- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
41-إِيذَانُ الْمُؤَذِّنِينَ الأَئِمَّةَ بِالصَّلاةِ
۴۱-باب: مؤذن کا امام کو صلاۃ کی خبر دینے کا بیان
686- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ وَيُونُسُ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُمْ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، وَيَسْجُدُ سَجْدَةً قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ، وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ بِالإِقَامَةِ، فَيَخْرُجُ مَعَهُ. وَبَعْضُهُمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ فِي الْحَدِيثِ۔
* تخريج: وقد أخرجہ: م/المسافرین ۱۷ (۷۳۶)، د/الصلاۃ ۳۱۶ (۱۳۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۷۳)، حم۶/۳۴، ۷۴، ۸۳، ۸۵، ۸۸، ۱۴۳، ۲۱۵، ۲۴۸، ویأتي عند المؤلف في السھو ۷۴ (برقم: ۱۳۲۹) (صحیح)
۶۸۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہو نے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی الله علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آکر آپ کو خبر کر دیتاکہ اب اقامت ہو نے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔
بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎: اس سے صراحت کے ساتھ ایک رکعت کے وتر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
687- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلالٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ أَنَّ كُرَيْبًا مُولِي ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ فَوَصَفَ أَنَّهُ صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى اسْتَثْقَلَ، فَرَأَيْتُهُ يَنْفُخُ، وَأَتَاهُ بِلالٌ فَقَالَ: الصَّلاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّى بِالنَّاسِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۵ (۱۳۸)، ۳۶ (۱۸۳)، الأذان ۵۸ (۶۹۸)، ۷۷ (۷۲۶)، ۱۶۱ (۸۵۹)، الوتر ۱ (۹۹۲)، العمل في الصلاۃ ۱ (۱۱۹۸)، تفسیر آل عمران ۱۹ (۴۵۷۱)، ۲۰ (۴۵۷۲)، الدعوات ۱۰ (۶۳۱۶)، التوحید ۲۷ (۷۴۵۲)، م/المسافرین ۲۶ (۷۶۳)، د/الصلاۃ ۳۱۶ (۱۳۶۴، ۱۳۶۷)، ت/الشمائل ۳۸، ۳۹، ۲۴۵، ۲۵۲، ق/إقامۃ ۱۸۱ (۱۳۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۶۲)، ط/صلاۃ اللیل ۲ (۱۱)، حم۱/۲۴۲، ۳۵۸، ویأتي عند المؤلف برقم: ۱۶۲۱ (صحیح)
۶۸۷- کریب مولی ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تہجد (صلاۃ اللیل) کیسی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے وتر کے ساتھ گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر سو گئے یہاں تک کہ نیند گہری ہو گئی، پھر میں نے آپ کو خراٹے لیتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! صلاۃ ؟ تو آپ نے اٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں، پھر لوگوں کو صلاۃ پڑھائی اور (پھر سے) وضو نہیں کیا۔