- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
19- إِدْخَالُ الصِّبْيَانِ الْمَسَاجِدَ
۱۹-باب: بچوں کو مسجد میں لے جانے کا بیان
712- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا قَتَادَةَ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ أُمَامَةَ بِنْتَ أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ، - وَأُمُّهَا زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ صَبِيَّةٌ يَحْمِلُهَا -، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عَلَى عَاتِقِهِ، يَضَعُهَا إِذَا رَكَعَ، وَيُعِيدُهَا إِذَا قَامَ، حَتَّى قَضَى صَلاتَهُ، يَفْعَلُ ذَلِكَ بِهَا ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۰۶ (۵۱۶) ، الأدب ۱۸ (۵۹۹۶) مختصراً، م/المساجد ۹ (۵۴۳) ، د/الصلاۃ ۱۶۹ (۹۱۷، ۹۱۸، ۹۱۹، ۹۲۰) ، ط/السفر ۲۴ (۸۱) ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۲۴) ، حم۵/۲۹۵، ۲۹۶، ۳۰۳، ۳۰۴، ۳۱۰، ۳۱۱، دي/الصلاۃ ۹۳ (۱۳۹۹، ۱۴۰۰) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۸۲۸، ۱۲۰۵، ۱۲۰۶ (صحیح)
۷۱۲- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اُمامہ بنت ابی العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کو (گود میں) اٹھائے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، (ان کی ماں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا ہیں) اُمامہ ایک (کمسن) بچی تھیں، آپ انہیں اٹھائے ہوئے تھے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے صلاۃ پڑھائی، جب رکوع میں جاتے تو انہیں اتار دیتے، اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں پھر گود میں اٹھا لیتے، ۱؎ یہاں تک کہ اسی طرح کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی صلاۃ پوری کی۔
وضاحت ۱؎: یہ با جماعت صلاۃ تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرض صلاۃ رہی ہوگی کیونکہ جماعت سے عموماً فرض صلاۃ ہی پڑھی جاتی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ فرض صلاۃ میں بھی بوقت ضرورت ایسا کر نا جائز ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ایسا کرنا یا تو ضرورت کے تحت رہا ہوگا، یا بیان جواز کے لئے، کچھ لوگوں نے اسے منسوخ کہا ہے، اور کچھ نے اسے آپ کے خصائص میں سے شمار کیا ہے لیکن یہ دعوے ایسے ہیں جن پر کوئی دلیل نہیں۔