنْ أَصْغَرِ الْحَدِيقَتَيْنِ - فِيمَا يَحْسِبُ عَمَّارٌ - ثُمَّ أَتَيْتُهُمْ بِرُطَبٍ وَمَائٍ؛ فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا، ثُمَّ قَالَ: "هَذَا مِنْ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۰۱)، حم ۳/۳۳۸، ۳۵۱، ۳۹۱) (صحیح الإسناد)
۳۶۶۹- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد کے ذمہ ایک یہودی کی کھجوریں تھیں، اور وہ جنگ احد میں قتل کر دیے گئے اور کھجوروں کے دو باغ چھوڑ گئے، یہودی کی کھجوریں دو باغوں کی کھجوریں ملا کر پوری پڑ رہی تھیں تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (یہودی سے) فرمایا: ''کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم اس سال اپنے قرض کا آدھا لے لو اور آدھا دیر کر کے (اگلے سال) لے لو؟ یہودی نے (ایسا کرنے سے) انکار کر دیا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (مجھ سے فرمایا:) کیا تم پھل توڑتے وقت مجھے خبر کر سکتے ہو؟ تو میں نے آپ کو پھل توڑتے وقت خبر کر دی تو آپ اور ابوبکر رضی الله عنہ تشریف لائے اور (کھجور کے) نیچے سے نکال کر الگ کرنے اور ناپ ناپ کر دینے لگے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم برکت کی دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ چھوٹے باغ ہی کے پھلوں سے اس کے پورے قرض کی ادائیگی کر دی، پھر میں ان دونوں حضرات کے پاس (بطور تواضع) تازہ کھجوریں اور پانی لے کر آیا، تو ان لوگوں نے کھایا پیا پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق تم لوگوں سے پوچھ تاچھ ہوگی''۔


3670- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ حَدِيثِ عَبْدِالْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ وَهْبِ ابْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائِهِ أَنْ يَأْخُذُوا الثَّمَرَةَ بِمَا عَلَيْهِ، فَأَبَوْا، وَلَمْ يَرَوْا فِيهِ وَفَائً؛ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: إِذَا جَدَدْتَهُ؛ فَوَضَعْتَهُ فِي الْمِرْبَدِ؛ فَآذِنِّي؛ فَلَمَّا جَدَدْتُهُ وَوَضَعْتُهُ فِي الْمِرْبَدِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَجَائَ وَمَعَهُ أَبُوبَكْرٍ وَعُمَرُ؛ فَجَلَسَ عَلَيْهِ، وَدَعَا بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ: " ادْعُ غُرَمَائَكَ فَأَوْفِهِمْ " قَالَ: فَمَا تَرَكْتُ أَحَدًا لَهُ عَلَى أَبِي دَيْنٌ إِلاَّ قَضَيْتُهُ، وَفَضَلَ لِي ثَلاَثَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَضَحِكَ، وَقَالَ: ائْتِ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَأَخْبِرْهُمَا ذَلِكَ؛ فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُمَا؛ فَقَالاَ: قَدْ عَلِمْنَا إِذْ صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا صَنَعَ أَنَّهُ سَيَكُونُ ذَلِكَ۔
* تخريج: خ/الإستقراض ۹ (۲۳۹۶)، الصلح ۱۳ (۲۷۰۹)، د/الوصایا ۱۷ (۲۸۸۴)، مختصراً ق/الصدقات ۲۰ (۲۴۳۴)، تحفۃ الأشراف: ۳۱۲۶) (صحیح)
۳۶۷۰- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد (غزوئہ احد میں) انتقال کر گئے اور ان کے ذمہ قرض تھا تو میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ والد کے ذمہ ان کا جو حق ہے اس کے بدلے (ہمارے باغ کی) کھجوریں لے لیں تو انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا، وہ سمجھتے تھے کہ اتنی کھجوریں ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہیں تو میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم کھجوریں توڑ کر کھلیان میں رکھ دو تو مجھے خبر کرو''، چنانچہ جب میں نے کھجوریں توڑ کر انھیں کھلیان میں رکھ دیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا (اور آپ کو بتایا) آپ آئے، آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی تھے، آپ اس پر بیٹھ گئے اور برکت کی دعا فرمائی پھر فرمایا: ''اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور انہیں ان کا حق پورا پورا دیتے جاؤ'' تو میں نے کسی کو بھی جس کا میرے باپ پر قرض تھا نہیں چھوڑا، سب کو اس کا پورا پورا حق دے دیا اور میرے لیے تیرہ وسق کھجوریں بھی بچ رہیں، جب میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ہنسے اور فرمایا: ''ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے پاس جاؤ اور انہیں بھی یہ بات بتاؤ''، تو میں نے ان دونوں کو بھی اس بات کی خبر دی، تو ان دونوں نے کہا: جب ہم نے آپ کو وہ کرتے دیکھا جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا تو ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-بَابُ إِبْطَالِ الْوَصِيَّةِ لِلْوَارِثِ
۵- باب: وارث کے لئے وصیت باطل ہے​


