10- ذِكْرُ الدُّعَاءِ
۱۰-باب: استسقاء کی دعا کا بیان
1517- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هِشَامٍ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اللَّهُمَّ اسْقِنَا"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۶) (صحیح)
۱۵۱۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی:
''اللَّهُمَّ اسْقِنَا'' (اے اللہ! ہمیں سیراب فرما)۔
1518- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ - وَهُوَ الْعُمَرِيُّ - عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَامَ إِلَيْهِ النَّاسُ فَصَاحُوا، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَحَطَتِ الْمَطَرُ، وَهَلَكَتِ الْبَهَائِمُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا، قَالَ: " اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّ اسْقِنَا "، قَالَ: وَايْمُ اللَّهِ؛ مَا نَرَى فِي السَّمَائِ قَزَعَةً مِنْ سَحَابٍ، قَالَ: فَأَنْشَأَتْ سَحَابَةٌ فَانْتَشَرَتْ ثُمَّ إِنَّهَا أُمْطِرَتْ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى وَانْصَرَفَ النَّاسُ فَلَمْ تَزَلْ تَمْطُرُ إِلَى يَوْمِ الْجُمُعَةِ الأُخْرَى، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ صَاحُوا إِلَيْهِ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ وَتَقَطَّعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَحْبِسَهَا عَنَّا، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا "، فَتَقَشَّعَتْ عَنْ الْمَدِينَةِ، فَجَعَلَتْ تَمْطُرُ حَوْلَهَا، وَمَا تَمْطُرُ بِالْمَدِينَةِ قَطْرَةً، فَنَظَرْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ وَإِنَّهَا لَفِي مِثْلِ الإِكْلِيلِ۔
* تخريج: خ/الإستسقاء ۱۴ (۱۰۲۱)، م/الإستسقاء ۲ (۸۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۶) (صحیح)
۱۵۱۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ کچھ لوگ آپ کی طرف اٹھ کر بڑھے، اور چلا کر کہنے لگے: اللہ کے نبی! بارش نہیں ہو رہی ہے، اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے۔ تو آپ نے دعا کی:
''اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّ اسْقِنَا'' (اے اللہ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما)۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! اس وقت ہم کو آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آ رہا تھا (مگر آپ کے دعا کرتے ہی) بدلی اٹھی، اور پھیل گئی، پھر برسنے لگی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اترے، اور آپ نے صلاۃ پڑھی، اور لوگ فارغ ہو کر پلٹے تو دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ تو دوسرے جمعہ کو جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے، تو لوگ پھر چلا کر کہنے لگے: اللہ کے نبی! گھر گر گئے، راستے ٹھپ ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ اب اسے ہم سے روک لے، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مسکرائے، اور آپ نے دعا فرمائی:
''اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا'' (اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا ہم پر نہ برسا) تو بادل مدینہ سے چھٹ گئے، اور اس کے اطراف میں برسنے لگے، اور مدینہ میں ایک بوند بارش کی نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے مدینہ کو دیکھا کہ وہ ایسا لگ رہا تھا گویا وہ تاج پہنے ہوئے ہے۔
1519- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلَكَتِ الأَمْوَالُ، وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُغِيثَنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا "، قَالَ أَنَسٌ: وَلاَ وَاللَّهِ! مَا نَرَى فِي السَّمَائِ مِنْ سَحَابَةٍ وَلاَ قَزَعَةٍ، وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلاَدَارٍ، فَطَلَعَتِ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ، فَلَمَّا تَوَسَّطَتْ السَّمَائَ، انْتَشَرَتْ وَأَمْطَرَتْ، قَالَ أَنَسٌ: وَلا وَاللَّهِ! مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سَبْتًا قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ عَلَيْكَ!، هَلَكَتِ الأَمْوَالُ، وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُمْسِكَهَا عَنَّا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ فَقَالَ: " اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ عَلَى الآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ، وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ "، قَالَ: فَأَقْلَعَتْ، وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ. قَالَ شَرِيكٌ: سَأَلْتُ أَنَسًا: أَهُوَ الرَّجُلُ الأَوَّلُ ؟ قَالَ: لاَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۵۰۵ (حسن صحیح)
۱۵۱۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مال (جانور) ہلاک ہو گئے، اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اور دعا کی:
''اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا'' (اے اللہ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما)۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! ہم کو آسمان میں کہیں بادل یا بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا، اور ہمارے اور سلع پہاڑی کے بیچ کسی گھر یا مکان کی آڑ نہ تھی، اتنے میں ڈھال کے مانند بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا، پھر جب وہ آسمان کے درمیان میں پہنچا تو پھیل گیا، اور برسنے لگا۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر اگلے جمعہ میں اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ آپ کی طرف چہرہ کر کے کھڑا ہو گیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کا سلام وصلاۃ (درود ورحمت) ہو آپ پر! مال ہلاک ہو گئے (جانور مرگلے)، اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم سے اسے روک لے، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے، اور دعاکی:
''اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ عَلَى الآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ، وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ'' (اے اللہ! ہمارے ارد گرد برسا، ہم پر نہ برسا، اے اللہ! ٹیلوں، چوٹیوں، گھاٹیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا) یہ کہنا تھا کہ بادل چھٹ گئے، اور ہم نکل کر دھوپ میں چل رہے تھے۔
شریک بن عبد اللہ بن أبی نمر کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا یہ وہی پہلا شخص تھا، تو انہوں نے کہا: نہیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث میں جزم ہے، اور اس سے پہلے ایک روایت گزر چکی ہے اس میں ہے کہ انہوں نے کہا
'' لا أدری ہو الذی قال لرسول اللہ ﷺ استسق لنا أم لا'' دونوں میں اس طرح تطبیق دی گئی ہے کہ شاید انہیں بھول جانے کے بعد یاد آیا ہو، یا یاد رہا ہو پھر بھول گئے ہوں یا''لا'' یہاں ''لا أدری'' کے معنی میں ہو۔