3671- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غُنْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، وَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ "۔
* تخريج: ت/الوصایا ۵ (۲۱۲۱) مطولا، ق/الوصایا ۶ (۲۷۱۲) مطولا، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۱)، حم (۴/۱۸۶، ۱۸۷، ۲۳۸، ۲۳۹)، دي/الوصیۃ ۲۸ (۳۳۰۳) (صحیح)
۳۶۷۱- عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (تو تم سمجھ لو) وارث کے لیے وصیت نہیں ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کا حق دے دیا ہے، اور اس کے حصے متعین کر دیے ہیں۔


3672- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ أَنَّ ابْنَ غُنْمٍ ذَكَرَ أَنَّ ابْنَ خَارِجَةَ ذَكَرَ لَهُ أَنَّهُ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَإِنَّهَا لَتَقْصَعُ بِجَرَّتِهَا، وَإِنَّ لُعَابَهَا لَيَسِيلُ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خُطْبَتِهِ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ قَسَّمَ لِكُلِّ إِنْسَانٍ قِسْمَهُ مِنْ الْمِيرَاثِ، فَلاَ تَجُوزُ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ "۔
* تخريج: (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۱)، انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۶۷۲- عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ نے ذکر کیا کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اس خطبہ میں موجود تھے جو آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر دے رہے تھے، سواری جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے میراث سے ہر انسان کا حصہ تقسیم فرما دیا ہے تو کسی وارث کے لیے وصیت کرنا درست اور جائز نہیں ہے''۔


3673- أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ اسْمُهُ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، وَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ "۔
* تخريج: (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۱)، انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۶۷۳- عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، اور کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6-بَاب إِذَا أَوْصَى لِعَشِيرَتِهِ الأَقْرَبِينَ
۶-باب: اپنے قریبی خاندان والوں کے لیے وصیت کا بیان​


3674- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } دَعَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا؛ فَاجْتَمَعُوا؛ فَعَمَّ وَخَصَّ؛ فَقَالَ: " يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ! يَابَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ! يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ! وَيَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ! وَيَا بَنِي هَاشِمٍ! وَيَا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ، وَيَا فَاطِمَةُ! أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنْ النَّارِ! إِنِّي لاَأَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبِلاَلِهَا "۔
* تخريج: م/الإیمان ۸۹ (۲۰۴)، ت/تفسیرسورۃ الشعراء ۲ (۳۱۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۲۳)، حم (۲/۳۳۳، ۳۶۰، ۵۱۹) (صحیح)
۳۶۷۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ }نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قریش کو بلایا چنانچہ قریش سبھی لوگ اکٹھا ہو گئے، تو آپ نے عام وخاص سبھوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ''اے بنی کعب بن لوئی! اے بنی مرہ بن کعب! اے بنی عبد شمس! اے بنی عبد مناف! اے بنی ہاشم اور اے بنی عبدالمطلب! تم سب اپنے آپ کو آگ سے بچالو اور اے فاطمہ (بنت محمد) تم اپنے آپ کو آگ سے بچا لو کیونکہ میں اللہ کے عذاب کے سامنے تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتا سوائے اس کے کہ ہمارا تم سے رشتہ داری ہے جو میں (دنیا میں) اس کی تری سے تر رکھوں گا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ برابر صلہ رحمی کرتا رہوں گا۔


3675- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْحَاقَ - عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ! اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ، إِنِّي لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ! اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ، إِنِّي لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، وَلَكِنْ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ رَحِمٌ، أَنَا بَالُّهَا بِبِلاَلِهَا "۔
* تخريج: خ/الوصایا ۱۱ (۲۷۵۳ تعلیقًا)، تفسیرسورۃ الشعراء ۲ (۴۷۷۱تعلیقًا)، م/الإیمان ۸۹ (۲۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۴۸، ۱۵۲۲۸) (صحیح)
۳۶۷۵- موسی بن طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے بنی عبد مناف! اپنی جانوں کو اپنے رب سے (اپنے اعمال حسنہ کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا لینے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا، اے عبدالمطلب کی اولاد! اپنی جانوں کو اپنے رب سے (اپنے نیک اعمال کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا لینے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا، البتہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرابت داری ہے، تو میں اس کی تری اسے تروتازہ اور زندہ رکھنے کی کوشش کروں گا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: دنیا میں تمہارے ساتھ برابر صلہ رحمی کرتا رہوں گا۔


3676- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حِينَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } قَالَ: يَامَعْشَرَ قُرَيْشٍ! اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ اللَّهِ، لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لاَ أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَاصَفِيَّةُ! عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَافَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ! سَلِينِي مَا شِئْتِ، لاَأُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۶۷۴ (صحیح)
۳۶۷۶- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر جب آیت: { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } (آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا: ''اے قریش کی جماعت! تم! اپنی جانوں کو اللہ سے (اس کی اطاعت کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے بنی عبدالمطلب! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے کچھ بھی نجات نہیں دلا سکتا، اے صفیہ! (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی پھوپھی) میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے فاطمہ بنت محمد! تمہیں جو کچھ بھی مانگنا ہو مانگ لو، لیکن (یہ جان لو کہ) میں اللہ کے پاس تمہارے کچھ بھی کام نہ آؤں گا''۔


3677- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حِينَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } فَقَالَ: يَامَعْشَرَ قُرَيْشٍ! اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ اللَّهِ، لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ! لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لاَ أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، يَا فَاطِمَةُ! سَلِينِي مَا شِئْتِ لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا۔
* تخريج: خ/الوصایا ۱۱ (۲۷۵۳)، تفسیر سورۃ الشعر ۲ (۴۷۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۵۶)، دي/الرقاق ۳۷ (۲۷۹۲) (صحیح)
۳۶۷۷- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } (اے محمد! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: '' اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو اللہ سے (اس کی اطاعت کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے بنی عبد مناف! میں اللہ کے یہاں تمہارے کچھ بھی کام نہ آ سکوں گا، اے عباس بن عبدالمطلب! اللہ کے یہاں میں تمہارے بھی کچھ کام نہ آ سکوں گا، اے صفیہ! (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی پھوپھی)، میں اللہ کے یہاں تمہیں بھی کوئی فائدہ پہنچا نہ سکوں گا، اے فاطمہ! تمہیں جو کچھ بھی مانگنا ہے مجھ سے مانگو، لیکن میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی فائدہ پہنچا نہ سکوں گا''۔


3678- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ - وَهُوَ ابْنُ عُرْوَةَ - عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَافَاطِمَةُ ابْنَةَ مُحَمَّدٍ! يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! يَابَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۳۰) (صحیح)
۳۶۷۸- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت کریمہ: { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے فاطمہ بنت محمد! اے صفیہ بنت عبدالمطلب! اور اے بنی عبدالمطلب! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی فائدہ پہنچا نہ سکوں گا، میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو ۱؎ ''۔
وضاحت ۱؎: اس لیے آخرت کے عذاب سے بچنے کی تدبیر خود تمہیں ہی کرنی ہے، میرے سہارے رہو گے تو نقصان اٹھاؤ گے کیونکہ میری قرابت داری کچھ کام نہ آئے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7-إِذَا مَاتَ الْفَجْأَةَ هَلْ يُسْتَحَبُّ لأَهْلِهِ أَنْ يَتَصَدَّقُوا عَنْهُ
۷- باب: کیا اچانک مر جانے والے کی طرف سے اس کے گھر والوں کا صدقہ کرنا مستحب ہے؟​


3679- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلاَ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَإِنَّهَا لَوْتَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ " فَتَصَدَّقَ عَنْهَا۔
* تخريج: خ/الوصایا ۱۹ (۲۷۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۶۱)، ط/الاقضیۃ ۴۱ (۵۳)، حم (۶/۵۱) (صحیح)
۳۶۷۹- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کہاـ: میری ماں اچانک مر گئی، وہ اگر بول سکتیں تو صدقہ کرتیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہاں ''، تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعا واستغفار اور مالی عبادات مثلاً صدقہ وخیرات، حج وعمرہ وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، اس سلسلہ میں کتاب وسنت میں دلائل موجود ہیں، امام ابن القیم رحمہ اللہ نے'' کتاب الروح'' میں بہت تفصیلی بحث کی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ تمام ائمہ اسلام اس امر پر متفق ہیں کہ میت کے حق میں جو بھی دعا کی جائے اور اسکی جانب سے جو بھی مالی عبادت کی جائے اس کا پورا پورا فائدہ اس کو پہنچتا ہے، کتاب وسنت میں اس کی دلیل موجود ہے اور اجماع سے بھی ثابت ہے، اس کی مخالفت کرنے والے کا شمار اہل بدعت میں سے ہو گا۔ البتہ بدنی عبادات کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔


3680- أَنْبَأَنَا الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: خَرَجَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ مَعَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، وَحَضَرَتْ أُمَّهُ الْوَفَاةُ بِالْمَدِينَةِ؛ فَقِيلَ لَهَا: أَوْصِي! فَقَالَتْ: فِيمَ أُوصِي؟ الْمَالُ مَالُ سَعْدٍ؛ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ سَعْدٌ؛ فَلَمَّا قَدِمَ سَعْدٌ ذُكِرَ ذَلِكَ لَهُ؛ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلْ يَنْفَعُهَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ " فَقَالَ سَعْدٌ: حَائِطُ كَذَا وَكَذَا صَدَقَةٌ عَنْهَا، لِحَائِطٍ سَمَّاهُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۸۳۸، ۴۴۷۱)، ط/الأقضیۃ ۴۱ (۵۲)، حم (۶/۷) (حسن صحیح)
۳۶۸۰- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ مدینہ میں ان کی ماں کے انتقال کا وقت آ پہنچا، ان سے کہا گیا کہ وصیت کر دیں، تو انہوں نے کہا: میں کس چیز میں وصیت کروں؟ جو کچھ مال ہے وہ سعد کا ہے، سعد کے ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، جب سعد رضی الله عنہ آ گئے تو ان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! اگر میں ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کروں تو کیا انہیں فائدہ پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں ''، سعد رضی الله عنہ نے کہا: فلاں باغ ایسے اور ایسے ان کی طرف سے صدقہ ہے، اور باغ کا نام لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8-فَضْلُ الصَّدَقَةِ عَنْ الْمَيِّتِ
۸-باب: میت کی طرف سے صدقہ وخیرات کی فضیلت کا بیان​


3681- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ، إِلاَّ مِنْ ثَلاثَةٍ: مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، وَعِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، وَوَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ "۔
* تخريج: م/الوصایا ۳ (۱۶۳۱)، ت/الأحکام ۳۶ (۱۳۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۵)، وقد أخرجہ: د/الوصایا ۱۴ (۲۸۸۰)، حم۲/۳۱۶، ۳۵۰، ۳۷۲، دی/المقدمۃ۴۶ (۵۷۸) (صحیح)
۳۶۸۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل بھی ختم ہو جاتا ہے سوائے تین عمل کے (جن سے اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے) ایک صدقہ جاریہ، ۱؎ دوسرا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۲؎، تیسرا نیک اور صالح بیٹا جو اس کے لیے دعا کرتا رہے''۔
وضاحت ۱؎: مثلاً مسجد، مدرسہ، تالاب اور مسافر خانہ وغیرہ عوام کے فائدہ کے لیے بنوایا جائے تو جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اسے ثواب ملتا رہے گا۔
وضاحت ۲؎: مثلاً کوئی اچھی کتاب لکھ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں یا ایسے شاگرد تیار کر جائے جو کتاب وسنت کی روشنی میں علم کی اشاعت کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔


3682- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ الْعَلائِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالاً وَلَمْ يُوصِ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ: " نَعَمْ ".
* تخريج: م/الوصایا ۲ (۱۶۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۸۴)، وقد أخرجہ: ق/الوصایا ۸ (۲۷۱۶)، حم (۲/۳۷۱) (صحیح)
۳۶۸۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کہا: (اللہ کے رسول!) میرے والد وصیت کئے بغیر انتقال کر گئے اور مال بھی چھوڑ گئے ہیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کی طرف سے کفارہ (اور ان کے لیے موجب نجات) ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں ''۔


3683- أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ الشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّي أَوْصَتْ أَنْ تُعْتَقَ عَنْهَا رَقَبَةٌ، وَإِنَّ عِنْدِي جَارِيَةً نُوبِيَّةً، أَفَيُجْزِئُ عَنِّي أَنْ أُعْتِقَهَا عَنْهَا؟ قَالَ: " ائْتِنِي بِهَا " فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ رَبُّكِ؟ " قَالَتْ: اللَّهُ، قَالَ: "مَنْ أَنَا؟ " قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: "فَأَعْتِقْهَا؛ فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ"۔
* تخريج: د/الأیمان والنذور ۱۹ (۳۲۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۳۹)، حم (۴/۲۲۲، ۳۸۸، ۳۸۹)، دي/النذور ۱۰ (۲۳۹۳) (حسن) (الصحیحۃ ۳۱۶۱، تراجع الالبانی ۱۰۷)
۳۶۸۳- شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر آپ سے عرض کیا: میری ماں نے وصیت کی ہے کہ ان کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دیا جائے اور میرے پاس حبشی نسل کی ایک لونڈی ہے، اگر میں اسے ان کی طرف سے آزاد کر دوں تو کیا وہ کافی ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ''جاؤ اسے ساتھ لے کر آؤ'' چنانچہ میں اسے ساتھ لیے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہو گیا، آپ نے اس سے پوچھا: ''تمہارا رب (معبود) کون ہے؟ '' اس نے کہا: اللہ، آپ نے (پھر) اس سے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے فرمایا: ''اسے آزاد کر دو، یہ مسلمان عورت ہے''۔


3684- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ سَعْدًا سَأَلَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَلَمْ تُوصِ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: "نَعَمْ "۔
* تخريج: خ/الوصایا ۲۰ (۲۷۷۰)، د/الوصایا ۱۵ (۲۸۸۲ مطولا)، ت/الزکاۃ ۳۳ (۶۶۹ مطولا)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۴) (صحیح)
۳۶۸۴- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: میری ماں مر چکی ہیں اور کوئی وصیت نہیں کی ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں کر دو''۔
وضاحت ۱؎: یعنی اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو کیا اس صدقہ کا ثواب انہیں ملے گا؟۔


3685- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أُمَّهُ تُوُفِّيَتْ، أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: " نَعَمْ " قَالَ: فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا؛ فَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۸۵- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تو اس نے کہا: پھر تو میرے پاس کھجور کا ایک باغ ہے، آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی ماں کی طرف سے اسے صدقہ میں دے دیا۔


3686- أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ، أَفَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ أُعْتِقَ عَنْهَا؟ قَالَ: "أَعْتِقْ عَنْ أُمِّكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۸۳۷، (حم (۶/۷) (صحیح)
(آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۳۶۸۶- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر کہا: میری ماں مر چکی ہیں اور ان کے ذمہ ایک نذر ہے، اگر میں ان کی طرف سے (ایک غلام) آزاد کر دوں تو کیا یہ ان کی طرف سے پوری ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا: '' (ہاں) اپنی ماں کی طرف سے غلام آزاد کر دو''۔
وضاحت ۱؎: سعد بن عبادہ کی ماں نے غلام آزاد کرنے کی نذر مانی تھی۔


3687- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحَمَدَ أَبُو يُوسُفَ الصَّيْدَلانِيُّ، عَنْ عِيسَى- وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ - عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَهُ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّهُ اسْتَفْتَى النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ، فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْضِهِ عَنْهَا "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۶۸۶ (صحیح)
۳۶۸۷- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی انتقال کر گئی تھیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اس نذر کو تم ان کی طرف سے پوری کر دو''۔


3688- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَدَقَةَ الْحِمْصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَهُ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّهُ اسْتَفْتَى النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ؛ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْضِهِ عَنْهَا "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۶۸۶ (صحیح)
۳۶۸۸- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جوان کی ماں کے ذمہ تھی اور نذر پوری کرنے سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی تھی؟ آپ نے فرمایا: ''تم ان کی طرف سے نذر پوری کر دو''۔


3689- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ أَنَّ عُبَيْدَاللَّهِ بْنَ عَبْدِاللَّهِ أَخْبَرَهُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اسْتَفْتَى سَعْدٌ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ؛ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْضِهِ عَنْهَا "۔
* تخريج: خ/الوصایا ۱۹ (۲۷۶۱)، الأیمان ۳۰ (۶۶۹۸)، الحیل ۳ (۶۹۵۹)، م/النذور ۱ (۱۶۳۸)، د/الأیمان ۲۵ (۳۳۰۷)، ت/الأیمان ۱۹ (۱۵۴۶)، ق/الکفارات ۱۹ (۲۱۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۵)، ویأتي عند المؤلف: ۳۸۴۸، ۳۸۴۹، ۳۸۵۰) (صحیح)
۳۶۸۹- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ایک نذر کے متعلق پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، تو آپ نے فرمایا: ''تم ان کی طرف سے نذر پوری کر دو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9-ذِكْرُ الاخْتِلافِ عَلَى سُفْيَانَ
۹-باب: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث میں سفیان پر رواۃ کے اختلاف کا ذکر​


3690- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَى النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ؛ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، فَقَالَ: " اقْضِهِ عَنْهَا "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۶۸۹ (صحیح)
۳۶۹۰- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایک نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور جسے پوری کرنے سے پہلے ہی وہ مر گئیں۔ تو آپ نے فرمایا: '' اسے تم ان کی طرف سے پوری کر دو''۔


3691- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ سَعْدٍ أَنَّهُ قَالَ: مَاتَتْ أُمِّي وَعَلَيْهَا نَذْرٌ؛ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنِي أَنْ أَقْضِيَهُ عَنْهَا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۶۸۹ (صحیح الإسناد)
۳۶۹۱- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ماں مر گئیں اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی تو میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے ان کی طرف سے پوری کر دوں۔


3692- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اسْتَفْتَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ الأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ؛ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْضِهِ عَنْهَا"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۶۸۶ (صحیح)
۳۶۹۲- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ایک نذر سے متعلق جو ان کی ماں کے ذمہ تھی مسئلہ پوچھا اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ انتقال کر گئیں تھیں، تو آپ نے ان سے فرمایا: ''اسے ان کی طرف سے تم پوری کر دو''۔


3693- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ هِشَامٍ - هُوَ ابْنُ عُرْوَةَ - عَنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَائَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ، وَلَمْ تَقْضِهِ، قَالَ: " اقْضِهِ عَنْهَا "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۶۸۹ (صحیح)
۳۶۹۳- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا: میری ماں انتقال کر گئی ہیں اور ان کے ذمہ ایک نذر ہے اور وہ اسے پوری نہیں کر سکی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ''تم اسے ان کی طرف سے پوری کر دو''۔


3694- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "سَقْيُ الْمَائِ"۔
* تخريج: د/الزکاۃ ۴۱ (۱۶۸۰)، ق/الأدب ۸ (۳۶۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۳۴)، حم (۵/۲۸۴، ۲۸۵ و۶/۷)، ویأتي فیما یلي: ۳۶۹۵، ۳۶۹۶ (حسن)
۳۶۹۴- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں مر گئیں ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہاں ''، میں نے پوچھا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: '' (پیاسوں کو) پانی پلانا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: نل لگوا دینا، کنواں، تالاب وغیرہ کھودوانا جس سے لوگ سیراب ہوں یہ بہترین صدقہ ہے۔


3695- أَخْبَرَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " سَقْيُ الْمَائِ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۹۵- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''پانی پلانا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: کیونکہ پانی آب حیات ہے زیادہ دیر تک نہ ملے تو آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔


3696- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ حَجَّاجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: أَنَّ أُمَّهُ مَاتَتْ، فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " سَقْيُ الْمَائِ " فَتِلْكَ سِقَايَةُ سَعْدٍ بِالْمَدِينَةِ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۶۹۴ (صحیح)
۳۶۹۶- سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کی ماں مر گئیں تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں انتقال کر گئیں ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہاں ''، انہوں نے کہا: کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''پانی پلانا''- تو یہ ہے مدینہ میں سعد رضی الله عنہ کی پانی کی سبیل۔
 
Top